آئینہ

آئینہ

غضنفر

دونوں ایک دوسرے سے دور تھے مگر دونوں کی نظریں آسمان میں اڑنے والے کبوتر پر مرکوز تھیں۔ کبوتر دونوں طرف کی اٹاریوں پر اترتا۔ پاؤں سے ایک رقعہ کھولواتا، دوسرا بندھواتا، رقعہ کھولنے والے کے چہرے پر دمک اور آنکھوں میں چمک دیکھتا اور ممنونیت کی ترنگ میں ڈوبی انگلیوں کا کیف آگیں لمس پاکر لہراتا ہوا پھر سے فضا میں پرواز بھرنے لگتا۔
رقعے کی تہیں کھلتیں، تحریر پر نگاہیں جمتیں، سیاہ حروف سے شعاعیں پھوٹتیں، آنکھیں جگمگا اٹھتیں، رگ و ریشے میں ترنگیں دوڑنے لگتیں، چہرے پر طرح طرح کے رنگ و نور ابھرنے لگتے۔
اس طرح دور رہ کر بھی دونوں قریب ہوجاتے اور ہجر میں وصال کے مزے لیا کرتے۔
اس انوکھے وصال میں حسن کی شوخیاں بھی ہوتیں اور عشق کی گرمیاں بھی، خمِ زلفِ ایاز بھی اور غزنوی تڑپ بھی، دوریوں سے پیدا ہونے والے درد کی خلش بھی اور قربتوں کی کوکھ سے پھوٹنے والے لمس کا لطف بھی۔ نشاطِ غم بھی اور رنجِ شادمانی بھی۔ ان رقعوں میں اظہارِ جذبۂ انس ہی نہیں ہوتا بلکہ تجرباتِ نفس اور کیفیاتِ قلب کا انعکاس بھی ہوتا۔ عرفانِ ذات کا مکاشفہ بھی ہوتا اور مشاہدۂ حق کا مظاہرہ بھی۔
سیدھی سمت میں ا ڑنے والا کبوتر یکایک چرخی بنا اور چکّر کاٹتا ہوا دائیں طرف کی اٹاری پر اتر گیا۔ منتظر شخص نے کبوتر کے پروں کو سہلاتے ہوئے پاوں سے رقعہ نکال لیا اور اس رقعے کی جگہ کبوتر کے پاوں میں اپنا رقعہ باندھ دیا۔
ایک طرف کبوتر اڑا، دوسری طرف رقعہ کھلا:
’’واہ واہ سیّد صاحب! تم تو بڑی عبارت آرائیاں کرنے لگے۔ نثر میں خود نمائیاں کرنے لگے۔ حیران ہوں کہ کیا سحر سازی کروں جو سخن پردازی کروں؟ بھائی تم تو اردو کے مرزا قتیل بن گئے ہو۔ اردو بازار میں نہر کے کنارے رہتے رہتے رودِ نیل بن گئے ہو۔ کیا قتیل، کیا رودِ نیل، یہ سب ہنسی کی باتیں ہیں۔
کیوں سچ کہیو اگلوں کے خطوط کی یہی طرز تھی یا اور، ہائے، کیا اچھا شیوہ ہے۔ جب تک یوں نہ لکھو گویا وہ خط ہی نہیں ہے۔ چاہِ بے آب ہے، آبِ بے باراں ہے، نخلِ بے میوہ ہے، خانۂ بے چراغ ہے، چراغِ بے نور ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ تم زندہ ہو۔ تم جانتے ہو کہ ہم زندہ ہیں۔ امرِ ضروری کو لکھ لیا، زوائد کو اور وقت پر موقوف رکھا اور اگر تمھاری خوشنودی اسی طرح کی نگارش پر منحصر ہے تو بھائی ساڑھے تین سطریں ویسی بھی میں نے لکھ دیں۔
مطالب بہت زیادہ ہیں اور پیچیدہ ہیں۔ چاہتا ہوں کہ کم
سے کم لفظوں میں اپنی بات کہہ دوں اور تحریر کو تقریر کا آئینہ بنا دوں۔ بات کو خواہ مخواہ طول دینے سے اثر بھی کم رہ جاتا ہے اور پیچیدگیاں بھی پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس لیے چاہتا ہوں کہ مختصر کہہ کر موثر بناؤں اور سننے والا بھی بات کی تہہ تک جلد پہنچ جائے۔غور کرو میں کیا کہہ رہا ہوں؟ میرا مقصد کیا ہے؟ اور تم کو اس سلسلے میں کیا کرنا ہے؟‘‘
خط پڑھتے وقت بار بار اسے یہ خیال آرہا تھا کہ یہ خط یقینا اس کے اِس خط کے جواب میں لکھا گیا ہے:
” قبلۂ من!
کچھ شخصیتیں اپنے خمیر میں محبت کا امرت گھولے رکھتی ہیں یا یوں کہوں کہ ان میں پریم امرت گھلا رہتا ہے۔ کسی بھی صورت میں یہ امرت رَس ان کے رگ و ریشے سے ا لگ نہیں ہوتا۔ نفرت کے سانپوں کی صحبت میں بھی چندن بنا رہتا ہے۔ کدورتوں کا زہر بھی اس کی مٹھاس کو زہریلا نہیں کر پاتا۔ ایسی شخصیتیں بگڑ جانے یا بگاڑے جانے کے بعد بھی بنی رہتی ہیں۔ اجڑ کر بھی اپنی خو بو نہیں چھوڑتیں۔ اپنے رنگ، ترنگ، آہنگ اور امنگ کو مدھم نہیں ہونے دیتیں۔ جس کسی شے کے بناو کا بیڑا اٹھاتی ہیں، اسے بنا کر دم لیتی ہیں۔ کارِ بناو اس چاو ا ور رچاو سے کرتی ہیں کہ اسے ہر رخ سے معنی خیز ، لطف آمیز، حیرت انگیز، مؤثر اور جاذبِ نظر بنا دیتی ہیں۔ گویا اس میں سرخاب کے پر لگادیتی ہیں۔ اس کے خط و خال کو چمکادیتی ہیں۔ حسن و جمال کو دمکا دیتی ہیں۔ اسے مال و منال سے مالا مال کردیتی ہیں۔ اس میں کیفِ کمال اور وصفِ بے مثال بھردیتی ہیں۔ ایسا دم دیتی ہیں کہ بننے والی شے صرف بنتی ہی نہیں، پک کر خوشبو بھی دینے لگتی ہے۔ خود تو مہکتی ہی ہے، ماحول کو بھی مہکانے لگتی ہے۔
ایسی ہی تعمیری و تخلیقی شخصیتوں میں وہ آدمی بھی ہے جو کہتا تو ہے کہ آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا، مگر جسے خود انساں ہونا میسّر ہے اور جو بیانِ مسائلِ تصوف کے سبب کسی ولی سے کم در جہ نہیں رکھتا۔ اس کے خمیر میں بھی مروّت گھلی ہوئی ہے۔ ایسی مروت جس نے آبِ حیات پی رکھا ہے۔ جو مٹانے سے بھی نہیں مٹتی۔ مٹانے والے زہریلے انسان میں بھی اپنے رس کی مٹھاس بھر دیتی ہے۔ اس کے زہر کو بھی زائل کردیتی ہے۔ ایسی مروّت جو محبت کے لشکارے مارتی ہے۔ اخوت کے فوارے چھوڑتی ہے۔ دیواروں کو توڑتی ہے، دلوں کو جوڑتی ہے، بادِ مخالف کے رخ کو موڑتی ہے، جو راہ کے پتھروں کو ہٹاتی ہے، زندگی کے تنگ و تاریک سرنگوں میں چقماق بچھاتی ہے، جو دھند کو دھنتی ہے۔ دھوئیں کے بادلوں سے بجلیاں چنتی ہے۔ بجلیوں سے چاندنی بنتی ہے۔ چاندنی سے چھاوں چھانتی ہے۔ چھاوں سے جسم کو، روح کو، ذہن کو، قلب کو، جگر کو، نظر کو سب کو ٹھنڈک پہنچاتی ہے۔
گیسوئے کائنات اور مسئلۂ حیات کو سلجھانے، رسوم و قیود کے شکنجوں سے دل و دماغ کو نجات دلانے، اخلاقی جکڑ بندیوں سے آزاد کرانے، نفسیاتی گتھیوں کی گانٹھیں سرکانے اور گردن دبانے والی کالی بلاوں کو بھگانے کے لیے جتنی آوازیں بلند ہوئیں، ان سب میں زیادہ پر اثر ا ور زیادہ کار گر آواز اس آدمی کی ثابت ہوئی جس کے لفظ لفظ میں گنجینۂ معانی کا طلسم بھرا ہے۔ جس کے بیان میں "اندازِ بیاں اور" کا سحر چھپا ہے۔ جس کا صریرِ خامہ نوائے سروش ہے۔ جس کا سینہ گہر ہائے راز کا دفینہ ہے۔ وادیِ شعر و ادب میں خرام جس سے، صبا جس سے، گلستاں جس سے۔ جام ہر ذرہ ہے سرشار تمنا جس سے۔ جس کی سخن گستری میں باغِ معانی کی بہار دکھائی دیتی ہے۔ جس کے حرف و صوت میں صدائے غیب سنائی دیتی ہے۔ جس کے ناخنِ تاویل سے عقدۂ احکامِ پیغمبر کھلا۔ جس کی فیضِ تربیت سے مجھ پہ منصبِ مہر و مہ و محور کھلا۔ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے اس کی صحبت کا شرف حاصل ہوا۔ متعلقین کو سلام۔
شکر گذار
سید
اگرچہ آنے والے خط کے ابتدائی حصے میں تحسینی عنصر موجود تھا مگر پورے خط کے تناظر میں وہ عنصر اسے نخلِ بے میوہ اور چراغِ بے نور محسوس ہوا۔ اس پر وہ اثر نہیں ہوا جیسا کہ تعریفی کلمات سے ہوتا ہے۔ اسے توقع تھی کہ اسے شاباشی ملے گی۔ اس کی خوب خوب پذیرائی ہوگی۔ اس لیے کہ اس کے نامے میں اس شخص کی تعریف کی گئی تھی جو مدحت سرائی کو خود بھی پسند کرتا ہے اور جس نے اپنی تحسینی و تعریفی تحریروں سے دفتر کے دفتر سیاہ کردیے ہیں۔ مختلف لوگوں کی شان میں لکھی گئیں اس کی مدحیہ تحریریں یک لخت اس کے سامنے ابھر آئیں۔ ان تحریروں میں مبالغہ آمیز جملے تھے۔ زمین و آسمان کے قلابے تھے۔ بے پر کے اڑائے گئے پرندے تھے۔ کچھ ممدوحین میں وہ رنگ و آہنگ بھی دکھائے گئے تھے جن سے ان کی شخصیت کے خد و خال خالی تھے۔ اور ایک تحریر تو ایسی ابھری جس میں مقصدِ مدحِ سرائی بیان کرتے ہوئے یہ لکھا گیا تھا:
’’آرزوئے صلہ یابی کی شورش اور عطا و بخشش کے شور انگیز تقاضے کے ساتھ عطائے وزیر اور بخششِ سلطانی کا سودا میرے سر میں سمایا ہے اور بہت سے رنگوں کو ملا کر میں نے ایک انوکھا مرقع تیار کیا ہے کہ اسے بادشاہ کی رہ گذار میں نقشِ نظارہ بنایا جائے تاکہ فرماں روائے کشورِ عقل و دانش جب اسے دیکھے تو یہ جان لے کہ اس راہ رو کی تمنا کیا ہے؟‘‘
یہ تحریر پڑھ کر اسے حیرت ہوئی، ذہن میں سوال اٹھا: دوسروں کی تعریف کرنے والے کو اپنی تعریف پسند کیوں نہیں آئی؟ ایک سوال یہ بھی ابھرا: جس کی انا اتنی اونچی ہو کہ درد کو دوا تک کا احسان گوارا نہیں، اس کے دل میں آرزوئے صلہ یابی کی شورش کیوں کر راہ پا گئی؟ سر میں عطائے وزیر اور بخششِ سلطانی کا سودا کیوں سما گیا؟ اس کی سربلند شخصیت اتنی پست کیوں ہوگئی؟ کیا یہ حرص و ہوس ہے یا تدبیرِ تحفظِ نفس؟ اس سوال کے ابھرتے ہی اس کے دیدوں میں ثنا خوانی کرنے والے شخص کی زندگی کے کچھ تاریک گوشے ابھر آئے۔ ایک لفظ بار بار اس کے دل و دماغ میں بچھو کی طرح ڈنک مارنے لگا۔ جلدی سے اس نے کاغذات کا ایک پٹارہ کھول لیا۔ بہت سارے رقعے اس کے سامنے پھیل گئے:
’’میاں! تم پنشن پنشن کیا کررہے ہو؟ گورنر جنرل کہاں اور پنشن کہاں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’تم کو پنشن کی کیا جلدی ہے؟ ہر بار پنشن کو کیوں پوچھتے ہو، پنشن جاری ہو اور میں تم کو اطلاع نہ دوں؟ ابھی تک کچھ حکم نہیں۔ دیکھو کیا حکم ہو اور کب ہو؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’پنشن کا حال کچھ معلوم ہوا ہو تو کہوں، حاکم خط کا جواب نہیں لکھتا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’بائیس مہینے بعد پرسوں کوتوال کو حکم آیا ہے کہ پنشن دار کی کیفیت لکھو کہ وہ بے مقدور اور محتاج ہے کہ نہیں۔ کوتوال نے مجھ سے چار گواہ مانگے ہیں سو کل چار گواہ کوتوالی جائیں گے اور میری بے مقدوری ظاہر کریں گے۔ تم کہیں یہ نہ سمجھنا کہ بعد ثبوتِ مفلسی، چڑھا ہوا روپیہ مل جائے گا اور آئندہ کو پنشن جاری ہوجائے گا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’رہا میرا پنشن، اس کا ذکر نہ کرو، اگر ملے گا تو تم کو اطلاع دی جائے گی۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’دیکھا، اس پپنشنِ قدیم کا حال؟ میں تو اس سے ہاتھ دھوئے بیٹھا ہوں لیکن جب تک جواب نہ پاوں، کہیں اور کیوں کر چلا جاوں؟‘‘
دل و دماغ میں چبھنے والے اس ایک لفظ میں زندگی کے بہت سارے تلخ حقائق کا زہر گھلا ہوا تھا۔ اس میں کسی کی شخصیت کی پامالی کے ساتھ ساتھ اس کے حال کی کنگالی، ماضی کی بدحالی اور مستقبل کے اندیشہ ہائے دور دراز کی صورت بھی منعکس ہوگئی تھی۔ وقت کی ستم شعاری، حالات کی گراں باری، صاحب بہادر کی خوئے خود مختاری اور شاعرِ خستہ کی خستگی، بے کسی و لاچاری، سبھی کچھ عیاں ہوگیا تھا۔
خطوں کو الٹتے پلٹتے وقت کچھ اور جملے بھی تیر کی طرح دیدوں میں گڑ گئے:
’’یہ میرا حال سنو کہ بے رزق جینے کا ڈھب مجھ کو آگیا ہے۔ اس طرف سے خاطر جمع رکھنا۔ رمضان کا مہینہ روزہ کھا کھا کر کاٹا، آئندہ خدا رازق ہے، کچھ اور کھانے کو نہ ملا تو غم تو ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’میاں کیا باتیں کرتے ہو؟ میں کتابیں کہاں سے چھپواتا؟ روٹی کھانے کو نہیں، شراب پینے کو نہیں، جاڑے آتے ہیں۔ لحاف توشک کی فکر ہے، کتابیں کیا چھپواوں گا۔‘‘
اس کی پتلیوں میں پیڑا سما گئی۔ آنکھیں گیلی ہوگئیں۔ جیسے عبارتوں کی پٹاری کے سانپ نے اپنا پھن پھیلا کر اسے ڈس لیا ہو۔
اس کی سمجھ میں آگیا کہ انا پرست انسان آرزوئے صلہ یابی کی شورش اور عطا و بخشش کے شور انگیز تقاضے کی انی کی زد میں کیسے اور کیوں کر آگیا؟ طائرِ لاہوتی دامِ خوشامد میں کیسے پھنس گیا؟ مگر اس کے خط میں کچھ اور بھی پیچیدہ مطالب تھے جن کا کھلنا ابھی باقی تھا۔
نامے پر اس نے دوبارہ نظریں جمادیں، کچھ اور مناظر ابھر آئے۔ شعر و سخن کا ایک مختصر سا دیوان بھی ابھرا جس کے ایک ایک لفظ میں گنجینۂ معانی کا طلسم بند تھا۔ چھوٹے چھوٹے لسانی کوزوں میں تخلیقی سمندر سمٹ آئے تھے۔ محض ایک نقش میں دشتِ امکاں کا سفر طے پا گیا تھا۔ جس کے حرف و صوت میں گلشنِ نا آفریدہ کا رنگ تھا۔ گرمیِ نشاطِ تصور کی نغمہ سنجیاں تھیں، حیرت و استعجاب میں ڈالنے والی آب و گل کی نیرنگیاں تھیں۔ ساتھ ہی سیکڑوں صفحات پر پھیلے ہوئے ضخیم دیوان بھی وا ہوئے جو آنکھوں کے پاس آکر بھی نظروں سے دور رہ گئے، جن کے بیش قیمت تخلیقی موتی بھی طوالت کے ملبے میں دب کر رہ گئے۔ اپنی آب و تاب کھو بیٹھے۔
آسمان پر پرواز بھرنے والا وہ کبوتر بھی نظر آنے لگا جس کے پاؤں میں ایک بھاری بھرکم رقعہ بندھا تھا اور جو دبیز رقعے کے دباو کے سبب رہ رہ کر لڑکھڑا پڑتا تھا۔ اس کی لڑکھڑاہٹ دیکھ کر کئی بار اس اندیشے نے سر اٹھایا کہ کہیں کبوتر راستے میں نہ گر جائے اور خط کا مضمون ضائع ہوجائے۔
اس کی سمجھ میں یہ بھی آگیا کہ اس کا ممدوح اس کے طویل تعریفی خط سے خوش کیوں نہیں ہوا اور شاباشی دینے اور تحسینی کلمات لکھنے کے بجائے اس نے یہ کیوں لکھا؟
’’چاہتا ہوں کہ کم سے کم لفظوں میں اپنی بات کہہ دوں اور تحریر کو تقریر کا آئینہ بنا دوں۔‘‘
اور اس کے ان جملوں:
’’غور کرو میں کیا کہہ رہا ہوں؟ میرا مقصد کیا ہے؟ اور تم کو اس سلسلے میں کیا کرنا ہے؟‘‘
کا اشارہ بھی مل گیا اور اس کے مختصر دیوان کے ایجازی اعجاز کا راز بھی کھل گیا۔ اطمینان کا رنگ اس کے چہرے پر ابھر آیا۔ انگلیوں نے قلم پکڑ لیا:
’’قبلہ!
آ پ کا خط پڑھ کر ذہن و دل پر تفکر کے بادل گھر آئے مگر پھر چھٹ گئے۔ مطلع صاف ہوگیا۔ آپ کے اشاروں میں یہ عکس بھی منعکس ہوا کہ اظہار و ابلاغ کی حقیقت کیا ہے؟ تحریر میں ایجاز کا جادو کیسے جاگتا ہے؟ طوالت سے کیا کیا بگڑتا ہے اور اختصار سے کیا کیا بنتا ہے؟ آپ کا یہ خط جامِ جمشید بن گیا ہے جس میں حیات و کائنات کے رازِ سربستہ کھلنے لگے ہیں۔ زندگی کے اسرار و رموز ابھرنے لگے ہیں؎
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
عشوہ و غمزہ و ادا کیا ہے
ان سوالوں کے جواب ملنے لگے ہیں۔ آپ کی اس مختصر سی عبارت:
’’میرا حال سوائے میرے خدا اور خداوند کے کوئی نہیں جانتا۔ آدمی کثرتِ غم سے سودائی ہوجاتے ہیں۔ عقل جاتی رہتی ہے۔ اگر اس ہجومِ غم میں میری قوتِ متفکرہ میں فرق آگیا ہو تو کیا عجب ہے؟ بلکہ اس کا باور نہ کرنا غضب ہے۔ پوچھو کہ غم کیا ہے؟ غمِ فراق، غمِ رزق، غمِ عزت، غمِ مرگ۔‘‘
میں آپ کی شخصیت کے نشیب و فراز، ہونے والے تغیر و تبدل، زندگی کے پیچیدہ مطالب، سنگین مسائل، درد و غم، رنج و الم سبھی کچھ سمٹ آیا ہے۔ اس سے یہ راز بھی کھل رہا ہے کہ سمندر کو کوزے میں کس طرح بند کیا جاتا ہے؟
معترف
سید
خط مکمل کرکے اس نے تالیوں کی آواز کے ساتھ منہ سے کچھ مخصوص آوازیں بھی نکالیں۔ آواز سن کر خلا میں چکّر کاٹتا ہوا کبوتر دوبارہ اٹاری پر اتر آیا۔ پھر سے ایک رقعہ پاؤں میں بندھ گیا۔ رقعہ لے کر کبوتر اڑا اور دوسرے شخص کی اٹاری پر جا اترا۔
پاوں سے نامہ کھلا۔ سرمۂ تحریر آنکھوں میں گھلا۔چہرے پر طمانیت کا رنگ چڑھ گیا۔ اسے محسوس ہوا جیسے اس کے ا ندازِ بیاں کا معنی اذہانِ عالم پر کھل گیا۔ اس کا ادائے خاص والا نکتہ یارانِ نکتہ داں کے لیے صلائے عام بن گیا۔
اس کے نغمہ ہائے غم کو سن لیا گیا ۔ قصیدہ قلمبند کرنے والے خامۂ خوں چکاں اور فگار انگلیوں کے درد و کرب کو محسوس کر لیا گیا۔ خونِ جگر ہونے تک اس کے دل کا رنگ چشم جہاں بینا کو دکھائی دے گیا۔
اس نے کبوتر کے پروں پر انگلیاں پھیریں اور اس بار اس کے پاؤں میں کچھ باندھے بنا ہی اسے اوپر اڑا دیا۔
***
غضنفر کی گذشتہ نگارش: کالو کا درد، کرشن کا دل

شیئر کیجیے

One thought on “آئینہ

  1. طویل عرصے کے بعد لاجواب ،دلچسپ اور اپنی زبان کی حلاوتوں کا احساس کراتی ہوئی بہت ہی شاندار تحریر پڑھنے میں آءی، میرے پاس تعریف کے لئے الفاظ نہیں ہیں ، اشتراک ، آپ کا شکریہ ، غضنفر صاحب آپ کی صحت وسلامتی کے لیے دعائیں ،

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے