نئی فیکٹری (پہلا باب)

نئی فیکٹری (پہلا باب)

ذاکر فیضی


رات کے تین بج رہے تھے۔ ’اسرار منزل‘ کی لائبریری میں خاموشی تھی۔ چھت کا پنکھا سُست رفتاری سے ”گھررررررررگھررررررررر“ کی آواز کے ساتھ گھوم رہا تھا۔ پنکھے کی آواز بھی سنّاٹے کو توڑنے میں ناکام ثابت ہو رہی تھی۔ رات کے اس پہر یہ سمجھنا مشکل ہو رہا تھا کہ اسرار منزل کے عقب میں واقع قبرستان میں زیادہ سنّاٹا ہے یا انسانی آبادی میں خاموشی۔ خاموشی لائبریری کے کونے کونے میں پڑی سستا رہی تھی، سنّاٹا گہری نیند سو رہا تھا۔
ایسے میں معراج مطالعے میں غرق تھا۔
جس عمارت میں یہ لائبریری قائم تھی، اس کا نام ’اسرار منزل‘ تھا۔
’اسرار منزل‘ کو معراج کے دادا اسرار اللہ نے تعمیر کرایا تھا۔ وہ یوں تو کاروباری آدمی تھے، مگر ان کا زیادہ وقت خدمتِ خلق اور یادِ خدا میں گزرتا تھا۔ وہ اکثر ’اسرار منزل‘ کے عین بیچ و بیچ تعمیر شدہ بڑے سے ہال نُما کمرے کے بالکل درمیان میں بیٹھ کر۔۔۔۔۔”اللہ ہو۔۔۔۔اللہ ہو۔“۔۔۔ کا ورد کرتے رہتے تھے۔ اسرار اللہ کائنات کے اسرار کو جاننے اور سمجھنے کے لیے بے قرار رہتے تھے۔
اتنی مصروفیت کے باوجود انھوں نے اپنے اکلوتے بیٹے سرا ج اللہ کی بہت اچھّی پرورش کی تھی۔ ان کو اخلاقیات و تہذیب کا درس دینے کے ساتھ ہی اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ بھی کرایا تھا۔ سراج اللہ ملک کی ایک مشہور یونی ورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر تھے۔ انھوں نے ہی اپنے والد اسرار اللہ کے انتقال کے بعد اس کمرے کو لائبریری میں منتقل کر دیا تھا۔ جہاں پہلے بھی کافی کتابیں موجود تھیں۔ پروفیسر سراج چونکہ تاریخ کے پروفیسر تھے لہذا ان کو بھی کُتب بینی کا شوق تھا مگر ایسا نہیں، جیسا ان کے اکلوتے بیٹے معراج کو تھا۔
مطالعے کی میز پر معراج کے دائیں بائیں تاریخ، سائنس اور مذہبی کتابیں بکھری ہوئی تھیں۔ اس کے ہاتھ میں تاریخ کی ایک اہم کتاب تھی۔ معراج زمانۂ قدیم کو نئے زاویے سے تلاش کر رہا تھا۔ وہ ہزاروں سال پہلے کی انسانی زندگی پر غور و فکر کر رہا تھا۔ اس زمانے کی انسانی زندگی پر، جس زمانے میں جینے کا دارومدار شکار منحصر پر تھا۔ انسان زراعت کا غلام نہیں بنا تھا۔ وہ ہومو سیپئنس اور نیئن ڈیتھول (Homo Sapience and Neanderthal) کی آپسی جنگ اور جدو جہد کے بارے میں پڑھ رہا تھا۔ اس کی بغل میں مذاہب اور سائنس کی کُتب موجود تھیں۔ وہ حیاتِ انسانی کے رازِ سر بستہ سمجھنے کے لیے نئے سرے سے تاریخ، سائنس اور مذاہب کے مطالعے میں مگن تھا۔ کائنات کے مطالعے میں ڈوبا ہوا تھا۔ آسمانوں کی، ستاروں کی سیر کر رہا تھا۔ معراج دور کہیں تصوّرات و تخیلات کی معراج کی سرحد کو چھو رہا تھا۔ لائبربری کے صدر دروازے کے اوپر لگی دیوار گھڑی کی سوئیوں کی رفتار ماحول میں پُراسراریت گھول رہی تھی۔ محسوس ہوتا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو۔
لائبریری میں موجود الماریوں کی کتابیں اپنے لفظوں کے معنوں کو اپنی آغوش میں لیے گہری نیند سو رہی تھیں۔ مگر مطالعے کی میز پر جو دو درجن کتابیں معراج کے دائیں بائیں اور سامنے رکھی ہوئی تھیں، وہ آپس میں محوِ گفتگو تھیں۔ وہ پھسپھسانے والے انداز میں باتیں کر رہی تھیں تاکہ معراج کے مراقبے میں خلل نہ پڑے۔ پھر بھی بے خیالی میں کسی کسی کتاب کی آواز بلند ہو ہی جاتی تھی۔ ایک کتاب، جس کا صفحہ نمبر 36 کھلا تھا اور وہ اُلٹی رکھی تھی؛ اس کتاب کے دائیں طرف کا حصّہ دوسری کتاب سے لگا ہوا تھا، جس کے صفحہ نمبر 69 پر بُک مارک لگا تھا۔ تب ہی پہلی کتاب دوسری کتاب سے بولی:
”اے انسانی تاریخ! معراج سب سے زیادہ مجھ سے پیار کرتا ہے۔۔۔۔ آپ سے نہیں۔۔۔“
”زیادہ نہ اِتراؤ محترمہ۔۔۔۔“ ڈارون کی تھیوری بیان کرنے والی تیسری کتاب نے سائنس کی کتاب پر اعتراض ظاہر کیا:
”معراج مُجھ سے زیادہ پیار کرتا ہے۔۔۔۔ دو بار پڑھ چکا ہے۔۔۔ کیا سمجھیں۔۔۔۔“
ان کی بات سُن کر نئی نویلی کتاب سیپئنس بولی:
”معراج کو سب سے زیادہ تاریخ کی کتابوں سے ہی پیار ہے۔۔۔۔ بس۔۔۔ بحث ختم کرو۔“
اسی طرح مذاہب، سائنس، فلسفے اور تاریخ کی کُتب بحث و تکرار میں لگی تھیں، اپنی بات کو ثابت کرنے کے جوش میں ان کی آوازیں بلند ہوتی جا رہی تھیں۔
معراج نے جھنجھلا کر میز پر رکھی کتابوں کو ڈانٹا:
”یہ کیا بحث لگا رکھی ہے۔ ہر وقت بکری کی طرح میں میں۔۔۔۔۔ذرا دیر خاموش نہیں رہ سکتیں۔۔۔۔ یہ بھی خیال نہیں کہ میں کُچھ سوچ رہا ہوں۔ کسی بات پر غور کر رہا ہوں۔ کسی فکر میں ڈوبا ہوا ہوں۔۔۔۔ اب آپ لوگوں کی بالکل بھی آواز نہیں آنی چاہئے۔“
معراج کی ڈانٹ سُن کر میز پر رکھی کتابیں خاموش ہوگئیں، مگر الماریوں میں رکھی فلسفہ، مذہب اور سیاست کی کتابوں کی نیند ٹوٹ گئی۔ ان کو شرارت سوجھی اور سب مل کر میز پر موجود شرمندہ کتابوں پر ہنسنے لگیں۔ معراج نے پلٹ کر ان کتابوں کی طرف بھی گھور کر دیکھا جو میز کی کتابوں پر ہنس رہی تھیں۔ معراج کا مزاج دیکھ کر وہ بھی ندامت سے نیند میں اونگھنے کا ناٹک کرنے لگیں۔
کتابوں کی پھُس پھساہٹ اور ہنسنے بولنے سے لائبریری کے سناٹے کے سمندر میں جو لہریں اٹھیں تھیں، ارتعاش پیدا ہوا تھا۔ وہ ایک بار پھر ساکت ہو گیا۔
دیواریں چُپ تھیں۔ کتابوں کی الماریاں خاموش تھیں۔ کتابیں خاموش تھیں۔ کتابوں کے الفاظ غنودگی میں تھے۔ صرف چھت کا پنکھا ”گھرررررر گھرررررر“ کی آواز کے ساتھ سناٹے کے خلاف احتجاج بلند کر رہا تھا۔
مطالعے کی میز پر لٹک رہا بلب روشن تھا، جب کہ کھڑکی کے اوپر لگی ٹیوب لائٹ نے لائبریری کو ملگجی اندھیرے اُجالے کی دُھند بنا رکھا تھا۔ کُرسی پر تنِ تنہا بیٹھا معراج ڈوبا ہوا تھا، کھویا ہو اتھا۔ دور کہیں شونئے میں تاک رہا تھا۔
گھر کے باہر تیز ہوا چل رہی تھی۔ قبرستان کی طرف کھلنے والی کھڑکی کے بند شیشے کے پٹ ہلکے ہلکے آواز کر رہے تھے۔ پیڑوں میں سے ہو کر نکلنے والی ہوا پیڑ کی کم زور شاخوں اور پتّوں کے ساتھ شرارتیں کر رہی تھی۔ ٹیوب لائٹ کی چمک سے کھڑکی اور کھڑکی کے باہر کا ماحول بے حد پُراسرار لگ رہا تھا۔ جھینگروں کی آوازیں فضا میں سنسناہٹ پیدا کر رہی تھیں، جس میں انجانی پھس پھساہٹیں تھیں۔ جیسے کئی دن سے کوئی نیا ممبر نہیں آنے کی وجہ سے قبرستان کے مُردے سر جوڑ کر میٹنگ کر رہے ہوں اور کسی بھی نتیجے پر نہ پہنچتے ہوں۔
معراج مطالعے کی میز پر نگاہیں جھکائے ہوئے تھا۔ بیچ بیچ میں کسی کتاب پر کوئی نشان بھی لگاتا جاتا تھا۔ کاغذ کے پُرزوں پر کُچھ لکھ کر مناسب مقام پر کتاب میں رکھتا جا تا تھا۔ تبھی اس نے نظر اُٹھائی، سامنے دیوار کو دیکھا۔ دیکھتا رہا۔ دیکھتا رہا۔ جیسے دیوار میں ہی کُچھ ڈھونڈ رہا ہو۔ چند منٹ کے بعد اس کے اندر عجیب سا غیر معمولی جوش و جذبہ پیدا ہونے لگا۔ رگوں میں دوڑتا لہو تیزی سے رگوں میں گردش کرنے لگا۔ وہ ایک دم ہی بے چین ہو گیا۔ دماغ میں مختلف قسم کے خیالات گُڈ مُڈ ہونے لگے۔ وہ دیوار کو ایسے دیکھ رہا تھا، جیسے کسی کا منتظر ہو اور وہ آکے نہ دیتا ہو۔ اس نے اچانک سامنے دیوار سے نظریں ہٹا کر کھڑکی کی طرف دیکھا۔
وہاں کوئی کھڑا تھا۔ معراج اس کو دیکھنے لگا۔ کھڑکی میں کھڑا شخص بھی اسے ایک ٹُک دیکھ رہا تھا۔ چند منٹ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکتے رہے۔ جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں ہو رہی ہوں۔ شکوہ اور شکایت کی ناراضگی ظاہر کی جا رہی ہو۔ چند منٹ بعد کھڑکی میں کھڑے انسان کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
معراج بھی اس کی مسکراہٹ کو جیسے سمجھ گیا۔ وہ بھی جواب میں مسکرایا۔
معراج کھڑا ہوا اور آہستہ آہستہ کھڑکی کی طرف بڑھنے لگا۔ چند منٹ کھڑکی کے شیشے کے دوسری طرف کھڑے انسان کو غور سے دیکھتا رہا۔ یہ رابوٗ تھا۔ پھر اس نے کھڑکی کے پٹ بہت ہی احتیاط سے کھولے۔ ایسے، جیسے رابوٗ کوئی پرندہ ہو یا کوئی سایہ ہو۔ کھڑکی کی آہٹ پاتے ہی اُڑ جائے گا۔ غائب ہو جائے گا۔ کھڑکی کھلی۔ باہر کھڑا رابو تو غائب نہیں ہوا البتہ کھڑکی کے راستے تیز تازہ ہوا کا جھونکا اندر آیا۔ جھونکا معراج کے جسم میں گدگدی پیدا کرتا ہوا کمرے میں پھیل گیا۔ اس ہوا کے جھونکے کے ساتھ لائبریری میں پیڑ پودوں کی مخصوص بو، پھولوں کی خوشبو، گیلی مٹّی کا سوندھا پن اور ساتھ ہی انوکھی سی مہک بھی کمرے میں داخل ہوئی۔ ایسی مہک جس سے معراج ابھی تک انجان تھا، ناواقف تھا۔ اسے اس خاص مہک کا پہلی بار تجربہ ہوا تھا۔ یہ انجان سی، غیر معمولی، دل چسپ اور مزے دار مہک معراج کے دل و دماغ میں بس گئی۔ اس نے مدہوشی کے سے عالم میں رابو کو دیکھا۔ اس کا سب سے پیارا دوست، جگری یار رابوٗ۔
معراج چند لمحے رابو کو یوں ہی دیکھتا رہا، مسکرایا۔
رابوٗ نے زبان کھولی:
”چل مرجے! سردار بلاتا ہے۔ شکار کو چلنا ہے۔۔۔۔۔۔چل۔۔۔۔۔جلدی کر۔۔۔۔سردار ناراض نہ ہو جائے۔۔۔۔“
معراج نے رابو کی آنکھوں میں دیکھا اور شرارت سے کہا: ”سردار یا۔۔۔ شبری۔“ یہ کہہ کراس نے چشمِ زدن میں کھڑکی کے پٹ پوری طرح کھولے اور باہر کود گیا۔
دونوں دوست کسی تیز رفتار چیتے کی مانند ایک جانب دوڑتے چلے گئے۔ ہوائیں تیز ہو گئی تھیں۔ اونچے اونچے پیڑ ہواؤں کے نشے میں جھوم رہے تھے۔ چھوٹے درختوں میں ہوا کی سرسراہٹ تھی۔ آسمان ہلکا ہلکا سُرخ ہونے لگا تھا۔۔ ماحول طلسم زدہ ہوتا جا رہا تھا۔
جس وقت رابو اور مرجے قبیلے میں پہنچے شکار پر چلنے کی ساری تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ سردار ایک چھوٹی پہاڑی پر کھڑا ہو کر سب کو ہدایت دے رہا تھا۔ قبیلہ نواسی سر جھکائے نہایت احترام کے ساتھ سردار کی باتیں سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بھور ہو رہی تھی۔ آسمان میں سفیدی چمکنے لگی تھی۔ سورج کے طلوع ہونے سے پہلے ہی ان کو شکار کے لیے روانہ ہونا تھا۔
سردار قبیلہ نواسیوں سے مُخاطب تھا۔
” ہم سب شکار کے لیے روانہ ہو رہے ہیں۔ بوڑھے اور بہت چھوٹے بچّے شکار پر نہیں جائیں گے۔ بوڑھا مہارتھا اور منجیرہ بھی یہیں رکے گی۔ منجیرہ چند دنوں میں ہی نیا شکاری دینے والی ہے قبیلے کو۔“ سردار دھیرے سے مسکرایا اور آگے بولا۔
”اور ہاں سنو! اس بار شکار میں کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے۔ یاد رہے۔ دُشمن قبیلہ ہمارا شکار چھیننے میں کامیاب نہ ہو، اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم سب کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ بے خوف ہو کر لڑنا ہے۔ کوئی سستی اور غفلت سے کام نہیں کرے گا۔ اگر کوئی شکار ادھورا چھوڑ کر قبیلے میں واپس آتا ہے تو اس کو سزا ملے گی۔ تیس سورج بھر اس کو جڑواں کھانے کو ملے گا۔“
پورے تیس سورج تک جڑواں کھانے کے نام سے سارے قبیلہ نواسی گھبرا گئے اور مستعدی سے شکار کرنے کے لیے من بنا لیا۔ وہ سب جانتے تھے کہ’جڑواں‘ جنگلی پھلوں کو کہا جاتا ہے، وہ بھی ایسے جنگلی پھل جن میں بالکل بھی ذائقہ نہیں ہوتا۔ کڑوا اور کسیلا ہوتا ہے. یہ پھل سزا کے طور پر سردار کے حکم سے مجرم کو کھانا ہوتا ہے یا وہ بھوکا رہتا ہے۔
مرجے نے رابو کی طرف دیکھا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ ہوا۔ ایسا اشارہ جو صرف وہ دونوں ہی سمجھ سکتے تھے۔
مرجے کے دوست رابو کو دشمن قبیلے کی شبری سے محبت تھی۔ بے پناہ محبت۔ رابو اور مرجے نے من بنا لیا تھا کہ جب سب شکار کی تلاش میں اور شکار کو گھیرنے میں لگے ہوں گے تو وہ چپکے سے وہاں سے فرار ہو جائیں گے او ر شبری سے ملنے نکل پڑیں گے۔
قبیلے کا سردار راکا آگے آگے چل رہا تھا۔ سردار کے ماتھے پر ایک لمبا سا مور کا پنکھ بندھا ہوا تھا۔ وہ آٹھ فٹ سے بھی اونچا چوڑی ہڈی کا انسان تھا۔ اس کے جسم کی مانس پیشیاں صبح کی سنہری روشنی میں دمک رہی تھیں۔ وہ مُنہ سے کوئی نعرہ بلند کرتا۔ جس کو سارے قبیلہ نواسی دہراتے، تمام لوگوں میں زبردست جوش و جذبہ پیدا ہو رہا تھا۔ سردار اپنے جسم پرشیر کی کھال کا لنگوٹ باندھے ہوئے تھا۔ اس کے ساتھ سردار کا بیٹا تھا، جس کے کاندھے پر جال تھا اور ہاتھوں میں لکڑی سے بنا لمبا سا بھالا، جس کے سرے پر پتھر لگا ہوا تھا جو بے حد نوکیلا تھا۔ باقی قبیلہ نواسیوں کے ہاتھ میں بھی تیر کمان، جال اور نیزے تھے۔ اور پتھر سے بنائے گئے ہتھیار تھے۔ وہ سب کوئی قبائلی گیت گا رہے تھے۔
بیچ میں رُک رُک ہانک بھی لگاتے جاتے تھے۔ وہ کھلے میدان سے نکل کر جنگل میں داخل ہو گئے۔ گھنا جنگل۔ جہاں دن کے اُجالے میں اندھیرا رہتا تھا۔
سردار کے حکم پر شکار کو پھانسنے کی حکمتِ عملی بنائی جا رہی تھی۔ سردار، سردار کا بیٹا اور سارے قبیلے کے لوگ کام میں لگے ہوئے تھے۔ مگر۔۔۔۔ مرجے اور رابو ایک پیپل کے نیچے کھڑے بہ ظاہر تو اپنے جال کو درست کر رہے تھے۔ مگر دونوں موقع کی تلاش میں تھے کہ سب کی آنکھ بچے اور جنگل کے پار پہاڑی کے پیچھے والے قبیلے جا پہنچیں جہاں رابوٗ کی محبوبہ شبری اس کی منتظر تھی۔ انھیں اس بات کا خوف تو تھا کہ جب راز کھلے گا تو ان کے اپنے قبیلے کا سردار سزا دے گا مگر رابو، شبری کے پیار میں قربان ہونے کو تیار تھا تو مرجے اپنے دوست رابو کے لیے کُچھ بھی کر گزرنے کا جذبہ رکھتا تھا۔ اسی لیے دونوں دوستوں کو اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں تھی۔
وہی ہوا جو دونوں چاہتے تھے۔ موقع پاکر دونوں دوست شکار چھوڑ کر جنگل سے فرار ہو گئے اور پہاڑی کی طرف دوڑے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ دوڑتے چلے جا رہے تھے۔ رابوٗ اپنی محبوبہ کی چاہت میں اور مرجے اپنے دوست کے خاطر۔
رابو اور مرجے اپنے قبیلے سے کافی دور آکر ایک چھوٹی پہاڑی پر چڑھنے لگے۔ اس پہاڑی کے پیچھے ہی شبری کا قبیلہ تھا۔
رابو کا ارادہ تھا کہ وہ شبری کے قبیلے سے تھوڑی دور رُک کر اپنی مخصوص آواز کے اشارے سے شبری کو اپنے پاس بلائے گا۔ دونوں پیار بھرا وقت ساتھ بتائیں گے۔ اور مرجے رکھوالی کرے گا۔ مگر وہ دونوں یہ نہیں جانتے تھے کہ شبری کا قبیلہ بھی شکار کی تلاش میں نکلا ہوا ہے۔
انھوں نے دیکھا پہاڑی پر سے دشمن قبیلے کا سردار شاکا اپنے قبیلے کے باشندوں کے ساتھ نیچے اُتر رہا تھا۔ سردار کے ساتھ چل رہا تھا قبیلے کا سب سے طاقت ور نوجوان نرسا۔ نرسا نر بھکشی تھا۔ وہ اپنے قبیلے کے سردار کے حکم پر دُشمن قبیلے کے انسانوں کو مار کر آگ میں بھون کر کھا جاتا تھا۔
نرسا بھی شبری کو چاہتا تھا۔ سردار نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جلد ہی شبری کی شادی نرسا سے کردے گا۔
رابو نے دیکھا، شبری بھی اپنے سردار باپ کے ساتھ پہاڑی سے اُتر رہی تھی۔ رابو پریشان ہو گیا۔ وہ بہت امید کے ساتھ شبری سے ملنے آیا تھا۔ اپنے قبیلے کے سردار کی ناراضگی کی بھی اس نے پرواہ نہیں کی تھی۔ رابو نے واپسی کا سوچا۔ وہ مرجے سے بولا۔۔۔”چل واپس اپنے قبیلے کی طرف چلتے ہیں۔۔۔۔۔آج شبری سے ملاقات نہیں ہو سکتی۔“ مرجے نے اپنے مایوس دوست کا چہرہ دیکھا۔ وہ دونوں واپسی کے لیے سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک دشمن قبیلے کے لوگوں کی نظر مرجے اور رابو پر پڑی۔ انھوں نے سردار کو بتایا۔ سردار نے فوراََ ہی حکم دیا۔”ان لوگوں کو پکڑو۔۔۔۔۔۔ اس سال دیوا کے تہوار پر ان دونوں کی ہی بلی چڑھائی جائے گی۔“
دشمنوں نے مرجے اور رابو کو گھیر لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب رابو اور مرجے کے پاس دو ہی راستے تھے کہ یا تو ان سے مقابلہ کریں یا پھر ہتھیار ڈال کر دیوا کی کرپا کے لیے اپنے آپ کو ان کے حوالے کر دیں۔ مگر رابو ہتھیار ڈال کر شبری کے سامنے بُزدل ثابت نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس لیے اس نے اپنے عزیز دوست مرجے کو مقابلہ کرنے کے لیے اشارہ کیا۔
دونوں دوستوں نے اپنے نیزے ہوا میں لہرائے اور چیخ کر دشمنوں کو للکارا۔ مرجے پورے جنون کے ساتھ دشمن کے حملے کو روک رہا تھا جب کہ رابو نرسا کو ہلاک کرنے کے لیے بھیڑ کو چیرتا ہوا نرسا پر حملہ آور ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں دوست چیخ چیخ کر دشمن پر حملہ آور تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
مقابلہ جاری تھا۔
معراج کے والد پروفیسر سراج اپنے خاندانی مکان ”اسرار منزل“ میں داخل ہوئے۔ فکر و تردد کی لکیریں ان کے ماتھے پر بہ آسانی دیکھی جا سکتی تھیں۔ وہ پریشان لگ رہے تھے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی انھوں نے گھر کے ملازم کو آواز دی۔ ”رحمان!!!! ارے رحمان۔۔۔“
رحمان تیزی سے دوڑتا ہوا آیا۔ اُس نے کاندھے پر پڑے کپڑے سے ماتھے کا پسینہ پونچھا اور بولا:
”جی سر۔۔۔۔۔۔“ رحمان سمجھ چکا تھا کہ وہ معراج کے بارے میں معلوم کریں گے۔ وہ سراج منزل کا پُرانا ملازم تھا۔
”معراج کہاں ہے؟۔۔۔۔۔ میرا آنا نہیں ہوا تو بھی مجھ سے ملنے نہیں آیا۔ نہ ہی فون کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اوپر سے فون بھی اس کا بند ہے۔۔۔۔کہاں ہے وہ۔۔۔۔“ پروفیسر سراج نے بے قراری سے پوچھا:
”سر میں کیا بتاؤں۔۔۔۔۔“ رحمان نے گھبراتے ہوئے کہا۔ ”آج تیسرا دِن ہے۔۔۔ وہ لائبریری سے باہر ہی نہیں نکلے۔۔۔۔۔“
”کیا کہتا ہے۔۔۔۔۔۔“
اس سے پہلے کہ پروفیسر سراج اپنی بات پوری کریں۔ رحمان جلدی سے بولا۔۔۔۔۔”سر میں ہر ایک دو گھنٹے بعد دروازہ پیٹ رہا ہوں۔۔۔ آواز دے رہا ہوں۔۔۔مگر۔۔۔۔“
”۔۔۔تین دن؟۔۔۔۔۔۔۔۔ فون کیا تھا تو نے۔۔۔۔۔“ انھوں نے پوچھا۔
”سر فون وہ چھوڑ کر گئے تھے لائبریری کے باہر ہی۔۔۔ اور مجھ سے بہت ہی سختی سے کہا تھا کہ مجھے بالکل بھی ڈسٹرب نہیں کرنا۔۔۔۔“ رحمان نے گھبراتے ہوئے ماتھے کا پسینہ پونچھا۔
”تُجھ سے کتنی بار کہا ہے، پانچ چھ گھنٹے سے زیادہ لائبریری میں رہا کرے تو فوراََ مجھے فون کر دیا کر۔۔۔۔۔۔“ اُن کا دایاں ہاتھ کولہے پر تھا اور بائیں ہاتھ سے ماتھے کو بے چینی سے رگڑ رہے تھے۔
سر، میں بھی کیا کروں؟ ڈاکٹر صاحب نے سختی سے منع کیا تھا۔۔۔۔۔۔“
”تو اور تیرا ڈاکٹر۔۔۔۔۔۔“ یہ کہتے ہوئے پروفیسر سراج تیزی سے لائبریری کی طرف دوڑے۔ پیچھے پیچھے رحمان بھی چل پڑا۔
پروفیسر سراج نے اپنے بوڑھے ہاتھوں سے لائبریری کے دروازے کو پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ اپنے بیٹے کو آواز لگا رہے تھے۔۔۔”معراج۔۔۔ او معراج۔۔۔ باہر آبھئی۔۔۔۔“
پروفیسر صاحب کا بی پی ہائی نہ ہو جائے، یہ دیکھ کر رحمان پریشان ہو گیا اور پوری طاقت سے دروازے پر دھکّے مارنے لگا۔ اسرار منزل میں استعمال کی گئی لکڑی آج بھی بہت مضبوط تھی۔ چند دھکوں سے اس کا کیا بگڑ تا۔ البتّہ رحمان کا سانس پھول گیا۔ پروفیسر سراج پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر ٹہلنے لگے۔ چند منٹ دونوں خاموش کھڑے رہے۔ اچانک اندر کُچھ آواز ہوئی۔
مالک نوکر دونوں اپنا رُتبہ بھول کر ایک ساتھ کان لگاکر اندر کی آواز سننے کی کوشش کرنے لگے۔
اندر سے آوازیں آ رہی تھیں جیسے معراج کسی سے غصّے میں زور زور سے بول رہا ہو۔
پروفیسر سراج سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ کیا کریں۔ تب ہی رحمان بولا:
”سر، میں باہر سے کُچھ لوگوں کو بلا لاؤں۔۔۔۔ دروازہ توڑ دیتے ہیں۔۔۔۔۔“
رحمان کی اس بات پر انھوں نے بے خیالی میں کہا۔۔۔ ”ہاں ہاں کُچھ بھی کر۔۔دروازہ توڑ۔۔۔“ یہ کہتے ہوئے پروفیسر سراج جیب سے فون نکالنے لگے۔
انھوں نے اس وقت ڈاکٹر سوشیل کو فون کرنا ضروری سمجھا۔ جس کے زیرِ نگرانی معراج کا علاج چل رہا تھا۔
ڈاکٹر سوشیل نے تمام حال سننے کے بعد کہا:
”پروفیسر سراج! آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔ میں آپ کی اُلجھن کو سمجھ سکتا ہوں۔ مگر مجھے آپ کے گھر پہنچنے میں کم سے کم دوگھنٹے لگیں گے۔۔۔۔۔۔ تب تک آپ سنبھالیے۔۔۔۔ پریشان نہ ہوں۔“
پروفیسر سراج گیلری میں پڑی آرام کُرسی پر بے آرامی سے بیٹھ گئے۔
کُچھ دیر بعد پروفیسر سراج کے دو شاگرد آگئے اور رحمان بھی دو پڑوس کے لڑکوں کو بلا لایا۔ سب نے مل کر لائبریری کا دروازہ توڑ نا شروع کر دیا۔ جس وقت لائبریری کے دونوں پٹ کھلے۔ سب سے پہلے ڈاکٹر سوشیل اور پروفیسر سراج لائبریری میں داخل ہوئے۔ اُن کے چہرے پر تفکرات کے نشان نمایاں طور پر نظر آ رہے تھے۔ ڈاکٹر سوشیل کا چہرہ سپاٹ تھا۔ ان کے لیے اس طرح کی باتیں معمول کا حصّہ تھیں۔
سب نے دیکھا۔ لائبریری میں نیم تاریکی تھی۔ چھت کے کونوں میں مکڑی کے جالے تھے۔ چھت کی چھپکلی بادامی رنگ کے ایک کیڑے کو گھات جمائے دیکھ رہی تھی۔ وہ شکار کو جھپٹنے کو تیار تھی۔
معراج کے جسم پر صرف انڈر ویئر تھا۔ اس کے ماتھے پر میز صاف کرنے کے کپڑے کی ایک دھجّی بندھی ہوئی تھی۔ ہاتھ میں جالے صاف کرنے والا لمبا ڈنڈا تھا، جس کے اوپری سرے پر بریڈ پر بٹر لگانے والا چاقو بڑے ہی بے ڈھنگے پن سے باندھا گیا تھا۔
معراج نے سب لوگوں کی طرف نگاہ ڈالی۔ وہ ڈاکٹر سوشیل کی طرف بڑھا۔
”اے مانجھری قبیلے کے سردار، میرا دوست جسے تو نے قتل کر دیا، آخر اس کا قصور کیا تھا۔ یہ کہ وہ تیرے قبیلے کی ایک لڑکی سے پیار کرتا تھا۔ میں معراج ہوں۔ میں مرنے سے نہیں ڈرتا۔ تیرے اس نرسا سے مقابلہ کرنا چاہتا ہوں۔ میں تجھے اور تیرے نرسا کو نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔نرسا۔۔۔۔“ کہتا ہوا معراج میز پر سے ایسے کودا جیسے وہ میز نہیں کوئی چھوٹی سی پہاڑی یا کوئی اونچا پیڑ ہے۔ اس نے ہاتھ میں پکڑے ڈنڈے کا چاقو والا سرا ڈاکٹر سوشیل کی طرف کرلیا اور تیزی سے ان کی طرف لپکا۔
پروفیسر سراج چیخے: ”معراج ہوش میں آؤ۔۔۔۔۔۔یہ کیا حماقت ہے۔ کیا کر رہے ہو۔۔۔۔۔“ کئی لڑکو ں نے معراج کو پیچھے سے داب لیا۔ مگر معراج لمبا چوڑا اور تندرست و مضبوط جسم کا تیس سالہ جوان تھا۔ اس لیے کسی کے بس میں آسانی سے نہیں آ رہا تھا۔ وہ عجیب و غریب آوازیں اپنے حلق سے نکال رہا تھا۔ جب تک پانچ نوجوان لڑکوں نے اسے اپنے قابو میں کیا، تب تک ڈاکٹر سوشیل نے معراج کے لیے انجیکشن تیار کر لیا۔
انجکشن لگنے کے چند منٹ بعد تک اس پر جنون سوار رہا۔ وہ چھپکلی کے منھ میں آئے کیڑے کی طرح چند منٹ چھٹپٹاتا رہا اور کچھ نہ کچھ بڑبڑاتا رہا۔
٭٭٭
اسپتال میں ڈاکٹر کے کیبن میں ڈاکٹر سوشیل کے سامنے پروفیسر سراج اور معراج کا دوست ابھے کمار اُداس و پریشان بیٹھے ہوئے تھے۔ ابھے اور معراج کی دوستی کالج کے زمانے سے تھی۔
ڈاکٹر سوشیل نے پروفیسر سراج کی پریشانی اور ابھے کی اداسی کو دیکھتے ہوئے کہا:
”پروفیسر صاحب میں آپ سے پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ معراج ایک بے حد ذہین شخص ہے۔ ایسے لوگ یا تو سماج کے لیے بہت ہی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں یا بہت ہی زیادہ مفید۔ یہ ڈیپنڈ کرتا ہے کہ اس کی پرورش کن حالات میں ہوئی اور اس کا ذہن و دل کس طرف جا رہا ہے یا کام کر رہا ہے۔ کبھی کبھی یہ سماج کے لیے جہاں فائدے مند ثابت ہوتے ہیں وہیں کُچھ معاملوں میں چند لوگوں کے لیے ہی سہی ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آتے ہیں۔ معراج انسان سے محبت کرنے والا آدمی ہے۔ اسے انسانیت سے محبت ہے۔ دنیا میں موجود تمام لوگوں کے لیے دل میں رحم ہے۔ محبت اور دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ رکھتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ اسے کتابیں پڑھنے کے شوق نے ذہنی بیمار بنا دیا۔ کتابوں کی دنیا کو وہ حقیقی سمجھ کر اُس میں ڈوب جاتا ہے۔
 پروفیسر سراج زندگی کی الجھنوں میں الجھتے چلے گئے۔ بیوی کے ناز اُٹھانے کے ساتھ ساتھ سیمیناروں میں شرکت اور کتابیں پڑھنے اور لکھنے میں ایسے مصروف ہوئے کہ وہ چاہ کر بھی معراج کے لیے وقت نہیں نکال پاتے تھے۔ ان کا ’سراج منزل‘ آنا کم ہوتا گیا۔ کبھی کبھی ایک دو گھنٹے کے لیے آجاتے تھے۔ معراج نے بہت خاموشی سے اپنی الگ دنیا بنا لی تھی۔ وہ اسکول اور کالج کے علاوہ اپنا سارا وقت سراج منزل کی لائبریری میں گزارنے لگا۔ اسے کتابوں سے عشق تھا۔ ہر وقت مطالعے میں مشغول رہتا۔ اس کا معمول بن گیا تھا. صبح اُٹھ کر تیار ہوتا۔ اسکول چلا جاتا۔ گھر کے دیگر کام اور ذمہ داریاں رحمان نے سنبھال رکھی تھیں۔ معراج کے کپڑے وغیرہ بھی وہی دھوتا تھا۔ اسی طرح معراج بڑا ہوتا رہا۔ آگے بڑھتا رہا، پڑھتا رہا اور اسکول سے یونی ورسٹی کا سفر طے کیا۔
پروفیسر سراج اس وقت بیٹھے اپنے اس فیصلے
پر نادم تھے۔ انھوں نے کیوں عابدہ سے شادی کی۔ وہ معراج کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ اپنے ماضی سے شرمندہ تھے تو معراج کے مستقبل کے لیے فکر مند۔ وہ معراج کو یک ٹک دیکھے جا رہے تھے۔
ابھے اور علی معراج کی بیماری اور اس کے علاج کے تعلق سے باتیں کر رہے تھے۔ معراج سو رہا تھا۔
٭٭٭
 تصوّر کی دنیا اس کی حقیقی دنیا بن جاتی ہے۔ یہ بات کسی حد تک بہت خطرناک ہے۔ اسے دنیا وی کاموں سے جوڑنا ہوگا۔ لوگوں سے رغبت پیدا کرنی ہوگی۔ دماغی طور پر صحت مند رہنے کے لیے جلد سے جلد اس کی زندگی میں کسی عورت کا آنا ضروری ہے، ورنہ اس کی یہ بیماری بڑھ سکتی ہے۔ مسائل خطرناک روپ اختیار کر سکتے ہیں، ایسی صورت میں اس کاعلاج تو مشکل ہوگا ہی اس کو سنبھالنا بھی مشکل ہو جائے گا اور پھر سوائے مینٹل ہاسپٹل کے ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں رہے گا۔“
پروفیسر سراج سر جھکائے ڈاکٹر کی باتیں سن رہے تھے، جیسے وہ ان تمام باتوں سے پہلے سے ہی آگاہ ہوں۔ وہ تو سوچ رہے تھے، کاش وہ اس کو اکیلا چھوڑ کر نہ جاتے۔ معراج کتابوں کی دنیا کا واسی نہ بنتا۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ اُن سے نادانی تو ہو چکی تھی۔
ابھے ڈاکٹر کی باتیں بہت ہی غور سے سن رہا تھا۔ معراج کی بیماری کو جاننے کی کوشش کر رہا تھا۔ اپنے عزیز دوست کی ذہنی گھتیوں کو سمجھنا چاہتا تھا۔
تب ہی ڈاکٹر سوشیل نے ابھے سے پوچھا: ”ابھے یہ تو میں آپ سے پہلے بھی معلوم کر چکا ہوں کہ اس کی زندگی میں اب تک کوئی عورت یا لڑکی آئی یا نہیں، آپ نے بتایا کہ نہیں آئی۔۔۔۔۔۔ مگر میں اب یہ جاننا چاہتا ہوں کہ وہ تیس سال کا تندرست آدمی ہے۔ اس کی کوئی سیکس لائف ہے یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ کیا کبھی آپ نے اسے پورن موویز وغیرہ دیکھتے ہوئے بھی دیکھا یا نہیں۔۔۔ یا کوئی اسی طرح کی حرکت دیکھی یا اس نے شئیر کی ہو۔“
ڈاکٹر سوشیل کی اس بات پر پروفیسر سراج نے لمحہ بھر کو ڈاکٹر سوشیل کی طرف دیکھا اور نظریں دوسری طرف کر لیں۔
ابھے کمار معراج کا عزیز دوست تھا۔ کُچھ دیر ڈاکٹر کو ایسے دیکھتا رہا، جیسے ذہن پر زور دے کر کُچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ پھر بولا:
”ڈاکٹر صاحب حقیقت تو یہ ہے کہ کالج کے زمانے سے لے کر یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کمپلیٹ ہونے تک ہم اکثر ملتے تھے۔ یونی ورسٹی میں تو کوئی ایسی بات میرے اوبزرویشن میں نہیں آئی۔ پچھلے دوسال سے ہم لوگ ایک دوسرے سے بہت کم مل پاتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ میں اس سے ملنا چاہتا تھا، مگر وہ نہ جانے کس دنیا میں کھو چکا ہے۔ اس لیے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس کی سیکس لائف کیا ہے۔ ہے بھی یا نہیں۔۔۔۔۔“
ڈاکٹر سوشیل نے ”اٗہنہ ں ں ں“ کرتے ہوئے لمبی سانس لی اور اپنی کہنیوں کو میز پر ٹکاتے ہوئے پروفیسر سراج کی طرف رُخ کیا:
”پروفیسر صاحب! آپ کیا کہنا چاہیں گے اس بارے میں؟“
پروفیسر سراج کے چہرے پر اُلجھن اور بے بسی کے تاثرات تھے۔ وہ عجیب سی کشمکش میں تھے، بولے:
”ڈاکٹر صاحب یہ تو میں کئی سال سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ لائبریری میں آٹھ آٹھ دس دس گھنٹے اپنے آپ کو بند رکھتا تھا۔ پڑھتا رہتا تھا۔ اور جب وہ خو دہی باہر نکلتا تو اس کا رویہ تھوڑا عجیب سا رہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔مگر اس طرح کا دورہ؟؟؟۔۔۔ تین دن سے لائبریری میں تھا۔۔۔۔۔ پتہ نہیں اس نے کُچھ کھایا بھی یا نہیں۔۔۔۔۔“
”آپ کا مطلب ہے کہ لائبریری میں کھانے پینے کا انتظام رہتا ہے؟“ ڈاکٹر سوشیل نے استفسار کیا۔
”جی ہاں ڈاکٹر صاحب، میں نے ملازم سے کہہ کر لائبریری میں بسکٹ، بریڈ، اسنیکس، ایک فریج بھی رکھوا دیا ہے جس میں دودھ، پھل وغیرہ بھی رہتے ہیں۔ لائبریری میں واش روم بھی ہے۔“
پروفیسر سراج کی اس بات پر ڈاکٹر سوشیل طنزیہ انداز میں مسکرائے:
”پروفیسر صاحب، آپ نے بھی سارے ہی انتظامات۔۔۔۔“
وہ اپنی بات کو درمیان میں چھوڑ کر مسکرائے اور آگے بولے۔۔۔۔۔۔۔۔ ”خیر چھوڑیے۔“
”ڈاکٹر سوشیل، آپ مجھے یہ بتائیں کہ اب کیا کرنا ہے۔۔۔ وہ ٹھیک تو ہو جائے گا نا۔۔۔۔“ پروفیسر سراج نے پوچھا۔
”پروفیسر صاحب ایسے مریض کے ساتھ سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ انھیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کسی مرض کا شکار ہیں۔ انی وے(anyway۔۔۔) یہ میں آپ کو پہلے بھی بتا چکا ہوں۔ وہ سائی کوٹک ڈس آرڈر کا شکار ہے۔ اس کے دماغ میں Dopamine اور serotonin نام کے کیمیکل کی مقدار کافی بڑھ گئی ہے۔ جس کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ دراصل اس مرض کا نام Schizophrenia ہے۔ وہ اس کا شکار ہوچکا ہے۔“
ڈاکٹر سوشیل کی جیسے ہی بات مکمل ہوئی ابھے نے پوچھا:
”ڈاکٹر صاحب، یہ مرض کیسے اور کیوں ہوتا ہے؟“ ابھے کے اس سوال پر ڈاکٹر سوشیل نے ایک لمبی سانس لی اور پروفیسر سراج کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔اور بولے:
” اس کی کئی وجہیں ہوتی ہیں۔ یہ مرض جینیٹک بھی ہوتا ہے اور کئی بار ماحول کی وجہ سے بھی ہوجاتا ہے مگر اس کے سمٹمس، فیملی میں کہیں نہ کہیں پہلے سے پائے جاتے ہیں۔ چالیس پرسنٹ یہ بیماری فیملی سے ہی آتی ہے۔ ماں کی طرف سے بھی اور فادر کی طرف سے بھی۔ بس پرسنٹیج الگ الگ ہوتی ہے۔ اگر اکیلے باپ یا ماں کی طرف کی فیملی سے ہو تو بارہ فی صد اس کی امید ہوتی ہے کہ مرض ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔۔ یہ مرض اٹھارہ سے تیس سال کی عمر کے درمیان ہوتا ہے تو مشکل ہوتا ہے مریض کا علاج کرنا۔ مگر تیس کے بعد اگر یہ مرض آگے بڑھتا ہے تو علاج میں کم مشکلیں آتی ہیں۔ ہم لوگوں کو صبر سے کام لینا ہوگا۔ پروفیسر صاحب اس مرض میں مریض خود کوئی صحیح فیصلہ نہیں لے پاتا ہے۔ ہمیں اس کے لیے صحیح فیصلہ لینا ہوگا۔ اس کا حوصلہ بننا ہوگا۔ ایسے لوگ بہت زیادہ جذباتی ہوتے ہیں۔ ہمیں اس بات کو اچھّی طرح سمجھ لینا چاہئے، اسی حساب سے ہم اس کے علاج کی اسٹریٹجی بنائیں گے۔“ ”ڈاکٹر سوشیل۔۔۔۔اس دن میں نے دیکھا۔ اس میں غیر معمولی طاقت آگئی تھی۔ وہ پانچ پانچ نوجوان لڑکوں کے قبضے میں نہیں آرہا تھا۔ ایساکیوں؟“ پروفیسر سراج نے دریافت کیا۔
ڈاکٹر سوشیل نے اپنا چشمہ اپنی آنکھوں سے اُتارا اور چشمے کے کیس سے کپڑا نکال کر اس کو صاف کیا۔ میز پر رکھی فائل کو اپنے آگے کھینچا اور بائیں ہاتھ سے میز پر رکھے گلوب کو دھیرے سے گھماتے ہوئے کہا۔
”اس مرض میں یوں تو مریض اپنی صحت اور عمر کے حساب سے ہی طاقت رکھتا ہے۔ مگر جب اس پر اٹیک ہوتا ہے تو اس کے اندر اپنی فطری قوت سے کئی گُنا طاقت بڑھ جاتی ہے۔ یا کہہ سکتے ہیں کہ جسم کی ساری انرجی سمٹ کر ایک نقطے پر آ جاتی ہے۔۔“
ابھے نے پوچھا: ”علاج کب تک چلے گا؟“
ڈاکٹر سوشیل نے اپنی کُرسی سے اُٹھتے ہوئے کہا:
”چند مہینے، ایک دو سال اور پانچ سال بھی لگ سکتے ہیں۔۔۔۔خیر پریشان نہ ہوں۔ ابھی مریض ہماری نگرانی میں ہے۔۔۔۔“
ڈاکٹر سوشیل نے اپنی بات پوری کی ہی تھی کہ ان کے کیبن میں علی داخل ہوا۔ علی، ابھے اور معراج یہ تینوں کالج کے زمانے کے دوست تھے۔ علی نے ایم اے کے بعد تعلیم کو جاری نہیں رکھا۔ مگر ابھے اور معراج نے اعلی تعلیم کی طرف اپنا قدم بڑھادیا تھا۔
علی جب کیبن میں آیا تو اس کا چہرہ اداس و پریشان تھا۔ اس نے آتے ہی ابھے کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔ سب کی طرف اس طرح سے دیکھا، جیسے وہ سب کو ہائے، ہیلو بھی کہنا چاہتا ہے اور معراج کہاں ہے، کس حال میں یہ بھی جاننا چاہتا ہے۔ ڈاکٹر سوشیل نے سوالیہ نگاہوں سے علی کو دیکھا۔ ابھے نے علی کا تعارف کرایا:
”ڈاکٹر صاحب، یہ علی ہیں میرے اور معراج کے کالج کے زمانے سے دوست ہیں۔ میں نے ان کو معراج کے بارے میں فون پر بتایا تھا۔ یہ سیدھا آفس سے چلے آ رہے ہیں شاید۔۔۔“
پروفیسر سراج بھی علی کو اچھی طرح جانتے تھے۔ انھوں نے علی کو نگاہیں اُٹھا کر اس انداز سے دیکھا جیسے علی کے سلام کا جواب دے رہے ہوں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہنا چاہتے تھے کہ دیکھو معراج کی حالت کیا ہو گئی۔ اس سے مل لو۔ اس کو آپ جیسے دوستوں کی ضرورت ہے۔
اچھا پروفیسر صاحب میں اجازت چاہتا ہوں۔ مجھے ایک میٹنگ میں جانا ہے۔“ ڈاکٹر سوشیل نے اپنا ہاتھ پروفیسر سراج کی طرف بڑھایا۔
پرو فیسر سراج اور ابھے بھی اپنی اپنی نشستوں سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔
”میں شام کو راؤنڈ پر آؤں گا۔ میرا جونیئر اور نرسیں موجود ہیں۔ کوئی بات ہو تو ان سے مل سکتے ہیں۔“ ڈاکٹر سوشیل نے پروفیسر سراج کے کاندھوں پر ہاتھ رکھا۔ ”آپ لوگ فکر نہ کیجئے گا۔“ ڈاکٹر نے اُچٹتی سی نگاہ تینوں پر ڈالی اور چلے گئے۔ پروفیسر سراج کے ساتھ ابھے اور علی بھی ڈاکٹر سوشیل کے کیبن سے باہرنکل آئے اور معراج کے وارڈ کی طرف چل پڑے۔
معراج اپنے بستر پر گہری نیند سو رہا تھا۔ پروفسیر سراج کے کئی شاگرد بیٹھے تھے۔ انھوں نے کہا: ”آپ لوگ گھر چلے جائیں۔ میں یہاں ہوں۔“ یہ سن کر ایک لڑکے نے کہا:
”کوئی بات نہیں سر ہم لوگ باہر بیٹھتے ہیں، کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتائیے گا۔“
یہ کہہ کر لڑکے باہر چلے گئے۔
علی بہت ہی پیار سے معراج کو دیکھنے لگا۔ خوب تندرست لمبا چوڑا ساڑھے چھ فٹ کا یہ شخص علی کو کوئی معصوم بچّہ لگا۔ جو گہری نیند سو رہا تھا۔ پروفیسر سراج ابھے سے بولے:
”آپ اب گھر چلے جاؤ۔۔۔۔فریش ہوکر آجانا۔۔۔ تھک گئے ہوگے۔“
ابھے نے کہا: ”کوئی بات نہیں سر۔۔۔ مجھے ایک آرٹیکل لکھنا ہے۔“ ابھے فری لانس جرنلسٹ تھا۔ ”ایڈیٹر کا فون آیا تھا۔ میرے پاس لیپ ٹاپ ہے، میں یہاں بھی لکھ سکتا ہوں۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ ہاں آپ گھر چلے جائیں۔“
’گھر‘ کے نام سے عابدہ کا چہرہ ان کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ انھوں نے ندامت و شرمندگی سے سوتے ہوئے معراج کو دیکھا اور سوچا، بیس سال پہلے مُجھ سے جو حماقت ہوئی تھی اس کی سزا میرا بیٹا بھگت رہا ہے۔ انھوں نے نے دل ہی دل میں اپنے بیٹے سے معافی مانگی۔ وہ اس کے قدموں کے پاس رکھے پلاسٹک کے اسٹول پر بیٹھ گئے۔ انھوں نے لمبی سرد آہ بھری اور خود سے من ہی من کہا: ’تیری ایک غلطی نے تیرے بیٹے کی زندگی تباہ کر دی سراج۔۔۔۔۔‘
وہ بیس سال پہلے اُس بے وقوفی کے بارے میں سوچنے لگے۔ جب معراج دس سال کا تھا۔ اس کی ماں کا انتقال ہو گیا تھا۔ وہ اس وقت چالیس برس کے تھے۔ اپنی ایک شاگردہ کے عشق میں گرفتار ہو گئے۔ عابدہ بھی پروفیسر سراج سے محبت کرتی تھی۔ شادی کی بات آئی تو عابدہ کے والد نے شرط رکھی کہ میری بیٹی بیاہ کر ’سراج منزل‘ نہیں جائے گی، انھیں گھر داماد بننا ہوگا۔ پروفیسرسراج دوسال تک عابدہ کے والد کو ٹالتے رہے اور عابدہ کو منانے کی کوشش کرتے رہے۔ مگر وہ کسی بات میں بھی کامیاب نہ ہو سکے۔ آخر کار دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے بارہ سال کے بیٹے کو ملازم رحمان کے سہارے چھوڑ کر عابدہ کے گھر وداع ہو گئے۔ پروفیسر سراج نے شہر میں کئی مکانات بنا رکھے تھے۔ جس سے کرائے کی اچھّی خاصی رقم آتی تھی۔ اس رقم کو انھوں نے معراج کے نام وقف کر رکھا تھا۔ جس سے معراج کے اخراجات پورے ہوتے۔ عابدہ سے شادی کے بعد ایک سال تک تو وہ ایک دو گھنٹے کے لیے گھر آتے رہے۔ معراج کی تعلیم کی باتیں پوچھتے تھے، مُلازم رحمان کو طرح طرح کی ہدایتیں دیتے اور چلے جاتے تھے۔ کبھی کبھی معراج بھی اپنی سوتیلی ماں کے پاس چلا آتا تھا، پر نہ جانے کیا سوچ کر عابدہ کے والد کو اس کا آنا پسند نہیں تھا۔ معراج اس بات کو سمجھنے لگا تھا۔وہ بہت حسّاس بچّہ تھا۔اس نے اپنی سوتیلی ماں کے پاس جانا بھی چھوڑ دیا۔
***
 نئی فیکٹری (باب دوم و سوم)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے