کتاب: ایک فکشن نگار کا سفر 

کتاب: ایک فکشن نگار کا سفر 

مترجم         :  رضوان الدین فاروقی 
صفحات       :  136
قیمت           :  250/ روپے 
طابع و ناشر  : اثبات پبلیکیشنز (ممبئی)، موبائل نمبر،
+91 93722 47833
سنہ اشاعت  : 2023
مبصر           : محمد اشرف یاسین
E-66 دوسری منزل، شاہین باغ، ابو الفضل انکلیو، نئی دہلی 25
رابطہ: 8750835700

شمس الرحمٰن فاروقی (1935-2020) اُردو ادب کے ایک بلند پایہ نقاد، مدیر، مبصر اور مصنف ہیں۔ انھوں نے شعر و شاعری (مجموعۂ کلام، "سبز اندر سبز" ہے، جب کہ "چار سمت کا دریا" ان کی رباعیات کا مجموعہ ہے۔) کی اور اُردو زبان و ادب کے قارئین کو "سوار اور دوسرے افسانے"، جیسا عمدہ افسانوی مجموعہ بھی دیا۔ "کئی چاند تھے سرِ آسماں" و "قبضِ زماں" جیسے ناول بھی تحریر کیے۔ "شعرِ شور انگیز" (چار جلدیں) میں میر تقی میر ( 1723-1810) کے منتخب اشعار کی تشریح لکھی، جب کہ غالب کے منتخب 138/ اشعار کی تشریح "تفہیمِ غالب" میں پیش کی۔ "ساحری، شاہی، صاحب قرانی" (پانچ جلدیں) میں داستان امیر حمزہ (چھیالیس جلدوں) کی تلخیص پیش کی، جب کہ "لغاتِ روزمرہ" کے نام سے ایک لغت بھی مرتب کیا۔ ارسطو (384ق م -322 ق م) کی کتاب پوئٹکس (Poetics) کے علاوہ بھی بہت سارے تراجم کیے۔ (جس کی تفصیل کے لیے "تراجمِ فاروقی" : مرتب اشعر نجمی دیکھی جا سکتی ہے۔) انھوں نے الہ آباد (موجودہ نام پریاگ راج) سے اپنا رجحان ساز رسالہ "شب خون" جاری کیا، جو پورے چالیس سال تک نکلتا رہا۔ اس کے ٹوٹل 299/شمارے منظرِ عام پر آئے۔ لیکن اُردو ادب میں ان کی شہرت و مقبولیت کا سبب ان کی تنقیدی کتابیں اور مضامین ہیں۔ 1996 میں "شعرِ شور انگیز" پر فاروقی صاحب کو سرسوتی سَمَّان اور 2009ء میں حکومتِ ہند کی طرف سے پدم شری جیسے اعزازات سے نوازا جاچکا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے بھی انھیں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری دی گئی۔
شمس الرحمٰن فاروقی نے "غالب افسانہ"، (مرزا اسد اللّٰه خاں غالب کی زندگی پر مبنی)، [ یہ افسانہ "بینی مادھو رسوا" کے فرضی نام سے لکھا۔] "ان صحبتوں میں آخر"، (میر تقی میر کی زندگی پر مبنی)، "آفتاب زمین"، (غلام ہمدانی مصحفی کی زندگی پر مبنی)، "سوار"،(اس کا مرکزی کردار دہلی ہے۔)، [یہ افسانہ "عمر شیخ مرزا" کے فرضی نام سے لکھا۔] جیسے افسانے لکھنے کے پیچھے بنیادی وجہ یہ بتائی ہے کہ "غالب کے بارے میں دو بیانیے ملتے ہیں۔ مالک رام صاحب کا، فرحت اللّٰه بیگ کا "دہلی کی آخری شمع" دوسرا ایسا بیانیہ تھا، جو میرے ذہن میں تھا۔ اس میں غالب کے مشاعروں کا تذکرہ ہے۔ اسے لوگ سچ مانتے ہیں، مگر وہ خیالی ہے." (صفحہ نمبر 77) فاروقی صاحب نے ایک دوسری جگہ کہا کہ "اپنے بڑھاپے میں میر نے ایک غزل لکھی تھی۔ اس زمانے میں دلّی میں آرمینین بہت تھے۔ ان کا چرچ تھا، قبرستان بھی تھا وہ ابھی بھی ہے۔ حالانکہ اب لٹا پٹا ہے ۔۔۔۔۔۔ اسی غزل کا ایک شعر یوں ہے:
کیسی سرخ و سفید نکلی تھی
مئے بھی دخترِ ارمن کی ہے
(صفحہ نمبر 82)
اسی ایک غزل کی بنیاد پر تخیّل کی پوری عمارت تعمیر کرکے فاروقی صاحب نے میر پر پورا افسانہ لکھ ڈالا۔ مصحفی کے بارے میں افسانہ لکھنے کی وجہ بتاتے ہیں کہ "وہ بڑا رنگین آدمی ہے۔ اس نے لڑکیوں اور لڑکوں دونوں سے ہی عشق کیا۔ دونوں طرح کی شاعری اس کے یہاں ہے۔ میں نے سوچا اس کے بارے میں لکھوں۔" (صفحہ نمبر 89)، وزیر خانم کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے فاروقی صاحب نے بتایا کہ "انھوں (مالک رام) نے وزیر خانم کی یہ تصویر بنائی کہ وہ ہرجائی اور بدمعاش قسم کی عورت تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر مجھے اس کے کردار میں چمک دکھائی گئی تھی۔" (صفحہ نمبر 112)، اس پورے انٹرویو میں فاروقی صاحب نے اُدین واجپئی کے سامنے وقفے وقفے سے اپنی کئی شخصی کمزوریوں کا اعتراف بھی کیا ہے۔ جیسے یہ کہ وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرنے میں قیل و قال نہیں کرتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ "میں نے ایک جگہ یہ لکھ دیا تھا کہ میں ناسخ کو شاعر نہیں مانتا، کیوں کہ ان میں نثریت بہت ہے، شاعری کم۔ اس پر میں نے عوامی طور پر کان پکڑ کر معافی مانگی۔ اب میں کہتا ہوں کہ جو آدمی ناسخ کی شاعری کا لطف نہیں لے سکتا، وہ اُردو کے کلاسیکل ادب کی ثقافت کو نہیں سمجھ سکتا ہے، نہ اس سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔" (صفحہ نمبر 92)، واضح رہے کہ فاروقی صاحب نے”شہر زاد" کے فرضی نام سے اپنے رسالے "شب خون" کے لیے کئی تراجم کیے اور "جاوید جمیل" کے فرضی نام سے بھی کہانیاں لکھیں۔ اسی کتاب کے مطالعے سے مجھے علم ہوا کہ ناسخ کے معشوق مرزائی خان تھے اور ٹکسال کو دارالضرب کہتے ہیں۔ ضرب کے معنیٰ ہے، ٹھپا لگانا۔ عربی میں اس کا مطلب مارنا ہوتا ہے۔ دارالضرب یعنی مارنے کی جگہ۔ مرزائی خان نے ناسخ سے کچھ پیسہ منگوایا۔ انھوں نے پیسہ ضرور بھیجا، لیکن ساتھ میں فارسی کا ایک شعر بھی لکھ بھیجا۔ 
چہ حاجت از زر و دینار داری
کہ دارالضرب در شلوار داری
فاروقی صاحب نے دہلی والوں پر بات چیت کرتے ہوئے ایک جگہ یہ بھی کہا کہ "دلّی میں دلّی والا کون تھا؟ غالب آگرے سے آئے تھے، میر بھی، لے دے کر ذوق کو آپ دلّی والا ماننا چاہیں تو مان لیجیے۔ لیکن ان کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے والد نائی تھے۔ مؤمن کے والد کشمیر سے آئے تھے، تو وہ بھی دلّی والے نہیں تھے۔" (صفحہ نمبر 88)
کتاب میں جگہ جگہ فاروقی صاحب کے نئے پرانے کئی دوستوں اور "شب خون" کے ساتھیوں کا بھی ذکر آیا ہے، جیسے "طفیل"، "ابرار خان"، "نَیَّر مسعود"، "عبدالحفیظ"، "سعد"، "کبیر احمد جائسی"، "حامد"، "جعفر رضا"، "محبوب فاروقی" (رسالہ آجکل کے سابق مدیر اور مشہور داستان گو محمود فاروقی کے والد)، "یعقوب" اور "ارشاد حیدر" وغیرہ، اُردو زبان و ادب کی خدمت کے لیے اب تک کل تین لوگوں کو ہی سرسوتی سَمَّان دیا گیا ہے، جن میں سے شمس الرحمٰن فاروقی (1935-2020) اور نَیَّر مسعود (1936-2017) دونوں ہی دوست اس اعزاز کے مستحق قرار پائے، حسنِ اتفاق ان دونوں ہی کے افسانوں میں خواب کو مرکزیت حاصل ہے۔ اس سلسلے کی تیسری شخصیت عصمت چغتائی (1915-1991) کی تھی، جنھیں یہ ایوارڈ دیا گیا، واضح رہے کہ یہ ایوارڈ 1990 کے آس پاس شروع کیا گیا تھا۔
زیرِ تبصرہ "ایک فکشن نگار کا سفر" نامی یہ کتاب بہت عمدہ اور انکشافی نوعیت کی ہے۔ اس میں فاروقی صاحب نے اُدین باجپائی سے اپنی تخلیقات اور ان کے چنندہ کرداروں کے بارے میں بہت ہی کھل کر گفتگو کی ہے۔ فاروقی صاحب کی جملہ تخلیقات پر اس کتاب سے پہلے اتنی مفصل گفتگو کسی دوسری کتاب یا کسی انٹرویو میں نہیں ملتی۔ جس طرح سے مرزا اسد اللّٰه خاں غالب ( 1797-1869) نے اپنے خطوط میں اپنے بعض اشعار کی تشریح کی ہے، اسی طریقے سے فاروقی صاحب نے بھی اپنے اس انٹرویو میں اپنی تخلیقی کائنات اور کرداروں کے تاریخی ناموں کی وجوہات پر بھر پور روشنی ڈالی ہے۔ پورے وثوق سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ کتاب کی اسی انفرادیت کی وجہ سے یہ تفہیمِ فاروقی اور تخلیقاتِ فاروقی کا ایک اہم اور بنیادی ماخذ ہے۔ استادِ محترم جناب پروفیسر خالد جاوید (1960) نے بھی اپنی تقریظ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ "میرے خیال میں اگر شمس الرحمٰن فاروقی کے تخلیقی ذہن اور ان کے علمی و تہذیبی نیز اخلاقی کردار کی مختلف پرتوں کو سمجھنا ہو تو اس گفتگو سے بہتر دوسرا کوئی ماخذ نہیں ہوگا۔" (صفحہ نمبر، 10) 2017 میں براؤن بُک پبلی کیشنز، نئی دہلی سے شائع ہونے والی ڈاکٹر رشید اشرف کی کتاب "کئی چاند تھے سرِ آسماں ایک تجرباتی مطالعہ" (اشاعت، 2017) کی حیثیت بھی فاروقی صاحب کے اس ناول کی تفہیم کے سلسلے میں ثانوی ماخذ کی ہے۔ 
کتاب کے صفحہ نمبر 109 کی سطر نمبر 02 پر درج ایک شعر 
آنکھیں دکھلاتے ہو، سینہ تو دکھاؤ صاحب 
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے، جو مال اچھا ہے
میرے علم کے مطابق یہ شعر امیر مینائی (1829-1900) کا ہے، لیکن فاروقی صاحب نے اسے داغ دہلوی (1831-1905) کی طرف منسوب کیا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ شعر داغ ہی کا ہو۔
کتاب کے مترجم رضوان الدین فاروقی اس بہترین ترجمے کے لیے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ انھوں نے بامحاورہ زبان میں اچھا ترجمہ کیا ہے۔ مجموعی طور پر اس کتاب میں پروف ریڈنگ کی کچھ کمیاں رہ گئیں ہیں۔ بہت قوی امکان ہے کہ آئندہ اشاعت میں ان کو دور کردیا جائے۔ 
مجموعی طور پر کتاب کی ضخامت 136 صفحات ہیں اور اس کی قیمت 250 روپے مجھے کچھ زیادہ لگتی ہے۔ میرے خیال سے پیپر بیک کے فورمیٹ میں شائع ہونے پر اس کی قیمت 150 ہونی چاہیئے تھی۔ طباعت نہایت ہی عمدہ اور نفیس ہے، جو اثبات پبلیکیشنز (ممبئی) کا خصوصی امتیاز ہے۔ رضوان الدین فاروقی کی باضابطہ یہ پہلی ترجمہ کردہ کتاب ہے۔ مسقبل میں ان سے مزید بہتر کاموں کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ان کی دوسری کتاب "صفر کی توہین : اشعر نجمی” (ناول) اردو سے ہندی ترجمہ بھی مارکیٹ میں آچکی ہے۔ قارئین حضرات کتاب حاصل کرنے کے لیے رضوان الدین فاروقی کے اس نمبر پر رابطہ کرسکتے ہیں۔ 
+91 70008 15183
***
اشرف یاسین کی گذشتہ نگارش: کتاب : اس شہر میں (تین رودادی ناولٹ)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے