خطاب بہ معلمین اردو

خطاب بہ معلمین اردو

خان حسنین عاقب

پیش لفظ:
”خطاب بہ معلمین اردو“ 2010 کے آس پاس یا کچھ بعد ہندستان کے چند معروف روزناموں میں بڑے اہتمام کے ساتھ قسطوں میں شائع ہوا۔ یہ خطاب رسائل میں بھی چھپا۔ ملک کی کئی ریاستوں سے مجھے واقعتا دعائیں موصول ہوئیں۔ الحمد اللہ، کچھ باضمیر معلمین کے فون بھی آئے کہ یہ تحریر افسانہ نہیں، حقیقت کی بے لاگ عکاسی ہے۔ البتہ ایک بڑے قومی روزنامے میں اس کی تین قسطوں کی اشاعت کے بعد معلمین کے ایک وفد کے احتجاج کے پیش نظر اسے بند کردیا گیا۔ اس مضمون کی اشاعت کے بعد میرے اپنے شہر کے کچھ اردو معلمین جو مجھ سے بے تکلف تھے، انتہائی پر تکلف ہوگئے کیونکہ وہ خود کو اس مضمون کا ایک کردار مان رہے تھے۔ خیر!
ایک شاعر کی اولین کتاب کے اجرا کے بعد ایک تجربہ کار اور اپنی قوتِ گویائی کا دوسروں کی تضحیک و استہزا کے لیے کثرت سے استعمال کرنے والے معلم، جن کی تنخواہ تقریباً ایک لاکھ روپئے ماہانہ ہے، کہنے لگے۔ ”میں نے یہ کتاب فلاں صاحب کی یہاں دیکھی ہے۔“ ان سے کہا گیا کہ ”صاحب! آپ نے کتاب دیکھ لی ہے، یہ بڑا احسان کیا ہے۔ لیکن کیا آپ نے اردو کی اس کتاب کو خرید کر اس کا حق ادا کیا ہے؟“ تو انھوں نے جو تاویل پیش کی، اسے سنئے اور خوش ہو جائیے۔ کہا۔ ”دیکھئے جناب! اس کتاب میں شاعر کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ مجھے یہ پسند نہیں ہے تو میں اسے کیوں خریدوں؟ کتاب پڑھنے کے بعد اگر مجھے لگتا کہ اسے خریدنا چاہئے تو میں ضرور خریدتا۔“ ایک دوسرے معلم کہنے لگے۔ ”نہیں صاحب، ہمیں نہیں خریدنی اردو کی کوئی کتاب، ہمیں شاعری سے کو ئی دل چسپی نہیں ہے۔“ یہ صاحب خیر سے دو ہزار روپے دے کر اپنی جگہ ایک بے روزگار نوجوان معلم کو اپنے اسکول میں پڑھانے بھیجتے ہیں اور خود دھڑلے سے قطعاتِ اراضی کی دلالی (پلاٹنگ) کو کل وقتی کاروبار بناکر اپنی معلمی کی تنخواہ حلال کرتے ہیں۔ اس قبیل کے کئی معلمین نے یہی جواب دیا۔ مذہبی رجحان رکھنے والے کچھ معلمین جو ماشاءاللہ با شرع اور اسلامی شعار کے حامِل تھے، کہنے لگے۔ ”اگر شاعر صاحب کوئی مذہبی کتاب لکھتے تو ہم ضرور خریدتے۔“ شاعر صاحب اگر ایسا کر لیتے تو شاید یہ صاحب فرماتے۔ ”شاعر صاحب اگر ہماری جماعت کا لٹریچر لکھتے تو ہم ضرور خریدتے۔“ فکری جماعتوں کے زیرِ اہتمام چلنے والے اسکولوں کے معلمین نے بھی اپنی اردو نوازی کا اسی بے حِسی کے ساتھ ثبوت دِیا۔ بات در اصل کسی شاعر کی کتاب کی نہیں، محض اردو کی ایک کتاب کی ہے۔ جو اعلا ظرف تھے انھوں نے اپنی اردو نوازی کا ثبوت دِ یا بھی۔ انھیں سلام!
لیکن آپ یہ نہ سمجھئے کہ میں ان محترم اور معزز معلمین کے اِن حوصلہ شکن تاثرات سے مایوس ہوا۔ نہیں، قطعی نہیں۔ قر آن کہتا ہے۔ لا تقنطو من رحمۃ اللہ۔ بلکہ میں ان تمام کا مشکور اور احسان مند ہوں کہ ان کے اس ردِ عمل نے میرے حوصلوں کو رفتار بخشی۔ ورنہ میں شاید مطمئن ہوکر بیٹھ جاتا۔ بڑے کہہ گئے ہیں کہ اگر تم کوئی اچھا کام کر رہے ہو اور کچھ لوگ رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہوں تو سمجھ لو کہ کامیابی دوڑتی ہوئی تم سے آکر گلے ملنے والی ہے۔
تحریر سامنے ہے۔ آپ بھی اسے پڑھیے۔ سوچیے اور اچھا یا بُرا، جیسا لگے دل میں مت رکھیے۔ مجھ سے بانٹیے۔ ٹھیک ہے نا؟
اللہ آپ کے نیک جذبوں کی حفاظت کرے. 
آمین
آپ کا اپنا
خان حسنین عاقب
_____________________
خطاب بہ معلمین اردو
خان حسنین عاقبؔ

میرے عزیز اور ایک مظلوم زبان ”اردو“ کے استادو!
تم پر اللہ کی سلامتی ہو! آمین. 
میں پہلے یہ عرض کردوں کہ اس خط میں گراں بار القاب و آداب سے دانستہ اجتناب برتتے ہوئے میں نے یہ بے تکلفانہ لہجہ اس لیے اختیار کیا ہے کہ میرے مخاطب گذشتہ نسل کے وہ ”اکابرین“ نہیں ہیں، جو اپنے”کار ہائے لائقہ“ کی باز پُرس و احتساب کے دائرے سے باہر ہو چکے ہیں، یعنی سُبک دوش ہوچکے ہیں بلکہ اسی نسل کے وہ مایۂ ناز معلمینِ اردو ہیں، جو میری اپنی طبعی عمر سے مطابقت رکھتے ہیں۔ نیز آئندہ نسل کے وہ متوقع معلمینِ اردو ہیں جو آنے والی نسلوں کی تربیت و آبیاری کا ذمہ اُٹھانے کا عزم رکھتے ہیں۔
عزیزو!
مجھے تم پر فخر ہے کہ تم نے اپنی تعلیم کے لیے اردو زبان کا انتخاب کیا تھا حالانکہ میں یہ نہیں جانتا کہ اردو تمھارا اپنا شعوری انتخاب تھا یا تمھاری نا دانستگی اور لاشعوری کے دور میں تمھارے والدین کا فیصلہ، لیکن بہر کیف، یہ ایک حقیقت ہے کہ اسی اردو نے تمھیں اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ تم اردو کی تدریس کرنے والے معلم بن چکے ہو۔
میرے عزیز! دیکھو بُرا مت ماننا!
میں تمھارے فرائض منصبی اور تمھاری کار گزاریوں کا احتساب کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ اگر رکھتا بھی ہوں تو اس حق کا استعمال کرنا نہیں چاہتا۔ لیکن ملت کی ٩٠ فی صد آبادی کی نمائندگی کرتے ہوئے تم سے یا پھر تمھارے ضمیر سے (اگر تم اسے زندہ محسوس کرتے ہو تو) کچھ استفسار چاہتا ہوں۔ میں تمھاری ذاتی زندگی یا نجی افعال سے متعلق کوئی بات نہیں کر رہا ہوں اور نہ ہی تمھارے خاندانی معاملات میں دخل اندازی کر رہا ہوں۔
میرے محب!
مجھے یقین ہے کہ تم بے حد با صلاحیت ہو۔ ڈی۔ ایڈ، بی۔ ایڈ، ایم۔ ایڈ، ایم۔ اے یا پی. ایچ. ڈی کی ڈگریاں تمھاری اہلیت کے مقابلے میں بہت چھوٹی ہیں، غیر اہم ہیں۔ لیکن میں تمھیں اپنے ایسے ہولناک تجربات و مشاہدات سنانا چاہتا ہوں جو اردو معلمین کی اپنی مادری زبان اور اس کے علم کے تئیں رویہ کا واضح ثبوت ہیں۔ میرے عزیز! تم ان واقعات کو اپنے دل پر نہ لینا۔
ایک کافی تجربہ کار گریجویٹ معلم مجھ سے کافی عرصہ کے بعد ملے، کہنے لگے ”یار عاقبؔ صاحب مجھے آپ سے دل شکنی کرنی ہے۔“ میرا دل ان کے تئیں احترام سے بھر گیا کہ آج کی اس دنیا میں ایسے لوگ ہیں جو اطلاع دے کر اور اجازت لے کر دل شکنی کرتے ہیں، اللہ اللہ! لیکن ان کی اگلی گفتگو کے تناظر میں یہ عقدہ کھلا کہ دراصل و ہ ” شکوہ یا شکایت“ کرنا چا ہ رہے تھے اور اسے دل شکنی کہہ رہے تھے۔ ایک معلم صاحب نے بچوں کو محاورہ لکھوایا: ”پَوپھٹنا“ اور پھر انھوں نے اس محاورے کو جملے میں یوں استعمال کر وایا۔ ”میرے والد جنگل میں جارہے تھے اچانک شیر سامنے آگیا تو ان کی پَو پھٹ گئی“ نہ جانے موصوف پَو پھٹنے کا مفہوم کیا نکا ل رہے تھے۔ یہ صرف اردو زبان ہی کی مثالیں ہیں، اس قبیل کے معلمین میں ڈگری کالج کے پروفیسرس بھی ہیں۔ ایک پروفیسر صاحب کہنے لگے۔”اجی صاحب! اپنی قوم کا ایک ”افراد“ الکشن میں کھڑا ہو تو قوم اسے ووٹ نہیں دیتی۔“ اب جس پروفیسر کو اردو کی، اپنی مادری زبان کی مبادیات، واحد_جمع وغیرہ جیسی معمولی بات کا علم نہ ہو اس کی لیاقت کو تم کیا کہو گے؟ ایک دوسرے ڈگری کا لج کے پروفیسر طلبہ کو پڑھاتے ہیں : ’’مو سمِ بِہار“۔ (ریاستِ بہار) بی۔ اے۔ سال دوم کی جماعت ہے۔ جب ایک طالب علم ہمت جٹا کر کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے۔”سر وہ لفظ بَہار ہے۔“ یعنی ”ب“ پر ”زبر ہے“۔ تو پروفیسر موصوف جو تختہ سیاہ سے پشت لگائے، دیوار پر الٹا پیر لگائے کتاب ہاتھ میں لیے تدریس کر رہے ہیں، کس عاجزی اور انکساری سے اعتراف کرتے ہیں۔ سنیے۔ کہتے ہیں ”چوپ بے سالے! غلطی ہو گئی۔“ ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں جو اکثر معلمین کی اہلیت کی غماّزی کرتی ہیں۔ لیکن صفحات خراب کرنے سے کیا فائدہ؟
اور ہاں! اس گفتگو کا پورا الزام میرے سر مت ڈال دینا۔ کیونکہ آج سے سو (١٠٠) برس پہلے حکیم الامت، شاعر مشرق اقبال، جن کے دو ایک اشعار شاید تمھیں بھی یاد ہوں، شاید تم ہی سے مخاطب ہو کر کہہ گئے ہیں۔ ؎
ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے
بتا ! کیا تو مرا ساقی نہیں ہے
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے
میری یہ گفتگو تو انھی کے سوزِ دروں کا اِعادہ ہے۔ شاید تم یہ بات سمجھ سکو۔
مندرجہ بالا تمام امثال اردو کے معلمین کی ہیں، جو ان معلمین کی کم از کم اپنی مادری زبان کے تئیں سلوک کی آئینہ دار ہیں۔ یہ مثالیں مصدقہ، نیز واقعی ہیں۔ ان مثالوں کے حوالے سے کیا میں یہ نہ کہوں کہ تم اردو کے معلم ہو، اس کے لیے مروجہ لسانی تر جیحات کی بنیاد پر ملت کی ایک کثیر تعداد اپنی اولاد کے مستقبل کو تمھارے حوالے کر تی ہے۔
تم اردو کے معلم ہو، اس لیے سمجھا جاتا ہے کہ تم میں تہذیب و اخلاق، ادب و تمیز اور دین کی فہم کا شعور باقی ہے۔
تم اردو کے معلم ہو، اس لیے غیر اردو داں حکام بہ آسانی تمھیں معیارِ تعلیم سے متعلق احتساب سے مستثنیٰ کر دیتے ہیں۔ تم اردو کے معلم ہو، اس لیے کوئی غیر اردو داں تمھارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اور تم اردو کے معلم ہو، اس لیے تم بھی کسی غیر اردو داں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے!!
اگر بگاڑ سکتے ہو تو۔۔۔۔ اپنی ہی ملت کے نو نہالوں کا مستقبل!
ان کی زندگی
ان کا مقصدِ حیات
ان کی دنیا
اور ان کا دین، ان کی آخرت
بہر کیف! یہ ایک حقیقت ہے کہ اس اردو نے تمھیں جوتیاں چٹخاتے پھرنے سے بچایا۔ فارغ العسرت کیا۔ روز گار بخشا۔ پکے مکان کی رہائش عطا کی۔ تمھیں سماج میں سینہ تان کر چلنے کے لائق بنایا۔ تمھاری اور تم پر انحصار کرنے والے تمھارے خاندان کے ہر فرد کی رگوں میں اردو ہی کا خون گردش کر رہا ہے۔ کیا تم میری بات سمجھ رہے ہو؟
مجھے ولیم پین کی بات یاد آرہی ہے۔ اس نے کہا تھا:
"Time is what we want most ; but we use worst.”
(william penn)
”وقت جو ہمیں سب سے زیادہ مطلوب ہوتاہے، ہم اس کا سب سے بُرا استعمال کرتے ہیں۔"
میرے عزیز!
ملت کی خاطر میں یہ بھی جاننا چاہتا ہوں کہ اگر تم اردو سے پڑھ کر معلم بن سکتے ہو، اپنے خاندان کی اطمینان بخش کفالت کر سکتے ہو تو پھر ایسی کون سی مجبوری ہے کہ تم اپنی اولاد کو انگریزی میڈیم سے پڑھاتے ہو؟ اگر تم یہ سو چتے ہو کہ وہ اردو سے پڑھ کر ترقی نہیں کر سکے گا تو کیا ایسا کر کے تم خود اپنی اہلیت و لیاقت پر سوالیہ نشان نہیں لگا رہے ہو؟
اگر تمھیں اردو ذریعہ تعلیم کے معیار سے گِلہ ہے تو میرے مُحبّ! اس معیار کے معمار تو تم خود ہو۔
دیکھو! برا نہ ماننا!
فاش می گویم و از گفتۂ خود دلشادم
بندۂ عشقم و از ہر دو جہاں آزادم
اگر تم اردو کو اپنی اولاد کی ترقی کی راہ کا روڑہ سمجھتے ہو تو ماضی میں ڈاکٹر ذاکرحسین، مو لانا آزاد، فخر الدین علی احمد، جسٹس ہدایت اللہ اور حال میں کئی دینی مدارس کے فارغین کی یو. پی. ایس. سی میں کامیابیوں کو کس خانے میں رکھو گے، جو اردو میڈیم ہی کی پیداوار تھے اور ہیں۔ ملک کی ہزاروں اردو اسکولوں سے فارغ طلبہ، قابل انجینئرس، ڈاکٹرس، سائنس داں، صحافی، وکلا، منصفین وغیرہ بن کر ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ادا کر رہے ہیں۔ پھر تم کیوں اپنے بچوں کے لیے اردو کو نقصان دہ سمجھتے ہو۔
تم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جس درس گاہ میں تم ملت کے سینکڑوں، ہزاروں بچوں کے مستقبل کی تعمیر (؟) کر رہے ہو، وہاں تمھاری اپنی اولاد کیوں نہیں پڑھتی ہے۔ تمھیں یہ احساس کیوں نہیں ہوتا کہ تمھارے پاس اپنی اولاد کے لیے الگ پیمانہ ہے اور دوسروں کی اولاد کے لیے الگ۔ کیا یہ منافقت نہیں ہے؟
میرے پیارے معلم اردو!
بس مجھے یہ بتادو کہ کیا انگریزی میڈیم کی اخلاق سوز مغربی تہذیب تمھاری اولاد کو دینی علم و تربیت، اسلامی معاشرت، تہذیب و اخلاق سے عاری نہ کر دے گی؟
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
نا، نا، تم اس مغالطے میں مت رہنا کہ اپنے بچے یا بچی کو آدھا گھنٹہ مکتب میں بھیج کر اور بغدادی قاعدہ چٹوا کر تم اسے تہذیب و اخلاق کے خزانوں سے معمور کر سکو گے۔ کیا تم انگریزی میڈیم اسکولوں میں رائج مخلوط طریقہ تعلیم کی تباہ کاریوں سے واقف نہیں ہو؟
اگر نہیں ہو تو مجھے تم پر رحم آتا ہے۔ اور اگر واقف ہو تو پھر تمھاری ملّی حمیت اور غیرت کو کیا ہو گیا ہے؟
تم یہ کیوں بھول رہے ہو کہ انگریزی طریقہ تعلیم تمھاری عفت مآب بیٹی اور ہونہار بیٹے کو جنسی ادارگی اور فحاشی کے دل دل میں دھکیلنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہے!
اگر تم انگریزی زبان سے مرعوب ہو تو اپنی اولاد کو اردو اسکول میں پڑھا کر بھی تم اس کو انگریزی زبان سکھانے کا انتظام کر سکتے ہو۔
میرے محب! خیر سے تم اگر اردو کے شاعر، ادیب، مدیر، افسانہ نگار یا نقاد وغیرہ بھی ہو تو میری یہ کوفت اور بڑھ جاتی ہے کہ تم روٹی، روزی، عزت، شہرت اور دولت تو اردو سے حاصل کررہے ہو اور اس کی فصل کا لگان انگریزی کو ادا کر رہے ہو۔ کیا تمھاری یہ عملی دو رنگی تمھاری فردِ عمل کو مزید سنجیدہ و سیاہی مائل نہیں کر رہی ہے؟ یاد رکھو! اپنی اولاد کو کسی غیر دینی انگریزی اسکول میں پڑھانا ایسا ہی ہے جیسے اسے ہاتھ پکڑ کر جہنم میں لے جا کر چھوڑ آنا۔
چلو! تمھیں ایک مثال، مثبت اور صحت مند مثال دیتا ہوں۔
شہرۂ آفاق مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے اپنے آخری دور میں ایک مصاحبہ کے دوران متاسفانہ انداز میں اعتراف کیا کہ ساری اردو دنیا میں تہلکہ مچادینے والی ان کی کتابیں آب گم، زر گزشت، خاکم بدہن اور چراغ تلے، ان کی اپنی اولاد پڑھ نہیں سکتی کیونکہ اسے اردو نہیں آتی. یہ قصہ، یہ واقعہ ایک یا دو کا نہیں ہے۔ آج کل ہزاروں کا ہے۔
اگر تم واقعتا اردو سے ذرا بھی انسیت اور محبت رکھتے ہو، اسے اپنی مادری زبان نہ صرف سمجھتے بلکہ مانتے بھی ہو، تو آؤ اور میرے ساتھ مل کر مندرجہ ذیل ”عہد و پیماں“ کو دل میں دہراؤ، اسے یاد کرو اپنے بچوں، طلبہ اور متعلقین کو پڑھواؤ اس پر خود عمل کرو اور دوسروں سے بھی عمل کرواؤ۔ کرواؤ گے نا؟ آؤ! پہلے عہد کر لیں:
عہدو پیمانِ اردو (نظم)
مجھے کچھ عرض کرنا ہے
جو لازم ہے وہ خود پر فرض کرنا ہے
جو ہے بیمار تہذیب اپنی
اس کو زندہ کرنا ہے
سنواروں زلف اس کی قبل اس سے خود
سنورنا ہے
مری خواہش ہے
جو اخبار آہیں بھر کے جیتے ہیں
رسائل جو شمارہ بھر کی تیاری کی خاطر زہر پیتے ہیں
کتابیں جو ہر اک قاری سے ملنے کو ترستی ہیں
نگاہیں ذوق کی بھی تشنگی لے کر برستی ہیں
مداوا کچھ اگر ہو جائے مجھ سے تو بُرا کیا ہے؟
علاج اس مرض کا اس کے سوا کیا ہے؟
میں ہوٹل، چائے خانوں، پان کے خوانچوں
کو جب آباد کرتا ہوں
تو فوراً بات یہ بھی یاد کرتا ہوں
کہ میرے ایک دو یا پانچ روپیوں سے
کوئی اخبار یا کوئی رسالہ
یا کتابیں، یامری تہذیب
اپنی زندگی، اپنی بقا سے
رو برو ہو جائیں
اگر تقدیر اردو بھی سنور جائے
تو میں ہروقت یہ کوشش کروں گا
رسالے اور کتابیں یا کوئی اخبار
پیسوں سے خریدوں گا
یہی میں فیصلہ بھی آج کرتا ہوں
جو اگلی نسل آئے گی
اسے اردو پڑھانا ہے
اسے اردو سکھانا ہے
جو اپنا فرض ہے اس کو نبھانا ہے
کہ اردو اک زباں ہی تو نہیں بلکہ
یہ اک تہذیب زندہ ہے
اسے مرنے سے مجھ کو ہی بچانا ہے
یہ لازم ہے
اسے اب فرض کرنا ہے
مجھے یہ عرض کرنا ہے
(میرے بھائی! اگر تم اپنی اولاد کو اردو سے پڑھا رہے ہو یا پڑھاتے ہو تو میرا خلوص تمھیں فرشی سلام کرتا ہے۔اور تمھیں انگریزی سے متعلق مندرجہ بالا مذاکرہ سے مستثنیٰ کرتا ہے۔)
پیارے معلمِ اردو!
تم شاید یہ سوچ رہے ہو کہ میری تاب سخن اتنی جرأت آموز کیوں ہے؟ تو سن لو۔
؎ نومید دلیر باشد و چیرہ زباں
اے دوست چناں مکن کہ نو مید شوم
( نا امید شخص دلیر اور چیرہ زبان ہوجاتاہے۔ اے دوست! ایسا مت کر کہ میں نا امید ہو جاؤں )
پیارے معلم!
تمھاری پیشہ ورانہ شخصیت کے بہت سارے پہلو میرے ذہن پر روشن ہو رہے ہیں۔ سوچ رہا ہوں انھیں کیا نام دوں؟
تم یہ خیال مت کرنا کہ میں یہ سب باتیں صرف تمھی سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہوں۔ اگر تم اکثریت میں نہیں ہو، تو میرے بھائی، خود کو اس گفتگو سے الگ رکھ کر میرے سوزِ نہاں کو پہچانو۔ مجھ سے متفق ہوجاؤ گے۔
تمھاری اکثریت پان کے خوانچوں، چائے کی دکانوں، ہوٹلوں اور بازاروں کی رونق بڑھاتی نظر آتی ہے۔ تم شاید اسے سعادت سمجھتے ہو لیکن کیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ اس کے اثرات اگلی نسل پر کیا مرتسم ہو رہے ہیں؟ کہ اگلی نسل تو وہی سیکھ رہی ہے جو تم اسے سکھا رہے ہو! جب تم اسے معیوب خیال نہیں کرتے ہو تو اگلی نسل اسے نیکی سمجھے گی۔ پھر اس خرابی اور بربادی کا ذمہ صرف اگلی نسل کے کندھوں پر ہی کیوں ڈالا جائے کہ یہ نسل تو تمھاری ہی تقلید کر رہی ہے۔
کیا یہ تضیع اوقات تمھاری اخروی باز پرس کا حصہ نہیں ہو گی؟
کیا میں ملت کی جانب سے تم سے یہ پوچھ سکتا ہوں کہ جب کبھی تم اپنے ساتھی اساتذہ سے ملتے ہو، محض تنخواہ اور اس کے متعلقات کے بارے ہی میں گفتگو کرتے ہو۔ سال کے بارہ مہینے تم صرف ڈی۔ اے، انکریمنٹ، ایچ۔ آر۔اے اور پے کمیشن وغیرہ ہی کی بات کیوں کرتے ہو کہ یہ تو طے شدہ چیزیں ہیں اور تمھیں مل کے رہیں گی۔ آج کل تمھاری تنخواہ اور اس کے متعلقات پر تو کوئی چیز بھی اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ پھر اس سے متعلق روزانہ گفتگو کیوں؟ زوردار مباحث کیوں؟
تم یہ سب تو کرتے ہو لیکن باہمی گفتگو میں کبھی تم اپنے اسکول، اپنے طلبہ، اسکول کے مسائل، طلبہ کے مسائل، تعلیم کا معیار، طریق تدریس، طلبہ کا مستقبل وغیرہ کا ذکر تک کرنا گوارا نہیں کرتے۔ مزید بر آں، ایک میں ہی نہیں ملت کا ہر فرد تمھاری اکثریت کو اسکول کی انتظامی سیاست میں سرتا پا ڈوبے دیکھتا ہے۔ تم تدریس چھوڑ کر مجلس انتظامیہ کے افراد کی بغل میں بیٹھنا اور اسے شان سمجھنا بہتر تصور کرتے ہو۔ تمھیں اپنے فرائض سے زیادہ ان افراد کی خوشنودی پسند ہے۔ تمھیں اللہ کی رضا کے مقابلے ان افراد کی کرم فرمائیوں کا انتظار رہتا ہے۔ اگر تم سرکاری اسکولوں میں برسر ملازمت ہو تو وہاں صورت حال مزید ابتر دکھائی دیتی ہے۔
تمھیں اپنی اسکول کی عمارت سے زیادہ نگر پریشد، گرام پنچایت، پنچایت سمیتی، ضلع پریشد، اور پھر ان افسران اعلا کے گھروں کی عمارتیں زیادہ بھاتی ہیں۔ اپنی اسکول میں باعزت اور محترم طریقے سے تدریس کرنے کے بجائے تم مندرجہ بالا عمارتوں کی دربانی کرنے کو شرف حیات سمجھتے ہو۔ افسران اعلا کی ایک نظر عنایت حاصل کرنے کے لیے تم ان کے گھر کے کتّے کو بھی بسکٹ کھلاتے ہو، چپراسیوں تک کو دادا، بھاؤ اور صاحب کہتے ہو۔ انھیں ہو ٹلوں میں، چائے خانوں میں لے جا کر ان کی شکم سیری کرتے ہو۔
میرے عزیز!
اس کے بجائے اگر تم محض ایمان دارانہ تدریس ہی کرو تو ان میں سے کسی کی مجال نہیں کہ تمھارا کوئی نقصان کرے۔ اور پھر تمھیں جو عزت اور اطمینان حاصل ہوگا وہ الگ۔ یہ سوچو کہ طلبہ کے وجود سے تمھارا وجود مستعار ہے۔ طلبہ ہی نہ ہوں گے تو انتظامیہ اور افسران اعلا تمھارا اچار نہیں ڈالیں گے۔
یہ سب ہوتے ہوئے ملت اپنی کھلی آنکھوں سے یہ بھی دیکھتی ہے کہ تم بغیر تدریس کے، بغیر محنت کے، بغیر فرض ادا کیے، دس ہزار روپے خرچ کر کے پانچ ہزار روپے پر مشتمل مثالی معلم کا ایوارڈ حاصل کرتے ہو۔ ملت اس ستم ظریفی پر نہیں پڑتی ہے۔
اس بات پر کیا تمھیں ہنسی نہیں آتی؟
کیا تم مجھے اس دوا کانام بتا سکتے ہو جس نے تمھارے احساس، تمھارے ضمیر کو انتہائی خاموشی سے موت کی نیند سلا رکھا ہے؟
محب من!
تم کبھی کسی کتاب کی دکان پر نظر نہیں آتے۔ نہ کبھی کوئی کتاب تمھارے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔ ملت کو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے تمھارا تقرر نامہ ہی وہ آخری”کاغذ“ تھا جس کو تم نے ہاتھ لگایا تھا، اس کے بعد کاغذ اور قلم سے تمھاری دل چسپی اور تمھارے ذوق کا رشتہ ختم ہوچکا ہو۔ میں نے تو تمھاری اکثریت کو کسی کتاب، یہاں تک کہ درسی کتاب سے متعلق بات کرتے ہوئے کبھی نہیں سنا۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ معلم بن جانے کے بعد کتابیں تمھاری دشمن ہوگئی ہیں۔ حالانکہ تم انھی کتابوں کے کندھوں پر چڑھ کر اپنا قد بلند کرچکے ہو اور انھی کتابوں کے مطالعے کے جعلی زعم میں اپنا سینہ اکڑائے سماج میں احساس برتری کامظاہرہ کرتے گھومتے ہو۔
آج کل تو تمھاری تنخواہ بیس ہزار سے لے کر پچاس ہزار تک ہو گئی ہے۔ پھر تمھارے گھر دو روپے روز کا کوئی اردو اخبار یا دس روپے ماہانہ کا کوئی اردو رسالہ کیوں نہیں آتا ہے۔ کیا تم اس سوگوار صورت حال اور حقیقت کو جھٹلا سکتے ہو؟ اگر تم تصدیق چاہتے ہو تو اپنے گھر کی میز پر کوئی اردو پرچہ ڈھونڈو۔ مراٹھی یا ہندی کا کوئی اخبار یا رسالہ تو مل سکتا ہے لیکن اردو کا نہیں ملے گا۔ چلو، میں تمھیں ایک آنکھوں دیکھا اور دل پر بیتا واقعہ سناتا ہوں، ایک غیر مسلم سبزی فروش کی گاڑی میں ایک مراٹھی اخبار (تازہ اور اسی دن کا) دیکھ کر میں نے متعجبانہ انداز میں پو چھا۔ ”بھائی! کمال ہے کہ تمھیں اخبار پڑھنے کا بھی شوق ہے!“
میرے عزیز! اس کا جواب سنو اور اپنا محاسبہ کرو! اس نے کہا۔
”کاہے کا پڑھنا وڑھنا صاحب! میں تو بس ایسے ہی پیپر لے لیتاہوں تا کہ اپنی بھاشا کے لیے کچھ تو تعاون دے سکوں۔“
کیا تم اپنی غیرت و حمیت کو اس ناخواندہ سبزی فروش کی اپنی زبان کے تئیں محبت کے آگے مفلس محسوس کرتے ہو؟
اب اس واقعہ کا دوسرا حصہ سنو!
بچوں کا ماہ نامہ ”فردوس“ کے مدیر رضوان الرحمن صاحب کے ساتھ میں پوسد میں رکنیت سازی کے سلسلے میں ایک وظیفہ یاب مدرس (اردو اسکول) سے ملا۔
مئی کی تپتی دھوپ میں ہم ڈیڑھ گھنٹہ ان کے گھر پر بیٹھ کر بھی انھیں فردوس کی ماہانہ پانچ روپے اور سالانہ پچاس روپے کی خریداری پر آمادہ نہ کر سکے۔ جب کہ ان کے گھر کے تین افراد اردو اسکولوں میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ ان کے جواز ملاحظہ کیجئے۔ کہنے لگے:
”آج کل اردو کو ن پڑھتا ہے۔“
”میں تو بوڑھا ہوں اور یہ بچوں کا رسالہ ہے۔“
”میرے گھر میں بچوں کو فر صت ہی نہیں ملتی کہ وہ رسالہ پڑھیں۔“
اور آخر کارجب ہم نے حجت تمام کرنے کے لیے کہا کہ ”حضرت! کم از کم اردو کے لیے ہی سہی رکنیت حاصل کر لیں“۔ کہا: ”میاں! بے وقوف سمجھتے ہو۔ جب کوئی پڑھے گا ہی نہیں اسے، تو میں اپنے پیسے ضائع کیوں کروں؟“
کیا تمھیں ایسا نہیں لگتا کہ اگر اردو رسائل و اخبارات تمھارے گھر میں آئیں گے۔ تم پڑھو گے تو گھر کے دیگر افراد اور تمھاری اولاد بھی پڑھے گی۔ ایک صالح ماحول کی تشکیل ہوگی۔ ٹی۔ وی کی تباہ کاریوں اور اخلاق سوزیوں کا تھوڑا بہت تدارک ہوگا۔ بچوں کے مستقبل، ان کی عادات اور صفات پر مثبت اثر ہوگا۔ کیا تم اپنے گھر میں ایسا صاف ستھرا اور پاکیزہ ماحول نہیں چا ہیے؟
میرے محب! تم ایسا کر کے تو دیکھو!! اگر واضح اور مثبت نیز صحت مند فرق محسوس نہ ہو تو میرے نام کے ساتھ میرا پتا اور فون نمبر بھی درج ہے۔ خوب کھری کھوٹی سنا کر دل کی بھڑاس نکال لینا۔ میں سمجھ جاؤں گا ملت کو اپنے استفسار کا جواب مل رہا ہے۔
مجھے یہ بھی یاد آتا ہے کہ جب کبھی طلبہ کے معیار تعلیم سے متعلق بات ہوتی ہے، تمھاری اکثریت کا جواب یہ ہوتا ہے۔
”ارے صاحب! یہ بگاڑ تو نیچے سے چلا آرہا ہے۔ یہ تو ہائی اسکول ہی سے ایسے کچے آئے ہیں۔ ہم کیا کر سکتے ہیں؟
ہائی اسکول والے کہتے ہیں ”ارے صاحب! یہ مڈل اسکول والے خود تو نااہل ہیں ہی بچوں کو بھی نا اہل ہی بھیجا ہے ہا ئی اسکول میں.“
اور پھر مڈل اسکول والے کیوں پیچھے رہیں۔ وہ کہتے ہیں۔ ”ارے صاحب ! بنیادہی کچی ہے۔ پرائمری والے اگر محنت کرتے تو یہاں تک اچھے طلبہ پہنچتے۔“ سلسلہ یہاں رکتا ہی نہیں ہے۔ پر ائمری والے یہ ٹھِیکرا والدین اور نا ساز گار ماحو ل کے سر پھوڑتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ الزام در الزام، دروغ در دروغ، فرار در فرار کا یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ صرف شانے جھٹک دینے اور بندر کی بلا طویلے کے سر ڈال دینے سے ہم اپنی ذمہ داریوں کے احتساب سے بچ نہیں سکتے۔ نہ اس دنیا میں نہ اللہ کے یہاں۔
ملت جب یہ دیکھتی ہے کہ جن بچوں کو اپنا نام لکھنا نہیں آتا وہ میٹرک اور پوسٹ میٹرک پاس ہو جاتے ہیں تو وہ حیرت میں پڑجاتی ہے کہ ایسا ہوتا کیسے ہے؟ پتا چلتا ہے کہ یہ کام تو بہت آسان ہے۔ امتحانات ختم ہوتے ہی وہ اساتذہ جنھوں نے سال بھر تدریس نہیں کی، محنت نہیں کی، محنت کرنے نکل جاتے ہیں۔ اپنے اسکول کے طلبہ کی فہرست بیگ میں اور بیگ کندھے پر ڈالے کام کرنے نکل پڑتے ہیں. سارا کھیل امداد باہمی کے اصول پر ملتا ہے۔ ہمارے پر چے تمھارے پاس تمھارے پرچے ہمارے پاس۔ ہمارا نتیجہ بھی سو فی صد۔ تمھارا نتیجہ بھی سو فی صد۔ جو بیچارہ اس اصول سے روگردانی کرے۔ اس کے اسکول کا نتیجہ خراب۔ پھر کون ہمت کرے؟ معاملہ یہاں تک ہوتا ہے کہ معلم، ممتحن کے گھر میں بیٹھ کر، اس ممتحن کی چائے، روٹی یعنی نمک کھا کر اپنے بچوں کے پر چے اپنے ہاتھ سے تحریر کرکے انھیں بورڈ میں یا اسکول میں اول لاتا ہے۔ کچھ با ضمیر اور اس کام میں ماہر معلمین نے تو محض اسی کام کی بدولت عالی شان عمارتیں بنالی ہیں۔ محض تنخواہ سے کیا ہوتا ہے؟
دین اور اخلاقیات؟ سب چلتا ہے. 
پھر معیار تعلیم کی گفتگو کس سے کی جائے؟ جب کہ ہونٹ بھی اپنے ہیں اور دانت بھی اپنے۔ بہ قول شاعر:
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
بہ فرض محال، اگر کہیں تدریس ہوتی بھی ہو تو محض خالی پری اور لکیر پر لکیر کھینچنے والی۔ نہ ہی وسائل تعلیم کا استعمال ہوتا ہے اور نہ ہی طریقہ تدریس دل چسپ ہوتا ہے، جب کہ ماہرین تعلیم اور حکومتی ادارے تعلیم کو بچوں کے لیے پر لطف بنانے پر مسلسل زور دیتے آ رہے ہیں۔ تدریس کا عمل اتنا بو جھل پا یا جاتا ہے کہ طلبہ کی تو خیر بات ہی کیا، خود تدریس کرنے والے معلم کو نیند آجائے۔ نہ تدریس میں کوئی تنوع، نہ تدریس کی منصوبہ بندی، نہ سوچ، نہ غور و فکر اور نہ ہی کوئی اختراعی سرگرمی۔ جب کہ یہ کہا جاتا ہے کہ ”تدریس ایک میکانیکی نہیں بلکہ تخلیقی عمل ہے۔“ ظاہر سی بات ہے اگر تدریس اس قسم کی ہوگی تو تدریس کے مقاصد کا حصول کیسے ہو سکے گا؟ اور چونکہ تقریباً ہر معلم بہ زعم خود بہت ہو شیار، ذہین اور محنتی ہوتا ہے۔ اس لیے دوران ملازمت ٹریننگ کو محض تفریح سمجھ کر وقت گزاری کر آتا ہے۔ اکثریت تو ٹریننگ کے نام سے چڑتی ہے اور جو ٹریننگ میں بہ حالت مجبوری چلے جاتے ہیں وہ وہاں کبھی کھانے کے معیار پر، کبھی نمازوں کے اوقات میں رعایت پر اور کبھی اردو زبان میں مواد کی عدم فراہمی پر ہنگامے کھڑا کرکے اس سزا کی معیاد پوری کرنے پر اپنی ساری توانائیاں خرچ کرتے ہیں۔ آخر توانائیاں کہیں خرچ بھی تو ہونی چا ہئیں نا؟
اچھا! تم کچھ یہ بھی تو کہو کہ تم میں سے کتنے فی صد اساتذہ اپنے تقرر کے بعد اعلا تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں، جب کہ آج کل اوپن یونی ورسٹیاں شخصی حاضری کی شرط ختم کر رہی ہیں اور فاصلاتی نظام تعلیم کا فروغ ہورہا ہے؟
میرے عزیز!
چونکہ تم نے اپنا تقرر نامہ حاصل کر لیا ہے، اس لیے سب سے پہلا کام تم نے یہ کیا کہ اپنی لغت سے لفظ ”سیکھنا“ اسی طرح نکال دیا جس طرح نیپولین نے لفظ ”نا ممکن“ نکال دیا تھا۔ لیکن تم نے ایک ظلم یہ بھی کیا کہ لفظ ”سکھانا“ بھی تو لغت میں رہنے نہیں دیا۔ اسی لیے اب تم سکھاتے نہیں ہو، لکھاتے ہو۔ یعنی نوٹس لکھاتے ہو۔ اور ہر سال وہ نوٹس بلکہ وہی نوٹس طلبہ کو لکھا دیے جاتے ہیں۔ چونکہ نصاب دس سال میں ایک مرتبہ بدلتا ہے، اس لیے ٣٠، ٤٠، صفحات پر مشتمل تمھارے اور اکثر اوقات دوسروں کے تیار کردہ نوٹس دس سال تک کام آتے ہیں۔ نہ جانے ان نوٹس میں ہوتا کیا ہے؟
پیارے معلم!
مجھے خدشہ ہے کہ تم پھر برا مان جاؤگے۔ لیکن میں اگر تمھارے برا ماننے کی فکر کروں گا تو ملت کی بات کون پیش کر ے گا! اس لیے مجھے کہنے دو کہ تم معلم بننے کے بعد نسائی اوصاف سے بھی متصف ہوجاتے ہو۔ تمھاری اکثریت اولاً تو تدریس پر یا تعلیم کے موضوع پر باہمی گفتگو نہیں کرتی۔ ہاں، اگر کرتی ہے تو ایک دوسرے کی برائی، چغلی اور غیبت۔ اور تمھاری یہ عادات اتنی پختہ ہو چکی ہیں کہ ملت کو لگتا ہے کہ اگر تم ایسا نہ کرو تو شاید تمھیں کھانا بھی ہضم نہ ہو۔ ان اوصاف کے حوالے سے خواتین کو پیچھے چھوڑ دینے پر میں تمھیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اس لیے بھی کہ تم ان سے بھی چار قدم آگے نکل کر اپنی اس ”چغلی غیبت مہم“ میں اپنی جماعت کے با شعور طلبہ کو بھی شریک کرنے سے نہیں ہچکچاتے ہو اور معصوموں کے پاس اپنے ساتھی معلمین کی جھوٹی سچی غیبت کرتے ہو تاکہ تم ان بچوں سے قربت بڑھا سکو اور ان کو متاثر کر سکو۔ حالانکہ یہ کام تم انھیں قابل بناکر، انھیں پڑھا کر اور انھیں علم دے کر انجام دے سکتے ہو۔ مجھے علامہ اقبال یاد آرہے ہیں، جو کہہ گئے ہیں کہ:
قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمد کا تمھیں پاس نہیں
( یہاں ’پاس‘ کے معنی ”لحاظ“ کے ہیں۔ کہیں تم اسے انگریزی کا ’پاس‘ (فیل والا) نہ سمجھو، کہ آخر تم اردو کے معلم ٹھہرے!)
میرے معلم!
کیا تمھیں علم ہے کہ ماضی قریب تک جب تم ”جناب، حضرت اور ماسٹر صاحب “ کہلاتے تھے، معاشرے کا کوئی کام، کوئی تقریب تمھارے بغیر نا مکمل ہوتی تھی، گاؤں یا شہر یا محلے میں رشتہ طے کرنا ہو، تم موجود!شادی پکی کرنی ہو۔ تم حاضر! جھگڑا یا تنازع ہو، مصالحت کار تم! لڑکا بگڑ رہا ہو، سمجھانے والے تم! موسم کی پہلی فصل میں گاؤں والے تمھارا حصہ رکھتے تھے۔ تم معاشرے کا اٹوٹ حصہ تھے. 
پھر آج تمھارا وقار کہاں چلا گیا؟
یہی معاشرہ اب تمھیں تضحیک اور استہزا کا نشانہ بناتا ہے۔
تم مجھ سے پوچھ رہے ہو کیوں؟
تو سنو!
تم نے اپنے آپ کو معاشرے سے الگ کر لیا ہے۔ اب نہ تم اپنی اسکول یاکالج کے طلبہ کو اپنا بچہ سمجھتے ہو اور نہ ان کی کامیابی یا نا کامی کا تمھاری صحت پر کوئی فرق پڑتا ہے۔ جب تک تمھاری اسکول یا کالج غیر امداد یافتہ تھی، تب شاید تمھیں فرق پڑتا ہو لیکن اب جب کہ تم فارغ الفکر اور فارغ العسرت ہو چکے ہو، ماہانہ پاؤ لاکھ رو پیہ کمارہے ہو، تم کسی کی فکر کیوں کرو؟ تم اپنے طلبہ کے والدین اور سر پرستوں سے ملنے میں بھی عار محسوس کرتے ہو۔ یا شاید تمھیں یہ لگتا ہو کہ سر پرستوں نے اپنے بچوں کی تعلیمی پیش رفت سے متعلق سوال کر لیا تو تم کیا جواب دو گے؟ اب تمھارے دل میں اپنے مدرسہ، اسکول یا کالج اور طلبہ کے تئیں وہ اخلاص و محبت اور اپنائیت نہیں جو ہمارے اسلاف کا خاصہ تھی۔ اور تو اور۔۔۔ حکومت کی مراعات اور مہر بانیوں نے تمہارا بہت سا کام آسان کر دیا ہے۔ اب تم اپنے تقرر کے اولین مرحلے میں مالیاتی اداروں سے قرض حاصل کرکے عالیشان مکانوں کی رہائش اختیار کرتے ہو۔جہاں تم پیدا ہوئے۔پَلے بڑھے،اس بستی، اس محلے سے اپنا رشتہ کاٹ کر دور دراز کا لو نیوں میں رہائش پذیر ہو کر ما نگے کے اجالے سے اپنے گھر کو روشن کرتے ہو۔ بلکہ اس عالیشان گھر کی بنیاد میں قرض کا اندھیرا ہوتا ہے جو اگلے پندرہ بیس برسوں تک تمہاری معاشیات سے چمٹارہتا ہے۔
اور ایسا کرکے تو،تم اپنے آپ کو مزید برتر محسوس کرتے ہو۔
پھر بتاؤ! تم معاشرے سے کَٹے ہو یا نہیں؟ قطع تعلق تم نے معاشرے سے کِیا یا معاشرے نے تم سے؟
وقار تم نے خود کھویا یاتمہاری عزت کی لُٹیا کسی اور نے ڈبوئی؟
اب تم اس معاشرے کوکیوں کو ستے ہو؟ یا د رکھو۔!
جوتخم تم نے بوئے ہیں ان کی فصل توتم کاٹ کر ہی رہو گے کہ یہی نظام الہی ہے۔ ہو سکتا ہے تم یہ سوچنے لگو کہ حسنین عاقب ؔ کوکیا پڑی ہے کہ وہ ہمارے گھروں تک پہنچ گیا۔ میرے عزیز! بات محض گھر کی چا ر دیواری کی تعمیر یا رہائش کی نہیں ہے۔ بات ہے اس ذہنیت کی جس نے تمہاری نفسیات کو محدود و مفلوج کر دیا ہے۔
اب تمہیں اجتماعیت سے واسطہ نہیں رہا۔ اب تم اپنی تعمیر کردہ فرضی و خیالی ارضی بہشت کے مکین ہو جہاں تمہارے ارد گرد تمہارے
چند ہم نوا معلمین حواریوں کے علاوہ کوئی نہیں ہوتا۔ اب تم اپنی اسکول یا کالج کے چند ہم خیال ساتھیوں کے علاوہ کسی سے رابطہ رکھنا گوارا نہیں کرتے۔ انہی دو چار لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہو، ہو ٹلیں اور بازار سجاتے ہو،انہی کی معیت میں اپنی دنیا آباد رکھتے ہو۔ یہاں تک کہ تم اپنے ہی شہر کی یا گاؤں کی کسی دوسری اسکول کے معلم سے بھی تعلق نہیں رکھتے۔ہو سکتا ہے تم میں سے بہت سے معلم مجھ سے یہ سوال کریں کہ عاقب ؔ صاحب، صرف زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہوگا۔ آپ نے اس کے لئے عملی طور پر بھی کچھ کِیا ہے یا بس، یوں ہی ہمیں مطعون کرنے کے لئے قلم اٹھا لِیا ہے؟ تو آؤ، تمہیں بتاؤں کہ میں اپنے طور پر بہت سی عملی جدوجہد کر نے کے بعد ہی قلم اٹھا نے پر مجبور ہوا ہوں۔ میں نے ابتدا میں اپنے شہر کی تمام اسکولوں کے معلمین سے درخواست کی کہ آئیے، ہم کسی ایک مقرر ہ جگہ پر محض اخلاقی بنیاد پر جمع ہو کر کسی تعلیمی مو ضوع پر گفتگو کی رسم کا آغاز کر تے ہیں۔ مہینے میں ایک روز اس کارِ خیر کے لئے طے کیا گیا۔ لیکن کئی مہینوں کے مسلسل تقاضوں اور انتظار کے بعد سوائے ہم ایک دو منتظمین کے، دیگر معلمین اپنی ”انتہائی ضروری“ مصروفیات میں مگن رہے۔ ہم بد دِل نہیں ہوئے۔ لا تقنطو من الرحمت اللہ۔ پھر ہم نے یہ کِیا کہ شہر کی تمام اسکولوں کے انگریزی یا ریاضی یا سائنس پڑھانے والے معلمین کو دعوت دی کہ بھائی، اب تو آپ میں ایک قدر مشترک ہے کہ آپ ایک ہی مضمون پڑھانے والے معلم ہیں۔ اگر ساتھ مِل بیٹھیں، تو ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کر سکیں گے۔ کوئی نہیں آیا۔
پھر ہمارے ایمان نے آواز لگائی۔ لا تقنطو من الرحمت اللہ۔ ہم نے پھر گردان کی کہ صاحب! آئیے۔ ایسا کریں کہ ہم صرف جمع ہو جائیں۔ تعلیم یا تعلیمی موضوع پر کوئی بات نہیں ہوگی۔ ہماری طرف سے چائے پیجئے۔ چاہے تو آپ فلموں یا کھیلوں یا اپنے کسی بھی پسندیدہ موضوع پر گفتگو کیجئے لیکن لِللہ! آکر ایک جگہ بیٹھئے تو سہی، تاکہ یہ جمود اور تعطل ٹوٹے!اگر آپ کو حسنین عاقبؔ سے پر ہیز ہے تو اسے مِنہا کردیجئے اور اس کام کو اپنے ہا تھ میں لے لیجئے لیکن اتحاد کی سمت کوئی تو پیش رفت کیجئے۔ لیکن تمہارے نقار خانے میں طوطی کی آواز کہاں سنائی دیتی؟ یہ تجربہ میں اور میرے ایک دو احباب آج بھی گاہے بہ گاہے کرتے رہتے ہیں اور ہمیشہ منہ کی کھاتے ہیں۔ تم سے کون جیت سکا ہے؟ تم کہاں کسی سے تعلق رکھتے ہو! اگر رکھتے بھی ہو تو محض رسمی اور برائے نام۔ خیر سے اگر تم کسی دینی جماعت یا تحریک سے وابستہ ہو تو تمہیں اپنی جماعت کے یا تحریک کے اراکین اور ذمہ داران کے علاوہ باقی لوگ شائد اپنی مسلمانی میں مشکوک نظر آتے ہیں۔ شائد تمہیں یہ لگتا ہو کہ روئے زمین پراب صرف تم، اور تمہاری جماعت کے اراکین ہی چند مسلمان بچ گئے ہیں۔تمہارا رویہّ تو اپنے پڑوسیوں سے بھی کبھی کبھی انتہائی روکھا پھیکا ہوتاہے۔ میں ایک حقیقی واقعہ بیان کرتا ہوں۔میری بد قسمتی یہ ہے کہ مجھے بھی بڑی تلاشِ بسیار کے بعد ٹیچرس کالونی میں ہی اپنا گھر تعمیر کر نا پڑا۔ اب کیا تھا! ہم ٹہرے میل ملاپ والے شخص،جب تک دس لوگوں سے مل نہ لیں، دل کو چین نہیں ملتا کیوں کہ اللہ کے رسولﷺ کا فرمان ہے کہ وہ مومن نہیں ہوسکتا جو کسی مومن سے تین دن سے زیادہ بات نہ کرے۔ تو ہم اسی حدیث کو دھیان میں رکھ کر اپنا طرزِ عمل متعین کرتے ہیں۔ اب ہماری کالونی ٹیچرس کالونی ہے، تو ظاہر سی بات ہے کہ اس میں رہنے والے سارے نہیں تو زیادہ تر حضرات اساتذہ ہی ہوں گے نا؟ اور ان اساتذہ میں تقریباً 95 فی صد اساتذہ ممبئیا کلچر کے زبردست مقلد اورپیرو کار ہیں کہ چاہے دروازے کو دروازہ جُرا ہو، ہم مہینوں گنتی کسی سے ملتے ملاتے نہیں۔ اس ملنے ملانے کو باعثِ عار سمجھتے ہیں۔ اس اخلاقی دیوالیہ پن کو ختم کرنے کیلئے ہم نے ایک تجویز پیش کی کہ بھائی، کم از کم ہفتے میں نہیں تو مہینے میں ایک مرتبہ ہم سب معلم کسی ایک معلم کے گھر جمع ہوں تاکہ مسلسل ملاقات اور سنتِ رسولﷺ کی ادائیگی اور اخلاقِ حسنہ اور حقوقِ ہمسائیگاں کی ادائیگی کی کوئی تو صورت نکلے۔
ہم نے کہا کہ چلئے، سب سے پہلے ہم ابتداء اپنے آپ سے کرتے ہیں۔ اپنی اس ’غیرت‘ کی قربانی ہم دیتے ہیں۔ ہم دومرتبہ دو ہفتوں تک یا دو مہینوں تک اپنی اَنا کو ذبح کرتے ہوئے پڑوسیوں کے صحن میں بغیر کسی گرم جوشی اور استقبال کے جا کر بیٹھے تاکہ دیگر لوگ بھی آجائیں لیکن دونوں مرتبہ ہم ہی بیٹھے اور ہم ہی اُٹھے۔ بقول فیضؔ ؎
اُٹھ کر تو آگئے ہیں تیری بزم سے مگر
کچھ دِل ہی جانتا ہے کہ کِس دل سے آئے ہیں
اور پھر ہم اس تجربے کے بعد نہ ہم کسی کے گھر گئے اور نہ ہی کوئی ہمارے گھر آیااحساس اور شعور کا گھَڑا، خالی کا خالی رہا۔
ایسے موقع پر ہمیں اپنا ہی ایک شعر یاد آرہا ہے۔
شائد خوش آئے تم کو محبت کا تجربہ
اپنا تو جی اُچاٹ ہوا، اس گھُٹن کے بعد
ہمارے پڑوس میں ہمارے علاقے میں برسرِ ملازمت ایک معلم رہتے ہیں۔ بڑی خوش فہمیوں کے شکار،نہ کسی سے ملنا جُلنا، نہ کسی کو سلام نہ کسی سے کلام۔ ایک دن ہمیں پتا چلا کہ ان کی اسکول جانے والی بچی بیمار ہے۔ ہمارا ایمانی جذبے نے جوش مارا اورہم عیادت کا ثواب لوٹنے اور پڑوسی کے حقوق ادا کرنے کے لئے نکل پڑے۔ ان کے گھر کے دروازے پر دستک دی۔ کافی دیر بعد وہ باہر آئے۔ ہم سے پوچھا،’کیوں حسنین سر؟ کیا بات ہے؟ کچھ کام ہے کیا؟‘
ہم نے کہا،’نہیں بھائی، اللہ نہ کرے کہ ہمیں کبھی آپ سے کوئی کام آن پڑے۔ بس، سُنا ہے کہ آپ کی بچی کی طبیعت خراب ہے، اس لئے عیادت کے لئے چلے آئے۔‘
پہلے تو انہوں نے اپنے دروازے کے پاس رکھی اپنی چپل، اپنے پیروں میں ڈالی اور اپنا دایاں ہاتھ ہمارے گلے میں ڈالا۔ اور بولے،’نہیں، اس کی طبیعت تو اب بہت اچھی ہے۔ آپ کو اطلاع کافی دیر سے ملی ہے۔ اب تو وہ اسکو ل جارہی ہے۔‘
یوں کہتے ہوئے وہ ہمارے گلے میں ہاتھ ڈالے ڈالے ہمیں اپنے صحن کے گیٹ تک لے آئے۔ اور بولے ’اچھا لگا آپ آئے۔ پھر ملتے ہیں۔‘ اور ہم ان سے پھر کبھی نہ ملنے کا ارادہ کرکے اپنے گھر لوٹ گئے۔
سُنا تو یہ بھی ہے کہ مذکورہ بالا معلم صاحب نے اپنے ہی ساتھ کئی برسوں سے معلمی کرنے والے ایک قابلِ تکریم معلم کی حجِ بیت اللہ جانے کی خوشی میں عقیدت کے مارے ضیافت کی۔ عقیدت نے خوب خوب جوش مارا تو جنابِ موصوف نے حاجی صاحب کو سڑک کے کنارے ایک چار پہیوں پر کھَڑی ہوٹل میں، دھول سے اَٹی سڑک پر، کھڑے کھڑے یا پھر سڑک کے کنارے ہی کرسی پر بیٹھ کر چکن بریانی کھلاکر ضیافت کا فریضہ ادا کیا۔گھر لانا مناسب نہیں سمجھا۔ پتا نہیں اس ’انتہائی اعلی درجے کی با عزت ضیافت‘ میں کیا رمز پوشیدہ تھا۔ وہ تو اللہ ہی جانے اور ہمارے وہ معلم دوست!
یہ بھی مصدقہ طور پر علم ہوا کہ انہی معلم صاحب کی دو دہائیوں سے زیادہ تدریسی خدمات کے باوجود سماج کے ایک شخص کو ان کی علمی، تدریسی اور ذاتی صلاحیتوں پر کچھ شک ہوا۔ انہوں نے باز پرس کی تو یہ صاحب چراغ پا ہوگئے۔ انہوں نے قانونِ حقِ معلومات(RTI) کے تحت، ان کی اسکول میں، ان صاحب کی صلاحیتوں کے بارے میں مطلوبہ معلومات طلب کیں۔معلمِ موصوف نے پہلے تو اپنے پرنسپل پر مطلوبہ معلومات نہ دینے کے لئے خوب اخلاقی (یا غیر اخلاقی؟) دباؤ ڈالا۔ پھر انہوں نے ایک سنہرا اصول مرتب کیا کہ اگر کسی جگہ سلامتی کے ساتھ رہنا ہو تو دو لوگوں سے تعلقات بنائے رکھنا ضروری ہے۔ ایک تو شہر کا دبنگ اور دوسرے شہر کا کوئی اثر دار شخص۔موصوف نے اس ضمن میں سب سے پہلا کام تو یہ کیا کہ اپنی جماعت میں زیرِ تعلیم ایک لڑکی کے دبنگ باپ سے تعلقات استوار کئے، پھر سالانہ امتحانات کے بعد اس بچی کا رزلٹ بنانے کے لئے، اس کی گاڑی میں شہر شہر، گاؤں گاؤں، مارے مارے وپھرے تاکہ بچی اچھے نمبروں سے کامیاب ہوسکے۔ جب معلم نے اس بچی کے باپ کے ساتھ مل کر اتنی محنت کی تھی تو اسے کامیاب تو ہونا ہی تھا۔ جب وہ دبنگ ان کا احسان مند ہوگیا تو انہوں نے چپکے سے اس سے کہاِ،’ذرا اس RTI والے سے میرا پیچھا چھُڑا دیجئے۔‘ دبنگ صاحب نے چٹکی بجاتے ہی یہ کام کردیا۔اب انہوں نے دوسرا کام یہ کیا کہ شہر کے ایک نامی گرامی، اثر و رسوخ والے خاندان میں اپنی آمد و رفت بڑھادی اور آج، الحمد اللہ، ان کا اس گھر میں کافی اثر و رسوخ ہے۔
میں ذاتی عیب جوئی اور غیبت کا گناہِ کبیرہ میں شمار کرتا ہوں۔ اسی لئے میں نے کسی معلم کا نام لیا ہے اور نہ ہی کسی طور ان کی شناخت کی خاطر نشاندہی کی ہے لیکن افسوس، کہ یہ سب تو حقیقت بھی ہے اور اجتماعی عیب بھی۔ کیا تمہارا ضمیر ایسی حرکتوں پر تم سے ذرا بھی باز پُرس نہیں کرتا؟
میرے کرم فرما !
کیاتم مجھے بتا سکتے ہو کہ معاشرے کی ترقی میں تم کیا کردار ادا کر رہے ہو؟ ملت کے نو نہالوں کی تربیت میں تمہارا تعاون کیا ہے؟ کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ تم سے پڑھ، سیکھ کر، علم حاصل کرکے جو بچے زندگی کی جدوجہد کا حصہ بن چکے ہیں وہ آج کس مقام پر ہیں؟ (اگر تمہارے دل میں یہ خیال آئے کہ حسنین عاقبؔ کا اپنا کیا حال ہے؟ تو یہ سوال تم میرے سابق اورموجودہ طلباء سے کرو کہ وہی ہمارے بہترین منصف ہوتے ہیں۔ میرا بڑا بچہ تیسری جماعت میں زیر تعلیم ہے انگریزی میں ابتدائی گفتگو کر سکتاہے۔ اردو، ہندی اور مراٹھی پڑھ
سمجھ اور لکھ سکتاہے۔ آج کل اسے فارسی سے بھی متعارف کروارہاہوں۔فی الحال اسے سعدی ؒ کی کریما کے حمدیہ فارسی اشعار اور چند دیگر فارسی اشعار از بر ہیں)
میرے عزیز!
اسے لن ترانی نہ سمجھو!
اور دیکھو۔ تم پر اس کام کی ذمہ داری ہے جس سے متعلق نبی آخر الزماں ٌ نے فرمایا تھا کہ۔”میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ یعنی تم نبی کریم ؐ کی سنت ادا کر رہے ہو۔ اس میں خیانت نہ کرو۔
تم مسلم ہواس لیے ساری دنیا تمہارے فطری ذہین اور با صلاحیت ہونے پر یقین رکھتی ہے کہ تم نا مساعد حالات میں بھی اپنی قابلیت کے سہارے منزل تک پہنچتے ہو اوراس دعوی پر پورا اترتے ہو کہ ؎
کون کہتاہے کہ مشکل کی طرف جاتا ہے
یہ وہ رستہ ہے جو منزل کی طرف جاتا ہے
اپنے ہم پیشہ ”اکابر ین“ کی تقلید کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں سے ناانصافی نہ کرو۔ جان رکھو کہ اس طرح تم اس دنیا ئے فانی اوراس جہان پائندہ ہر دو جگہ ناکامیوں کا سامان کر رہے ہو۔ دیکھو۔ یوں نہ کرو۔ خدا تمہیں سلامت رکھے۔ بس اتنا کرو کہ اس مضمون نما خط میں تحریر کردہ واقعات کی عملی طور پر نفی کرو۔ اگر تمہاری’عقابی‘ روح بیدا رہو جائے تو یہ مایوس کن منظر نامہ امید افزا صورت حال میں بدل سکتا ہے۔ علامہ اقبالؔ بھی کہہ گئے ہیں۔
رنگ گَردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے
یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے
پاک ہے گردِ وطن سے سَرِ داماں تیرا
تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصرہے کنعاں تیرا
قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا
غیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا
تم معلم ہو، کار پیمبری کے حامل ہو۔ اس لئے ملت اورقوم کی بگاڑ اوراصلاح، دونوں کیفیات کے لیے تم ذمہ دار ہو۔ تم تاریخ پڑھو تو جانو گے کہ زمانے میں انقلابات معلمین ہی کے لائے ہوئے ہیں۔ یا پھر انقلاب لانے والی شخصیات کی تعمیر اور بنیاد میں معلمین ہی کا جلوہ کا ر فرما ہے۔ اسی لیے اقبال پھر کہتے ہیں۔؎
کشتِی ء حق کا زمانے میں سہار ا تو ہے
عصرِ نَو، رات ہے، دھندلا سا ستارا تو ہے

میرے عزیز!
تمہیں صرف اپنے احساس کو بیدار کرنا ہے۔ تمہاری شخصیت دیگر اقوام کی طرح کھو کھلی نہیں ہے۔ تم نے اسے محض مقفل کر رکھا ہے۔ اس کاقفل کھول دو۔ مجھے کوسنے اور برا بھلا کہنے کے بجائے یاپھر اس کام کے ساتھ ساتھ اپنا محاسبہ اخلاص کے ساتھ کرو اور عزم کرو کہ آج کے بعد ملت کی اصلاح کے اہل بننے کی پوری کو شش کرو گے۔ ورنہ یہ قطعہ سنو اور اسے از بر کرلو۔
پھونک کر پاؤں رکھو اللہ نبی ؐ کہتے ہیں
دونوں کندھوں پہ فرشتے بھی جمے رہتے ہیں
سامنے آئے گا اولاد کے میں جو بھی کروں
مجھ کو معلوم ہے اعمال کسے کہتے ہیں
ہو سکتا ہے میری تحریر تمہارے سوئے شعور، خوابیدہ احساس کو جگادے۔
آں خوشا روز کہ آ ئی و بصد ناز آئی
بے حجابا نہ سوئے محفلِ ما باز آئی
اگر تم معلمین کی اکثریت میں سے پچیس فیصد پر بھی میری ان باتوں میں سے کسی ایک بات کا مثبت اثر ہو جائے اور یہ جاگ جائیں تو آئندہ کئی نسلیں انہیں دعائیں دیں گی۔ اور ملت ایک نئے انقلاب، ایک نئی تبدیلی کا خواب دیکھ سکے گی۔ وما علینا الالبلاغ المبین۔
والسلام
اس گِلے، شکوے کے باوجود خلوص ِقلب سے تمہارا اپنا۔
تمہارا بھائی
خان حسنین عاقب ؔ
***صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:سرہانے میر کے آہستہ بولیں یا نہ بولیں!

شیئر کیجیے

One thought on “خطاب بہ معلمین اردو

  1. اللہ کرے زورقلم اور زیادہ۔۔۔۔۔ ہر جملہ حقیقت ہر لفظ آئینہ۔۔۔استادِ محترم اللہ ربّ العزت آپ کو سلامت رکھے ۔۔ آمین۔۔۔ اور مجھ حقیر کو عمل کی توفیق دے ۔۔ آمین ثم آمین ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے