میر کی سہ صدی: میں میر میر کر اُس کو بہت پکار رہا

میر کی سہ صدی: میں میر میر کر اُس کو بہت پکار رہا

ہند و پاک میں میر کے سلسلے سے تقاریر، سے می نار، جشن اور میلے خوب ہو رہے ہیں مگر اُن کے علمی اعتبار پر بہت کم توجّہ دی جا رہی ہے۔

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

خداے سخن محمد تقی میر کی پیدائش کے تین سو برس ہمارے زمانے میں مکمّل ہوئے۔ یہ نسل خوش نصیب ہے کہ اُسے یہ موقعۂ غنیمت ہاتھ آیا۔ ۲۰۲۲ء سے ہی میر کی سہ صدی کی تقریبات کا سلسلہ شروع ہوا اور امید یہ کی جاتی ہے کہ ۲۰۲۴ء میں بھی یہ معاملہ آگے بڑھتا ہی جائے گا۔ میر اپنے زمانے میں دَردَر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوئے اور آخری دَور میں لکھنؤ میں بھی وہ قبولیت حاصل نہ ہو سکی جس سے لوگ اُن کی قبرکو محفوظ رکھ سکتے۔ میر کے ادبی کاموں کے علاوہ کسی قسم کے آثار بھی ہم نے محفوظ نہ کیے۔ ایسے میں یہ بات قابلِ اطمینان ہے کہ تین صدی بعد بھی ہم اپنے عظیم شاعر کوبھلانے کے مجرم نہ ثابت ہوئے اور اچھّے وارث کی حیثیت سے ہم نے اپنے بزرگوں کو یاد رکھا۔
میر کی حیات جس قدر پیچیدہ، ناگفتہ بہ اور بہت طرح کی گتھّیوں میں الجھی رہی ہے۔ اتّفاق سے اُن کی تصنیفات کے ساتھ ایسا نہ ہوا۔ وہ خوش نصیب تھے کہ فورٹ ولیم کالج نے اُن کی وفات کے اگلے برس ہی اُن کا دیوان شائع کر دیا۔ اُس وقت تک ہمارے تمام بزرگ شعرا ابھی سینہ بہ سینہ روایت اور نقل در نقل تیّار شدہ مخطوطات کی بہ دولت اپنی شناخت رکھتے تھے۔ سودا اور میرخوش نصیب رہے کہ فورٹ ولیم کالج نے اُن کے دواوین کی طرف اوّلاً توجّہ کی اور اُنھیں پختہ روشنائی میں زمانے نے دیکھنا اور پرکھنا شروع کیا۔ میر کی نثری کتابیں بھی مولوی عبد الحق کی مہربانی سے شائع ہو گئیں جس کی وجہ سے میر کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ایک ٹھوس بنیاد سامنے آ گئی۔ اِس کے پہلے شعرا کو اُن کے چنے ہوئے اشعار یا تھوڑے سے نمونۂ کلام یا کچھ قدیم بیاضوں میں محفوظ کلام کے ذریعہ جانا جاتا تھا۔ آج کے عالمی حیثیت کے شعرا بھی اپنے علاقے سے باہر گُم نام ہی ہوتے ہوں گے۔ بادشاہ سلامت کے کلام کے لیے بھی سماج نے کوئی اِضافی توجّہ یا محبت نہیں دکھائی۔ ورنہ چھاپا خانہ کے رواجِ عام کے بعد قلی قطب شاہ، ابراہیم عادل شاہ اور علی عادل شاہ ثانی جیسے بادشاہوں کے دواوین سنہرے حروف میں شائع ہو کر عوام و خواص کے لیے صدیوں پہلے دستیاب ہو چکے ہوتے ہیں۔ میر کی زندگی میں نہیں مگر مرتے مرتے اُن کی تصنیفات مطبوعہ شکل میں سامنے آ گئیں اور اُن کتابوں کے لیے یہ گنجائشیں بھی پیدا ہوئیں کہ وہ دُور دراز تک پہنچ جائیں اور میر شناسی کے کام میں رفتار پیدا ہو۔ میر کی ادبی و علمی مقبولیت میں اِس بات کا بڑا ہاتھ ہے۔ بعد کے زمانے میں مختلف مطبوعات کی اشاعتوں سے گزرتا ہوا ظل عبّاسی کی ترتیب دادہ کتاب ’کلیاتِ میر‘ موجود ہے جس کی اشاعت قدیم ترقی اردو بیورو کی طرف سے ہوئی تھی اور جسے بعد میں شمس الرحمان فاروقی کی نگرانی میں احمد محفوظ نے تصحیح کا کام کیا۔ اگر چہ کلیات کے متن کے حوالے سے شہاب الدین ثاقب صاحب نے بعض اغلاط کی کھُلی نشان دہی کی ہے جس کی وجہ سے اب یہ ذمّہ داری کا کام ہے کہ کس طرح کلیاتِ میر کے متن کی درستی اور تحقیقی اعتبار سے اُس کی تکمیل کی ذمّہ داری اُٹھائی جائے۔
۱۹۶۹ء میں جب غالب صدی تقریب منائی جا رہی تھی، اُس کے سلسلے سے ہماری زبان کے بڑے اذہان ایک طویل مدّت سے اجتماعی طور پر غور و فکر کر رہے تھے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین جب ہندستانی جمہوریہ کے نائب صدر ہوئے، اُنھوں نے قاضی عبد الودود سے اِس سلسلے سے ایک بھر پور خاکہ تیّار کرنے کی گزارش کی تھی۔ ۱۹۶۹ء میں جب مرکزی سطح پر جشنِ غالب کا اہتمام ہوا، اُس معیار کے سے می نار اردو دنیا نے شاید ہی دیکھے ہوں گے۔ دنیا بھر کے ممالک سے اردو زبان کے حوالے سے کام کرنے والے افراد شریکِ بزم ہوئے اور ملک بھر کے اداروں نے اپنی ذمّہ داری سمجھتے ہوئے اہتمامات کیے۔ ہندستان کے ہر بڑے شہر میں بڑے بڑے انقعادات ہوئے۔ ایسے مشاعرے ہوئے جن میں غالب کی طرح میں غزلیں پڑھیں گئیں۔ اُس وقت کے لوگوں نے غالب کے تعلّق سے مستقل اداروں کے قیام کی ضرورت کو محسوس کیا۔ قاضی عبد الودود نے فخر الدین علی احمد اور دوسرے دوستوں سے تعاون لے کر غالب انسٹی ٹیوٹ اور غالب ایوارڈ کی بنیاد رکھی۔ یہ الگ بات ہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ اپنے سب سے متحرک بانی قاضی عبد الودود کو اب یاد نہیں کرتی ہے۔ بہار میں گیا شہر کے لوگوں نے اقلیتی طبقے کی تعلیم کے لیے ایک کالج بہ نام مرزا غالب کالج قائم کر دیا، جو آج ایک ممتاز تعلیمی ادارے کے طور پر غالب کے وجود کے ساتھ زندہ و متحرک ہے۔ غالب کے دیوان کے اتنے انداز کے ایڈیشن شائع ہوئے، جس پر حیرت ہوتی ہے۔ تحقیقی اور تنقیدی کتابوں اور معیاری مطبوعات کا ایک اچھا خاصا سرمایہ جمع ہو گیا۔ اُس کے پہلے غالبیات یا ماہرِ غالب یا ماہرِ غالبیات جیسی اصطلاحیں کم رائج تھیں مگر اُس زمانے میں ایسے لوگ ابھی زندہ تھے جن پر یہ تمغے فِٹ آتے تھے۔ امتیاز علی خاں عرشی، قاضی عبد الودود، یوسف حسین خاں، مالک رام، خورشید الاسلام، کالی داس گپتا رضا، ظ۔ انصاری، وغیرہ نے مل کر غالب کے سلسلے سے اتنا سنجیدہ علمی سرمایہ پیدا کر دیا جس سے غالب کی وفات کی پہلی صدی یاد گار بن گئی۔
مگر میر کی جو یہ سہ صدی کا زمانہ آیا ہے تو ہماری طرح طرح کی مشکلات بھی سامنے ہے۔ ہندستان اور پاکستان دونوں ملکوں کی حکومتوں کی اوّلیات میں شعر و ادب کے لیے شاید ہی کوئی جگہ ہو۔ اِس لیے مرکزی سطح پر کوئی اتنا بڑا جلسہ جس میں ہفتہ دس روز تک دنیا بھر کے میر شناسوں کو سر جوڑ کر بیٹھایا جائے اور اُن کی باتیں سن کر میر شناسی کے نئے آسمان کی طرف جست لگائی جائے، یہ آسان معلوم نہیں پڑتا۔ یوں بھی اب ادبی تقریبات میں چمک، دمک، رنگ اور روشنی اور شو مین شپ زیادہ ہے۔ اسٹارڈم کے پیچھے بھاگنے کا چلن ہے۔ ایسے میں کتابوں میں آنکھیں پیوست کر دینے والے افراد کو پہچاننے والے کہاں سے ملیں گے۔ سب سے آسان تو یہی ہے کہ فلم، سنیما اور ٹیلی ویژن کے نام وَر لوگوں کو مدعو کر لیا جائے، میر کے سلسلے سے اب وہ جو باتیں پیش کریں گے، وہ اُن کے بیس اور بچاس برس کی غور و فکر کا نتیجہ نہیں ہوگا بل کہ دو چار دن یا پانچ دس منٹ کے ری ہل سل کے نتائج ہی ہوں گے۔ میر کی سہ صدی اُس وقت چپکے سے ہمارے سامنے آئی جب کورونا کی آخری لہر میں ہمارے زمانے کے سب سے بڑے عالم اور میر شناس شمس الرحمان فاروقی بھی ہم سے جدا ہوگئے۔ اب جتنے میر شناس مختلف سے می ناروں میں نظر آ رہے ہیں، وہ ایسے موقع شناس اور موقع پرست ’ماہرین‘ ہیں جنھیں آپ صبح میں حاشیائی ادب پر ملاحظہ کریں گے، دوپہر میں کلاسیکی ادبیات کے گُم شدہ چراغوں کو روشن کرتے پائیں گے اور شام ہوتے ہوتے کبھی پریم چند اور کبھی سر سیّد یا حالی کے نگار خانے کی سیر میں اُنھیں آپ مبتلا پائیں گے۔ اخباروں کی رپورٹیں پڑھیے یا سوشل میڈیا پر منتظمین اور خود نام نہاد ماہرین کی تصویریں اور اُن کے تاثرات ملاحظہ کیجیے تو آپ کی آنکھیں پھٹی رہ جائیں گی کہ ہمارے عہد میں ایسے ایسے مجموعۂ کمالات موجود ہیں جنھیں ہر موضوع پر نہ صرف یہ کہ لکھنا اور بولنا آتا ہے بل کہ وہ کسی بھی موضوع پر یکساں مہارت سے اپنے جلوے بکھیر سکتے ہیں۔ اُن کی تقریریں یا اُن کے پیش کردہ مقالات یا اکثر زبانی پیش کیے گئے کلیدی خطبات اکثر و بیش تر شائع نہیں ہوتے اور اگر کسی منتظم کے ڈھیٹ پَن سے شائع ہو گئے تو آتش کے لفظوں میں آپ بر مِلا کہہ دیں گے: ’جو چیرا تو ایک قطرۂ خوں بھی نہ نکلا‘۔
میر شناسی اور میر کی سہ صدی تقریبات کا بھی یہی حال ہے۔ اِس میں بھی ایک سے می نار سے دوسرے سے می نار تک ماہرین دَوڑ لگاتے نظر آ رہے ہیں۔ ایسے افراد جو پوری زندگی کبھی میر پر ایک تعارفی مضمون نہ لکھ سکے، وہ جگہ جگہ اپنے کلیدی خطبات پیش کر رہے ہیں۔ کچھ ایسے پیشے وَر ماہرین بھی اُبھر کر سامنے آرہے ہیں جن کے خطبات کے محرر کسی دوسرے شہر میں ہوتے ہیں اور وہ اُن لفظوں کو عوامی سطح پر اپنی آواز دینے کے ہی مجرم ہوتے ہیں۔ قومی اردو کونسل، انجمن ترقیِ ارود ہند، علی گڑھ مسلم یو نی ور سٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ یو نی ورسٹی، مولانا آزاد نیشنل اردو یو نی ورسٹی اور جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی کے شعبہ ہاے اردو اگر سنجیدگی سے تیّاری کریں۔ اقربا پَروَری اور لین دین کے اُصولوں پر فہرست سازی نہ کریں تو دس بیس سنجیدہ مضامین اور چند کتابیں نئے علمی علاقوں کی سیر کرانے والی سامنے آ سکتی ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ اردو کے سر براہ ہمارے رفیقِ دیرینہ پروفیسر احمد محفوظ کو عام طور پر میر شناس تسلیم کیا جاتا ہے۔ پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے بھی میر کے بارے میں سنجیدہ غور و فکر کے نتائج ظاہر کیے ہیں۔ اب نہ قاضی عبد الودود آئیں گے، اور نہ جمیل جالبی اور نہ شمس الرحمان فاروقی۔ آج کی اردو آبادی میں ہندستان کی سطح پر دو ہاتھ کی انگلیوں میں گِنے جانے والے میر شناس بھی موجود نہیں۔ ادارے بھی اپنی رمق کھو رہے ہیں۔ انجمن ترقیِ اردو ہند نے اچھا کیا کہ ’ذکرِ میر‘ کا مکمّل متن مع ترجمہ شائع کرا دیا۔ مگر ہم نے تو اب تک میر کا کوئی اچھا انتخاب بھی نہیں پیش کیا۔ مولوی عبد الحق کے انتخاب کے اب سو برس ہو جائیں گے۔ اُس کی بوسیدگی اور متن کی عدم صحت بھی ہمیں مشکل میں ڈالتی ہے۔ علی سردار جعفری نے جو انتخاب اردو اور ہندی میں کیا، اردو متن بازار سے کب کا ناپید ہے۔ ہندی میں رسمِ خط کی تبدیلی کے مرحلے میں سردار جعفری سے فاش غلطیاں ہوئی ہیں۔ مگر اُسی طرح ہمارا کام چل رہا ہے۔ اِس سہ صدی تقریب میں اگر کلیاتِ میر کی تصحیح، میر کا بہترین انتخاب، سوانحِ میر پر مکمّل تحقیقی کتاب، ہندی اور انگریزی میں بہترین انتخاب اور غیر زبان دانوں کے لیے معاون اشارات کے ساتھ کتابیں آ جائیں تو ہمیں یقین ہے کہ جیتے جی روتے رہنے والے میر شاید خوش ہوں گے کہ اُنھیں تین سو برس بعد بھی محبت سے یاد کیا جاتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ میر کی منتخب سو دو سو غزلوں کا انگریزی ترجمہ پروفیسر انیس الرحمان سامنے لے آتے تاکہ میر عالمی ادب میں اپنا مستحکم دعویٰ پیش کر سکیں۔ کاش میر کی سہ صدی میر شناسی کے ہمارے خوابوں کی تکمیل کاذریعہ بن جاتی۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں]
safdarimamquadri@gmail.com
***
گذشتہ عرض داشت: آہ! منوّر رانا: اردو شاعری کی ہم عصر مقبولیت کا استعارہ

شیئر کیجیے

One thought on “میر کی سہ صدی: میں میر میر کر اُس کو بہت پکار رہا

  1. مقالہ واقعی عمدہ اور توجہ طلب ہے، غالب کی طرح میر کو ہم نے اولیت نہیں دی اور اس سمت میں نہ ہی کوئی عمدہ کام کیا۔ کلکتہ میں انگریزی کے ایک پروفیسر ہیں عفیف صدیقی۔ پرانی قدروں کے امین ہیں، اردو اور انگریزی میں ید طولی رکھتے ہیں، آپ کا یہ مضمون ان کی خدمت میں بھیجتا ہوں۔ ممکن ہے وہ کچھ کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے