ڈاکٹر امام اعظم

ڈاکٹر امام اعظم

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ

شعر و ادب تنقید و تحقیق اور صحافت کی معروف، مشہور اور مقبول شخصیت ڈاکٹر امام اعظم نے اپنی خواب گاہ کولکاتہ میں 23؍ نومبر2023ء کو آخری سانس لی، رات کو نماز، کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر دوستوں کی مجلس میں ساڑھے گیارہ بجے تک مشغول رہے اور پھر سوئے تو سوئے رہ گئے، کسی کو پتا ہی نہیں چلا کہ روح کب پرواز کر گئی، صبح کو چہل قدمی کے ان کے جو رفقا تھے، ان کو نہ پا کر دروازہ کھٹکھٹایا تو وہ ایسی جگہ جا چکے تھے، جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا، موبائل کان سے لگا ہوا تھا، جیسے انھوں نے آخری وقت میں اپنے حالات بتانے اور طبی امداد کے لیے کسی کو فون کرنا چاہا ہو، لیکن رابطہ نہ ہو سکا ہو، جو پوری زندگی دوسروں کی خدمت میں لگا رہا، اللہ نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ وہ آخری وقت میں دوسروں کا دستگیر اور احسان مند ہو، جنازہ کافی تاخیر سے کل ہو کر ان کی مستقل قیام گاہ گنگوارہ بیلا موڑ دربھنگہ پہنچا، جمعہ کی نماز کے بعد ان کے قائم کردہ مدرسہ البنات فاروقیہ کے صدر مدرس مولانا محمد مستقیم قاسمی نے جنازہ کی نماز پڑھائی، جنازہ اعلان شدہ وقت سے پہلے ادا کیے جانے کے باوجود مجمع اچھا خاصا تھا، علما، صلحا، شعرا، ادبا اور عام مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی، تدفین ان کے آبائی قبرستان گنگوارہ ہی میں ہوئی، جو ان کے نانا کے مکان کے جنوب میں واقع ہے۔ حاضری میری بھی اسی دن ہوئی، لیکن تجہیز و تکفین کا مرحلہ گذر چکا تھا، میں نے ان کے صاحب زادگان، بھائیوں اور متعلقین سے تعزیتی کلمات کہے، انھیں حوصلہ دلایا اور راضی برضائے الٰہی رہنے کی تلقین کی، پس ماندگان میں ڈاکٹر زہرہ شمائل بنت سید منظر امام (م24؍اگست 2018) دو لڑکے ڈاکٹر نوا امام، صحافی انجینئر فضا امام اور ڈاکٹر حیا فاطمہ کو چھوڑا۔
ڈاکٹر امام اعظم کا اصل نام سید اعجاز حسن تھا، مظہر امام اور منظر امام سے خاندانی تعلق اور مصاہرت تھی، انھوں نے اپنا قلمی نام امام اعظم منتخب کیا اور ان کی ادبی خدمات کی وجہ سے یہ نام اس قدر مقبول اور زبان زد عام و خاص ہوا کہ اصل نام پردۂ خفا میں چلا گیا، ان کی ولادت 20؍ جولائی 1960 کو محلہ گنگوارہ دربھنگہ میں محمد ظفر المنان ظفر فاروقی عرف گیندا (م24؍ اگست 2010، مطابق 13؍ رمضان المبارک 1431ھ) بن مولوی نہال الدین (م1990) بن مولوی محمد جمال الدین بن مولوی اکبر علی (ساکن موضع بھیرو پور موجودہ ضلع ویشالی) اور بی بی مظہر النساء، بیگم نرگس (م 4؍ مئی1970) کے گھر ہوئی، جہاں ان کے والد اپنے سسر محمد امیر السلام عرف مجھلے بابو (م ۲۱؍ جنوری ۱۹۷۷ء) کی ایما سے 1965میں موضع مدھے پور دربھنگہ سے نقل مکانی کرکے آبسے تھے اور اپنا مسکن ’’کاشانہ فاروقی‘‘ کے نام سے تعمیر کرلیا تھا، گنگوارہ میں ظفر فاروقی نے ایک بیگہ زمین خرید کی تھی، کاشانہ فاروقی اسی کے ایک حصہ پر موجود ہے، ڈاکٹر امام اعظم نے متھلا محل کمپلکس محلہ گنگوارہ، ڈاکخانہ سارا موہن پور ضلع دربھنگہ میں ’’ادبستان‘‘ کے نام سے اپنا مکان تعمیر کرایا اور والدین کی یاد میں اپنا ہی ایک شعر کندہ کراکے لگوایا وہ یہ ہے۔
خدا کی امانت ہم اس کے مکیں
ہے گینداؔ ونرگس ؔکا باغ حسین
ڈاکٹر امام اعظم نے تعلیم کے اعلا مراحل طے کیے، ایم. اے (اردو، فارسی) ایل. ایل. بی، پی. ایچ. ڈی، ڈی لٹ تک تعلیم پائی، ابتدائی تعلیم سے انٹر تک بتیا کے مختلف عصری تعلیمی اداروں سے فیض یاب ہوئے، جہاں ان کے والد بہ سلسلہ ملازمت مقیم تھے، بتیا میں تعلیمی مراحل کی تکمیل کا دورانیہ ۱۹۷۷ء تک رہا، بی، ایس سی ملت کالج دربھنگہ سے 1979ء میں کیا، 1982میں وہ سائنس سے زبان و ادب کی طرف راغب ہوئے، چنانچہ بی.اے کا امتحان آزاد امیدوار کی حیثیت سے دیا اور کامیاب ہوئے، 1984ء میں متھلا یونی ورسٹی سے ایم.اے اردو اور 1991ء میں ایم.اے فارسی کا امتحان دے کر کامیابی حاصل کی، حصول علم کا شوق یہیں پر مکمل نہیں ہوا، چنانچہ آپ نے لا کالج دربھنگہ سے ۱۹۸۹ء میں ایل. ایل. بی کی ڈگری حاصل کی، ’’مظہر امام کی تخلیقات کا تنقیدی مطالعہ‘‘ پر پی. ایچ. ڈی اور’’ اردو تنقید ساخت اور ارتقاء‘‘ کے موضوع پر ڈی. لٹ کی ڈگری حاصل کی۔
ڈاکٹر امام اعظم ہر دم رواں پیہم جوان رہنے والی شخصیت تھی، انھوں نے تعلیمی اور صحافتی میدان میں بیش بہا خدمات انجام دیں، ان کی ’’ادارت ‘‘ میں نکلنے والے رسالہ ’’تمثیل نو‘‘ کی ملک و بیرون ملک میں ایک شناخت تھی، اور اہل علم و قلم میں پذیرائی بھی۔2001 سے مسلسل اتنے علمی، معیاری، ادبی اور ضخیم شماروں کا نکالنا آسان نہیں تھا، وہ نکالتے بھی تھے اور اہل تعلق تک بڑی محبت سے پہنچاتے بھی تھے، انھوں نے کم و بیش تیس معیاری ادبی کتابیں شاعری، ادب، تنقید و تحقیق، مونوگراف، شجرے وغیرہ کی شکل میں علمی دنیا کو دیے، ان میں ان کے دو شعری مجموعے نیلم کی آواز، اور قربتوں کی دھوپ بھی شامل ہے، انھوں نے ’’نصف ملاقات‘‘ کے نام سے مشاہیر ادب کے خطوط مظہر امام کے نام مرتب کیا، ان کے نام آئے ہوئے خطوط کو شاہد اقبال نے چٹھی آئی ہے کے نام سے مرتب کیا جو شائع ہو کر مقبول ہوا، ان کی مرتب کردہ کتابوں میں اقبال انصاری فکشن کا سنگ میل، مولانا عبدا لعلیم آسی۔ تعارف اور کلام، عہد اسلامیہ میں دربھنگہ اور دوسرے مضامین، ہندوستانی فلمیں اور اردو (ادبی جائزے) فاطمی کمیٹی رپورٹ۔ تجزیاتی مطالعہ، نامۂ نظیر، اکیسوی صدی میں، اردو صحافت، مظہر امام، نقوش علی نگر: تبصرے اور تجزیے، سہرے کی ادبی معنویت، پہلی جنگ آزادی میں اردو زبان کا کردار سے ان کا ادبی اسلوب، مطالعہ کی گہرائی، تجزیوں کی گہرائی، تاریخ و تنقید پر مضبوط گرفت کا پتا چلتا ہے، ان کا قلم ادب و تنقید، تاریخ و تحقیق کے حوالہ سے انتہائی رواں تھا اور انھوں نے پوری زندگی اپنی اس صلاحیت سے خوب خوب کام لیا، ان کی خدمات کی پذیرائی بھی ان کی زندگی میں خوب ہوئی، چنانچہ نو کتابیں ان کی شخصیت اور خدمات پر ان کے حوالہ سے مختلف اہل قلم نے تصنیف کیں، جن میں ڈاکٹر امام اعظم: اجمالی جائزہ، دربھنگہ کا ادبی منظر نامہ، ڈاکٹر امام کی ادبی و صحافتی خدمات کے حوالہ سے، ڈاکٹر امام اعظم کی باز آفرینی، جہان ادب کے سیاح اور ڈاکٹر امام اعظم کی ادبی جہتیں خاص طور سے قابل ذکر ہیں، ان کے مجموعۂ کلام قربتوں کی دھوپ کا انگریزی ترجمہ سید محمود احمد کریمی نے کیا، مختصر میں کوئی بات کہی جا سکتی ہے تو وہ یہ کہ مناظر عاشق ہرگانوی کے گذر جانے کے بعد وہ تنہا ایسے ادیب تھے جو تمام اصناف کے ساتھ تحقیق و تاریخ پر بھی سنی سنائی نہیں، گہری اور شعوری نظر رکھتے تھے۔
میرے تعلقات ان سے انتہائی قدیم تھے، پہلے فون سے رابطہ رہا، اس کے بعد بالمشافہ ملاقات کی نوبت آئی، وہ مجھ سے بے پناہ محبت کرتے تھے، اور میں ہی کیا ان کے اخلاق و عادات، تواضع و انکساری اور تعلقات نبھانے کی غیر معمولی صلاحیت کی وجہ سے ہر آدمی یہی سوچتا تھا کہ وہ ان سے زیادہ قریب ہے، جن دنوں وہ دربھنگہ ’’مانو‘‘ میں ریجنل ڈائرکٹر تھے اور وہ اس کی توسیع کے لیے کوشاں تھے، خیال آیا کہ کیوں نہ ’’مانو‘‘ کا ایک سنٹر حاجی پور ویشالی میں بھی قائم ہو، مولانا قمر عالم ندوی اس کام کے لیے آمادہ ہوئے، میں نے ان کی آمادگی دیکھ کر ایک خط اس سلسلے کا، دربھنگہ ان کے نام لکھا کہ وہ مولانا قمر عالم ندوی پر اس کام کے لیے اعتماد کر سکتے ہیں اور اگر ایک سنٹر یہاں کھل گیا تو مجھے خوشی ہوگی، انھوں نے فی الفور اس کی منظوری دے دی، مولانا قمر عالم ندوی کی محنت سے جب تک وہ دربھنگہ میں رہے، یہ مرکز دکھ رام سکھ رام کالج حاجی پور میں چلتا رہا، افسوس کہ ان کے جانے کے بعد یہ سلسلہ قائم نہ رہ سکا، انتقال کے وقت وہ کولکاتہ ریجنل سنٹر کے ڈائرکٹر تھے اور بہت اچھا کام کر رہے تھے، جب بھی کولکاتا جانا ہوتا ان کے یہاں حاضری ہوتی، ضیافت کرتے، محبت سے اپنی کتاب دیتے اور اس وقت کا عکس تمثیل نو میں محفوظ کر دیتے، یہ ان کی محبت کی ہی بات تھی کہ انھوں نے ڈاکٹر نوا امام کی نکاح خوانی کے لیے بہ حیثیت قاضی مجھے منتخب کیا تھا اور میرے ہی ذریعہ یہ کام انجام پایا۔
جب بھی ان کی کوئی نئی کتاب یا تمثیل نو کا شمارہ آتا تو وہ پہلے بذریعہ ڈاک مشہور ادیب اور اردو کے حوالہ سے انتہائی فعال شخصیت انوار الحسن وسطوی کے پاس میرے نام کی کاپی بھی ارسال کرتے اور وہ کسی نہ کسی ذریعہ سے مجھ تک پہنچ جاتی، لیکن جب ان کے صاحب زادہ ڈاکٹر نوا امام کی شادی محمد ابو رضوان صاحب ساکن لال پھاٹک جمال الدین چک کھگول کی لڑکی ڈاکٹر بینش فاطمہ سے ہوئی تووہ یہ کام اپنے سمدھی سے لینے لگے اور ان کے سمدھی ابو رضوان پابندی سے سعادت سمجھ کر یہ کام انجام دیتے، ڈاکٹر امام اعظم کی محبت ہی کی بات تھی کہ جہاں کہیں میرا نام داخل نہیں ہو سکتا تھا وہاں بھی وہ میرے داخلے کی شکل نکال لیتے تھے، انھوں نے اپنی کتاب ’’نگار خانہ کولکاتہ‘‘ میں ویشالی کے اس فقیر کو شامل کرنے کے لیے واردین کے حوالہ سے جگہ نکالی اور میرے اوپر اشعار کہے، جو اس کتاب میں شامل ہے۔
ڈاکٹر ایم صلاح الدین نے گنگوارہ ادب و تہذیب اور علم و عرفان کا مرکز کے عنوان سے جو مضمون لکھا، اس میں گنگوارہ آنے والوں میں میرا بھی نام درج کرایا، عبد الرحیم بن ڈاکٹر مولوی انور حسین برھولیاوی جب میرے اوپر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شعرا کی نظر میں، کتاب تالیف کی تو انھوں نے میرے اوپر بحر و بر کی گہرائی کے عنوان سے طویل نظم لکھی جو اس کتاب کے صفحہ 53 سے 56 تک شائع شدہ ہے۔ نگار خانہ کولکاتہ طبع ہو کر آئی تو اس میں کولکاتہ کی مذہبی شخصیات کا تذکرہ نہیں تھا، خصوصا مولانا ابو سلمہ شفیع کا، میں نے ایک طویل خط انھیں لکھا اور بتایا کہ مولانا ابو سلمہ شفیع، حکیم محمد زماں حسینی، ابو کریم معصومی وغیرہ ان لوگوں میں تھے، جنھوں نے طویل کمیونسٹ حکومت میں مذہبی اقدار اور دینی علوم کی پاس داری کی، اس لیے ان حضرات کی شمولیت کے بغیر یہ نگار خانہ مکمل نہیں ہے، انھوں نے اس خط کو تمثیل نو میں شائع کیا اور بعد میں یہ چھٹی آئی ہے میں بھی شامل ہوا، انھوں نے کئی مضامین تمثیل نو میں شائع کیے، تازہ شمارہ تمثیل نو کا جو وہ پریس کو دے کر رخصت ہوئے اس میں انھوں نے میرے دو مضامین شائع کیے۔
ڈاکٹر صاحب کی دل چسپی کا دوسرا بڑا میدان تعلیمی تھا، اوپر لکھا جا چکا ہے کہ وہ مولانا آزاد نیشنل یونی ورسٹی کے کولکاتہ ریجنل آفس کے ڈائرکٹر تھے، اس کے علاوہ انھوں نے 2010ء میں الفاروق ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ گنگوارہ میں قائم کیا تھا، جس کے تحت وہ مدرسۃ البنات فاروقیہ، فاروقی آئی ٹی آئی، فاروقی اورنٹیل لائبریری، مولانا مظہر الحق عربی فارسی یونی ورسٹی کا نالج ریسورس سنٹر 225 چلا کرتا ہے، اللہ کرے یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہ سکے۔
میری آخری ملاقات اکتوبر کے اواخر میں ان سے ان کے دفتر 1اے/ 1 چھاتو بابو لین (محسن ہال) کولکاتا میں ہوئی تھی، استقبال کے لیے دفتر سے نیچے اترے، واپسی میں پھر گاڑی پر چھوڑنے آئے، علمی ادبی مسائل پر دیر تک گفتگو رہی، کئی پروجکٹ پر کام کے لیے تبادلہ خیال ہوا، یہ آخری موقع تھا ان سے تبادلہ خیال کا، اللہ رب العزت ان کی مغفرت اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے، اب یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ’’کہیں سے آب بقاء دوام لا ساقی‘‘ بقاے دوام تو صرف اللہ کو حاصل ہے، بندوں کو تو ایک نہ ایک دن جانا ہی ہوتا ہے، البتہ اس شعر کا پہلا مصرع حسب حال ہے۔
جو بادہ کش تھے اٹھتے جاتے ہیں
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:کتاب: اسپتال سے جیل تک

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے