ذرا سی بات پہ آنگن کا کٹ گیا تھا درخت

ذرا سی بات پہ آنگن کا کٹ گیا تھا درخت

[راشد انور را شد کا شاعرانہ اجتہاد]

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

راشد انور راشد کی ادبی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ وہ شاعر، نقاد اور مترجم کے طور پر اپنی خاص شناخت رکھتے ہیں۔ ہر فن میں ان کی متعدد کتابیں موجود ہیں مگر وہ اپنی شاعرانہ شخصیت پر بالعموم اصرار کرتے ہیں۔ ایسے فن کار جو کئی صنفوں میں مشق کر رہے ہوں، انھیں ہماری زبان میں پہچاننے میں اکثر و بیشتر کوتاہی ہوتی ہے۔ غالب اور حالیؔ کو چھوڑ دیں تو شاید ہی ہماری تنقید میں ایسے فن کاروں اور ان کے فکر و فن کی مختلف جہات کو سمجھنے کے لیے ہمدردانہ کاوشیں کی گئی ہوں۔ اکثر ہم اپنے لکھنے والوں پر یہ جبر قائم کرتے ہیں کہ وہ کسی ایک فن میں ہی مہارت ثابت کریں۔ بہ طورِ مذاق انگریزی مقولہ پیش کیا جاتا ہے: Jack of all trade but Master of none۔ شاید اسی وجہ سے کئی صنفوں میں کا م کرنے والے فن کار بھی از خود یہ واضح کرنے لگتے ہیں کہ میری بنیادی اُفتاد فلاں فلاں صنف کے لیے ہی تھی مگر میں نے Just for change یا تفنّنِ طبع کے لیے کچھ دوسرے کوچے کی سیّاحی کرلی۔
اردو کے اس ماحول کے بر خلاف یوروپی زبانوں کے احوال دیکھیں تو عہدِ جدید تک کے اکثر و بیشتر لکھنے والے بہ یک وقت نظم و نثر دونوں صنفوں میں طبع آزمائی کرتے ہوئے بہ خوشی اپنی تخلیقی جسارتوں کو عام کرتے ہیں۔ کبھی شعر کہا، کبھی تنقید اور کبھی ناول نگاری کے راستے پر چل پڑے اور جی پہ آیا تو ڈراما نگاری کو بھی اپنی مٹھّی میں قید کرنے سے دریغ نہ کیا۔اس کے باوجود راشد انور راشد کے بارے میں یہ کہنا درست ہوگا کہ شعر گوئی وہ بنیادی زمیں ہے جہاں انھوں نے اپنے آزادانہ اظہار کے ذرائع تلاش کیے اور جس جگہ وہ شاداں و فرحاں اور خوش و خرّم نظر آتے ہیں، آزادی کی سانسیں لیتے معلوم پڑتے ہیں اور اپنی سانسوں میں شعر و ادب کی اونچی اڑان کا دم بھرتے ہیں۔ اس لیے انھیں شاعر کی حیثیت سے پہچاننا اور ان کی انفرادیت اسی حوالے سے پرکھنے کی کوشش کرنا ہمیں زیادہ موزوں معلوم ہو تا ہے۔ شاعری میں وہ نظم و غزل دونوں میدانوں میں سرگرمِِ عمل ہیں اور کچھ موضوعاتی یا فکری ارتکاز پیدا کر کے بھی شعر گوئی کے نئے ذائقے فراہم کر رہے ہیں۔ فطرت کی طرف خصوصی توجہ یا عاشقانہ موضوعات کے علی الاعلان اظہار کو روشِ عام کہنا مشکل ہے اور اسے شاعر کی انفرادی اور یگانہ شعری شخصیت کی تعمیر و تشکیل کے ابتدائی دعوے کے طور پر قبول کرنے میں ہمیں کوئی تردّد نہیں کیوں کہ اردو شاعری کے عصری منظرنامے پر موضوع و اسلوب کے اعتبار سے ایسے چہرے زیادہ نظر نہیں آتے جن کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ راشد انور راشد کی طرح کھلے بندوں مظاہرِ فطرت اور عاشقانہ مضامین کی گھنی چھاوں میں نئی تفہیم کے لیے گنجائشیں پیدا کر رہے ہوں۔ دیر سویر نقادوں کی نگاہ راشد انور راشد کی طرف جائے گی اور ان کے انفرادی رنگ و آہنگ کو پہچاننے کے لیے ہمارے نقاد لازمی طور پر متوجہ ہوں گے۔
یوں بھی شاعرانہ انفرادیت کو پہچاننا آسان نہیں۔ اس سے بڑھ کر سوال یہ ہے کہ کسی شاعر کے لیے انفرادی رنگ وضع کرنا کیا آسان ہے؟ راشد انور راشد ابھی عمر کی جس منزل میں ہیں، اس اعتبار سے ان کی مشق زیادہ سے زیادہ تین دہائیوں پر مشتمل ہے۔ تیس برس میں تو لفظ اپنے راز بھی کیا کھولتے ہوں گے۔ پرانا زمانہ ہوتا تو اساتذہ دیوان تیار کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے مگر چھاپا خانے نے یہ فیضِ عام کر رکھا ہے۔ شاعر کو یہ فائدہ ہوا کہ اس کے قدردان اور پرکھنے والے بھی بڑھے، اُسے اپنے قارئین کے تاثرات بھی زیادہ جلدی اور بڑی تعداد میں حاصل ہو رہے ہیں۔ اس سے شعر کہنے والا دادِ سخن پانے کے لیے اپنی موت تک کا انتظار کرنے سے بچ جاتا ہے۔ راشد انور راشد کی شاعری پر داد دینے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ مشہور شعراے کرام اور چند نقادوں نے ان کے شعری مجموعوں کی پسندیدگی کا اظہار کیا ہے مگر تفصیل سے ان کے شعری نگارخانے میں اترنے کے لیے کوششیں زیادہ نہیں ہوئیں۔ ہماری تنقید کی اولیات کچھ اتنی بدل گئی ہیں کہ آزادانہ طور پر جو فن کار بڑے کام کررہے ہیں، ان کی تخلیقات کو آزاد فضا میں جانچنے پرکھنے کا ماحول قائم نہیں ہو رہا ہے۔ تنقید کی ترجیحات تخلیق کے بجاے تخلیق کار ہیں، اس لیے رطب و یابس کا بازار گرم ہے۔جس کے کاموں پر چند صفحات کی ضرورت نہیں تھی، اس پر کتابیں آگئیں اور جس پر توجہ سے پڑھ کر لکھنے کی ضرورت تھی، اسے کسی نے اس لایق ہی نہیں سمجھا۔ اسی لیے آج بے بنیاد شہرتیں اور ظالمانہ گم نامیاں ہمارے لکھنے والوں کا مقدر ہیں۔ اسی جبر نے راشد انور راشد کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینے کے لیے ہمیں تیار نہیں کیا۔ رسمی طور پر روا روی میں یا مقامی گروہی توجہ کو کافی سجھا گیا۔ اس میں نقصان ہماری شاعری اور شاعر کا ہوا۔ فکشن میں بھی یہی ہورہا ہے۔ غرض توازن کہیں نہیں ہے اور لکھے ہوئے لفظوں کی ایک ایک آہٹ کو سمجھنے اور اسے پہچاننے کے لیے مشقت کرنے والی نسل ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔
کوئی شاعر اگر وقفے وقفے سے اپنی تخلیقات عوام کے سامنے لائے اور کچّی پکّی لکیروں کو ایک خاص مقدار کے ساتھ ہمارے حوالے کردے تو ہمیں اس کی باتیں غور سے سننی چاہیے۔ اپنی نثری تحریروں میں یا خاص طور پر اپنے تخلیقی عمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے راشد انور راشد نے کچھ زیادہ اصرار اس بات پر نہیں کیا ہے کہ ان کے شاعرانہ امتیازات کو بہر طور سمجھا جائے۔ وہ مایوس تو نہیں ہیں مگر اس بات کے لیے انتظار کرنے کو تیار ہیں کہ ان کے شعری تجربوں یا انفراد کو سمجھنے کے لیے کوئی ماحول تیار ہوگا۔ اسی لیے بعض نئے لکھنے والوں کی طرح ان میں اتاولاپن نہیں ہے اور ناقدری یا کم پہچانے جانے پر خود ہی اپنے اکتسابات کے اعلان کرنے کی کوشش بھی نہیں۔ حالاں کہ وہ باضابطہ طور پر نقاد ہیں اور وہ اپنی تنقیدی استعداد سے اپنی انفرادیت کو اجاگر کرنے کے لیے بعض فن کاروں کی طرح نئے نئے نکتے سجھا سکتے تھے۔ غالباً ان میں اس پہلو سے صبر کا مادّہ ہے اور وہ بہت ہوش مندی کے ساتھ شہرت کے پروں سے اڑنے سے زیادہ اپنی تخلیقات پر محنت کرنے پر یقین رکھتے ہیں. اپنی شاعری میں کوئی نہ کوئی فنی اور فکری شان پیدا کرنے کے لیے مشقت اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ اس لیے ہمارے لیے یہ لازم ہے کہ ہم ایسے شاعر کو بہ غور پڑھیں اور اگر اس نے درد یا مومن کی طرح اپنے لیے کوئی چھوٹی سی ہی جگہ سہی مگر انفرادی جگہ قائم کی ہو تو اسے پہچاننے کے لیے کوشش ہونی چاہیے۔
راشد انور راشد نے اپنے مجموعے ’’گیت سناتی ہے ہوا‘‘ کا انتساب وارث علوی کے نام کیا ہے اور مقدمے میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ وارث علوی کے ایک خط نے ان کے شعری رجحان کو مہمیز کرنے کا کام کیا۔ وارث نے ان کی فطرت سے متعلق شاعری پر داد دی تھی اور یہ کہا تھا کہ ناصر کاظمی کے بعد وہی ایسے شاعر ہیں جس کی شاعری میں قدرت آشکار ہورہی ہے۔ یورپ کی رومانی اور فطرت پسند شاعری میں یہ چیزیں پہلے سے موجود ہیں۔ علی گڑھ تحریک کے زیرِ اثر نیچر، نیچرل؛ یہاں تک کہ نیچری جیسے الفاظ مخصوص تناظر میں کچھ اس طرح عام ہوئے جیسے یہ ہماری زبان کے ہی الفاظ ہوں۔ سو برس سے زیادہ ہوگئے، یہ الفاظ اردو معاشرے میں ڈھل گئے مگر سچی بات یہ ہے کہ ان کا تناظر مختلف ہوگیا اور اسی وجہ سے فطرت کے مظاہر کو مرکز میں رکھ کر شعر گوئی کا رجحان اپنی زبان میں ہمیں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ بعض ترقی پسند شعرا نے رومان اور فطرت سے متعلق بہترین شاعری پیش کی مگر اس دور میں ہمارے ادب پر موضوعاتی جبر کچھ ایسا تھا جس کا علاج آسانی سے ممکن نہیں تھا۔ لہٰذا موضوعاتی دائروں میں ہمارے شعراے کرام خوب خوب بڑھے مگر مظاہرِ فطرت کی طرف توجہ کرکے باضابطہ طور پر شعر گوئی کے مزاج کو بدل دینے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی۔
راشد انور راشد نے گذشتہ دنوں جب اپنا نیا مجموعۂ کلام ’’گیت سناتی ہے ہوا‘‘ سامنے لایا تو ہمیں اپنی زبان کا وہ بھولا ہوا سبق یاد آیا۔ یوں بھی بدلتی ہوئی دنیا میں اب کائنات کو سمجھنے اور پہچاننے کے نظریوں میں تبدیلی آئی ہے۔ ماحولیاتی مسائل اور جبر نے ہماری آنکھیں کھول دیں اور ہمیں اس بات کے سمجھنے کے لیے مواقع حاصل ہوئے کہ انسانی زندگی اپنے آپ میں پوری کائنات کی دوسری مخلوقات سے بے پروا ہو کر قائم و دائم نہیں رہ سکتی۔ جانور صرف بے زبان اور بے مطلب کا کوئی ذی روح نہیں؛ پیڑ پودے، ندی نالے، زمین اور پہاڑ سب مل کر انسانی زندگی کو سہارا دیتے ہیں تب اشرف المخلوقات کے حصے میں چین اور سکون آتا ہے ورنہ کب کا سوا نیزے پر سورج آگیا ہوتا اور ہماری زندگیاں تباہ و برباد ہوچکی ہوتیں۔ ماحولیات کی اصطلاح میں اسے زندگی کا چکّر یا دائرہ (Life Cycle) کہتے ہیں۔ دنیا میں جب اس کے خطرات بڑھے اور قدرت کے انسان کے ذریعے استحصال کے موضوع پر گفتگو شروع ہوئی اوریہ سوال سامنے آنے لگا کہ کیا کائنات کی ہر چیز کا انسان بے پایاں استعمال کرسکتا ہے یا جو چیزیں ہمیں ملی ہوئی ہیں، ان میں کسی اعتدال اور توازن کی بھی ضرورت ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ انسان اور ماحول کا ایسا مشروط رشتہ ہے کہ کہیں ایک جگہ کوتاہی ہوئی اور کسی دوسری جگہ نقصان ہوگیا۔ ہم نے ایک صفحہ کاغذ استعمال کیا مگر یہ کہاں غور کیا کہ اس کے بنانے میں ہرے بھرے پیڑوں کا خونِ جگر شامل ہے۔ پیڑ زیادہ کٹے تو پہاڑ کمزور ہوئے۔ برسات کا پانی زیادہ تیز رفتار سے ہماری ندیوں میں پہنچنے لگا اور سیلاب کی تباہ کاریاں بڑھ گئیں۔ ہم نے اپنی آسانی کے لیے ندیوں کو روندتے ہوئے سڑکیں بنائیں۔ بجلی حاصل کرنے کے لیے بڑے بڑے ڈیم بنائے۔ ایک سیلاب اور ایک زلزلے سے سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ انسان پر جب خطرے بڑھے تب اسے یاد آیا کہ قدرت کے ساتھ ہمیں کھلواڑ کرنے کا حق نہیں تھا بلکہ کسی قدر کفایت شعاری کے ساتھ اس کے فیضان کا استعمال کرنا چاہیے تھا۔ ہزاروں اور لاکھوں انسانوں کی جانوں کا جب زیاں ہوا تب جاکر انسان کو یہ بات سمجھ میں آئی کہ ترقی کی اندھی دوڑ میں ہوش کے ناخن لیں۔
راشد انور راشد نے ماحولیاتی مسائل پر لمبے چوڑے مضامین تو نہیں لکھے۔ اپنے مقدموں میں بھی کسی ماہرِ ماحولیات کی طرح اعداد و شمار جمع کرکے اپنی خصوصی توجہ کا اعلان نہیں کیا۔ سچائی تو یہ ہے کہ اردو کے ادیبوں، شاعروں اور نقادوں میں شاید ایک درجن بھی ایسے افراد نہ ہوں گے جنھیں جدید ماحولیاتی مسائل کی پورے طور پر واقفیت ہو۔ اب بھی جاگیردارانہ نظام، سرمایہ دارانہ نظام، colonialism کے دائروں میں ہمارے مباحث سکڑے ہوئے ہیں۔ جمہوریت کے نئے مسائل جنھیں ہم موضوعِ بحث بنا رہے ہیں، ان میں فرقہ واریت اور صارفیت سے آگے جانا ہی نہیں چاہتے۔ ایسے میں راشد انور راشد جیسے نئے شاعر کی ایک روشِ عام سے ہٹے ہوئے موضوع سے متعلق شاعری کو بھلا کیوں کر کھلے بندوں داد ملے؟ اسی لیے قاضی عبدالستار اور شافع قدوائی کے تعریفی مقدمات کے باوجود راشد کی ان نظموں اور غزلوں کو شاید ان کی عشقیہ نظموں سے کم ہی پذیرائی حاصل ہوئی۔ یہ اسی لیے ہوا کہ نئے ماحولیاتی مسائل کے آئینے میں ہمارے نقادوں کی علمی تربیت ابھی ہونا باقی ہے۔ جمہوریت نے اس پیچیدہ دنیا کو سمجھنے کے لیے ہر قدم پر ہمیں نئے مواقع دیے اور نئے نئے اصول و ضوابط گڑھنے کے راستے ہموار کیے مگر جب تک آپ کی ذہنی تربیت اس کے موافق نہ ہوجائے، بھلا آپ اس نئی چیز کی قدردانی کا بوجھ کس طرح اٹھا پائیں گے۔
راشد انور راشد کی ان ماحولیاتی نظموں غزلوں کو پڑھیے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم کسی نئے نظامِ شمسی میں پہنچ گئے ہیں جہاں پیڑ پودے، ندی نالے، چرند پرند، سورج چاند، پھول پھل، دھوپ اور بارش؛ سب کچھ ایک زندگی بہ داماں بلکہ آزاد اور مقصود بالذات زندگی جیتے نظر آتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے اس خطّۂ ارض پر انسان دکھائی دیتے ہیں۔ انسان اور جن سے آگے بڑھ کر راشد انور راشد نے خدا کی اس بنائی ہوئی زمین پر نئے ساجھی دار اور ساتھی تلاش کرلیے ہیں۔ یہ دوستی اس لیے علاحدہ معنویت رکھتی ہے کیوں کہ اس کے بطن سے زندگی اور کاینات کو پرکھنے اور سمجھنے کا نیا تصوّر برآمد ہوتا ہے۔ یہاں قدرت کے مظاہر صرف تصرّفات کے لیے نہیں بلکہ وہ ہماری زندگی کا ایک ناقابلِ تقسیم حصّہ ہیں۔ راشد انھیں یوں ہی چلتے پھرتے اور ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے پیش نہیں کرتے۔ اس شعری عمل کو صرف پیکر تراشی یا Personification قرار دے کر چھوڑ دینا بے انصافی ہوگی کیوں کہ یہاں اردو شاعری ایک نئے فکری علاقے میں داخل ہوتی ہوئی نظر آتی ہے جس کا اقرار ہماری زبان کی وسعتوں میں اضافے کا باعث ہوگا۔
اس انتخاب میں شامل راشد انور راشد کی غزلوں سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔ ردیفوں میں وادیِ گل، درخت، گلاب، پھول، پتّے، چاندنی، چھانو، دھوپ، سورج؛ آسمان، خاک، پانی، ہوا، زمین؛ رات، شب، صبح، شام؛ ندی، پہاڑ، آبِ رواں؛ ریگستان، گردوغبار، جنگل جیسے مخصوص الفاظ کا استعمال ہمیں شاعر کے مکمل معنیاتی نظام پر غور کرنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ کیا یہ الفاظ بے ارادہ شعر میں داخل ہوگئے ہیں؟ کیا تخلیقِ شعر کی لاشعوری کیفیت یہاں حاوی رہی یا یہاں فکر و اسلوب کی کوئی نئی جہت کی تلاش میں سرگردانی کا عمل بھی واضح ہوتا ہے؟ غزل کے لفظیاتی نظام میں ردیفوں کی جگہ کچھ اس قدر مخصوص ہے کہ شاعر نے اُسے بے ارادہ بھی باندھ لیا تو اپنے آپ اُس کی معنوی دنیا بھی برآمد ہوجاتی ہے۔ غزل کے بعض نقّاد اِسے غزل کی تنگ دامانی قرار دیتے ہیں مگر ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تخلیق کار کوئی کاٹھ کا گھوڑا نہیں ہوتا۔ اُسے بے جان کہے جانے والے لفظوں سے ایک پوری معنوی فضا تیّار کرنے کا نشانہ ملا ہوتا ہے۔ اسے لفظ و معنی کے رشتوں کا بھی پتا ہے۔ اس لیے ایک لفظ بھی بے ارادہ یا لاشعوری طور پر اس کے متن میں داخل نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح اس انتخاب کی نظموں کے عنوانات بھی خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں۔ کہرے میں ابھرتی پرچھائیاں، جھیل اور دائرہ، گرداب، دھوپ ایسی تو نہیں تھی پہلے، چاند خفا سا لگتا ہے، ندی کو دیکھ کر، گانو کی الّھڑ ندی، ہوا بے چین ہے، شام کی اڑان، پیڑ کٹتے جارہے ہیں، املی کا پیڑ اور پشتینی مکان، سمندر چیختا رہتا ہے، سمندر کی بے تاب لہریں اور تم، جنگل کی لکڑیاں، وقت کی دھوپ، تارو! میری مدد کرو، مٹّی کی خوشبو، گل اور بلبل کا قصّہ –– راشد انور راشد نے اپنی نظموں کے عنوانات قائم کرنے میں ایسے لفظوں کا ایک نگارخانہ مرتّب کردیا ہے۔ غزلوں کی ردیفیں ہوں یا نظموں کے یہ عنوانات؛ شاعر نے ارادتاً ایک ایسا لفظیاتی دائرہ بنایا ہے جس میں نظامِ قدرت اپنے مظاہر کو فیاضانہ لُٹا رہا ہو۔ مشاہدے کی سطح پر شاعر کا یہاں کام یہ ہے کہ وہ آنکھیں کھول کر چہار سو ملاحظہ کرے اور اسے اپنے شاعرانہ وجدان کا حصّہ بنائے۔ راشد انور راشد نے صرف دو آنکھوں سے ان مظاہر کو نہیں دیکھا۔ میرؔ کو دیواروں کے بیچ چہرے نظر آتے تھے، راشد بھی دل و جان میں نہ جانے کتنی آنکھیں پیوست کرکے قدرت کے نظام کو اور اس کی ہزار چہرگی کو دیکھنا اور دکھانا چاہتے ہیں۔
یہاں آمد اور آورد کی کوئی بحث نہ قائم کردے، اس سے پہلے محمد تقی میرؔ سے رجوع کرکے راشد انور راشد کے کام پر گفتگو کرنی چاہیے۔ ڈاکٹر عبدالرشید نے ’’فرہنگِ کلامِ میر‘‘ میں میرؔ کے تمام دواوین سے اشعار انتخاب کرکے یہ واضح کیا ہے کہ میر نے دورانِ شعر گوئی خان آرزو کی لغت ’’چراغِ ہدایت ‘‘ سے باضابطہ طور پر استفادہ کیا تھا۔ الفاظ، تراکیب اور ان کے مخصوص معنوی تناظر پر غور کرتے ہوئے یہ حیرت ہوتی ہے کہ میرؔ نے شعر بنانے کے لیے کیسے کیسے جہان کی سیر کی اور غیر آزمودہ دنیاؤں کو اپنے تخلیقی مراحل میں شامل کرکے اردو شاعری کو نئے رنگ و آہنگ عطا کیے۔ میرؔ کی مثال اس لیے بھی ضروری تھی کہ ہمارے ذہن کا ایک آدھ نیا دریچہ کھُل سکے اور ہم یہ سمجھ سکیں کہ شاعر ہمارے ہر بنے بنائے اصول کو جی لگا کر توڑتا ہے اور اپنے شعر کو پرکھنے کے لیے بالکل نئے اصول بنانے کے لیے نقّاد اور قاری کو مجبور کرتا ہے۔ اس لیے راشد کی شاعری کو سمجھنے کے دوران ان کی شعوری کاوشوں کو ادب سے باہر یا غیر تخلیقی عمل قرار دینے کی بے احتیاطی نہیں برتنی چاہیے۔
راشد انور راشد نے اپنے اندازِ شعر گوئی سے اپنے عہد کے نقّادوں کا امتحان لیا ہے۔ اگر غفلت میں رہیے یا تنقیدی غرور میں مبتلا ہوکر ایسے سرمایۂ شعر کو ملاحظہ کیجیے تو شاعر کے اُس کامیاب تجربے کی داد شاید ہی دے پائیں گے۔ اس وقت شاعر کا وہ کمال بھی نظر میں کہاں سما پائے گا جس کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا جاسکے کہ یہ شاعر ہمارے افقِ شعر کی توسیع کرنے کا گراں قدر فریضہ انجام دے رہا ہے۔ کہتے ہیں، خدا نے انسان، جن، جمادات و نباتات کو ’’دردِ دل‘‘ کے واسطے پیدا کیا۔ راشد کے یہاں تمام مخلوقاتِ ارضی و سماوی کچھ اس طرح یکجا اور متّحد نظر آتے ہیں جیسے خدا نے تشکیلِ کاینات کا منصوبہ بنایا تھا۔ یہاں صرف انسان اور صرف درخت، صرف ندی نالے اور صرف چاند سورج نہیں بلکہ یہ سب ایک دوسرے کی زندگیوں میں اس طرح شیر و شکر ہوگئے ہیں اور لازم و ملزوم معلوم ہوتے ہیں کہ انھیں نہ صرف یہ کہ الگ تھلگ نہیں کیا جاسکتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک دوسرے کی زندگی میں یہ اس طرح پیوست ہیں کہ الگ کرتے ہی بکھر جائیں گے یا اپنی حیثیت اور شناخت سے ہی محروم ہوجائیں گے۔
اس انتخاب میں راشد انور راشد کی ایک غزل شامل ہے جس کی ردیف میں ’درخت‘ لفظ شامل ہے۔ اس کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے تاکہ شاعر کے جہانِ معنیٰ تک پہنچا جاسکے:
ذرا سی بات پہ آنگن کا کٹ گیا تھا درخت
تو سب نے خواب میں دیکھا کہ رو رہا تھا درخت
گئے زمانے کا قصہ نہیں یہ کل کی ہے بات
پرند گاتے تھے لوری، ہرا بھرا تھا درخت
اسی جزیرے کی کرنی ہے سیر ہم کو بھی
جہاں پہ خلقِ خدا چپ تھی بولتا تھا درخت
چہار سمت سے اب کاٹتا ہے جنگل کو
یہی قبیلہ کسی وقت پوجتا تھا درخت
نہ کرسکا وہ مسافر کا دل سے استقبال
خود اپنی چھاؤں سے محروم تھا درخت
وہ جس کا نام ہے گوتم، وہ کیوں نہیں آتا
ہر ایک یوگی سے ہربار پوچھتا تھا درخت
میں شہر چھوڑ کے قصبے میں جب سے آیا تھا
بڑے ہی پیار سے مجھ کو نہارتا تھا درخت
بھری بہار میں شاخیں ہوئیں ہیں کیوں عریاں
خزاں میں دیکھا تھا ہم نے بہت گھنا تھا درخت
تو یہ ہوا کہ ہواؤں کی زد میں آہی گیا
سنبھلتا کیسے کہ کمزور ہوگیا تھا درخت
درخت کا کٹ جانا، درخت کا رونا، ہرا بھرا درخت تھا اور پرند لوری گاتے تھے، درخت کا بولنا، درخت کو پوجنے والی قوم کا جنگل کاٹنا، درخت کا اپنی ہی چھانو سے محروم ہوجانا، درخت کا گوتم (بدھ) کی تلاش کرنا، درخت کا پیار سے نہارنا، درخت کی شاخوں کا عریاں ہونا، درخت کا کمزور ہوجانا اور ہوائوں کی زد میں وجود کا زیاں —— یہ غزل کے اشعار ہیں۔ بھلا کوئی مضمون لکھے یا نئے پرانے سرمایۂ اطلاعات کو یکجا کرکے کوئی صحیفہ تیّار کردے؛ اس سے زیادہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ نظیرؔ اکبر آبادی کی بعض نظموں کو پڑھتے ہوئے اکثر ہم حیرت میں مبتلا ہوتے ہیں کہ اُس موضوع سے متعلق اس سے زیادہ کیا کہا جاسکتا ہے۔ قوتِ مشاہدہ کے ساتھ انسانی زندگی کے ہر پہلو سے موازنہ و مقابلہ، تعلّق و مغائرت کا ایک ایسا جذباتی اور نفسیاتی معاملہ ہے جس سے شاعری مالامال اور وقیع ہوتی جاتی ہے۔ راشد نے درخت کی کیفیت کی اتنی ظاہری اور باطنی پرتیں وا کی ہیں کہ درخت ہمارے معاشرے کا عمومی ہی نہیں، ایک خاص فرد معلوم ہوتا ہے اور اس کے جذبات و احساسات بھی انسانی زندگی سے بالکل گٹھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
راشد انور راشد کی ایک مشہور غزل ہے جس کی ردیف میں لفظ ’’ہوا‘‘ شامل ہے۔ اسی غزل کے ایک شعر سے انھوں نے ’’گیت سناتی ہے ہوا‘‘ منتخب کرکے اپنے شعری مجموعے کا نام مقرّر کیا ہے۔ اس غزل کے اشعار اُن کے نئے مزاجِ شعر کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں:
کیا کوئی یاد ترے دل کو دکھاتی ہے ہوا
سرد سناٹے میں کیوں شور مچاتی ہے ہوا
یہ خبر دی ہے پرندوں نے چلو سنتے ہیں
جھیل کے پاس کوئی گیت سناتی ہے ہوا
جو گیا، لوٹ کے آیا ہی نہیں سرحد سے
اب کسے دشت میں آواز لگاتی ہے ہوا
’ہَوا‘ ہماری زندگی میں کیا کیا کرتی ہے اور ہمیں کس کس روپ میں نظر آتی ہے، اس کا ایک مختصر گوشوارہ ملاحظہ کیجیے: ہوا کا دل کو ُدکھانا، شور مچانا، گیت سنانا، آواز لگانا، پھول کھلانا وغیرہ انداز ہی کم نہیں تھے مگر راشد اس سے بڑھ کر اظہار کے پہلو تلاش کرتے ہیں:
باغ مرجھائے، چمن رویا، ہوئے دشت اُداس
سب کو مایوس کہاں چھوڑ کے جاتی ہے ہوا
خوشبوؤ آؤ، ٹھہر جاؤ ہمارے آنگن
پھر اشاروں میں بہاروں کو بلاتی ہے ہوا
یہ ہوا کا انوکھا روپ ہے۔ انسانی زندگی کا یہ ایسا ساتھی ہے جو بہر طور ہمیں آخر آخر تک سہارا دے گا۔ قدرت کے یہ اَن دیکھے عطایات ہماری زندگی کو کتنے محبوبانہ انداز میں متاثر کرتے ہیں، اس پر راشد نے نہ صرف یہ کہ توجّہ دی ہے بلکہ اسی خاص انداز سے اس کا استقبال کیا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا تو راشد بھلا ایسے اشعار کیسے پیش کرسکتے تھے:
جھنڈ میں لوٹنے لگتے ہیں سنہرے پنچھی
سوکھتی شاخوں پہ جب پھول کھلاتی ہے ہوا
خیر مقدم کے لیے بند دریچے کھولو
ناز و انداز سے، کس شان سے آتی ہے ہوا
ان اشعار میں انسانوں کا صارفی تصوّر نہیں ہے بلکہ نظامِ قدرت کے دو وجود ایک دوسرے کی زندگی میں معاونت اور ہم رشتگی کے پیمانے اُچھالتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایک غزل کی ردیف میں ’زمین‘ اور ایک غزل میں ’خاک‘ کی شمولیت بھی توجّہ طلب ہے۔ جس شاعر کی ماحولیاتی سوجھ بوجھ اس قدر ہو، اس سے یہ توقع ہوگی ہی کہ زمین اور خاک کو بھی موضوع بنائے یا ردیف میں آزما کر دادِ سخن لے۔ راشد نے مطلعے میں ہی عہدِ نو کے معاملات شامل کردیے ورنہ یہ مصرع کیسے شعر کا حصّہ بنتا:
مگر نظارہ جو دیکھا تو ڈر گئی تھی زمیں
اب اس سے بڑے مسئلے زیرِ بحث ہوتے ہیں۔ خاص بات ’شہرکاری‘ اور ’شجر کاری‘ کے آپسی تصادمات کے حوالے سے سامنے آتی ہے۔ شاعر نے شعر بنایا:
کچھ عرصہ پہلے یہاں کھیت لہلہاتے تھے
اور اب جو دیکھا مکانوں سے بھرگئی تھی زمین
اسی غزل میں ایک عجیب و غریب شعر بھی کس عالم میں شاعر نے کہا ہے، معلوم نہیں مگر اس معصومیت اور لگاو سے بہت کم شعر کہے جاتے ہیں۔ راشد کا کمالِ فن ملاحظہ کیجیے:
عجیب دُھن تھی اسے آسماں سے ملنے کی
ہر ایک ذرّے نے روکا مگر گئی تھی زمین
زمین کی مختلف کیفیات کے ساتھ ’خاک‘ والی غزل کے اشعار شاعر کی کچھ دوسری کیفیات کا احاطہ کرتی ہے۔ یہاں زندگی نئی صورتوں کے ساتھ محاورۂ زبان کے مختلف فیہ استعمال سے بھی لطف پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ مصرعے شاعر کی قدرتِ کلام کا ثبوت ہیں:
1 آگئی چپکے سے اب کے مرے دالان میں خاک
2 غور سے دیکھا تو قابض تھی دل و جان میں خاک
3 اب تو داخل ہوئی انسان کے ایمان میں خاک
یہاں زبان کے رسمی اطوار کے ساتھ عصرِ حاضر کے کچھ مسائل بھی اپنے آپ بیان کے مرحلے میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس غزل کے درج ذیل اشعار شاعر کے ذہن کو سمجھنے کے لیے معاون ہوسکتے ہیں:
خواہشیں چاک پہ رکھی ہیں کہ صورت اُبھرے
گرد کے ساتھ ملی ہے مرے ارمان میں خاک
بھاگتی دوڑتی دنیا میں کسے فرصت ہے
جمتی جاتی ہے یہاں میرؔ کے دیوان میں خاک
جانے کیا گزرے گا اب قیس پہ اﷲ جانے
ریت صحرا میں نہیں اور نہ بیابان میں خاک
پہلے شعر سے آخری شعر تک تعمیر کے ساتھ تخریب اور خواب کے ساتھ حقیقت کی صورتیں کچھ اس طرح ابھرتی ہیں کہ زندگی اور فریبِ زندگی کے تفکّرات از خود روشن ہونے لگتے ہیں۔ شاعر خاک کی اتنی نئی صورتیں سامنے لاتا ہے کہ انسان ششدررہ جاتا ہے۔ ارمان میں خاک کا شامل ہونا اس وقت جب خواہشیں تعمیرِ نو کے جتن کر رہی ہوں، ایک تکلیف دہ صورت کا بیان ہے۔ اس سے بڑھ کر شاعر کے ذہن میں یہ احساس ستاتا رہتا ہے کہ نئی زندگی بھاگ دوڑ سے عبارت ہے جہاں میرؔ یا کسی دوسرے شاعر کے مطالعے کی کسے فرصت ہے؟ اسی لیے میرؔ کے دیوان پہ خاک جمتی جارہی ہے۔ عہدِ نو کے علاحدہ مسئلے کی طرف شاعر کا ذہن اس غزل کے آخری شعر میں پہنچا ہے جہاں قیس کی یاد دلائی گئی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ’ریت صحرا میں نہیں اور نہ بیابان میں خاک‘ کی صورتِ حال ہے۔ ایسے میں قیس یا کسی عاشق یا کسی جاں فروش کا کیا ہوگا؟ راشد انور راشد کے خیالِ شعر کا یہ خوب انداز ہے کہ عصرِ حاضر کے پیچیدہ مسئلوں میں عاشقانہ اور روایتی موضوعات کو یکسر نہیں بھولتے اور ان کے لیے کوئی انوکھا موقع تلاش کرلیتے ہیں۔ ایک اچھے شاعر کا یہ ہنر ہمیں موضوعاتی سطح پر بار بار چونکاتا ہے اور ہم شاعر کی مہارت پر داد و تحسین کے بغیر رَہ نہیں سکتے۔ یہاں ایک ساتھ روایت اور جدت، رومانیت اور کلاسیکیت کے جلوؤں کے ساتھ نئے موضوعاتی نتائج ہمیں اس نئے شعری سرماے پر مزید توجّہ کے ساتھ گفتگو کرنے کے لیے راغب کرتے ہیں۔
’پانی‘ ردیف کی غزل میں راشد انور راشد ایک ساتھ عصری مسائل کی گوناگوں تصویریں اُتارتے ہیں اور نئی نئی صورتوں کو شعرمیں ڈھالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ایک اختراعی ذہن کے شاعر کا کمال بھی یہاں واضح ہورہا ہے جب وہ اپنے موضوعات کو زبان کے کلاسیکی اوزاروں کے ساتھ ہم رنگ کرتے ہیں۔ اس غل میں محاورۂ زبان کے کھیل تماشے کچھ اتنی دل پذیری کے ساتھ شامل ہوئے ہیں کہ ہمیں شاعر کے چوطرفہ ہوش مند ہونے کا یقین ہوجاتا ہے ورنہ یہاں ممکن تھا کہ صرف ماحولیات ہی تابع ہوتا یا پھر زبان کے شاعر ہونے پر اکتفا کرنا پڑتا مگر راشد انور راشد نے انجمنِ خیال اور طلسمِ خیال کا سفر مکمل کرلیا ہے۔ یہاں چند مصرعے ملاحظہ کیجیے کہ شاعر نے ’پانی‘ کے حوالے سے کیسے کیسے محاورے استعمال کیے ہیں:
کردیا جس نے ہزاروں کا کلیجہ پانی
پھر تو یہ حال ہوا، ٹوٹ کے برسا پانی
میں نے بروقت ستم گر کو پلایا پانی
راس آنے لگا ہے مجھ کو یہاں کا پانی
راشد انور راشد صرف محاورۂ زبان کی شاعری تک خود کو محدود رکھتے تو انھیں ہمارے دور میں کیوں کر داد ملتی مگر وہ ہر صورت میں نئے تقاضوں اور مضامین کو شامل کرکے اپنے شعر مکمل کرتے ہیں۔ اس لیے اسی غزل میں انھوں نے اوّلاً ایسے دلآوی عاشقانہ اشعار شامل کیے جنھیں ہم داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے:
عشق کی آب و ہوا بھائی طبیعت کو بہت
مل گیا شہر میں دیوانے کو دانہ پانی
کاش معصوم صفت لوگوں کو معلوم تو ہو
تو نے کاٹا تو کسی نے بھی نہ مانگا پانی
بسترِمرگ پہ ہیں تیری محبت کے مریض
تو پلادے انھیں نظروں کا ذرا سا پانی
راشد انور راشد کی ایک خاص صفت یہ بھی ہے کہ وہ محاورۂ زبان اور عاشقانہ معمولات کی پیش کش کے مرحلے میں عصری مضامین سے دست بردار نہیں ہوتے۔ ان کی زنبیل میں کچھ نہ کچھ نئے مضامین اور نئے مسائل ضرور ہوتے ہیں۔ یہاں ان کی ’’ماحولیات شناسی‘‘ ہمیشہ سہارا دیتی ہے اور وہ نئے نکتے پیش کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ چند شعر اس قبیل کے بھی ملاحظہ ہوں:
ڈھونڈھ لیں سب کوئی محفوظ ٹھکانا، ورنہ
کچھ نہ کرپائیں گے بستی میں جو آیا پانی
ذائقہ کیوں ہے الگ، اب یہ سمجھ میں آیا
بدلی تھی آب و ہوا اس لیے بدلا پانی
تم تو کہتے تھے کہ اب سوکھ گئی ہے وہ ندی
سخت موسم میں بھی ہے یاں تو غضب کا پانی
راشد کی ماحولیات شناسی کا سلسلہ نظموں میں بھی اسی سلیقے سے دکھائی دیتا ہے۔ غزلوں کی ایک مانوس اور آزمائی ہوئی قید و بند کی دنیا ہے مگر نظموں میں ہر نئے موضوع کو ضروری صراحت سے پیش کرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ راشد نے نظموں کے مزاج کو سمجھ کر غزلوں سے مختلف انداز سے ان مسئلوں کو پیش کیا ہے۔ یہاں مناظر کی تفصیل بڑھی ہے۔ سوال و جواب، مکالمے، تاثرات، ردعمل وغیرہ کے اضافے سے کچھ مختلف صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ غزلوں میں مباحثے کے امکانات براے نام تھے؛ نظموں میں اس کے لیے گنجایشیں نکالی گئی ہیں۔ ہر چند نظمیں مختصر اور مختصر تر ہیں مگر جہاں جہاں ضروری معلوم ہوا، شاعر نے نئی توجیحات پیش کرنے سے گریز کی خو، نہیں اپنائی۔ یہاں معصوم لہجے، زندگی اور کاینات کے تئیں پُرخلوص توجہ، گھر سے لے کر امنِ عالم کے مسائل تک کی شمولیت وغیرہ امور کچھ اس سلیقے سے شاعری کا حصّہ بنتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں راشد انور راشد کی غزلوں کے ساتھ ساتھ نظم نگاری کے لیے بھی مہارت کی انھیں داد دینی پڑتی ہے۔
راشد انور راشد کے ماحولیاتی کلام کے ساتھ ساتھ ان کی عاشقانہ نظموں اور عمومی غزلوں کے بارے میں اگر اجمالی گفتگو بھی نہ کی جائے تو اسے بے انصافی ہی کہا جائے گا۔ انھوں نے جب اپنی عشقیہ شاعری کا مجموعہ شایع کیا تو اکثر ناقدین و قارئین چونک گئے کیوں کہ یہ شاعری اس کو، اپنے عہد کی سفّاکیوں کو اور بڑے بڑے موضوعات کو شعر میں داخل کررہے تھے، اس زمانے میں راشد نے عاشقانہ موضوعات اٹھائے اور پورا ایک مجموعہ ایسی شاعری کا پیش کردیا۔ اس سے بڑھ کر یہ بات بھی قابلِ توجّہ ہوئی کہ عاشقانہ شاعری کے مجموعے میں فاسقانہ اشعار کہیں ڈھونڈے سے بھی نظر نہیں آرہے تھے۔ جب کہ ہمارے یہاں رواج ہے کہ کسی بہانے سے ہم شعر میں فاسقانہ امورکو شامل کرکے اضافی لطف و انبساط اور لذّت کوشی میں مبتلا ہوجائیں۔ راشد نے اپنی عاشقانہ شاعری کو ہماری عمومی زندگی کے دائرے میں رکھ کر دیکھنے کی کوشش کی۔ لوگوں نے حسرت موہانی کی غزلوں کو اسی انداز کے لیے داد دی تھی، راشد نے بڑی تعداد میں ایسی تخلیقات پیش کیں، کبھی وہ وقت آئے کہ انھیں بھی اُسی طرح داد و تحسین سے نوازا جائے۔
***
صاحب مقالہ کی گذشتہ نگارش: میر کی سہ صدی: میں میر میر کر اُس کو بہت پکار رہا

شیئر کیجیے

One thought on “ذرا سی بات پہ آنگن کا کٹ گیا تھا درخت

  1. راشد انور راشد کی شاعری اور شخصیت کے حوالے سے عمدہ مقالہ۔۔۔۔۔ صفدر امام قادری نے باریک بینی سے موصوف کی شعری کائنات اور فکری جہات کا جائزہ لیا ہے اور جس طرح ان کی فہم اور تخلیقیت پر روشنی ڈالی ہے وہ اہم ہے ۔ ایسے پر مغز مضمون کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہئے ۔
    صفدر امام قادری کو دلی مبارکباد ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے