نئی فیکٹری (باب دوم و سوم)

نئی فیکٹری (باب دوم و سوم)

ذاکر فیضی

باب اول یہاں پڑھیں:نئی فیکٹری (پہلا باب)
(2)
مشہور بزنس مین مسٹر نٹھاری بزنس ورلڈٹور سے اپنے وطن واپس آچکے تھے۔ وہ سال میں دو تین بار غیر ملکی سفر پر جاتے تھے۔ مسٹر نٹھاری کے کئی بزنس تھے۔ وہ جانتے تھے کہ پیسے سے پیسہ کس طرح بنایا جاتا ہے۔ کِس موقع پر کون سا کاروبار پھلے پھولے گا۔ کب اور کہاں پیسہ انویسٹ کرنا ہے اور کہاں نہیں۔ وہ واقف تھے کہ کاروبار کو فروغ دینے کے لیے تشہیر کی کتنی ضرورت ہوتی ہے۔ خاندانی کاروباری ذہن رکھتے تھے۔ اِس کھیل کو بھی بخوبی جانتے تھے کہ مائنس مائنس پلس ہوتا ہے۔ جِس کے لیے پولیٹکس اور بزنس کی سمیکرن کا فارمولا لازمی ہے۔ سیاسی خیموں کو ’انڈر دا ٹیبل‘ جتنی بڑی رقم دی جائے گی، کاروبار اُتنا ہی بڑا ہوگا۔
اس وقت مسٹر نٹھاری ملک کی راجدھانی دلشاد آباد کے بہت ہی وی آئی پی علاقے میں اپنے عالی شان بنگلے کے بے حد خوب صورت لان میں فرصت کے لمحات میں بیٹھے تھے۔ چاروں طرف دل کش نظارے تھے۔ لان میں ہر طرف رنگ برنگے پھول تھے۔ فوارے تھے۔ دسمبر کا مہینہ تھا۔ گلابی دھوپ ماحول کو اور پُر کشش بنا رہی تھی۔
ان کا پیارا بے بی ان کی گود میں تھا۔ وہ بار بار اس کو پیار کررہے تھے۔
”مائی ڈیئر میں نے سفر میں آپ کو بہت مس کیا۔“ وہ اپنے بے بی (Labrador retriver Dog) کو بے پناہ محبت کرتے تھے۔
مِسٹر نٹھاری برابر میں بیٹھی مس مہک سے کہنے لگے: ”مہک آ پ کو ایسا نہیں لگتا ہے کہ دنیا کاسب سے معصوم میرا بے بی ہے۔ میرا بے بی کتنا بھولا لگ رہا ہے۔۔۔ہے نا؟ اس کی شرارتوں کو میں بہت مس کر تا تھا۔“
مس مہک جو واقعی کسی بے مثال خوشبو سے کم نہ تھی۔ اس کا تراشیدہ جسم اور جسم کے ہر حصّے کو عیاں کرتا اس کا لباس کسی نشے سے کم نہ تھا۔ وہ چہک کر بولی: ”بالکل سر، آپ صحیح کہہ رہے ہیں بہت ہی کیوٹ ہے۔ مجھ سے بھی کیوٹ ہے۔۔۔۔“
مس مہک جو ان کی پرسنل سکریٹری تھی۔ جب مسٹر نٹھاری کی آغوش میں ہوتی تھی تب وہ ان کو سب سے خوب صورت اور معصوم لگتی تھی۔ مگر یہ رات نہ تھی، دن تھا۔ دن کے اُجالے اور رات کی چاندنی میں تو فرق ہوتا ہی ہے۔ وہ بار بار اپنے ڈوگی جس کا نام ’بے بی‘ تھا پیار کر رہے تھے۔
اُسی وقت مسٹر نٹھاری کی بیٹی آئی۔ اس کی گود میں اس کا چار سال کا بیٹا تھا۔ جِسے دیکھ کر وہ کھڑے ہوئے۔ جلدی سے نواسے کو گود میں لے لیا اور پیار کرنے لگے۔ ”اوہ ہہ میری جان۔۔۔ میں نے تجھے بہت، بہت مس کیا۔۔۔آئی لو یو۔۔۔“
وہ بار بار نواسے کو پیار کر رہے تھے اور یہ بھی نہیں سن پا رہے تھے کہ بیٹی بہت ہی لاڈ سے شکایت کر رہی تھی۔
”جب سے آپ نے پرائیویٹ ائیر جیٹ خریدا ہے۔ آپ ایک بار بھی اس میں بیٹھا کر مجھے کہیں بھی لے کر نہیں گئے۔۔۔۔“
جب مس مہک نے مسٹر نٹھاری کو توجہ دلائی کہ ’میم آپ سے کُچھ کہہ رہی ہیں سر‘ تب اپنی عزیز بیٹی کی بات سن کر وہ بولے: ”بہت جلد بیٹا۔۔بہت جلد۔۔۔میں اپنے سارے بچوں کو اپنا اپنا، ہاں خود کا پرائیویٹ جیٹ دوں گا۔۔۔ تھوڑا وقت دو۔۔۔’نئی فیکٹری‘ میں انویسٹمینٹ چل رہا ہے ان دنوں۔۔۔بہت جلد دنیا کے سب سے امیر آدمی کی بیٹی ہوں گی آپ۔۔“
’نئی فیکٹری‘ کے نام پر مس مہک کو یاد آیا کہ کئی بار ’نئی فیکٹری‘ کے ایم ڈی کا میل آچکا ہے۔ وہ مسٹر نٹھاری سے میٹنگ کرنا چاہتے تھے۔
مس مہک نے اپنے ہاتھ میں پکڑی فائل، مسٹر نٹھاری کی طرف بڑھانا چاہی تو انھوں نے فوراََ ٹوکا۔۔۔”نو۔۔۔نو ۔۔۔نو مس مہک آج کوئی میٹنگ نہیں۔۔۔کینسل کر دو۔۔۔آج کا دن میں اپنی فیملی کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔“
مس مہک نے فائل کو واپس اپنے خوب صورت سینے سے لگاتے ہوئے، ڈرتے ڈرتے کہا:
”سر! وہ ’نئی فیکٹری‘ کے ایم ڈی صاحب کا کئی بار میل آچکا ہے۔ ضروری کام بتا رہے تھے۔“
نئی فیکٹری کا نام سن کر مسٹر نٹھاری چند لمحے خاموش رہے پھر بولے: ”کیا وقت دیا آپ نے ان کو۔۔“
”سر! سب سے پہلی میٹنگ انھیں کے ساتھ ہے۔۔دو بجے آفٹر لنچ۔۔“ مس مہک نے دھوپ میں چمکتے ہوئے اپنے دل کش بالوں کو ادائے دل ربائی سے پیچھے کی طرف جھٹکا اور گوری و سڈول کلائی میں بندھی خوبصورت اور قیمتی گھڑی کی طرف دیکھا۔
مسٹر نٹھاری نے ہلکی سی گردن ہلائی اور بولے: ”او کے۔“
انھوں نے ایک بھر پور نگاہ مس مہک پر ڈالی اور سوچنے لگے۔ ’مہک جتنی حسین اور سیکسی اس لباس میں لگ رہی ہے، اتنی تو وہ ایک دم برہنہ بھی نہیں لگتی۔ کتنی عجیب بات ہے‘۔
مسٹر نٹھاری بیٹی کے بیٹے کو مس مہک کی گود میں دے کر اپنے کیوٹ بے بی کے ساتھ کھیلنے لگے۔ وہ گیند کو دور پھینکتے۔ بے بی اٹھا کر لاتا، ان کو دیتا۔ وہ بے اختیار ہنستے اور بے بی کو گود میں بھر کر چومنے لگتے۔
(3)

علی خوب صورت نوجوان تھا۔ اس کی پُر کشش آنکھیں بولتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔ اس کے بال گھنے تھے، جس کو وہ پیچھے کی طرف بناتا تھا۔ قد درمیانی اور صحت مناسب تھی۔ وہ سنجیدہ قسم کا انسان تھا۔ کم بولنا، زیادہ سُننا، اس کی خصلت تھی۔ دفتر میں وہ کام سے کام رکھتا۔ اپنے کام کو دیانت داری اور محنت سے انجام دیتا۔ اس کی ماں نے اسے ایک ذمہ دار، محنتی اور ایمان دار انسان بننے کی تربیت دی تھی۔ وہ ملک کی راجدھانی دلشادآباد میں اکیلا رہتا تھا۔ اس کی زندگی میں تین چیزیں بہت اہمیت رکھتی تھیں۔ دیپا کی محبت، ابھے اور معراج کی دوستی اور خالاؤں کا پیار۔ دیپا اور علی ایک ہی اسکول میں کام کرتے تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے محبت بھی کرتے تھے۔ مگر پیار کے اظہار سے کتراتے تھے۔
ابھے اور معراج اُس کے یونی ورسٹی کے زمانے کے بے حد قریبی دوست تھے۔ والدین کے شہر مرادی پور سے اب اس کا اتنا ہی تعلق باقی تھا کہ مرادی پور میں اس کی دو خالاؤں کا پریوار رہتا تھا۔ وہ اکثر مرادی پور جاتا تھا۔چھوٹی خالہ کی کوئی اولاد نہ تھی۔ بڑی خالہ کے دو بچّے تھے۔
علی کے والد نے بے بنیاد شک کی بنا پر اس کی شریف اور نیک چلن ماں کو اسی وقت چھوڑ دیا تھا جب وہ ایک سال کا تھا۔ ماں نے دس سال کی عمر تک اس کی پرورش مُرادی پور میں ہی کی۔ پھر وہ اس کو مرادی پور سے دلشاد آباد لے آئی تھی۔ جہاں انھوں نے معمولی نوکری اور کرائے کے مکان میں علی کی پرورش کی۔ تعلیم دلائی اور زندگی جینے کا سلیقہ اور آداب سکھائے۔ ایک سال پہلے ماں کا بھی انتقال ہو گیا۔ باپ یا باپ کے خاندان سے اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔ وہ نہ اپنے والد کو جانتا تھا اور نہ ہی اس کا باپ اس کو پہچانتا تھا۔
مرادی پور ملک کی راجدھانی دلشادآباد سے ایک سو پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ کبھی مرادی پور شہر اپنے برتن بنانے کی وجہ سے بہت خوش حال تھا۔ مگر جب سے یہاں کا برتن بنانے کا کام خراب ہوا۔ تب سے خوش حالی گھٹتی اور غریبی بڑھتی جا رہی تھی۔غریبی، تعلیم کی کمی اور دنیا کے بدلتے رنگ ڈھنگ کی بدولت مرادی پور میں نئے جرائم جنم لے رہے تھے۔ نئے پیشے پنپ رہے تھے۔ نئی سوچ، نئی تہذیب کو جنم دے رہی تھی۔
کل رات مرادی پور سے علی کی خالہ کا فون آیا تھا، چھوٹے خالو کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ وہ اسپتال میں تھے۔ علی مرادی پور جا رہا تھا۔
علی ٹرین میں بیٹھا مرادی پور کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اپنے بچپن کو یاد کر رہا تھا۔ خالہ اور خالو کے بارے میں فکر مند تھا۔ ٹرین علی کے خیالات کی رفتار سے تھوڑی کم رفتار سے دوڑ رہی تھی۔
اچانک اس نے اپنے خیالا ت کو بریک لگایا۔ علی کو معراج کی یاد آئی۔ اس نے جیب سے فون نکالا اور ابھے کو ملادیا۔ دونوں معراج کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔گفتگو کے درمیان ہی علی نے ابھے کو بتایا کہ ’اس کے خالو حادثے کا شکار ہو گئے ہیں اور زخمی حالت میں اسپتال میں بھرتی ہیں۔ وہ مرادی پور جا رہا ہے، اپنی خالہ کی مدد کے لیے۔‘
ٹرین چلتی رہی۔باتیں ہوتی رہیں۔
***
مرادی پور میں علی کی بڑی خالہ صبا آدھے گھنٹے سے سواری کی مُنتظر تھی۔ وہ آٹو یا ای رکشہ کی راہ دیکھ رہی تھی۔ رات کے ۱۱ بجے سے اوپر کا وقت تھا۔ سنّاٹا سڑک پر دور تک پھیلا ہوا تھا۔ وقفے وقفے سے جب کوئی گاڑی گزرتی تو چند لمحوں کے لیے صبا کو امید کی کرن نظر آتی۔ ۷ سال کی پنکی ماں کا ہاتھ پکڑے اس بات کی منتظر تھی کہ ماں اسے گود میں لے لے۔ اُسے نیند آرہی تھی۔ صبا ’جیون دان‘ اسپتال کے صدر دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔ صبا کی بڑی بہن حنا کے شوہر کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ وہ اپنے بہنوئی کی عیادت کے لیے اسپتال آئی تھی۔ اب گھر واپس جا رہی تھی۔ اس کا گھر واپس جانا ضروری تھا۔ اسپتال میں مریض کے علاوہ زیادہ سے زیادہ دو لوگ رُک سکتے تھے۔ اس وقت وارڈ میں حنا اور اس کا دیور موجود تھے۔
اسپتال شہر اور گاؤں کو جوڑنے والی اس سڑک پر واقع تھا، جو آگے جاکر ہائی وے سے جا ملتی تھی۔ ایک راستہ قریب کے قصبے سے ہوتا ہوا مختلف گاؤں کو پہنچتا تھا۔ جب کہ دوسری طرف کی سڑک شہر کو جاتی تھی۔ شہر یہاں سے بہت دور نہیں تھا، مگر سواری نہ ملنے کی صورت میں دُشواری ہوتی تھی۔
اچانک دور سے صبا کو گاڑی آتی ہوئی نظر آئی۔ وہ دل ہی دل میں خدا سے دعا کر نے لگی کہ یہ گاڑی انھیں جامع مسجد تک ہی پہنچا دے، وہاں سے تو وہ پیدل بھی چلی جائے گی۔ مگر گاڑی”زوووں ں ں“ کی تیز آواز کے ساتھ سنّاٹے کو ڈراتی ہوئی دھندھ میں کھو گئی۔سات سال کی پنکی نے اب رونا شروع کر دیا تھا۔ صبا نے گھبرا کر چھوٹی بہن حنا کو فون کیا، جو اسپتال میں شوہر کی تیمارداری میں مصروف تھی۔ فون وصول ہوتے ہی صبا کو سنائی دیا: ”ہاں صبا باجی۔۔۔ گھر پہنچ گئیں۔۔۔۔“
”ارے کہاں حنا میں تو ابھی تک اسپتال کے سامنے کھڑی ہولا رہی ہوں۔ کوئی سواری کا اتہ پتہ ہی نہیں۔ پنکی کا بھی بُرا حال ہے۔ میرا دماغ خراب ہو رہا ہے۔“
”آئے ہائے۔ یہ تو بُرا ہوا۔ بچّی تو روروکے ہلکان ہو رہی ہوگی۔ باجی وہ۔۔۔۔۔۔“ ابھی جملہ بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ صبا کی بہن خاموش ہو گئی۔ جیسے وہ کسی اور سے باتیں کرنے لگی ہو۔
چند منٹ بعد آواز آئی۔۔۔۔۔ ”ارے صبا باجی۔۔۔ یہ ساجد کُچھ کہہ رہا ہے۔ اس کی بات سمجھ لو۔۔۔۔۔۔۔۔“
صبا گھبراتے ہوئے بولی: ”کون ساجد۔۔۔۔۔؟“
”ارے ساجد۔۔۔ساجد۔۔۔ باجی۔“ حنا اپنی بات کو سمجھانے والے انداز میں بولی۔ ”میرا دیور ساجد۔۔۔ اور کون۔۔۔۔ لو بات کر و۔“
صبا نے اپنے اوسان درست کرتے ہوئے کہا: ”ارے اس کم بخت پنکی نے میرا دماغ خراب کر کے رکھ دیا ہے۔۔۔۔۔۔“
ساجد کی آواز آئی: ”صبا باجی۔۔۔۔۔“ ساجد بہت آرام سے صبا کو سمجھانے لگا۔
”آپ ایسا کرو۔۔۔۔۔ دوراہے کی طرف تھوڑا آگے بڑھو۔۔۔۔تھوڑی دور جا کر بائیں طرف کو ایک کچّا راستہ جا رہا ہے۔ آپ وہاں کھڑی ہو جاؤ۔ باجی کبھی کبھی دوراہے کی طرف سے آنے والی آٹو یا چارجنگ والے اسپتال کی طرف نہیں آکر وہیں سے مُڑ جاتے ہیں۔ وہ راج پورہ کے موڑ سے ہی مُڑ جاتے ہیں۔ آپ موڑ پر کھڑی ہو جاؤ۔۔۔۔ گھبراؤ نہیں۔۔۔ وہاں سے آپ کو سواری مل جائے گی۔۔۔ پریشان مت ہو۔۔۔۔ بہت رات تک سواری ملتی ہے۔۔۔۔۔آپ اس سے جمّہ مجد (جامع مسجد) پہنچ جانا، وہاں سے آپ کو دوسری گاڑی مل جائے گی۔“ ساجد نے تسّلی دینے والے انداز میں صبا کو سمجھایا۔
”ہاں بھئّے، بس جاما مجد تک ہی پہنچ جاؤں۔۔۔ وہاں سے تو چلی ہی جاؤں گی۔۔۔۔۔یہاں کھڑے کھڑے۔۔۔۔۔۔یہ پنکی بھی بہت پریشان کر رہی ہے۔۔۔۔۔“
ساجد سے بات کر کے صبا نے فون بیگ میں رکھ لیا۔ پنکی کو گود میں اٹھایا اور اس کے گال کو چومتے ہوئے بولی: ”جلدی گھر پہنچ جائیں گے۔۔۔پریشان مت ہو۔“
چند قدم چلنے پر ہی اس کی سانس پھولنے لگی۔ قدم نہ چاہتے ہوئے بھی دھیمے ہوگئے۔ وہ چلتی رہی۔ اسے اندھیرے کی وجہ سے وہ موڑ نظر نہیں آیا، جس کے بارے میں ساجد نے بتایا تھا۔ چلتے چلتے چائے کی ڈھبری پر صبا کی نگاہ گئی۔ چائے کی ڈھبری پر کھڑے دو آدمیوں میں سے ایک سے پوچھا: ”بھائی ساب! یہ راج پورہ جانے والا موڑ آگے ہے کیا، جو شہر کی طرف جاتا ہے۔“
”وہ تو آپ پیچھے چھوڑ آئیں میڈم!“ چائے والے نے پوچھا: ”آپ کو جانا کہاں ہے؟“
”جمہ مجد۔۔ شہر والی۔“ اس کی زبان سے پورے جملے بھی ادا نہیں ہو رہے تھے۔ کھڑے ہوئے دو آدمی میں سے ایک بولا: ”آپ سامنے سڑک کی دوسری طرف کھڑی ہو جاؤ۔۔۔ سواری آتی رہتی ہے، مل جائے گی۔“
دوسرا خاموش کھڑا شخص اسے گھورے جا رہا تھا۔ لڑکھڑاہٹ سے اُس کے نشے میں ہونے کا اندازہ ہو رہا تھا۔اُس کی آنکھیں سُرخ تھیں۔ صبا اس کی آنکھوں سے ڈر کر جلدی سے سڑک پارکر کے دوسری طرف کھڑی ہوگئی۔ وہاں کھڑے دس بارہ منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ ایک ای رکشہ دوراہے کی طرف سے آتا دکھائی دیا۔ اسے یہ دیکھ کر راحت محسوس ہوئی کہ رکشہ کی رفتار کم ہو رہی تھی۔ رکشہ ٹھیک صبا کے پاس آکر رُکا۔ ڈرائیور نے پوچھا: ”کہاں جانا ہے؟“
”آپ راج پورہ کی طرف جا رئیں کیا؟“ صبا نے جلدی سے پوچھا۔
”ہاں۔۔۔ ادھر ہی جا رہے ہیں، آپ کو کہاں تک جانا ہے۔۔۔۔؟“
”بھّئے مجھے جُمہ مجد تک چھوڑ دو۔ بڑی مہربانی ہوگی تمھاری۔“ صبا نے بتایا۔
”بیٹھو بیٹھو جلدی۔ مہربانی کی کیا بات ہے۔ ہمارا کام ہے یہ۔“ ڈرائیور نے کہا۔
پیچھے بیٹھی سواری نے ایک طرف کو سرک کر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
پنکی سو چکی تھی۔ صبا اس کو گود میں سنبھالتے ہوئے مشکل سے گاڑی میں بیٹھی۔
رکشہ آگے بڑھی اور تھوڑی دور جا کر بائیں طرف راج پورہ والے کچّے موڑ کی طرف چلی گئی۔ راستہ تاریک اور تنگ تھا۔ بیک وقت دو آٹو آمنے سامنے آرہے ہوں تو بہت احتیاط سے آگے بڑھا جاتا تھا۔۔ دونوں طرف جھاڑیاں تھیں۔ سڑک میں جگہ جگہ گڈھے تھے۔ رکشہ بری طرح لڑکھڑا رہی تھی۔
اچانک زور کے جھٹکے کے ساتھ گاڑی پھنس گئی۔ گاڑی نے نکلنے کی کوشش میں کئی ہچکولے کھائے۔ ڈرائیور نے کہا: ”گاڑی سے نکلو۔ پھنس گیا ہے پہیہ۔۔۔ نکالنا پڑے گا۔ صبا گاڑی سے باہر آئی۔ دوسری سواری اور ڈرائیور بھی باہر آگئے۔
پنکی رونے لگی۔ صبا اس کو چُپ کرانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ڈرائیور گاڑی کا پہیہ گڈھے سے نکالنے کی کوشش کر رہا تھا کہ تب ہی کسی نے پیچھے سے اس کا منھ داب لیا۔ صبا نے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی تو اُسے لگا، پنکی اس کے ہاتھ سے گر جائے گی۔۔ اس سے پہلے کہ وہ پنکی کو نیچے اُتار کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتی۔ اس پر غنودگی سوار ہونے لگی۔ چند لمحوں میں ہی وہ بے ہوش ہو گئی۔ وہ زمین پر گری۔ صبا کو ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے، بہت زمانے کے بعد وہ سو رہی ہے۔ بہت ہی گہری نیند۔
***
تھانہ جامع مسجد میں صبا کو اس کی دیورانی سنبھالے ہوئے تھی۔ اس پر اب بھی نیم بے ہوشی طاری تھی۔ اس کا دماغ ماؤف ہو چکا تھا۔ وہ بیچ بیچ میں اچانک ہی ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھتی۔ لاچاری و مجبوری کے لہجے میں ماتھے اور سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے بلک بلک کر کہتی:
”ہائے میری بچّی۔۔پنکی۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کہاں ہے میری لاڈو۔۔۔۔ تُجھے تو بہت چوٹ لگی ہوگی۔ میں زمین پر گری تھی۔ مجھے کیا ہوا تھا؟۔۔۔ کھانا کھایا تونے۔۔۔۔۔ یا۔۔پنکی میری بیٹی۔۔۔کھانا نہیں کھایا ہوگا اس نے۔۔۔۔۔ میرے بنا کہاں کھاتی تھی۔۔۔۔۔۔ میری بچّی۔۔۔۔۔ ہائے ظالمو میری لاڈلی کو کہاں لے گئے۔۔۔۔۔“
وہ دیوانہ وار کھڑی ہو جاتی اور ادھر ادُھر دیکھنے لگتی۔ وہ روتے ہوئے آگے کہتی:
”اے اللہ۔۔۔۔ اللہ میرے اللہ۔۔۔۔ میں کیا کروں۔۔۔۔ کہاں جاؤں۔۔۔۔۔۔۔“
صبا کو ہوش نہیں تھا۔ دوپٹّہ بار بار گلے سے گر جاتا۔جس کو اس کی دیورانی زمین سے اُٹھا کر اس کے گلے میں ڈالتی۔ بال بے ترتیبی سے چہرے پر جھول رہے تھے۔ کپڑوں میں رات میں لگی کیچڑ سوکھ چکی تھی۔
اسی وقت تھانے دار اپنے دفتر سے باہر آیا۔ صبا کا شوہر شاہد ساتھ تھا۔ تھانے دار شاہد سے گویا ہوا: ”دیکھیے، رپورٹ درج ہو چکی ہے۔ ہم کار روائی کر رہے ہیں۔ آپ اپنی وائف کو سنبھالیں۔ گھر لے جائیں۔ ہم بچّی کی تلاش شروع کرتے ہیں۔ دو سپاہی اسپتال کی طرف موقعۂ واردات پر روانہ ہو چکے ہیں۔ راج پورہ کے لوگوں سے بھی بات کریں گے۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ جلد ہی بچّی کا پتہ چل جائے گا۔ آپ اپنی گھر والی کو دیکھیں۔“
تھانے دار فوری طور پر تھانے کو خالی دیکھنا چاہتا تھا۔
شاہد نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا: ”آپ کی بہت مہربانی سر، بس میری بچّی کو تلاش کر دیجیے۔ میں آپ کا احسان کبھی نہیں بھولوں گا۔ “
***
سات سال کی پنکی کو جب ہوش آیا تو اس کو اپنی ماں سے بچھڑے ہوئے بارہ گھنٹے بیت چکے تھے۔ وہ ایک کچّے مکان کے چھوٹے سے کمرے میں ٹوٹے پلنگ پر لیٹی تھی۔ اجنبیت اور خوف کے ملے جلے جذبے سے وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔ دیواریں تھیں اور چھت کے نام پر ٹین شیڈ۔ ایک کونے میں بھوٗنسا بھری بوریاں رکھی تھیں۔ دوسری طرف لکڑی کا کُچھ ٹوٹا، بے کار سامان تھا۔ آس پاس کسی کو نہیں پاکر پنکی بے اختیار زور زور سے رونے لگی۔
کوٹھری کے باہر آنگن میں ایک چھپّر کے نیچے تیس سالہ عورت اپنے سے کم عمر آدمی سے باتیں کر رہی تھی: ”اوئے بتانا۔۔۔ شادی کب کر رہے ہیں ہم۔۔۔۔؟“ عورت نے پلنگ پر لیٹے ہوئے مرد کے بالوں میں انگلیاں ڈالتے پوچھا۔
”کریں گے، کریں گے۔۔۔ جلدی کریں گے میری رانی۔۔۔۔۔ ابھی تو مستی ٹیم ہے۔“ مرد نے خمار آلود آنکھوں سے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
اسی وقت پنکی کے رونے کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی۔ عورت کھڑے ہو کر کوٹھری کی طرف دیکھتے ہوئے بولی: ”لے۔۔۔۔ کر لے مستی۔۔۔ تیر اپارسل تو جاگ گیا۔“ عورت نے بے زاری سے کہا۔ ”بہت ہوگئی سستی والی مستی۔۔۔۔۔ جا، جاکر سنبھال اور پارسل کو آگے بڑھا۔ قیمت پوری لینا اور وہ بھی خرچے سمیت۔۔۔۔۔۔آئی سمجھ۔“
مرد کا نام راجا تھا۔ جو شہر میں آٹو چلاتا تھا۔ اٹھائیس سال کا یہ مرد شبنم نامی اس تیس سالہ عورت سے پیار کرتا تھا۔ جس کا سائڈ بزنس ’پارسلنگ‘ تھا۔
شبنم راجا کی بزنس پارٹنر تھی۔ اس کی دس سال پہلے جس شخص سے شادی ہوئی تھی، وہ پیڈل رکشہ چلاتا تھا۔ جِسے ٹی بی کا مرض تھا۔ شبنم کا کہنا تھا کہ وہ اس کی کوئی بھی ضرورت پوری نہیں کر پاتا۔ اس لیے شوہر سے لڑ جھگڑ کر وہ ایک ٹرک ڈرائیور کے ساتھ بھاگ گئی۔ چند مہینے وہ اس کے ساتھ رہی۔ ڈرائیور کے گاؤں سے جب وہ واپس آئی اس کے پاس ایک نیا ہنر تھا۔ پارسل بنانے کا ہنر۔
اس ہنر کو آزمانے اور دولت کمانے کے خواب نے سب سے پہلے یہ ضروری سمجھا کہ کوئی اس کا ساتھی ہو۔ اس لیے اس نے راجا کو اپنی سچّی محبت کا یقین دلاکر اپنا عاشق بنا لیا۔ شبنم جس کے نین نقش تیکھے اور پر کشش تھے اور جسم کے نشیب و فراز بڑے ہی قاتلانہ۔ وہ اب راجا کے ساتھ اس کی بیوی کی طرح رہتی تھی۔ راجا نے اپنے آبائی گھر کو جوئے اور شراب میں اُڑا دیا تھا۔ راجا اور شبنم کا آمنا سامنا ایک شادی میں ہوا تھا۔ جہاں دونوں کا آناََ فاناََ عشق ہوگیا۔ اب دونوں شہر سے نکل کر ایک قصبے میں رہتے تھے۔ وہ بھی ایک ایسی جگہ جہاں بہت کم مکان تھے۔ ابھی اس آبادی نے آباد ہونا شروع ہی کیا تھا۔
راجا اور شبنم پنکی کے سامنے کھڑے تھے۔ پنکی روتے روتے چُپ ہو گئی۔ چند منٹ وہ ان کو اجنبیت، خوف اور عجیب نگاہوں سے دیکھتی رہی۔ تب ہی وہ چیخ کر روئی: ”امّی ی ی ی ی ی ی ی پاپاااااااااااااا۔“
راجا بچّی کے پاس پہنچا: ”بیٹا بھوک لگی ہے کیا۔“ پنکی اور  زور سے رونے لگی۔
شبنم دہاڑی: ”اری کتّیا کی بچّی، ایسے پاگلوں کی تریوں کا ہے چیخ رئی۔ کیا تیری ماں مر گئی۔“  پنکی خوف سے ایک دم سے چُپ ہو گئی۔
گھنٹہ بھر بعد راجا کے پاس کسی انجان نمبر سے فون آیا۔ ”ہیلو!“
راجا کافی دیر فون پر بات کرتا رہا۔ فون بند کر کے شبنم سے بولا:
”شبّو، پھٹاکے سے تیا ر ہوجا۔۔۔۔ چلنا ہے۔۔۔ پارسل آگے بڑھانے۔“
جانے سے پہلے انھوں نے ضروری سمجھا کہ بچّی کو کھِلا پِلا لیا جائے۔
پنکی روتے روتے تھک گئی تھی۔ راجا اور شبنم نے اسے یہ بھروسا دلادیا تھا کہ جلد ہی ہم تیرے ممی پاپا کے پاس لے چلیں گے۔
’چل بیٹی۔ پیاری بچّی، چلو۔۔۔۔ تمھار ی ممی پاپا کے پاس چلنا ہے۔“ پنکی نے بنا کسی تاثر کے شبنم کی طرف دیکھا۔ شبنم اس کا ہاتھ پکڑ کر دروازے سے نکل گئی۔ آٹو میں بیٹھا راجا ان کا منتظر تھا۔ شبنم اس وقت برقع پہنے ہوئے تھی،جو وہ عموماََ نہیں پہنتی تھی۔ آٹو میں بیٹھ کر شبنم نے بہت ہی دلار کے ساتھ پنکی کو اپنی گود میں بٹھا لیا۔
پارسل آگے بڑھانے کا کام آگے بڑھ رہا تھا۔
آٹو تیزی سے دلشادآباد روڈ پر دوڑا چلا جا رہا تھا۔ ہوا سائیں سائیں کر رہی تھی۔ گاڑیاں راجا کی آٹو کے قریب سے’زوں۔۔۔ زوں‘ کی آواز کے ساتھ نکل رہی تھیں۔پنکی ڈری سہمی بیٹھی دائیں طرف کی گاڑیوں کو یکھے جا رہی تھی۔
بیس منٹ کے بعد۔۔۔ راجا کے پاس فون آیا۔ اس نے بات کی۔ اب اس نے آٹو کو دائیں طرف کی سڑک پر موڑ لیا۔ تھوڑا آگے جا کر چائے کی ڈھبری پر اس نے گاڑی روکی۔ چائے کی اس چھوٹی سی دکان پر تیس پینتس سال کا آدمی کھڑا تھا۔ وہ لال رنگ کی شرٹ اور جنس پہنے ہوئے تھا۔ اس کے بال پیلے رنگے ہوئے تھے۔ ایک کان میں رِنگ تھا۔ راجا نے دو تین منٹ اس سے باتیں کیں۔ راجا کے اشارے پر شبنم پنکی کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہو چکی تھی کہ یہ والے انکل اسے پاپا ممی کے پاس لے کر جائیں گے۔ راجا نے نئے نئے بنے انکل کے ہاتھ میں پنکی کا ہاتھ دیا۔ انکل نے پیشہ ورانہ دُلار کے ساتھ پنکی کو پُچکارا اور گود میں اٹھا کر قریب کھڑے ٹرک پر سوار ہو گیا۔ راجا اس بیگ کو سنبھالے ہوئے تھا، جس میں بظاہر تو پھل تھے مگر ساتھ ہی اس میں بھاری لفافہ بھی تھا جس میں راجا اور شبنم کی محنت کا پھل بھی موجود تھا۔
دونوں واپس آٹو میں بیٹھ گئے۔
***
ناظم اور راشد چائے کے ایک ہوٹل میں ایک بورڈ پر آمنے سامنے بیٹھے کیرم کھیل رہے تھے۔ کُل تین کیرم بورڈ تھے۔ تینوں پر بھیڑ لگی ہوئی تھی۔
”آجا ااااا۔۔۔۔ میری رانی آجا۔۔۔“ راشد کو کیرم کھیلتے ہوئے گوٹیوں سے باتیں کرنے کی عادت تھی۔ وہ اس وقت کوئن سے مخاطب تھا۔۔۔۔ ”او۔۔۔ یہ گئی کوئن۔۔۔۔۔۔“
کوئن پاکٹ میں چلی گئی تو ناظم جھنجھلا کر بولا:
”ابے کور (Cover) کر کور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئن کوئی حلوہ تھوڑی ہے جو تو لپا لپ کھا لے۔“ ناظم جانتا تھا، راشد کو سوجی کا حلوہ بہت پسند ہے۔
”لے میرے یار۔۔۔۔۔تیرے کہنے پر کور کر ریایوں۔۔۔۔۔تو بھی کیا یاد کرے گا۔“ گوٹی پاکٹ میں نہیں گئی کور نہیں ہو سکا۔ راشد جھنجھلا کر بولا:
”ابے، کھیلتے ہوئے ٹوکا ٹاکی مت کیا کر۔۔۔۔۔۔سالااااااا“
”ناظم نے ایک زوردار قہقہ لگایا اور بولا :”لے، ایسے ہی لے لے کوئن۔ ابّا کا مال سمجھ ریا۔۔۔“
اسی وقت ناظم اور راشد کا دوست چھنگا ہوٹل میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک نیا اور قیمتی موبائل تھا۔ چھنگا کے ہاتھ میں نیا موبائل دیکھ کر راشد بولا:
”ابے سالے۔۔۔کس کا موبائل ہے۔ نیو لگ ریا۔“
”کس کا مطلب؟۔۔۔۔ ابے تیرے یار کا بے گانڈو۔“ مرادی پور کے لوگ ہنسی مذاق میں بھی ایسے گالیاں بکتے تھے جیسے گالیاں نہیں دعائیں بانٹ رہے ہوں۔
”ابے کیوں چوتیا بنا ریا۔۔۔۔۔۔اتّا مہنگا۔۔۔۔۔“ راشد نے ٹوکا۔
”ابے ہم محنت کریں، محنت۔۔۔۔۔ تیری تریوں یہاں، وہاں ٹائم پاس نہ کریں۔“ چھنگا اتراتے ہوئے اس طرح بولا کہ منھ میں بھرا گُٹکا سنبھالنا مشکل ہو گیا۔
”ابے او، بس کر بس۔۔۔۔۔ تُجھ سے زیادہ ہی محنت کروں۔۔۔۔یہ تو تورہنے ہی دے۔۔۔۔“ ناظم نے عجیب سے تیور اپنائے۔
”ابے بھاڑوچند۔۔۔۔ بس بولے ای جاریا۔۔۔۔ میں یہ کہہ ریوں کہ میرا ایک سائڈ بزنس بھی ہے۔ ایک فرینڈ کے ساتھ۔“
”ابے کون سا بزنس۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ تو بتا۔۔۔۔۔۔۔۔“ ناظم کی اس بات پرچھنگا مُسکرایا اور پیلے پیلے دانتوں کی نُمائش کرنے لگا۔
اِسی دوران چھنگا نے ناظم کو آنکھ سے اشارہ کیا۔ ناظم چھنگا کا اشارہ سمجھ کر جلد سے جلد گیم ختم کرنے میں لگ گیا۔ اب اس کا کھیل میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ اس کو اس بات سے کوئی مطلب نہیں تھا کہ اگر وہ کھیل ہار گیا تو پیسے دینے ہوں گے۔ وہ گیم ہار گیا۔ ناظم اٹھا اور باہر نکل آیا۔
رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔ چھنگا اور ناظم لکڑی کے ایک کھوکے کے قریب کھڑے تھے۔ لوگوں کی آمد و رفت اس وقت کم تھی۔ زیادہ تر دکانیں بند ہو چکی تھیں۔ دور کہیں کسی گھر سے فلمی نغمے کی آواز آرہی تھی۔چاند کی روشنی چاروں طرف جلوہ بکھیر رہی تھی۔ ایسے ماحول میں چھنگا نے موبائل میں پورن سائٹ کھول لی۔ وہ بے حد فخریہ انداز میں ناظم کو نئے موبائل کی کوالٹی دکھا رہاتھا۔ مگر ناظم کا دل اس وقت پورن دیکھنے کا بالکل نہیں تھا۔ وہ پورن موویز تنہا دیکھنا پسند کرتا تھا۔ دوسرے یہ کہ فی الوقت اس کا سارا ذہن اس بات پر مرکوز تھا کہ اتنا شان دار اور قیمتی موبائل چھنگا کے پاس کہاں سے آیا۔ اس کا سائڈ بزنس کیا ہے؟
”ابے کوئی آ جائے گا۔ یہاں یار۔۔۔ بعد میں دیکھیں گے۔۔۔۔۔۔“
”ابے چل سالے۔ یہ کیا بات ہوئی، کوئی دیکھ لے گا۔ گانڑ مار لے گا ہماری؟“
”ابے چھوڑ اس بات کو۔ یہ بتا مجھے، تو کیا سائڈ بزنس کریا ہے؟“
”ابے تیرے بس کی بات نہیں ہے یہ بزنس وزنس۔۔۔۔۔۔“ چھنگا زور سے ہنسا اور ناظم کو اس کا روٹ بتانے لگا: ”بھاڑو چند، تو آٹو چلا آٹو پھاٹک سے ٹیشن تک۔۔۔۔۔“ ناظم آٹو چلاتا تھا۔”ابے سالے بھاؤ کھاریا، یار کو نہیں بتائے گا اپنے۔ پارٹنر نہیں بنائے گا۔“
ناظم انیس سال کا دسویں فیل نوجوان تھا۔ جس کا باپ برتن بنانے کے کارخانے میں برتن ڈھالنے کا کام کرتا تھا۔ اس کے دو بڑے بھائی اور تین بڑی بہنیں تھیں۔ باپ ان دنوں بیمار تھا۔ وہ گھر کے ایک کونے میں جھنگولا پلنگ پر پڑا بلغم تھوکتا رہتا تھا اور وجہ بے وجہ اپنے لڑکوں کو گالیاں بکتا رہتا تھا۔
چھنگا کا اصلی نام ذوالفقار تھا۔ اس کی عمر بائیس سال تھی۔ اس کا باپ پیڈل رکشہ چلاتا تھا۔ جب سے آٹو اور ای رکشہ کا چلن ہوا تب سے پیڈل رکشہ کا کام بہت کم رہ گیا تھا۔ آج کل ٹی بی کے مرض میں مبتلا تھا اور مسجد کے گیٹ پر ہاتھ میں دو تین درجن بیڑی، سگریٹ اور گٹکے کے پاؤچ بیچ کر اپنا خرچ چلاتا تھا۔ چھنگا کے دو چھوٹے بھائی اور دو بہنیں تھیں۔
”ابے تیرے بس کی بات نا۔ میرے کام میں ہاتھ ڈالنا۔۔۔“ چھنگا نے لاپرواہی سے کہا: ”اس کام کو کرنے کے لیے جگرا چاہئے، جگرا۔ کیا سمجھا۔ یہ گیم تیرے بس کا نا۔“
”پلیز بتا نہ یار۔۔۔۔۔میں اپنا بزنس کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ اسٹارٹ اپ لینا ہے مجھے۔“
”دیکھ بے، سالے تو میرا یار ہے۔ اس لیے بس تجھے ہی اپنے کام کے بارے میں بتایا۔۔۔ بہت جان جوکھم کا کام ہے۔۔۔۔ گانڑ بھی پھٹ جاتی ہے اس میں۔۔۔۔“
”تیرا یار جگر رکھتا ہے۔۔۔ آزما کے دیکھ۔۔۔پیچھے نہیں ہٹوں گا۔۔۔۔ کام تو بتا تو۔۔۔۔“ ناظم عمر کے جوش میں ہوش کھوئے ہوئے تھا۔
”ٹھیک ہے۔ میں بابا سے بات کروں گا۔“ چھنگا نے پہلی بار سنجیدگی سے کہا۔
”بابا؟“ ناظم نے سوالیہ انداز میں چھنگا کی طرف دیکھا: ”یہ باباکون ہے۔“
”ابے تو بس اتنا سمجھ لے۔۔۔۔ بابا مطلب میرا بوس۔۔۔۔۔جس کے لیے میں کام کرتا ہوں۔ تو یہ بتا رسک لینے کو تیار ہے؟ کبھی کبھی اس کام میں جان مصیبت میں آجاتی ہے، مگر پیسہ بہت ہے سالا۔“
چھنگا نے کہا:
”یار۔۔۔مجھے پیسہ کمانا ہے۔ میں محنت یا کسی اور بات کی پرواہ نہیں کرتا۔۔۔“ ناظم نے جلدی سے کہا
”ٹھیک ہے ۔۔۔ تو بھی کیا یاد رکھے گا۔ کیسے دل دار سے واسطہ پڑا تھا۔ کل جُمہ ہے۔ بابا جُمہ پڑھنے آئے گا۔۔۔ کل بات کرتا ہوں تیرے لیے۔“ چھنگا نے ناظم کی پیٹھ پر دھپ سے ہاتھ مارا: ”چل آ۔۔۔ کل کی کل پر چھوڑ۔۔۔ جوانی کے جلوے دیکھ۔۔۔۔۔“
یہ کہہ کر چھنگا نے موبائل اسکرین پر نظر آ رہی پورن موویز میں سے ایک کو منتخب کرکے کلک کیا۔ سسکاریاں شروع ہو گئیں۔ دونوں دوستوں کا دل و دماغ ہی نہیں سب کُچھ موبائل میں ڈوب گیا۔
***
جمعہ کی نماز کے بعد لوگ جامع مسجد سے باہر نکل رہے تھے۔ دور تک سفید ٹوپیاں نظر آرہی تھیں۔ نمازی زیادہ تر سفید لباس میں ملبوس تھے۔ سورج کی روشنی کے سبب سفید کپڑوں کی چمک میں اضافہ ہو رہا تھا۔ سڑک کی دونوں سائڈ میں پھیری والوں کے ٹھیلے کھڑے تھے۔ وہ زور زور سے اپنے سامان کی خوبیاں بتا کر گراہکوں کا دھیان اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ پھل، پکوڑی، چپّل، پلاسٹک کا سامان کے علاوہ بھی دیگر چیزیں فروخت ہو رہی تھیں۔
ایک ٹھیلے کے قریب بابا کھڑا ہوا کسی سے بات کر رہا تھا۔ بابا فربہ جسم کا چالیس سال کا آدمی تھا۔ کرتے میں اس کی توند صاف نظر آ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں سُرمہ لگا تھا۔ منھ پان کھانے سے لال تھا اور اس کے دانت بیڑی کی زیادتی سے پیلے اور کہیں کہیں سے کالے بھی تھے۔ اس کے موبائل کی گھنٹی بجی۔ بابا نے فون جیب سے نکالا۔ اسکرین پر فون کرنے والے کا نام دیکھا۔ کان سے لگایا اور مُنھ بھر کر گالی بکی: ”ابے گانڈو کہاں ہے بے تو۔۔۔۔؟“
”دوسری طرف چھنگا تھا: ”اور بابا آپ کر چھوڑ کدھر جاؤں گا۔ بائیں طرف پالش کے کارخانے کی طرف دیکھئے۔ پکوڑی کے ٹھیلے پر کھڑا واہوں۔“
بابا نے نظر اُٹھا کر بھیڑ سے نظریں بچاتے ہوئے دیکھا۔ چھنگا کسی کے ساتھ کھڑا تھا۔ بابا نے اسے اپنے پاس بُلایا۔
چھنگا ناظم سے بولا: تو یہیں رُک۔۔۔ ابھی آیا۔“ یہ کہہ کر وہ تیز تیز قدم بڑھاتا بابا کی طرف لپکا۔
”ابے کاں لونڈیا بازی میں لگا وا ہے۔۔۔۔ تین چار دن سے کوئی خبر نئیں۔“
” کُچھ نہیں بابا، بس تھوڑی سی مستی۔۔۔۔۔۔“ چھنگا ایسے مُسکرایا، جیسے شادی کے دوسرے دن کا دولہا، صبح کو اپنے دوستوں کی ہنسی مذاق کا جواب دے رہا ہو۔
”یہ کون سی مستی ہے بے۔۔۔۔۔ اور یہ تونے اپنے بالوں کا کیا کر رکھا۔۔۔۔ سالے لونڈیوں کی طرح بال پیلے سیلے کرا لیے۔۔۔۔ کیوں بے؟۔۔۔ سستی مستی۔۔۔۔“ بابانے دیکھا کہ چھنگا کے ہاتھ میں نیا اور قیمتی موبائل ہے.
”ارے بابا، یہ آج کل کا فیشن ہے۔ آج کل کی لڑکیاں اسی پر تو مرتی ہیں۔“
”لگتا ہے، یہ نیا موبائل تیری کسی نئی سیٹنگ نے ہی دیا ہے تُجھے۔“ بابا نے چھنگا کے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا۔
”نہیں بابا، یہ تو میں نے سیکنڈ ہینڈ خریدا ہے، چور بازار سے۔۔۔۔“ یہ کہہ کر چھنگا کھسیانی سی ہنسی ہنسا اور بابا کا ذہن موبائل کی طرف سے ہٹانے کے لیے جلدی سے بولا:
”بابا! میرا ایک دوست ناظم ہے۔ کام کرنا چاہتا ہے، آپ کے ساتھ۔ ضرورت مند بھی ہے وہ۔۔۔۔“
”لے کر آ۔۔۔۔۔۔بیٹھک میں۔۔۔۔۔بات کر کے دیکھتا ہوں۔“
بابا نے چھنگا کے کندھے کو تھپتھپایا اور نمازیوں کی بھیڑ میں کھو گیا۔
چھنگا ناظم کی طرف چل پڑا، جو سڑک کی دوسری طرف سے ان کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ ناظم کے قریب پہنچ کر چھنگا نے ناظم کی کمر پر زور سے ہاتھ مارا اور بولا:
”کام بن گیا میرے یار۔۔۔۔بابا نے بیٹھک میں بُلایا ہے۔“ ناظم خوش ہو کر چھنگا سے بولا۔۔۔۔۔”چل سگریٹ پیتے ہیں۔“
دونوں پان کی دکان کی طرف چل پڑے۔
چلتے چلتے چھنگا نے بے وجہ ہی ایک شریف آدمی کے کندھا مارا اور بولا:
”ابے ہٹ راستے سے۔“
آدمی نے پلٹ کر غصّے میں دیکھا اور کُچھ کہے بنا ہی زیرِ لب گالی دیتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ چھنگا اور ناظم نے تمسخر اڑاتے ہوئے قہقہہ لگایا اور تیزی سے چلنے لگے۔ ***

قریشی اپنے آفس میں کُرسی پر بیٹھا آہستہ آہستہ اپنے پیر ہلائے جا رہا تھا اور میز کی دوسری طرف بیٹھے سب اِنسپکٹر کاشی کو دیکھتے ہوئے اس کی باتیں سُن رہا تھا۔ قریشی کے چہرے کا رنگ لمحہ بہ لمحہ بدل رہا تھا۔ کبھی اسے حیرانی ہوتی، کبھی جھنجھلاہٹ اور کبھی اس کے چہرے پر غصّہ تانڈو کرنے لگتا تھا۔ پھر بھی وہ صبر کا دامن تھامے، صرف یہ کہے جا رہا تھا:
’ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔ پھر۔۔۔۔۔۔ کُچھ پتہ چلا۔“
ارباز قریشی شہر کا نامی گرامی شخص تھا۔ وہ ادھیڑ عمر کا آدمی تھا۔ بالوں میں مہندی لگا کر بالوں کو لال رکھتا تھا۔ قد پانچ فٹ۔ توند نکلی ہوئی۔ گردن نظر نہیں آتی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا، جیسے کاندھوں پر اس کا سر رکھ دیا گیا ہے۔ چائے کا شوقین۔ ہر دو گھنٹے بعد اسے چائے پینے کی عادت تھی۔ خاندانی کام تو برف خانے کا تھا، مگر اس کے اور بھی کئی بزنس تھے۔ زمینوں کی خرید و فروخت بھی کرتا تھا۔ بہت کم لوگ اس بات سے واقف تھے کہ غیر قانونی کام میں ملوّث تھا۔ اس کا سیاسی رتبہ تھا شہر میں۔ سابق ایم۔ ایل۔ اے تھا۔ شہر کے شرفا کے خیال میں وہ سفید لباس میں شہر کا سب سے بڑا غُنڈہ تھا۔
اِس وقت قریشی کے دفتر میں تھانہ جامع مسجد کا سب انسپکٹر سنتوش کاشی بیٹھا تھا۔ کاشی کا چہرہ عام چہروں سے ذرا بڑا تھا۔ موٹی موٹی مونچھیں اس کے چہرے پر رعب پیدا کررہی تھیں۔
کُچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔ کمرے میں صرف کاشی اور قریشی کی لمبی لمبی سانسوں کی آوازیں تھیں۔
کاشی کی بات سُن کر قریشی کُچھ دیر خاموشی سے میز پر رکھے اپنے قیمتی فون کو گھورتا رہا۔ پھر اس نے میز کی دراز کھولی۔ چھوٹا اور پرانا موبائل نکال کے ایک نمبر ملایا۔” ہاں۔۔۔۔ کہاں ہے؟“
دوسری طرف بابا تھا، بولا: ”سر گھر پر ہی ہوں۔ کھانا کھا رہا ہوں۔“
”ابے گانڈوٗ۔۔ کھانا وانا چھوڑ۔ جلدی سے ادھر آ۔۔۔۔ سالے اپنادھندہ شروع کر رہا اور۔۔۔۔“
بابا کا منہ کا لقمہ منہ ہی رہ گیا وہ اسے نگلنا بھول گیا۔۔۔۔۔”میں کُچھ سمجھا نہیں سر۔۔۔؟“
” جلدی یہاں آ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بتاتا ہوں۔۔تیری گانڑ۔۔۔۔۔“
جملہ ادھورا چھوڑ کر قریشی نے فون کاٹ دیا۔
قریشی یہ بھول گیا کہ سامنے انسپکٹر کاشی بیٹھا ہے۔ قریشی بے حد غصے میں پیر پر پیر رکھ کر ہلا ئے جا رہا تھا۔ ”میں بتاؤں گا بھوسڑی والے کو۔۔۔۔“
کاشی نے قریشی کے یہ تیور دیکھے تو وہ بولا:
”اچھا قریشی صاحب میں چلتا ہوں۔ تھانے پہنچنا ہے۔ بعد میں ملتا ہوں آپ سے۔“ یہ کہہ کر کاشی، قریشی کے دفتر سے نکل گیا۔
***
بابا قریشی کے برف خانے پر پہنچا۔ اس نے برف خانے کے پھاٹک پر بائک کھڑی کی۔ پھاٹک میں داخل ہو کر تیزی سے قریشی کے دفتر کی طرف لپکا۔ برف خانے میں کئی کاریگروں نے اسے جھک کر سلام کیا۔ وہ ان سب کو دیکھے بنا آگے بڑھتا گیا۔ برف کی سلیاں ٹرک میں لادی جا رہی تھیں۔ سلیوں سے نکلنے والا دھواں آہستہ آہستہ آسمان میں غائب ہو رہا تھا۔ مگر بابا کے دماغ میں قریشی نے جو دھواں بھر دیا تھا اُس دھوئیں نے بابا کو عجیب کشمکش میں ڈال رکھا تھا۔ بابا نے اپنی تیز ہوتی دھڑکنوں کو سنبھالتے ہوئے قریشی کے دفتر میں جھانکا۔اندر قریشی کا پندرہ سال کا بیٹا تھا۔ وہ موبائل میں غرق تھا۔ دروازے کی کھڑکھڑاہٹ سے اس نے لمحہ بھر بابا کو دیکھا اور بولا:
” پاپا ابھی ابھی کہیں گئے ہیں۔ کہہ کر گئے ہیں بابا آئے تو اس کو بیٹھا لینا۔“
بابا دفتر کے باہر ایک اسٹٗول پر بیٹھ گیا۔ بے چینی، اُلجھن اور پریشانی اس کے چہرے پر اندھیرے اجالے کا کھیل کھیل رہی تھی۔ وہ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا کہ معاملہ کیا ہے۔ وہ اپنی عقل کے گھوڑے دوڑا چکا تھا۔ مگر کہیں بھی پہنچنے سے قاصر تھا۔ کبھی وہ سوچتا کے شاید نالہ پار کی زمین کی بات ہو، اس نے قریشی کو بتائے بغیر وہ زمین معمولی دام میں قریشی کی دھونس دکھا کر غریب مجبور آدمی سے خرید لی تھی۔ کبھی سوچتا صوفیہ کا معاملہ تو نہیں۔ پان کی دکان والے کی بیوی سے اس کا معاشقہ چل رہا تھا۔۔۔۔۔ وہ بہت اُلجھ رہا تھا۔ پھر سوچا۔۔۔ مگر قریشی تو اپنا دھندہ شروع کرنے کی بات کر رہا تھا۔
بابا ابھی اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ قریشی دو لڑکوں کے ہمراہ برف خانے کے پھاٹک میں داخل ہوا۔ قریشی کو دیکھ کر بابا کھڑا ہو گیا۔ وہ تیزی سے قریشی کی طرف لپکا۔ قریشی دہاڑا:
”ابے ا تنی دیر میں آیا ہے۔ کب سے انتظار کر ہا ہوں۔۔۔۔“
”بس کھانا کھا رہا تھا سر۔۔۔۔“ بابا گھبراتے ہوئے بولا۔
قریشی نے ساتھ آئے لڑکوں سے کُچھ کہا۔ لڑکے برف خانے سے نکل گئے۔ قریشی نے بابا سے اپنے کیبن کی طرف اشارہ کر کے آنے کے لیے کہا۔ کیبن میں قریشی کا بیٹا موبائل میں گیم کھیل رہا تھا۔ دونوں کو اندر دیکھ کر وہ باہر چلا گیا۔ قریشی اپنی سیٹ پر بیٹھا۔ بابا مُجرم کی صورت، ہاتھ باندھے کھڑا رہا۔
قریشی نے میز کی دراز کھولی۔ سگریٹ کا پیکٹ نکالتے ہوئے بولا:
”کیوں بے، تو نے اپنی پیکنگ شروع کر دی۔ پارسل کہاں تک پہنچا۔“
بابا کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایسی کوئی بات ہوگی۔ وہ تقریباََ جھٹکا کھاتے ہوئے بولا: ”کیسی پیکنگ۔۔۔۔کونسا پارسل۔۔سر۔“
”ابے بھاڑو چند۔۔۔۔“ قریشی چند لمحے رُکا۔ غور سے بابا کو دیکھا۔ اس کی خود اعتمادی کو دیکھتے ہوئے قریشی کو شک ہوا کہ بابا بے قصور ہے شاید۔ پھر بھی اس نے اپنے لہجے کو سخت بنائے رکھا اور بولا:
”زیادہ معصوم نہ بن۔۔۔ میں نے اس کام کے لیے صرف تجھے ہی رکھ چھوڑا ہے۔۔۔ کسی دوسرے کو میرے اس دھندے کے بارے میں معلوم ہی نہیں۔۔۔“
”مگر سر، مجھے قسم سے کسی بھی پارسل کے بارے میں نہیں معلوم۔ سچ کہہ رہا ہوں۔“
قریشی نے تیز نگاہوں سے بابا کی آنکھوں میں چند لمحے دیکھا۔ قریشی نے غور کیا، بابا نے آنکھیں نہیں جھپکائی ہیں۔ قریشی کو لگا، بابا صحیح کہتا ہے۔
پھر بھی جھنجھلا کر بولا: ”ابے گانڈو پرساد!“ قریشی کو غصّے میں عجیب عجیب گالیاں بکنے کی عادت تھی۔ ”کاشی آیا تھا، جامع مسجد تھانے سے۔۔۔۔ پارسلنگ ہوئی ہے۔“
”خدا قسم سر!“ انسپکٹر کاشی بہت ہی بے رحم قسم کا پولیس والا تھا۔ اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔ ”مجھے اس بارے میں کُچھ نہیں معلوم۔“
کُچھ دیرخاموشی رہی۔ قریشی نے نظریں ادھر اُدھر گھمائیں۔ میز پر انگلیوں سے طبلہ بجایا۔ سوچتا رہا۔ بولا:
”کون ہو سکتا ہے یہ؟“ بے خیالی میں سگریٹ کا پیکٹ اُٹھایا اور رکھ دیا۔ ”جا، چائے لے کر آ۔ چائے پی لیتے ہیں،اس کے بعد پھر سوچتے ہیں۔“ قریشی بہت دور تک سوچتا تھا۔
بابا کو قریشی کی اس بات سے قدرے سکون حاصل ہوا۔ پسینہ جو کانوں سے بہہ کر ٹخنوں تک پہنچ گیا تھا، خشک ہونے لگا۔ بابا کیبن سے باہر آیا۔ برف خانے کے پھاٹک سے نکل کر برابر والے ہوٹل کی طرف بڑھا۔ اس کا دماغ اب بھی تیزی سے یہی سوچ رہا تھا کہ کون ہو سکتا ہے، پارسل بنانے والا۔ یہ سوچتے سوچتے وہ چائے کی دکان پر پہنچا۔
”قریشی سر کے آفس میں دو چائے بھیج دو چاچا۔۔۔“
بابا کی نگاہ ابلتی ہوئی چائے کی طرف تھی۔ اس کے دماغ میں خیالات ابُل رہے تھے۔ کون؟ کون ہو سکتا ہے؟ کس کا کام ہے یہ؟
چائے بنانے والا گراہک سے سگریٹ، بسکٹ اور چائے کے حساب میں اُلجھا ہوا تھا کہ چائے ابُل کر باہر آنے لگی۔ دکان والے نے تیزی سے اُبلتی چائے کو آگ پر سے اُتارا۔ ٹھیک اسی لمحہ بابا کے اُبلتے ہوئے دماغ میں چھنگا کا چہرہ باہر آیا۔ اسے خیال آیا، اس دن اس کے ہاتھ میں ایک نیا اور قیمتی موبائل تھا۔ بابا بڑبڑایا۔۔۔ ”سالا۔۔حرامی۔۔۔۔“ اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ وہ تیزی سے گھوما، برف خانے کی طرف چل پڑا۔ پھر دوبارا ہوٹل کی طرف واپس آیا اور چائے والے سے جلدی سے بولا۔
”دو چائے قریشی صاحب کے یہاں بھیج دینا۔“ چائے والے کا جواب سنے بغیر وہ تیزی سے واپس ہوا۔
”سر!“ اس کے سانسوں کی رفتار تیز تھی۔
”ابے کیا ہے۔۔۔چائے کہاں ہے؟“ قریشی کسی سے فون پر بات کر رہا تھا۔اس نے فون پر ہاتھ رکھا اور بولا۔۔۔۔”ابے کیوں بوکھلا رہا ہے ا تنا؟“
”سر آپ پہلے بات کر لیں۔“
بابا کی اس بات پر قریشی نے فون پر کہا: ”میں بعد میں بات کرتا ہوں۔“
ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے قریشی بابا کے سامنے بات کرنا نہیں چاہتا تھا۔ قریشی نے فون بند کیا اور بابا سے بولا:
”کیا ہوا۔۔۔۔۔۔؟“
”سر مجھے لگتا ہے یہ چھنگا کا کام ہے۔“ بابا نے قمیض کی آستین سے ماتھے کو یوں ہی صاف کیا۔
”وہ، جس نے تیرے ساتھ پارسلنگ کی تھی؟“ قریشی نے ذہن پر زور ڈالتے ہوئے پوچھا۔
”جی سر۔“ بابا نے پورے یقین سے کہا۔
”ٹھیک ہے تو جا۔۔جا کر اس کا فلان، اس کی گانڑ میں گھسیڑ۔۔۔۔ ورنہ میں کاشی کو بھیج دوں گا۔“
بابا تیزی سے کیبن سے باہر نکل آیا، وہ چائے کو بالکل بھول چکا تھا۔
***
بابا اور چھنگا برف خانے میں قریشی کے منتظر تھے۔
رات کے دس بج رہے تھے۔ برف خانے میں کام بند تھا۔ دن کے وقت جو سفید دھواں اڑتا ہوا آسمان کی طرف چلا جاتا تھا اور بادل میں تبدیل ہوتا تھا، وہ اس وقت نظر نہیں آرہا تھا۔ برف خانے میں خاموشی تھی۔ قریشی کا کیبن بند تھا۔ کیبن کے باہر بابا اور چھنگا اسٹول پر بیٹھے ہوئے تھے۔ قریشی کے باڈی گارڈ کہے جانے والے دو لڑکے برف خانے کے باہر گیٹ پر موبائل میں لگے تھے۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد دونوں ساتھی ایک دوسرے کو اپنے موبائل کی اسکرین دکھا کر قہقہہ لگاتے اور پھر موبائل میں کھو جاتے۔
بابا چھنگا کو رُک رُک دیکھ رہا تھا اور زیرِ لب گالیاں دیے جا رہا تھا۔ چھنگا پریشان تھا۔ وہ عجیب عجیب اندیشوں سے گھرا تھا۔ کبھی اسے لگتا قریشی اسے گولی مار دے گا۔ کبھی سوچتا، شاید کاشی کے حوالے کر دے گا۔ کبھی اسے محسوس ہوتا ایسا نہیں ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ کیا کرے گا، مُرغا بنائے گا، تھپّڑ مارے گا، گالیاں بکنا اس کی عادت ہی ہے۔ اس کا بھلا کیا کیاجا سکتا ہے۔ اور اگر اس نے فون مانگا تو، فون دے دے گا۔
بابا قریشی کا اکثر گھنٹوں انتظار کرتا تھا۔ مگر اس وقت اسے اکتاہٹ ہو رہی تھی۔ وہ بار بار جھنجھلا جاتا تھا۔ وہ اُکتا کر پھر کھڑا ہو گیا۔
”تیری وجہ سے۔۔۔ مادر چود۔۔۔صرف۔۔۔“
ٹھیک اسی وقت قریشی برف خانے میں داخل ہوا۔ قریشی کی رہائش گاہ قریب ہی تھی۔ وہ رات کا کھانا کھا کر چہل قدمی کرتاہوا برف خانے چلا آیا۔
چھنگا کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ وہ خوف زدہ سا بابا کے پیچھے چلنے لگا۔
قریشی کُرسی پر بیٹھا۔ چند منٹ بعد وہ بابا سے مخاطب ہوا: ”ہاں بھئی، کیا کرنا ہے اس ہیرو کا۔۔۔۔۔“
”سر!“ بابا نے پہلے سے ہی تیار جُملہ اُگل دیا:
”معافی مانگ رہا ہے۔ غلطی ہو گئی ہے اس سے۔۔۔۔کہتا ہے آئندہ نہیں کرے گا۔“
”تو نے کیا کہا؟“ قریشی نے چھنگا کو گھورتے ہوئے پوچھا۔
”میں نے کہہ دیا ہے کہ معاف واف کرنا میرا کام نہیں ہے۔“ بابا نے اپنی جان بچائی۔
”کاشی اس کو اٹھانے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ بس میرے اشارے کی دیر ہے۔“ قریشی کے تیور بدلنے لگے۔ ”تھانے میں وہ اس کی گانڑ میں ڈنڈا گھسیڑ کر اس پر اتنی دفعائیں لگائے گا کہ۔۔۔۔۔“
چھنگا نے گھبرا کر ہاتھ جوڑ دیے۔ ”سر، پھر کبھی ایسا نہیں کروں گا۔ بس اس بار معافی دے دیں۔۔۔“
”جا۔۔۔معاف کیا۔۔۔“ بابا حیران رہ گیا۔ اس نے سوچا قریشی جیسا انسان اتنی آسانی سے معاف کردے۔۔۔۔ ضرور کوئی بات ہوگی۔
مگر چھنگا کو ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے گلے سے موت کا پھندہ اتار دیا ہو۔
”مگر۔۔۔۔“ قریشی نے بات پوری کی۔۔۔۔”شرط ہے، لونڈے۔۔۔“ قریشی مُسکرایا۔
چھنگا کو لگا قریشی موبائل مانگے گا۔ جس کے لیے وہ ایک دم تیار تھا۔ وہ بولا:
”جی صاحب۔۔۔“
”دیکھ بے لونڈے۔۔۔“ قریشی نے شرط رکھی۔”تیرے پاس اوپشن ہے، جو چاہے چوز (choose) کر لے۔۔ میرا ایک دشمن ہے اس کو راستے سے ہٹانا ہے۔ کٹّا میں دوں گا تجھے۔ اور دوسرا اوپشن یہ ہے کہ پندرہ بیس دن کے اندر اندر مجھے ایک پارسل لا کردے۔۔۔۔۔۔ اور ہاں پارسل گول ہو۔“
پارسل گیری کی دنیا میں گول کا مطلب لڑکی اور لمبا کے معنی لڑکا ہوتا تھا۔
چھنگا حساب لگانے لگا، کیا صحیح رہے گا۔ قریشی اور بابا منتظر تھے کہ چھنگا اوپشن چوز کرے۔
کیبن کی خاموشی کو بابا نے توڑا:
”بول بھئی جلدی اوپشن بول۔۔ اس سے پہلے کہ سر کا ارادہ بدل جائے۔“
چھنگا نے گھبرا کر کہا:”میں پارسل لادوں واں۔۔۔۔جلدی۔“
قریشی نے بات پوری کی: ”گول پارسل لانا ہے۔۔ وہ بھی پندرہ دن میں سمجھا، یا نہیں۔“
چھنگا نے فی الحال جان چھڑانے کے لیے ہاں میں گردن ہلا دی۔
”چل، اب پھوٹ لے۔۔۔۔“
قریشی بابا سے مخاطب ہوا: ”یہ راجا کون ہے بھڑوا۔۔۔۔“ بابا نے جواب دینے کے لیے منھ کھولا ہی تھا کہ قریشی چھنگا کی طرف دیکھ کر چیخ پڑا:
”اب بھاگ یہاں سے۔۔۔۔ یا۔۔۔۔“ چھنگا سر پر پیر رکھ کر بھاگا۔
***
سورج غروب ہو رہا تھا۔ اندھیرا آہستہ آہستہ اپنے پیر پھیلا رہا تھا۔ ناظم اور چھنگا شہر سے اٹھارہ بیس کلو میٹر دور ایک قصبے میں راجا کے گھر پہنچے۔ ٹین کی چھت اور بِنا پلاستر کے اس کمرے میں پلنگ پر پرانی دری بچھی ہوئی تھی۔ چھوٹا سا بلب روشن تھا۔ جو پیلی سی روشنی پھیلا رہا تھا۔ راجا نے چھنگا اور ناظم کو پلنگ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود لنگی سمیٹ کر قریب پڑے مونڈے پر بیٹھ گیا۔
چھنگا نے راجا کو بابا کی تمام باتیں بتائیں۔ قریشی کے غصّے اور کاشی کے ارادوں سے واقف کرایا۔
راجا نے جھنجھلاتے ہوئے چھنگا سے کہا:
”میں نے تُجھ سے اسی وقت کہا تھا۔ اس عورت کا موبائل وہیں پڑا رہنے دے۔۔۔مگر تو ایک نمبر کا چوتیا۔۔۔۔ موبائل کی ہوس ہے تجھے سالے۔۔۔۔اب مرواؤ اپنی گانڑ۔۔۔۔۔“
”ابے، میں نے تو بیچنے کے ارادے سے لیا تھا۔ سوچا تھا، تھوڑے دن چلا کر کسی کو پکڑادوں گا۔۔۔۔۔۔اب کیا پتہ تھا سالا۔۔۔۔یہ بابا۔۔۔۔۔“ چھنگا نے اپنی غلطی کا اعتراف کرنا چاہا۔
”ویسے یہ بھی نہیں کرنا چاہیئے۔۔۔۔کیوں کہ اگر موبائل سے سم نکال کر پھینک بھی دو تو موبائل کا ایک خاص نمبر ہوتا ہے، جس سے پولیس پتہ لگا لیتی ہے۔ میں نے ویب سیریز میں دیکھا ہے۔“ ناظم کی اس بات پر چھنگا بھڑک اُٹھا۔
”تو تو چُپ بیٹھ یار۔۔۔۔۔ایسا کبھی کبھی ہوتا ہے۔ کوئی بڑا کانڈ ہو تب۔۔۔۔“
چھنگا کے اس طرح بھڑکنے پر ناظم تو خاموش ہو گیا البتہ راجا طیش میں آگیا۔ وہ کھڑا ہو کر کہنے لگا: ”کبھی کُچھ بھی ہو جاتا ہے اس کام میں۔۔۔۔ ہم کو اپنے گیم کو بہت سنبھال کر کھیلنا ہوتاہے۔۔۔۔ اور تو گانڈو گردی دکھا گیا۔“
پھر سب خاموش ہوگئے۔
جب کافی دیر ہوگئی سنّاٹا برقرار رہا تو چھنگا بولا:
”یار راجا کچھ بول یار، یہ کاشی اور قریشی میرا جینا مشکل کیے ہیں۔“
”دیکھ میرے یار۔ میرا تو یہ کہنا ہے کہ ہم مل کر اپنا گینگ بناتے ہیں۔“
راجا مزاج کا بہت گرم تھا۔ اسے ایک دم سے غصّہ آتا تھا۔ مگر ذرا دیر بعد وہ نرم بھی پڑ جاتا تھا۔ وہ بولا: ”اپنی خود کی پارسلنگ شروع کرتے ہیں۔ پارسل کس کو پاس کرنا ہے۔ مجھے معلوم ہے۔ پارٹی مجھے مل گئی ہے۔ کیسے ملی ہے اس وقت اس بات کو چھوڑ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو یہ بتا کیا ہمارے گینگ کا حصّہ بنے گا یا نہیں۔۔۔ میں ہوں، میری گرل فرینڈ شبنم بھی ساتھ ہے۔“
شبنم جو کُچھ دور لکڑی کی پٹری پر بیٹھی ہوئی پراٹھے بنانے کے لیے آلو چھیل رہی تھی۔ اس نے اس ادا سے دیکھا جیسے اپنی پارٹنر شپ کا اقرار بھی کر رہی ہو اور راجا کی شبنم ہونے سے شرما بھی رہی ہو۔ راجا آگے بولا:
”اگر تم دونوں چاہو تو ہماری گینگ کا حصّہ بن جاؤ۔۔۔۔کیوں بے ناظم کیا کہتا ہے۔“
ناظم جو بیڑی سلگا رہا تھا، بولا: ”بھائی مجھے ہے پیسوں کی بہت سخت ضرورت۔ اس لیے مجھے تو جو تم کام بولوگے کروں گا۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ مجھے میرے لین دار مار ڈالیں۔۔۔ سالا کُچھ کما کھا کر ہی کیوں نہ مرا جا ئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا سمجھے۔۔۔ اپنا تو سیدھا سا فنڈا ہے۔“
مگر چھنگا کو قریشی سے زیادہ کاشی کا خوف ستا رہا تھا۔ بولا: ”وہ تو ٹھیک ہے یاروں مگر سالا اُس کاشی کا کیا کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
راجا نے شبنم کی طرف دیکھا: ”تو کیا کہتی ہے شبّو۔“
شبنم اپنی جگہ سے اُٹھ کر راجا کے قریب آئی اور اس کی پیٹھ پر ہلکے سے ہاتھ مار کر اشارہ کیا کہ وہ پلنگ پر بیٹھ جائے۔ راجا مونڈے سے اُٹھ کر ناظم کی برابر میں پلنگ پر بیٹھ گیا۔ شبنم مونڈے پر براجمان ہوئی۔ پہلے اس نے بیڑی کا بنڈل اٹھایا۔ بیڑی نکال کر سلگاتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔ ”گائز(Guys)۔۔۔“ شبنم کے گائز کہنے پر چھنگا اور راجانے زوردار قہقہہ لگایا۔ ناظم حیرت سے اس کاچہرہ دیکھنے لگا۔ شبنم بولی:
”قریشی سے تو ڈرنے کی ضرورت نئیں ہے، وہ بھڑوا خود پولیس کے دم سے ہے۔ باقی سُنا ہے اس کے کئی دشمن بھی ہیں۔۔۔ رہ جاتا ہے یہ کاشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک نمبر کا رشوت خور۔۔۔ اور لونڈیا باز۔۔۔۔ میری جاننے والی کا واسطہ پڑ چکا ہے۔ مجھے معلوم ہے۔۔۔۔ ہم لوگوں کو بس اس کو پٹانا ہے۔ اسے کیا چاہئے؟ اپنا حصّہ؟ جو ہم اس کو پہنچائیں گے۔ باقی میں سالے کو اپنی اداؤں میں گرفتار کرنے کے لیے تیار ہوں۔“ یہ کہہ کر خود ہی شبنم نے ادائے دلربائی سے زبردست قہقہہ لگایا۔ بیڑی کا لمبا کش کھینچا۔
ناظم اور چھنگا مسکرانے لگے۔ راجا نے شبنم کی طرف تعریف بھری نظروں سے دیکھا: ”رانی تو یو بہت کام کی لونڈیا ہے۔۔۔۔“
”وہ تو میں ہوں ہی۔“ کہہ کر شبنم ایک ادا سے اٹھی اور بولی: ”میں تُم سب کے لیے کھانا بنا رہی ہوں۔ نئے گینگ کی خوشی میں پارٹی کرتے ہیں۔۔۔ پراٹھا پارٹی۔“ شبنم کی باتیں سُن کر چھنگا بھی مطمئن ہو گیا۔
ایک اور کمپنی کی پہلی میٹنگ کامیابی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچی۔۔۔۔۔ کمپنی کا نام کرن ابھی باقی تھا۔
***
پنکی کو غائب ہوئے ایک ہفتہ بیت چکا تھا۔
صبا کا شوہر شاہد ابھی تھانے سے واپس آیا تھا۔ صبا نے اپنے شوہر کو دیکھ کر اندازہ لگا لیا کہ پولیس نے کیا جواب دیا ہوگا۔ صبا نے شاہد کا چہرہ چند منٹ ایسے ہی گھورا، شاہد بھی صبا کی ویران آنکھوں میں جھانکتا رہا۔ شاہد کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ صبا نے خود پر قابو پایا۔ لمبی ٹھندی سانس بھری اور شوہر سے بولی:
”کھانا لا رہی ہو ں۔۔۔ کھا لو۔۔۔۔۔“ وہ تیزی سے باورچی خانے کی طرف چلی گئی۔ کچن میں اس کے ہاتھ میں پنکی کا وہ ٹفن آ گیا جو وہ اسکول لے کر جاتی تھی۔ صبا سسک سسک کر روتی رہی، کھانا نکالتی رہی۔
شوہر اور بیوی نے کھانا کھانا شروع ہی کیا تھا۔ زینے پر کسی کے آنے کی آہٹ ہوئی۔
علی آ یا تھا۔ علی کو دیکھ کر صبا رونے لگی۔ وہ مُنھ کا نوالا چبانا بھول گئی۔ اس کے مُنھ سے رال ٹپکنے لگی۔ روٹی کے باریک باریک ریزے لبوں پر بے ترتیبی سے پھیل گئے۔
شاہد نے کھڑے ہو کر علی کو کمرے میں بلایا۔ کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ صبا کی یہ حالت دیکھ کر ضبط کرتے کرتے شاہد کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ صبا کا بیٹا جاوید دوڑ کر علی کے پاس آگیا۔ علی نے جیسے ہی جاوید کو گلے لگایا۔ شاہد کو یاد آیا کہ جب بھی علی گھر آتا تھا تو سب سے پہلے پنکی کو گود میں اٹھا کر پیار کیا کرتا تھا۔ اس خیال کے آتے ہی شاہد بھی صبا کا ہاتھ پکڑ کر بے اختیار رو پڑا۔
علی کُچھ دیر سر اُوپر اٹھا کر چھت کو گھورتا رہا۔ پھر اپنے جذبات قابو میں کر کے کہنے لگا: ”خالہ روئیں نہیں۔ پنکی آ جائے گی۔ میں لے کر آؤں گا اس کو، آپ لوگوں سے یہ میرا وعدہ ہے۔“
علی نے اتنے یقین کے ساتھ کہا کہ دونوں میاں بیوی نے گردن اٹھا کر علی کی طرف دیکھا۔ جاوید بھی علی کو لپٹ گیا اور بولا:
”سچ میں علی بھائی؟؟؟“ اس نے ایسے کہا کہ جیسے اسے یقین نہ ہو۔
”میں اسے ضرور لے کر آؤں گا۔۔۔۔ میرے چھوٹے سے پیارے بھائی، اپنی بہن کو تیری بہن کو ضرور لاؤں گا۔“
”ہاں علی اسے ضرور تلاش کریں گے ہم۔ پنکی مر جاتی تو شاید صبر آجاتا مگر۔۔۔“
صبا تڑپ گئی: ”ایسا نہ بولو جی۔۔۔۔۔ ہم سب مل کر اسے تلاش کریں گے۔“
اس امید افزا ماحول سے تھوڑی ڈھارس بندھی تو صبا بولی: ”علی تو بیٹھ، میں تیرے لیے پانی لے کر آتی ہوں۔“
شاہد نے علی کو بتایا: ”آج بھی تھانے گیا تھا میں۔ مگر وہی بات دہرا دیتے ہیں کہ پولیس پوری کوشش کر رہی ہے۔ کڈنیپر کو تلاش کرنے کے لیے کئی مقام پر چھاپے مارے گئے ہیں۔ اسپتال اور جائے واردات کے آس پاس برابر تفتیش چل رہی ہے۔“
”پھر پتہ کیوں نہیں چل پا رہا ہے۔ جب پولیس سب کُچھ کر رہی ہے۔ صرف زبانی جمع خرچ ہی ہے ان پولیس والوں کے پاس۔۔۔“ علی نے غصّے میں کہا۔
”اور ہاں۔۔۔“ شاہد نے مزید بتایا: ”تھانے میں یہ بھی بتایا گیا کہ پولیس کو شک ہے کہ پنکی کو اغوا کرنے والے اس کو دلشاد آباد لے گئے ہیں شاید۔۔۔۔۔ کمینوں نے شاید لفظ جوڑ دیا کہ ہم ان کی بات کا پوری طرح یقین بھی کریں یا نہیں۔“
”دلشاد آباد؟“ علی چونکا۔
”ہاں کہتے ہیں کہ ہم دلشاد آباد پولیس سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
”ان کی کوشش۔ کیسی کوشش ہو گئی۔؟“ علی پولیس کی ’کوشش‘ سے جھنجھلا کر بولا۔
”خیر۔ ہم لوگ اپنی کوشش شروع کرتے ہیں۔ میں کل واپس دلشاد آباد جا رہا ہوں۔ اپنے تعلقات کا استعمال کر کے معلومات کرتا ہوں۔۔۔۔۔پولیس کی کوشش تو جھوٹی لگتی ہے۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔میں خالو صاحب، آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اور میرے دوست اپنی کوشش کو انجام تک پہنچائیں گے۔۔۔۔ پنکی ہم کو ضرور ضرور ملے گی۔“
یہ کہتے ہوئے علی جانے کے لیے کھڑا ہوگیا۔
***
نئی فیکٹری (باب چہارم تا ہفتم)
ذاکر فیضی کی دوسری تخلیق : ادھورا نِروان

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے