قومی تعلیمی پالیسی 2020ء

قومی تعلیمی پالیسی 2020ء

تاریخ، پس منظر اور پیش منظر

خان حسنین عاقبؔ
(رکن، اردو لسانی کمیٹی، بال بھارتی، پونہ)
لکچرر، جی۔این۔آزاد جونئر کالج آف ایجوکیشن،
پوسد۔ 445204، ضلع ایوت محل، مہاراشٹر

نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 کا ہر طرف چرچا ہے۔ لیکن یہ چرچا تعلیمی شعبوں میں زیادہ ہے اور عوام میں نہ کے برابر! اور ہو بھی کیسے؟ آج کل عوام کو براہِ راست ان معاملات میں شامل کرنے کی کوشش کبھی نہیں کی گئی اور نہ ہی عوام میں اس تعلق سے بیداری پائی جاتی ہے۔ مختلف اخبارات اور رسائل میں کئی ماہرین اور اساتذہ نئی قومی تعلیمی پالیسی کے بارے میں اپنے اپنے زاویے سے گفتگو کررہے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ ہم اس پالیسی پر ایک اجمالی جائزہ پیش کریں جس میں ہمارے ملک میں تعلیمی پالیسی سازی کی تاریخ، اس کا پس منظر اور پیش منظر کا مکمل اور سیر حاصل مباحثہ قائم کیا جائے۔ ہم نے اس تعلیمی پالیسی کی تلخیص کے مختصر مگر اہم نکات پر گفتگو کی ہے جس کے مطالعے کے بعد دیگر اساتذہ موضوع کے لحاظ سے نہ صرف اسے سمجھ سکیں گے بلکہ اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازیں گے یا پھر ان اہم نکات پر بحث و مباحثہ منعقد کرسکیں گے۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم اس پالیسی کے مختلف زمرے موضوع کے لحاظ سے قائم کریں اور ایک مضمون میں ایک ہی موضوع پر قومی تعلیمی پالیسی کی روشنی میں گفتگو کریں۔ ہوسکتا ہے آپ کو یہ کوشش پسند آئے اور قومی تعلیمی پالیسی سے متعلق یہ معلومات آپ کے، طلبہ کے، سرپرستوں کے اور ہم تمام کے لیے کارآمد ثابت ہوں اور یہ کتابچہ شعبۂ تعلیم سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کے لیے ایک حوالے کی چیز Ready Reckoner ثابت ہو۔
خان حسنین عاقب 
***
۱۔
بھارت: قومی تعلیمی کمیشن، قومی تعلیمی پالیسیاں، تاریخ اور روایت:
کسی بھی ملک کے بنیادی نظام میں تعلیم کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اگر شہری تعلیم یافتہ ہوں گے تو ملک بھی ترقی کرے گا اور انتظامی ڈھانچے کو مضبوطی فراہم کرنے کے لیے تعلیم یافتہ افراد فراہم ہوں گے۔ اس کے بالمقابل ایک ایسے ملک کا ایک ایسی قوم کا تصور کیجئے جہاں تعلیم کے بارے میں بہت زیادہ بیداری نہیں پائی جاتی۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس ملک کو ترقی یافتہ تو چھوڑیے، ترقی پذیر ملک بھی کہا جاسکتا ہے؟
ہمارا ملک بھارت جغرافیائی اعتبار سے تنوع کا حامل ملک ہے۔ اسی تنوع Diversity کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ کبھی اسے رنگارنگی بھی کہاجاتا ہے اور کبھی اسے تکثیریت بھی کہاجاتا ہے۔ لیکن اس کا مفہوم بھارت کی تہذیبی اور ثقافتی رنگا رنگی کو جانے بغیر سمجھنا مشکل ہے۔ ہمارے ملک کی یہی رنگا رنگی ہر میدان میں پیش پیش رہتی ہے، پھر چاہے وہ سیاسی میدان ہو یا ثقافتی، سماجی میدان ہو یا تہذیبی، اقتصادی میدان ہو یا فکری اور نظریاتی۔۔۔
جب ہم اپنے ملک کی ترقی کی بات کرتے ہیں تو تعلیم کا تصور سب سے پہلے ہمارے ذہنوں میں روشن ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کی خوش نصیبی یہ رہی ہے کہ یہاں زمانۂ قدیم ہی سے اہم تعلیمی ادارے موجود رہے ہیں۔ نالندہ یونی ورسٹی کی اہمیت سے کسے انکار ہوسکتا ہے؟ یہ الگ بات ہے کہ تعلیم کا حصول زمانۂ قدیم میں خواص سے منسوب ہوتا تھا۔
ہم فی الوقت اگر ہمارے ملک بھارت میں تعلیم اور تعلیمی پالیسیوں کی بات کریں تو انھیں دو مختلف ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
۱۔ آزادی سے پہلے کا دور
۲۔ آزادی کے بعد کا دور
ا۔ آزادی سے پہلے تعلیمی پالیسی:
ہم جب بھی آزادی سے پہلے کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں فوراً انگریزوں کا زمانہ آجاتا ہے۔ یعنی ہم اس دور سے مراد انگریزوں سے حاصل ہونے والی آزادی ہی لیتے ہیں۔ اس لیے ہم اس مقالے میں بھی اس دور سے مراد انگریزوں کا دورِ حکمرانی ہی لیں گے۔ انگریزوں سے پہلے بھارت کے طول و عرض میں مکتبوں، مدرسوں اور پاٹھ شالاؤں، گروکُل کا جال پھیلا ہوا تھا۔ ان مکتبوں، مدرسوں، گروکُل اور پاٹھ شالاؤں کو مقامی حکمرانوں کی سرپرستی حاصل ہوتی تھی۔ مکتبوں کی زبان عام طور پر عربی اور فارسی ہوا کرتی تھی جب کہ پاٹھ شالاؤں کی زبان سنسکرت ہوتی تھی۔
انگریزوں کے دورِ حکومت میں تعلیم کا شعبہ نسبتاً بہتر اور منظم تھا۔ انگریزوں کو چونکہ یہاں اپنی حکومت کا کام کاج چلانے کے لیے تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت تھی اس لیے انھوں نے بھارت میں تعلیم کے فروغ پر زور دینے کی شروعات کی۔ اس مقصد کے تحت انگریزوں نے سب سے پہلے تعلیمی پالیسی تیار کی۔ آئیے، ہم انگریزوں کی تعلیمی پالیسی سے قبل انگریزوں کے دورِ حکومت کا مختصر جائزہ لے لیتے ہیں۔
1600 عیسوی میں انگلینڈ میں چند انگریز تاجروں نے’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کے نام سے ایک تجارتی کمپنی قائم کی جس کا مقصد مشرقی ملکوں اور خصوصی طور پر بھارت کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں انجام دینا تھا۔ انگریزوں نے تجارت کے بہانے ہمارے ملک میں قدم جمانے شروع کردیے اور مغلیہ حکومت کے کمزور ہوتے ہی انھوں نے ملک کے سیاسی معاملات میں نہ صرف دخل اندازی کا آغاز کردیا بلکہ عملی طور پر بھی وہ دھیرے دھیرے اور ٹکڑوں ٹکڑوں میں ہی سہی لیکن عملی طور پر بھارت کے مختلف حصوں پر قابض ہوتے چلے گئے۔ جب پورا ملک بلا شرکتِ غیرے انگریزوں کے اختیار میں آگیا تو انھوں نے مجموعی طور پر ملک کے بنیادی ڈھانچے کو اپنی مرضی، سہولت اور ضرورت کے مطابق بدلنا شروع کردیا۔ سب سے پہلے انگریزوں نے انتظامی ڈویژن قائم کیے۔ 1640 میں انھوں نے ’مدراس پریسی ڈینسی‘ قائم کی۔ ’بامبے پریسی ڈینسی‘ کا قیام 1687 عیسوی میں عمل میں آیا۔ اس کے بعد 1690 میں انھوں نے دوسری پریسی ڈینسی ’بنگال پریسی ڈینسی‘ قائم کی۔ 1857 میں انگریزوں نے ’بامبے یونی ورسٹی‘ قائم کی۔
اس دور میں انگریزوں کی تعلیمی پالیسی کے مقاصد درجِ ذیل تھے۔
۱۔بھارت میں برطانوی ثقافت کا فروغ۔
۲۔ انگریزی زبان کے ذریعے بھارت واسیوں کے ذہنوں اور ان کے افکار پر قابو حاصل کرنا۔
۳۔ بھارت واسیوں کو تربیت دے کر انھیں انگریزوں کی ملازمت کا اہل بنانا۔
۴۔ بھارت میں رائج مختلف رسوم، مقامی ریتی رواج اور قوانین کو سمجھنا۔
1813 میں انگریزوں نے ’چارٹر ایکٹ‘ پاس کیا جو بھارت میں جدید تعلیم کی جانب پہلا قدم تھا۔ اس ایکٹ کے تحت بھارتیوں کی تعلیم کے لیے ایک لاکھ روپے کی گرانٹ منظور کی گئی۔ اس ایکٹ کے ذریعے ان مشنریوں کو بھارت آنے کے لیے سرکاری اجازت نامہ دیا گیا جو یہاں آکر تعلیم دینے کا ارادہ رکھتے تھے۔
تعلیمی پالیسی کے بارے میں اختلافِ رائے:
یہ وہ دور تھا جب پالیسی سازی کے معاملے میں انگریزی حکمرانوں میں دو طبقے بن گئے۔ انگریز یہ طے نہیں کرپا رہے تھے کہ کون سا طریقہ تعلیم بھارتیوں کو تعلیم دینے کے لیے اختیار کیا جائے۔ مستشرقین کی رائے تھی کہ بھارتیوں کو روایتی طریقے سے تعلیم دی جائے۔ جب کہ دوسرے ماہرین کی تجویز تھی کہ بھارتیوں کی تعلیم کے لیے مغربی طریقۂ تعلیم اختیار کیا جائے اور انھیں مغربی مضامین ہی پڑھائے جائیں۔ ایک مشکل یہ بھی درپیش آئی کہ بھارتیوں کو تعلیم کس زبان میں دی جائے!
بعد کے دور میں انگریزوں نے اپنی تعلیمی پالیسی کی کمان لارڈ میکالے کو سونپی جس نے بھارت میں برطانوی تعلیمی پالیسی کا ڈرافٹ تیار کیا تھا۔ اس ڈرافٹ کے مطابق بھارت کے تعلیمی نظام سے فارسی اور سنسکرت جیسی انتہائی اہم اور رائج زبانوں کو ہٹایا جانا نہایت ضروری تھا۔
لارڈ میکالے کو تعلیمی پالیسی تیار کرنے والی کمیٹی کا چیئر مین بنایا گیا تھا۔ اس نے بھرپور کوشش کی کہ بھارتیوں کو صرف خون اور رنگ کے لحاظ سے بھارتی رکھا جائے، جب کہ وہ اپنے نظریات، رائے اور ذوق و شوق کے لحاظ سے پکے انگریز بن جائیں۔
درجِ ذیل تینوں مقاصد لارڈ میکالے کی تعلیمی پالیسی کا اہم حصہ تھے۔
میکالے کی ان تجاویز کو لارڈ بینٹک نے منظوری دے دی۔ 7 مارچ 1835 میں اس تعلیمی پالیسی اور لارڈ میکالے کی سفارشات کے ماحصل outcomes کو شائع کیا گیا۔ اعلا تعلیم میں انگریزی زبان کو ’میڈیم آف انسٹرکشن‘ کے طور پر اختیار کرنے کا فیصلہ بھی اسی کا نتیجہ تھا۔ اس پالیسی میں مغربی سائنس اور ادب کو بھی تعلیم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ 1835 میں بامبے میں الفنسٹن کالج اور کولکاتا میں کلکتہ میڈیکل کالج جیسے اہم ادارے قائم کیے گئے۔
’میگنا کارٹا آف انڈین ایجوکیشن‘:
لارڈ چارلس ووڈ ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈ آف کنٹرول کا صدر تھا۔ اس نے گورنر جنرل آف انڈیا لارڈ ڈلہوزی کو ایک ڈسپیچ بھیجا۔ اس ڈسپیچ کو ’ووڈس ڈسپیچ‘ کہاجاتا ہے۔ 1854 میں ’ووڈس ڈسپیچ‘ کو منظوری دی گئی۔ Wood’s Despatch کو انڈین ایجوکیشن کا میگنا کارٹا بھی کہاجاتا ہے۔ اس کے مندرجات ذیل کے مطابق تھے۔
’اعلا تعلیم میں انگریزی زبان ہی میڈیم آف انسٹرکشن رہے گی، جب کہ پرائمری تعلیم کے لیے مادری یا علاقائی زبان کو میڈیم کے طور پر اختیار کیا جائے گا۔ جہاں جہاں ضرورت ہوگی، انگریزی زبان پڑھائی جائے گی لیکن انگریزی زبان ملک کی vernacular زبان کے متبادل کے طور پر اختیار نہیں کی جائے گی۔‘
اس پالیسی کے اہم نکات یہ بھی تھے:
۱۔ خواتین کی تعلیم، پیشہ ورانہ تعلیم اور اساتذہ کی تربیت پر بھی زور دیا جائے گا۔
۲۔ سرکاری اداروں میں دی جانے والی تعلیم ’سیکولر‘ ہوگی۔
۳۔ انگریزی جاننے والے بھارتیوں کو ملازمت میں ترجیح دی جائے گی۔
۴۔ پرائمری سے یونی ورسٹی تک تعلیم کو ریگولرائز کیا جائے گا۔
۵۔ ہر ضلع میں کم از کم ایک سرکاری اسکول کھولا جائے گا۔
انگریزوں کی تعلیمی پالیسی بنیادی طور پر اگرچہ محض انگریزوں کے اپنے مفاد کو ذہن میں رکھ کر تیار کی گئی تھی لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی تعلیمی پالیسیوں کی وجہ سے ہی ملک میں ایک ایسا طبقہ وجود میں آگیا جس نے انگریزوں کے اصولوں، ان کی تعلیمی ترقی، ان کی فکری و نظریاتی اقدار سے نہ صرف واقفیت حاصل کی بلکہ بھارت کی آزادی میں اس طبقے نے نہایت قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔
آزادی کے بعد قائم ہونے والے تعلیمی کمیشن:
آزادی کے بعد تعلیم کے فروغ کے لیے سب سے پہلا کمیشن 1948-49 میں ڈاکٹر رادھا کرشنن کی صدارت میں قائم کیا گیا۔ اسے’یونی ورسٹی ایجوکیشن کمیشن‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
پہلے تعلیمی کمیشن کی سفارشات:
اس کمیشن کے مطابق زیادہ زور اعلا تعلیم پر دیا گیا تھا لیکن اسکولی تعلیم کے متعلق مسائل پر بھی کماحقہ گفتگو کی گئی تھی۔ اس کمیشن نے تجویز پیش کی کہ اسکولی تعلیم اور یونی ورسٹی تعلیم کی نوعیت اور شکل الگ الگ ہونی چاہیے۔ اس کمیشن نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ’اچھی تعلیم کا مقصد صرف یونی ورسٹی تعلیم حاصل کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اگر کوئی طالب علم یونی ورسٹی تک نہ پہنچ سکے تب بھی وہ اپنی زندگی میں اتنا کچھ تو سیکھ لے کہ وہ اپنی روٹی روزی کمانے لائق ہوجائے۔
دوسرا تعلیمی کمیشن:
اس کے بعد دوسرا ایجوکیشن کمیشن 1952-53 میں قائم ہوا۔ اسے سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن کہاجاتا ہے۔اس کمیشن نے اپنی رپورٹ 1953میں پیش کی۔ اس رپورٹ کی سفارشات مندرجہ ذیل تھیں۔
سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن کی سفارشات:
سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن 1952-53 نے سیکنڈری ایجوکیشن کی سفارشات میں تقریباً تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی۔ اس کی اہم سفارشات ذیل کے مطابق تھیں:
۱۔ اعلا ثانوی نظام کا قیام
۲۔ مختلف و متنوع کورسس
۳۔ سہ لسانی فارمولہ
۴۔ تعلیم اور پیشہ ورانہ رہ نمائی پر زور
۵۔پڑھانے کے طریقوں، درسی کتابوں اور قدرپیمائی کے نظام میں بہتری
۶۔ اسکولی عمارتوں اور بنیادی وسائل میں بہتری
مُدلیار کمیشن 1952:
1952 میں ہی ایک علاحدہ کمیشن ڈاکٹر لکشمن سوامی مُدلیار کی صدارت میں اسکولی تعلیم کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے کے مقصد کے تحت قائم کیا گیا تھا۔
1952 مُدلیارتعلیمی کمیشن رپورٹ:
1952 تعلیمی کمیشن نے اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کی جس کے تحت مختلف سفارشات شامل تھیں۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ کسی بھی ملک میں جمہوری فکر کے حامل شہری تیار کرنے کے لیے اسکولی تعلیم نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کسی جمہوری نظام میں شہریوں کی شمولیت کا مطلب ان شہریوں کی دانشورانہ، سماجی اور اخلاقی خوبیوں کی شمولیت ہوتی ہے۔ ایک جمہوری شہری میں فہم اور فراست ہونی چاہیے تاکہ وہ جھوٹ کو سچ سے، حقیقت کو پروپیگنڈا سے الگ کرنے کی تمیز کا حامل ہو۔ نیز تعصبات اور کٹرپن کی خطرناک دعوت کو رد کرنے کا شعور رکھتا ہو۔
تیسرا تعلیمی کمیشن:
اس کمیشن کے بعد 1964-65 میں تعلیمی کمیشن قائم کیا گیا۔ دونوں تعلیمی کمیشنوں نے بدلتے ہوئے سماجی اور سیاسی ماحول کے پیشِ نظر مہاتما گاندھی کے تعلیمی فلسفے کو بنیاد بناتے ہوئے ملک کی ترقی پر زور دیا۔ چونکہ یہ کمیشن ڈاکٹر ڈی۔ایس۔ کوٹھاری کی قیادت میں قائم کیا گیا تھا اس لیے اسے ’کوٹھاری کمیشن‘ بھی کہاجاتا ہے۔ کوٹھاری کمیشن کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں تعلیم کے تمام تر پہلوؤں کا خیال رکھا تھا۔ اس کمیشن نے اپنے سے پہلے اور اپنے بعد آنے والے کمیشنوں سے بالکل مختلف سفارشات پیش کیں۔ ان سفارشات میں کوشش کی گئی کہ تعلیم کا کوئی بھی شعبہ کمیشن کی رپورٹ کی نظر سے چھوٹنے نہ پائے۔ اس کمیشن کی دو اہم خصوصیات یہ تھیں:
۱۔ تعلیمی ڈھانچے کی دوبارہ تشکیل کے لیے مجموعی اپروچ
۲۔ بھارت کے لیے ایک قومی تعلیمی نظام کا خاکہ blue print تیار کرنا
کوٹھاری کمیشن کی سفارشات:
کوٹھاری کمیشن نے اپنی سفارشات کو مختلف زمروں میں تقسیم کیا۔
تعلیم:
سائنس اور ریاضی جیسے مضامین پر زور
عملی تجربے کو اسکولی نصاب کا ناگزیر حصے کے طور پر متعارف کروانا
مشترکہ اسکولی نظام
بارہ برسوں 12 پر مشتمل اسکولی تعلیم کا ڈھانچہ
پرائمری جماعتوں تک مفت درسی کتابیں
مڈ ڈے میل کا انتظام
معذور طلبہ کی تعلیم کو فروغ
علاقائی، قبائلی اور جنسی امتیازات کو ختم کرکے سب کو یکساں تعلیمی مواقع کا تیقن
اسکول کمپلکس کا قیام
Neighbourhood schools
سہ لسانی فارمولہ
معلم کا درجہ Status:
تعلیم کی ہر سطح پراساتذہ کے معاوضے اور تنخواہوں میں قابلِ لحاظ اضافہ
اساتذہ کے لیے اقل ترین تنخواہوں کا تعین حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے
اساتذہ کو مساوی یا زیادہ تنخواہیں دینے میں مرکزی حکومت ریاستی حکومتوں اور یونین ٹیری ٹریوں کی معاونت کرے
ٹیچر ایجوکیشن:
کوٹھاری کمیشن نے اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت کو معیاری تعلیم کی بنیاد تسلیم کرتے ہوئے اس ضمن میں درجِ ذیل سفارشات کیں:
ٹیچر ایجوکیشن پروگرامس کے معیار میں بہتری
صدر مدرسین/ ٹیچر ایجوکیٹرس اور ایجوکیشنل ایڈمنسٹریٹرس کے لیے نئے کورسس متعارف کروانا
اساتذہ کی تربیت کرنے والے اداروں کی تعداد اور ٹریننگ facilities میں بہتری و اضافہ
قومی نالج کمیشن 2009:
جب دنیا دوسرے ہزارے (ملینیم) یعنی اکیسویں صدی میں داخل ہوگئی تو ملک کو نئے تعلیمی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے مقصد کے تحت مرکزی حکومت نے میعار، رسائی اور مساوات quality, access, equity کو فریم ورک بناتے ہوئے جون 2005 میں وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی صدارت میں قومی نالج کمیشن قائم کیا۔ اس کمیشن کے قیام کا مقصد مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ملک کو تیار کرنے کی خاطر بنیادی سہولتوں (وسائل) اور نالج سے متعلق اداروں میں سدھار اور اصلاحات متعارف کروانا تھا۔ اس کمیشن کی سفارشات درجِ ذیل تھیں:
۱۔ حقِ تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کی ضرورت
۲۔ پہلی جماعت سے انگریزی زبان کی تدریس
۳۔ اسکول انتظامیہ کی لامرکزیت اور خودمختاری کے لیے اسکولی نظام میں تبدیلی
۴۔ میعار میں بہتری، ذمہ داری کا تعین، اسکولوں کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری، مقامی افراد کی شمولیت اور تعلیمی نظام میں شفافیت
۵۔ اساتذہ، طلبہ اور انتظامیہ کے لیے انفارمیشن کمیونی کیشن ٹکنالوجی کو قابلِ حصول بنانا
۶۔ نصاب اور قدرپیمائی کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت
قومی نالج کمیشن نے اسکولی تعلیم کی بنیادی ذمہ داری ریاستی حکومتوں پر عائد کی ہے۔
آزادی کے بعد اہم تعلیمی پالیسیاں:
قومی تعلیمی پالیسی 1968 :
کوٹھاری کمیشن کی سفارشات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے 1968 کی قومی تعلیمی پالیسی تیار کی گئی۔ یہ قومی تعلیمی پالیسی آزاد بھارت کی تاریخ میں تعلیم کے شعبے میں ایک سنگ میل ثابت ہوئی۔ اس قومی تعلیمی پالیسی کے اہم نکات ذیل کے مطابق تھے:
*تعلیم کی تمام سطحوں پر تعلیم کے معیار میں بنیادی تبدیلیاں اور بہتری
*سائنس اور ٹکنالوجی پر زور
*اخلاقی قدریں پروان چڑھانا
*تعلیم اور عوام کی عملی زندگی میں مضبوط تعلق پیدا کرنا
*آئینِ ہندکے آرٹیکل 45 کے تحت ’ڈائریکٹیو پرنسپلس‘ کی تعمیل
*طلبہ کے جمود اور ضائعگی کو روکنے کے لیے مناسب پروگراموں کی تیاری اور ان پر عمل آوری
*تدریسی طریقوں، نصاب اور درسی کتابوں کو بہتر بنانا
*اسکولی تعلیم کی ہر سطح پر سائنس کی تعلیم میں بہتری اور اضافہ
*سماج کے پس ماندہ طبقات کے لیے اسکالرشپ اسکیمیں
قومی تعلیمی پالیسی 1986:
مرکزی حکومت نے 1985 میں ملک میں رائج تعلیمی نظام کا بہ غور جائزہ لیا اور نئی قومی تعلیمی پالیسی کا ڈرافٹ تیار کیا، جس کا عنوان رکھا گیا:
Challenge of Education: A Policy Perspective ۔ اس پالیسی کا مقصد بھارت کو اکیسویں صدی کے چیلنجز کے لیے تیار کرنا تھا۔ اس پالیسی میں موجودہ تعلیمی نظام میں تبدیلیوں کی ضرور ت پر ان الفاظ میں زور دیا:

Education in India stands at crossroads today, neither normal linear expansion nor the existing pace and nature of improvement can meet the needs of the situation.

(آج بھارت میں تعلیم ایک چوراہے پر کھڑی ہے۔ موجودہ حالات کے تقاضے نہ نارمل اور سیدھے سبھاؤ توسیع سے اور نہ ہی موجودہ رفتار اور ترقی کی موجودہ نوعیت سے پورے ہوسکتے ہیں۔)
قومی تعلیمی پالیسی 1986 نے 10+2+3 جیسا تسلیم شدہ تعلیمی نظام تجویز کیا۔ ابتدائی تعلیم کے دس سالوں کو بھی ذیل کے مطابق تقسیم کیا گیا۔
5+3+2= 10
نودے ودیالیوں Navoday Vidyalay کا قیام بھی اس پالیسی کا تاریخ ساز اقدام تھا۔ اس پالیسی کے چند اہم نکات ذیل کے مطابق تھے:
۱۔ معذور طلبہ کو نارمل اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرنا
۲۔ ابتدائی تعلیم کے حوالے سے رسائی، داخلے اور چودہ سال کی عمر تک کے بچوں کا اسکولوں میں متواتر قائم رہنا
۳۔ اسکولی ماحول کو بہتر بناکر معیارِ تعلیم کو اونچاکرنا
۴۔اسکولوں سے دور رہائش رکھنے والے یا درمیان ہی میں اسکول چھوڑدینے والے بچوں کے لیے غیر رسمی تعلیم کا اہتمام کرنا
۵۔ ٹیچر اور ٹیچر ایجوکیشن کے حوالے سے اس پالیسی نے تجویز پیش کی کہ ابتدائی تعلیم کی نسبت سے ’پری سروس‘ اور ’پوسٹ سروس‘ کورسس کروانے کی اہلیت کے حامل District Institute Of Education And Training (DIET) ْقائم کئے جائیں۔ ڈائٹ ادارے قائم ہوجانے کے بعد غیر معیاری ادارے ختم کرکے سیکنڈری ٹیچر ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹس کو اَپ گریڈ کیا جائے تاکہ وہ ایس۔سی۔ای۔آر۔ٹی کے معاونت کرسکیں۔
۶۔ ماحول کے بارے میں شعور پیدا کیا جائے۔
۷۔ مشترکہ اسکولی نصاب، آموزش کی اقل ترین سطح، اقدار کی تعلیم، میڈیا اور ایجوکیشن ٹکنالوجی کا رول، عملی تجربہ، ریاضی اور سائنس کی تدریس پر زور، اسپورٹس اور جسمانی تعلیم اور تعلیم برائے عالمی تفہیم پر زور
رِوائزڈ پروگرام آف ایکشن 1992:
قومی تعلیمی پالیسی 1986 کی پیش رفت اور نتیجہ خیزی کا جائزہ لینے کے لیے حکومت نے آچاریہ رام مورتی کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی نے 1990 میں اپنی رپورٹ بہ عنوان Towards an Enlightened and Humane Society پیش کی۔ رام مورتی کمیٹی کی تجاویز پر غور کرنے سے قبل جناردھن ریڈی کی قیادت میں حکومت نے 1992 میں ایک اور کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی کی رپورٹ نے ترمیم شدہ قومی تعلیمی پالیسی کے لیے ایک بنیاد فراہم کی جس کے نتیجے میں 1992 میں ’پروگرام آف ایکشن‘ کے عنوان کے تحت ایک نہایت مضبوط پروگرام وجود میں آیا۔
اس پروگرام آف ایکشن کے اہم نکات ذیل کے مطابق تھے:
۱۔ تعلیم برائے مساوات
۲۔ اپر پرائمری سطح تک تعلیم کے احاطے کو وسیع کرتے ہوئے ’آپریشن بلیک بورڈ‘ پر عمل آوری
۳۔ آنے والے وقتوں میں اساتذہ کے تقررات میں کم از کم 50% خواتین کی شمولیت کا مقصد
۴۔ تعلیمی اعتبار سے محروم اور محنت مزدوری کرنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے غیر رسمی تعلیم کا اہتمام
۵۔ ممکنہ حد تک ہر اسکول میں کمپیوٹر کی تعلیم کا نظم
۶۔ ایلیمنٹری اسکولیں سال بھر کھلی رہیں۔
ہم نے اس حصے میں بھارت میں آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد تعلیمی منظر نامے، تعلیمی کمیشن اور تعلیمی پالیسیوں کا مختصر جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ اب ہم براہِ راست موجودہ قومی تعلیمی پالیسی 2020 پر مفصل گفتگو کریں گے۔

۲۔
قومی تعلیمی پالیسی کے ڈرافٹ(تلخیص) کی ساخت:
تعلیم کسی بھی ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے۔ ملک کی سیاسی، سماجی، معاشی، ثقافتی اور سائنسی ترقی کا دار و مدار تعلیم پر ہی ہوتا ہے۔ ہم کسی ملک کی ترقی کا اندازہ اس ملک کے تعلیمی اداروں کے معیار اور قومی تعلیمی پالیسی میں درج ترجیحات اور ترامیم کے بارے میں جان کر ہی کرسکتے ہیں۔
ہمارے ملک میں بھی آزادی کے بعد سے تعلیمی پالیسیاں بنتی آرہی ہیں۔ سابقہ تعلیمی پالیسی آج سے تقریباً چونتیس برس پہلے راجیو گاندھی کے دورِ وزارتِ عظمیٰ میں 1986 میں تیار کی گئی تھی۔ اس قومی تعلیمی پالیسی میں 1992 میں مزید ترمیم کی گئی۔ اس تعلیمی پالیسی کے بعد قومی سطح پر کوئی تعلیمی پالیسی تیار نہیں کی گئی۔ بدلتے وقت کے ساتھ تعلیمی نظام کو ہم آہنگ کرنے کے لیے درمیان میں جزوی طور پر کچھ ترامیم اور تبدیلیاں ضرور کی گئیں لیکن کسی نئی تعلیمی پالیسی کو متعارف نہیں کروایا گیا تھا۔ البتہ اس کے بعد 2009 میں متعارف کروائے جانے والے ’قانونِ حق تعلیم‘ کو تعلیم کے شعبے میں اکیسویں صدی میں ایک انقلابی اقدام مانا جاتا ہے۔
چونتیس سال بعد جولائی 2020 میں مرکزی حکومت نے قومی تعلیمی پالیسی کا مسودہ تیار کیا اور عوام سے مشورے طلب کیے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ تعلیمی پالیسی 1986 کی تعلیمی پالیسی سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ 2020 کی تعلیمی پالیسی کے ڈرافٹ کو پارلیمنٹ کے ایوانوں میں نہ ہی پیش کیا گیا اور نہ ہی پارلیمنٹ میں اس پر کوئی بحث منعقد کی گئی۔ چونکہ کسی بھی تعلیمی پالیسی کا تعلق پورے ملک کی عوام سے ہوتا ہے اس لیے پالیسی سازی کے ساتھ ساتھ پالیسی کا ڈرافٹ تیار کرتے وقت بھی ملک کے قانون ساز ایوانوں میں عوامی نمائندوں کو اس پر غور و فکر، بحث و مباحثہ اور گفتگو کے لیے مدعو کیا جانا ایک فطری اور procedural عمل ہے۔
(بہرحال، حکومت کی ترجیحات حکومت ہی جانے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دونوں ایوانوں کے ممبران قومی تعلیمی پالیسی پر غور و فکر کے لیے کورونا کی وبا کے پیشِ نظر ایک ’آن لائن سیشن‘ منعقد کرنے پر اصرار کرتے لیکن ایسا ہوتے ہوئے ہم نے کہیں سنا نہ پڑھا۔)
اب جب کہ حکومت نے قومی تعلیمی پالیسی کو عوام کے سامنے پیش کردیا ہے تاکہ وہ اس پر ایک نظر ڈال لیں تو یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ تعلیمی پالیسی 2020 کا یہ درافٹ اصل تعلیمی پالیسی کی محض تلخیص abstract ہے، مکمل تعلیمی پالیسی جو سینکڑوں صفحات پر مشتمل ہوتی ہے، اسے محض 66 صفحات میں پیش کردیا گیا ہے جس میں دو صفحات فہرست کے بھی شامل ہیں۔
قومی تعلیمی پالیسی کی تلخیص رسمی تعارف کے علاوہ چار ابواب پر مشتمل ہے۔ چاروں ابواب کو ’حصے‘ یعنی parts کہا گیا ہے۔ پہلے باب کا عنوان ’اسکولی تعلیم‘ ہے؛ دوسرے باب کا عنوان ’اعلیٰ تعلیم‘ ہے؛ تیسرے باب کا عنوان ’دوسرے کلیدی شعبے‘ اور چوتھے باب کا عنوان ’عمل آوری‘ ہے۔
پہلے باب ’اسکولی تعلیم‘ کے تحت کُل ’آٹھ‘ ذیلی عنوانات ہیں۔ یہ عنوانات درجِ ذیل کے مطابق ہیں۔
۱۔ عہد طفلی اورتعلیم Early Childhood Care and Education (ECCE)
۲۔ بنیادی خواندگی اور شماریات: آموزش کی لازمی اور فوری ضرورت Foundational Literacy and Numeracy
۳۔ ضائعگی Drop out میں کمی اور تمام سطحوں پر تعلیم کی آفاقیت کی طمانیت
۴۔ اسکولوں میں نصاب اور فنِ تدریس (مجموعی، ہم آہنگ، مسرت بخش اور دل چسپی آمیز آموزش)
۵۔اساتذہ
۶۔ مساوات اور شمولیت پر مبنی تعلیم
۷۔ اسکولی گروہوں یا جماعتوں کے ذریعے تشفی بخش وسائل اور موثر انتظامیہ
۸۔ اسکولی تعلیم کے لیے معیار اور تعینِ قدر
دوسرے باب ’اعلیٰ تعلیم‘ کے ذیلی عنوانات یوں ہیں۔
۱۔ معیاری یونی ورسٹیز اور کالج
۲۔ ادارہ جاتی باز تشکیل اور استحکام Institutional Restructuring and Consolidation
۳۔ مزید جامع اور کثیر شعبہ جاتی تعلیم More Holistic and multidisciplinary Education
۴۔ آموزش کے لیے سازگار ماحول اور طلبہ کی اعانت
۵۔ تحریک یافتہ، فعال اور اہل عملہ
۶۔ اعلا تعلیم میں مساوات اور شمولیت
۷۔ تعلیمِ اساتذہ
۸۔ پیشہ ورانہ تعلیم کی صورت گری Re-imagining
۹۔ نئی قومی ریسرچ فاؤنڈیشن کے ذریعے تمام شعبوں میں معیاری اکیڈمک ریسرچ
۰۱۔ اعلا تعلیم کے انتظامی Regulatory نظام میں تبدیلی
۱۱۔ اعلا تعلیمی اداروں میں موثر قیادت اور انتظامیہ
تیسرے باب ’دیگر کلیدی شعبے‘ کے تحت درجِ ذیل موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
۱۔ پیشہ ورانہ تعلیم

professional education ۲۔ تعلیمِ بالغاں اور تاحیات آموزش
۳۔ بھارتی زبانوں، بھارتی فنون اور بھارتی ثقافت کا فروغ و ارتقا
۴۔ ٹکنالوجی کا استعمال اور سالمیت integration
۵۔ آن لائن اور ڈجیٹل تعلیم: ٹکنالوجی کا مساوی استعمال
چوتھے اور آخری باب ’عمل آوری‘ کے تحت درجِ ذیل موضوعات پر زور دیا گیا ہے۔
۱۔ مرکزی مشاورتی بورڈ برائے تعلیم Central Advisory Board of Education
۲۔ مالیات: سب کے لیے قابلِ رسائی اور معیاری تعلیم
۳۔ نفاذ implementation
اس طرح یہ فہرست مجموعی طور پر 27 ذیلی موضوعات پرمشتمل ہے۔
ان عنوانات اور ذیلی عنوانات کے اجمالی مطالعے سے بھی ہم نئی قومی تعلیمی پالیسی کی سمت و رفتار کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔

۳۔
قومی تعلیمی پالیسی: تعارف
ہم یہ پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ نئی قومی تعلیمی پالیسی برائے 2020 کی بنیاد بھلے ہی 1986 کی قومی تعلیمی پالیسی اور 2009 کا قانون برائے حقِ تعلیم ہے، لیکن یہ پالیسی اکیسویں صدی کی پہلی تعلیمی پالیسی ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی کی اس تلخیص کی ’تمہید‘ میں ’معیاری تعلیم‘ کی تکرار کی گئی ہے۔ ’تمہید‘ کے تحت تقریباً ہر پیراگراف میں ’معیاری تعلیم‘ کی بازگشت بار بار سنائی دیتی ہے۔
2015 میں مرکزی حکومت نے ایک تعلیمی ایجنڈا تیار کیا تھا جس کا نام دیا گیا تھا ’ایجنڈا فار سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ‘۔ یہ تعلیمی ایجنڈا دراصل SDG 4 (Sustainable Development Goal) ہے جس کے حصول کا حتمی سال 2030 طے کیا گیا ہے۔ اس کی تمہید میں پالیسی سازوں نے یہ طے کیا کہ قومی ’نصاب میں سائنس اور ریاضی کے علاوہ بنیادی فنون، دست کاری، humanities، کھیل، اسپورٹس اور فٹنس، زبانیں، ادب، ثقافت اور اقدار کو لازمی طور پر شامل کیا جائے گا۔
تمہید میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ موجودہ آموزشی ماحصل Learning outcomes اور مطلوبہ آموزشی ماحصل کے درمیان پائے جانے والی خلیج کو اہم اصلاحات کے ذریعے پاٹنے کی کوشش کی جائے گی جس کی وجہ سے تعلیمی نظام میں سالمیت، مساوات اور معیار کو ابتدائی تعلیم سے اعلا تعلیم تک جگہ حاصل رہے گی۔
پالیسی سازوں کے مطابق اس پالیسی کا مقصد بھارت میں تعلیم کو طلبہ کی سماجی اور معاشی حیثیت سے قطع نظر انتہائی معیاری بنانا اور تمام طلبہ کے لیے تعلیم کو قابلِ حصول بنانا ہے۔ اس کے علاوہ 2040 عیسوی تک ملک میں تعلیمی نظام کو دنیا میں اول مقام دلانا ہے۔
اس پالیسی میں طلبہ میں پائی جانے والی تخلیقی قوتوں کو فروغ دینے پر بھی زور دیا گیا ہے جس کے مطابق طلبہ کے علمی زمرے میں زبان، ادب اور ریاضی کی صلاحتیں ہی نہیں بلکہ سماجی، اصولی اور جذباتی صلاحیتوں کی بھی نشوونما ہوسکے۔
نئی قومی تعلیمی پالیسی کے اصول:
نئی تعلیمی پالیسی کا مقصدطلبہ کی شخصیت سازی اور ان میں سائنسی مزاج، منطقی سوچ، انسانی ہمدری، حوصلہ اور شجاعت، استقامت، قوتِ متخیلہ اور اقدارِ حسنہ کا فروغ ہے۔
نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق یہ اصول درجِ ذیل کے مطابق ہیں۔
۱۔اکیڈمک اور غیر اکیڈمک شعبوں میں ہر طالبِ علم کی منفرد خوبیوں کی شناخت اور ان کا فروغ و ارتقا
۲۔ تیسرے گریڈ تک تمام طلبہ میں بنیادی خواندگی اور ریاضی کی صلاحیتوں کے حصول کو ترجیح
۳۔ آرٹس اور سائنس، نصابی اور ہم نصابی، پیشہ ورانہ اور اکیڈمک وغیرہ کے درمیان تفریق کی سختی کو ختم کرنا۔
(یعنی اب آرٹس، سائنس، کامرس یا نصابی اور ہم نصابی نیز پیشہ ورانہ اور اکیڈمک کا فرق ختم ہوجائے گا۔)
۴۔ تمام مضامین کی سالمیت کے لیے کثیر شعبہ جاتی multidisciplinary اور مجموعی holistic تعلیم پر زور۔
۵۔صرف امتحان کے پیشِ نظر آموزش کے مقابلے میں تصورات کی تفہیم پر زور۔
(سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر امتحانات کے لیے نہیں اور صرف تصورات کی تفہیم کے لیے آموزش ہوگی تو امتحانات میں کامیابی کا پیمانہ کیا ہوگا اور اس کا نظام کیسے طے ہوگا۔)
۶۔ تخلیقی اور تنقیدی (یا پھر استحسانی) غور و فکر کو فروغ
۷۔ اصولی، انسانی اور آئینی اقدار کا فروغ
۸۔ درس و تدریس میں زبان کی قوت اور کثیر لسانیت کا فروغ
۹۔ زندگی کی مہارتیں LIfe-skills مثلاً مواصلات، تعاون، ٹیم ورک اور استقامت کا فروغ
١٠۔ تشکیلی قدرپیمائی پر زور
۱۱۔ وسیع پیمانے پر ٹکنالوجی کا استعمال
(وسیع پیمانے پر ٹکنالوجی کے استعمال کے بہت سے معنی ہوتے ہیں۔ ہمیں خدشہ ہے کہ تین چار لفظوں پر مشتمل یہ چھوٹا سا فقرہ ہمارے تعلیمی نظام کو محض ٹکنالوجی کے وسیع پیمانے پر استعمال کے نام پر کہیں سے کہیں نہ پہنچادے۔)
١٢۔ رنگا رنگی diversity اورمقامی نسبتوں local context کے لیے احترام (نصاب، پالیسی، درسیات کی تیاری میں)
١۳۔تمام تعلیمی فیصلوں میں بھرپور مساوات اور شمولیت (تاکہ طلبہ تعلیمی نظام میں فروغ پاسکیں۔
١٤۔ تعلیم کی تمام سطحوں پر نصاب میں یگانگت اور ہم کاری
١۵۔ آموزشی عمل learning process کے مرکزی کردار کے طور پر اساتذہ اور تدریسی عملے کا مقام
(اس میں تقرر، مسلسل پیشہ ورانہ فروغ و ارتقا، سازگار و موافق ماحول جیسے نکات کو شامل کیا گیا ہے۔)
١٦۔ ’لائٹ بٹ ٹائٹ‘ Light but Tight انتظامی فریم ورک
(سب سے بڑا خدشہ یہاں بھی پیدا ہورہا ہے کہ اس سے کیا مراد ہے۔ آگے تفصیل میں یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس سے مراد دراصل مختلف انتظامی اداروں کو ختم کرکے ایک ہی مرکزی ادارہ (لائٹ) تمام تعلیمی اداروں کی نگرانی کرے گا اور یہ نگرانی نہایت سخت (ٹائٹ) نوعیت کی ہوگی۔ اس سختی کا مفہوم ماہرین نہایت آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ حالانکہ اس کی وضاحت میں جن نکات کو نشان زد کیا گیا ہے وہ ہیں۔۔ آڈٹ اور پبلک ڈِس کلوزر کے توسط سے سالمیت، شفافیت اور وسائل کی اہلیت۔۔۔ اس سے کیا مراد ہے، یہ ہم میں سے اکثر لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے پالیسی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’خود مختاری autonomy، بہتر انتظامیہ اور empowerment کے توسط سے ’اختراع اور لگے بندھے اصولوں سے مختلف تصورات کی حوصلہ افزائی۔ آٹونامی کا مفہوم ہم سب اچھی طرح سمجھتے ہیں)
١٧۔ بہترین تعلیم اور ارتقا کے لیے ’بہترین تحقیق‘ Outstanding Research
١۸۔ ماہرینِ تعلیم کے ذریعے مسلسل تعینِ قدر اور متواتر تحقیق پر مبنی ارتقا کا مسلسل جائزہ
١٩۔ اپنے ملک بھارت اور اپنی جڑوں سے متعلق احساسِ تفاخر
(یہاں بھی بہت سی گنجائشیں ایسی بنتی ہیں جن کے بارے میں ایک مخصوص نظریے کی تبلیغ سے متعلق ہمارے ذہنوں میں خدشات پیدا ہوتے ہیں۔)
٢٠۔ تعلیم بہ حیثیت عوامی خدمت (پالیسی کے مطابق معیاری تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ لیکن یہ جملہ تو ہر تعلیمی پالیسی کے بنیادی اصولوں میں شامل ہوتا ہی ہے۔ اس میں نیا کچھ نہیں ہے۔)
اور سب سے بڑی خطرے کی گھنٹی اس تعلیمی پالیسی کا آخری لیکن سب سے اہم اور سنگین اصول ہے۔
٢١۔ ایک ارتعاش پذیر اور مضبوط عوامی تعلیمی نظام میں سب سے مستحکم پرائیویٹ سرمایہ کاری۔
اکیسویں اصول نے اس پالیسی کی مزید وضاحت کردی ہے۔ اس پر ہم تفصیل سے اگلے مضمون میں بات کریں گے۔

۴۔
قومی تعلیمی پالیسی اور اسکولی تعلیم کی ساخت
قومی تعلیمی پالیسی 2020ء میں اسکولی تعلیم کی ساخت میں بنیادی تبدیلی متعارف کروائی گئی ہے۔ تعلیم کی سابقہ ساخت یعنی آٹھویں۔ دسویں۔ بارھویں۔گریجویشن کے تین سال کے بجائے اب بچہ درجِ ذیل ساخت کے مطابق تعلیم حاصل کرے گا۔
5+3+3+4
اس ساخت کے لحاظ سے بچہ ذیل کے مطابق چار مرحلوں میں اپنی اسکولی تعلیم مکمل کرے گا۔
پہلا مرحلہ: Foundational Stage
بچہ اپنی عمر کے تین برس بال واڑی یا آنگن واڑی میں گزارے گا۔ اس کے بعد دو سال (عمر چھ سے آٹھ سال) پہلی اور دوسری جماعت میں گزارے گا۔
دوسرا مرحلہ: Preparatory Stage
اس مرحلے میں بچہ تیسری، چوتھی اور پانچویں جماعت (عمر آٹھ تا گیارہ برس) میں پڑھے گا۔
تیسرا مرحلہ: Middle Stage
اس مرحلے میں بچہ تین سال چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعت (عمر گیارہ تا چودہ برس) میں تعلیم حاصل کرے گا۔
چوتھا مرحلہ: Secondary Stage
اسکولی تعلیم کے چوتھے مرحلے میں بچہ نویں، دسویں، گیارھویں اور بارھویں جماعت میں زیرِ تعلیم ہوگا جب کہ اس کی عمر چودہ تا اٹھارہ برس کے درمیان ہوگی۔
(قومی تعلیمی پالیسی 2020 دستاویز کا صفحہ نمبر 6 دیکھیں)
اسکولی تعلیم کے پہلے مرحلے کی تعلیم کے تعلق سے یہ تعلیمی پالیسی نہایت فکرمند دکھائی دینے کی کوشش کرتی ہے۔ اسی لیے اسے ایک مخصوص نام دیا گیا ہے؛ Early Childhood Care and Education یعنی ECCE جسے ہم اردو میں ابتدائی بچپن کی نگہداشت اور تعلیم کہہ سکتے ہیں۔ اس کے لیے کچھ خاص انتظامات پالیسی کے تحت کیے گئے ہیں۔ ان انتظامات کی تفصیل ذیل کے مطابق ہے۔
آنگن واڑیوں کا قیام:
ابتدائی بچپن کی نگہداشت اور تعلیم کے لیے نئی تعلیمی پالیسی میں آنگن واڑیوں کے قیام کی بات کی گئی ہے۔ پوائنٹ 1.4 کے تحت، ابتدائی تعلیم کے اعلا معیار کے لیے آنگن واڑیاں قائم کی جائیں گی جن کی نوعیت کچھ یوں ہوگی۔
۱۔ آزادانہ آنگن واڑیاں
۲۔ ابتدائی اسکولوں سے ملحق آنگن واڑیاں
۳۔ ابتدائی اسکولوں سے ملحق پانچ سے آٹھ سال کی عمر کے بچوں کے لیے پری پرائمری اسکول یا سیکشن
۴۔ آزادانہ ’پری۔اسکول‘
درج بالا آنگن واڑیوں اور پری اسکولوں کے عملے کے طور پر
۱۔ ورکرس
یا
۲۔ اساتذہ
کا تقرر کیا جائے گا جو ECCE کے مرحلے کی تدریس کے لیے خصوصی طور پر تربیت یافتہ ہوں گے۔
(ہمارا تجزیہ یوں ہے کہ اب پری اسکولوں اور آنگن واڑیوں کے توسط سے بھی پرائیویٹ او رکارپوریٹ سیکٹر کو معیاری تعلیم کے نام پر شہریوں کو لوٹنے کی کھلی چھوٹ دی جائے گی۔ اب تک ’پری اسکولنگ‘ کو حکومت کی منظوری کی ضرورت نہیں ہوتی تھی لیکن اور نہ ہی پری اسکولنگ کے لیے بڑے پیمانے پر آزادانہ ادارے ہوتے تھے لیکن اس پالیسی کے تحت اب شاید اب آزادانہ آنگن واڑیاں اور پری اسکولس کُکر متوں کی طرح جگہ جگہ طلبہ اور سرپرستوں کے معاشی استحصال کے لیے نمودار ہونے لگیں گے۔)
اس نظام کو مزید طاقتور اور اہم بنانے کے لیے دستاویز کے پوائنٹ 1.5 میں درج ہے کہ ’آنگن واڑیوں کو مکمل طور پر ابتدائی اسکولوں کے ساتھ جوڑکر آنگن واڑی میں زیرِ تعلیم بچوں، ان کے سرپرستوں اور اساتذہ کو متعلقہ اسکولوں کے پروگراموں میں مدعو کیا جائے گا اور آنگن واڑی کے پروگراموں میں ان اسکولوں کے بچوں، ان کے سرپرستوں اور اساتذہ کو مدعو کیا جائے گا۔‘
1.6 کے مطابق پہلی جماعت سے قبل پانچ سال کی عمر تک بچہ ’Preparatory‘ کلاس میں داخل ہوجا نا چاہیے۔ اس کلاس کو ’بال واٹیکا‘ نام دیا گیا ہے۔
1.7 کے تحت ان ’پری اسکول‘ اساتذہ میں سے وہ لوگ جو پہلے ہی سے آنگن واڑیوں اور پری اسکولوں میں پڑھا رہے ہیں، انھیں NCERT, New Delhi کے تیار شدہ نصاب کے مطابق تربیت دی جائے گی۔ ان آنگن واڑیوں میں جو نئے اساتذہ تقرر پائیں گے ان کے لیے ECCE کے لیے خصوصی تیار شدہ نصاب کی تربیت حاصل کرنا لازمی ہوگا۔ بارھویں یا اس سے اگلی جماعتیں پاس اساتذہ کو ECCE کا چھ ماہی سرٹی فیکیٹ کورس کرنا لازمی ہوگا۔ یہ کورس ’اسکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ‘ کے زیرِ نگرانی CRC یعنی کلسٹر ریسورس سنٹر چلائے گا۔
اسکولی تعلیم کے مضامین:
اسکولی تعلیم کے تحت پوائنٹ 2.1 سے لے کر 2.9 تک ’بنیادی خواندگی اور ریاضی Foundational Literacy and Numecary کے بارے میں تفصیلی ذکر کیا گیا ہے جس کے مطابق 2025 تک پرائمری اسکولنگ کے تحت بچے میں عالمی معیار کے حامل بنیادی خواندگی اور ریاضی کی صلاحیت حاصل ہوجانے کی طمانیت کا مقصد طے کیا گیا ہے۔
ضائعگی Drop out کی شرح میں کمی لانے کی تجاویز پر پوائنٹ 3.1 سے 3.7 تک میں مختلف حوالوں سے بحث کی گئی ہے۔ 3.7 میں جو بات قابلِ اعتنا ہے، وہ یہ ہے کہ ’حکومت کی کوشش رہے گی کہ طلبہ کی آموزش کو بہتر بنانے کے لیے سماج اور سابقہ طلبہ کی رضاکارانہ خدمات حاصل کی جائیں گی جس کی نوعیت کچھ یوں ہوگی: ہر طالب علم کو انفرادی طور پر پڑھانا؛ خواندگی کی تدریس اور ایکسٹرا کلاسس؛ ایجوکیٹرس یعنی معلمین کی معاونت اور رہ نمائی کے لیے تدریس؛ کریئر گائڈنس اور طلبہ کی سرپرستی۔
اس مقصد کے لیے صحت مند اور فعال سینئر شہریوں، اسکول کے سابق طلبہ، مقامی سماج کے افراد کا تعاون حاصل کیا جائے گا۔ خواندہ رضاکاروں، سبک دوش سائنس دانوں، سرکاری اور نیم سرکاری ملازمین، سابقہ طلبہ اور ایجوکیٹرس کا ڈاٹا بیس تیار کیا جائے گا۔
اس نکتے سے ہم یہ بات بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ اگرچہ اس پالیسی کی نیت اچھی ہے لیکن اگر ایسا کیا گیا تو اس منصوبے پر عمل آوری کے دوران کتنا chaos اور بدنظمی نیز ان مقاصد کے حصول کے عین برعکس معاملات ہونے کے امکانات بہت زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔

۵۔
قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں ’زبان، کثیر لسانیت اور اردو زبان:
ہمارا ملک ہزارہا برس سے کثیر لسانی ملک رہا ہے۔ یہاں کبھی بھی کسی ایک زبان کی عمل داری نہیں رہی۔ جتنی رنگا رنگی Diversity ہمارے ملکِ عزیز میں رسم و رواج، ثقافت اور دیگر معاملات میں پائی جاتی ہے اتنی ہی رنگا رنگی زبانوں کے معاملے میں بھی ہے۔ ہزاروں زبانیں ہمارے یہاں بولی جاتی ہیں اور بیسیوں زبانوں کا اپنا رسم الخط بھی ہے۔
ان دنوں اخبارات اور سوشل میڈیا میں اردو زبان کے ساتھ اس پالیسی میں کی جانے والی ناانصافی کی بات بہت ہورہی ہے۔ بہت خوشی کی بات ہے کہ ہمارا اجتماعی شعور بیدار ہورہا ہے۔ لیکن افسوس یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ زیادہ تر ’ماہرینِ تعلیم‘ پالیسی کے اصل متن کا مطالعہ کیے بغیر ہی بات کرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے مسئلے کے اس حقیقی (پالیسی میں درج) version اور ان ’ماہرین‘ کے پیش کردہ ورژن میں نمایاں فرق اور اختلاف دکھائی دیتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے واقعتا جتنا بڑا ہنگامہ ’قومی تعلیمی پالیسی‘ میں اردو کو لے کر ہورہا ہے، اس پالیسی کا مطالعہ ہر خاص و عام نے کر رکھا ہو۔ بہتر ہے کہ پہلے پالیسی کا مطالعہ بہ غور کرلیا جائے۔
نئی قومی تعلیمی پالیسی میں زبانوں کا ذکر جگہ جگہ آیا ہے۔ لیکن اس میں کسی مخصوص زبان کا ذکر کسی مخصوص سیاق میں نہیں ہے بلکہ عمومی طور پر زبان کی تدریس کی بات کی گئی ہے۔ آئیے، دیکھیں کہ اس تعلیمی پالیسی میں زبانوں کے تعلق سے کیا کہا گیا ہے۔
زبانوں کے تعلق سے پالیسی میں سب سے پہلا ذکر ’بنیادی اصول‘ کے تحت ملتا ہے۔ صفحہ 5 پر 9 ویں نمبر پر درج ہے۔
٭ کثیر لسانیت Multilingualism اور زبان کی قوت کا فروغ
یہ ذکر درس و تدریس کے حوالے سے آیا ہے۔ اس ’اصول‘ سے مراد یہ ہے کہ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں کثیر لسانیت اور دیگر زبانوں کے فروغ کے لیے خصوصی انتظامات کیے جائیں گے۔ یہاں کسی خاص زبان کا نام نہیں لیا گیا ہے۔
اس کے بعد زبان کا ذکر صفحہ نمبر 7 پر پوائنٹ 1.2 کے تحت آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’ECCE حروفِ تہجی، زبانوں، ہندسوں، گنتی، رنگوں، شکلوں، کھیلوں وغیرہ پر مشتمل آموزش پر مبنی ہوگی۔ یہاں بھی زبان کی تخصیص نہیں کی گئی ہے۔
اس کے بعد پالیسی دستاویز کے صفحہ نمبر 9 کے پوائنٹ نمبر 2.8 کے تحت کہا گیا ہے کہ ’طلبہ کے لیے ہر سطح پر، پرمسرت اور حوصلہ بخش کتابیں بہ شمول اعلا معیاری ترجمہ کردہ کتابیں ’تما م مقامی اور بھارتی زبانوں‘ میں تیار کی جائیں گی اور انھیں وسیع پیمانے پر اسکولی اور مقامی کتب خانوں میں پہنچایا جائے گا۔
زبان سے متعلق اہم شق:
پالیسی دستاویز کے صفحہ نمبر 13 پر پوائنٹ نمبر 4.11 کے مطابق ’کثیر لسانیت اور زبان کی طاقت‘ کے عنوان کے تحت تفصیلی طور پر بحث کی گئی ہے جس کے مطابق ”ہوم لینگویج یا مادری زبان‘ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کثیر لسانیت کی اہمیت کا بھی ذکر کیا گیا۔ پالیسی میں یہ کہا گیا ہے کہ ’جہاں کہیں ممکن ہوا، اسکول کا میڈیم آف انسٹرکشن کم از کم پانچویں جماعت تک لیکن ترجیحی طور پر آٹھویں جماعت اور اس سے آگے، طلبہ کی ’گھریلو زبان، مادری زبان، مقامی زبان یا علاقائی زبان‘ ہی ہوگی۔‘
اس کے بعد ’گھریلو یا مقامی زبان‘ ایک مضمون کے طور پر پڑھائی جائے گی۔ یہ طریقہ ’سرکاری‘ اور ’پرائیویٹ‘ دونوں طرز کی اسکولوں میں اپنایا جائے گا۔ مضمون سائنس کے بہ شمول دیگر مضامین کی اعلا معیاری کتابیں بھی ’گھریلو اور مقامی زبانوں‘ میں تیار کی جائیں گی۔ خصوصی طور پر یہ بات نشان زد کی گئی کہ ’تمام تر کوششیں اس سمت ہوں گی کہ بچے کی گھریلو یا مقامی زبان اور ’میڈیم آف انسٹرکشن‘ کے درمیان پائے جانے والے فرق کو ختم کردیا جائے۔ ایسی جگہیں جہاں درسی مواد پر مشتمل کتابیں بچے کی گھریلو یا مقامی زبان میں دستیاب نہ ہوں تو ایسی جگہ طلبہ اور اساتذہ کے درمیان باہمی افہام و تفہیم کی زبان ممکنہ حد تک بچے کی مادری یا گھریلو زبان ہی ہوگی۔ اساتذہ کو ’ذولسانی طریقہ‘ اختیار کرنے کی ترغیب دی جائے گی اور کوشش کی جائے گی کہ درسی مواد بھی ذولسانی ہو۔
راقم کو اس پیراگراف کا سب سے اہم جملہ یہ محسوس ہوا جس میں کہاگیا ہے:
’کسی زبان کو پڑھانے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اسے ’میڈیم آف انسٹرکشن‘ ہی بنایا جائے۔‘ جس سے ہم یہ مراد لے سکتے ہیں کہ اگر انگریزی زبان کو بہ طور مضمون پڑھانا ہو تو ضروری نہیں ہے کہ بچے کو انگریزی میڈیم اسکول میں ہی داخل کیا جائے۔ یہ جملہ جہاں ایک طرف ہمیں انگریزی میڈیم کے جنون کا راستہ روکتا ہوا نظر آتا ہے، وہیں مادری زبان، گھریلو زبان اور مقامی زبان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا دکھائی دیتا ہے۔
اگلے پیراگراف 4.12 کے تحت کہا گیا ہے کہ : ’تحقیق سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ بچہ 2 سے 8 سال کی عمر کے درمیان بہت تیزی سے زبانیں سیکھ لیتا ہے اور چھوٹے بچوں میں علمی صلاحیت کے فروغ کے لیے ’کثیر لسانیت‘ نہایت موثر اور مفید ثابت ہوتی ہے اس لیے ابتدائی تعلیم foundational stage سے ہی مادری زبان پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے بچوں کو دیگر زبانوں سے بھی متعارف کروایا جائے گا۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے بھرپور کوشش کی جائے گی ملک کی تمام ریاستوں میں بڑی تعداد میں علاقائی زبانوں کے ’زبان کے اساتذہ‘ (لینگویج ٹیچرس) کے تقرر کیے جائیں، خاص طور پر ان زبانوں کے اساتذہ جن زبانوں کا ذکر دستورِ ہند کے آٹھویں شیڈول میں کیا گیا ہے۔
دستورِ ہند کے آٹھویں شیڈول میں مذکور زبانیں:
دستورِ ہند کے آٹھویں شیڈول میں کُل بائیس 22 زبانوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس پالیسی میں اس پیراگراف میں دستورِ ہند کے آٹھویں شیڈول کا ذکر پہلی مرتبہ ملتا ہے۔ شیڈول میں جو بائیس زبانیں مندرج ہیں وہ ’انگریزی تہجی ترتیب کے لحاظ سے یہ ہیں؛
اسامی، بنگالی، گجراتی، ہندی، کنڑا، کشمیری، کوکنی، ملیالم، منی پوری، مراٹھی، نیپالی، اوڑیہ، پنجابی، سنسکرت، سندھی، تمل، تلگو، اردو، بوڈو، سنتھالی، میتھلی، ڈوگری۔ ان بائیس زبانوں میں سے دستور میں 14 زبانیں (بہ شمول اردو) پہلے ہی مندرج تھیں۔ سندھی زبان کو 1967 میں شامل کیا گیا۔ اس کے بعد کوکنی، نیپالی اور منی پوری زبان کو شیڈول میں 1992 میں شامل کیا گیا۔ سب سے آخر میں بوڈو، ڈوگری، میتھلی اور سنتھالی زبانوں کو 2004 میں شامل کیا گیا۔
سہ لسانی فارمولہ: دستورِ ہند کے آٹھویں شیڈول میں درج 22 زبانوں کے علاوہ ’سہ لسانی فارمولے‘ کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ’ملک بھر میں بھارتی زبانوں کے مطالعے اور سہ لسانی فارمولے کی تکمیل کے لیے بڑے پیمانے پر اس تعلق سے مختلف ریاستوں کے درمیان ’بین الریاستی‘ معاہدوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
پیراگراف 4.13 سے تھوڑی گڑبڑ نظر آتی ہے۔ اس پیراگراف کے مطا بق، دستورِ ہند، عوامی، علاقائی اور ملکی ترجیحات نیز کثیر لسانیت اور قومی یک جہتی کے فروغ کو ذہن میں رکھتے ہوئے سہ لسانی فارمولے پر عمل آوری جاری رہے گی۔
البتہ؛
سہ لسانی فارمولے کے اطلاق میں لچک رہے گی۔ (ہمیں یہ ’لچک‘ ہی چور راستہ نظر آرہا ہے۔)
کسی بھی ریاست پر کوئی زبان تھوپی نہیں جائے گی۔ بچے جو ’تین زبانیں‘ سیکھیں گے ان کا انتخاب ریاست، علاقہ اور بچے خود کریں گے؛ اس وقت تک جب تک ان تین زبانوں میں سے دو زبانیں ’ملکی‘ ہوں۔
(ہمیں یہاں بھی اردو زبان کے ساتھ سوتیلا سلوک والی بات دکھائی نہیں دیتی۔ بین السطور میں بھی نہیں۔ ہم صرف یہاں پالیسی کی ترجمانی کر رہے ہیں، رائے قائم کرنا آپ ماہرین کا کام ہے۔)
اب تھوڑی گڑبڑ ہمیں پیراگراف 4.17 میں دکھائی دے رہی ہے جس کی ہم محض نشان دہی کررہے ہیں۔
’سنسکرت دستورِ ہند کے آٹھویں شیڈول میں مندرج ایک اہم زبان ہے جس میں کلاسیکی ادب کے شہ پارے ملتے ہیں۔ اسکولی تعلیم کی تمام سطحوں اور اعلا تعلیم میں طلبا سنسکرت کو یا تو ایک اہم اختیاری مضمون کے طور پر یا پھر ’سہ لسانی فارمولے‘ میں شامل ایک اختیاری زبان کے طور پر بھی سیکھ سکیں گے۔
پیراگراف 4.18 میں جن زبانوں کا نام حوالے کے طور پر ملتا ہے، ان کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
’بھارت تمل، تلگو، کنڑ، ملیالم، اوڑیہ نیز پالی، پرشین (فارسی) اور پراکرت جیسی کلاسیکی زبانوں کے ادب سے مالا مال ہے۔ سنسکرت کے علاوہ یہ زبانیں بھی اسکولوں میں ایک اختیاری مضمون کے طور پر پڑھائی جائیں گی۔
پیراگراف 4.20 کے مطابق، ’بھارتی زبانوں اور انگریزی کے ساتھ ساتھ کورین، جاپانی، تھائی، فرانسیسی، جرمن، اسپینی، پرتگالی اور روسی جیسی غیر ملکی زبانیں بھی سیکنڈری سطح پر پڑھائی جائیں گی۔
اس کے بعد ’زبانوں‘ کا ذکر براہِ راست دستاویز کے صفحہ نمبر 53 پر ’بھارتی زبانوں، آرٹس اور ثقافت کا فروغ‘ کے عنوان کے تحت، پیراگراف نمبر 22.4 سے شروع ہوکر پیراگراف 22.5, 22.6, 22.7 اور پیراگراف 22.8 میں ہے۔ پیراگراف 22. 4 کے مطابق، ’زبان کا گہرا تعلق آرٹس اور ثقافت سے ہوتا ہے۔ زبانیں اپنے بولنے والوں کے طرزِ تکلم پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اپنی زبان میں ’اپنا پن‘ ہوتا ہے۔ اپنی ثقافت کے تحفظ اور فروغ کے لیے ہمیں اپنی ثقافتی زبان کا تحفظ کرنا چاہیے۔
پیراگراف 22.5 کے مطابق، ’بدقسمتی سے ہماری ملکی زبانوں کو مطلوبہ توجہ حاصل نہیں ہوسکی جس کی وجہ سے گذشتہ پچاس 50 برسوں میں ملک نے تقریباً 220 زبانیں کھودیں۔ ’یونیسکو‘ نے بھارت کی 197 زبانوں کو مخدوش زبانوں کا درجہ دیا ہے۔
پیراگراف 22. 6 کے مطابق، ’وہ زبانیں جنھیں اپنے وجود کا خطرہ درپیش نہیں ہے، مثلاً دستورِ ہند کے آٹھویں شیڈول میں درج 22 زبانوں کو بھی مشکلات درپیش ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارتی زبانوں کی درس و تدریس کو ہر سطح پر اسکولی اور اعلا تعلیم سے جوڑدیا جائے۔ زبانوں کو فعال اور متحرک رکھنے کے لیے ایک ان زبانوں میں اعلا معیار کے حامل درسی مواد بہ شمول درسی کتابیں، ورک بکس، ویڈیو، ڈرامے، نظمیں، ناول، میگزین وغیرہ جیسے مستحکم وسائل کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ زبانوں کے لیے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ سرکاری یا مقتدر سطح پر ان کے ذخیرۂ الفاظ vocabulary اور لغات کو موجودہ وقت سے ہم آہنگ update کیا جاتا رہے۔
(ہمارا تجزیہ: اردو زبان ان تمام شرائط کو پورا کرتی ہے۔)
اس نوعیت کا حامل درسی مواد، پرنٹ مٹیریل اور عالمی زبانوں کا اہم ترجمہ شدہ ادب اور لغات کی مسلسل اپ ڈیٹنگ کئی ملکوں میں انگریزی، فرانسیسی، جرمن، عبرانی، کورین اور جاپانی زبانوں میں ہورہی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں اس نوعیت کا کام نہایت سست قدم ہے۔
پیراگراف 22. 7 کے مطابق، ’مزید برآں، ہمارے ملک میں ماہرِ زبان اساتذہ کی شدید قلت ہے۔ زبان کی تدریس کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔‘
پیراگراف 22.8 کے مطابق، ’چوتھے باب میں زبانوں، آرٹس اور ثقافت کے فروغ کے لیے کئی initiatives پر بحث کی گئی ہے جن میں کثیر لسانیت کے فروغ کے لیے سہ لسانی فارمولے کا ابتدائی سطح پر اطلاق، گھریلو اور مقامی زبان میں تدریس، عمدہ مقامی فن کاروں، مصنفین، دست کار اور دیگر ماہرین کی خدمات کا حصول وغیرہ شامل ہیں۔
صفحہ 55 پر پیراگراف 22.15 کے مطابق، ’سنسکرت یونی ورسٹیاں بھی اعلا آموزش کی کثیر شعبے اداروں میں تبدیل ہونے کی سمت پیش رفت کریں گی۔ سنسکرت اور سنسکرت نالج سسٹم پر ریسرچ اور سنسکرت کی تدریس کرنے والے ’سنسکرت ڈپارٹمنٹ‘ یا قائم کیے جائیں گے یا اگر وہ پہلے ہی سے قائم ہیں تو انھیں مزید بہتر بنایا جائے گا۔ اگر کوئی طالبِ علم چاہے تو سنسکرت اس کی مجموعی اور کثیر شعبہ جاتی اعلا تعلیم کا فطری حصہ بن جائے گی۔ بڑی تعداد میں سنسکرت اساتذہ کو ملک بھر میں ایک مشن کے طور پر چار سالہ انٹی گریٹیڈ پروفیشنل بی ایڈ یا پھر ڈوئل ڈگری بی۔ایڈ اِن ایجوکیشن اینڈ سنسکرت کروایا جائے گا۔
پیراگراف نمبر 22.16 کے مطابق، ’اسی طرح بھارت تمام کلاسیکی زبانوں کی تدریس کرنے والے اپنے اداروں اور یونی ورسٹیوں کی توسیع کرے گا، جہاں ہزاروں ہزار ایسے مخطوطات کو حاصل کرنے، ان کا تحفظ کرنے اور ان کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی جائے گی جن پر اب تک خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی تھی۔ کلاسیکی زبانوں کے اداروں کا الحاق ان کی خودمختارانہ حیثیت برقراررکھتے ہوئے یونی ورسٹیوں کے ساتھ کردیا جائے گا۔ تجویز یہ بھی ہے کہ زبان کی تدریس کے لیے نئے ادارے قائم کیے جائیں گے۔ یونی ورسٹی کیمپس میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ (یا انسٹیٹیوٹس) فار پالی، پرشین (فارسی) اور پراکرت بھی قائم کیے جائیں گے۔ مرکزی حکومت، ریاستی حکومت کے اشتراک اور مشورے سے دستورِ ہند کے آٹھویں شیڈول میں درج زبانوں کی اکیڈمیاں قائم کرے گی۔ (آٹھویں شیڈول میں درج زبانوں کی اکیڈمیوں کے علاوہ) کثرت سے بولی جانے والی کسی دوسری زبان کی اکیڈمی بھی یا تو ریاستی حکومت کے ذریعے یا مرکزی حکومت کے ذریعے یا دونوں حکومتوں کے اشتراک سے قائم کی جائے گی۔
اقلیتوں کا ذکر:
دستاویز کے صفحہ 25 پر پیراگراف 6.2.4 کے تحت کہا گیا ہے کہ: ’اسکولی تعلیم اور اعلا تعلیم میں اقلیتوں کی نمائندگی نہایت کم ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والے تمام بچوں میں تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے اور تمام اقلیتی طبقات کے بچوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں رہے گی۔
ہمارا تجزیہ:
اس 66 صفحات پر مشتمل قومی تعلیمی پالیسی کی تلخیص کی دستاویز میں زبانوں سے متعلق جتنی تجاویز موجود ہیں، ہم نے اس مضمون میں مجتمع کردی ہیں۔ اگر مجموعی اعتبار سے ہم اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو درجِ ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں۔
۱۔ زبانوں کے تعلق سے ایک عمومی پلان تیار کیا گیا ہے۔
۲۔ زبانوں کی تدریس پر اس پالیسی میں خصوصی توجہ دی گئی ہے۔
۳۔ خاص طور پر سنسکرت زبان کے فروغ اور اس کی توسیع کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی تیار کی گئی ہے جو برسراقتدار جماعت کا دہائیوں پرانا منصوبہ تھا۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلا تعلیم تک، ہر سطح پر سنسکرت زبان کے فروغ کو اس پالیسی کا اہم حصہ بنایا گیا ہے۔
۴۔ اس دستاویز میں پڑھائی جانے والی زبانوں کی درجہ بندی’کلاسیکی زبانیں‘ اور ’بھارتی زبانیں‘ کے طور پر کی گئی ہے۔
۵۔ پڑھائی جانے والے زبانوں میں واضح طور پر صرف سنسکرت کا نام لے کر ذکر کیا گیا ہے۔ کلاسیکی زبانیں جن کی تدریس کی جائے گی، ان میں صرف تین زبانوں کا ذکر کیا گیا ہے یعنی پالی، فارسی اور پراکرت۔
۶۔ جن غیر ملکی زبانوں کا ذکر کیا گیا ہے، وہ حوالے کے طور پر بیان ہوئی ہیں۔
۷۔ اگر دستاویز میں کہیں اردو کا ذکر نہیں ہے تو ہندی اور دیگر زبانوں کا بھی نام نہیں لیا گیا ہے۔
۸۔ جب جب بھی ملکی زبانوں کا ذکر کیا گیا ہے، جو دستاویز میں کئی جگہ کیا گیا ہے، وہاں ’دستورِ ہند کے آٹھویں شیڈول میں مندرج زبانیں‘ کہا گیا ہے۔ ہم نے آپ کو اپنی جانب سے یہ بتادیا ہے کہ دستورِ ہند کے آٹھویں شیڈول میں بائیس زبانیں شامل ہیں اور ان میں اردو بھی شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پالیسی جب بھی ’آٹھویں شیڈول میں مندرج زبانیں‘ کہتی ہے تو اس میں اردو بھی شامل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عمل آوری کے دوران اردو کے ساتھ ہمیشہ کی طرح سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے یا نہیں۔ بہت سی باتیں ایسی ہیں جن پر آپ اپنی رائے دے سکتے ہیں۔ یہ مقالہ پڑھیے اور خود طے کیجئے کہ اس پالیسی میں اردو کہاں ہے؟ اردو کے بارے میں پالیسی میں رد و قبول کی بات کس جگہ کہی گئی ہے اور کس انداز میں کہی گئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ پالیسی میں درج صرف اردو ہی نہیں بلکہ تمام زبانوں کا تقابلی جائزہ ہوبہو پیش کردیں جس میں ہماری اپنی رائے شامل نہ ہو۔ ہم نے اپنی رائے دینے سے دانستہ گریز کیا ہے۔

۶۔
نئی تعلیمی پالیسی میں اردو زبان کی شمولیت؛ مفروضہ اور حقیقت
گزشتہ برس سے ملتِ اسلامیہ قومی تعلیمی پالیسی 2020ء میں زبانوں کے تعلق سے بہت زیادہ فکرمندی کا مظاہرہ کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ آن لائن سیمینارس اور ویبینارس منعقد ہورہے ہیں اور تقریباً سارے لوگ، انجمنیں اور ادارے محض اس بات پر فکرمند ہیں کہ اس پالیسی میں اردو زبان شامل نہیں ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی کے شرکا تو شرکا، بعض مقررین نے بھی قومی تعلیمی پالیسی کا مکمل جائزہ اور مطالعہ نہیں کیا ہوتا ہے اور وہ اس کے کسی ایک جزو پر بات کرتے ہیں جس کی وجہ سے وضاحت سے زیادہ کنفیوزن پیدا ہوجاتا ہے۔
مزید برآں نوے فی صد لوگ اس پالیسی میں اردو زبان کے شامل نہ ہونے پر چیں بہ جبیں ہیں۔
قومی تعلیمی پالیسی 2020ء زبانوں کے تعلق سے نہایت تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔
اس تعلیمی پالیسی میں جن زبانوں کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے، ان کو حصوں میں جماعت بند کیا جاسکتا ہے۔
۱۔ کلاسیکی زبانیں جن میں سنسکرت، پالی، پراکرت اور فارسی زبانیں شامل ہیں۔
۲۔ جن غیر ملکی زبانوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان کا ذکر حوالے کے طور پر آیا ہے مثلاً جرمن، جاپانی، عبرانی، فرانسیسی، روسی وغیرہ شامل ہیں۔
اب رہی بات اردو کی تو اس کے تعلق سے ملت میں دو گروہ تشکیل پا گئے ہیں۔
۱۔ پہلا گروہ وہ ہے جو کہتا ہے کہ فکر کی بات نہیں، اردو زبان کا ذکر قومی تعلیمی پالیسی میں موجود ہے۔
۲۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو یہ واویلا مچارہا ہے کہ ہائے اردو زبان کا ذکر تو اس پالیسی میں موجود ہی نہیں ہے۔
تو دونوں گروہوں کی موافقت یا مخالفت کرنے سے پہلے ہم یہ بتادینا مناسب سمجھتے ہیں کہ جتنے اردو والوں نے اس پالیسی پر فکرمندی کا اظہار کیا ہے، ان کی اکثریت نے اردو میں ہی اس پالیسی پر لکھے گئے تجزیاتی مضامین لکھے یا پڑھے ہیں جب کہ اصل اردو ترجمہ جو این۔سی۔ای۔آر۔ٹی، نئی دہلی نے کیا ہے، اس میں اصل پالیسی کی تلخیص کی بھی تلخیص کی گئی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بنیادی طور پر انگریزی میں تیار شدہ پالیسی کی بھی حکومت نے محض 66 صفحات پر مشتمل تلخیص ہی شائع کی ہے جو زیرِ بحث ہے۔
ہم نے انگریزی تلخیص سے ہی استفادہ کیا ہے۔ اس تلخیص کی بھی ایک مزے دار کہانی ہے۔
میرے پاس تعلیمی پالیسی کی جو تلخیص ہے، وہ حکومتِ ہند کی جاری کردہ ہے۔ میں نے اس پالیسی کا بہ غور مطالعہ کیا ہے۔ اس سیریز کے تمام مقالے اسی مطالعے کے رہینِ منت ہیں۔
ایسے میں اچانک بال بھارتی، پونے کے اسپیشل آفسیر جناب خان نوید الحق کا فون آیا کہ ’عاقبؔ صاحب، کل ممبئی کے ایک پروگرام میں ایک ماہرِ تعلیم نے یہ کہا ہے کہ ہمیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، قومی تعلیمی پالیسی میں اردو کا ذکر موجود ہے۔‘
میں حیران رہ گیا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ مجھے تو بہ غور پڑھنے کے بعد بھی اردو کا ذکر کہیں نہیں ملا۔ میں نے کئی مرتبہ قومی پالیسی کی اپنی کاپی کا مطالعہ کیا۔ لیکن نتیجہ وہی!
نوید الحق صاحب نے مجھے اپنے پاس کی کاپی واٹس اپ کے ذریعے بھیجی۔ اس کاپی کے صفحہ نمبر 54 پر پیراگراف نمبر 22.13 پر جو انگریزی عبارت درج ہے، وہ ملاحظہ کیجئے۔

Academies for Hindi and Sanskrit, as well as for other languages that do not belong to any one state, such as Urdu and Sindhi would be established by the Centre. The academies for other schedule 8 as well as another highly spoken Indian languages will be established by State governments.

(اردو میں اس عبارت کا سیدھا سیدھا ترجمہ اور مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ’ہندی اور سنسکرت کے ساتھ ساتھ ایسی زبانیں جو کسی ایک مخصوص ریاست سے تعلق نہیں رکھتیں، مثلاً اردو اور سندھی، مرکزی حکومت ان زبانوں کی اکیڈمیاں قائم کرے گی۔ آئین کے شیڈول آٹھ میں درج دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ بھارت میں قابلِ لحاظ تعداد میں بولی جانے والی زبان کی اکیڈمیاں ریاستی حکومت کے ذریعے قائم کی جائیں گی۔)
لیکن جب میں نے مزید تحقیق کی تو عقدہ یہ کھُلا کہ اس پالیسی کے انگریزی ڈرافٹ کی تلخیص کا وہ صفحہ جس کا حوالہ دیگر لوگ دے رہے ہیں، وہ دراصل فائنل کاپی نہیں ہوسکتی تھی۔ جن لوگوں کے پاس یہ کاپی تھی، وہ اسے ہی فائنل کاپی سمجھ رہے ہیں۔ جب کہ میرے پاس جو 66 صفحاتی کاپی ہے، وہ فائنل کاپی ہے۔ اس کے صفحہ نمبر 56 پر پیراگراف نمبر 22.18 پر انگریزی میں جو جملہ درج ہے، وہ یوں ہے۔

For each of the languages mentioned in the eighth schedule of the Constitution of India, Academies will be established consisting of the greatest scholars and native speakers.

(آئین کے آٹھویں شیدول میں درج ہر زبان کے لیے ممتاز اسکالرس اور اس زبان کو بولنے والے لوگوں پر مشتمل اس زبان کی اکیڈمی قائم کی جائے گی۔)
اس کے آگے اسی پیراگراف میں یہ بھی درج ہے۔

These academies for Eighth Schedule languages will be establihshed by the Central Government in consultation or collaboration with the StateGovernments. Academies for other highly spoken Indian languages may also be similarly established by the Centre and/or states.

(شیڈول آٹھ میں درج زبانوں کی یہ اکیڈمیاں مرکزی حکومت، ریاستی حکومت کے مشورے یا ان کے ساتھ شراکت کے ذریعے قائم کرے گی۔ اس کے علاوہ بھارت میں قابلِ لحاظ تعداد میں بولی جانے والی بھارتی زبانوں کی اکیڈمیاں بھی اسی طرح مرکزی حکومت یا/ اور ریاستی حکومت کے ذریعے قائم کی جائے گی۔)
ان دونوں عبارتوں میں ایک واضح فرق تو یہی ہے کہ فائنل کاپی میں ’اردو اور سندھی‘ کا ذکر غائب ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر ہم اردو یا سندھی کی بات کر بھی رہے تھے، تو ان زبانوں کا ذکر صرف lexicon اور لغات اور ان زبانوں کی اکیڈمیاں قائم کرنے سے متعلق ہے، ذریعہ تعلیم کے یا ان زبانوں کی تعلیمی حیثیت کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ تو وہی مثل ہوگئی، بہ قول اقبالؔ ؎
سادگی اپنی بھی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ
اب یار لوگوں کا محض ایک ایسے مسودے پر ہنگامہ کرنا جو کالعدم ہوکر اس کے بجائے دوسرا ترمیم شدہ مسودہ فائنل ہوکر حکومت سے منظور ہوا ہے اور وہی شائع بھی ہوا ہے، بے سود و بے معنی نظر آتا ہے۔
ہمیں تو ایسے موقعے پر علامہ اقبال کا شعر ہی یاد آتا ہے۔
کیا کہا؟ بہرِ مسلماں ہے فقط وعدۂ حور!
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور


٧۔
انتظامی اداروں کی دوبارہ تشکیل: افادیت اور خدشات
نئی تعلیمی پالیسی 2020 میں ایک اہم اضافہ تعلیمی شعبے میں انتظامی اداروں کی ساخت کو دوبارہ منظم کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس کے تحت ابتدائی اور اعلا، دونوں تعلیمی سطحوں پر Regulatory اداروں کے اختیارات کا تعین کیا گیا ہے۔
ابتدائی تعلیم:
ابتدائی تعلیم کے تحت اس دستاویز نکتہ نمبر سات اور آٹھ یعنی صفحہ نمبر 28 اور 30 پر مکمل تفصیل دی گئی ہے۔
صفحہ 28 پر پیراگراف 7.2 کے مطابق، ’جہاں تک اساتذہ کے تقرر اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کا تعلق ہے، یہ چھوٹی اسکولیں نسبتاً پیچیدہ اور معاشی اعتبار سے کم نافع suboptimal ہیں۔ ایک معلم ایک ہی وقت میں اکثر کئی جماعتوں کو ایک ساتھ پڑھاتا ہے اور کئی مضامین پڑھاتا ہے جن میں ایسے مضامین بھی شامل ہوتے ہیں جن میں اس معلم کو کوئی سابقہ تجربہ نہ ہو۔ میوزک، آرٹس اور اسپورٹس جیسے مضامین اکثر و بیشتر پڑھائے ہی نہیں جاتے۔ اسکولوں میں لیباریٹری اور کھیل کود کے سامان سرے سے دستیاب ہی نہیں ہوتے۔‘
اس پیراگراف کی عبارت ہمیں اس نئے خدشے میں مبتلا کرنے کے لیے کافی ہے کہ چھوٹے اسکولوں کا وجود خطرے میں ہے۔ اس کے علاوہ بنیادی وسائل کی فراہمی اور اساتذہ کے تقرر کے بہانے پرائیویٹ اور کارپوریٹ سیکٹر کی پیش بندی کردی گئی ہے۔ اسے ہم تعلیم کو کارپوریٹ سیکٹر بنانے کے لیے ماحول سازی اور عوام کی ذہن سازی سمجھ سکتے ہیں۔ چھوٹے اسکولوں کے وجود کے لیے خطرے کی گھنٹی کے طور پر ان عبارت کو بھی دیکھ لیجئے۔
پیراگراف 7.3 کی عبارت کہتی ہے، ’چھوٹے اسکولوں کی علاحدگی درس و تدریس کے عمل اور تعلیم پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اساتذہ اور طلبہ، دونوں طبقات گروہوں اور جماعتوں ہی میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ چھوٹے اسکول انتظامیہ اور گورننس governance کے لیے ایک باقاعدہ چیلنج ثابت ہوتے ہیں۔ جغرافیائی بکھراؤ، رسائی کے لیے مشکل حالات اور اسکولوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے تمام اسکولوں تک یکساں طور پر پہنچ پانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اسکولوں کی تعداد میں اضافے کے لحاظ سے انتظامی administrative اسٹرکچر کو ہم آہنگ نہیں کیا گیا یا پھر ’سمگر شکشا اسکیم‘ سے نہیں جوڑا گیا۔‘
چھوٹے اسکولوں سے مراد ایسے اسکول ہیں:
۱۔ جو یا تو ’یک معلمی‘ اسکول ہیں یا پھر ’دو معلمی‘ اسکول
۲۔ ایسے اسکول ہیں جہاں پڑھنے والے طلبہ کی تعداد بہت کم ہے۔
۳۔ ایسے اسکول ہیں جو دوردراز دیہاتی یا قبائلی علاقوں میں ہیں۔
ایسے ساری اسکول ختم کرکے انھیں ’اسکول کمپلیکس‘ میں ضم کردیا جائے گا۔ اس کا عندیہ اس پالیسی میں پیراگراف 7.5 میں درج ہے جس کی عبارت حکومت کی منشا کو یوں بیان کرتی ہے، ’2025ء تک ریاستی یا مرکزی حکومتوں کے ذریعے grouping یا rationalize جیسے طریقے اختیار کرکے ان چیلنجوں پر قابو پالیا جائے گا۔ اس اقدام کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہر اسکول:
۱۔آرٹس، میوزک، سائنس، اسپورٹس، زبانیں، پیشہ ورانہ مضامین پڑھانے کے لیے مطلوبہ تعداد میں مشاور یا تربیت یافتہ سوشل ورکرس اور اساتذہ (شیئرڈ یا اَن شیئرڈ)
۲۔ لائبریری، سائنس لیباریٹری، کمپیوٹر لیب، اِسکل لیب، کھیل کے میدان، اسپورٹس سازوسامان اور سہولیات: سے لیس ہو۔
۳۔مشترکہ پیشہ ورانہ ڈیولپمنٹ پروگراموں، درس و تدریس کے مواد کے تبادلے، مشترکہ مواد سازی، آرٹس اور سائنس نمائش، اسپورٹس میٹ، quiz اور مباحثے جیسی مشترکہ سرگرمیوں کے ذریعے اساتذہ، طلبہ اور اسکولوں کی علاحدگی isolation کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے اجتماعی شعور بیدار کرنا؛
۴۔ خصوصی ضروریات کے حامل طلبہ کی تعلیم کے لیے تمام اسکولوں میں تعاون اور امداد
۵۔ہر اسکول کے گروہ کے پرنسپل، اساتذہ اور اس کے stakeholder کو فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کرکے اسکولی نظام کو بہتر governance دینا۔‘
یہ سارے اقدامات تو سابقہ تعلیمی پالیسی میں بھی موجود ہیں۔ لیکن اس پالیسی میں دوبارہ ان اقدامات کا ذکر کرنے سے شاید حکومت کا مقصد یہ ہو کہ عوام کی ذہن سازی کی جائے اور ماحول بنایا جائے کہ یہ سب کچھ پہلے نہیں ہوپایا لیکن اب ہم اسے کارپوریٹ سیکٹر کی مدد سے کر دکھائیں گے۔ ایسی صورت میں جب کہ اس پالیسی میں حکومت نے تعلیم کے شعبے میں GDP کے فی صد میں اضافہ بھی نہیں کیا ہے، بنیادی وسائل کیسے فراہم کیے جاسکیں گے؟
پیراگراف 7.8 کی عبارت انتظامی ساخت کو واضح کرتی ہے۔
’اسکول کلسٹر کی وجہ سے اسکولوں کا انتظام و انصرام governance بہتر اور مزید موثر ہوگا۔ پہلے DSE یعنی ڈپارٹمنٹ آف اسکول ایجوکیشن اسکول کمپلکس یا کلسٹر کو اختیار authority دے گا جو ایک نیم خود مختار اکائی کے طور پر کام کرے گا۔ ضلع افسر برائے تعلیم یعنی DEO اور BEO ابتدائی طور پر ہر اسکول کلسٹر یا کمپلکس کے ساتھ ایک واحد اکائی کے طور پر کام کریں گے اور تسہیل کریں گے۔ اسکول کمپلکس خود DSE کے ذریعے دیے گئے کاموں کو انجام دے گا۔‘
یعنی DEO اور BEO کے کرداروں کو نشان زد کیا گیا جو پہلے ہی سے موجودہ نظام کے اہم کردار ہیں لیکن ان کرداروں کے ساتھ دیگر گورننگ کرداروں کا اضافہ کیا گیا ہے۔
دستاویز کے صفحہ 31 پر پیراگراف 8.5 کے ذیلی پیرا a, b, c میں کچھ وضاحتیں کی گئی ہیں۔ ان وضاحتوں کے مطابق:
پیرا 8.5 (a)

The Department of School Education, which is the apex state-level body in school education, will be responsible for overall monitoring and policymaking for continual improvement of the public education system; it will not be involved with the provision and operation of schools or with the regulation of schools, in order to ensure due focus on the improvement of public schools and to eliminate conflict of interests.

(ڈپارٹمنٹ آف اسکول ایجوکیشن جو اسکولی تعلیم میں ریاستی سطح کا اعلا ترین ادارہ ہے، عوامی نظامِ تعلیم کی مسلسل اور متواتر بہتری، پالیسی سازی اور نگرانی کے لیے ذمہ دار رہے گا۔ یہ ادارہ اسکولیں چلانے اور ان کی گنجائش یا اسکولوں کے انتظام میں ملوث نہیں ہوگا تاکہ یہ عوامی اسکولوں میں بہتری پر مطلوبہ توجہ دے سکے اور مفادات کے تصادم کو ختم کرسکے۔)
پیرا8.5.(b) کے مطابق:

The educational operations and service provision for the public schooling system of the whole State will be handled by the Directorate of School Education (including the offices of the DEO and BEO, etc); it will work independently to implement policies regarding educational operations and provision.

(پوری ریاست کے عوامی اسکولی نظام کے تعلیمی معاملات اور سروس سے متعلق امور کی ذمہ داری ڈائریکٹوریٹ آف اسکول ایجوکیشن، بہ شمول ضلعی ایجوکیشن آفیسر اور بلاک ایجوکیشن آفیسر کی ہوگی۔ یہ ادارہ آزادانہ طور پر تعلیمی معاملات سے متعلق پالیسیوں کے نفاذ کے لیے ذمہ دار ہوگا۔)
پیرا 8.5 (d) کے مطابق:

Academic matters, including academic standards and curricula in the State will be led by the SCERT (with close consultation and collaboration with the NCERT), which will be reinvigorated as an institution. The SCERT will develop a School Quality Assessment and Accreditation Framework (SQAAF) through wide consultations with all stakeholders. 

(ریاست میں اکیڈمک معاملات بہ شمول اکیڈمک معیارات اور نصاب کا ذمہ ایس۔سی۔ای۔آر۔ٹی کا ہوگا (این۔سی۔ای۔آر۔ٹی کی مشاورت اور معاونت سے) جسے ایک ادارے کے طور پر مضبوط کیا جائے گا۔ تعلیمی نظام کے تمام شرکا سے رائے مشورے سے ایس۔سی۔ای۔آر۔ٹی SQAAF تیار کرے گا۔)
عوامی نظام تعلیم کی نگرانی اور کنٹرولنگ کے لیے اس ضمن میں مزید تفصیل دی گئی ہے۔ ہم نے یہاں چند زیادہ اہم نکات نقل کیے ہیں۔ بقیہ آپ حضرات کی دل چسپی کے لحاظ سے عمیق مطالعے کا متقاضی ہے۔
اعلا تعلیم کی کنٹرولنگ اور نگرانی:
ابتدائی تعلیم کی طرح اعلا تعلیم کی نگرانی اور کنٹرولنگ کے لیے بھی اس پالیسی میں واضح طور پر ترمیم کی گئی ہے۔ اعلا تعلیم کے چار اہم اجزا تصور کیے جاتے ہیں۔
۱۔ ریگولیشن
۲۔ ایکری ڈٹیشن Accreditation
۳۔ فنڈنگ
۴۔ تعلیمی معیار کا تعین
پہلے یہ چاروں کام مختلف اداروں کے توسط سے انجام دیے جاتے تھے لیکن نئی تعلیمی پالیسی میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ یہ چاروں کام ایک ہی مرکزی ادارے کے ذریعے انجام دیے جائیں گے۔ اس مرکزی ادارے کا نام ہوگا،’The Higher Education Commission Of India’ ۔ یعنی قومی کمیشن برائے اعلا تعلیم۔ ان چاروں کاموں کی نوعیت قدرے مختلف ہوتی ہے. اس لیے امکان یہ ہے کہ اعلا تعلیم کے یہ چاروں پہلو کہیں ایک دوسرے میں مدغم ہوکر کوئی پیچیدگی نہ پیدا کریں۔ کیونکہ قوت کی مرکزیت ہر مرتبہ اور ہر کام میں مفید اور موثر نہیں ہوسکتی۔ اور خصوصی طور پر بھارت جیسے عظیم اور رنگار نگی والے ملک میں۔ یہ پالیسی اپنے اس فیصلے کے لیے جواز پیش کرتی ہے کہ اس طرح کا اقدام تعلیمی نظام میں ’چیکس اینڈ بیلنس‘، مفادات کے تصادم سے گریز اور طاقت کی مرکزیت کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔ یہ کیسے ہوگا اور جب یہ نافذ العمل ہوگا تو اس وقت کن مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے، یہ دیکھنا ہوگا۔ ویسے بہ ظاہر تو یہ فیصلہ مناسب لگتا ہے لیکن کہیں سائیڈ افیکٹس زیادہ نہ ہوں، اس بات کا خیال رکھنا ہوگا۔
HECI کے ماتحت نیشنل ہائر ایجوکیشن ریگولیٹری کونسل قائم کی جائے جو ٹیچر ایجوکیشن جیسے مشترکہ اور سنگل پوائنٹ ریگولیٹر کے طور پر کام کرے گا۔
اعلا تعلیم کے انتظام و انصرام کے لیے دوسری اہم ایجنسی جو HCEI کے تحت کام کرے گی، وہ ہوگی NAC یعنی نیشنل اکری ڈٹیشن کونسل۔ ویسے یہ کونسل تو پہلے ہی سے کارکرد ہے۔ اعلا تعلیمی اداروں کو اکریڈٹ کرنے کا کام یہ کونسل کافی عرصے سے انجام دے رہی ہے لیکن نئی پالیسی کے تحت اس کو دوبارہ منظم کیا جائے گا۔ HCEI کے تحت تیسرا اہم ادارہ HEGC ہوگا۔ یہ مخفف ہے ’ہائر ایجوکیشن گرانٹس کونسل‘ کا۔ اس ادارے کا کام ہوگا شفاف طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے اعلا تعلیم میں فندنگ اور فائنانسنگ کے معاملات کی دیکھ بھال کرنا۔ یہ ادارہ اسکالر شپس اور ڈیولپمنٹ فنڈس کا بھی انتظام کرے گا۔
اعلا تعلیم کے انتظام کی چوتھی اور آخری کڑی ’جنرل ایجوکیشن کونسل‘ GEC نامی ادارہ ہوگا۔ یہ ادارہ اعلا تعلیم کے متوقع آموزشی ماحصل کا تعین کرے گا۔ ان آموزشی ماحصل کو ’Graduate Atrributes ‘ کہاجائے گا۔ یہ ادارہ نیشنل ہائر ایجوکیشن کوالی فکیشن فریم ورک NHEQF تیار کرے گا۔
جنرل ایجوکیشن کونسل کے ممبرس کے طور پر جو ذیلی ادارے کام کریں گے، ان میں انڈین کونسل فار اگری کلچرل ریسرچ ICAR، ویٹرینری کونسل آف انڈیا VCI، نیشنل کونسل فار ٹیچر ایجوکیشن NCTE، کونسل آف آرکی ٹیکچر CoA، نیشنل کونسل فار ووکیشنل ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ NCVET، وغیرہ شامل ہوں گے۔
اعلا تعلیم کے حوالے سے پالیسی دستاویز کے صفحہ نمبر 48 پر، پیراگراف 18.11 کی عبارت مزید تشریح کرتے ہوئے کہتی ہے:

’Setting up of new quality HEIs will also be made far easier by the regulatory regime, while ensuring with great efffectiveness that these are set up with the spirit of public service and with due financial backing for long-term stability. HEIs performing exceptionally well will be helped by Central and State governments to expand their institutions, and thereby attain larger numbers of students and faculty as well as disciplines and programmes. Public Philanthropic Partnership models for HEIs may also be piloted with the aim to further expand access to high-quality higher education.

(عوامی خدمت کے مقصد کے تحت طویل مدتی استحکام کے لیے مالی معاونت کے ساتھ اعلا تعلیم کے نئے اعلا معیاری اداروں کے قیام کو آسان بنایا جائے گا۔مرکزی اور ریاستی حکومتیں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے اعلا تعلیمی اداروں کو ان کی توسیع میں مدد کریں گی تاکہ بڑی تعداد میں طلبہ، اساتذہ، کورسس اور پروگرامس کی گنجائش بن سکے۔ ’پبلک فلان تھروپک پارٹنر شپ‘ ماڈلس کا تجربہ بھی کیا جائے گا تاکہ اعلا تعلیم میں اعلا معیار کے حصول کو آسان بنایا جاسکے۔)
یہ عبارت پڑھنے کے بعد بہت سے ماہرین کی رائے یہ بنتی ہے کہ پبلک فلان تھراپک پارٹنر شپ‘ کے ذریعے اعلا تعلیم میں بھی اسی طرح پرائیویٹ اور کارپوریٹ سیکٹر کے داخلے کے لیے ماحول تیار کیا جارہا ہے۔ ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اس قسم کے تمام تر خدشات، اللہ کرے، کہ غلط ثابت ہوں۔


٨۔
زبانیں اور کثیر لسانیت Languages and Multi-lingualism
قومی تعلیمی پالیسی میں جتنی وضاحت کے ساتھ زبانوں کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ حکومت زبانوں کے تعلق سے نہایت سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔ عملی طور پر چاہے جو ہو لیکن دستاویزی اور پالیسی سازی کی سطح پر یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔
پالیسی میں ملک کے لسانی تنوع اور رنگا رنگی کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔
پالیسی، سہ لسانی فارمولہ اور کثیر لسانیت:
سہ لسانی فارمولہ:
ہم نے سابقہ کسی مقالے میں یہ لکھا ہی ہے کہ آزادی کے بعد سب سے پہلے سہ لسانی فارمولے کا اطلاق 1952 کے سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن کی سفارشات کے تحت کیا گیا۔ اس فارمولے کے تحت اسکولی سطح پر طلبہ کو تین زبانیں پڑھائی جائیں گی۔ پہلی زبان یا تو بچے کی مادری زبان ہوگی یا پھر مقامی زبان۔ دوسری زبان علاقائی زبان ہوگی۔ اگر علاقائی زبان قومی زبان ہندی سے الگ ہوگی تو پھر دوسری زبان کے طور پر علاقائی زبان اور قومی زبان کو مشترکہ طور پر یعنی کمپوزٹ کے طور پر پڑھایا جائے گا۔ جب کہ تیسری زبان کے طور پر لنک لینگویج ’انگریزی‘ پڑھائی جائے گی تاکہ بچہ نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوسکے اور دنیا کے دروازے اس کے لیے کھل سکیں۔
کثیر لسانیت:
موہنتی (2004) کے مطابق ہمارے ملک میں:
۱۔ کل 3372 مادری زبانیں ہیں جن میں سے 1576 مندرج (listed) ہیں جب کہ 1796 زبانیں ’دیگر‘ زبانوں کے زمرے میں آتی ہیں۔
۲۔ 300-400 زبانیں ہیں۔
۳۔ 22+1 دفتری زبانیں ہیں۔
۴۔ پرنٹ میڈیا کی زبانوں کی تعداد 87 ہے یعنی ستاسی زبانوں میں کتابیں اور اخبارات شائع ہوتے ہیں۔
۵۔ 104 زبانوں میں ریڈیو پروگرام براڈکاسٹ ہوتے ہیں۔(1970/98)
۶۔ تقریباً آدھے اضلاع میں بیس فی صد اقلیتی لسانی گروپس موجود ہیں۔
ان اعداد و شمار کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم سمجھ سکتے ہیں کہ زمانۂ قدیم سے ہی ہمارا ملک بھارت ایک کثیر لسانی تہذیب و ثقافت کا منبع رہا ہے۔
قومی تعلیمی پالیسی 2020ء میں بھی کثیر لسانیت Multi-Lingualism کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے۔ پالیسی دستاویز کے صفحہ 13 کے پیراگراف 4.11 جس کا عنوان ’کثیر لسانیت اور زبان کی طاقت‘ ہے، کے مطابق:

It is well understood that young children learn and grasp nontrivial concepts more quickly in their home language/mother tongue. Home language is usually the same language as the mother tongue or that which is spoken by the local communities. However at times in multi-lingual families,there can be a home language spoken by other family members which may sometimes be different from mother tongue or local language.

(یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ چھوٹے بچے بہت سے تصورات کو اپنی مادری زبان یا گھر کی زبان میں جلدی سمجھ لیتے ہیں۔ گھر کی زبان سے مراد دراصل مادری زبان یا وہ زبان ہوتی ہے جو مقامی سماج میں بولی جاتی ہے۔ کبھی کبھی کثیر لسانی خاندانوں میں گھر کے افراد کے ذریعے بولی جانے والی گھر کی زبان مادری زبان یا مقامی زبان سے الگ بھی ہوسکتی ہے۔)
اسی پیراگراف میں آگے چل کر مزید وضاحت کی گئی ہے۔

Teachers will be encouraged to use a bilingual approach, including bilingual teaching-learning materials, with those students whose home language may be different from the medium of instruction. All languages will be taught with high quality to all students; a language does not need to be the medium of instruction for it to be taught and learned well.

(ذولسانی طریقۂ تدریس اختیار کرنے کے لیے اساتذہ کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ ذولسانی طریقۂ تدریس میں ان بچوں کے لیے ذولسانی تدریسی مواد بھی شامل ہوگا جن کی گھریلو زبان میڈیم آف انسٹرکشن کی زبان سے الگ ہوگی۔ تمام طلبہ کو تمام زبانیں نہایت اعلا معیار کے ساتھ پڑھائی جائیں گی۔ کسی زبان کو سیکھنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہوگا کہ وہ زبان بچے کے اسکول میں میڈیم آف انسٹرکشن ہی ہو۔)
آخری جملے پر دوبارہ غور کریں۔
ایک صورتِ حال ایسی بھی ہوسکتی ہے جس کا خدشہ ہمیں محسوس ہورہا ہے۔ خدا کرے ہمارا خدشہ غلط ثابت ہو۔
مان لیجئے اگر کسی بچے کی مادری زبان اردو ہے۔ وہ اردو زبان سیکھنا چاہتا ہے۔ اب اگر وہ اردو میڈیم اسکول میں سیکھنے کی خواہش رکھتا ہے اور حکومت یہ کہتی ہے کہ آپ اگر اردو زبان سیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو اردو میڈیم میں سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، آپ اردو محض ایک مضمون کے طور پر مراٹھی یا ہندی میڈیم اسکول میں بھی سیکھ سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں ان طلبہ کے لیے کیا متبادل باقی رہ جائے گا جن کی مادری زبان اردو، ہندی، مراٹھی یا کچھ اور ہو؟
بہر حال، کثیر لسانیت پر حکومت کی توجہ زبانوں کے شعبے میں روزگار اور آفاقیت کے بہت سے نئے مواقع فراہم کرے گی۔
***
صاحب مقالہ کی گذشتہ نگارش: خطاب بہ اولیائے طلبہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے