فصیل

فصیل

ارم رحمٰن
لاہور، پاکستان

مجھے اونچی اونچی فصیلوں والے گھر جو حویلی نما دکھتے تھے بہت پسند تھے. بڑے بڑے مضبوط ستون، لال سیمنٹ کے پکے چکنے فرش والا برآمدہ، جس کے سامنے کشادہ کچا پکا صحن، جس کے اطراف میں بڑے بڑے درخت اور کیاریاں لگی ہوں، رنگ برنگے پھول بوٹے، بہار اور برسات میں کیا سماں باندھتے ہوں گے. انگور کی بیلیں موٹے ستونوں سے لپٹی ہوئی، کچے صحن میں عشق پیچاں کی بیلیں بڑے بڑے تناور درختوں سے لپٹی ہوئی، بارش کی رم جھم میں چمکتے دمکتے پھول پتے، ان درختوں کے پتوں سے ٹپکتا پانی، میں ںچپن سے ہی ایسے گھروں کے خیالوں میں ڈوبا رہتا، کیونکہ جس گھر میں میری آنکھ کھلی وہ دو کمروں کا چھوٹا ساگھر تھا جس میں تھوڑا سا شیڈ نما برآمدہ تھا جس کے ایک طرف چولہا رکھا تھا، دوسری طرف چٹائی، جس پر میری ماں بیٹھ کر کپڑے سیا کرتی، یا جب مجھے اور میرے بھائی کو بھوک لگتی تو اماں چولہے کے پاس چٹائی بچھا کر ہمیں کھانا دیا کرتی، سامنے صحن کے نام پر تھوڑی کھلی جگہ تھی جہاں ایک الگنی بندھی ہوتی، روز ایک دو جوڑے کپڑے دھلتے اور وہاں ٹانگ دیے جاتے کہ تھوڑی بہت دھوپ جو اونچے گھروں سے بچ کر ہمارے صحن تک پہنچتی ہے اس میں کپڑے سوکھ جائیں.
دو کمروں ایک غسل خانے پر مشتمل یہ گھر اور ہم دو بھائی والدین کے ساتھ، ابا کو آٹھ دن میں ایک بار ہی دیکھتے اتوار کے اتوار، محنت مزدوری، قلی گیری کرتے کرتے جوانی میں ہی بوڑھا ہو کر چل بسے، پچاس سال کوئی عمر ہوتی ہے مرنے کی کہ کام پر زندہ گئے اور لاش بن کر واپس آئے، حالانکہ آخری دو سالوں میں تو ایک بڑی دکان پر سیلز مین لگ گئے تھے کیونکہ پلیٹ فارم پر سامان ڈھو ڈھو کر کمر ٹیڑھی ہوگئی تھی، ویسے بھی خالی پیٹ اور خالی جیب کون کب تک سیدھا چل سکتا ہے، اگر سیدھا دیکھنا بھی چاہے تو لوگوں کو اس کا آنکھ اٹھا کر دیکھنا تک گوارا نہیں ہوتا کہ اس کی یہ اوقات کہ ہماری آنکھوں میں دیکھے تو بس ابا نے ساری زندگی نیچے دیکھنا سیکھا، اس لیے سیلزمینی بھی جوتوں کی دکان پر ہی کی کہ نظر کبھی اٹھے ہی نہ بس قدموں اور جوتوں پر مرکوز رہے اور وہی ہوا. دکان پر ہی کسی موٹے سیٹھ کو جوتے پہناریے تھے کہ جوتے کا سائز تھا کہ پورا نہیں پڑرہا تھا، سیٹھ نے رکھ کر پوری طاقت سے ٹانگ ماری، اللہ جانے ابا سیٹھ کی ٹانگ کا بوجھ نہ سہار سکے یا اس ندامت کا جو پچاس سال کی عمر تک مشقت کرتے ہوئے نصیب ہوئی، ایسا گرے کہ پھر اٹھائے نہ اٹھے، مکمل ہی اٹھ گئے، پاپی پیٹ کی جنگ ختم ہوئی، سانسوں کا ادھار چکتا ہوا لیکن کفن دفن کا ادھار کرنا پڑگیا. بڑے بھائی نے میڑک کا امتحان دے رکھا تھا، خبر ملتے وہی بھاگا باپ کی میت لینے اور میت کے ساتھ کفن دفن کا ادھار بھی لے آیا، لیکن مالک نے وعدہ لے لیا وہ بھی ایک سادہ کاغذ پر تحریری صورت میں کہ ایک سال میری دکان پر کام کرے گا، بس اس کے بدلے کچھ ہزار ملے، چلو باپ کی میت چوک پر رکھ کر بھیک مانگنے کی ہزیمت سے بچ گئے، کیونکہ روز کے روز پیسہ آتا، جس دن ابا شدید کھانسی کے دورے سے مجبور ہوکر چھٹی کرتا اس دن بھوکی آنتوں کو دورہ پڑتا، لوگ اکثر کہتے ہیں کہ محنت کرو ہمت کرو رزق حلال کماؤ لیکن رزق حلال کمانے والوں کا یہ ہی حال ہوتاہے، اماں اچھے کپڑے سیتی تھی مگر اس سے سلوانے والے لوگ کون تھے، اسی علاقے کے نا، جہاں دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے نصیب ہوتی، کس میم صاحب کے پاس جاتی، کس امیر زادی سے مدد مانگتی، کون اتنی تنگ اور گندی جگہ پر آکر نسیم بانو سے کپڑے سلواتا، اس کا ہنر پہچانتا، جوتوں کی دکان کا مالک اپنی گھرکی خواتین کے کپڑے سلوانے کے لیے دیتا تو بعد میں ہزار نقص نکالے جاتے، عام ریٹ سے آدھے ریٹ پر ڈھیروں ڈھیر کپڑے سلوائے جاتے، غریب ایسے ہی غریب نہیں ہوتا اسے سارا معاشرہ مل کر غریب رکھتا ہے، سماج نہیں چاہتا کہ غریب کبھی امیر ہو ورنہ ان کے کام کون کرے گا.
میں چھت پر بھاگتا، چھوٹی سی چھت جس کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے گھر اور ان میں رہنے والے ڈھیروں کالے میلے لوگ، دم گھٹتا تھا میرا، میں تو آٹھویں میں تھا، بھائی نے خود دکان پر نوکری کرکے مجھے خوب پڑھنے کو کہا، گھر تو کرائے کا تھا مگر ابا کے دوست نے تھوڑے کم کرائے پر دے رکھا تھا، ان کے مرتے ہی خالی کروا لیا، دوسرا گھر ذرا کچے علاقے میں ملا، وہاں پر رہنا ذرا مشکل تھا مگر کرایہ پہلے سے کافی کم تھا، اس گھر کے سامنے تھوڑے فاصلے پر ویسا ہی حویلی نما گھر تھا، میں روز شام کو اپنے گھر کے پیچھے جا کر اس گھر کو تکتا رہتا اور اپنا سبق یاد کیا کرتا، بارش میں وہی منظر پیش ہوتا جو میں سوچا کرتا تھا، ابا کے مرنے سے مجھے عجیب سی خوشی تھی کہ یہ گھر تو دیکھنے کو ملا، ابا سے ویسے بھی میری بس اتنی واقفیت اور محبت تھی کہ ابا اماں کو پیسے دیں گے، گھر میں چولہا جلے گا، کھانے کو ملے گا، کبھی کبھی کچھ مٹھائی یا کچے پکے پھل مل جایاکرتے، اتوار کے اتوار دن میں صورت دکھائی دے جاتی تو شام کو کام دھندے یا کسی سے ملنے نکل جایا کرتے، کبھی کوئی بات پوچھ لیتا تو ہلکا سا جواب مل جاتا، لیکن مجھے وقت نے سکھایا کہ غریب انسان ہر لحاظ سے غریب ہوتا ہے، کھانے پینے اوڑھنے کی تنگی ہی نہیں ہوتی الفاظ اور جملوں کی ادائیگی میں بھی تنگی، ہنسنے میں بھی تنگی اور خوش ہونے میں بھی تنگی، تنگی ترشی سہہ سہہ کر غریب تن من دھن کے ساتھ ساتھ جذبات و احساسات سے بھی غریب ہو جاتا ہے.
بڑا بھائی کام کرتا رہا، میں میٹرک کرگیا پھر بچوں کو ٹیوشن پڑھانے لگا، پیسے جمع کرکے ایف.اے کرنا چاہا تو ایک مخلص استاد نے کہا کہ "اپنا حساب اچھا کرو بہت کام آئے گا" بس یہ ایسی نصیحت تھی کہ واقعی ہمیشہ کام آئی، میں نے ریاضی میں بہت محنت کی. ایف.اے کی جگہ ایف. ایس. سی کی، اس کے بل بوتے پر بہت ٹیوشنز پڑھائیں، بی. ایس. سی کر گیا، اماں مرگئیں تو اس گھر کو چھوڑنا پڑا کیونکہ ٹیوشن پڑھانے کے لیے اچھا علاقہ چاہیے تھا اور اس جگہ کوئی پڑھتا ہی نہیں تھا، مجھے اماں کے مرنے کا زیادہ دکھ اس لیے بھی تھا کہ ان کے ساتھ اس گھر کو بھی چھوڑنا پڑا، ہم دونوں بھائی ایک بڑے کرائے کے گھر میں شفٹ ہوگئے. بھائی بھی کام کا دھنی تھا. باپ کا قرضہ چکاتے چکاتے سیٹھ کو مقروض کرگیا، کمال کاریگر تھا، لوگوں کو شیشے میں اتارنے میں فنکار، مالک سے کچھ رقم ادھار لے کر اپنی چھوٹی سی جوتوں کی دکان کھول لی، ایک کرائے کا مکان لیا، ہم دونوں بھائیوں کے لیے اس میں ہر سہولت موجود تھی، لیکن میں مسلسل اسی طرح کے گھر کی تلاش میں رہتا جس کا منظر میرے دل و دماغ میں بسا تھا، بے شک میرا گھر ویسا نہ ہوتا لیکن کم از کم جہاں وہی سب نظر آئے جو میں سوچتا رہا کرتا تھا، 
میں نے بھی ایم ایس سی کرنے کا فیصلہ کرلیا کیونکہ اب پیسوں کی تنگی نہیں تھی. 
خوب پڑھ کر امتحان پاس کیا، اچھے سے اسکول میں ریاضی کا استاد بن گیا، لوگوں نے کہا کہ لیکچرر شپ کے لیے امتحان دے دو، لیکن مجھے معلوم تھا کہ لیکچرر شپ ملے یہ لازمی نہیں، ایک سیٹ پر لاکھوں امیدوار ہوتے ہیں، ملازمت ملتی گنتی کے خوش نصیبوں کو ہے، میں نے اسکول کی سطح پر زیادہ پیسہ دیکھا، بس اسکول اور شام کو ٹیوشنز، میری ماہانہ آمدنی اتنی تھی کہ مجھے الگ گھر لینے بلکہ خریدنے کا خیال آنے لگا. بھائی نے بھی ساتھ دیا بولا ٹھیک پیسے جمع کرو میں اٹھاؤں گا سارا خرچ، خیر میرا خرچ تھا ہی کتنا، آدھا وقت تو گھر سے باہر گزرتا، کپڑے جوتے خود لیتا دو وقت کا کھانا ہی تھا اور کچھ بل وغیرہ
بھائی نے شادی سادگی سے کرلی اور دل چسپ بات اسی مالک کی بیٹی سے، اس کے مزے ہوگئے، اس نے بھی اتنا جہیز اور پیسہ دیا کہ اس نے اپنا خود کا چھوٹا سا گھر خرید لیا، لیکن اس مکان میں میرے لیے تو جگہ تھی مگر میری شادی کے بعد گزارا نہ ہوتا لیکن اس گھر کی سب سے بڑی خوبی کہ اس کی چھت سے ویسا ہی ایک گھر نظر آتا تھا جو مجھے پسند تھا، میں بہت خوش تھا کہ ابھی بھی لوگ پرانی طرز کے گھر بناتے ہیں، میں روز شام کو چھت پر ٹہلتا پھرتا، ایسے ہی گھر کے خواب دیکھتا رہتا، لیکن ایک دن دیکھا تو اس گھر کے سامنے کے پلاٹ میں ٹرک ٹرالی والے دبادب مٹی بھر رہے ہیں ایک طرف ریت بجری کا ڈھیر لگ رہا ہے، پھر رات کو ٹرکوں پر اینٹیں لدھ کر آگئیں، ایک ماہ میں اونچی اونچی فصیلیں کھڑی ہوگئیں. 
میری چھت سے وہ گھر نظر آنا بالکل بند ہوگیا، میرا دل مرجھا گیا، لیکن کرکیا سکتے تھے. خیر میرے پیسے جمع ہو ہی رہے تھے. میں نے ایم.ایس.سی کے بعد پانچ سال تک شدید محنت کی اور اپنا گھر لینے کے قابل ہوگیا لیکن شرط رکھی کہ گھر وہاں لوں گا جہاں میری پسند کا منظر میرے سامنے ہوگا، وہی کھلے صحن والا، لال چکنے سمینٹ کے برآمدے والا، جس میں موٹے موٹے ستون ہوں، انگور اور عشق پیچیاں کی بیلیں… 
خیر! جس ایجینٹ کو کام پر لگایا تھا اس نے شہر کے مضافاتی علاقے میں ایسا گھر ڈھونڈ نکالا جس کی چھت سے ہو بہ ہو یہ منظر نظر آتا تھا، میرے اور اس حویلی نما گھر کے درمیان کسی قسم کی فصیل کھڑے ہونے کا ڈر بھی نہیں تھا، میرا گھر مناسب تھا، سب سہولتوں سے مزین صحن بھی تھا، چھوٹا سا برآمدہ بھی، میری کمائی میں اتنا ہی گھر مل سکتا تھا کہ میں اور میری بیوی دو تین بچے آرام سے رہ سکیں، لیکن شادی تو کی نہیں تھی لہذا میرے اکیلے کے لیے یہ گھر بہت بڑا تھا، گھر خریدنے کے بعد میں بہت پرسکون ہوگیا، میں اسکول سے گھر نہیں آتا تھا بلکہ ایک جگہ جہاں اکیڈیمی بنائی تھی وہاں دو گھنٹے بچوں کو ریاضی پڑھاتا، پھر اپنے گھر جا کر چائے کھانا سب لوازمات لے کر چھت پر جا بیٹھتا، دو تین گھنٹے سامنے والے گھر کو دیکھتا رہتا، برسات میں تو سارا دن چھت پر گزرتا، بس کھانا کھاتا اور چھت پر چڑھ جاتا، ایک غریب بے سہارا عورت جو میری ماں کی عمر کی تھی اپنے ساتھ رکھ لی تھی، وہی کھانا پکانا دیگر امور خانہ داری وغیرہ دیکھتی، شام کے وقت چھت پر جاکر اپنے پسندیدہ گھر کو دیکھتا رہتا، کبھی کبھار کچھ بچے سامنے والے گھر میں کھیلنے لگتے، کچھ خواتین بھی بیٹھ کر چائے وغیرہ پیتیں، جب مجھے شفٹ ہوئے دو ماہ ہوگئے تب مجھے اردگرد کے رہنے والوں کی شکلوں سے شناسائی ہوئی، دھیرے دھیرے پتا لگا میرے پسندیدہ مکان میں ایک جوان لڑکی بھی رہتی ہے، جو اکثر بچوں کے ساتھ کھیلتی نظر آتی ہے. لڑکی کی عمر اٹھارہ سے زیادہ نہیں ہوگی. مجھ سے کافی کم عمر لگتی تھی، میں تو بتیس، تینتس سال کا ہوچکا تھا، اس کی عمر کی لڑکیاں تو مجھ سے ٹیوشن پڑھاکرتی تھیں اور میں سب کو بچہ، بچی سمجھ کر بیٹا بیٹی کہنے لگا تھا لیکن اس کے باوجود مجھے وہ اچھی لگنے لگی تھی. شروع میں تو میں نے غور نہیں کیا، اسے بچی سمجھ کر نظر انداز کیا، وہ کبھی میری طرف دیکھ کر مسکراتی تو میں چونک جاتا لیکن پھر ہم سب ایک دوسرے کو دیکھنے کے عادی ہوگئے، ایک محلے یاچھوٹی جگہوں پر رہنے والے ایک دوسرے سے واقفیت بڑھانا پسند کرتے ییں، ایک دوسرے کے گھر کھانا بھیجنا خوشی غمی کی خبر رکھنا، عید شب برأت اور ایسے تہواروں پر مٹھائی، نذر نیاز بھیجنا عام روایت ہوتی ہے، بس میرے بارے میں بھی سب کو پتا لگ گیا، جب اس کے والد خالد احمد کو پتا لگا کہ میں ایم. ایس. سی ریاضی ہوں اور اپنی محنت سے خریدے ہوئے گھر میں اکیلا رہتاہوں تو انھوں نے مجھے چائے پر بلا لیا، میری صلاحیتوں سے بہت متاثر ہوئے، پھر وہی لڑکی اور اس کے دو چھوٹے بہن بھائی مجھ سے ریاضی پڑھنے لگے، وہ لڑکی جس کا نام ماریہ تھا میٹرک میں تھی، وہ ریاضی میں فیل ہوگئی تھی، خیر! دو ماہ کی محنت رنگ لائی، وہ امتحان میں کامیاب ہوگئی، اس کو محنت کرواتے کرواتے مجھے اس سے محبت ہوگئی تھی، مجھ میں جھجھک تھی کیونکہ ریاضی پڑھانا میرا پیشہ تھا، میں اس کے لیے بھاری معاوضہ لیتا تھا، ویسے عمر کا فرق، پاس بیٹھ کر بہت نمایاں محسوس ہونے لگتا، دور چھت سے دیکھنا اور بات تھی لیکن ساتھ چلنا پھرنا، فرق صاف ظاہر تھا، وہ دھان پان سی نازک اندام، عمر چور قسم کی لڑکی میں بڑی عمر کا محنت کش سخت ہڈ جوڑ والا مرد، دو ماہ پڑھنے کے بعد امتحان دے کر وہ لڑکی اپنے ماموں اور خالہ کے پاس رہنے چلی گئی لیکن اس کے دونوں چھوٹے بہن بھائی مجھ سے پڑھتے رہے، 
اس کی غیر موجودگی مجھے بہت تڑپاتی، میں نے بہت سوچا کہ کسی بہانے، اسے روک لوں یا ان بچوں کو بھی پڑھانا چھوڑ دوں، لیکن کوئی تدبیر کارگر ثابت نہیں ہوسکتی تھی. میں اسے کس حق سے روک سکتا تھا ؟
ایک دن وہ اچانک چائے لے کر آگئی، میں بچوں کو پڑھانا چھوڑ چھاڑ اس کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا کہ اچانک سب بچوں نے قہقہہ لگایا کہ ماسٹر صاحب یہ ماریہ ہے اس کا بھوت نہیں، میرا چہرہ یقیناً ندامت سے لال سرخ ہوگیا ہوگا، میں جھینپ گیا، جلدی جلدی چائے حلق میں انڈیلی، گھر بھاگ آیا. شکر ہے اگلے دن اتوار تھا مجھے اپنے حواس قابو کرنے کا موقع مل گیا. میں رات بھر سوچتا رہا کہ ماریہ سے بات کروں یا اس کے باپ سے، اپنے بھائی سے بات کرنے کا سوچا لیکن کوئی سرا نہیں مل رہا تھا، میں خود کو ہی قائل نہیں کر پارہا تھا، اس رشتے کے لیے، سوچا کچھ دن رک جاتا ہوں، اگرچہ بے صبری بھی بہت ہورہی تھی کہ کسی طرح ماریہ سے شادی ہوجائے اور مجھے سکون آجائے. 
ابھی میں تانا بانا بن رہا تھا کہ ماریہ سے کیسے بات کی جائے کہ ایک شام بچوں کو پڑھاتے ہوئے ماریہ نے ایک رقعہ مجھے پکڑایا، میرا دل دھک سے رہ گیا، میں نے بھی پھرتی دکھائی اور فوراً جیب میں ڈال لیا، جیسے تیسے پڑھاکر بے چینی سے گھر آکر کمرے کا دروازہ بند کیا، پہلی بار کسی لڑکی نے کوئی خط دیا تھا، دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہورہی تھیں. 
میں نے خط کھولا، پہلے دو الفاظ پڑھتے ہی میرے تن بدن میں آگ لگ گئی، میری انا کو شدید ٹھیس پہنچی، اس نے خط میں جس طرح مجھے مخاطب کیا، دماغ چکرا گیا
"ندیم انکل! " پھر اس نے اپنی پسند کا ذکر کیا کہ اسے اپنے ماموں کے بیٹے علی سے بہت محبت ہے، وہ بھی اس سے شدید محبت کرتا ہے، وہ دونوں شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن والدین نہیں مان رہے، کیا میں شادی کروانے میں ان دونوں کی مدد کر سکتا ہوں."
یہ پڑھتے ہی میرا خون کھول گیا، میری برداشت سے باہر تھا کہ میں ماریہ سے شادی کی بجائے اس کی شادی کسی اور سے کروانے میں اس کی مدد کروں، رقابت، حسد، جلن، ساری کیفیات نے میرے دل و دماغ پر قبضہ کر لیا. 
میرے اندر کی محرومیاں اور زندگی بھر کی کلفتیں میرے ضمیر کے آگے دیوار بن کر کھڑی ہوگئیں کہ ماریہ صرف میری ہے. کیا کمی ہے مجھ میں. اپنا گھر بار ہے، اچھی کمائی ہے، اسے ہر طرح کی سہولت دے سکتا ہوں، اس کےپاس کیا ہے، باپ دادا کا دیا گھر، اس کھلے برآمدے اور بڑے صحن میں کون سے ہیرے لگے ہیں جو میرے گھر میں نہیں، میں جل بھن کر راکھ ہوگیا. 
صبح اسکول جانے سے پہلے تہیہ کر لیا کہ آج شام بچوں کو پڑھانے جاؤں گا تو ماریہ کے باپ سے بات کروں گا. خط دکھاؤں گا کہ آپ کی بچی غلط راستے پر چل رہی ہے، اس کو روکنے کا ہمارے پاس ایک ہی طریقہ ہے کہ عزت سے فوراً میرے ساتھ نکاح پڑھوا دیں. لڑکی اور عزت دونوں بچ جائیں گے. 
میں سارا دن انھی خیالوں میں الجھا رہا، ماریہ سے فوری نکاح کے خیال کو پکاتا رہا، پھر قسمت کا ساتھ دیکھیے کہ جو جو سوچا وہی ہوتا گیا، شام کو بچوں کو پڑھانے گیا، ماریہ کے والد صاحب بھی اتفاقاً گھر پر مل گئے، ان کو بلایا خط دکھایا اور اپنا مؤقف بیان کیا کہ یہ ہی حل ہے!
ماریہ کے والد کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں، میں نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا، تسلی دی اور دل ہی دل میں اپنے فیصلے پر بہت مطمئن ہوگیا کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے، پورے اعتماد کے ساتھ ماریہ کے والد کو سوچنے کا وقت دے کر گھر سے باہر نکل گیا. 
لیکن اندر سے میں بہت گھبرایا ہوا تھا، انکار سننے کی ہمت نہیں تھی اور اقرار سے پہلے ماریہ کے گھر جا کر بچے پڑھانے کاحوصلہ بھی نہیں تھا. لہذا میں نے اسی رات کو ہی بھائی کے گھر جانے کا فیصلہ کیا کہ دو تین دن بعد جب میرے حواس قابو آجائیں گے تب واپس آؤں گا. اسکول میرے گھر سے بہت قریب تھا، بھائی کے گھر سے کافی دور، اس لیے سوچا دو چھٹیاں کرکے بھتیجوں کے ساتھ کھیلا جائے. 
بھائی، بھابھی اور بچوں کے لیے شاپنگ کرنے کا خیال آیا تو سوچا ان کو ساتھ لے جا کر کروا دوں گا. پھر اسی رات ان کے گھر پہنچا. اگلے دن بھابھی اور بچوں کو لے بازار چلا گیا. ان کو ان کی پسند کی چیزیں دلوائیں. بھائی کے پسند کے رنگ کے کپڑے خریدے اور خوشی خوشی واپس، میرا ذہن ماریہ میں اٹکا ہوا تھا لیکن بچوں کے ساتھ لطف آیا، بھائی کے دو بیٹے اور ان کی دل چسپ باتوں میں اچھا وقت گزرا. 
دھیان کافی بٹ گیا، بھائی بھابھی نے بھی شادی پر زور دیا، میں نے بھی حامی بھری کہ بس یہ جولائی کا مہینہ ہے نا دسمبر کے آنے سے پہلے پہلے شادی کرنے کاارادہ ہے. لڑکی کا پوچھتے رہے، چھیڑتے رہے، میں ٹالتا رہا، مسکراتا رہا، اگلے دن پرانے محلے داروں سے ملنے چلا گیا، ٹھیک دو دن کے سیر سپاٹے کے بعد تیسری صبح بھائی کے گھر سے ہی اپنے سکول چلا گیا. پھر ٹیوشن سینٹر میں پڑھانے کے بعد اپنے گھر پہنچا تو تھوڑی دیر میں ہی دروازے کی گھنٹی بجی. سامنے ایک درمیانی عمر کی عورت کھڑی تھی، ہاتھ میں چنے پھلیوں کی تھیلی لے کر، میں نے پوچھا یہ کیوں؟ تو اس عورت نے گلوگیر آواز میں کہا کہ "خالد صاحب کی بیٹی مر گئی، اس کاقل ہے آج"
"کیا؟"
تھیلی میرے ہاتھ سے گر گئی. 
"کون سے خالد صاحب، کون سی بیٹی؟" میں بالکل ہونق ہوگیا. 
روہانسا ہوکر پوچھا تو اس نے کہا "جہاں آپ ٹیوشن پڑھاتے ہیں."
"اوہ۔"۔۔میرا سانس اکھڑ گیا، وہ عورت تو کہہ کر چلی گئی مگر میرے پیر دہلیز پر جم گئے. میں وہیں ڈھے گیا، بالکل ساکت ہوچکا تھا. پتا نہیں کتنی دیر بعد کچھ ہمت پکڑی، بوجھل دل سےاپنے کمرے میں گیا اور اس قدر پھوٹ پھوٹ کر رویا جتنا اپنے ماں باپ کے مرنے پر نہیں رویا تھا. 
ہچکیاں بندھ گئیں. 
کئی گھنٹے بے سدھ بستر پر پڑا رہا. 
کب رات ہوئی، کب سویا، صبح اماں نے جگایا، میرے پورے وجود میں اینٹھن تھی، سر درد سے پھٹ رہا تھا، بدن بخار میں تپ رہا تھا. اماں بے چین ہوئیں کہ کیا کریں میں نے اماں کو اشارہ کیا کہ دودھ لادیں میں دوا کھا لوں گا، وہ بے چاری جلدی جلدی دودھ لائیں، میں نے دراز سے بخار اور سردرد کی دوا نکالی، فورا دودھ کے ساتھ کھالی، ایک گھنٹے تک خاموش بالکل خالی دماغ چھت کو گھورتا رہا، پھر بخار کم ہوا، میں اٹھا، غسل کیا، صاف کپڑے پہن کر خالد صاحب کے گھر گیا. 
میرا ایک ایک قدم بوجھل تھا، چند قدم کا فاصلہ بہت مشکل سے کٹا، وہاں پہنچ کر دیکھا، اسی برآمدے میں عورتیں بیٹھی گھٹلیاں پڑھ رہی ہیں. 
کچھ نوجوان پھر رہے ہیں، ایک نوجوان بہت مغموم نظر آیا، اس نے میری طرف دیکھا تو جیسے اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا ہو، میری چھٹی حس نے کہا کہ کہیں یہ وہ لڑکا تو نہیں کہ ماریہ جس سے محبت کرتی ہو۔۔۔ اور۔۔۔ اور
آگے میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا. 
پھر جب ہوش بحال ہوئے تو وہ لڑکا بالکل میرے سامنے کھڑا مجھے گھور رہا تھا، میں نے انجان بنتے ہوئے پوچھا ” کیسے مری" لیکن دو الفاظ سے آگے نہیں بول سکا ماریہ کالفظ میری زبان پر نہیں آسکا. 
اس نے دانت پیستے اور مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا: "تم نے ماراہے میری ماریہ کو، تم قاتل ہو." اس سے پہلے اس کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی میں بھاگ کھڑا ہوا، کبھی نہ واپس آنے کے لیے کیونکہ یہ فصیل تو میں نے اپنے لیے خود کھڑی کی تھی.
***
ارم رحمٰن کا گذشتہ افسانہ:آلو کا پراٹھا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے