بادِ صبا کا انتظار : کس کو اور کیوں؟

بادِ صبا کا انتظار : کس کو اور کیوں؟

افسانہ : بادِ صبا کا انتظار
افسانہ نگار : سید محمد اشرف
تجزیہ : غضنفر

1ـ بادِصبا کا انتظار کس کو ہے؟
2 ـ بادِ صبا کا انتظار کیوں ہے؟
کہانی کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ان سوالوں کا جواب جاننا ضروری ہے۔ فرہنگ آصفیہ میں اس مرکب لفظ کے جو معنی درج ہیں وہ یہ ہیں : صبح کے وقت کی گوشۂ شمال و مشرق کی ہوا جس سے غنچے کھلتے ہیں، بہشت کی ہوا۔ فرہنگِ عامرہ میں بھی یہی معنی لکھے گئے ہیں۔
یعنی مشرق کی ہوا، بادِ بریں۔
جو لوگ صبح میں ہوا خوری کا مزہ لیتے ہیں انھیں پتا ہے کہ مشرق سے چلنے والی ہوا نرم اور ٹھنڈی ہوتی ہے اور اگر اس ہوا کے ساتھ بہشت کے تصور کو بھی جوڑ لیا جائے تو یہ ہوا اور بھی سبک، ٹھنڈی اور مشکبار ہو جائے گی اور اس کا لمس من کے غنچے کو یقیناٌ کھلا دے گا اور اگر من بیمار ہے اور گھٹن میں مبتلا ہے تو اس کے تنفس کے لیے یہ ہوا اور فرحت بخش اور سود مند ثابت ہوگی۔ تو بادِ صبا کا انتظار اس لیے ہو رہا ہے کہ بیمار کے نتھنوں کو تازہ ہوا ملے۔ تنفس کا راستہ کھلے۔ پھیپھڑوں میں ہوا جائے. اس لیے کہ بقول اس کہانی کے ڈاکٹر کردار کے:
"پھیپھڑوں کی اصل دوا در اصل تازہ ہوا ہوتی ہے۔"
ظاہر ہے یہ تازہ ہوا بادِ صبا سے ملتی ہے. اب سوال دوسرا آتا ہے کہ بادِ صبا کا انتظار کس کو ہے؟
تو کہانی سے پتا چلتا ہے کہ بادِ صبا کا انتظار اس کو ہے جو بیمار ہے۔ جس کے پھیپھڑے کمزور ہو گئے ہیں۔جس کے سینے میں گھٹن ہے اور جس کے تنفس کی راہ میں رکاوٹ ہے اور یہ بیمار کردار وہ ہے جو اس حویلی کے وسط میں واقع ایک بڑے سے کمرے کے بستر پر پڑا ہوا ہے اور جس کی تکلیف کو دور کرنے کے لیے ایک ڈاکٹر آیا ہوا ہے۔
یہیں پر ایک اور سوال بھی اٹھتا ہے کہ اس بیمار کردار یعنی معمر مریضہ کے سینے میں گھٹن کیوں ہے؟ تو اس کا جواب کہانی سے یہ ملتا ہے کہ اس کے ارد گرد کی فضا کو مسموم کر دیا گیا ہے اور چاروں طرف کی بیشتر کھڑکیاں بھی بند ہیں جن سے تازہ ہوا آتی ہے۔
یہاں قاری کا جی یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ بیمار ضعیفہ کون ہیں؟ کہانی کے پارکھیوں نے مریضہ کے متعلق جو کچھ کہا ہے اس کی تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے:
"بادٍ صبا کا انتظار" اردو فکشن کی دنیا میں اسی طرح مشہور ہے جس طرح اردو کے کچھ کلاسیکی اور نامور افسانہ نگاروں کے افسانے۔۔اس افسانے کی شہرت اور مقبولیت میں اس بات کا بڑا اہم کردار رہا ہے کہ باد صبا کے انتظار میں اردو زبان کی زبوں حالی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اردو زبان سے محبت کرنے والوں نے جیسے ہی یہ سنا کہ نئی نسل کا مشہور و معروف اور ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ فکشن نگار سید محند اشرف نے اردو پر یہ کہانی لکھی ہے تو بے ساختہ بیشتر اردو والے اس کی طرف متوجہ ہو گئے اور ان میں سے زیادہ تر نے اس بات کی تائید کر دی کہ اس افسانے کا موضوع اردو ہی ہے اور کہانی کی مریضہ اردو زبان کے زوال کی علامت ہے۔"
میں بھی بہت دنوں تک یہی سمجھتا رہا مگر جب یہ افسانہ ایک ویبی فورم "بزم ِافسانہ" کے ایک ایوینٹ میں پیش کیا گیا اور مجھ سے کہا گیا کہ میں اس پر کمینٹ کروں تو ایک بار پھر میں نے اس افسانے کا مطالعہ شروع کیا۔ چونکہ مجھے کمینٹ کرنا تھا یا یوں کہیے کہ تبصرہ لکھنا تھا تو میں نے سنجیدگی سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا اورایک ایک واقعے، ایک ایک بیان، تمام ترجزئیات و تفصیلات اور موضوع و مقصد پر غور کیا تو ذہن میں کئی سوالات ابھر آئے اور تبصرے میں کچھ نئی باتیں راہ پانے لگیں۔
میرا ذہن کہانی پڑھنے کے بعد کہانی کے جس مقصد تک پہنچا وہ یہ ہے کہ کہانی کا تانا بانا اس لیے بنا گیا تاکہ مریضہ کو تازہ ہوا مل سکے، وہ اچھی طرح سانس لے سکے۔ اس کے تنفس کے راستے کی رکاوٹیں دور ہو سکیں اور وہ گھٹن اور اس گھٹن کے مضر اثرات سے نجات پا سکے۔
جب یہ کہانی پہلی بار چھپی تو جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ کسی نے کہہ دیا کہ اس کہانی کی مریضہ اردو زبان ہے اور اسی کے زوال کی کہانی اس افسانے میں کہی گئی ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ مشہور افسانہ نگار پروفیسر حسین الحق نے مدیر رسالہ کو یہ لکھ دیا کہ "اردو پر اتنی اچھی کہانی شاید ابھی تک نہیں لکھی گئی" تب سے اس کہانی میں موجود مریضہ کو اہلِ ادب اردو کی علامت سمجھتے آ رہے ہیں۔
کیا ہمیں بھی آنکھ بند کرکے مان لینا چاہیے کہ نہایت قیمتی اور مرعوب کرنے والے بستر پر پڑی دراز قد حسین و جمیل خاتون، جس کی پیشانی شفاف، ناک ستواں اور بلند تھی، آنکھیں نیم وا اور سرمگیں تھیں، ہونٹ اور رخسار بیماری کے باوجود گلابی تھے، وہ اردو زبان ہے۔ یا افسانہ نگار کے ان جملوں پر بھی غور کرنا چاہیے :
” وہ عمارت اور سفید پوش، ہو حق کی صدائیں بلند کرنے والے سب اسی بستی کا حصہ ہیں۔ بازار کے تمام افراد بھی اسی بستی کا ایک حصہ ہیں۔ اس عمارت کے سارے مکین بھی اسی بستی کا ایک حصہ ہیں اور یہ سب کے سب اس مریضہ کی بیماری سے آدھے ادھورے رہ گئے ہیں۔"
” مطلب؟" ڈاکٹر کی آنکھیں پھیل گئیں۔
” سب اسی خاتون کے حوالے سے اپنی زندگی گزارتے تھے۔ شعوری طور سے کسی کو احساس بھی نہیں ہوتا تھا کہ مریضہ ان کے لیے کتنی کار آمد ہے لیکن جب سے وہ بیمار ہوئی ہے، کمزور ہوئی ہے سب خود میں کچھ نہ کچھ کمی پا رہے ہیں۔"
ان جملوں سے یہ بات صاف ظاہر یے کہ بستی کی تمام عمارتوں، تمام مکینوں، بازار اور افراد سب کا رشتہ اس مریضہ سے ہے۔ اسی کے حوالے سے سبھی اپنی زندگی گزارتے تھے۔ اور وہ خاتون جب سے بیمار پڑی ہے، کمزور ہوئی ہے، سب خود میں کچھ نہ کچھ کمی پا رہے ہیں۔
آگر ہم بستی کو اپنا ملک مان کر سوال کریں کہ کیا اپنے ملک کے تمام خطے اردو سے جڑے رہے ہیں اور وہ اسی زبان کے حوالے سے اپنی زندگی گزارتے رہے ہیں اور اس کے بیمار ہونے سے سبھی کمزور اور آدھے ادھورے ہو گئے ہیں؟ تو جواب یقیناٌ نفی میی ملے گا۔ اس لیے کہ اردو سے سبھی خطوں کا رشتہ استوار کبھی نہیں رہا۔ اردو کے کمزور ہونے سے سبھی کا نقصان ہوا یا اس کی بیماری سے سب کے سب خود میں کمی پا رہے ہیں، ایسا نہ کبھی پہلے تھا اور نہ اب ہے۔ یہاں تک کہ بہت سارے مسلمان بھی جن سے اس زبان کا رشتہ منسوب کیا جاتا ہے، اس زبان کو نہیں جانتے اور نہ ہی جن کا اس سے کوئی جذباتی تعلعق ہی ہے۔ اسی یعنی اردو کے حوالے سے سارے لوگ اور بازار کے تمام افراد اسی کے حوالے سے اپنی زندگی گزارتے تھے، یہ بات بھی درست نہیں۔ لہذا مذکورہ حقائق سے صاف پتا چلتا ہے کہ بیمار خاتون اردو نہیں ہو سکتیں۔ کہانی کے آغاز میں جو discription ہے اس پر ذرا غور کیجیے:
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ مریضہ اردو کی علامت نہیں تو پھر کس کی علامت ہیں؟
اس سوال کا جواب کہانی کے ان جملوں میں تلاش کیا جا سکتا ہے:
ڈاکٹر آبادی میں داخل ہوا۔
راستے کے دونوں جانب اونچے چبوتروں کا سلسلہ اس عمارت تک چلا گیا تھا جو ککیا اینٹ کی تھی۔ چبوتروں پر انواع و اقسام کے سامان ترتیب سے رکھے تھے۔ سامان فروخت کرنے والے مختلف رنگوں اور نسلوں کے نمائندے تھے جو اپنی اپنی دکانوں پر چاک وچوبند بیٹھے تھے۔
چبوتروں کا یہ سلسلہ اس عمارت پر جا کر ختم نہیں ہوتا تھا بلکہ عمارت کے دوسرے رخ پر اسی طرح کے چبوترے انواع و اقسام کے سامان کے ساتھ سجے ہوئے دور تک چلےگئے تھے۔ خریدار مختلف قبیلوں، گروہوں اور رنگوں کی پوشاک پہنے اس چبوترے سے اس چبوترے تک آ جا رہے تھے۔ راستہ طرح طرح کی شیریں، نرم، سخت، کرخت، بھدّی، چیختی ہوئی دکھی سکھی آوازوں سے بھرا ہوا تھا. "
راوی کا یہ بیان جس میں اس بستی یا عمارت سے پہلے واقع علاقے کی تفصیلات ہیں، سے جو شبیہ بن رہی ہے وہ کسی زبان کی نہیں ہو سکتی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زبان کی نہیں تو کس کی؟ اس سوال کے جواب کے لیے آپ ان اقتباسات کو ملاحظہ کیجیے :
” اب جو بات آپ کو بتاؤں گا اسے سن کر آپ اچھل پڑیں گے۔ روگی کے دل سے سنگیت کی
لہریں نکل رہی ہیں۔ جنھیں میں نے کئی بار سنا۔"
” ۔۔۔۔۔ ہردیہ کی چال سے جو دھن پھوٹ رہی تھی
اس میں ندی کے بہنے کی کل کل تھی۔ ہوا کی مد بھری سرسراہٹ تھی۔ پنچھیوں کی چہکار تھی۔"
دراز قد انسان گویا ہوا :
"اس آواز میں میدان جنگ میں طبل پر پڑنے والی پہلی ضرب کی آواز کا ارتعاش بھی ہوگا۔
دو محبت کرنے والے بدن جب پہلی بار ملتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے ہونٹوں سے محسوس کرتے ہیں وہ لذت بھری آواز بھی ہوگی۔ ملا گیری رنگ کی عبا پہنے صوفی کے نعرۂ مستانہ کی گونج بھی ہوگی۔ دربار میں خون بہا کا فیصلہ کرنے والے بادشاہ کی آواز کی گرج بھی شامل ہوگی۔ صحراؤں میں بہار کی آمد سے متشکل ہونے والی زنجیر کی جھنک بھی ہوگی اور بنجر زمین پر پڑنے والے موسم برشگال کے پہلے قطرے کی کھنک بھی ہوگی۔"
ڈاکٹر اور دراز قد انسان کے یہ بیانات بتاتے ہیں کہ جس مریضہ کے سینے میں یہ ساری آوازیں بند ہیں وہ کوئی زبان نہیں بلکہ وہ مشترکہ تہذیب ہے (جس کا اشارہ ان تفصیلات سے بھی ملتا ہے جو کہانی کے ابتدائی بیانات میں درج ہیں جہاں مختلف طرح کے انسانوں، نسلوں، رنگوں اور سازو سامان کا ذکر کیا گیا ہے) جو کمزور ہوتی جا رہی ہے اور جس کے مٹ جانے کا اندیشہ ہے۔ اور جس کے تنفس میں خرابی اس لیے پیدا ہو گئی ہے کہ اسے تازہ ہوا نہیں مل پا رہی ہے اور تازہ ہوا اس لیے نہیں مل پا رہی ہے کہ جن کھڑکیوں اور دروازوں سے ہوائیں آتی تھیں وہ بند کر دیے گئے ہیں مگر وہ تہذیب اب تک مری اس لیے نہیں کہ بقول افسانہ نگار:
” ۔۔۔ چاروں طرف بنے ان کمروں میں صرف ایک کمرہ ایسا ہے جس کے مکین نے باہر کی کھڑکی کھول رکھی ہے۔ شام کو جب واپس آتا ہے تو دروازہ کھول دیتا ہے۔ تبھی تازہ ہوا کے جھونکے اندر آ پاتے ہیں۔"
"اس نوجوان کو دل چسپی کیوں ہے؟"
"کیوں کہ وہ اس خاتون کو زندہ دیکھنا چاہتا ہے۔"
” وہ کیوں؟"
کیوں کہ اسے اپنے اجداد سے محبت ہے۔"
افسانہ نگار چاہتا ہے کہ وہ مریضہ جو مشترکہ تہذیب کی علامت ہے، مرے نہیں. اور وہ زندہ اسی صورت میں رہ سکتی ہے جب سبھی اپنے ذہن و دل کے دروازے کھولے رکھیں۔ اسی لیے وہ ڈاکٹر سے کہلواتا ہے:
” اس عمارت کے تمام نوجوان مکینوں سے کہیے کہ وہ باہر کھلنے والی تمام کھڑکیاں کھول کر کمرے میں کھلنے والے دروازے کھول دیں۔"
یہاں کوئی یہ سوال کر سکتا ہے کہ وہ شخص کون ہے جو ہر وقت مریضہ کے ساتھ رہتا ہے اور مریضہ کے تئیں فکر مند دکھائی دیتا ہے اور جو ڈاکٹر سے ہم کلام ہے؟
دراز قد انسان میرے خیال میں ملک یا ماحول کا وہ کردار ہے جو تہذیبی اقدار کا محافظ ہوتا ہے۔ اس انسان کو دراز قد اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ ہندستان کی مشترکہ تہذیب کی مدتوں سے حفاظت کرتا چلا آ رہا ہے۔ اور جو اس تہذیب کے ایک ایک رگ و ریشے سے اچھی طرح واقف ہے۔ اسی لیے جب ڈاکٹر مریضہ کے سینے کی دھڑکنیں سن کر اس کے اندر کی آوازوں کو بیان کرنا شروع کرتا ہے تو وہ دراز قد انسان باقی خوبیاں خود گنوانے لگتا ہے۔
اس تہذیب کی علالت کی فکر صرف اس دراز قد انسان کو ہی نہیں ہے بلکہ آس پاس کے کمروں میں رہنے والے مکینوں کو بھی ہے۔ اسی لیے کبھی برابر کے کمرے سے نکل کر کوئی نوعمر لڑکا پوچھتا ہے:
” ڈاکٹر نے لیڈی کو کیا روگ بتایا اندر سے انکوائری کی ہے۔"
اور کبھی کسی کمرے سے فراک اسکرٹ والی نو عمر لڑکی آ کر پوچھتی ہے:
” ماما نے پوچھا کہ لیڈی کا فیور ڈاؤن ہوا کہ نہیں؟"
در اصل دراز قدانسان، نئی نسل کے کچھ نوجوان اور کچھ کمروں کے مکیں جو اپنی وضع قطع اور زبان سے مختلف نظر آتے ہیں وہ اس بیمار تہذیب کو لے کر فکر مند ہیں کہ اگر اس مشترکہ تہذیب کو بچایا نہیں گیا تو سبھی کا جینا دشوار ہو جائے گا۔ ان کا تنفس بھی گھٹن سے بھر جائے گا۔۔
اس بات کی تائید افسانے کے ان آخری جملوں سے بھی ہو جاتی ہے:
” اگر وہ ایسا نہ رہیں۔۔۔تب۔۔۔تب کیا ہوگا؟" مریضہ نے بہت بے صبری سے پوچھا۔
” تب" ڈاکٹر نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا
” تب یہ ختم ہو جائیں گے" اس نے دراز قد وجیہہ مرد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔"
یعنی وہ کردار جو اس مشترکہ تہذیب کے تحفظ کے لیے فکر مند رہتا ہے اور اس کی صحت کے لیے رات دن کوشاں رہتا ہے، وہ بھی ختم ہو جائے گا۔
در اصل وہ قدر (value) بیمار پڑ گئی ہے جس سے رواداری، انکساری، ملنساری، احساس ذمے داری برد باری، نرم گفتاری، آپس داری جیسی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں جو دلوں کو جوڑتی ہیں۔ دماغوں کو نرم کرتی ہیں. طبیعتوں کو ہم آہنگ کرتی ہیں. رگ و ریشے میں محبتیں بھرتی ہیں۔ انسانوں کو تحفظ اور بے فکری عطا کرتی ہیں۔ اس تہذیب کے فروغ میں اردو زبان کا بھی اہم رول رہا ہے۔
ممکن ہے سید محمد اشرف کے سامنے بھی وہی موضوع رہا ہو جسے ابتدا میں کچھ لوگوں نے سمجھا اور اس کی تشہیر بھی خوب کی مگر میرے خیال سے تخلیقی عمل ایک بڑا ہی پیچیدہ عمل ہے۔ اور اس میں کبھی کبھی وہ دکھائی نہیں دیتا جو ہوتا ہے اور کبھی جو دکھائی دیتا ہے وہ نہیں ہوتا ہے۔کسی تخلیق کا موضوع یا محرک وہ نہیں ہوتا جو تخلیق کار سمجھتا ہے یا جس کا وہ دعویٰ کرتا ہے۔ بسا اقات تخلیق کا موضوع وہ ہوتا ہے جسے دوسرے لوگ دریافت کرتے ہیں۔ اور اکثر یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ تخلیق کار کو یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ اس کی تخلیق کے متعلق دوسروں کی راۓع زیادہ صحیح اور قابلِ قبول ہے۔
ایسا شاید اس لیے ہوتا ہے کہ تخلیقی عمل میں محض دکھائی دینے والا دباؤ یا محسوس ہونے والا احساس ہی کام نہیں کرتا بلکہ تخلیق کار کے اندر موجود بعض دوسرے دباؤ اور احساسات بھی سرگرمِ عمل ہوتے ہیں اور کبھی کبھی ان میں سے کوئی دباؤ یا احساس غیر محسوس طریقے سے تخلیق کے دھارے کو کسی اور جانب موڑ دیتا ہے۔ تخلیق کار کو چوں کہ دکھائی دینے والا دباؤ یا شعوری سطح پر محسوس ہونے والا احساس ہی یاد رہ جاتا ہے، اس لیے وہ اسی کو اپنی تخلیق کا موضوع یا محرک سمجھ بیٹھتا ہے مگر جب کوئی پارکھی اصل موضوع یا اس کے محرکات کی طرف اشارہ کرتا ہے تو اس وقت تخلیق کار کے ذہن میں بھی وہ احساس چمک اٹھتا ہے جو تخلیقی پروسیس کے وقت دھند میں چھپا رہ گیا تھا۔ اور چونکہ اس موضوع کا بنیادی احساس یا خیال سے کوئی نہ کوئی رشتہ ضرور رہتا ہے اس لیے تخلیق کار بھی اس سے انکار نہیں کر پاتا۔
چونکہ مشترکہ تہذیب کی تشکیل میں اددو زبان کا ایک اہم اور نمایاں کردار رہا ہے اور افسانے کی معمر اور مہذب خاتون خالص اردو بولتی ہیں اس لیے فوری طور پر یہ ذہن میں آتا ہے کہ وہ خاتون اددو کی علامت ہیں اور ان کی بیماری اردو زبان کی خستہ حالی کی ترجمانی کر رہی ہے۔
اشرف ایک فطری، خلّاق، حسّاس اور صاحبِ ادراک فن کار ہیں جس کے شعور اور لاشعور دونوں انتہائی چابک دستی اور باریکی سے کام کرتے ہیں، اس لیے اپنے بنیادی تجربے کے ساتھ اور بھی بہت سارے تجربات سمیٹ لاتے ہیں جن کا اصل نکتے سے کوئی نہ کوئی رشتہ ضرور ہوتا ہے۔
میرے موقف کی تائید اس کتاب کے سرورق پر بنی پینٹگ سے بھی ہو جاتی ہے جس میں یہ افسانہ شامل ہے اور اتفاق سے یہ اس کتاب کا عنوان بھی ہے۔ پینٹگ میں دکھائی گئی تصویروں میں طرح طرح کی سواریاں ہیں جنھیں بیل، گھوڑے، ہاتھی، اونٹ وغیرہ کھینچ رہے ہیں، بہنگی ڈھونے والے اور سواریوں کو کھینچنے والے غریب مزدور بھی اور اونٹ اور ہاتھیوں پر بیٹھنے والے امیر و رئیس بھی۔ سرورق پر ان سب کی موجودگی سے مختلف قسم کے قوموں، طبقوں، علاقوں، نسلوں رنگوں وغیرہ سے تعلق رکھنے والے انسانوں کا اشارہ ملتا ہے جن کی یکجائی سے جو شبیہ ابھرتی ہے وہ زبان کی نہیں بلکہ تہذیب کی تصویر ہے اور ایسی ہی تہذیب کو مشترکہ کلچر سے موسوم کیا جاتا ہے۔
اب رہ گئی بات اشرف کے اظہار اور اس اظہار کی زبان کی تو اس افسانے میں تین زبانیں استعمال کی گئی ہیں:
اردو، ہندی اور انگریزی جس کے ثبوت درج ذیل اقتباسات میں ملتے ہیں :
1ــ ” عزیزہ۔۔۔۔ میری مراد مریضہ نے مدتوں سے غذا کو منہ نہیں لگایا۔ گھریلو نسخوں سے تیار شدہ
ادویات ہونٹوں تک تو پہنچ جاتی ہیں مگر معدے تک
نہیں جا پاتیں۔ مریضہ اپنے مرض کا اظہار بذاتِ خود کبھی نہیں کرتیں۔۔ کبھی کبھی جلدِ بدن بخار کی شدت سے سرخ ہو جاتی ہے۔ ہاتھ رکھ کر محسوس کیا جائے تو تھوڑی ہی مدٌت میں بدن نم اور برف کی طرح سرد ہو جاتا ہے اور زندگی کے سارے آثار ختم ہوتے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ تنفس کی بے ترتیبی تردد کا سب سے بڑا سبب ہے۔"
2 ـ ” بہت بڑا سمبندھ ہے۔ تازہ ہوا جب پھیپھڑوں کے راستے رکت میں ملتی ہے تو جیون کا سروپ بنتا ہے۔وہ جیون رکت کے ساتھ مل کر شریر کے ہر انگ کو شکتی دیتا ہے۔ پوری ہوا نہ ملے تو رکت۔۔۔ ۔۔لال رکت تھوڑی دیر بعد نیلا پڑ جاتا ہے۔ اور شریر کے ہر بھاگ میں روگ چھا جاتا ہے."
3 ـ "ڈاکٹر نے لیڈی کو کیا روگ بتایا اندر سے
انکوائری کی ہے۔"
ماما نے پوچھا کہ لیڈی کا فیور ڈاؤن ہوا کہ نہیں۔"
درج بالا تینوں اقتباسات میں مستعمل زبانیں بھی موضوع سے متعلق میرے موقف کی غمازی کر رہے ہیں. اردو، ہندی اور انگریزی یہ تینوں زبانیں تین قوموں، معاشرتوں اور تہذیبوں کی بھی نمائندگی کر رہی ہیں، جن کے اشتراک اور میل جول سے مشترکہ تہذیب کی تشکیل ہوئی، جن سے اس کہانی کے موضوع کی طرف اشارہ مل رہا ہے۔ اور جن سے متعلق سبھی قوموں کو اس بیمار تہذیب کا غم ستا رہا ہے اور جس کے بگاڑ کو لے کر سبھی پریشان ہیں۔
ان زبانوں کے استعمال سے افسانہ نگار کا لاشعور یا شعور مشترکہ تہذیب والے موقف کو یقینی تو بناتا ہی ہے یہ نکتہ بھی سامنے لاتا ہے کہ مشترکہ تہذیب کے اظہار کی زبان وہ ہو سکتی ہے جس میں نرمی ہو، درد مندی ہو، شیرینی ہو۔
افسانہ نگار علامتی انداز میں یہ بات بھی کہنا چاہتا ہے کہ مریض کے پاس ڈاکٹر آ تو گیا ہے مگر درد کی زبان درماں نہیں سمجھ پا رہا ہے اس لیے بیماری کا علاج مشکل ہے۔ بیمارکو بادِ صبا کا انتظار ہے کسی ایسی ہوا کا نہیں جو کوچۂ بیمار سے واقف ہی نہ ہو۔
***
غضنفر کی گذشتہ نگارش:اپنا ہی ہاتھ سر پہ رہا اپنے یاں سدا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے