فن افسانہ نگاری

فن افسانہ نگاری

پروفیسر قاضی عبدالستار

ایک ادبی صنف کی حیثیت سے افسانہ نگاری کی اہمیت کو اکثر نظر انداز کیا گیا ہے۔ در حقیقت یہ فن دوسرے فنون سے قطعی مختلف ہے، یہاں تک کہ ناول سے بھی قطعی مختلف ہے۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ عوام افسانہ کو ناول ہی کی ایک چھوٹی تصویر سمجھتے ہیں۔ افسانے کا ناول سے مقابلہ شاید فطری ہے لیکن یہ فطرت غلطی پر مبنی ہے۔ افسانہ ناول سے اتنا ہی مختلف ہے جتنا ڈرامہ یا شاعری ہے۔ اور افسانے کو ناول کے میزان پر تولنا اتناہی غلط ہے جتنا پریم چند کا غالب سے مقابلہ کرنا۔
اس لیے افسانہ پر گفتگو کرنے سے قبل آپ پر یہ واضح ہونا چاہیے کہ آپ ایک بالکل الگ آرٹ پر بحث کرنے جارہے ہیں اور یہ بات ذہن سے نکال دینا چاہیے کہ آپ ناول کے "چھوٹے پیمانے" کو پرکھنے جارہے ہیں۔ اس لیے کہ اگر آپ نے اپنے سفر کی ابتدا اس نقطے سے نہ کی تو اس بات کا احتمال ہے کہ آپ افسانے کی انفرادی خصوصیات کی داد نہ دے سکیں اور اس کی دقتوں کو محسوس نہ کر سکیں۔
افسانہ اگر بہترین افسانہ ہے تو ادب کی تمام اصناف میں سب سے مشکل صنف سخن ہے۔ اس کی ابتدا محدود ہے۔ کرداروں میں زندگی پیدا کرنا بنیادی قدر ہے۔ کہانی کھولنا نقطہ عروج کا پیدا کرتا اور پھر افسانے کو اس طرح سمیٹ لینا کہ سارا عمل دس ہزار الفاظ کے آنگن ہی میں رہے عام طور پر اس کی ایک مشکل شرط ہے۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک اچھا خاصا ناول وقت سے بے نیازی، تکنیک سے لا پرواہی اور تناسب سے بے گانگی کے باوجود وجود میں آگیا ہے لیکن افسانہ لکھتے وقت ان تینوں خصوصیات کو نظر انداز کردینا افسانے کو پیدا ہونے سے پہلے ہی قتل کردینے کے برابر ہے۔
آرٹ کا مقصد شاید آرٹ کی پوشیدگی ہے۔ ایک بہترین افسانے کی تکنیک چاول پر قل ہو اللہ لکھے جانے کی تکنیک ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ تکنیک کے بغیر افسانہ ایک ڈھیلی ڈھالی غزل ہو کر رہ جائے گا۔
افسانہ نگار افسانہ لکھتے وقت محدود حدود کا پابند ہوتا ہے۔ پلاٹ، کردار، بیان اور دوسرے عناصر کو ایک چھوٹے سے کینویس میں برتنا اس کا اولین فریضہ ہوتا ہے۔ اچھے افسانے کے ان تمام عناصر کا افسانے میں اظہار کرنا ہوتا ہے اور ان عناصر کو زیادہ سے زیادہ حسن کاری، تاثر کے ساتھ استعمال کرنا ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ دو ہزار سے دس ہزار الفاظ تک کے خرچ میں سارے مصارف کا گذران کرنا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں افسانہ کا ہر لفظ ایک قیمت رکھتا ہے۔ ناول نگار ناول کی ضخامت سے فائدہ اٹھا کر بیانوں، کرداروں اور واقعات میں فضول خرچی کا ارتکاب کر سکتا ہے اور ان کے جواز میں کہہ سکتا ہے کہ فلاں بیان یا کردار یا واقعہ ناول کے مجموعی تاثر میں کسی مدد کی خدمت انجام دے رہا ہے لیکن افسانہ نگار جو تلوار کی دھار پر چل رہا ہے اگر کسی ایک لفظ کی لغزش کا بھی مرتکب ہو گیا تو افسانے کا زخمی ہو جانا یقینی ہے۔ اس لحاظ سے افسانہ کا فن ناول کے فن سے کہیں مشکل ہے۔ افسانہ کی بنیادی شرائط مندرجہ ذیل ہیں:۔
(1) افسانے کی طوالت زیادہ سے زیادہ اتنی ہو کہ ایک نشست ( سٹنگ) میں ختم کر لیا جائے۔
(2) اس کا مقصد کسی ایک یا اچھوتے تاثر پر مبنی ہو۔
(3) افسانے کو گٹھا ہونا چاہئے۔
(1) جہاں تک اختصار کا سوال ہے تو ظاہر ہے کہ افسانہ اتنا بڑا ہو کہ ایک نشست میں ختم کر لیا جائے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں کوئی قطعی حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ اُردو اور دوسری زبانوں میں ایسی کہانیاں کافی تعداد میں لکھی گئی ہیں جو بیس ہزار الفاظ پر پھیلی ہوئی ہیں۔ لیکن وہ ناول نہیں ہیں۔ کہانیاں ہی ہیں. ذرا مفصل کہانیاں ہیں۔ اس ضمن میں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جب کوئی بڑا فنکار آتا ہے تو وہ اصناف کی مروجہ اقدار کو توڑ پھوڑ کر اپنے فن یا مقصد یا ضرورت کے مطابق نئی قدر میں جنم دیتا ہے۔ اس لیے بھی ضخامت کے پیمانے بدلتے رہتے ہیں اور بدل سکتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال ہے ہنری جیمس جس کے قلم نے افسانے کی حدود ڈھادیں۔
(۲) افسانہ اپنی ضخامت کی بنا پر ایک سے زیادہ تاثرات کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا۔ افسانہ کو ایک ہی خیال یا واقعہ یا کردار کا آئینہ ہونا چاہئے۔ تعمیر، مشاہدہ، عمل
سب کچھ ایک ہونا چاہیے۔ پلاٹ کو پیچیدہ بنانا اور تاثر میں شاخیں نکالنا افسانے کو تباہ کرنا ہے۔
(۳) گٹھاؤ :۔ مجموعی طور پر افسانے میں گٹھاؤ ہونا ضروری ہے۔ اسے اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ ناول نگار واقعات اور کرداروں کے جھول کو اپنے قلم اور تخیل کے بوتے پر آگے چل کر جھیل سکتا ہے لیکن افسانہ نگار جسے بہت ہی چھوٹی جگہ میں اپنے نقوش کو ابھارنا ہے، ان لغزشوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کردار یا واقعے کا ذرا سا جھول پوری کہانی کو ڈبو سکتا ہے۔ ڈبو دیتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ملکہ حسن کی طرح اس کا جسم نئی بنی ہوئی چار پائی کی طرح تنا اور گٹھا ہوا ہونا چاہیے
(٤) تناسب:- بظاہر یہ ایک معمولی بات معلوم ہوتی ہے کہ کہانی اپنے تناسب کے لحاظ سے مکمل ہو۔ لیکن اگر ہم روز شائع ہونے والی کہانیوں کا تنقیدی مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اکثر کہانیوں کا پلاٹ بوڑھوں کے گوشت کی طرح ڈھیلا ہوتا ہے۔ کردار لنگڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ڈائیلاگ ہکلاتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ طرز بیان مجذوب کی بڑ ہوتا ہے۔ اچھے افسانہ کا قطعی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ زندہ آدمیوں کو فطری زبان میں فطری جذبات کا اظہار کرنا چاہیے اور حقیقت پر بنی عمل کرنا چاہیے۔
(۵) (FINALITY) : افسانے کو اکائی کی طرح مکمل ہونا چاہیے۔ اس اکائی کا سلسلہ افسانے کی پہلی سطر سے آخری سطر تک پھیلا ہوتا ہے۔ ہاں صرف اس صورت میں غیر معینہ انتقام برداشت کیا جا سکتا ہے کہ کردار کا عمل اور پلاٹ کی بناوٹ اس "ان کہے" انتقام کی قطعی نشاندہی کرتا ہو۔ ان ضروری خصوصیات کے علاوہ چند اور ضروریات کا بھی افسانہ نگار کولحاظ رکھنا چاہیے۔
پلاٹ :- افسانہ نگار کا پہلا فرض پلاٹ کی جستجو ہے۔ کہانی بیان کرنا اس کا اولین فریضہ ہے اور دوسری تمام چیزیں اس فریضے کے تابع ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ پلات قطعی طور پر "عمل" کا آئینہ دار ہو۔ پلاٹ کسی کردار یا کسی واقعہ کو بنیاد بنا کر بنا جاسکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ پلاٹ ہو اور ناول کے پلاٹ سے زیادہ صاف نکیلا اور سلجھا ہوا ہو۔ یہ سچ ہے کہ پلاٹ محدود ہوتے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ اکثر کہانیوں کے پلاٹ Boccaccio سے مستعار ہیں. یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دنیا میں صرف سات کہانیاں لکھی گئی ہیں. یعنی سات ممکن پلاٹ برتے جاچکے ہیں۔ جس طرح موسیقی سات سروں پر مبنی ہے اور دھنک سات رنگوں پر عبارت ہے، اسی طرح کہانی انھیں سات پلاٹوں میں سے کسی نہ کسی پلاٹ پر مبنی ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کہانی کا زیادہ حسن کہانی کے بیان سے زیادہ خود کہانی ہی میں ہوتا ہے۔
کردار :- جب کردار کو ذہن میں بن لیا جائے تب دوسرا کام یہ ہوتا ہے کہ فنکار کرداروں کو واقعیت اور زندگی عطا کرے۔ ناول میں تو ان کو بیان کے سہارے پر تھوڑی دیر کے لیے بے لگام رکھا جا سکتا ہے لیکن افسانے میں انہیں چھونے سے پہلے پوری طرح ان کے عمل کو دیکھ اور پرکھ لیا جاتا ہے تا کہ ان کے ضمن میں استعمال کیا ہوا ہر لفظ اور ان سے منسوب کیا ہوا ہر اشارہ قاری کے علم میں اضافہ کر سکے۔ وہ تمام غیر ضروری تفصیلات بے رحمی کے ساتھ کاٹ دینا چاہئے جو انتہائی خوبصورت ہونے کے باوجود کہانی کے کسی رخ کی نقاب کشائی نہیں کرتی ہیں۔ یہاں افسانہ نگار کا فرض ہے کہ مختصر سے مختصر راستے کا انتخاب کر کے اپنی منزل مقصود کی طرف قدم بڑھائے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ناول کی طول کلامی کا فن افسانے کو غارت کر سکتا ہے۔ یہاں فنکار کا فرض ہے کہ اپنے قلم کی چند نمایاں اور فیصلہ کن جنبشوں سے کرداروں کی صورت کشی کرے۔ کرداروں کو اپنے ڈائیلاگ اور اعمال کے ذریعے اپنی زندگی کا جواز پیش کرنے کا فطری حق دے۔ تاہم یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اچھا فنکار غیر ضروری ڈائیلاگ اور عمل سے احتراز کرتا ہے۔
تفصیل : – (DETAIL) کردار کا ذکر چھڑتے ہی تفصیل کا مشکل سوال ہمارے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔ فنکار کو تھوڑی سی تفصیل تو دینا ہی پڑتی ہے ورنہ کہانی ایک جیتی جاگتی زندگی کے بجائے ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو کر رہ جائے گی، تاہم ہر وہ چیز بیان نہیں کی جاسکتی جسے فنکار پسند کرتا ہے۔ تفصیل کیسی ہی خوبصورت کیوں نہ ہو سب کی سب بیان نہیں کی جاسکتی۔ نہ صرف یہ بلکہ حالات اور واقعات کی ہر جزوی تفصیل منطق کے رحم و کرم پر چھوڑی جاسکتی ہے۔ اس لیے کہ فنکار کم سے کم الفاظ میں زندگی کی واضح ترین تصویر پیش کرنا چاہتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں فنکار کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسے کیا نہیں لکھنا ہے۔ عام طور پر لوگ یہ تو جانتے ہیں کہ انہیں کیا لکھنا ہے لیکن یہ صرف بڑے فنکار ہی جانتے ہیں کہ انھیں کیا نہیں لکھنا ہے۔ طول طویل پس منظر یا لمبی چوڑی Setting ناول میں تو حسن بن سکتی ہے لیکن کہانی اس بوجھ کو سہارنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ اس لیے فنکار کا فرض ہے کہ اس لامتناہی زندگی کے خزانے میں سے اپنے کام کی چند چیزوں کا انتخاب کرلے۔ اور انھیں میں رنگ بھرے۔ اپنے کرداروں کے تضادات پر گرفت مضبوط کرے۔ نیک و بد سائے اور روشنی میں فرق پر قابو پائے اور ایک ایک لفظ کا اس طرح انتخاب و استعمال کرے کہ مجموعی تاثر کی مہک میں اس کی خوشبو محسوس کی جاسکے، یعنی ہر لفظ ایک سیڑھی کا کام کرے۔ اور قلم کی ہر جنبش کے ساتھ قاری کا ذہن آگے بڑھتا رہے، منزل کی طرف بڑھتا رہے جہاں افسانہ نگار اسے لے جانا چاہتا ہے۔ ضروری ہے کہ کچھ قاری کے سمجھنے کے لیے چھوڑ دیا جائے مگر اس فنکاری کے ساتھ کہ قاری کو فنکار کی اس کاوش کا شعور نہ ہو سکے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی یادرکھنے کے لائق ہے کہ کہانی کے فن میں فنکار کے تھوڑی دور آگے بڑھ جانے کے بعد واپسی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ ناول میں ہوتا ہے۔ کہانی کار اپنی کسی غلطی کا ازالہ نہیں کرسکتا۔ ناول نگار کر سکتا ہے۔ یعنی فن افسانہ نگاری فن شیشہ گری ہے کہ ایک اوچھا ہاتھ پورے کارنامے کو چکنا چور کر سکتا ہے۔
تفصیل افسانے کا جزولاینفک ہے۔ دنیا کی کوئی بہترین کہانی تفصیل سے خالی نہیں ہے۔ تفصیل ہی ہے جو کہانی کے مرکزی خیال کو زندگی عطا کرتی ہے۔ کہانی کا مرکزی خیال اگر روح ہے تو تفصیل اس کا جسم ہوتا ہے۔ تاہم تفصیل کا منتخب ہونا شرط ہے ورنہ یہ ہوگا کہ ہاتھ پیروں سے لمبے ہو جائیں گے اور آنکھوں کا حجم چہرے کو نگل لے گا۔ تفصیل کا انتخاب کہانی کا وہ مشکل ترین مرحلہ ہے جہاں بڑے اور چھوٹے فنکار کا فرق محسوس کر لیا جاتا ہے۔ اس مقام پر فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ کون سی کہانی خوش اسلوبی کے ساتھ بیان کی گئی ہے اور کون سی کہانی بہترین طریقے سے بیان کی گئی ہے۔
ڈائیلاگ :- ڈائیلاگ کہانی کا شاید سب سے اہم مسئلہ ہے۔ فطری اور متناسب ڈائیلاگ پلاٹ کو کھولنے کا فرض انجام دیتے ہیں۔ آنے والے واقعات کے لیے زمین ہموار کرتے ہیں۔ کرداروں کے قامت اور قیمت کا شعور عطا کرتے ہیں۔ کردار کے خم ان ہی کی زبان میں نکالے جاسکتے ہیں۔ ایک ہی کردار کے ڈائیلاگ سے دوسرے کرداروں کا تعارف کرایا جا سکتا ہے۔ دوسرے Scenes کی رونمائی کی جاسکتی ہے۔ یہ فنکار کا حق ہے کہ وہ چند ڈائیلاگ کے ذریعے کسی اہم مسئلے کو حل کرتا ہے یا بیان کی دلکشی کا سہارا لے کر اور الفاظ کا اسراف کر کے اپنی منزل تک پہنچنا چاہتا ہے۔ تاہم گذرے ہوئے واقعات کی پردہ کشائی کے لیے لمبے چوڑے ڈائیلاگ بولنا مستحسن نہیں خیال کیا جاتا۔ کبھی کبھی تو گذشتہ واقعات کے بیان کے لیے "تحریروں" [کے] بجائے ڈائیلاگ کے چند فقرے کا کام کر جاتے ہیں لیکن یہ اکثر نہیں ہوتا۔ اگر ڈائیلاگ کے ذریعے کہانی کو تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے، کرداروں کا تعارف ہو رہا ہے، مناظر کو روشن کیا جا رہا ہے تو ڈائیلاگ یقیناً زبردست خدمت انجام دے رہے ہیں ورنہ وہ کہانی کو میلوڈراما کے خطرناک راستے پر لیے جارہے ہیں۔
ڈائیلاگ لکھنا نسبتاً آسان اور دلچسپ ہوتا ہے۔ یہ طریقہ کار کافی اپنایا گیا ہے اور پلاٹ کو آگے بڑھانے کا شاید سب سے موثر حربہ رہا ہے۔ لیکن یہی آسانی نا آزمودہ کار فنکار کے فن پارے کی موت کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ کہانی کے اس حصے پر لکھنے والے کو سخت نظر رکھنا پڑتا ہے۔ اور کوشش کر نا پڑتی ہے کہ ڈائیلاگ ڈھیلے یا الجھے ہوئے یا سست رفتار یا محض بے کار تو نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہے تو نہ صرف یہ کہ ڈائیلاگ اپنی خدمت انجام نہیں دے رہے ہیں بلکہ کہانی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
ڈائیلاگ کے ضمن میں فطری بول چال کا مسئلہ بھی آتا ہے یعنی فطری بول چال کے سلسلے میں ہم کوئی قانون وضع نہیں کر سکتے۔ روز مرہ کی زندگی میں بہت سے لوگ لا پرواہی اور لاعلمی سے غلط زبان بولتے نظر آتے ہیں۔ ٹوٹے ہوئے بے ربط جملے سننے میں آتے ہیں۔ بے معنی اور بے موقع الفاظ بھی مستعمل ہوتے ہیں۔ تو اگر فنکار کسی کردار کے کسی خاص پہلو کی نقاب کشائی ایسے ہی فقروں سے کرنا چاہتا ہے جب تو کچھ نہیں کہنا ہے ورنہ یہ اس کا فرض ہے کہ وہ ان جملوں کو اپنے طور پر دوبارہ تخلیق کرے نہیں تو ایمانداری کے ساتھ ان جملوں کو نقل کر دینے سے کہانی بے جا طول کلامی کا کھلیان بن جائے گی۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس موقع پر فنکار کو چاہیے کہ پوری آزادی کے ساتھ واقعی گفتگو میں کتربیونت کر کے کرداروں کو ایسے مکالمے عطا کرے کہ وہ قابل قبول بن جائیں۔ فنکارانہ شعور اور فکر انگیز حقیقت نگاری کا بھی یہی تقاضہ ہے کہ فنکار مکالمے کی ایڈیٹنگ کا حق رکھتا ہے۔ کیونکہ اگر ایسانہ کیا گیا تو کردار کے سارے اہم خطوط مکالمے کے انبار میں دفن ہو جائیں گے۔ یعنی یہ اس جنگل کی تصویر ہوگی جو جنگل کی ایک ایک پتی کی تصویر کشی کے شوق میں کھودیا گیا ہے۔
اسٹائل:- ہر بڑا فنکار صاحب طرز ہوتا ہے۔ دو صاحب طرز فن کار کبھی کسی کہانی کو یکساں انداز میں نہیں لکھتے، لکھ ہی نہیں سکتے۔ اگر ایک مکالمہ نگاری پر اپنا زور صرف کرتا ہے تو دوسرا بس سرسری طور پر ذکر کر کے گذر جاتا ہے۔ اگر کوئی Description کے سہارے سے اپنی کہانی کا جادو جگاتا ہے تو دوسرا کرداروں کی انفرادیت اور رنگا رنگی کو اپنے طلسم کا سامان بناتا ہے۔ خود کہانی کا فن افسانہ نگار کے اسٹائل کی تعمیر میں مدد کرتا ہے۔ یعنی کہانی کا فن نیم نگارہ اور تبسم خفی کا فن ہے۔ یہاں ہم آغوشی اور بغلگیری کے پر جلتے ہیں۔ اس لیے دیکھا گیا ہے کہ کہانی کے میدان میں انھیں لوگوں نے کارنامے انجام دیے ہیں جو قلم کی چند جنبشوں اور ابرو کے چند اشاروں سے معانی کی پوری پوری دنیائیں روشن کر دیتے ہیں۔ ماضی کے ہاتھ میں آئینہ پکڑا دیتے ہیں۔ تقدیر کے بطن میں سوئے ہوئے مستقبل کی ایسی واضح بشارت دیتے ہیں کہ ایک ایک تفصیل آنکھوں کے سامنے ناچنے لگتی ہے۔ حال کے سیال موضوعات جو پر چھائیوں کی طرح ہاتھوں سے نہیں سنبھلتے ٹھوس مادی اشیا کی مانند مٹھی میں اسیر نظر آتے ہیں۔
ناول اور افسانہ:- ناول سے افسانے کے فن نے بعض لوازم لیے لیکن ان لوازم میں بھی وقت کے ساتھ تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ اب یہ دونوں الگ الگ اصناف ہیں اور دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
طول واختصار. وحدت تاثر.
افسانے کا ہر حصہ پڑھنے والے کو وحدت تاثر کی طرف لے جائے۔ تمہید، درمیانی حصہ، منشا اور خاتمہ ہر چیز ایک دوسرے سے وابستہ ہوتی ہے۔ اگر قلم کی جنبش اور رنگوں کے امتزاج میں فرق آجائے تو ناکامی ہے۔ افسانہ ناول کی طرح ایک کڑی کا ترجمان ہوتا ہے۔ زنجیر کا نہیں۔
افسانہ نگار کا عمل اور دائرہ محدود ہوتا ہے۔
کرداروں کا پیش کرنا ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے۔ حرکات و عمل و ڈائیلاگ کا انتخاب مشکل ترین کام ہے۔ افسانے کا انجام بھی وحدت تاثر کا پابند ہوتا ہے۔
ہاں افسانہ ناول کے مقابلے میں ڈرامے سے زیادہ نزدیک ہے۔ ناول ایک تھیٹر ہے جسے انسان اپنی جیب میں رکھ سکتا ہے۔ وحدت تاثر کو افسانے میں وہی اہمیت حاصل ہے جو ڈرامے کے لئے ضروری ہے اختصار و ایجاز دونوں میں مشترک ہیں۔. (ماخوذ از : نذر قاضی عبدالستار، مرتب: پروفیسر محمد غیاث الدین، اشاعت : 2006) 
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں: علی گڑھ فکشن کے پانچ رنگ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے