زاہد علی خان اثر کا نثری اسلوب

زاہد علی خان اثر کا نثری اسلوب

محمد اشرف یاسین
(ریسرچ اسکالر، دہلی یونی ورسٹی، دہلی)

زاہد علی خان اثر کے نثری اسلوب پر براہِ راست گفتگو کرنے سے پہلے مناسب یہی ہے کہ ہم لفظ "اسلوب" کی لغوی و اصطلاحی تعریفوں کو جان لیں تاکہ ہم زاہد علی خان اثر کے نثری اسلوب سے کما حقہ لطف اندوز ہوسکیں۔ آکسفورڈ انگلش ڈکشنری کے مطابق اسلوب کے لغوی معنیٰ ہیں؛ لکھنے کا طریقہ، بڑے سیاق میں اظہار کا طریق کار، جب کہ اس کی اصطلاحی تعریف، گائی۔ این ۔ یو کاک کے مطابق یہ ہے کہ :
"جب اسلوب کی مکمل تشکیل ہو جاتی ہے، تب وہ مصنف کی شخصیت کا ایک حصہ بن جاتا ہے۔ اور وہ آپ کو کھول کر دوسرے کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ موضوع بھلے ہی آپ کو پسند نہ ہوں، لیکن اسلوب تو بس آپ ہی میں۔ آپ کی دل چسپی، آپ کی تعلیم اور قلمی صلاحیت، آپ کا اخلاق اور سیرت۔ یہ سب کے سب آپ کے قلم سے نکل پڑتے ہیں اور کاغذ کے صفحے پر آپ جہاں چاہیں جم سکتے ہیں۔ اگر آپ کو اس میں شبہ ہو تو کسی ایک ایسا پرانا لفافہ لیجیے، جس پر پتہ لکھا ہو اور دیکھیے کہ آپ نامعلوم مصنف کی صرف لکھاوٹ یا تحریر دیکھ کر کتنا کہنے میں کامیاب ہیں۔۔۔۔جب اپنے خیالات کو اپنے ہی لفظوں میں بیان کرتے ہیں، تب آپ قاریوں کے لیے گویا اپنے دماغ کے انعکاس ہی کھول کر رکھ دیتے ہیں۔"
(اسلوب اور اسلوبیات: طارق سعید، صفحہ نمبر 173-174)
طنز و مزاح کے عمومی طور پر پانچ فنی حربے پائے جاتے ہیں۔ جنھیں ہم موازنہ (Comparison)، زبان وبیان کی بازی گری، مزاحیہ صورتِ واقعہ (Humorous Situation)، مزاحیہ کردار (Humorous Character) اور پیروڈی یا تحریف وغیرہ کے نام سے جانتے ہیں۔ سبھی مزاح نگاروں کی طرح زاہد علی خان اثر نے بھی ان فنی حربوں سے بہت کام لیا ہے۔
زاہد علی خان اثر نے اپنی نثر میں بھی قافیہ پیمائی سے کام لیتے ہوئے مزاح پیدا کیا ہے۔ جیسے پالن، سالن، چھا جاتے ہیں، پا جاتے ہیں، سبک دوش، سبک اسٹیج، مفلس، مخلص، اصلی، نسلی، صیاد، جلاد، پختہ، ریختہ، محترم، معظم، شریف، نظیف، شرافت، شرارت، لطافت، نزاکت، بالغ، نابالغ، جوان، کسان، عوام، غلام، ضعیف، عفیف، نحیف، ظریف، لیاقت، نزاکت، منصب، مکتب، مشغولیات، مصروفیات، ترنم، تکلم، تبسّم، قامت، ضخامت، جسامت، قدامت، عشرت، عسرت، تنگ دستی، بالا دستی، سینہ، کینہ، خزینہ، قطعات، رباعیات، لغویات، ہجویات، فضولیات، کلیات، گور کن، کان کن، ججمانی، منمانی، کابل، قابل وغیرہ.
زاہد علی خان اثر کے انشائیوں اور خاکوں کے مطالعے کے دوران مجھے بہت سے ایسے جملے نظر آئے، جنھیں پڑھ کر مشتاق احمد یوسفی کی یاد تازہ ہوگئی۔ محض مثال کے لیے یہاں چند جملے پیش کیے جاتے ہیں۔
(1) لوگوں کو بیل بوٹوں اور پرنٹ والے کپڑے پہنتے نہیں دیکھا، میں تو اپنی پان خوری اور وہ بھی بسیار خوری سے، اپنے کپڑوں پر روز نئے نئے بیل بوٹے اور پرنٹ خود ہی بناتا رہتا ہوں۔
(2) میری دوستی کا حلقہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ اس کی وجہ دوستوں کی ایک دوسری قسم بھی ہے، جنھیں میں ”بالواسطہ دوست“ کہہ سکتا ہوں۔
(3) آج لالہ خوشی رام جیسے خوش مزاج، خوش مذاق، خوش اخلاق، انسانوں کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ آج کی دنیا میں ہر طرف نفرت، غرور، گھمنڈ، افراتفری اور فریب کا بول بالا ہے۔
(4) کچھ خاص لوگوں کو کچھ خاص قسم کی خوشبوؤں، بدبوؤں، پھولوں اور پھلوں تک سے الرجی ہوتی ہے۔
(5) ڈنڈی مارنا ایک ایسی عادت ہے جو بچپن سے لے کر بڑھاپے تک عمر کے کسی بھی حصے میں پڑ جاتی ہے اور "چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی" کے مصداق چولی دامن کے ساتھ ساتھ رہتی ہے۔
سید سعید سہروردی (سابق ڈائریکٹر، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی) نے زاہد علی خان اثر کی خاکہ نگاری پر گفتگو کرتے ہوئے بہت مناسب اور معتدل رائے پیش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
"زاہد علی خاں اثر کی خاکہ نگاری کا سب سے زیادہ جاندار پہلو یہی ہے کہ وہ معمولی کرداروں کا غیر معمولی پہلو بھانپ لیتے ہیں اور اسے اپنے مخصوص شگفتہ انداز میں بیان کرنے کی انوکھی اور بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔" (آئینہ در آئینہ، صفحہ نمبر 08)
زاہد علی خان اثر کی تحریروں کی شناخت ان کی ارضیت، اپنی زمین سے گہری وابستگی، قصباتی الفاظ، اپنے گرد و پیش کا گہرا مشاہدہ، ان کا روز مرہ ہے، اسی مطالعہ و مشاہدہ نے ان کے قلم کی رہ نمائی کی ہے اور ان کے فنی سفر میں، ان کے مشاہداتی شعور نے ان کو روشنی دکھائی ہے۔ مثال کے لیے اس زمرے میں ان کی کئی تحریروں کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ جیسے مقصودن بُوا، نواب راشی علی خان اور لالہ خوشی رام وغیرہ
ان کی دونوں کتابوں میں شامل مختلف شعرا کے اشعار اور پیروڈیاں تحریر میں بالکل اسی طرح سے پیوست ہیں، جیسے انگوٹھی میں نگینہ پیوست ہوکر انگوٹھی کے حسن کو دو چند کر دیتا ہے۔ میں نے اس مضمون کی طوالت سے بچنے کے لیے اشعار کی مثال بہت ہی کم پیش کی ہے۔
چمکنے سے جگنو کے، تھا اک سماں
زمیں پر اڑیں جیسے چنگاریاں
میں نے کہا کہ بزمِ ناز چاہئے غیر سے تہی
سن کے ستم ظریف نے، مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں
گر ڈائری سے فائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہوں کہ میری بات سمجھنا محال ہے
زاہد علی خان اثر کے بارے میں جواہر لال نہرو یونی ورسٹی کے سابق پروفیسر اسلم پرویز نے بہت ہی مناسب رائے پیش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
"زاہد علی خاں اثر اردو کے کوئی باقاعدہ ادیب نہیں ہیں۔ وہ کوئی صاحبِ طرز بھی نہیں۔ انھوں نے اس کتاب (آئینہ در آئینہ) میں جو کچھ لکھا ہے اس کی حیثیت دراصل ایک ثقافتی دستاویز کی سی ہے، اور یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اگر دستاویز میں عبارت آرائی سے کام لیا جائے تو اس سے دستاویز کا استناد مجروح ہوتا ہے۔" (آئینہ در آئینہ، صفحہ نمبر 10)
پروفیسر اسلم پرویز کی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے میرا بھی یہی ماننا ہے کہ زاہد علی خان اثر کوئی صاحبِ طرز ادیب نہیں ہیں۔ اس لیے ان کی تحریروں میں ادبیت تلاش کرنا عبث ہے اور نہ ہی یہ کوئی صاحبِ اسلوب ہیں، جن کی تخلیقات کا اسلوبیاتی مطالعہ کی بہت زیادہ ضرورت ہو، لیکن ہاں ثقافتی نقطۂ نظر سے ان کی تحریروں کو بہت اہمیت حاصل ہے۔
حوالہ جات :
1- آئینہ در آئینہ : زاہد علی خان اثر، عفیف پرنٹرز، گلی قاسم جان، دہلی،06، 2002ء
2- تاک جھانک : زاہد علی خان اثر، یونین پرنٹنگ پریس، دہلی، مئی 2011ء
3-اسلوب اور اسلوبیات: طارق سعید، صفحہ نمبر، ایجوکیشنل، پبلیکیشن ہاؤس، لال کنواں دہلی، 1996ء
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:زاہد علی خان اثر کی انشائیہ نگاری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے