نئی فیکٹری (باب نہم تا دہم)

نئی فیکٹری (باب نہم تا دہم)

ڈاکٹر ذاکر فیضی 

نئی فیکٹری (پہلا باب)
نئی فیکٹری (باب دوم و سوم)
نئی فیکٹری (باب چہارم تا ہفتم)

(9)
بھکاری نے لکھا:
”میں ہمیشہ سے بھکاری نہیں ہوں۔ ملک کی راج دھانی دلشاد آباد سے سینکڑوں میل دور ایک گاؤں سے آیا تھا۔ تعلیم محض انٹر میڈیٹ تھی۔ کسی جاننے والے کی مدد سے اخبار میں کام کرنے لگا۔ تین سال پہلے تک اخبار میں کمپیوٹر کمپوزنگ کا کام کرتا تھا۔ تنخواہ گزارے لائق تھی۔ میرے پڑوس میں ایک لڑکی رہتی تھی۔ وہ دکان میں سیلز گرل تھی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو چاہتے تھے۔ جلد ہی ہمارا شادی کرنے کا ارادہ تھا۔
پر اچانک ایک دن یہ ہوا کہ جس اخبار میں کام کرتا تھا۔ اس میں حکومت کے خلاف کوئی خبر چھپ گئی۔ اخبار کے ایڈیٹر اور مالک کو گرفتار کر لیا گیا۔ اخبار بند ہو گیا۔میں بے روز گار ہو گیا۔ چند مہینے تو جیسے تیسے گزر گئے۔ مگر دوسری نوکری نہ ملنے کی صورت میں گھر کا کرایہ ادا نہیں کر سکا۔ وہ لڑکی جس سے میں پیار کرتا تھا، وہ بھی مجھ سے کترانے لگی۔ برے وقت میں میرا ساتھ دینے کے بجائے اس نے نیا بوائے فرینڈ ڈھونڈھ لیا۔ میں ایک دم سے لاچار، مجبور اور بے سہارا ہو گیا۔ اب گاؤں بھی نہیں جا سکتا تھا۔ ماں باپ دنیا سے جا چکے تھے۔ چھوٹی سی کھیتی تھی۔ جس پر دو بڑے بھائیوں کا گزر ہوتا تھا۔
میں دیوانوں، پاگلوں کی طرح جلد سے جلد کوئی کام کرنا چاہتا تھا۔ صرف اس لیے نہیں کہ میں کہیں بھوک سے نہ مر جاؤں بلکہ اس وجہ سے کہ کسی صورت سے میری گرل فرینڈ کسی اور کی نہ ہو جائے۔ اس سے میں پیار کرتا تھا۔ میں لوگوں سے کام مانگتا تھا۔ نہیں ملتا تھا۔ تب ہی ایک دن محلے کی ایک دیوار پر ایک پوسٹر لگا دیکھا۔
’دسویں بارہویں پاس نوکری حاصل کریں۔‘ نیچے نمبر دیا گیا تھا۔
میں نے فون کیا۔ فون پر جو آدمی تھا، اس نے ملنے کے لیے کہا۔ جہاں اس نے بلایا تھا وہ جگہ کافی دور تھی۔اس روز میرے پاس کھانے کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔ میں بھوکا پیاسا پیدل ہی اس کے بتائے پتے پر پہنچ گیا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ اس کا کوئی دفتر ہوگا۔ کوئی پلیسمینٹ ایجنسی ہوگی۔ مگر وہ شخص مجھے ایک بس اسٹاپ پر ملا۔ اس نے مجھے ایک پتہ دیا اور کہا آپ یہاں چلے جائیں۔ اس نے مجھ سے نوکری دلانے کی فیس مانگی۔ میں نے کہا میرے پاس ابھی پیسے نہیں ہیں۔ پہلی تنخواہ ملتے ہی آپ کو دے دوں گا۔ حیرت کی بات تھی کہ وہ ایک بار کہنے پر ہی مان گیا۔ اور عجیب بات یہ بھی تھی کہ مجھے جب پہلی تنخواہ ملی اور میں نے اس آدمی کو اس کے پیسے دینے کے لیے فون کیا تو اس کا نمبر بند تھا۔
مجھے نوکری علاقہ گلاب گرام کے ’گلابی کلب‘ میں ملی۔ تنخواہ اچھّی تھی۔ میرا کام بھی کوئی خاص نہیں تھا۔ روازانہ کلب میں جو بھی آتا تھا۔ اس کا حساب رکھنا تھا۔ کون آتا ہے۔ کب آتا ہے۔ کب جاتا ہے۔ اس کلب کی زندگی کا انداز دیکھ کر میری آنکھیں چکا چوندھ ہو گئیں۔ مجھے وہ جگہ دنیا میں ہی جنّت محسوس ہوئی۔ سوئمنگ پل، بڑے بڑے رسٹورنٹ، شان دار مساج پارلر۔ پانی میں کھیلنے کودنے، مستی کرنے کے نت نئے انداز، شان دار کمرے۔ جن میں ہر طرح کی سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔ اس کلب میں صرف بالغ لوگ ہی آسکتے تھے۔
شراب پانی کی طرح بہتی تھی، تو حسن و جوانی کے جلووں کی لہریں ہر طرف نظر آتی تھیں۔ یہاں کی حالت دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ وہی مُلک ہے جس میں سینکڑوں لوگ روز بھوک سے مرجاتے ہیں۔ پچیس سے تیس فی صد جنتا آدھا پیٹ کھا کر سوتی ہے، وہ بھی سڑکوں پر۔ تیس فی صد اگر گھر میں سوتے بھی ہیں تو وہ کرائے کا گھر ہوتا ہے جنھیں کھانا کھانے سے پہلے کرایہ دینے کی فکر لگی رہتی ہے۔ بھوک، بے روزگاری اپنے چرم پر ہے۔ سارا ملک قرض میں ڈوبا ہوا ہے۔
بہر حال میرے پاس تو نوکری تھی۔ میں بہت خوش تھا۔ مجھے بہت اچھی تنخواہ مل رہی تھی۔ میری محبوبہ میری زندگی میں واپس آچکی تھی۔ زندگی خوش حال ہی نہیں شان دار ہو چکی تھی۔ انھی دنوں اچانک کلب کے چند نوجوان ملازم ’گلابی کلب‘ سے غائب ہو گئے۔ ان میں میرا ایک بہت اچھا دوست تھا۔ جو ڈرائیور تھا۔ یہ دوستی گلابی کلب میں ہی ہوئی تھی۔
میں پریشان تھا کہ آخر وہ کہاں گیا۔۔ ایک ہفتے سے نہ اپنے گھر پہنچا تھا۔ نہ کلب میں نظر آرہا تھا۔ وہ تھا تو کہاں تھا۔ اس کے ماں باپ پریشان تھے۔ مجھ سے پوچھتے تھے۔ میں نے گلابی کلب کے ساتھیوں سے بات کی، پر کُچھ معلوم نہیں ہوا۔ تب میں نے منیجر سے بات کی کہ شاید اسے معلوم ہو مگر اس نے عجیب روکھے انداز میں جواب دیا:
”بھاگ گیا ہوگا کسی لونڈیا وونڈیا کو لے کر، ان ڈرائیوروں کا کوئی دھرم ایمان نہیں ہوتا۔۔۔ تم زیادہ چکر میں نہ پڑو۔“
میں خاموش رہ کر اپنا کام کرنے لگا۔ بعد میں مجھے کلب کے دیگر ملازمین سے پتہ چلا کہ یہاں تو اکثر لڑکے، لڑکیاں غائب ہوتے رہتے ہیں۔ مجھے بے حد حیرانی ہوئی۔ میں اپنے دوست کی محبت میں اس کے ماں باپ کے ساتھ پولیس تھانے پہنچ گیا۔
پھر مجھے ایک دن منیجر نے اپنے دفتر میں بلایا اور کہا کہ اب یہاں آپ کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے وجہ پوچھی تو منیجر نے بتایا: ”کلب کے ڈائرکٹر بدل گئے ہیں اور انھوں نے نئے اصول بنا ئے ہیں۔ دوسرے لوگوں کو بھی کام سے نکالا جا رہا ہے۔“
میری آنکھوں کے سامنے میری محبوبہ کا چہرہ گھوم گیا۔ وہ مجھ سے شادی نہیں کرے گی۔ یہ سوچ کر، میں گڑگڑانے کی نوبت پر پہنچ گیا۔ تو اس نے کہا: ”دیکھو سورج پور میں ایک ’پرکاش‘ فرنیچر ہے جہاں لکڑی کا سامان تیار ہو تا ہے۔ اگر تُم کہو تو وہاں بات کروں، وہاں نوکری مل سکتی ہے۔“
میں نے ہاں کردی۔ میں یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ گلابی کلب کا مالک کون ہے۔ کون ڈائرکٹر تھا یا اب کون ہے۔ میرے لیے تو سب کُچھ منیجر ہی تھا۔
سورج پور بھی گلاب گرام کی طرح ہی ایک نئی آبادی تھی۔ میں ’پرکاش فرنیچر‘ نام کے اس کارخانے میں جانے کے لیے راضی ہو گیا۔ ’پرکاش فرنیچر‘ میں میرا کام یہ تھا کہ جتنا بھی کچّا مال آتا ہے اس کا ریکارڈ رکھنا۔ تیار مال جن سپلائر کو جاتا، اس کاحساب رکھنا ساتھ ہی کاریگروں کی تنخواہ، ان کا اوور ٹائم لکھنا۔ پرکاش فرنیچر کا بھی ایک منیجر تھا۔ جو سارے نظام کو سنبھالے ہوئے تھا۔ میں اس کے حکم پر کام کو کرتا تھا۔منیجر ’پرکاش فرنیچر‘ کے قریب ایک مکان میں رہتا تھا۔ وہ تیس سال کا آدمی تھا۔
ایک روز، جب شام ہوگئی تھی۔ کام بند ہوچکا تھا۔ سارے کاریگر جا چکے تھے۔ میں حساب کتاب دیکھ رہا تھا۔ کام پورا کرتے کرتے ایک گھنٹہ اور گزر گیا۔ آسمان میں صبح سے بادل تھے۔ میرے نکلنے کے وقت اچانک تیز اور موسلا دھار بارش ہونے لگی۔ رات دس بجے تک طوفانی بارش ہوتی رہی۔ جس علاقے میں یہ پرکاش فرنیچر تھا۔ وہاں ذرا سی بارش میں بھی پانی بھر جاتا تھا۔ جو دو تین گھنٹے سے پہلے نہیں اترتا۔ اس روز بہت دیر تک تیز بارش ہوئی تھی۔ اس لیے امکان تھا کہ صبح چار پانچ بجے سے پہلے پانی نہیں اتر سکتا۔ جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس لیے منیجر کے کہنے پر مجھے پرکاش فرنیچر میں ہی بنے ایک چھوٹے سے کمرے میں رُکنا پڑا۔ کھانا منیجر نے بھیج دیا تھا۔ میں بارہ بجے کے قریب سو گیا۔
صبح تقریباََ چار بجے باہر کی کھٹر پٹر کی آواز سے میری آنکھ کھُلی۔ میں کچھ دیر تو ایسے ہی بیٹھا رہا اور باہر کی آوازوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ پھر سوچا کہیں چور تو نہیں ہیں۔ میں باہر آیا۔ دیکھا کارخانے کے مین گیٹ کے اندر ایک ٹرک کھڑا تھا۔ میں گیٹ پر پہنچا تو وہاں منیجر موجود تھا۔
میں نے پوچھا: ”منیجر صاحب، خیریت!۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتنی رات کو کون سا سامان جا رہا ہے؟“ منیجر کُچھ گھبرایا سا محسوس ہوا۔ جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو۔ وہ بولا:
”ایک آرڈر تھا۔ جس کے بارے میں میں نے کل نہیں بتایا۔ ایک سپلائرنے یہ مال مانگا ہے جو لوڈ ہو رہا ہے۔ ابھی آپ جاکر سو جاؤ، کل صبح ساری بات بتا دوں گا۔“
میں کمرے میں واپس جانے کے لیے مڑا ہی تھا تب ہی ایسی آواز سنی جیسے کوئی کراہ رہا ہے۔ کوئی تکلیف میں ہے۔ میرے قدم ٹھٹھک گئے۔ میں نے پیچھے مُڑ کر منیجر سے پوچھا: ”یہ آواز کیسی؟۔۔۔سنی آپ نے۔“
منیجر بولا: ”آواز۔۔۔کیسی آواز۔۔۔مجھے تو نہیں آرہی ہے۔۔۔“ وہ ہلکے سے ہنسا اور بولا: ”ارے بھائی جاکر سو جاؤ۔۔۔۔۔ابھی نیند پوری نہیں ہوئی۔۔۔ رات بہت دیر تک جاگتے رہے ہو۔۔۔۔“
منیجر کی اس بات پر میرا جو شک تھا وہ یقین میں بدل گیا کہ منیجر کُچھ چھپا رہا ہے۔ میں اس کو بہکانے کے لیے۔”ہو سکتا ہے۔“ کہتا ہوا واپس ہو گیا۔
منیجر آہستہ قدموں سے میرے پیچھے آیا۔ مجھے کمرے تک پہنچانے کے ارادے سے۔ میں کمرے میں چلا گیا۔ دروازہ بند کیا۔ چند منٹ رُکا رہا۔
میں کُچھ سوچ کر خاموشی سے پھر باہر نکل آیا۔ گیٹ کی طرف چلا۔
دو لوگ تھے جوٹرک میں مال لوڈ کر رہے تھے۔ جب کہ منیجر مین گیٹ پر کھڑا سگریٹ پھونک رہا تھا۔ میں چپکے سے ٹرک کے پیچھے گیا۔ میں نے ایک دم صاف آواز سنی،جو ٹرک میں سے آ رہی تھی۔ میں نے مال لوڈ کر رہے آدمی سے پوچھا۔”ٹرک میں کیا ہے؟“
اُس نے کہا:”بھائی رے میرا دماغ نہ چاٹ۔جا جاکر منیجروا سے پوچھ۔۔۔“
رات کا وقت تھا۔ ہر طرف سنّاٹا۔ آواز منیجر تک پہنچ گئی۔ منیجر میرے قریب آیا۔ وہ غصّے میں تھا۔ بولا: ”کیا بات ہے، اپنے کام سے کام نہیں رکھ سکتا۔۔۔۔چل جا سو جا۔۔۔۔ ڈیٹیکٹو بن رہا ہے۔۔۔“ منیجر کے اس طرح بات کرنے سے میرے دل میں ’پرکاش فرنیچر‘ اور اس کے مالک کے لیے وفاداری کا کیڑا کاٹنے لگا۔ میں منیجر سے کُچھ نہیں بولا اور اچھل کر ٹرک میں چڑھ گیا۔ موبائل کی ٹارچ روشن کی۔ منیجر اپنی آواز دباتے ہوئے چیخا: ”ابے او۔۔۔۔نیچے آ۔۔۔۔“
ٹرک میں صوفے اور کرسیوں کے پیچھے بارہ پندرہ بچّے سو رہے تھے۔ نہیں کہہ سکتا کہ سو رہے تھے یا نشے میں تھے۔ کئی بچّے کراہ رہے تھے۔ بچوں کی عمر میرے اندازے کے حساب سے سات آٹھ سال سے چودہ پندرہ برس ہوگی۔ سارے ہی بچے زخمی تھے۔۔ اس سے پہلے کہ میں کھیل کو سمجھوں۔ کسی نے پیچھے سے میرے سرپر وار کیا۔
مجھے کُچھ نہ پتا چلا، میں کہاں ہوں۔
جب مجھے ہوش آیا، میری دنیا اُجڑ چکی تھی۔ میں بستر پر تھا۔ میرے جسم کی ہربوٹی تکلیف میں تھی۔ جسم کی نس نس میں درد ہو رہا تھا۔ میں کراہ رہا تھا، میں درد میں کیوں تھا۔ کیوں کراہ رہا تھا،۔ مجھے کیا تکلیف تھی؟ نہیں جانتا تھا۔ مجھے نہیں معلوم میں کب سوتا تھا۔ کب جاگتا تھا۔ کیا کھاتا تھا، کیسے کھاتا تھا۔ کیسے باتھ روم جاتا تھا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں کتنے دن بستر پر رہا۔ بس میں اتنا جانتا ہوں کہ جب مجھے مکمل ہوش آیا تو میں مکمل نہیں تھا۔ میرا ایک ہاتھ کہنی کے پاس سے نہیں تھا، میری زبان نہیں تھی۔ میں بول نہیں سکتا تھا۔ میرے حلق سے”گیں گیں“ کی سی آواز نکلی۔ مجھ سے بولا ہی نہیں گیا۔ میں بے حد خوف زدہ تھا۔ میں بول نہیں سکتا تھا۔ مگر سن سکتا تھا، بلکہ لگتا تھا کہ میرے سننے کی صلاحیت بڑھ گئی۔ انچارج جو دیکھنے میں کہیں سے بھی جلاد نہیں لگتا تھا۔ وہ مجھ سے ہنس کر بولا: ”جناب پریشان نہ ہوں۔ ابھی پکچر باقی ہے۔ اصل دیدار تو آپ کو اب ہو ں گے۔ کیوں کہ اس فلم کو دیکھنے کے لیے آپ نے دو بار ٹکٹ خریدا ہے۔ ایک بار اس وقت جب آپ نے گلابی کلب میں اپنے دوست ڈرائیور کے بارے میں جاننے کی اپنی حیثیت اور اوقات سے زیادہ کوشش کی اور اب کی بار تو آپ نے حد کر دی جب آپ بے خوف و خطر آگ میں ہی کود گئے، میرا مطلب آپ ٹرک میں کود گئے۔۔۔۔“
انچارج کی بات سن کر تمام قصّہ میری سمجھ میں آنے لگا۔ ساتھ ہی سینکڑوں سوال بھی کلبلا رہے تھے۔ مگر۔۔۔۔۔ میں ایک بھی کلبلاتے سوال کو شانت نہیں کر سکا۔
وہ مجھے اُس چھوٹے کمرے سے ایک بڑے ہال میں لے گیا۔ وہاں کا منظر دیکھ کر میرے جسم کا رواں رواں لرز اٹھا۔ میں چیخنا چاہتا تھا۔ مگر چیخ نہ سکتا تھا۔ میں رونا چاہتا تھا۔ مگر رونے کی طاقت ختم ہو چکی تھی یا کہہ سکتے ہیں کہ میرے جسم کے دو حصّے ایک دایاں ہاتھ اور زبان کے ساتھ اُس نس کو بھی کاٹ چکے تھے، جس نس سے احساسات وہاں تک پہنچتے ہیں جہاں سے درد و تکلیف اور غم آنسوؤں میں تبدیل ہو تے ہیں۔
وہ ایک بڑا سا ہال تھا۔ جس میں پندرہ سولہ تخت تھے۔ جس پر بستر لگے تھے۔ ان بستروں میں بارہ بستر پر سات آٹھ سال کی عمر سے لے کر چودہ پندرہ سال کے بچّے بے ہوشی میں کراہ رہے تھے۔ دو بستروں پر ادھیڑ عمر کی عورت اور ایک مرد تھا۔ دونوں چیخ رہے تھے۔ ان سارے لوگوں کو کسی کو لولا، کسی کو لنگڑا، کسی کو کانا اور کسی کو کئی جگہ سے زخمی کرکے کاروبار کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ ہر طرف چیخ پکار ہو رہی تھی۔
ایک بستر کے قریب بے ہوش بچّے کے لیے ڈاکٹر سا دِکھنے والا شخص کھڑا جونئیر سے مشورہ کر رہا تھا کہ اس بچّے کو کام کے قابل کیسے بنایا جائے۔ کام یعنی سڑکوں، گلیوں، چوراہوں، ریڈلائٹ جیسی جگہ پر بھیک مانگنے کے لیے تیار کیا جائے۔ ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ ”یہ کاروبار بڑے لیبل پر ہوتا ہے۔ اس میں کئی سفید پوش چہرے بھی ہیں۔
پولیس بھی ہمارے ساتھ ہے۔ اس لیے اس بھلائے میں نہ رہنا کہ پولیس کو یا کسی اور کو بتا کر ہمارا کُچھ بگاڑ سکتے ہو۔ کل کو تم کو ٹریننگ سینٹر بھیجا جا رہا ہے۔ وہاں کا سپر وائزر بہت خطرناک ہے۔ اس سے پنگا نہ لینا۔ٹریننگ سینٹر یہاں سے تھوڑا فاصلے پر ہے۔ جہاں آپ کو بھیک مانگنے کے نئے نئے انداز سکھائے جائیں گے، مظلومیت کے گُر سمجھائے جائیں گے۔ اور اس کے بعد آپ کی جوائننگ ہو گی جناب۔ جوائننگ کہاں ہوگی؟ اس کے بارے میں مجھے بھی نہیں معلوم۔“
وہ مجھے اپنے آپ ہی ساری باتیں بتاتا جا رہا تھا، جن کے بارے میں میرے خیال میں سوال اُٹھ رہے تھے۔ شاید وہ اپنے کام میں اتنا پر فیکٹ ہو چکا تھا کہ اسے پتا تھا کہ آنے والے یا ٹریننگ پانے والے کیا سوچتے ہوں گے۔ خاص طور پر وہ لوگ، جن کی ایک خاص مقصد کی وجہ سے زبان بھی کاٹ دی جاتی ہے۔
وہی ہوا جو اس انچارج نے کہا تھا۔ پندرہ دن تک مجھے بھیک مانگنے کے نِت نئے طریقے سکھائے گئے۔ اس کے بعد سپلائر آئے۔ انھوں نے مجھے اور بہت سے بچوں کو خریدا اور لے گئے۔
میں پچھلے پانچ سال سے اس کام سے صرف روکھی سوکھی کھاتا ہوں۔ ٹین کی چھت کے نیچے رہتا ہوں۔ جب کہ روز اچھی خاصی رقم کماتا ہوں، جو ٹھیکے دار لے جاتا ہے۔ بدلے میں مجھے معمولی پیسے دیتا ہے۔
ان لوگوں کی زبان میں بولوں تو میری پہلی پوسٹنگ اس مہا نگر سے ہزاروں کلو میٹر دور اسی ملک کے ایسے شہر میں کی گئی تھی، جسے رنگین شہر کا نام دیا جاتا ہے۔ میں نے وہاں پانچ سال کام کیا۔ پچھلے ایک سال سے میں اس مہانگر میں ہوں، جسے ملک کی راجدھانی ہونے کا گورو حاصل ہے۔ اس خوف ناک شہر میں جہاں سب ایک دوسرے کا شکار کر رہے ہیں۔
اب آتا ہوں اس بچّی کی طرف۔ جس کا پوسٹر میں نے دیوار پر دیکھا تھا۔ اس بچّی کو میں نے ہفتہ بھر پہلے ریلوے اسٹیشن پر دیکھا۔ جو پرکاش فرنیچر کے منیجر کے ساتھ تھی۔ میں سمجھ رہا تھا کہ شاید منیجر کی بیٹی ہوگی۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر نہ معلوم کہاں لے جا رہا تھا۔ بچّی خاموش تھی۔ اس کی کسی بات سے یہ نہیں لگتا تھا کہ کسی انجان آدمی کے ساتھ ہے۔ اس لیے جب میں نے وہ پوسٹر دیکھا جس کو آپ لگا رہے تھے تو میں چونکا۔ میں آپ سے اس لیے بھاگ رہا تھا کہ میں کسی اور نئی مصیبت میں نہیں پھنسنا چاہتا۔ اب آپ سے میری گزارش ہے آپ اب میرے پیچھے نہیں آئیں۔ ورنہ جس کے لیے میں کام کرتا ہوں وہ گینگ آپ کے پیچھے پڑ جائے گا۔ آپ کی بچّی تو کیا ہی ملے گی۔ آپ کی جان خود آفت میں آجائے گی۔ آپ کو میرا مشورہ ہے کہ آپ گلابی کلب یا پرکاش فرنیچر میں سیندھ لگائیں۔ اس میں آپ کی جان کو خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔ مگر ہو سکتا ہے کہ آپ کی بچّی مل جائے یا نہ بھی ملے تو کسی اور کی جان بچ جائے۔ یا پھر شاید ان ظالموں کا بھانڈا پھوٹ جائے۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ میں پولیس کو کیوں نہیں بتاتا۔ پہلی بات تو یہ کہ اس طرح کے کام پولیس کی ملی بھگت سے ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ میری بات کا کوئی یقین نہیں کرے گا۔ پولیس مجھے بھکاری اور پاگل سمجھ کر میری بات پر یقین ہی نہیں کرے گی۔ میں اب بہت ہی خوف زدہ رہتا ہوں۔۔۔۔۔ میں بزدل آدمی ہوں۔
امید کرتا ہوں۔ آپ میری طرح ڈرپوک نہیں ہوں گے۔
(10)
چاروں دوست بیٹھے تھے۔ بھکاری کی داستان کا پرنٹ رکھا تھا۔ بھکاری چُپکے سے جا چکا تھا۔ چاروں دوستوں کے درمیان کافی دیر سے اس بات پر چرچا ہو رہی تھی کہ اس بھکاری کو دوبارہ تلاش کیا جائے یا نہیں جس نے اپنا نام تک بتانا مناسب نہیں سمجھا۔ متفقہ طور پر یہ طے پایا کہ بھکاری کو ڈھونڈنے کا ارادہ ترک کرکے اس کی بتائی راہ پر چلتے ہیں، یقینا کوئی راستہ نکلے گا۔
سر جوڑ ے چاروں پنکی کو تلاش کرنے کی حکمتِ عملی پر غور کر رہے تھے۔ علی بولا: ”کیا میری چھوٹی بہن پنکی، جس کے بارے میں اب ہم یہ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں اور کہاں ہے؟ کیا ہم سب کو اپنی جان جوکھم میں ڈالنی چاہئے؟“
اس بات پر سب سے پہلے معراج نے اپنا ردِعمل ظاہر کیا۔ ”بھائی علی، اب یہ معاملہ صرف پنکی کا نہیں ہے۔ہزاروں، لاکھوں بچوں کی جان و عزّت کا معاملہ ہے۔ ہم کو اس مدعے پر بھی غور کرنا ہوگا۔“
دیپا جو اکثر خاموش رہتی تھی۔ اس نے علی کی طرف غور سے دیکھا: ”معراج آپ کی بات صحیح ہے۔ بلکہ میرا تو یہ بھی ماننا ہے کہ یہ ہمارے ملک کے مستقبل کا معاملہ ہے۔“
ابھے، جو بھکاری کی کہانی پڑھ کر ابھی تک سکتے میں تھا۔ اس نے ایک لمبی ٹھنڈی سانس بھری اور بولا: ”دیپا! یہ بات صرف پنکی اور ہمارے دیش کی ہی نہیں۔ ساری انسانیت کی ہے۔“
چند منٹ سب خاموش بیٹھے زمین یا دیوار کو تکتے رہے۔
کمرے میں اس وقت چاروں دوست صوفے پر آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ اسی وقت رحمن ناشتہ لے آیا۔ شام کے سات بج چکے تھے۔
”میرے خیال میں۔۔۔۔ جب تک ڈنر تیار ہو کر آتا ہے۔ ہم لوگوں کو اس بات پر ڈسکس کر لینا چاہئے کہ ہم لوگ کیا اسٹریٹجی اپنائیں۔۔۔۔کیا قدم اٹھائیں۔۔۔۔“ ابھے کی اس بات پر چاروں سنجیدگی سے سوچنے لگے۔
علی بولا: میرے خیال میں۔۔۔ اگر ایسا ہو جائے کہ ہم میں سے کوئی گلابی کلب میں اور پرکاش فرنیچر میں کام کرنے لگے۔ میرامطلب ہے نوکری مِل جائے۔۔۔۔“
”مگر کیسے۔۔۔۔“ دیپا بولی: ”ہم لوگ وہاں نوکری کرنے کیسے جاسکتے ہیں۔۔۔کون دے گا ہمیں وہاں نوکری۔۔“
”یہ اتنا آسان نہیں ہے۔۔۔دیپا ٹھیک کہتی ہے۔“ معراج نے کہا تو ابھے نے زبان کھولی:
”دیکھو دوستو، میرے ملنے والوں میں ایک بندہ ایسا ہے جو اس بارے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔ ہم امید یہی کرتے ہیں کہ ہم کو پنکی بھی ضرور مل جائے گی، ساتھ ہی ایک بڑے ریکٹ کا پردہ فاش کر کے دیش اور انسانیت کی بھلائی بھی کریں گے۔۔۔۔۔میرا وہ دوست جس کا میں ذکر کر رہا ہوں۔ وہ پتر کار ہے۔ کسی زمانے میں ہم دونوں ایک ہی اخبار میں کام کرتے تھے۔ مگر اس اخبار کا مالک اور ایڈیٹر چاپلوسی کی پترکاریتا کرتا تھا۔ جو ہمارے اصولوں کے خلاف تھا۔ اس لیے ہم دونوں نے ہی نوکری چھوڑ دی۔ بعد میں میرے دوست نے اپنا خود کا اخبار شروع کیا۔۔۔ اور میں فری لانس لکھنے لگا۔“
”آپ کے پتر کار دوست نے اگر بھکاری کی اسٹوری پر کام شروع ہونے سے پہلے ہی بھکاری کی کہانی اپنے اخبار میں چھاپ دی تو؟“ دیپا نے شک ظاہر کیا۔
”ایک پریشانی یہ ہے کہ ہم کو اب یہ لگنے لگا ہے کہ ہر طرف بے ایمانی اور دغا بازی ہی ہے۔۔۔ خاص طور سے پولیس اور پترکاریتا میں تو مت پوچھو۔۔۔۔کس قدر کرپشن اور بے ایمانی کے لیے بدنا م ہو چکی ہے۔“
دیپا فوراََ بولی: ”کیا یہ سچ نہیں ہے۔۔۔“
”میں اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ سو پولیس والوں اور اخبار والوں میں پچانوے بے ایمان، دھوکے باز ہیں تو پانچ پرسنٹ ایمان دار اور اپنے کام کے لیے پوری طرح سمرپت بھی ہیں۔“
معراج بولا: ”یہ کو ئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر زمانے میں دھوکا دھڑی، دغا بازی رہی ہے۔۔۔ بس فرق اتنا آیا ہے کہ پہلے سو میں پچانویں فی صد ایمان دار ہوتے تھے اور اب اس کا الٹا ہو گیا ہے۔۔۔“
علی نے بھکاری کی بیان کی گئی کہانی کے پیپر کو بے وجہ ہی اُٹھا یا۔ اور دوسری جگہ ذرا زور سے میز پر رکھتے ہوئے بولا: ”اس سے پہلے کہ یہ تناسب اور بڑھ جائے ۔۔۔۔۔ سو میں سو لوگ ہی بے ایمان اور دغاباز ہو جائیں۔ ہم لوگوں کو پہل کرنی ہوگی ۔۔۔۔۔ ورنہ آنے والا زمانہ خطرناک ہے۔ خوف ناک ہے۔۔۔۔۔نہ جانے کیا ہونے والاہے۔“
علی نے ابھے سے پوچھا: ”ابھے، کیا خیال ہے۔ جس مقصد کے لیے ہم نے قدم اُٹھایا ہے، ہم کامیاب ہوں گے؟“
ابھے مسکرایا: ”علی، مہاتما بدھ نے کہا تھا، ہم جیسا سوچتے ہیں، ویسے ہی بن جاتے ہیں۔ ہم سوچ کے حساب سے اب بن چکے ہیں۔ اب ہمارا کام ہے، صرف اپنا کام کرنا۔ باقی جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ دراصل یہ جو ہمارا کام کرنا ہوتا ہے نا، جو بھی ہم کرتے ہیں۔ وہی تو بُدھزم کے حساب سے کرما ہوتا ہے اور ہندوازم میں اسے کرم کہا گیا ہے۔۔۔۔اور آپ تو جانتے ہی ہوں گے اسے اسلام میں اعمال کہا گیا ہے۔“
”آپ درست کہتے ہو ابھے!“ علی نے ابھے کے کاندھے پر ہاتھ رکھا: ”آپ نے میری دویدھا دور کردی۔ بھگوان کرشن نے بھی تو گیتا اپدیش میں یہی کہا ہے۔۔۔۔ بس کرم کیے جا، پھل کی چنتا مت کر۔۔۔“
معراج نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا او زبردست جوش و ولولے کے ساتھ بولا:
”میں پوری طرح حاضر ہوں۔ آج سے میری زندگی کا مقصد اپنے ملک کو برائیوں سے پاک کرنا ہے۔ جس کے لیے میں اپنا سب کُچھ داؤں پر لگانے کو تیار ہوں۔۔“
”ابھے تیار ہے بنا کسی بھے کے۔۔۔“ ابھے نے ایک لمحہ گنوائے بنا ایسے کہا جیسے وہ معراج کے اس عمل کا منتظر بیٹھا تھا۔
علی نے چند لمحے دیپا کی طرف دیکھا، مسکرایا۔ دیپا نے کہنی ماری اور علی نے ابھے کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا اور زور سے بولا: ”انقلاب۔۔۔۔ آئے گا۔ انسان کو انسان بنائے گا۔“
دیپا نے علی کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور بولی”: زندہ باد۔ زندہ باد۔“ معراج کھڑا ہو گیا اور سب کو کھڑے ہونے کا اشارہ کیا۔
چاروں صوفے کے پاس سے تھوڑا ہٹ کر کھلی جگہ میں آ گئے۔ معراج نے دایاں ہاتھ علی کے کندھے پر رکھا اور بایاں ہاتھ ابھے کے کندھے پر رکھا اور بولا: ”میں خود سے عہد کرتا ہوں۔ میں بنا کسی خوف و خطر کے، بنا کسی لالچ کے اس کام کو انجام دوں گا۔“
ابھے نے علی کے شانے پر ہاتھ رکھا اور بولا: ”ہم سب کا ایک ہی مذہب ہے، انسانیت۔ میں اپنا سارا جیون اس کے لیے سمرپت کرتا ہوں۔“
علی نے دیپا کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔”میں آپ تینوں کو یقین دلاتا ہوں۔ مجھے کوئی بھی لالچ پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔“
دیپا نے اپنا ایک ہاتھ علی کے کاندھے پر اور دوسر ابھے کے کاندھے پر رکھا:
”میں اپنے دیش کی بھلائی کے لیے۔ انسانیت کے لیے آج خود سے پرومس کرتی ہوں۔ اس کام کے لیے میں اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کروں گی۔“
پھر وہ گھیرا بنا کر گھومتے ہوئے کہے جاتے تھے۔”ہم ہوں گے کامیاب۔ ہم ہوں گے کامیاب۔ پورا ہے وشواس۔۔۔۔ ہم ہوں گے کامیاب ایک دِن۔۔۔ من میں ہے وشواس۔“
’کامیاب۔۔۔۔۔کامیاب۔۔۔۔۔‘
’وشواس۔۔۔۔۔۔ وشواس۔۔۔۔۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی آواز کمرے میں بازگشت کرنے لگی۔

***
’راوت چین آف ریسٹورنٹ‘ کے مالک راوت شاہ نے ریسٹورنٹ بزنس کی دنیا میں بہت جلد اور زبردست پہچان بنائی تھی۔ وہ ریسٹورنٹ بزنس کی دنیا کا کنگ کہا جاتا تھا۔ راوت ریسٹورنٹ کی دھوم سارے ملک میں تھی۔ ریسٹورنٹ کی شاخیں ہر شہر میں تھی، مگر ملک کے چند شہر جو میگا سیٹیز کہلاتے تھے، اس میں راوت کے ریسٹورنٹ کی بات ہی الگ تھی۔ یہ بہت ہی عالی شان قسم کے ریسٹورنٹ تھے، جس میں عام آدمی کی پہنچ ناممکن تھی۔ اس میں صرف ایک کپ چائے کی قیمت بھی اتنی تھی کہ عام آدمی کی ایک ماہ کی تنخواہ چلی جاتی۔ ایک’اسپیشل ڈش‘ ایسی بھی سرو کی جاتی تھی جس کا بل عام آدمی کی سال بھر کی آمدنی کے برابر ہوتا تھا۔ اس ریسٹورنٹ میں وی آئی پی نہیں بلکہ وی وی آئی پی ہی جاتے تھے۔ اب راوت چاہتا تھا کہ یہ ’اسپیشل ڈِش‘ مڈل کلاس تک بھی پہنچائی جائے۔ راوت کے مشیروں نے میٹنگ سے پہلے ہی سوال اٹھایا کہ مڈل کلاس کا آدمی کیسے اس ڈش کی قیمت ادا کر سکتا ہے۔ راوت نے جواب دیا کہ سب سے پہلی بات تو یہ کہ ریسٹورنٹ کی بلڈنگ کی تعمیر مڈل کلاس کو ذہن میں رکھ کر کی جائے گی نہ کہ فائیو یا سیون اسٹار کی طرز پر۔ ملازمین اسی حساب سے رکھے جائیں گے اور ان کی تنخواہیں بھی ویسے ہی ہوں گی۔ جہاں تک ڈش کا معاملہ ہے اس کی کوالٹی بھی کم درجے کی رہے گی۔ صرف مڈل کلاس کا یہ بھرم بنائے رکھنا ہوگا کہ یہ وہی ڈش ہے جو راوت ریسٹورنٹ کے دیگر ریسٹورنٹ میں ملتی ہے۔ اسی متعلق روات اپنے کُچھ خاص کاروباری مشیروں کے ساتھ میٹنگ کر رہا تھا۔ میٹنگ میں راوت ریسٹورنٹ کے کُچھ خاص منیجر بھی موجود تھے۔
”کامیابی ضروری ہے۔ چاہے ہمیں اس کے لیے کُچھ بھی کرنا پڑے۔ کامیاب ہونے کے بعد کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ آپ کامیاب کیسے ہوئے۔ جانتے ہیں کیوں؟ کیوں کہ کامیاب انسان وہاں پہنچ چکا ہوتا ہے جہاں سوال کرنے والا بہت نیچے رہ جاتا ہے۔ اس کی آواز اُوپر تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔“ راوت چند لمحے رُکا پھر آگے بولا: ”یار ٹیکنکلی بھی سوچو نا۔۔۔ آپ زمین پر گر گئے ہیں اور دھول کپڑوں پر لگ گئی ہے یا حد سے حد کیچڑ میں گر چکے ہیں اور دھول یا کیچڑ کی پرواہ کیے بغیر اپنی منزل کی طرف چلتے، بڑھتے چلے جا رہے، اوپر اُٹھ رہے ہو۔ لوگوں کی پرواہ نہیں کر رہے ہو، آدمیوں کو، چیزوں کو صرف پائے دان سمجھ رہے ہو، تو وقت کے ساتھ آپ کے جسم پر لگی دھول، کیچڑ سب سوکھ کر جھڑ جاتی ہے۔ آپ صاف ہو جاتے ہو۔ اب مجھے دیکھ لو، کسی میں ہمّت ہے کہ میرے خلاف کُچھ کہہ سکے۔“ چند سیکنڈ راوت نے سانس درست کی۔ وہ آگے بولا۔۔۔”اگر کوئی گناہ کا احساس باقی ہو تو گنگا میں ڈبکی لگا کر، عبادت خانوں میں جاکر معافی مانگ لو رے بھیا۔۔۔۔۔ کیا پریشانی ہے۔۔۔“
ایک منیجر جس کی توند نکلی ہوئی تھی وہ بولا: ”میٹ کی کھپت کہاں سے ہوگی۔“
”میٹ کا انتظام کہاں سے اور کیسے ہوگا۔ اس کی پرواہ نہیں کریں آپ۔ میٹ آپ کو ملتا رہے گا۔۔۔۔“ راوت پورے اطمینان سے بولا۔
”مگر سر!“ موٹے منیجر نے پھر کسی شک کا اظہار کرنا چاہا تو راوت کو غصّہ آ گیا۔
”اگر مگر لیکن بٹ کنتو پرنتو۔۔۔اگر اسی میں اپنا جیون ویاتیت کرنا ہے تو راوت ریسٹورنٹ میں کیوں آئے ہو۔ ریزائن کر سکتے ہو۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔مگر۔۔۔ یہاں کی بات اگر باہر گئی تو جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔۔۔ اتنا دھیان رہے۔ اور آپ لوگ یہ بھی نہ بھولیں کہ جتنی سیلری آپ کو دی جاتی ہے، کہیں بھی آپ کو اتنی رقم نہیں مل سکتی۔ یہ آپ کا شاندار لائف اسٹائل۔۔۔۔۔“ وہ چند منٹ خاموش رہا اور اپنے مزاج اور لہجے کو نرم کرتا ہوا بولا: ”جیسے آپ کام کرتے چلے آ رہے ہیں، کرتے رہو۔ چُپ رہو۔۔۔خوش رہو۔۔۔۔ اگلے مہینے سے وہ ڈش آپ سب کے ریسٹورنٹ میں بھی شروع کی جائے گی۔۔۔ یہ بات آپ لوگوں کو اور ریسٹورنٹ کے ایک دو خاص لوگوں کو معلوم ہوگی۔ باقی سب سے یہ راز کیسے چھپایا جائے گا۔ وہ سب آپ کو بتا دیا جائے گا۔ سمجھا دیا جائے گا۔“راوت نے میٹنگ میں موجود لوگوں پر نگاہ دوڑائی۔ پھر بولا: ’کسی کو کسی طرح کا اعتراض۔۔۔ کوئی سوال۔۔۔“
سب کی خاموشی رضا مندی کا اشارہ کر رہی تھی۔
***
ملک میں مرکزی انتخابات میں سات آٹھ مہینے باقی تھے۔ سیاسی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ سیاسی خیمے اپنے اپنے جوڑ توڑ میں مصروف تھے۔ سیاسی پارٹیوں کے اعلا لیڈران عوام کو رجھانے اور بہکانے کے لیے جھوٹے سچّے مقاصد اور وعدوں کی تلاش میں تھے۔قوم، مذہب، سیکولرزم اور کمیونزم  کا جھانسا دیا جا رہا تھا۔
الیکشن لڑنے کے لیے پارٹی فنڈ کی ضرورت تھی۔ جس کے لیے ملک کے بڑے بڑے کاروباری لوگوں سے رابطہ ہورہا تھا۔ کہیں محبت سے کام لیا جا رہا تھا تو کہیں دھمکی کی ٹیڑھی انگلی سے گھی نکالا جا رہا تھا۔ کئی بڑے کاروباریوں سے یہ وعدہ ہو رہاتھا کہ الیکشن جیتنے کے بعد ان کے حق میں قانون بنا کر انھیں ’کھلی چھوٹ‘ دی جائے گی۔
پارٹیوں کے بڑے قد آور نیتاؤں کو توڑ کر اپنی پارٹی میں ملانے یا ساتھ دینے کے لیے منایا جا رہا تھا۔ بے وفائیاں، دغا بازیاں، منافقتیں اپنے عروج پر تھیں۔ میڈیا میں ایسے ایسے بیان دیے جا رہے تھے، جس کا زمینی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جھوٹے سچے وعدوں کی بارش ہو رہی تھی۔ سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر رہی تھیں۔
ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے جوڑ توڑ، دھن، بھید ہی نہیں حسن و جوانی کے جلوے بھی استعمال میں آ رہے تھے۔
اربوں، کھربوں روپیہ ادھر سے ادھر ہو رہا تھا۔ جس ملک کی آدھی آبادی آدھا پیٹ کھا کر سوتی تھی۔ وہاں بے شمار دولت بے دردی سے لٹائی جا رہی تھی، شراب پانی کی طرح بہائی جا رہی تھی۔
برسرِ اقتدار پارٹی ’جنتا کرانتی‘ کے سپریمو نے اپنے لیڈران کو سمجھا دیا تھا کہ ’جنتا‘ میں ’کرانتی‘ کا نشہ کم نہیں ہونا چاہئے۔ ضرورت پڑنے پر نشے کی مقدار بڑھا دی جائے۔
اپوزیشن پارٹیاں الیکشن لڑنے اور جیتنے کی حکمتِ عملی کے تحت بہت تیزی سے کام کر رہی تھیں۔ ان کو فنڈ کے ساتھ اس بات پر بھی غور کرنا تھا کہ پارٹی’جنتا کرانتی‘ کی خامیاں تلاش کر کے پارٹی کے سپریمو کو ’ننگا‘ کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کئی جائیں۔ ملک کی کئی چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیاں سپریمو کو ہرانے کے لیے ایک اسٹیج پر جمع ہو چکی تھیں۔ یہ الگ بات کہ ان سیاسی پارٹیوں کا آپسی سمجھوتا الیکشن کے دن تک برقرار رہے گا یا نہیں۔
چند سال پہلے بنی نئی نئی پارٹی’ہم سب‘ کا ٹارگیٹ تھا کہ بااقتدار پارٹی ہو یا اپوزیشن ان کی جانے انجانے کی جانے والی غلطیوں، دھوکا دھڑی او ر گھپلوں، گھوٹالوں کو عوام کے سامنے لایا جائے۔
’ہم سب‘ پارٹی کا صدر ہر بات پر غور کر رہا تھا۔ وہ کسی بھی موقع کو گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ اس وقت پارٹی ورکرس کے ساتھ میٹنگ لے رہا تھا۔ صدر کی تقریر ابھی جاری تھی کہ اس کا پی. اے بغل میں آکر کھڑا ہو گیا۔ اپنی بات پوری کرکے صدر نے پی اے کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ کوئی اہم بات ہی ہوگی۔
پی.اے نے اخبار ’چکاچوندھ‘ کے صفحہ نمبر چار پر شائع خبر دکھائی۔ اخبار کے مطابق تھانے میں یہ رپورٹ لکھوائی گئی کہ ’شک ہے کہ مشہور راوت ریسٹورنٹ میں انسان کا میٹ سرو کیا جاتا ہے۔“ رپورٹ لکھوانے والا شخص ایک ویاپاری ہے جو کسی اور شہر سے آیا تھا۔ پولیس نے شک کی بنیاد پر رپورٹ درج کرنے سے انکار کر دیا۔ اتفاق سے ’چکا چوندھ‘ اخبار کا نمائندہ تھانے کے باہر موجود تھا، نمائندے نے رپورٹ لکھوانے والے سے پوچھ تاچھ کی تواس نے بتایا کہ’راوت ریسٹورینٹ میں انسانی گوشت سرو کیا جاتا ہے۔‘
پارٹی ’ہم سب‘ کے صدر نے اپنے پی.اے سے کان میں پھسپھساتے ہوئے کہا: ”اس اخبار کے ایڈیٹر سے جاکر ملو ۔۔۔۔ بات کرو کہ کل کے اِیشو میں آپ اس پر اداریہ لکھیں اور ریسٹورینٹ کا نام نمایا کریں۔۔۔اس سے کہنا ’ہم سب‘ آپ کے ساتھ ہیں۔۔۔۔“
پی.اے چلاگیا۔
صدر نے میٹنگ آگے بڑھائی۔ سب کو کام سمجھانے کے بعد ’ہم سب‘ پارٹی صدر نے اپنے خاص آدمی کو کیبن میں آنے کا اِشارہ کیا۔
کیبن میں پہنچ کر اس نے کہا: ”اپنی نگرانی میں کام کر رہی تمام این۔ جی۔ او۔ اور کالج یونین سے رابطہ قائم کریں۔ ان سے کہیں کہ ’چکاچوندھ‘ کی خبر کی بنیاد پر ’میدان ِعمل‘ میں دھرنا پردرشن کریں۔ راوت کے خلاف نعرے لگائیں۔ راوت کا پُتلا جلائیں۔ راوت کا رشتہ ’جنتا کرانتی‘ سے جوڑیں۔ یہ بڑا اِیشو ہے حکومت کو گھیرنے کا۔ ضرورت پڑے تو اپنے زمینی کاریہ کرتاؤں کو میدان میں اتاریں اور ان سے کہیں کہ ’ہلّہ بول‘ فارمولے پر عمل کریں۔ جنگ شروع کردو۔۔۔ بُگل بجا دو۔“
’ہم سب‘ پارٹی کا صدر بہ خوبی جانتا تھا کہ’راوت ریسٹورنٹ‘ کا مالک راوت شاہ برسرِاقتدار پارٹی ’جنتا کرانتی‘ کے لیے فنڈنگ کرتا ہے۔
تیسرے دن ملک بھر کے چھوٹے بڑے اخباروں میں یہ خبر عام شائع ہو چکی تھی۔ ’راوت ریسٹورنٹ‘ میں انسانی گوشت کی ڈش سرو کی جاتی ہے۔ ہر طرف اسی کا چرچا تھا۔ جہاں مخالف سیاسی پارٹیاں اس موقع کو کیش کرنا چاہتی تھیں۔ وہیں یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں اس کے خلاف آوازیں بلند ہورہی تھیں۔ ایسے ہی موقع پر بہت سے مفاد پرست اس کو طرح طرح سے بھنانے میں لگے ہوئے تھے۔ کئی ایسی تنظیمیں جو انسانی حقوق کے لیے کام کرتی تھیں۔ ’میدانِ عمل‘ میں اِکٹھا تھیں۔ ہر طرف تقریریں تھیں، نعرے گونج رہے تھے۔میدانِ عمل کے آس پاس سڑکیں جام ہو چکی تھیں۔
”انقلاب۔“
”زندہ باد۔“
یونی ورسٹی کے طلبا پورے جوش خروش کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔
”شرم کرو۔ شرم کرو۔“
”انسانی گوشت کا ویاپار بند کرو۔۔۔۔ بند کرو۔“
”حیوانیت کا ننگا ناچ۔“
”کب تک چلے گا۔ کب تک چلے گا۔“
دوسری طرف کے جلوس میں نعرے لگ رہے تھے۔ یہ نعرے سیاسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔
”حیوانیٹ کے ٹھیکے داروں کو۔۔۔“
”پھانسی دو۔۔۔پھانسی دو۔“
”راوت کو“
”گرفتار کرو۔۔۔گرفتار کرو۔“
سیاسی جنگ جاری تھی۔
***
ملک کا گرہ منتری عمر دراز شخص تھا۔ اس کے سر پر بال کم اور جسم پر چربی ضرورت سے زیادہ تھی۔ جب سے وہ گرہ منتری بنا تھا۔ تب سے دیش میں عجیب سی اُتھل پتھل تھی۔ سپریمو اور گرہ منتری نے مل کر دیش میں نئے نئے قانون بنانے شروع کر دیے تھے۔ جو بہ ظاہر تو عوام کی بھلائی کے لیے بنائے گئے تھے، مگر صحیح معنوں میں اس سے بڑے بزنس مین کو ہی فائدہ پہنچ رہا تھا۔
گرہ منتری اس وقت سرکاری دفتر میں نہیں بلکہ اپنے گھر والے دفتر میں اعلا افسران سے گفتگو میں مصروف تھا۔
راوت ریسٹورنٹ کا مالک راوت شاہ بھی گرہ منتری سے ملنے آیا تھا۔ جب سے اس کے ریسٹورنٹ میں انسانی گوشت سرو ہونے کی خبر میڈیا میں چھپی تھی اور اس کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے، وہ بہت پریشان تھا۔ راوت کی ہر پریشانی کا ایک ہی حل ہوتا تھا، گرہ منتری سے ملاقات۔ گرہ منتری اس کے دوست کا والد تھا۔ اس لیے، گرہ منتری سے ملنے میں کوئی خاص دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ گرہ منتری نے اسے آج بلایا تھا۔ وہ اس وقت ویٹنگ روم میں اپنی باری کا منتظر تھا۔ چہرے پر فکر کی لکیریں نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی تھیں۔ وہ سوچ رہا تھا، آخر اس سے چوک کہاں ہوئی؟
تب ہی گرہ منتری کے پی.اے نے آکر اطلاع دی: ”سر بلا رہے ہیں آپ کو۔“
راوت کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ اس نے حلق میں آیا تھوک نگلا اور خود کو حتیٰ الامکان نارمل کرنے کی کوشش کی۔ اس نے دفتر میں جھانکا اور اجازت لے کر اندر داخل ہو گیا۔ رسمی سلام و خیریت کے بعد بنا وقت گنوائے راوت نے ساری بات گرہ منتری کو بتائی۔ گرہ منتری نے میز پر رکھی فائلوں کو پڑھتے ہوئے کہا: ”مسٹر راوت آپ پریشان نہ ہوں۔ آپ کے اوپر کسی طرح کی بھی کاروائی نہیں ہوگی۔ آپ کو کوئی ہانی نہیں پہنچے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اتنا ہوگا کہ کیس چلتا رہے گا ۔۔۔۔۔ لوگ بھول جائیں گے۔ بس آپ الیکشن تک انڈر گراؤنڈ ہو جاؤ۔باقی میں سنبھال لوں گا۔“
راوت نے ہاتھ جوڑ دیے: ”سر آپ کا کن لفظوں میں شکریہ ادا کروں۔ سمجھ نہیں آرہا ہے۔“
”اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ویسے کیا یہ بھی معلوم ہے کہ وہ آدمی کون تھا، جس نے تھانے جاکر رپورٹ لکھوانے کی ہمّت کی ۔۔۔ وہ بھی ہمارے ہوتے ہوئے۔“
”بالکل بھی نہیں جانتا سر۔۔۔۔۔شاید کوئی انجان ہوگا۔۔۔۔آپ کی طاقت کو نہیں پہچانتا ہوگا۔“ راوت نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
”نہیں ایسا نہیں ہے۔ وہ ہمیں بھی جانتا ہے اور ہماری پاور کو بھی پہچانتا ہے۔۔۔“ گرہ منتری مسکرایا۔
راوت نے مشکوک نگاہوں سے گرہ منتری کی طرف دیکھنے کی ہِمّت کی۔ گرہ منتری نے راوت کی آنکھوں میں جھانکا: ”نہیں سمجھ رہے ہو۔۔۔۔۔ ہمارا ہی آدمی تھا ۔۔۔۔۔ ہم نے ہی بھیجا تھا۔“
”سر؟“ راوت کی زبان سے صرف یہی نکلا اور اس کا منھ کھلا کا کھلا ہی رہ گیا۔
”دیکھو بھائی، بیٹے کا دوست ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ۔۔۔ آ پ لین دین میں ہیرا پھیری کریں۔۔ دو گاڑیوں کی بات ہوئی تھی ۔۔۔ صرف ایک ہی گاڑی آئی ہے آپ کی طرف سے۔۔“
”جی سر ۔۔۔ میں نے آپ کے بیٹے کو مجبوری سمجھا دی تھی ۔۔۔ اس لیے۔۔۔“
”کس دنیا میں رہتے ہو یار۔۔۔۔۔“ گرہ منتری بات بھی کر رہا تھا اور ساتھ ہی اپنے پی.اے سے اشارہ کر کر کے فائلیں منگا کر اس پر دستخط بھی کرتا جاتا تھا۔
”یہ سیاست ہے رے بھیا۔۔۔۔یہاں باپ بیٹے کا نہیں اور تم چلے ہو۔۔۔۔ دوستی کو جوڑنے۔۔۔۔ہم پارٹی فنڈ کے لیے ہی تو پیسہ مانگتے ہیں۔۔۔ اسی سے الیکشن لڑے جاتے ہیں۔ جب الیکشن لڑیں گے نہیں تو جیتیں گے کیسے۔۔۔اور جب جیت ہی نہیں ہوگی تو آپ کا کیا ہوگا۔۔۔۔؟ سوچے ہیں کبھی؟“
”مالک۔۔“ راوت انکل سے سر اور اب مالک پر آگیا تھا۔۔۔۔ ”اتنا پیسہ؟ ۔۔۔کہاں سے لائیں۔“
”ابے۔“ گرہ منتری نے گالی کو اپنے حلق میں واپس انڈیل دیا اور بولا: ”بے وقوف ہے کیا۔ پتہ نہیں ہے ہمیں۔۔۔۔۔سوئز بینک میں۔۔۔۔کیا۔۔۔۔اور اس کو بھی چھوڑ دیں اگر۔۔۔۔بے شمار رقم کی پروپرٹی دوسروں کے نام سے خرید رکھی ہے۔۔۔۔“
راوت کو سانپ سونگھ گیا۔ وہ گھبرا کر جلدی سے بولا: ”ٹھیک ہے سر۔ ایک گاڑی اور پہنچ جائے گی۔ میں کہیں نہ کہیں سے جگاڑ کرتا ہوں۔۔۔“ راوت نے ہتھیار ڈال دیے۔
”گاڑی بڑے نوٹ کی ہونی چاہئے۔ وہ بھی پوری طرح بھری ہوئی۔ پچھلی گاڑی کی طرح یہاں وہاں سے خالی نہیں۔“ گرہ منتری کی دو ہزار کے نوٹ کی بات پر راوت نے حیرت کا اظہار کیا: ”دو ہزارو الی۔۔۔۔سر۔۔۔دو۔۔۔۔۔ہزار۔۔۔ بات تو پانچ سو روپئے والی گاڑی کی تھی۔ پہلی گاڑی پانچ سو کی ہی بھیجی تھی۔“ جیسے راوت کو یقین ہی نہ آرہا ہو۔
”جی ہاں دو ہزار والی گاڑی۔۔۔۔“ گرہ منتری نے اپنے تیور سخت کرتے ہوئے کہا: ”پینالٹی ہے یہ۔“ گرہ منتری نے پی. اے سے ہاتھ کے اشارے سے اور فائلیں لانے سے منع کیا اور جانے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔
پی. اے نے گرہ منتری سے کہا: ”آپ کو ہائی کمان یاد کرتے ہیں۔“
راوت نے ساری ہمت یکجا کر کے گرہ منتری کو یاد دلایا: ”آپ نے بھی ایک وعدہ کیا تھا سر۔۔۔“
گرہ منتری رکا۔ راوت کو غور سے دیکھا: ”اس بار موقع نہیں ملا۔ الیکشن ہونے والے ہیں۔ اب کے سے جب ہماری حکومت بنے گی تو۔۔۔ ہم لوگ اسمبلی میں ضرور بل رکھیں گے۔۔۔ آپ فکر نہیں کرو۔۔۔پاس بھی ہو ہی جائے گا بِل۔“
یہ کہہ کر گرہ منتری گھر سے نکل کر تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا گاڑی کی طرف بڑھا۔
***
اگلی قسط جلد ہی. 


شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے