نگری نگری پھرتے مسافر کا رستہ پہنچا منزل تک!

نگری نگری پھرتے مسافر کا رستہ پہنچا منزل تک!

(خواجہ نسیم اختر کی میراجی شناسی: میراجی کے ادبی سروکار: کتاب کے تناظر میں)

تبصرہ و تجزیہ: ایم آئی ظاہر
رابطہ: 8112236339

اردو شاعری میں ہر شاعر کی اپنی اہمیت ہے۔کسی بھی شاعر کا دوسرے شاعر سے موازنہ نہیں کرنا چاہیے، لیکن تنقید کے میزان میں ناقدین نے انھیں اپنے پیمانوں پر اپنے نظریے سے دیکھا، پرکھا اور سمجھا ہے۔ یہاں ہم جس شاعر کی بات کر رہے ہیں وہ ہیں‌اردو کے جدید حسّیت کے شاعر میراجی۔ اردو کے دو بڑے ناقدین شمس الرحمٰن فاروقی اور شین کاف نظام نے میرا جی کو صف اول کا عظیم شاعر ثابت کیا ہے۔ فاروقی اپنے مضمون: "میرا جی سو برس کی عمر میں" لکھتے ہیں:
"حقیقت تو یہ ہے کہ اقبال کے فوراً بعد شعرا کی جو غیر معمولی نسل ہمارے لیے افق پر نمایاں ہوئی، اس میں پانچ سربرآوردہ ناموں میں میراجی سرفہرست ہیں. میں یہ بات کئی بار کہہ چکا ہوں اور آج بھی کہتا ہوں کہ اقبال کے فوراً بعد آنے والے پانچ بڑے شعرا کی ترتیب میں میراجی سب سے اوپر ہیں۔ پھر راشد، ان کے بعد اخترالایمان، پھر مجید امجد اور سب سے بعد میں فیض ہیں۔ میں یہ بات دو وجہوں سے کہتا ہوں، ایک معمولی وجہ تو یہ ہے کہ میرا جی نے اپنے بعد کے شعرا نقادوں اور افسانہ نگاروں پر جو اثر ڈالا، وہ اس کے ساتھیوں کے اثر سے زیادہ وسیع اور پائیدار تھا۔ میرا جی کے بغیر جدید ادب کو قائم اور مستحکم ہونے میں بہت دیر لگتی. فیض صاحب کا کلمہ سب پڑھتے ہیں لیکن جو لوگ شعر کو فن اور علوئے ذہن کا اظہار سمجھتے ہیں اور شاعری کی بڑائی اس بات سے دیکھتے ہیں کہ اس کے یہاں موضوعات اور تجربات کی وسعت کتنی ہے اور اس نے شعر کی ہیئت کے نئے امکانات کو کہاں دریافت اور وسیع کیا، وہ بہ خوبی جانتے ہیں کہ میرا جی کا کارنامہ ہمارے عہد میں بے مثال ہے اور یہ دوسری وجہ ہے، جس کی بنا پر میرا جی کو اس زمانے کے بڑے شعرا میں سر فہرست رکھتا ہوں۔"
شین کاف نظام نے اپنے تحقیقی اور تنقیدی مضامین اور بیشتر کلیدی خطبوں میں میراجی کو بڑا شاعر ثابت کیا ہے اور وہ اکثر اس بات کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ نظام نے میراجی کو اردو کے علاوہ دیوناگری رسم الخط کے ذریعہ ہندی کے قاری تک بھی پہنچایا ہے۔ انھوں نے "اس پار کی شام" عنوان سے ہندی کے سیتو پرکاشن کے ذریعہ میرا جی کا انتخاب کلام دیوناگری میں ترتیب دیا ہے. اس کتاب میں وہ کہتے ہیں:
"میری یہ خواہش تھی کہ دیوناگری میں اردو شاعری پڑھنے والے میراجی سے متعارف ہوں۔ میرا جی کے لیے شاعری پڑھنے والے سے زیادہ تہذیبی ذمہ داری تھی۔وطن ان کےنزدیک جغرافیہ نہیں، مہذب ہونے کا تہذیب یافتہ وسیلہ تھا۔"
اب مغربی بنگال کے شہر نشاط کلکتہ سے تعلق رکھنے والے معروف محقق اور نقاد خواجہ نسیم اختر کی کتاب "میراجی کے ادبی سروکار" کی ورق گردانی کرنے پر ہم پاتے ہیں کہ 9 ابواب پر مشتمل تحقیق اور تنقید کی یہ اہم کتاب میرا جی کی شاعری اور ان کی دیگر اصناف کی تحاریر کے حوالے سے انھیں مجموعی طور پر ایک خوب صورت، تازگی سے لبریز اور منفرد نظریہ کے ہمہ جہت فن کار کے روپ میں پیش کرتی ہے۔ ندا فاضلی کا ایک شعر ہے :
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
خواجہ نسیم اختر نے میرا جی کو ان کی تحاریر کے حوالے سے انھیں کئی بار دیکھا ہے۔ اس کے بعد یہ کتاب قاری سے بار بار صرف یہ بات کہتی ہے کہ میرا جی ایک اچھے اور عظیم تخلیق کار ہیں اور انھیں ان کے بارے میں پھیلی ہوئی منفی باتوں کے برعکس صرف اور صرف ایک بہترین شاعر کے طور پر ہی دیکھنا چاہیے۔ اس کتاب میں شامل ابواب کے انتخاب میں بھی اس نکتہ نظر کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ جب ہم یہ کتاب پڑھتے ہیں تو پاتے ہیں کہ خواجہ نسیم اختر نے میراجی کی زندگی کے بارے میں اب تک بکھرے ہوئے اوراق کو نہ صرف یکجا کیا ہے، بلکہ طویل حوالوں کے ذریعہ نہ صرف تجزیہ کیا ہے، بلکہ یہ احاطہ بھی کیا ہے کہ میراجی کو ان امیجز کی روشنی میں نہیں دیکھنا چاہیے، جو باتیں ان کی شاعری کے بجائے ان کے بارے میں کہی یا پھیلائی گئی منفی باتوں پر مبنی ہیں۔ اس طرح یہ کتاب ایک نیا میراجی سامنے لانے میں کامیاب رہی ہے۔ مثال کے طور پر ایک باب میں وہ محمود ہاشمی کو کوٹ کرتے ہیں:
"آنے والی نسل میراجی کے اسلوب کو، میراجی کے طرز احساس و میراجی کے ‌نظریہ شعر کو قبول کرتی ہے اور "علامہ" کا اثر ان کے اپنے Arena سے باہر نہیں نکل پاتا۔علامہ ایک پر وقار یادگار نقش بن جاتے ہیں اور میراجی آنے والوں کا ہم سفر ہے۔ بیسویں صدی کی چار دہائیاں ماضی کی صدیوں پر بھاری ہیں، لیکن میراجی ہنوز نئے آنے والوں کا ہم سفر ہے۔"
اسی طرح وہ "جدید اردو اردو نظم: پس منظر پیش منظر اور نئی شعری جمالیات" باب میں تحقیقی اور تنقیدی تجزیہ کر کے یہ یہ نتیجہ برآمد کرتے ہیں کہ میراجی کی شاعری میں جمالیاتی حسن نظر آتا ہے۔ میرا جی شناسی کے مراحل طے کرتے ہوئےخواجہ نسیم اختر "حلقہ ارباب ذوق اور میرا جی" باب میں کچھ یوں رقم طراز ہوتے ہیں:
"میرا جی کا اصل اساسی نظریہ یہ ہے کہ شعر و ادب نہ صرف زندگی کی ترجمانی ہے، بلکہ زندگی کا تہذیبی تزکیہ بھی ہے اور تنقید میں میرا جی کی انفرادیت اس نکتہ پر قائم ہے کہ انھوں نے نہ صرف نظریہ سازی کی، بلکہ عملی اطلاق سے شعرا کی تخلیقات کے جانچنے کا شور بھی پیدا کیا۔ میرا جی کی کتاب "اس نظم میں" جدید شاعری کی تفہیم اور اس کے حوالے سے بنیادی وظیفہ کی حیثیت رکھتی ہے."
خواجہ نسیم اختر نے "میرا جی کی نظمیں اور مختلف تجربوں کا منظرنامہ" باب میں بیسویں صدی کی فکری تحریکوں کا ذکر کرتے ہوئے میرا جی کی نظموں کی خوب صورتی اور خصوصیات پر کچھ یوں روشنی ڈالی ہے:
"میرا جی نے اپنی غیر معمولی ذہانت و فطانت سے نہ صرف جدید اردو نظم میں مختلف طرح کے موضوعات اور ہییت، ہر سطح پر کامیاب تجربے کیے بلکہ جدید اردو نظم کو ایک نئے ذایقہ سے روشناس بھی کرایا."
عام طور پر میرا جی کو نظموں کے حوالے سے بڑا شاعر کہا جاتا ہے، لیکن خواجہ نسیم اختر نے "میرا جی کے گیت اور غزلیں" باب میں کہا ہے:
"میرا جی نے اپنی غزلوں میں جو لفظیات اور تراکیب استعمال کی ہیں، ان میں عصری غزل کے ذایقہ کا لحاظ ملے گا اور روایتی مضامین کا اہتمام بھی۔ ان کے اشعار کا آہنگ بھی گیت کے آہنگ سے قریب تر ہے۔ ان شعروں کا اسلوب بھی ہندی اور اردو کے الفاظ کی ایک تشکیلی صورت معلوم دیتی ہے اور ایک نوع کا آمیزہ بھی."
خواجہ نسیم اختر نے اس کتاب میں میرا جی کی غزلوں، نظموں اور گیتوں کے اسلوب ہی نہیں ان کی فن ترجمہ نگاری کے حوالے سے فنی خصوصیات اور کثیر لسانی ہونے کی مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ وہ "ترجمہ کے فن کی روایت اور میرا جی کے تراجم" باب میں لکھتے ہیں: "میرا جی کے تراجم یوں تو 3 (تین) ہیں، جن کے اسماے گرامی کچھ اس طرح ہیں: (1) مشرق و مغرب کے نغمے (2) خیمے کے آس پاس (عمر خیام کی رباعیات) اور (3) نگار خانہ۔
جہاں تک "مشرق و مغرب کے نغمے" کی اشاعت کا معاملہ ہے، کتاب پہلے پہل اکادمی پنجاب لاہور نے 1957 میں شائع کی، اس کتاب میں جو مضامین شامل ہیں۔ وہ دراصل 1926 سے 1941 کے دوران قلم بند کیے گئے. اس باب میں خواجہ نسیم اختر نے میراجی کے تراجم کی خوبی بیان کرتے ہوئے یہ بھی نشان دہی کی ہے کہ انھوں نے متن کا لفظی ترجمہ کرنے کے ساتھ ساتھ خود کو اصل متن کے قریب رکھا ہے، بلکہ ضرورت اور ماحول کے اقتضا کے مطابق اصلی متن سے انحراف کیا ہے۔ خواجہ نسیم اختر نے میراجی کی فنی صلاحیتوں کا احاطہ کرتے ہوئے ان کی اسلوب نگارش پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ جس میں ریڈیو کے مطابق لکھی گئی چند اسکرپٹ، ادبی دنیا اور خیال کے اداریے نثر لطیف یا انشائیے، باتیں اور کتب پریشاں، تحریروں، خاکوں، آپ بیتی، تبصروں اور دیباچوں پر بھی توجہ مبذول کی ہے اور انھیں ایک اچھا نثر نگار بھی ثابت کیا ہے۔ اس کے لیے وہ فیض کا یہ جملہ کوٹ کرتے ہیں:
"میرا جی نے اپنے اسلوب کی تشکیل میں سادگی، وضاحت و صراحت کو جگہ دی ہے۔ پر شکوہ انداز اور تکلف سے احتراز کیا ہے، ان کی نثر میں نظم اور نثر دونوں کے آہنگ کا ایک توازن دکھائی دیتا ہے۔ ہندی الفاظ سے وقت ضرورت کام لیا ہے، لیکن اسے اپنے اسلوب میں غالب عنصر نہیں قرار دیا."
خواجہ نسیم اختر کی اس کتاب میں میراجی کی گہری ادب فہمی اور سخن فہمی کے ساتھ وسیع النظری اور دور اندیشی کو بھی "میرا جی کی انتقادی بصیرت" باب میں اجاگر کیا ہے. اس باب میں انھوں نے میراجی کی تنقیدی بصیرتوں پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ اس کے علاوہ "میرا جی کا انفراد" باب میں علامہ اقبال اور راشد کا ذکر کرتے ہوئے میراجی کی فنی انفرادیت پر بھی گہرائی سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کے علاوہ خواجہ نسیم اختراعتذار باب میں اس کتاب کے شروعات میں رقم طراز ہوتے ہیں، جو اس کتاب کی انھ کے الفاظ میں تخلیص بھی کہہ سکتے ہیں:
"میرا جی اپنے معاصرین میں نہایت زیرک اور ذہین واقع ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنی تخلیقی نگارشات میں ایک ایسے فرد کی تصویر کشی کی ہے جو ذہنی اور جذباتی کشمکش سے متصادم فرد ہے۔ میرا جی کی نظموں کے مطالعہ سے جس فرد کا ہمیں سراغ ملتا ہے اس کے اند خود اعتمادی کی کمی کا احساس بھی ہوتا ہے۔"
بہر حال خواجہ نسیم اختر "میراجی کے ادبی سروکار" کتاب میں میراجی کی فنی ادبی صلاحیتوں اور خوبیوں کو مختلف پہلوؤں اور زاویوں سے سامنے لانے میں کامیاب رہے ہیں۔ یہ کتاب پڑھنے کے بعد قاری کے سامنے میراجی کی تحریروں کے حوالے سے ایک نئی اور خوب صورت تصویر سامنے آتی ہے اور دھند کے وہ تمام بادل چھنٹتے ہوئے نظر آتے ہیں جن میں میرا جی کے بارے میں بہت سی منفی باتیں عام ہیں۔ میرا جی کا ایک شعر ہے:
نگری نگری پھرتا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا
کیا ہے‌‌ تیرا ‌ کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا
اس کتاب کی اشاعت سے ایک تاثر اور پیدا ہوا کہ میراجی کی محبت بنگال سے وابستہ تھی اور اس بار بھی ان کی عزت افزائی بنگال ہی سے ہوئی ہے۔ وہیں خواجہ نسیم اختر نے میرا جی کی فنی صلاحیتوں اور سرکاروں کی تحقیق کا ایک مسافر کی طرح طویل سفر طے کیا اور وہ میراجی نام کی منزل تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔ اس طرح یہ کتاب قاری کے لیے میراجی شناسی کے نئے در وا کرتی ہے۔ اردو ادب کے باذوق قارئین کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے.
(مبصر معروف شاعر، مصنف، صحافی برائے امور خارجہ اور کالم نگار ہیں)
کتاب کی تفصیل:
کتاب کا نام: میرا جی کے ادبی سروکار
مصنف : خواجہ نسیم اختر
صفحات: 552
قیمت : 600 روپے۔
ناشر : رعنا پبلیکیشنز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز 82, اے ڈاکٹر سدھیر باسو روڈ کلکتہ 700023
موبائل نمبر ؛ 9836033430
مصنف تعارف:
نام:محمد نسیم
قلمی نام:خواجہ نسیم اختر
تخلص:اختر
والد کا نام:خواجہ حسن امام
والدہ کا نام:زبیدہ خاتون
اہلیہ کانام:شاداب نسیم
اولاد:
۔ (1)گل رعنا(بیٹی)
۔ (2)طہٰ راشدی (بیٹا)
۔ (3)عرفات یاسر(بیٹا)
تاریخ ولادت:21 جنوری 1957ء
جائے ولادت:کولکاتا (مغربی بنگال)
آبائی وطن:گیا (بہار)
تعلیم:ایم اے (اردو)
ڈی ایس ڈبلو، پی ایچ ڈی
پیشہ:سابق ایڈیشنل لیبر کمشنر
(حکومت مغربی بنگال)
زبان:اردو
اصناف:تحقیق و تنقید
آغاز تحریر:1977ء
تصنیفات:
۔ (1)اختر الایمان: تفہیم و تشخص
۔ (2)میراجی کے ادبی سروکار
۔ (3)راشد سے ایک مکالمہ ( زیر تکمیل)
ادبی سرگرمیاں: مختلف عنوانات سے مقالے مختلف سیمیناروں میں پڑھے گئے اور مختلف رسالوں میں شائع ہوئے.
ایوارڈ:اختر الایمان:تفہیم و تشخص پر
مغربی بنگال اردو اکاڈمی کا شانتی بھٹاچاریہ ایوارڈ
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں: ڈاکٹر قمر رحمان: سائنسی افق کا ایک روشن ستارہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے