میگلومینیا اور میر تقی میر

میگلومینیا اور میر تقی میر

(مثنوی اژدرنامہ کی روشنی میں) 

حقانی القاسمی 

صوفی طبع اور پاک طینت میر محمد علی (علی متقی) کے فرزند میر تقی میرؔ اکبرآبادی (پ: فروری 1723، و: 20 ستمبر 1810) بھی اسی کائنات کے فرد تھے، جو مجموعۂ اضداد ہے۔ ان کی شخصیت اور شاعری میں بھی تضادات کی کیفیت نمایاں ہے۔ شاید یہ خاندانی تضادات کا بھی اثر ہے۔ کہیں میر تقی میرؔ خود کو عاجز ترین خلق عالم کہتے ہیں تو کہیں یہ کہتے ہیں:
ریختہ رتبہ کو پہنچایا ہوا اس کا ہے
معتقد کون نہیں میر کی استادی کا
ریختہ کاہے کو تھا اس رتبہ عالی میں میر
جو زمیں نکلی اسے تاآسماں میں لے گیا
اگرچہ گوشہ نشیں ہوں میں شاعروں میں میرؔ
پہ میرے شور نے روئے زمیں تمام کیا
ہر ورق ہر صفحہ میں ایک شعر شور انگیز ہے
عرصہ محشر کا عرصہ ہے میرے دیوان کا
میر کی تنقیدی فکر میں بھی یہی تضاد ہے۔ ’نکات الشعرا‘ میں مرزا محمد رفیع سودا کو ریختہ کا ملک الشعرا کہتے ہیں مگر بعد میں وہی میر یہ بھی فرماتے ہیں:
طرف ہونا مرا مشکل ہے میر اس شعر کے فن میں
یونہی سودا کبھو ہوتا ہے سو جاہل ہے کیا جانے
میر تنقید میں بھی ایسے ہی تضاد اور تناقض کا عکس نظر آتا ہے۔ میر کو زیادہ تر ناقدین ان اشعار کی بنیاد پر سہل ممتنع کا شاعر کہتے ہیں:
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھری اک گلاب کی سی ہے
میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
میر عمداً بھی کوئی مرتا ہے
جان ہے تو جہان ہے پیارے
عشق ایک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
ہوگا کسی دیوار کے سائے میں پڑا میر
کیا ربط محبت سے اس آرام طلب کو
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا یہ ہے
روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات
اب یہی روزگار ہے اپنا
دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
مگر میر کے یہاں مصطبہ، محبلہ، جیسے ثقیل اور عسیرالفہم الفاظ بھی ملتے ہیں۔ کچھ ناقدین میر کو یارباش اور منکسرالمزاج بتاتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ میر جنازہ بردوش نہیں تھے۔ بہ قول خواجہ احمد فاروقی ”وہ دوستوں کے ساتھ سراپا اختلاط تھے۔ ان کی محفلوں میں گرم جوشی کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ میر کا یہ وصف واقعی قابل رشک ہے کہ وہ نہایت خود دار، عزت مند، قناعت پسند تھے، جلب منفعت کی کبھی خواہش نہیں رہی، اس لیے صاحبان عالیشان کے مدحیہ قصیدوں سے گریز کیا۔ ان کی ذات میں استغناء تھا، بے نیازی تھی۔ ان کا یہ لہجہ بہت پیارا لگتا ہے:
ہو کوئی بادشاہ کوئی ہاں وزیر ہو
اپنی بلا سے بیٹھ رہے جب فقیر ہو
آگے کسو کے کیا کریں دست طمع دراز
وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے
مجھ کو دماغ وصف گل و یاسمن نہیں
میں جوں نسیم بادہ فروش چمن نہیں
مگر تذکروں اور مشاہداتی بیانوں سے پتا چلتا ہے کہ میر خلوت پسند، بد دماغ اور کج خلق تھے، ہ خود پسند تھے اور نرگسی شاعر ہی نہیں نرگسی انسان بھی تھے۔ ڈاکٹر سلام سندیلوی نے اپنی کتاب ’اردو شاعری میں نرگسیت‘ میں کیرون ہارنی کے حوالے سے لکھا ہے کہ’نرگسیت کے دائرے میں خود ستائی، غرور، طلب جاہ، جذبہ محبوبیت، دوسروں سے کنارہ کشی، خود داری، تصوریت، تخلیقی خواہشات، شدید فکر صحت وغیرہ شامل ہیں۔‘ اس طرح دیکھا جائے تو میر کے اندر نرگسیت کے بیشتر تلازمات اوصاف و عناصر موجود ہیں۔ خود کو اہم اور عظیم سمجھتے تھے اور دوسروں کو ہیچ گردانتے تھے۔ ناقصوں اور ناکسوں سے گفتگو تک انھیں پسند نہ تھی کہ مبادا زبان خراب نہ ہوجائے۔ مولوی محمد حسین آزاد کے تذکرہ ’آب حیات‘ اور سعادت خاں ناصر کے ’خوش معرکہ زیبا‘ وغیرہ سے میر کی نرگسیت، خود پسندی، خود ادعائیت کی تصدیق و توثیق ہوتی ہے۔
میر کسی کی تعریف نہیں کرتے تھے اوران کے اندر اس قدر مردم بیزاری تھی کہ وہ کسی کو شعر تک نہیں سنانا پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک بار شاہ قدرت اللہ نے شعر سنانا چاہا تو میر نے کہا کہ اپنا دیوان دریا میں ڈال دو۔ میر قمرالدین منت سونی پتی سے یہ فرمایا کہ اردوئے معلی خاص دلی کی زبان ہے، آپ اس میں تکلیف نہ کیجیے۔ اپنی فارسی وارسی کہہ لیا کیجیے۔ سعادت یار رنگین سے یہ کہنا کہ آپ کی طبیعت شاعری کے لیے موزوں نہیں، خواہ مخواہ میری اور اپنی اوقات کیا ضائع کرنی۔ اور جرأت سے یہ کہنا کہ تم شعر کہنا نہیں جانتے، اپنی چوماچاٹی کہہ لیا کرو۔ قیام لکھنؤ کے دوران میر سے منسوب یہ تمام واقعات یا افسانے اگر صحیح ہیں تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ میر کے اندر عجب و تکبر اور ناز و تبختر کی ساری علامتیں تھیں۔ کچھ بعید نہیں کہ پورب کے ساکنوں نے میر کو مطعون کرنے کے لیے یہ سارے افسانے گڑھے  ہوں، تو ایسے میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تذکروں اور تنقیدی بیانیوں میں میر کی حقیقی شخصیت گم ہوکر رہ گئی ہے۔ ان کی شخصیت کے حاوی عنصر کا سراغ صرف ان کی شاعری سے لگایا جاسکتا ہے، جب کہ یہ بھی ضروری نہیں کہ شاعری شخصیت سے ہم آہنگ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ میر کی شخصیت اور شاعری کی تمام جہتوں اور زاویوں پر روشنی نہیں ڈالی جاسکی ہے۔ ہمارے ناقدین بھی جہانِ میر سے سرسری گزرے۔ اسی لیے وہ اس جہان دگر سے جستجو میں ناکام رہے جہاں میر کی حقیقی شخصیت نظر آسکتی تھی، اسے میر تنقید کا المیہ ہی کہا جاسکتا ہے۔
بہرحال اتنا تو طے ہے کہ میر کو علوئے ذات کا اتنا احساس تھا کہ وہ کسی کو گردانتے نہیں تھے۔ شاید انھیں اپنے نسبی فخر و مباہات کا زعم رہا ہوگا۔ وہ خود کو سید کہتے تھے اس لیے ان کے اندر سیادت اور نجابت کا تفاخر رہا ہوگا۔ گوکہ میر کی سیادت پر شبہ ہے لیکن میر کے اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں سید ہونے کا طرہ تھا۔ اپنے ایک شعرمیں انھوں نے کہا ہے:
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
اے غیر میر تجھ کو گر جوتیاں نہ مارے
سید نہ ہووے تو پھر کوئی چمار ہووے
مگر میر کی سیادت پر قائم چاند پوری اور مرزا محمد رفیع سودا کو شبہ ہے۔ سودا تو میر کو نان بائی کی اولاد سمجھتے تھے۔ اس تعلق سے سودا نے ایک شعر بھی کہا تھا:
بیٹھے تنور طبع کو جب گرم کرکے میر
کچھ شیرمال سا، سامنے نان کچھ پنیر
میر تقی میر سید ہوں یا نہ ہوں مگر ان کا طرز احساس اشرافیائی ضرور تھا۔ وہ طبقاتی تفاوت اور تقسیم کے حامی تھے۔ اس لیے وہ شاعری جیسے فن شریف کے لیے ’اجلاف‘ کو ’اہل‘ نہیں گردانتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ:
دخل اس فن میں نہ تھا اجلاف کو
کچھ بتاتے تھے بھی، سو اشراف کو
تھے ان ایام میں استاد فن
ناکسوں سے وہ نہ کرتے تھے سخن
جلف واں زنہار پاتے نہ تھے بار
شاعری کاہے کو تھی ان کا شعار
نکتہ پردازی سے اجلافوں کو کیا
شعر سے بزازوں، ندافوں کو کیا
شعروسخن کے باب میں میر گویا اشرافیہ کی اجارہ داری کے قائل تھے۔ ان کے خیال میں اجلاف کی وجہ سے شاعری کا جمالیاتی معیار مجروح ہوتا ہے کہ یہ لوگ شعروسخن کی نزاکتوں اور لطافتوں سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ میر کے اسی اشرافیائی انداز فکر نے ان کے اندر شاعرانہ تعلّی پیدا کردی تھی۔ وہ اپنے سوا دوسروں کو کمتر اور حقیر گردانتے تھے۔ اسی لیے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میر تقی میر Meglomaniac تھے۔ خبط عظمت کے شکار، انھیں تفضیل کل اور کلی تفوق Illusory Superiority کا ادعا تھا۔ یوں تو تعلّی بیشتر شاعروں کی سرشت میں شامل ہے مگر میر تقی میرؔ کی تعلّی میں دوسروں کی تخفیف، تنکیر اور تحقیر کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ غالبؔ کے یہاں بھی تعلّی کے اشعار ملتے ہیں مگرغالبؔ معاصرین کے تخلیقی وجود کا انکار نہیں کرتے۔ غالبؔ نے اپنی انفرادیت کا اعلان ضرور کیا اور یہ شعر کہا:
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
مگر میر تقی میرؔ کے اندر مریضانہ حد تک تعلّی تھی کہ دوسروں کے تخلیقی وجود کا بطلان کیے بغیر ان کی بات نہیں بنتی۔ مشہور ہے کہ میر کے نزدیک اس وقت پونے تین شاعر تھے۔ غالبؔ اپنے اشعار کو ’گنجینۂ معنی کا طلسم‘ اور’صریر خامہ نوائے سروش‘ بھی کہتے ہیں۔ مگر یہ بھی اعتراف کرتے ہیں:
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھا
بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا
تعلّی کے باب میں غالبؔ نے وضع احتیاط کو برقرار رکھا مگر میرؔ نے تو ساری حدیں ہی پار کردیں۔ میرؔ تعلّی میں اس قدر بڑھ گئے کہ انھوں نے یہ دعویٰ کردیا:
سارے عالم پہ ہوں میں چھاپا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
جانے کا نہیں شور سخن کا میرے ہرگز
تا حشر جہاں میں میرا دیوان رہے گا
مجھے پتہ نہیں کہ میر نے جس عالم اور جس جہان کی بات کہی ہے اس کا رقبہ کتنا تھا۔ میر تو صرف ریختہ اور فارسی کے شاعر تھے۔ ان دونوں زبانوں کا علاقہ اتنا وسیع تو نہیں ہوسکتا کہ اسے ’عالم‘ یا ’جہاں‘ کہا جائے۔
میر کے اور بھی اشعار تعلّی کے ہیں:
سہل کا میر کا سمجھنا کیا
ہر سخن اس کا ایک مقام سے ہے
پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں
جلوہ ہے مجھی سے لب دریائے سخن پر
صد رنگ مری موج ہے میں آب رواں ہوں
میر صاحب کا ہر سخن ہے رمز
بے حقیقت ہے شیخ کیا جانے
یہ حقیقت ہے کہ میر رشک عقیق یمنی ہیں اور ان کی شاعری میں روانی ہے، کیفیت ہے اور وہ یہ کہنے میں حق بہ جانب ہیں کہ:
دیکھو تو کس روانی سے کہتے ہیں شعر میر
دُر سے ہزار چند ہے ان کے سخن میں آب
ان کے معاصر اور بعد کے شاعروں نے ان کی شعری عظمت اور کمال فن کا اعتراف بھی کیا ہے۔ مرزا اسداللہ خاں غالب نے بھی کہا:
ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
ریختہ کا وہ ظہوری ہے بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
میر کے شعر کا احوال کہوں کیا غالب
جس کا دیوان کم از گلشن کشمیر نہیں
استاد ذوق نے بھی اعتراف کیا:
نہ ہوا پر نہ ہوا میرکا انداز نصیب
ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
تو مرزا داغ نے رنگ میر کے حوالے سے یہ کہا:
میر کا رنگ برتنا نہیں آساں اے داغ
اپنے دیواں سے ملا دیکھے دیوان ان کا
سودا نے بھی میر کے کمال فن کا اعتراف کیا مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سبھی میر کے معتقد نہیں تھے بلکہ ان کے بہت سے معاصر شعرا ان کے معارض بھی تھے۔ میر کی مدح میں جہاں اشعار کہے گئے، وہیں قدح میں بھی بیانات موجود ہیں۔ میر اپنے فن میں کامل ضرور تھے اور ان کی شاعری محاسن سے معمور بھی ہے مگر میر کے یہاں معائب بھی ہیں۔ ان کی شاعری میں تنافر، تعقید، ابہام و ابتذال اور شترگربگی بھی ہے۔ اگر کلیم الدین احمد کی بات مان لی جائے تو میر تقی میرؔ کے تخیل میں وہ قوت پرواز نہیں، شوکت و حشمت نہیں اور جذبات و تصورات میں تنوع نہیں ہے تو پھر انھیں ’خدائے سخن‘ کہنے کا کوئی جواز نہیں بنتا کہ میر کے یہاں رطب و یابس اور پست و بلند بھی ہے۔ اسی لیے بہتوں نے میر کو خدائے سخن تسلیم نہیں کیا۔ سودا نے کہا تھا:
نہ پڑھیو یہ غزل سوداؔ تو ہرگز میر کے آگے
وہ ان طرزوں سے کیا واقف، وہ یہ انداز کیا جانے
اسی طرح جب میرؔ نے سودا کی سگ پرستی پر طنز کیا تو سوداؔ نے میرؔ کو علت مشائخ سے متہم کیا اور یہ کہا:
کتے کا ملوث تو نہا پاک ہو آوے
علت کہ مشائخ کے جو دھوئے سے نہ جاوے
اس طرح اور بھی مخالفین تھے جو میرؔ کا مذاق اڑاتے تھے۔ بقاء اللہ بقا نے دلّی نژاد نہ ہونے پر طنز کرتے ہوئے کہا:
پگڑی اپنی سنبھالیے گا میر
اور بستی نہیں یہ دلّی ہے
میر جیسی حساس طبیعت کو یہ باتیں ناگوار گزرتی تھیں۔ اس لیے میر نے بھی شاعری کے ذریعہ اپنے جذباتی ردعمل کا اظہار کیا۔ وہ ایک طرح سے نفسیاتی خلل کا شکار بھی ہوگئے۔ Psycic ڈپریشن، انگزائٹی، اضطراب، وحشت، بے کلی شاید ان کے داخلی حالات کا نتیجہ ہیں۔ ان کی محرومی، محزونی اور دل شکستگی کا رشتہ بھی ایسے ہی احوال و حوادث سے ہے، میر جس طرح کے آلام و آزار سے گزرے تھے اور زندگی جن قیامتوں سے گزری تھی۔ ایسے میں ان کا بددماغ اور مجنوں ہونا فطری تھا۔ ان کے جنون کی  ایک وجہ تو موروثی اور دوسری وجہیں ماحولیاتی موثرات، اثرات اور نامساعد حالات ہیں۔ بچپن میں باپ سے محرومی، سوتیلے بھائیوں کا سفاک اور حاسدانہ رویہ، بیوی بچوں کی موت اور اس کے بعد ایک پری چہرہ معشوق سے عشق نے میر کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔ میر کو جورگردوں کی وجہ سے جنون ہوگیا۔ بہ قول جمیل جالبی’میر زندگی زندانی اور زنجیری ہوگئے۔‘ میر نے خود ہی اپنے جنون کا اعتراف کیا ہے:
سینہ تمام چاک ہے سارا جگر ہے داغ
ہے نام مجلسوں میں میرا میر بے دماغ
صحبت کسی سے رکھنے کا اس کو نہ تھا دماغ
تھا میر بے دماغ کو بھی کیا ملا دماغ
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں
اتنی بھی بدمزاجی ہر لحظہ میر تم کو
الجھاؤ ہے زمیں سے جھگڑا ہے آسماں سے
مگر میر نے اس جنون آگہی اور دیوانگی سے بھی شعور کا کام لے لیا کہ تخلیق اور جنوں کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ یہ میر کا کمالِ ہنر ہے جس کا اعتراف بہر طور کیا جانا چاہیے۔
تفہیم میر کے کئی زاویے تلاش کیے گئے ہیں۔ میر کی شعری لسانیات اور صوتیات کے حوالے سے بھی کافی کچھ لکھا جاچکا ہے۔ مگر آج کے عہد میں تفہیم میر کا سب سے کارگر وسیلہ یہ ہے کہ کلام میر کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے۔ اگر میر کے شخصی اور شعری رویے کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو بہت سے نفسیاتی امراض و عوارض ان کی ذات سے جڑتے نظر آتے ہیں۔
narcissictic personality disorder (NPD)
megalomania,
شیزوفرینیا
paraphrenia,
grandiouse delusiones (G.D)
یہ تمام متلازم عوارض میر کی ذات کا جزو ہیں۔ تلخی حیات اور آلام روزگار نے میر کی شخصیت میں حددرجہ منفیت (Negativity) پیدا کردی تھی اور زندگی کی یہی منفیت ان کی شاعری کا حصہ بنتی گئی۔ اسی لیے ان کے یہاں اپنی ذات کی توقیر، تمجید اور تکریم کا مبالغہ آمیز احساس بھی ملتا ہے۔ ان کے اندر وہ سلبی صفات اور Negative Vibes بھی ہیں جو ان کے شخصی شائستگی (Modesty) اور اعتبار اور وقار کو مجروح کرتی ہیں۔ خاص طور پر ان کے اندر نرگسیت، خود پسندی، ادعائیت حد سے زیادہ ہے اور مثنوی ’اژدرنامہ‘ سے اس کی مکمل توثیق ہوتی ہے۔ یہ ہجویہ مثنوی نخوت میر کی ایک نظیر ہے کہ میر اس مثنوی میں تمام شاعروں کو حشرات الارض یعنی کیڑے مکوڑے قرار دیتے ہیں۔ اس مثنوی میں ’اژدر‘ میر کا ایک علامتی پیکر ہے۔ جس کی دہشت اور وحشت تمام حشرات الارض پر طاری رہتی ہے۔ دیکھیے اس مثنوی میں مار سیہ، اژدر یعنی میرتقی میر ایک جبروتی کردار میں نظر آتے ہیں:
یہ موذی کئی ناخبردار فن
نئی ناگنیں جن کے ٹیکوں پہ پھن
نہیں جانتی میں ہوں مار سیاہ
زبانہ ہے آتش کا میری نگاہ
جدھر بھر نظر دیکھوں لگ جائے آگ
دم دم کشی لب پہ کھیلیں ہیں ناگ
جہاں میں ہوں وہ جا ہے پر شر و شور
عصا سے چلے راہ واں مار و مور
مری آنکھ سے زہر ٹپکا کیا
جلا آگے میرے کبھو کب دیا
اگر شور زاغاں سے ڈر جائے مار
تو کیا اجگروں کا رہے اعتبار
نکلتے نہ تھے اس طرف ہو کے شیر
پلنگ و نمر واں رہتے تھے دیر
مری قدر کیا ان کے کچھ ہاتھ ہے
جو رتبہ ہے میرا مرے ساتھ ہے
کہاں پہنچیں مجھ تک یہ کیڑے حقیر
گیا سانپ پیٹا کریں اب لکیر
58 اشعار کی اس مثنوی میں میر تقی میر نے بہت سے جانوروں کے نام لکھے ہیں اور معاصر شاعروں کی تحقیر تضحیک، استخفاف اور استہزا کے لیے شاعروں کو چوہے، چھپکلی، کیچوے، کنسلائی، کنکھجورے، گیدڑ، گرگرٹ، مینڈک، جونک، خراطین، خرموش، موش اور شگال تک کہا ہے۔ یہ مثنوی دراصل ایک تعریضی بیانیہ ہے۔ ڈاکٹر نصیرہ عنبریں نے اسے ایک تمثیلی منظومہ اور Beast fable کہا ہے۔ یہ مثنوی محسنات لفظیہ و معنویہ سے بھرپور ہے۔ اس میں مبالغہ بھی ہے، مراعات النظیر بھی، صنعت تکرار و تکریر بھی ہے اور بیانیہ کے لحاظ سے جنگل کے تلازمات، محاورات اور لفظیات بھی ہیں۔ میر کی یہ ہجویہ مثنوی ہے جس سے حیوانات و حشرات سے میرؔ کی دل چسپی کا پتا چلتا ہے۔ اس مثنوی میں ایک طرح اشرافیائی اور حاشیائی کرداروں کا تصادم بھی ہے۔ میر کا ارتکاز صرف اپنی ذات پر تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ انھی کی ذات بابِ سخن میں ملجا و ماوی اور مرجع خلائق ہو اور دلوں میں صرف ان کی سخن طرازی کا نقش قائم رہے۔ شاعرانِ حال کو وہ جہالت شعار جانتے تھے۔ اسی لیے اپنے ایک شعر میں میر نے کہا تھا:
نہ رکھو کان نظم شاعران حال پر اپنے
چلو ٹک میر کو سننے کہ موتی سے پروتا ہے
میرؔ کی یہ مثنوی ان کے شخصی رویے، تفکیری عمل (Thought process)اور ذہنی معروض کا بھی آئینہ ہے۔ اس میں شاعروں کو طنز و تعریض کا اس طرح نشانہ بنایا گیا کہ قدرت اللہ قاسم کو یہ کہنا پڑا کہ: اس کے کہنے والے پرصد ہزار نفریں ہے اور شاہ حاتم کے شاگرد میر محمد امان نثار نے تو اس کے خلاف ایک قطعہ بھی لکھ دیا:
اور کی سنتا نہیں اپنے کہے جاتا ہے تو
ہم تو دیوانے ہیں تری حجت و تقریر کے
حیدر کرار نے وہ زور بخشا ہے نثارؔ
ایک دم میں میں دو کروں اژدر کے کلے چیر کے
میر کی اکثر ہجویہ مثنویوں میں تعریض و تعارض کا یہی رنگ نظر آتا ہے۔ تنبیہ الجہال، ہجو نااہل، ہجو سگ پرست، زیادہ تر معاصرانہ چشمک پر مبنی ہیں۔ ان میں فضلات و فضولیات کا بھی وافر عنصر ہے، اس لیے سرشاہ سلیمان کا خیال ہے کہ ”امر واقعہ یہ ہے کہ اکثر مثنویات جن میں کتے، بلی، بکری اور مرغ کے قصے درج ہیں، نہایت گری ہوئی ہیں۔“
میر نے ہم عصر شاعروں کے تخلیقی وجود کا انکار کرکے اپنی تخلیقی ذات کا اثبات کیا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ میر کو اس وقت کے تخلیقی زوال و زبونی کا شدت سے احساس رہا ہو۔ اس لیے مثنویاں لکھی ہوں مگر حقیقت میں میر کا منفی ذہن ہی اس نوع کی مثنویوں کا اصل محرک ہے۔
(یہ زیرتکمیل مضمون کا ایک حصہ ہے۔ اس میں اور بہت سی جہتوں کی جستجو جاری ہے۔)
٭٭٭
حقانی القاسمی کی گذشتہ نگارش: شکستِ آرزو کا مؤثر بیانیہ: میں نے رام اللہ دیکھا
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : حقانی القاسمی: ایک تخلیقی نقاد

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے