کتاب:  رات ڈھلنے کو ہے (افسانوی مجموعہ)

کتاب: رات ڈھلنے کو ہے (افسانوی مجموعہ)

افتخار زاہد
پتہ: J-56/2, فتح پور ویلیج روڈ
پوسٹ آفس: گارڈن ریچ، کولکاتا:700024
موبائل:9007300893

زمانہ قدیم سے ہی انسان کی یہ دلی خواہش رہی ہے کہ وہ اپنے قرب و جوار کے تمام افراد تک اپنے دل کی آواز بلا کسی تفریق اور رکاوٹ کے نہ صرف پہنچا سکے بلکہ وہ ان کو اپنی روداد اور سرگزشت سے مسحور کر سکیں۔ یوں تو ہمارے مسلم معاشرے میں سستی شہرت حاصل کرنے کے ایک نہیں مختلف ذرائع ہیں، جن میں سب سے خاص ذریعہ آج کی نئی تکنیکی ذریعہ ابلاغ ہے جن کی مدد سے ہر کس و ناکس سستی شہرت کا تاج بھر پور شاہانے انداز میں پہن کر پھولانے سما نے سے گریز نہیں کر رہا۔ بھلے ہی کوئی ادیب ہو یا نہ ہو مگر تنقید یا مدح سرائی کرنے میں کسی کو عیب نہیں محسوس ہوتا۔ کسی کے بے لطف و بے کیف الفاظ کی آمیزش کو شاعری سے تعبیر کر کے ان کے تخلیق کاروں کو مبارکباد کی جھڑیاں پیش کرنے میں نہ صرف کھوکھلے پن کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے بلکہ ان تخلیقات اور ان قلم کاروں کو ایسی وادیوں میں ڈھکیلا جا رہا ہے جہاں سے ان قلم کاروں کو ہوش میں لانا تقریباً ناممکن سا لگتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جس فن کار کے فن کو تشہیر کی ضرورت پڑ جائے وہ فن دراصل فن کہلانے کے لائق نہیں سمجھا جاتا. ٹھیک اسی طرح اگر پھولوں کے ڈیزائن بہت ہی دل کش اور اعلا ہوں مگر وہ خوشبوؤں سے محروم ہوں تو وہ پھول محض ایک کاغذ کا ٹکرا ہے جس کی اہمیت محض جمالیاتی رمق تک محدود ہے۔ جس درخت میں پھل اگتے ہوں اس درخت کو لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش نہیں کرنی پڑتی۔ چاند اپنی چاندنی چاروں اور بکھیرتی ہے اور سورج کو اپنی روشنی کی کرنیں بکھیرنے کے لیے کوئی ڈھنڈورا نہیں پیٹنا پڑتا۔ ندیوں کی لہریں کسی رخنہ کی وجہ سے منجمد نہیں ہو جاتیں- پرندوں کے سریلے نغمے کسی بیرونی محرکات کے تابع نہیں ہوتے. تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم انسانوں کو اپنے وجود کا احساس دلانے کے لیے شور مچانا پڑتا ہے؟ بے ادب و بے عمل ہونے کے باوجود بھی باادب اور باعمل ہونے کا ڈھونگ رچنا پڑتا ہے۔ ادبی محفلوں میں ادب کے ساتھ گونگے بہروں کی طرح چہروں پر مصنوعی مسکراہٹیں بکھیر کر اپنی تصاویر کیمرے کے عکس میں مقید کرنے کے بعد ان تصاویر کو سوشل میڈیا مثلاً فیک بک معاف کیجئے گا فیس بک اور واٹس ایپ جیسے نئے ڈیجیٹل فورم پر شیر کرنا پڑتا ہے تاکہ کچھ داد و‌ تحسین ہمیں بھی میسر ہو سکیں۔
ادب کی اسی اوچھی دنیا کی تصویر سے جب میں بیزار ہو چکا تھا اور من ہی من میں گھٹ گھٹ کر ہر لمحہ مرتا جا رہا تھا تو اسی اثنا میں مجھے چند ایسے ادبی تخلیقات کو پڑھنے کا موقع ملا جنھیں پڑھ کر مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ اب بھی اردو کی ادبی دنیا میں چند ایسے قیمتی گوہر موجود ہیں جو ادب کا حق اس کے شان کے مطابق کماحقہ ادا کرتے ہیں اور جن کی طرز تحریر میں ایسی دل کشی اور حقانیت کی پرتیں ہیں جن سے مرغوب ہوئے بنا کوئی چارہ نہیں بچتا۔ میں بات کرنا چاہوں گا میرے عزیز دوست، میرے بھائی، میرے ساتھی، میرے ہمدم جناب نسیم اشک کی جن کی ادبی کاوشوں کا میں دل سے قایل رہا ہوں۔ میری پہلی ملاقات نسیم بھائی سے 2008 میں جگتدل شمس اردو ہائی اسکول میں ہوئی جہاں میری تقرری بحیثیت معاون استاد کے ہوئی تھی۔ نسیم بھائی میری تقرری سے پہلے ہی اس اسکول میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے اور حالیہ ایام میں بھی بچے ان کے علمی ادراک اور تعلیمات سے مستفید ہو رہے ہیں۔گرچہ اب میں اس اسکول کا حصہ نہیں رہا ہوں مگر نسیم بھائی کے دل کے تار میرے دل کے تار سے کچھ اس طرح سے جڑ چکے ہیں کہ یہ فاصلے ہمیں کبھی بھی مجموعی طور پر جدا کر نہیں پاتے اور ہمارے مراسم روز بروز گہرے اور مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ نسیم بھائی ایک نہایت ہی سنجیدہ اور سلجھے ہوئے انسان ہیں۔ یہ ان کی سنجیدگی ہی ہے کہ ان کی تخلیقات ہمیشہ چبھتے حقایق اور موجودہ ظالمانہ و جابرانہ نظام کی عکاسی بہت ہی درد بھرے انداز میں پیش کرتی ہیں۔ اب تک نسیم بھائی کی تین کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور ان تینوں کتابوں نے ادبی دنیا میں اپنی ایک الگ شناخت قائم کر لی ہے۔ "دل کا موسم" ان کی پہلی تخلیق ہے جو نثری نظموں کا مجموعہ ہے۔ نسیم بھائی نے جہاں ایک طرف شاعری میں کمال کیا ہے وہیں دوسری طرف جب انھوں نے مختلف تنقیدی مضامین پر مشتمل ایک مجموعہ بہ عنوان "بساطِ فن" شایع کروایا تو گویا انھوں نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ محض شاعری تک خود کو محدود نہیں کرنا چاہتے بلکہ وہ نثری اصناف میں بھی طبع آزمائی کر کے قاریین کے دلوں پر راج کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں۔ افسانوی مجموعہ "رات ڈھلنے کو ہے" نسیم بھائی کے اسی مصمم ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی ایک کڑی ہے اور مجھے فخر ہے کہ میرے دوست نے اپنے اس ارادے کو بہت ہی خوبی سے حقیقت میں ڈھال دیا۔ میری کوشش ہوگی کہ میں "رات ڈھلنے کو ہے" کے چند افسانوں پر مختصر تبصرے کروں تاکہ ادبی ذوق رکھنے والے قاریین کو پتہ چل سکے کہ کیوں میں نسیم بھائی کی اس تخلیق سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہوں۔
اس کتاب کا آغاز ہی بہت زبردست افسانے سے ہوتا ہے۔ "اور آخری زیور بھی چھن گیا" جیسا کہ عنوان سے ہی اشارہ مل رہا ہے کہ کس قدر غم و تشویش اس کہانی کے کرداروں کو پیش آئی ہوگی. جب کسی کی زندگی میں غموں کا پہاڑ ٹوٹ جاتا ہے اور وہ انسان بےبسی اور لاچارگی کے عالم میں سسکتا ہوا دن گزار رہا ہوتا ہے۔ یوں تو کہانی کا پلاٹ نہایت ہی سادہ ہے اور کہانی اختر کے فیملی پر آنے والی مشکلات و مصایب کے اردگرد ہی گھوم رہی ہے مگر جس انداز سے افسانہ نگار نے ان کے درد کی تصویر کھینچی ہے، وہ نہایت ہی قابل تعریف ہے۔ اس افسانے کے ذریعے ہمیں اپنے سماج کی ایسی برای دکھائی گئی ہے جو دل کو کرید کر اسے چھلنی کرنے کا باعث بنتی ہے۔ اختر اور اس کی اہلیہ انجم کا غم بہ سبب غربت صرف ان کرداروں کے غم کی ہی عکاسی نہیں کرتی بلکہ وہ ہر اس غریب کے درد کو اجاگر کرتی ہے جو بہ حالت مجبوری کسی لیڈر کے محتاج ہوتے ہوں، جو انھیں سود پر قرض دلوانے کے اہل ہوتے ہیں۔ کس قدر کربناک اور المناک حالات کا سامنا انجم کو اس کے شوہر کی وفات پر کرنا پڑتا ہے، اس کا اندازہ ہمیں اس اقتباس سے ہوتا ہے ذرا غور فرمائیے:
"انجم کا اکلوتا زیور سیندور بھی اس سے چھن گیا۔ مانگ سونی پڑ گئی۔ بیٹی کی شادی ٹوٹ گئی۔ بیٹے کا اسکول چھوٹ گیا۔ گویا ان پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ گیا۔"
اس کہانی کو پڑھنے سے زیادہ ان اوراق میں سموئے ہوئے درد اور دکھ کو محسوس کیا جاتا ہے اور اسی میں ایک فنکار کا فن نمایاں ہوتا ہے۔ افسانہ نگار نے کہانی کو طول دینے کی ذرا بھی کوشش نہیں کی ہے، جو پلاٹ کے اعتبار سے بالکل ہی موزوں عمل ہے۔
افسانہ "بونے لوگ" ایک نہایت ہی دل چسپ علامتی افسانہ ہے جس کے ذریعہ افسانہ نگار نے آج کے ترقی یافتہ دور کی اخلاقی و معاشرتی بگاڑ کو بہت ہی آسان اور سلیس زبان میں قلم بند کیا ہے۔ افسانہ نگار نے اونچی اونچی فلک بوس عمارتوں اور ان میں مقیم افراد کی کچھ اسطرح سے تصویر کشی کی ہے کہ ان عبارتوں میں پنہاں طنز و مزاح بالکل واضح ہے۔ افسانے میں موجود کسی بھی کردار کا نام اس لیے نہیں بتایا گیا کیونکہ یہ لوگ دولت اور شہرت کی لالچ میں خود کو بڑا دکھانے کی خاطر اس قدر گر گئے ہیں کہ ان کی نظر میں فقط مادی چیزوں ہی کی حیثیت باقی ہے اور یہ سب کے سب اپنی پہچان گنوا چکے ہیں۔ خوش اخلاقی، اخوت و بھائی چارگی، منکسر المزاجی، باہمی اشتراک اور بےلوث امداد و اعانت ان کی زندگیوں سے کچھ اس طرح سے غائب ہے جیسے ایک مردہ جسم کو جیتی جاگتی روح کی تلاش ہو. بہت ہی حیرت کی بات ہے کہ انسان جس قدر ترقی کا زینہ چڑھتا جاتا ہے ان میں اکثر لوگ اتنی ہی تیزی سے اخلاقی پستی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کہانی کے مرکزی کردار کو شہر کے سارے افراد بونے نظر آ رہے ہیں کیونکہ وہ تمام لوگ اپنی شناخت کھو چکے ہیں اور وہ اس روئے زمین پر خود کو زمینی خدا بنا کر پیش کرنے میں سرگرداں ہیں۔ مادی چیزوں کی نمائش نہ کسی انسان کے قد میں اضافہ بخشنے کا سبب بنتی ہے اور نہ ان اشیا کی فراوانی سے ان کی عادات و اطوار میں کوئی نمایاں تبدیلی رونما ہوتی ہے، ہاں مگر اتنا ضرور ہے کہ بعض اوقات انسان خود کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے تکبر کی اس گھاٹی میں پھسلتا چلا جاتا ہے جہاں سے لوٹ آنا اس کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ خود کے قد کو دراز کرنے کے لیے اعلا اخلاق کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا ہوتا ہے۔ اس افسانے کے ذریعے ہمیں یہی درس ملتا ہے کہ ہم اعلا سے اعلا عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود اور مہنگی سے مہنگی عمارت میں رہنے کے باوجود خود کو دوسروں سے بڑا سمجھنے کی جسارت ہرگز نہ کریں اور نہ ہی ہم دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھیں کیونکہ ہم سب اللہ وحدہ لاشریک لہ کی مخلوق ہیں اور ہم کبھی بھی دوسروں کو نیچا دکھا کر اللہ کی نظر میں برتر نہیں ہو سکتے۔
نسیم اشک کا ایک اور افسانہ ” گھٹن" اس کتاب کی چند شاہ کار کہانیوں میں سے ایک ہے۔ آصف کے کردار کے ذریعے مصنف نے سماج کے ان براے نام تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ لوگوں پر نشتر چلائی ہے جو ایک حقیقی باشعور اور حساس انسان کو پاگل گردانتی ہے۔ غم کے تھپیڑوں اور حالات کے آگے بے بس ہوئے انسان کی حرکات و سکنات دوسروں کے لیے محض پاگلپن کی چند نشانیاں ہیں. جب کہ وہ کبھی اس شخص کی اندرونی کیفیات سے واقف ہی نہیں ہوتے جن کی زندگی کی ساری رمق ایک حادثے کا شکار ہو کر خاک میں مل جاتی ہے۔ آصف کے من میں کیا چل رہا ہے یہ تو آصف کو بھی نہیں پتہ ہے تو بھلا سماج اسے اور اس کے درد کو کس طرح پہچان سکے؟ جب آصف اپنے بچپن کے چند حسین لمحات کو یاد کرتا ہوا ایک سڑک سے گزر رہا ہوتا ہے تبھی کالج سے گزرتے ہوئے ایک لڑکے نے اس کو چھیڑتے ہوئے کہا:
” کیا ڈھونڈتے ہو؟ ساینس داں ہو کیا؟ یہاں ہیرا نہیں ملنے والا، یہاں تیرے جیسے ہی ملیں گے."
آصف اس کی بات پر مسکرایا اور کہا:
” میرے جیسے تو بعد میں ملیں گے۔ پہلے میں یہ جان لوں میں کون ہوں؟ تم نے مجھ میں "وہ" دیکھ لیا اور میں خود میں "میں" نہیں ڈھونڈ پایا۔"
لڑکے نے کہا: "سچ میں تو پاگل ہے. ڈھونڈو یہیں کہیں ہوگا."
درج بالا اقتباس سے یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہاں پاگل کون ہے اور ہوش مند کون۔ افسانہ نگار نے بہت ہی خوب صورتی سے آصف کی کردار سازی کی ہے اور اس افسانے کے ذریعے ہمیں یہ باور کروایا ہے کہ کبھی کبھی ہم ہوش مند لوگ اپنے ارد گرد کے چند بدنصیب اور حالات کے ستائے ہوئے اشخاص کو پاگل سمجھ بیٹھتے ہیں، حالانکہ عمیق مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ حقیقی پاگل تو وہ سطحی ذہن کے مالک لوگ ہیں جو کسی کے غم کو دیکھنے کی بصیرت والی وہ آنکھیں ہی نہیں رکھتے جن پر ہر کچھ آشکار ہوتی ہیں۔
افسانہ "رات ڈھلنے کو ہے" اس کتاب کا سب سے الگ اور منفرد افسانہ ہے۔ نسیم اشک نے رومانوی محبت اور چاہت کو غربت اور افلاس کی چکی میں پیس پیس کر اکبر اور سلونی کے کردار کے ذریعے ایک ایسا رنگ چڑھایا ہے جس کی پرت تہہ بہ تہہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ غربت میں محبت جیسی پاک نعمت بھی کسی انجان خوف سے کم نہیں جو عاشقوں اور محبوباؤں کو پیار کے انجام سے ڈرا ڈرا کر پیار کا مزہ بے لطف اور تلخ کر ڈالتی ہے۔ اکبر کی یہ مسلسل کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح اپنی محبوبہ کو شادی کے لیے منالے اور وہ اسے بارہا یہ یقین دلانے کی کوشش بھی کرتا ہے کہ وہ اسے زندگی بھر رانی بنا کر رکھے گا مگر سلونی آج کے دور کی ماڈرن لڑکی ہے اور اسے خیالی باتوں اور زمینی حقائق میں تفریق کرنا بہت اچھی طرح سے آتا ہے۔ وہ خوب سمجھتی ہے کہ اکبر کی باتیں محض دل جوئی کے لیے خوش آئند باتیں ہیں مگر عملی زندگی میں اسے احساس ہے کہ ان دونوں کے ملاپ سے ان کی زندگی میں خوشی کی سوغات آنے کی بجائے غم کی کالی گھٹائیں ضرور بالضرور چھا جائیں گی اور وہ مزید پریشانیوں کے دلدل میں دھنستے چلیں جائیں گے۔ سلونی کی باتیں سن کر اکبر بھی تھوڑا پریشان ہو جاتا ہے مگر دل کے کسی گوشے میں اسے یہ یقین ہے کہ جس خدا نے یہ کاینات تخلیق کی وہ اس کاینات کی سب سے حسین عبادت یعنی محبت کو کبھی ناکام ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا اور نہ ہی کسی ظالم کے ظلم میں اتنی طاقت ہے کہ وہ سچی محبت کا ڈٹ کر سامنا کر سکے۔ افسانے کے اختتام میں دونوں کردار کی نظریں دور ایک مینار رحمت کی جانب گڑ گئیں جو اس بات کی نشان دہی کر رہی ہے کہ دونوں کرداروں کو اس خدا وند تعالیٰ کی ذات سے پوری امید ہے کہ ایک نہ ایک دن یہ کالی رات ضرور بالضرور ڈھل جائے گی اور ایک نیا سویرا ان دونوں کا باہیں پھیلا کر ان کی محبت کو پوری کائنات میں بکھیرنے کا ذریعہ بنے گا۔ اس افسانے کے ذریعے نسیم اشک نے یہ بھی دکھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ منفی افکار و نظریات کی بجائے مثبت افکار و نظریات کو زیادہ عزیز رکھتے ہیں جو قارئین کے نقطہ نظر سے ایک اچھی روش ہے۔
افسانہ "چراغ جلتا رہا" ایک نہایت ہی دل کش اور معنی خیز افسانہ ہے جہاں شاکر اور تبسم کی ایک دوسرے کے تئیں جذبات اور ان کے حالات سے لڑنے کے لیے دلیری اور ان کی باہمی رفاقت اور محبت کو افسانہ نگار نے بہت ہی عمدہ طریقے سے پیش کیا ہے۔ پچاس برسوں تک بے اولاد ہونے کے باوجود بھی شاکر اور تبسم ایک دوسرے سے متنفر اور بیزار نہیں ہوئے اور نہ ہی ان دونوں نے کبھی ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کیں۔ روز بروز ان کی محبت اور ایک دوسرے کے لیے مر مٹنے کا جذبہ پروان چڑھتا گیا۔ شاکر نے مانو یہ ٹھان رکھا تھا کہ وہ زندگی میں آنے والی مشکلات اور مظالم کے آگے کبھی بھی سر خم تسلیم نہیں کرے گا۔ ہر رات وہ اپنے مکان کی چھت پر روشنی کا دیا بلا ناغہ روشن کرتا رہا، مانو وہ رات کی تاریکی کا اپنے تیار کردہ چراغ سے مقابلہ کرنا چاہتا ہو۔ افسانہ نگار نے شاکر کے لیے، وہ چراغ کیا معنی رکھتے تھے، اسے بہت ہی دل کش انداز میں پیش کیا ہے. ذرا یہ عبارات ملاحظہ فرمائیں: "اب وہ چراغ اندھیروں کے خلاف اجالے کی للکار تھے، نا امیدوں کے درمیان امید کی کرن تھے، خوف کے خلاف ہمت کے بازو تھے، ظلم و بربریت کی بنیاد کھودتے پھاوڑے تھے "شاکر کی اپنی بیوی تبسم کے لیے ایسے جذبات تھے جسے وہ ہر لمحہ عزیز رکھتا تھا۔ تبسم بھی اپنے شوہر کے غم کو کم کرنے کی بھر پور کوششیں کرتی رہتی تھی۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے بالکل ہی کامل جوڑے تھے۔ افسانہ نگار نے بہت ہی خوب صورتی سے "مٹی کے کھلونے" کا استمعال اپنی کہانی کے پلاٹ کو جامع اور معنی خیز بنانے کے لیے کیا ہے۔
مذکورہ بالا افسانوں کے علاوہ اور بھی بہت سارے افسانے اس کتاب میں ایسے ہیں جن پر متعدد صفحات لکھے جاسکتے ہیں، بنا کسی بندش اور رکاوٹ کے، مگر میرا مقصد اپنے مضمون کو ضخیم بنا کر قارئین کرام کے لیے مشکلات پیدا کرنا قطعاً نہیں ہے، لہذا میں انھی چند افسانوں پر اپنے تاثرات محیط رکھتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ادبی ذوق رکھنے والے نوجوانان اور دانشوران اس کتاب کے دیگر افسانوں کا مطالعہ کر کے خود کو لطف اندوز کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ "چاند رات"، "فیصلہ"، "چیختے زخم"، "بجھتے دیپ نینوں کے"، "لا حاصل"، "اسکیپسٹ" اور "روے فلک برسوں" جیسی کہانیاں بھی کافی متاثر کن اور دل کے جذبات کو برانگیختہ کرنے والی ہیں۔ نسیم اشک بذات خود ایک خاموش طبع اور سنجیدہ انسان ہیں مگر ان کے افسانے ان کی آہ و فغاں، اضطراری کیفیات اور شورانگیز تلاطم سے لبریز ہیں۔ نسیم اشک کی یہ خوبی رہی ہے کہ وہ سادہ سے سادہ الفاظ سے وہ کام لے لیتے ہیں جسے اکثر ادیب فراموش کر دیتے ہیں، اپنی تخلیقات میں۔ افسانے کے سطحی مطالعے سے کبھی کبھی ایسا ضرور محسوس ہوتا ہے کہ افسانہ نگار نے اپنی اس کتاب میں شامل ہر کہانی کو تقریباً ایک ہی مرکزی خیال کی ترسیل کا ذریعہ بنایا ہے مگر جوں جوں قارئین حضرات ان کہانیوں کو پڑھتے جائیں گے وہ کسی بھی لمحہ اس بہ ظاہر عیب سے خود کو بوجھل محسوس نہیں کریں گے کیونکہ ہر کہانی میں درد اور چبھن کی نوعیت بالکل ہی جدا جدا ہے۔ نسیم اشک صاحب، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ عظیم برٹش شاعر شیلی کے اس شعر سے بہت زیادہ متاثر ہیں: "Our sweetest songs are those that tell of our saddest thoughts”
اردو ادب میں اتنی کم مدت میں اتنی روانی کے ساتھ ادب کی خدمات انجام دینے والوں میں نسیم اشک کا نام موجودہ دور کے صف اول کے قلم کاروں میں ضرور شمار ہونا چاہیے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ نسیم بھائی پر اپنی شفقت اور رحم و کرم کی بوچھار یوں ہی کرتا رہے اور ان کے قلم کو ہر دم رواں دواں رکھے اور ان سے اسی طرح ادب کی خدمات مسلسل کراتا رہے (آمین)
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:نسیم اشک  کا افسانوی مجموعہ ”رات ڈھلنے کو ہے“

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے