کتاب: بن پھول

کتاب: بن پھول

مترجم :احمد کمال حشمی
سنہ اشاعت :2022
صفحات :336
قیمت : 203 روپے
مبصر : فرزانہ پروین

دو سال قبل ایک شام احمد کمال حشمی صاحب سے فون پہ گفتگو کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ وہ بن پھول کی کہانیوں کا ترجمہ کر رہے ہیں. یہ سن کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی اور میں نے ان سے اصرار کیا کہ وہ مجھے کوئی ایک ترجمہ شدہ کہانی بھیجیں اور انھوں نے مجھے ایک کہانی "آنکھیں" کا عکس بھیج دیا، اس کہانی کو پڑھنے کے بعد میں بن پھول سے اس قدر متاثر ہوئی کہ ان کو کال کر کے متعدد بار پوچھتی رہی کہ کتاب کب مکمل ہوگی؟ جب کتاب ہاتھ آئی تو میری خوشی کی انتہا نہیں رہی. کتاب کے سرورق پر پدم بھوشن انعام یافتہ کہانی نویس بن پھول کے نام جاری کیے گئے ڈاک ٹکٹ کی تصاویر چسپاں ہیں، "تیسرے خط" میں مترجم نے اپنے مشاہدات و تجربات کا ذکر کیا ہے جب کہ دو صفحات میں کہانی کار بولائی چند مکھو پادھیائے عرف بن پھول کے حالات زندگی اور ان کی کارگزاریوں کا ذکر کیا گیا ہے. عام طور پر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ کولکاتا والے بنگلہ ادب اور بنگالی کلچر سے بہ خوبی آشنا ہوتے ہیں لیکن مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں یا میرے جیسے بیشتر لوگ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بنگلہ زبان کے چند شعرا و ادبا کے علاوہ اور کسی سے واقف نہیں ہوتے. یہ ہماری کم علمی ہے۔ بن پھول جیسے کتنے ہی شعرا و ادبا ہماری نظروں سے اب تک اوجھل ہیں. یہ احمد کمال حشمی کا کمال ہے جنھوں نے ترجمے کے ذریعے ہمیں بن پھول جیسے بڑے قلم کار سے متعارف کروایا، اور ہمیں بنگلہ زبان و ادب، اس کی تہذیب، مصنف کے طرز فکر اور اس کے خیال کی وسعت سے آشنا کرایا۔ یہی وجہ ہے کہ ترجمہ نگاری کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے. غزلیں کہنے اور مضامین لکھنے والے تو ہمیں بے شمار مل جاتے ہیں لیکن ترجمہ نگار مشکل سے ملتا ہے اور اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی مادری زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں اتنے ماہر نہیں ہوتے کہ ترجمہ کر سکیں اور بعض لوگ کئی زبانوں پر دسترس رکھنے کے باوجود اس صنف کی جانب توجہ نہیں دیتے اور اس طرح دیگر زبانوں کی کئی نادر کتابیں ہم تک پہنچ ہی نہیں پاتی ہیں… ترجمہ نگاری کے لیے ضروری ہے کہ مترجم دونوں زبانوں پر کامل دسترس رکھتا ہو.
ترجمہ نگاری کسی کتاب کی تخلیق سے زیادہ کٹھن ہوتا ہے، کیوں کہ کسی ادب پارے کی تخلیق میں مضمون نگار پوری طرح آزاد ہوتا ہے کہ وہ چاہے جس طرح بھی اپنے خیالات کی ترسیل کرے لیکن ترجمہ نگاری میں وہ ایک دائرے میں قید ہو جاتا ہے اور اسے اصل مصنف کے انداز، سوچ، زبان، مقصد، جذبات بلکہ ہر چھوٹی چھوٹی بات کا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ لفظوں کے انتخاب میں کہیں کوئی چوک نہ ہوجائے اور اصل متن کی ترسیل نہ ہو پائے، لہذا مترجم کو بہت سنبھل کر قدم بڑھانا ہوتا ہے. ان تمام باتوں کی روشنی میں جب ہم بن پھول کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ احمد کمال حشمی نے ایک کامیاب مترجم کا حق ادا کر دیا ہے.
”بن پھول"، بن پھول کی ایک سو دو منتخب کہانیوں کے تراجم کا مجموعہ ہے، کتاب کتنی شان دار اور کہانیاں کتنی پرکشش، پر لطف اور دل کش ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مترجم نے 500 کہانیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد فقط 102 کہانیوں کا انتخاب کیا. یہ سخت انتخاب اس بات کا ضامن ہے کہ ہر کہانی میں کوئی خاص بات تو ضرور ہے.
بن پھول مختلف رنگوں کے گل بوٹوں کا مجموعہ ہے. اس میں مزاحیہ کہانی بھی شامل ہیں تو اساطیری کہانیاں بھی، کچھ کہانیاں ایسی ہیں جو بے چشم نم پڑھی نہیں جاسکتیں اور کچھ تو حیرت ناک…
اساطیری کہانیوں میں کراماتی دیوتا، نئی پرانی، بینوتادستیدار اور وہ لڑکی بہت ہی عمدہ کہانیاں ہیں۔
"کراماتی دیوتا" میں شیو جی کی کرامت ہر سال ایک شخص کے پاگل ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتی تھی لیکن اس سال کسی کے پاگل نہ ہونے کی چنتا نیل منی کو اس طرح ستا رہی تھی کہ وہ گرمی کی چلچلاتی دھوپ میں پورے گاؤں میں پھولتی سانسوں اور سرخ آنکھوں کے ساتھ ہر گھر میں کسی پاگل کو ڈھونڈ رہے تھے کہانی کی یہ آخری سطر دیکھیں:
"سناتن پور کے باشندوں نے راحت کی سانس لی. کراماتی دیوتا کی کرامت رونما ہو چکی تھی."
"وہ لڑکی" بن پھول کی بہترین کہانیوں میں سے ایک ہے. اس کہانی کو پڑھنے کے بعد کچھ ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ میں پھر کچھ پڑھ ہی نہیں پائی اور گھنٹوں تک میں اس کے سحر میں کھوئی رہی.
یہ تمام کہانیاں بے شک بن پھول کی ہیں لیکن یہ مترجم کا کمال ہوتا ہے کہ اس نے اسے کس طرح سے پیش کیا ہے۔ بعض ترجمہ شدہ کہانیاں فقط لفظوں کا ترجمہ ہوتی ہیں۔ ایسے ترجمے مفہوم سے عاری ہوتے ہیں۔ مصنف کا منشا واضح ہی نہیں ہو پاتا ہے لیکن یہ احمد کمال حشمی کے قلم کا جادو ہے کہ انہوں نے ترجمے میں بھی تخلیق کی صفت پیدا کر دی ہے. 
بن پھول میں چند مزاحیہ کہانیاں بھی ہیں، جن میں بیچو لال، جان بُل، چتوری لال، حسّ مزاح، وغیرہ شامل ہیں. 
"بیچو لال" پیٹ کا مریض تھا، آخر میں اس کے مر جانے کا دکھ تو ہوتا ہے لیکن اس نے اپنے پیٹ کے لیے جتنے جتن کیے اس سے مسکرائیے بغیر پڑھنا مشکل ہے. 
"جان بُل" جو انگلینڈ کا باشندہ ہے اس کے ہندستان (کولکاتا) آنے اور یہاں کے پان کھانے اور پھر اس کے اثرات کو دل چسپ اور پر لطف انداز میں پیش کیا گیا ہے. 
اس کے علاوہ آنکھیں، درندہ تو نہیں، حل، ایک صدی کا فرق، کالی لڑکی ایسی کہانیاں ہیں جنھیں پڑھ کر سینے میں درد کی ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں. 
"کالی لڑکی" منفرد قسم کی کہانی ہے. مصنف کی سوچ، اس کی فکر کی اڑان پر دل سے واہ نکلتی ہے. 
علاوہ ازیں بھکاری، قاری کی موت، وہ، پوسٹ کارڈ، فاضل کرایہ وغیرہ بھی اچھی کہانیاں ہیں. 
نادر کتابوں پر عمدہ ترجمہ ہو جائے تو ہر دور کے لوگ اس سے فیض یاب ہوتے ہیں. اس سے کتابوں کے ذخیرے میں نہ صرف گراں قدر اضافہ ہوتا ہے بلکہ زبان و ادب کا بھی فروغ ہوتا ہے. اس کی بہترین مثال باغ و بہار ہے، دو سو بیس سال گزرنے کے باوجود آج بھی اس کی شادابی اور تازگی برقرار ہے اور آج بھی لوگ اصل متن "قصہ چہار درویش" کے بجائے ترجمہ باغ و بہار کا ذوق و شوق سے مطالعہ کرتے ہیں. احمد کمال حشمی میں ایک اچھے مترجم کی ساری خوبیاں موجود ہیں. زبان و بیان کی سادگی، لطافت، انداز و بیان، لفظوں کے انتخاب پر انھیں دسترس حاصل ہے. 
مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب اہل علم کے حلقے میں خوب سراہی جائے گی۔
***
Mobile – 7003222679
فرزانہ پروین کی گذشتہ نگارش: وہ ایک شخص ایک میں ہی تین تین ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے