کتاب: مجسموں کا شہر (افسانوی مجموعہ)

کتاب: مجسموں کا شہر (افسانوی مجموعہ)

تخلیق: محمد حنیف خان
تبصرہ: محمد اشرف یاسین

"مجسموں کا شہر" جواں سال قلم کار ڈاکٹر محمد حنیف خان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ اس میں شامل سبھی افسانوں کو پڑھ کر مجھے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ محمد حنیف اچھے کالم نگار ہیں یا پھر افسانہ نگار؟ (گذشتہ کئی برسوں سے محمد حنیف راشٹریہ سہارا، نئی دہلی کے مستقل کالم نگار ہیں اور اس اخبار کے علاوہ بھی انھوں نے لکھنؤ کے کئی اخبارات میں ملازمت کی ہے۔ ان کے کالموں کا ایک مجموعہ "خاموشی جرم ہے" کے نام سے بھی منظرِ عام پر آچکا ہے۔ یہ فی الحال علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبۂ اُردو میں استاد ہیں.)
زیرِ نظر مجموعے میں شامل سبھی افسانے لائقِ مطالعہ ہیں۔ ان افسانوں میں مجھے "گل رُخ اور مار زندان" نامی افسانہ پسند آیا۔ اس افسانے کا موضوع زرتشت لوگوں کی مذہبی، تہذیبی، ثقافتی اور عائلی زندگی ہے۔ واضح رہے کہ قرۃ العین حیدر نے بھی اپنے افسانہ "نظارہ درمیاں ہے" [اس افسانے کو اب یوٹیوب پر شارٹ فلم کی شکل میں بھی پیش کردیا گیا ہے]، (اسی افسانے کی تھیم سے ملتا جلتا نعیمہ جعفری پاشا کا افسانہ "خوب صورت" ہے۔ جو "ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا کے نمائندے افسانے" : مرتب ڈاکٹر عمران عاکف خان نامی کتاب میں شامل ہے۔) اور پروفیسر بیگ احساس نے "دخمہ" میں اسی چیز کو موضوع بنایا ہے۔
اس مجموعے کا ایک اور افسانہ "آنندی کی باز آباد کاری" مجھے بہت دل چسپ معلوم ہوا، کیوں کہ اس افسانے کا تھیم غلام عباس کے افسانہ "آنندی" سے مستعار ہے۔ اس افسانے کی کہانی "آنندی" سے آگے بڑھ کر "کرایے کی کوکھ" (Surrogacy) حاصل کرنے والوں کے لیے ڈاکٹروں کی ساز باز پر منتج ہے، جس سے "آنندی" کا گھر آباد ہوکر پھر سے بکھر جاتا ہے۔ ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا نے بھی اسی موضوع پر "کرائے کی کوکھ" نامی ایک افسانہ لکھا ہے۔(مشمولہ، ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا کے نمائندہ افسانے)
یاد رہے کہ اردو میں یہ تجربہ کئی لوگوں نے کیا ہے۔ جیسے انیس اشفاق کا ناول "پری ناز اور پرندے" اس لحاظ سے ایک منفرد تخلیق ہے، کیونکہ اس میں مایہ ناز اور سرسوتی سمان سے اعزاز یافتہ افسانہ نگار نیر مسعود کے مشہور افسانے "طاؤس چمن کی مینا" کی کہانی کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ انیس اشفاق نے مرزا محمد ہادی رسوا کے مشہور ناول امراؤ جان ادا کے کردار امراؤ جان ادا پر "خواب سراب" کے عنوان سے ایک ناول لکھا ہے، جب کہ ڈاکٹر رشید اشرف نے ناول امراؤ جان ادا کو مثنوی کی شکل میں منظوم پیش کردیا ہے۔ انیس اشفاق سے پہلے اردو میں ایک تجربہ کیا گیا تھا، جب سریندر پرکاش نے منشی پریم چند کے ناول "گئودان" کے ایک کردار "ہوری" کو لے کر اس پر ایک افسانہ "بجوکا" لکھا تھا، بعد میں سلمان عبد الصمد نے اسی راہ پر چلتے ہوئے لکھا "نیا بجوکا"، لیکن افسانے پر ناول لکھنے کی انیس اشفاق نے پہلی مثال قائم کی۔ اسی طرح پریم چند ہی کے افسانہ "عید گاہ" کے کردار کو آگے بڑھاتے ہوئے پروفیسر اسلم جمشید پوری نے "عید گاہ سے واپسی" نامی افسانہ لکھا۔
اس مجموعے میں شامل ایک افسانہ "مجسموں کا شہر" بھی مجھے بہت اچھا لگا۔ جس کا تھیم یہ ہے کہ جدید دور میں ہم ایک دوسرے سے اس قدر بے زار اور لا تعلق ہوگئے ہیں کہ ہمارے اندر کی انسانیت بھی اب رفتہ رفتہ ختم ہونے لگی ہے، دھیرے دھیرے ہم سب مجسمے میں تبدیل ہونے لگے ہیں۔
بہ قول شاعر:
بے حسی نے لاتعلق کردیا کچھ اس قدر
اک پڑوسی جل رہا ہے، دیکھتا کوئی نہیں
اس مجموعے میں شامل سبھی سترہ افسانے اس لائق ہیں کہ ہر ایک پر الگ الگ گفتگو کی جائے، لیکن تبصرے کی طوالت سے بچنے کے لیے میں نے محض تین ہی افسانوں تک اپنی گفتگو محدود رکھی ہے۔
اس خوب صورت اور عمدہ افسانوی مجموعے کی اشاعت پر ڈاکٹر محمد حنیف کو بہت بہت مبارک باد.
ہر لحظہ نیا طُور، نئی برقِ تجلّی
اللّٰه کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے
***
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش:کتاب: افسانے کی شعریات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے