مفت مشورے

مفت مشورے

ایس معشوق احمد
کولگام، کشمیر، ہند

یوں تو اس مہنگائی کے دور میں مفت کچھ نہیں ملتا لیکن ہمارے ہاں مشورے مفت ملتے ہیں۔ آپ لینے کے لیے تیار ہیں یا نہیں، آپ کو مشورے کی ضرورت ہے یا نہیں اس کی مفت کے مشورے دینے والوں کو چنداں فکر نہیں۔ وہ اپنا فرض جان کر آپ تک مفت مشورے ضرور پہنچائیں گے۔ مفت مشورہ دینے میں نہ رکاوٹ ہے نہ پابندی، نہ قابلیت کی ضرورت ہے نہ کوئی خاص صلاحیت درکار ہے. سو بزرگ بچے، چھوٹے بڑے، اپنے پرائے، رشتہ دار غیر، سارے ہی مفت کے مشورے دینے آتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ خود انھوں نے ان مشوروں پر عمل کیا یا نہیں یا ان مشوروں پر عمل کرکے آپ کا فائدہ ہوگا یا نہیں؟ اس سے بے پروا وہ اپنا فرض حتی المقدور نبھائیں گے۔عرصے سے ہم روز گار کی تلاش میں دیوانہ وار پھر رہے ہیں اور لوگوں کے مفت مشورے سن کر برداشت بھی کر رہے ہیں۔ مرزا کہتے ہیں کہ وہ شریف انسان جو مفت کے مشورے سن لے اور مشورہ دینے والے کو گالی بھی نہ دے، ولی ہے۔ صاحبو مفت کے مشورے سن سن کر ہم ولی سے ابدال ہوگئے ہیں، پھر بھی خاموش ہیں۔ ہم بے مشغلہ ہیں، اس کی جان کاری کچھ عرصہ پہلے ایک صاحب کو ملی تو انھیں بڑا افسوس ہوا۔ اپنی بے قراری سے وہ ہمیں وقتا فوقتا آگاہ کرتے رہے۔ انھوں نے بڑے جتن کے بعد فرصت نکال لی اور ہمیں مشورہ دینے آن پہنچے۔ علیک سلیک کو بالائے طاق رکھ کر اس بات پر افسوس کرنے لگے کہ ہم کچھ نہیں کماتے اور ہماری اقتصادی حالت کو جانے بغیر ہماری معاشی حالت کو سدھارنے کے مشورے دینے لگے۔ فرمانے لگے کہ میاں سب سے پہلے پیسہ ہے۔ اس پیسے کو کمانے کا نسخہ ہم سے لو اور اسے اپنے پلو سے باندھ لو۔ سردی کا موسم ہے سو میاں ایک لاکھ کانگڑیاں خرید لو۔ اگر فی کانگڑی کا ایک روپیہ بھی نفع کما لو تو ایک لاکھ تو کما ہی لوگے۔ صاحبو ایک لاکھ کانگڑیاں خریدنے کے لیے جو کثیر رقم درکار ہوگی وہ کہاں سے اور کن طریقوں سے دستیاب ہوگی؟ اس حوالے سے انھوں نے خاموشی اختیار کی۔ سو ہم نے بھی مشورہ خاموشی سے سنا اور بڑی راز داری سے زمین برد کیا۔ایک اور صاحب نے مشورے کا تیر مارا جو سیدھے جگر پر لگا۔ فرمانے لگے اس اندھیرے سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ کسی پیر کے پاس فورا جاؤ اور اس سے تعویز لے لو، روز گار کی دیوی نہ صرف تمھاری دیوانی ہوگی بلکہ تم سے شادی کرکے عمر بھر تمھارے چرن دھوئے گی۔ اس مشورے پر عمل کرنے کے لیے ہم پیر بابا کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ آپ کی نظر میں کوئی لائق پیر صاحب ہیں تو ہمیں اس کا پتہ ضرور دیجیے۔ مشورے مفت مل رہے ہیں تو ان کو حقیر نہ جاننا. بعض لوگ طبیب نفسی کے پاس جاکر لاکھوں خرچ کرتے ہیں تب جاکر انھیں یہ بے متاع اور نایاب مشورے ملتے ہیں۔ سو ان مفت کے مشوروں کو غور سے سننا لیکن ان پر ہرگز عمل نہ کرنا، ورنہ عقل کی کشتی، جس پر سوار ہوکر کچھ نہ کچھ جتن کرتے ہو ان مشوروں پر عمل کرنے سے وہ کشتی ہی غرق ہوگی۔ پھر نہ ڈوب کر ابھرنے کی سکت ہوگی اور نہ ہی کنارا ملے گا۔
صاحبو! ہمارے ماتھے پر لکھا ہے کہ ہمیں مفت کا مشورہ دیجیے سو لوگ اپنا فرض جان کر دور دور سے ہمیں مشورے دینے آتے ہیں۔ کچھ نیک بخت تو اس فرض کو بعض دیگر فرائض کے مقابلے میں سنجیدگی سے لیتے ہیں اور صبح، دوپہر، سہ پہر کار منصبی نبھانے آجاتے ہیں۔ ایک صاحب نے کل سویرے مفت دو مشورے عنایت کیے۔ تھوڑی دیر کے لیے سنجیدہ ہوئے اور پھر بھاری بھر کم آواز میں فرمانے لگے کہ بغیر مرشد کے جینا ٹھیک نہیں سو جتنی جلدی ہو سکے کسی کو اپنا مرشد کر لو فائدے میں رہو گے۔ ان کا اشارہ اور زور اپنی طرف تھا لیکن کھل کر یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے اپنا مرشد بنا لو۔صاحبو ہم نے آج تک جو بھی کیا اس میں تو نفع نہ ہوا، اب کسی کو اپنا مرشد بناکر کیوں انھیں بھی خواہ مخواہ نقصان میں مبتلا کروں۔ ویسے ہم مرشد مشتاق یوسفی کو مانتے ہیں اور ان کے فرمائے پر عمل کرتے ہیں۔ قبلہ یوسفی اس دنیاے فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ مرحوم کو مرشد کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ بندہ نذر نیاز سے بچ جاتا ہے، سو اس کا فائدہ ہمیں ضرور ہوا۔ دوسرا مشورہ انھوں نے دیا کہ اپنے ظاہر اور باطن کو ایک کرو۔ پھٹے پرانے کپڑے، الجھے ہوئے بال، بے ڈھنگی چال ہمارا ظاہر تو خراب ہے ہی، ان کے مفت کے مشورے پر عمل کریں تو اپنا باطن بھی خراب کرنا ہوگا۔ ہم نے جب بھی دو کو ایک کرنے کی کوشش کی بری طرح ناکام ہوئے، سو ناکامی کے ڈر سے ہم نے باطن کو ویسا ہی رکھا جیسا وہ ہے لیکن ظاہر کو بہتر کرنے کی کوشش کی کہ ظاہر لوگ دیکھتے ہیں اور باطن کو دیکھنے والا کریم رب ہے۔
جب بھی ہم لوگوں کے مفت مشورے سنتے ہیں تو مرشد یوسفی بے حد یاد آتے ہیں۔ کیا خوب فرما گئے ہیں کہ "انسان کا کوئی کام بگڑ جائے تو ناکامی سے اتنی کوفت نہیں ہوتی جتنی ان بن مانگے مشوروں اور نصیحتوں سے ہوتی ہے جن سے ہر وہ شخص نوازتا ہے جس نے کبھی اس کام کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔"
مفت مشورے دینے والا شخص گر اس اذیت میں مبتلا ہوجائے جس میں مشورے پر سر دھننے والا مبتلا ہوتا ہے تو وہ مفت کے مشورے دینا بھول جائے گا۔ احمد سلمان سے معذرت انھوں نے شاید ایسی ہی صورت حال کا نقشہ کھینچا ہے:
جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
جب اپنے اپنے مشوروں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے
اور جب لوگوں کی سمجھ میں آجائے گا پھر وہ مفت مشوروں اور نصیحتوں کے بجائے دوسروں سے ہمدردی کا تقاضا کریں گے۔ مشہور ہے کہ دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ بہ قول مرزا دل جلا انسان دوسروں کو نصیحت نہیں کرتا اور نہ مفت مشورے دیتا ہے۔ اسے ڈر ہوتا ہے کہ جلے دل کا دھواں سانسوں کے ذریعے باہر نہ آجائے سو وہ کلام شائستہ اور باتیں میٹھی کرتا ہے۔
***
ایس معشوق احمد کی گذشتہ نگارش:غضنفر شناسی سے شناسائی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے