تذکرہ: سلام بن رزاق

تذکرہ: سلام بن رزاق

محمد علیم اسماعیل
رابطہ: 8275047415

میرا ایک افسانہ جس کا عنوان ’انتظار‘ ہے۔ روزنامہ انقلاب کے ادبی صفحے ’ادب نما‘ میں 19 مارچ 2018 میں شائع ہوا تھا۔ افسانہ پسند کیا گیا. کچھ دوستوں نے میسج کر کے مبارکباد دی تو کچھ نے موبائل پر کال کر کے۔ اسی دن تقریباً صبح 10 بجے وسیم عقیل شاہ کا فون آیا۔ وسیم نے کہا کہ ’’انقلاب میں تمھارا افسانہ سلام صاحب نے پڑھا اور مجھ سے تمھارا موبائل نمبر لیا، شاید وہ تم کو کال کریں گے۔‘‘ یہ سن کر میں بے چین ہو اٹھا اور سوچنے لگا کہ جب سلام بن رزاق کی کال آئے گی تو میں کیا بات کروں گا اور کیسے بات کروں گا!!! میں اسی ادھیڑ بن اور سوچ و فکر میں گم تھا کہ مجھے ایک نئے نمبر سے کال آئی۔ میں نے کال ریسیو کی تو پتا چلا کہ وہ کسی کمپنی کی کال ہے۔
میں سلام صاحب کی کال کا انتظار کرتا رہا لیکن صبح 10 بجے سے لے کر دوپہر کے 2 بجے تک کوئی کال نہیں آئی۔ 2 بجے تک میں نے موبائل کو خود سے چپکائے رکھا۔ 2 بجے کے بعد میں یہ سوچنے لگا کہ سلام بن رزاق اتنے بڑے افسانہ نگار آخر مجھے کال کیوں کریں گے!! اور میں نے موبائل کو اپنے سے دور کرتے ہوئے چارجنگ پر لگا دیا۔ فون چارجنگ پر لگانے کے تقریباً 10 منٹ بعد پھر ایک نئے نمبر سے کال آئی۔ میں نے کال ریسیو کی۔ دوسری جانب سے آواز سنائی دی، ’’میں سلام بن رزاق بول رہا ہوں۔‘‘ اس وقت کیا باتیں ہوئیں، مکمل گفتگو تو مجھے یاد نہیں لیکن سلام صاحب نے افسانے کی تعریف کی تھی۔ ان کے کچھ جملے جو اُس وقت میں نے اپنے موبائل میں ریکارڈ کر لیے تھے اس طرح ہیں۔
’’تمھاری کہانی ’انتظار‘ پڑھی، کہانی مجھے بہت اچھی لگی۔ تم نے ایک ٹیچر کے کرب کو جس طرح بیان کیا ہے وہ ایک ٹیچر ہی کر سکتا ہے۔ چونکہ میں بھی ٹیچر رہ چکا ہوں اس لیے مسائل کو سمجھ سکتا ہوں۔ حالانکہ ہم اتنے سنگین مسلئے سے نہیں گزرے لیکن اس کے باوجود آج کے مسائل کی گہرائی کو سمجھ سکتے ہیں۔ زبان و بیان بھی ماشاءاللہ اچھا ہے تمھارا۔ اللہ تمھیں اچھا رکھے۔‘‘
افسانہ ’انتظار‘ ایک نان گرانٹ اسکول پر کام کرنے والے ٹیچر کی کہانی ہے، جو اسکول کو گرانٹ ملنے سے پہلے ہی ریٹائرڈ ہو جاتا ہے۔
سلام بن رزاق سے یہ میری پہلی دفعہ بات ہو رہی تھی۔ لیکن اس کے بعد وقفے وقفے سے گفتگو ہوتی رہی۔ میں نے اپنی کچھ کہانیاں انھیں واٹس ایپ پر بھیجی تھیں اور انھوں نے کال کر کے ان کہانیوں کے متعلق مشورے بھی دیے تھے۔
میرے ایک دوست سید اسماعیل گوہر کو 2020 میں اساتذہ کی تنظیم آئیٹا کی میٹنگ میں ممبئی جانا تھا۔ انھوں نے مجھے بھی ساتھ لے لیا۔ ممبئی پہنچنے کے بعد یوں ہوا کہ سید اسماعیل گوہر میٹنگ میں مصروف ہو گئے اور میں وسیم عقیل شاہ کے ساتھ سلام بن رزاق کے گھر پہنچ گیا۔ اس طرح 2 فروری 2020 کو سلام صاحب سے میری بلا واسطہ ملاقات ممبئی میں ان ہی کے گھر پر ہوئی۔ تقریباً ایک گھنٹہ بڑی خوش گوار گفتگو ہوئی۔ ادب پر بے سمت و رفتار چرچا ہوا۔ ساتھ ہی ساتھ ناشتہ اور چائے کا دور چلتا رہا۔ انھوں نے کئی نصیحتیں کیں۔ موصوف جتنے بڑے قلم کار تھے اتنے ہی ملنسار اور مخلص انسان بھی تھے۔ انھوں نے میرا استقبال اس طرح کیا کہ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میں کوئی بہت بڑا فن کار ہوں۔ حالانکہ میں ایک ادنیٰ قلم کار کی حیثیت سے اُن سے مل رہا تھا۔ انھوں نے مجھ سے اور وسیم عقیل شاہ سے کہا کہ ’’تم دونوں سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔‘‘ موصوف کی اہلیہ نے بھی ہم دونوں کو خوب دعاؤں سے نوازا۔
کورونا وبا کے زمانے (سنہ2020) میں جب حکومت کی جانب سے مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تب ایک واٹس ایپ گروپ ’بزم افسانہ‘ کی تشکیل ہوئی۔ جس میں سلام بن رزاق گروپ کے سرپرست تھے اور وہ آخری دم تک سرپرست بنے رہے۔ یہ میرے لیے بھی خوش قسمتی کی بات ہے کہ ان کی سرپرستی میں بہ طور ایڈمن گروپ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ’بزم افسانہ‘ کی تشکیل کے بعد سلام بن رزاق سے رابطہ اور بھی زیادہ بڑھ گیا۔ اب میں انھیں اور وہ مجھے کسی بھی وقت کال کرتے تھے۔ ’بزمِ افسانہ‘ کی وال پر پیش ہونے والے میرے بہت سے افسانوں پر انھوں نے اظہار خیال کیا۔ اپنے افسانوں پر ان کے تاثرات میں نے محفوظ کر لیے ہیں کیونکہ ان کے الفاظ سند سے کم نہیں۔
سلام بن رزاق کی پیدائش 15 نومبر 1941 کو مہاراشٹر کے پنویل میں ہوئی۔ چھ یا سات برس کے ہی تھے کہ ماں کا انتقال ہو گیا۔ پھوپی نے پرورش کی۔ بچپن غربت اور محرومی میں گزرا۔ علاقے میں اردو میڈیم اسکول نہ ہونے کے سبب مراٹھی میڈیم اسکول میں داخلہ لیا۔ گھر پر کوئی ادبی ماحول نہ تھا۔ مطالعے کے شوق نے ادبی ذوق کو پروان چڑھایا۔ ادبی سفر کی شروعات شاعری سے کی۔ داستانیں، تاریخی ناول اور جاسوس ناول پڑھتے پڑھتے نثر نگاری کا سلیقہ آ گیا۔ پہلا افسانہ ’رین کوٹ‘ 1962 میں لکھا جو ماہنامہ ’شاعر‘ میں شائع ہوا۔ درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے۔ بی. ایم. سی کی مختلف اردو اسکولوں میں 35 برس تک تدریسی خدمات انجام دی اور 1999 میں پرنسپل کے عہدے سے سبک دوش ہوئے۔ 7 مئی 2024 بروز منگل تقریباً صبح ساڑھے نو بجے اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ اُس وقت وہ سانپاڑا نیو ممبئی میں اپنی بیٹی کے گھر تھے۔ انتقال سے ایک گھنٹہ پہلے ناشتہ طلب کیا، ناشتہ کرنے کے بعد سو گئے۔ ایک گھنٹہ بعد جب انھیں نیند سے جگایا گیا تو وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔
سلام بن رزاق کو عام آدمی کا خاص کہانی کار کہا جاتا ہے۔ وہ اردو کے قد آور افسانہ نگار تھے۔ انھوں نے اُردو ادب کو کئی شاہ کار افسانے دیے۔ ان کا شمار 70 کی نسل کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے لیکن اکیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں بھی ان کا قلم پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوا۔ جدیدیت کے زیر اثر ان کی افسانہ نگاری کی شروعات ہوئی۔ استعاراتی، علامتی افسانوں کے ساتھ ساتھ انھوں نے بیانیہ افسانے بھی تخلیق کیے۔ ان کے چار افسانوی مجموعے، معبّر، ننگی دوپہر کا سپاہی، شکستہ بتوں کے درمیاں اور زندگی افسانہ نہیں، منظرِ عام پر آئے۔ آخری دو مجموعے، شکستہ بتوں کے درمیاں 2001 میں اور زندگی افسانہ نہیں 2010 میں یعنی اکیسویں صدی میں شائع ہوئے۔ جس میں بیانیہ افسانوں کی تعداد زیادہ ہیں۔ نہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ، موضوع اور فن کا خیال رکھتے ہوئے انھوں نے مکمل فن پارے تخلیق کیے۔
سلام بن رزاق نے حاشیائی سماج کی کہانیاں لکھیں اور اپنے دل کش اسلوب اور زبان و بیان سے قارئین کو متاثر کیا۔ ان کے یہاں بیانیہ میں تہہ داری پائی جاتی ہے۔ ان کے افسانوں میں شہر اور دیہات دونوں کے مسائل موجود ہیں۔ ممبئی کی ظاہری چمک دمک اور پوشیدہ غلاظت و کثافت کی مصوری انھوں نے اس مہارت سے کی ہے کہ سبھی منظر نظروں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔ سلام بن رزاق نے ’شکستہ بتوں کے درمیاں‘ کے کچھ افسانے اور ’زندگی افسانہ نہیں‘ کے سبھی افسانے اکیسویں صدی میں ہی تخلیق کیے۔ مجموعہ ’زندگی افسانہ نہیں‘ کے بعد انھوں نے پانچ افسانے لکھے۔ جو اس طرح ہیں، نارد نے کہا (نیادور)، ایک بھولی بسری کہانی (آجکل)، یہ دھواں سا (آجکل)، راستہ (ایون اردو)، مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس (بیباک)، ابن مریم ہوا کرے کوئی (نیا ورق)۔ افسانہ، ترجمہ، بچوں کا ادب، تجزیہ اور مضامین، پر مشتمل ان کی کل 14 کتابیں منظر عام پر آئیں۔ مرکزی ساہتیہ اکادمی نے انھیں دو دفعہ، تخلیقی ادب اور ترجمے کے لیے ایوارڈ سے نوازا۔ انجام کار، آوازِ گریہ، ننگی دوپہر کا سپاہی، ندی، باہم، ابراہیم سقہ، ایکلویہ کا انگوٹھا، وغیرہ ان کے نمائندہ افسانے ہیں۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :افسانوں کی بستی کا باشندہ علیم اسماعیل

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے