ادھورا نِروان

ادھورا نِروان

ذاکر فیضی، نئی دہلی
 
پروفیسر صاحب پچپن سال کی عمر میں بھی بہت اسمارٹ اور خوب صورت لگ رہے تھے۔ اُن کے شاگردوں کا کہنا تھا کہ وہ بالوں کو رنگنے کے بعد چالیس سے زیادہ کے نہیں لگتے. انھوں نے سفید شرٹ پر لال ٹائی باندھی ہوئی تھی اور کوٹ نیلے رنگ کا تھا۔ وہ لمبے سے آئینے کے سامنے کھڑے مُسکراتے ہوئے بال سنوار رہے تھے۔ ٹھیک اسی وقت کمرے میں بیگم داخل ہوئیں۔ شوہر کا حُلیہ دیکھ کر بے اختیار ہنستے ہوئے بولیں۔۔۔۔ ”آج پھر۔۔۔۔۔“
پروفیسر صاحب نے جھینپتے ہوئے کہا۔۔۔”وقت بچتا ہے بھئی، سمجھتی نہیں ہو۔۔۔ ٹائم از منی۔۔۔خیر چھوڑو۔۔۔۔ بس بے وقوفوں کی طرح ہنستی رہو۔۔۔۔۔“
بیگم صاحبہ نے سوچا انھوں نے اپنا آدھا دن تو بالوں کو رنگنے میں لگا دیا، تب ان کو ٹائم کی منی یاد نہیں آئی۔مگر پروفیسر صاحب کے مزاج کو دیکھتے ہوئے بولیں:
”نہیں نہیں۔۔۔۔میرا مطلب۔۔۔۔ سوری صاحب۔۔۔ سوری۔“ بیگم نے بناوٹی انداز میں اپنے کان پکڑے۔ لیکن انھیں پھر ہنسی آگئی۔ وہ اپنی ہنسی کو دبانے کی کوشش کرتے ہوئے بولیں:
”مگر پھر ٹائی کوٹ کی بھی کیا ضرورت ہے صاحب، صرف شرٹ کافی نہیں؟۔۔۔۔۔کون سا آپ ڈپارٹمنٹ جا رہے ہیں۔۔۔۔ آن لائن کلاس ہی تو لے رہے ہیں۔“ بیگم نے صاحب کی قیمتی اور خوب صورت ٹائی اور کوٹ کے ساتھ بندھی پرانی لُنگی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
پروفیسر صاحب نے آئینے میں اوپر سے نیچے تک خود کو دیکھا وہ واقعی عجیب سے لگ رہے تھے۔ معلوم ہوتا تھا، اوپر کا حصّہ ان کا ہے اور پیٹ سے نیچے کا علاقہ کسی اور کا ہے۔ پھر خود ہی دل میں ہی دل میں سوچنے لگے۔۔۔۔۔۔’نہیں بھئی پیٹ کے نیچے کا حصّہ تو میرا ہی ہے۔ میں شعبہ جاتا ہی کتنی دیر ہوں۔ زیادہ وقت تو میں گھر پر ہی رہتا ہوں۔۔۔‘ تب ہی انھیں خیال آیا کہ ویبینار کے لئے دیر ہو رہی ہے۔
بیوی سے بولے:
” میں کلاس لینے نہیں جا رہا ہوں۔ انٹرنیشنل ویبینار کرا رہاہوں۔۔۔۔۔ایک پروفیسر کو آخر اپنے وقار کا خیال تو رکھنا ہی پڑتا ہے۔۔۔۔لباس پر دھیان دینا ضروری ہے۔۔۔۔“
یہ کہتے ہوئے انھوں نے ہاتھ میں لیا کنگھا بیگم کو پکڑایا اور لُنگی کو دونوں ہاتھ سے سمیٹ کر بیڈ روم سے نکل کر اسٹڈی روم کی طرف چل پڑے۔
اسٹڈی روم میں ان کا سب سے عزیز شاگرد ساری تیاری کر چکا تھا۔ صرف پروفیسر صاحب کو اپنی سیٹ پر بیٹھ کر کیمرہ آن کرنا تھا۔
”بہت خوب، آپ نے میز کا رُخ بُک ریک کی طرف کر دیا۔۔۔ یہ اچھا کیا۔۔۔۔پروفیسر کو پڑھا لکھا لگنا چاہئے۔“ پروفیسر صاحب اپنی ہی بات پر زور سے ہنسے۔
شاگرد تکلّف میں صرف اتنا بول پایا:
”کیسی باتیں کرتے ہیں سر، آپ تو بہت ہی قابل شخصیت ہیں۔“
”او کے۔۔۔ اب تُم ہاسٹل جاؤ۔۔۔ جلدی سے آن لائن ہوجانا۔۔۔ آج کا سیمینار انٹرنیشنل ہے اور بہت اہم ہے۔“ پروفیسر صاحب نے اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
شاگرد جو ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ استاد کا حکم سُن کر دو قدم پیچھے ہٹا اور ”آداب سر“ کرتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے شاگرد نے بیگم صاحبہ کو سلام کیا تو۔۔۔۔ پچاس سالہ بیگم نے بے حد حسرت بھری نگاہوں سے پچیس سالہ نوجوان کو دیکھا اور معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ بولیں:
”پھر آئیے گا۔“
”جی میڈم۔۔۔۔“ کہتے ہوئے وہ جلدی سے باہر نکلا۔ اُس نے اس انداز سے آنکھیں اوپر کو چڑھائیں، جیسے کہہ رہا ہو۔۔۔ ’جان بچی تو لاکھوں پائے۔‘
پروفیسر صاحب لاک ڈاؤن سے پہلے بھی ہمیشہ سر گرم رہتے تھے۔ وہ اپنے ہم عصروں میں بہت فعال شخصیت مانے جاتے تھے۔ کئی شاگرد پروفیسر صاحب کو پیار سے سیمینار ایکسپرٹ بھی کہتے۔ نجانے کتنے اسکالرس کو انھوں نے اپنی صلاحتیں دکھانے کا موقع فراہم کیا تھا۔ وہ اپنے شاگردوں کو ملک و غیر ممالک کی جامعات میں بھی لے کرجاتے رہتے۔ کبھی کبھی اُن کے تعلق سے افواہوں کا بازار بھی گرم ہوتا ہے کہ وہ بے حد رومان پرست ہیں اور لڑکیوں پر زیادہ مہربان رہتے ہیں۔ بہرکیف سچائی کُچھ بھی ہو، مانا یہی جاتا ہے کہ وہ انسان بہت اچھّے ہیں۔ ہر کسی کی مدد کو حاضر رہتے ہیں۔
جب کورونا کی وبا پھیلی اور ساری دنیا کی طرح وہ خود بھی گھر کے قیدی قرار دیے گیے تب مہینہ بھر تو بیوی اور بچّوں کے ساتھ وقت گزارتے رہے۔ مگر جلد ہی ان پر پہلے اُکتاہٹ طاری ہوئی اور پھر یہ اکتاہٹ وحشت میں تبدیل ہونے لگی۔ تب انھوں نے سیمینار کو ویبینار میں بدلنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ہر مہینے کم سے کم ایک یا دو ویبینار ضرور منعقد کراتے ہیں یا کسی اور ویبینار کا حصّہ بنتے ہیں۔ جس میں اکثر عالمی ویبینار ہوتے ہیں۔
آج کا ویبینار بھی عالمی تھا۔ جس کا موضوع تھا: ’زندگی اور فلسفۂ حیات‘۔ ویبینار شروع ہو چکا تھا۔ نظامت کے فرائض ان کی بے حد عزیز شاگردہ حیا ادا کر رہی تھیں۔ جنھوں نے پروفیسر صاحب کو ابتدائی کلمات کے لیے دعوت دی تھی۔ پروفیسر صاحب بہت غور سے تمام حاضرین کو دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے فرمایا:
”محترم حاضرین! زندگی کی بہت سی جہتیں ہیں۔ جن سے بے شمار خیالات و افکار جنم لیتے ہیں۔ ہر مذہب نے اپنے اپنے انداز سے ان خیالات و افکار پر روشنی ڈالی ہے۔ آج کا انسان بہت بے چین نظر آتا ہے۔ نجانے کس خوشی، کس سکھ، کس آرام کی تلاش میں ہے۔ انھی مسائل اور نکتوں پر ہمارے مقالہ نگار بحث کریں گے۔ میں آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے استقبال کرتا ہوں۔ آپ سب کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے ہماری دعوت کو قبولیت بخشی اور محنت و لگن سے پیپر لکھے۔ تو آئیے مقالات کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔ میں حیا صاحبہ سے درخواست کروں گا کہ آپ با ضابطہ پروگرام کو آگے بڑھائیں۔شکریہ۔“
حیا کا بے حد پُر کشش مسکراتا چہرہ اسکرین پر موجود تھا۔ پروفیسرصاحب نے حیا کو فُل اسکرین پر کر لیا۔ وہ اس کو بہت ہی غور سے دیکھ رہے تھے۔ حیا نے اپنی بات شروع کی:
”میری آواز آرہی آپ لوگوں کو۔۔۔۔“
”آرہی ہے آرہی۔۔۔ شروع کریں آپ۔۔۔“ پروفیسر صاحب فوراََ بولے اور موبائل اٹھا کر حیا کو میسج بھی کیا، ’آپ کی آواز بہت صاف آرہی۔ آپ بہت اچھّے سے بول رہی ہیں۔ آپ کی آواز بہت خوب صورت ہے۔‘
دور کسی مُلک میں بیٹھے ایک بُزرگ ادیب بولے:
”محترمہ، آپ کی آواز نہ کہ صرف آرہی ہے بلکہ کانوں میں ترنّم بھی گھول رہی ہے۔“
”بہت بہت شکریہ سر۔“ کہتے ہوئے، حیا دھیرے سے ہنسی اور آگے بولی:
”میں سب سے پہلے اپنے استاد محترم کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی کہ انھوں نے مجھے یہ موقع فراہم کیا، میں اُن کی بے حد ممنون ہوں۔۔۔۔۔۔حاضرین جیسا کہ آ پ جانتے ہیں کہ آج کے انٹر نیشنل سیمینار کا موضوع ہے: ’زندگی اور فلسفۂ حیات‘۔ ظاہر ہے کہ ایک بہت ہی اہم ٹوپک ہے، جس پر ہمارے ماہرین، دانشور، پروفیسرس اور اسکالر ساتھی اپنے قیمتی اور پُر مغز مقالات پیش کریں گے اور بحث کریں گے۔ ہمارے اس سیمینار کی مہمانِ خصوصی دیارِ غیر سے تعلق رکھنے والی پروفیسر رومانہ صاحبہ ہیں جو وہاں ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ میں اُن کا استقبال کرتی ہوں۔ اور آج کے سیمینار میرا مطلب ہے ویبینار کی صدارت فرمارہے ہیں استادِ محترم ہمارے ہر دل عزیز پروفیسر صاحب۔“
پروفیسر صاحب نے فُل اسکرین سے حیا کو ہٹاکر رومانہ صاحبہ کو کر لیا۔ وہ رومانہ صاحبہ کوحسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگے۔ انھیں یاد آیا کہ جب دو سال پہلے وہ غیر مُلکی سفر پر گئے تھے تو رومانہ صاحبہ کی یونیورسٹی میں ایک سیمینار کے لیے جانا ہوا تھا۔ ان سے مل کر باتیں کر کے کتنا اچھا لگا۔ کس قدر سکون ملتا ہے، اس عورت سے بات کرکے۔ اُف قیامت ہے رومانہ۔ وہ سوچنے لگے یہ عورت جتنی حسین ہے اس سے زیادہ اس کے جسم کے اتار چڑھاؤ۔ اُف!’۔۔۔۔ اس کا چہرہ کتنا چکنا ہے۔۔۔ گلابی رنگت ہے۔۔۔۔ کاش۔۔۔۔۔‘
کاش سوچتے سوچتے پروفیسر صاحب کا ہاتھ اپنی رانوں پر آگیا۔
پروفیسر صاحب کو معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ حیا نے اپنی بات مُکمل کر لی تھی اب اسکالر اپنا مقالہ پڑھ رہا تھا۔ مقالہ نگار اپنے مقالے کے درمیانی حصّے میں پہنچ چکا تھا ۔وہ کہہ رہا تھا:
”۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ من بہت ہی چنچل ہے۔ وہ کسی کی نہیں سُنتا۔ من ہمیشہ ہی نئے نئے سُکھ کی، لذّت کی، مزے کی بات کرتا ہے۔ اگر ایک نغمہ آپ نے ایک بار سُنا تو بہت اچھّا لگے گا۔ دوسری بار سنیں گے تو اتنا مزہ نہیں آئے گا۔ تیسری بار سُنا تو گھبراہٹ ہونے لگے گی۔ دس بار سُننا پڑے تو آپ عاجز آجائیں گے۔ سو بار آپ کو زبردستی سنایا جائے تو آپ پاگل ہو جائیں گے۔ من کا سُکھ بڑا لمحاتی ہوتا ہے۔۔ بہت ہی جلد وہ ایک مزے سے اُوب جاتا اور پھر کسی نئے کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔۔۔۔ من کو کبھی اور کہیں بھی قرار نہیں ہے۔ من سے زیادہ بے قرار کوئی نہیں۔۔۔۔۔۔۔“
مقالہ نگار مقالہ پڑھ رہا تھا۔ پروفیسر صاحب رومانہ کے ساتھ تصورات کی دنیا میں کھوئے ہوئے تھے۔ انھیں نہ مقالہ نگار کی بات سمجھ آرہی تھی اور نہ ہی اندر سے بند کمرے کا دروزہ پیٹنے کی آواز آرہی تھی۔
”صاحب، دروازہ کھولیے۔۔۔۔ایک تو میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ یہ کیسے سیمینار ہیں جو دروازہ بند کر کے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔“ بیگم نے جھنجھلاکر کہا۔
پروفیسر صاحب کو جب آواز آئی تو وہ ہڑبڑا گیے۔ پھر بھی اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے، پہلے آڈیو اور ویڈیو بند کیں۔ کان سے ہیڈ فون اُتارا۔ جلدی سے دروازہ کھولا۔
”کیوں۔۔۔۔ کیا ہوا؟۔۔۔کیا آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔“ پروفیسر صاحب بے حد جھنجھلا رہے تھے۔
”آسمان واسمان کی بات بعد کو ہوگی۔ پہلے آپ مجھے یہ سمجھائیے کہ آپ دروازہ کیوں بند کر لیتے ہیں؟“ بیگم آگ بگولہ ہو رہی تھیں۔
”ارے بھئی بتایا تو تھا۔۔۔ باہر کی آوازیں آتی ہیں۔۔۔ بیک گراؤنڈ ساؤنڈ۔۔ خیر چھوڑو۔۔۔ جلدی بتاؤ کیا کام۔۔۔۔“ پروفیسر صاحب کی آنکھوں کے سامنے رومانہ کا چہرہ اور گردن کے نیچے کا حصّہ رقص کر رہا تھا۔
” بیٹی کو سمجھائیے۔۔۔۔دو گھنٹے سے چیخ رہی ہوں نہیں سُن رہی۔۔۔۔“
بیگم نے بیٹی کے کمرے کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔”وہ بھی آپ ہی طرح دروازہ بند کر کے نجانے کس کس سے چیٹینگ کرتی رہتی ہے، کہتی ہے کوچنگ کلاس لے رہی ہوں۔۔۔پوچھو۔۔دروازہ بند کیوں ہے تو کہتی ہے کہ۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔آپ تو سمجھ گئے ہوں گے۔۔۔کیا کہتی ہے۔۔۔۔۔۔“ بیگم نے طنزیہ انداز اختیار کرتے ہوئے اپنے بتیس کے بتیس دانت دکھاتے ہوئے کہا۔
”بیگم! یہ بات آپ مجھے بعد کو بھی بتا سکتی تھیں، سیمینار کے درمیان۔۔۔۔۔۔“ پروفیسر صاحب نے ناگواری سے کہا اور دروازہ بند کرنے لگے۔ ”آپ اور آپ کے سیمینار۔۔۔ اوپر سے آئی اے ایس کی تیاری کرتی آپ کی بیٹی۔۔۔میں تنگ آ گئی ہوں۔۔۔باپ بیٹی سے۔۔۔۔ کسی کام کو ہاتھ تک ہاتھ نہیں لگاتی۔۔بس، آئی اے ایس بنیں گی۔۔۔۔“ بیگم نے ہوا میں ہاتھ نچائے۔
وہ بے حد غصّے میں بڑبڑاتی ہوئی چلی گئیں۔۔۔۔پیچھے سے ان کی آواز آرہی تھی:
”ایک بار یہ لاک ڈاؤن کھُل جائے۔۔۔۔ ایسا جاؤں گی۔۔۔ پتہ چل جائے گا۔۔۔۔۔“
پروفیسر صاحب اپنی کُرسی پر آکر بیٹھ گئے۔ جلدی سے ہیڈ فون سر پر لگا لیے۔
کوئی مقالہ نگار پیپر پڑھا رہا تھا۔ پروفیسر صاحب نے سیمینار میں موجود تمام خواتین کو باری باری فُل اسکرین کر کے دیکھا۔۔۔۔۔وہ پرکھنا چاہ رہے تھے کہ رومانہ سے زیادہ حسین اورپُر کشش کوئی اور لڑکی یا عورت ہے یا نہیں۔۔۔۔ کئی خاتون کو ایک ایک دو دو منٹ رُک کر دیکھا بھی۔۔۔۔۔ پھر موازنہ کرنے لگے کہ سب سے زیادہ حسین اور سیکسی کون لگ رہی ہے تاکہ اسی پر فوکس کیا جائے۔۔۔۔۔۔بیس منٹ کی جستجو اور کش مکش کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ رومانہ جیسی ان میں کوئی نہیں۔۔۔۔ بس تو طے پایا کہ آج تخّیل کے آسمان پر رومانہ کے ساتھ ہی اُڑا جائے گا۔ یہ سوچ کر انھوں نے رومانہ کو فُل اسکرین پر کیا اور اپنی ٹائی درست کرتے کرتے نابھی کے نیچے تک لے گئے۔ ہلکی سی دل ہی دل میں سسکی بھری۔ تاکہ آن اسکرین کوئی ان کے جذبات و احساس کو پہچاننے نہ پائے۔ انھونے نشیلے انداز میں رومانہ کو دیکھا۔۔۔۔ پروفیسر صاحب حسیناؤں کی آنکھوں سے شراب پیتے تھے تو۔۔۔۔۔
پروفیسر صاحب رومانہ کی آنکھوں سے پی رہے تھے جب کہ اب ایک اور مقالہ نگار انسانی تکلیف اور سُکھ پر روشنی ڈالتے ہوئے اُوشو کو کوڈ کر رہا تھا:
”۔۔۔۔۔ اوشو کہتے ہیں کہ میں تصوّر ہی نہیں کر سکتا کہ کسی آدمی کو دُکھی ہونے کی ضرورت ہے، جب تک کہ وہ خود ہونا ہی نہ چاہے اور کوئی آدمی سُکھی نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ ہونا ہی نہ چاہے۔ تو ہم ہونا تو چاہتے ہیں سُکھی اور انتظام سارے کرتے ہیں دُکھ کے۔۔۔۔۔۔“
مقالہ نگار وید، گیتا، قرآن، بائبل، مہاتما بدھ اور دیگر فلسفیوں کے حوالے دے کر ’زندگی کیا ہے‘  کے فلسفے پر روشنی ڈال رہے تھے۔ نروان پراپتی کو سمجھا جا رہا تھا۔ موکش حاصل کیسے کیا جاتا ہے۔ ان سارے نکتوں پر غور و فکر ہو رہا تھا۔
اور۔۔۔ خاص اسی وقت پروفیسر صاحب نروان پراپت کرنے کے لیے رومانہ۔۔۔ رومانہ۔۔۔ رومانہ۔۔۔۔ کی گردان کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔وہ کُچھ ہی دیر میں چرم سیما پر پہنچ کر موکش حاصل کرنے ہی والے تھے کہ۔۔۔۔۔
بیگم پروفیسر صاحب کے لیے چائے لے کر آئیں۔۔۔ پروفیسر صاحب پہلی بار دروازہ بند کرنا بھول گیے تھے۔
بیگم میز کے قریب آئیں۔
پروفیسر صاحب مہاتما بدھ کی طرح ادھ کھلی آنکھوں سے رومانہ کو دیکھ رہے تھے۔ اُن کا ہاتھ بہت تیزی سے ہِل رہا تھا۔
تب ہی بیگم کی نگاہ پروفیسر صاحب کے چہرے سے ہوتی ہوئی ٹائی سے نیچے کی طرف گئی۔
بیگم نے توبہ کے لیے کان پکڑ نے کی کوشش میں چائے کا کپ ہاتھ سے چھوڑ دیا، جو میز پر جا کر گرا۔ چائے اُچھل کر ٹائی پر پھسلتی ہوئی نروان پراپتی میں گھل مل گئی۔ لُنگی کُھل کرنیچے گِر چکی تھی۔ پروفیسر صاحب ہڑبراہٹ میں بنا سوچے سمجھے کھڑے ہو گئے۔ وہ یہ بھول ہی گئے کہ کیمرہ آن ہے۔ ویبینار چل رہا ہے۔ زندگی اور فلسفۂ حیات پر گفتگو ہو رہی ہے۔
پروفیسر صاحب کی تپسیہ بھنگ ہو گئی۔ ان کا نروان پورا ہو کر بھی ادھورا رہ گیا۔ وہ نہ ہی موکش حاصل کر پا رہے رتھے نہ ہی روک پا رہے تھے، صرف ہڑبراہٹ میں بیگم کو دیکھ کر حیران و پریشان تھے۔ جب کہ ویبینار میں شریک خواتین تیزی سے آف لائن ہو رہی تھیں۔ مرد حضرات لاحول پڑھتے ہوئے مُسکرا رہے تھے۔
ان ساری باتوں سے بے نیاز مقالہ نگار سر جھکائے اپنی ہی دھن میں مگن پیپر پڑھے جا رہا تھا:
”زندگی بھر دوڑ کر ہاتھ بھرتے ہیں اور پھر پاتے ہیں کہ ہاتھ خالی رہ گئے ہیں۔ زندگی بھر یہ ہاتھ خالی تھے۔ ساری دوڑ فضول جاتی ہے۔ کُچھ بھی نہیں ملتا۔ صرف ملتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے دور دکھائی پڑتا ہے کہ زمین اور آسمان مل رہے ہیں۔ مگر جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے رہتے ہیں زمین و آسمان کا یہ گھیرا بھی آگے بڑھتا رہتا ہے۔ ہم زندگی بھر چلتے رہیں۔۔۔ ساری دنیا کا، زمین کا چکّر لگا لیں۔۔۔۔ وہ جگہ کبھی نہیں آئے گی جہاں زمین اور آسمان ملتے ہیں۔ ٹھیک ایسے ہی آدمی عمر بھر سوچتا رہتا ہے یہ مل جائے، یہ مل جائے۔ یہ مل جائے۔ سب مل جائے گا ایک دن ایسا لگتا ہے۔۔۔ آگے، آگے کہیں ملنے کی جگہ آجائے گی۔۔۔۔۔دوڑتا ہے۔۔ دوڑتا ہے۔ دوڑتا ہی رہتا ہے۔۔۔ آخر گر جاتا ہے۔ ملنے کا وقت نہیں آتا۔۔۔۔ ہاتھ خالی رہ جاتا ہے ۔
٭٭٭

ذاکر فیضی کی یہ تخلیق بھی پڑھیں : وائرس

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے