اپنا ہی ہاتھ سر پہ رہا اپنے یاں سدا

اپنا ہی ہاتھ سر پہ رہا اپنے یاں سدا

غضنفر

کس کو سنائیں حالِ دلِ زار اے ادا
آوارگی میں ہم نے زمانے کی سیر کی
یہ شعر مرزا رسوا ہادی نے اپنے مشہور و مقبول ناول امراؤ جان ادا کی ہیروئن امراؤ جان کے لیے کہا تھا مگر اس کا انطباق اوروں پر بھی ہوتا ہے۔ ان اوروں میں ایک وہ شخص بھی ہے جس کی زندگی سے اپنے دور کے تین تین بڑے صاحبِ ثروت شہر اکبر آباد، دہلی اور لکھنو جڑے رہے۔ ایک میں وہ پیدا ہوا، دوسرے میں پلا بڑھا اور تیسرے میں اپنے آخری پڑاؤ کو پہنچا مگر ان میں سے کوئی بھی جائے پناہ نہ بن سکا. کہیں پر بھی اسے آرام نصیب نہ ہو سکا۔ وہ مثلِ آوارہ بھٹکتا رہا۔ ہر ایک جانب معاشرے کی آنکھوں میں مانندِ خار کھٹکتا رہا۔ دامنِ تار تار و داغ دار سے گرد ملال و ملامت کو جھٹکتا رہا۔ بے رحمیِ وقت اور سلوکِ زمانہ کے جبر و ستم سے اس کا دل دکھتا رہا۔ دماغ پھٹتا رہا۔
تلاشِ معاش میں وہ ادھر اُدھر بھٹکتا رہا۔ ایک ایک گھر کا در جھانکتا رہا۔ گلی کوچوں کی دھول پھانکتا رہا، قدم قدم پر ہانپتا کانپتا رہا، موسم گرما میں جھلستا، سرما میں ٹھٹھرتا، باراں میں بھیگتا اورخزاں میں اجڑتا رہا۔
غیر تو غیر اپنوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا. اپنے پراۓ سب نے رشتہ توڑ لیا۔ اس سے منہ موڑلیا۔ وہ جدھر بھی گیا پھٹکار ملی، جس دروازے پر بھی پہنچا دھتکار ملی۔ دل جلا، ذہن کَھولا، آنکھوں میں لہو اترا مگر وہ خون کا گھونٹ پی کر رہ گیا۔ اتنا سب کچھ ہونے اور قدم قدم پر طرح طرح کے مصائب و آلام جھیلنے کے باجود اس نے شعور و ادراک کو ان کے ٹھکانے پہ رکھا اور یہ لکھا :
” عشق بناتا ہے۔ عشق ہی کندن کر دیتا ہے۔ دنیا میں جو  کچھ ہے عشق کا ظہور ہے۔ آگ عشق کی سوزش ہے۔ پانی عشق کی رفتار ہے۔ خاک عشق کا قرار ہے۔ ہوا اس کا اضطرب ہے۔ موت عشق کی مستی، زندگی عشق کی ہوشیاری ہے۔ رات عشق کا خواب اور دن عشق کی بیداری ہے۔ مسلمان عشق کا جمال ہے. کافر عشق کا جلال ہے۔ نیکی عشق کا قرب ہے۔ گناہ عشق کی دوری ہے۔ جنت عشق کا شوق ہے دوزخ عشق کا ذوق ہے۔ عشق کا مقام عبودیت و عارفیت و زاہدیت و صدیقیت و خلوصیت و مشاکیت و خلیلیت و حبیبیت سب سے بلند ہے۔"
جی ہاں، اس آئینۂ بیان میں منعکس مشاہدات و محسوسات اسی مرد مجاہد کے ہیں جو معیشت اور محبت دونوں میدانوں میں مختلف مشکل مرحلوں سے گزرا۔ قدم قدم پر ٹوٹا۔ موڑ موڑ پر بکھرا۔
یہ اسی قبیلۂ فرہاد کا فرد ہے جس نے عالمِ جنوں میں بھی فلسفۂ خرد کو یاد رکھا. عشق بلا خیز کی حالتِ سنگینی میں بھی پتھروں سے جوئے شیر نکالی۔
دل میں شدٌت جذبات کا طوفان، سینے میں خواہشاتِ وصل کا ارمان اور شکم میں اشتہا کا ہیجان لیے عمر بھر پرخار و شرر بار راستوں پر بھٹکا کیا۔ کچھ پانے کی تمنا میں سب کچھ کھو دیا۔ خود کو سر سے پا تک دریائے زہراب میں ڈبو دیا۔ طرح طرح کے حالات سے دوچار ہوا۔گھر چھوٹا، اپنوں سے بچھڑا، ادھر ادھر تنِ تنہا مارا مارا پھرا۔ جگہ جگہ پاپڑ بیلا۔ زخم کھایا۔ داغ جھیلا۔
محفلوں میں مثلِ تصویر چپکے کھڑا رہا۔ چھپ کے چپ چاپ بے اعتنائی کا تماشا دیکھتا رہا۔ رگ و ریشے میں بے توجہی کا زہر بھرتا رہا۔ اپنے لہو کا خون کرتا رہا، آنسو پیتا رہا۔ دامن کو تار تار کرتا رہا۔ داغ دار ہوتا رہا مگر قلب و نظر کے تقاضوں سے کبھی غافل نہیں رہا۔ دماغ کو ہمیشہ ہر منزل پر حاضر رکھا۔ اسے کبھی بھی غائب نہیں ہونے دیا۔
مذکورہ بالا بیان میں موجود منظروں کو سچ کرتا رہا، ان میں حقیقت کا رنگ بھرتا رہا۔
اس نے صرف عشق کا ہی نہیں حسن کا بھی مشاہدہ کیا۔
شراب کی مستی رکھنے والی نیم باز آنکھوں کو بھی دیکھا۔
ان حیات بخش رخساروں کا بھی معائنہ کیا جو جینے کا حوصلہ دیتے ہیں اور عارضی زندگی کو بھی جاودانی بخش دیتے ہیں۔ ان لبوں پر بھی نگاہ مرکوز کی جو نزاکت اور رنگت میں گلاب کی پنکھڑیوں کی یاد دلا دیتے ہیں۔ ان سراپوں کو بھی ملاحظہ کیا جن میں:
کچھ گل سے ہیں شگفتہ کچھ سرو سے ہیں قد کش۔
ان ثروت مند حسیناؤں کا بھی ذکر کیا جنھوں نے:
رخ سے گل کو مول لیا، قامت سے سرو غلام کیا
اس نے تو اس حسن کو بھی تلاش کر لیا کہ جس نے
چمن میں دعوائے جمال کرنے والے گل کا منہ لال کر دیا۔
اس نے اپنی نگاہوں کو صرف عشق و حسن کی نیرنگیوں تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ حیات و کائنات کے دیگر مظاہر کا بھی معائنہ کیا:
اس نے یہ بھی دیکھا کہ آفاق کی منزل سے کوئی سلامت نہیں گیا، راہ میں ہر سفری کا اسباب لٹ گیا۔ اس پر یہ راز بھی منکشف ہوا کہ جس سر کو کل تاجوری کا غرور تھا، آج اس پر اس کے ارد گرد نوحہ گری کا شور ہے۔ یہ نکتہ بھی سامنے آیا کہ آفاق کی کارگہِ شیشہ گری کا کام بہت نازک ہوتا ہے، سانس لینے سے بھی صورت بگڑ جاتی ہے۔ کلی کے تبسم کو دیکھ کر اس کے مشاہدے میں یہ بھی آیا کہ گل کا ثبات کتنا ہے۔ یہ مناظر بھی اس کی آنکھوں میں ابھرے کہ آئینہ جس تس کا منہ کیوں تکا کرتا ہے؟ مفلس کا چراغ کیسا ہوتا ہے؟ کس بیماری میں تدبیریں الٹی ہو جاتی ہیں؟
اس حقیقت کا راز بھی پایا کہ انسان کی ہستی حباب کی سی ہے۔ محض چند لمحوں کی نمائش ہے۔
یہ تو بس چند نمونے ہیں۔ بے سرو سامانی اور عالمِ ہیجانی میں بھی اس نے انسانی حیات و کائنات کی ایسی عقدہ کشائی کی ہے کہ جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے. اس نے وہ وہ راز کھولے ہیں کہ ستّر پردوں میں چھپا منظر بھی بے نقاب ہو گیا ہے۔ حقیقت تو حقیقت خوابِ موہوم بھی بے حجاب ہو گیا ہے۔ ایسی آگہی اور ژرف نگاہی رکھنے والا انسان بھی تباہ و برباد ہو گیا۔ کل کائنات کی خبر گیری کرنے اور اک اک بشر پر نظر رکھنے والا اکیلا پڑ گیا۔
اس کی تباہی اور تنہائی پر نظر ڈالیے تو بہت کچھ نظر آئے گا۔ وہ بھی جو عیاں ہے اور وہ بھی جو نہاں ہے۔
وہ بھی جو ضبطِ تحریر میں ہے اور وہ بھی جو دائرہ تحریر سے باہر ہے۔ ایک سبب قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ جس کے جبر و ستم سے بچپن ہی میں اس سے گھنے پیڑ کا سایہ چھن گیا۔ وہ سایہ جو دھوپ کے قہر اور موسم کے زہر سے بچاتا ہے۔ اپنی عاطفت میں چھپاتا ہے۔ محبت کے پالنے میں جھلاتا ہے۔ شفقتوں سے پروان چڑھاتا ہے۔ تنو مند و توانا بناتا ہے۔
دوسرا سبب معاشرت کی آندھی ہے جس نے کبھی اس کے پاؤں کو کسی زمین پر ٹکنے نہیں دیا۔ جس کے بگولے اسے خلا میں اڑاتے رہے۔ اسے بے زمیں بناتے رہے۔
تیسرا سبب اپنوں کی توتا چشمی ہے جس کے زہریلے رنگوں سے وہ لہو لہان ہوا۔ ملامتی تیوروں سے حیران و پریشان ہوا۔ غیریت کے چرکوں سے جسم و جان میں چیرا پڑا۔ دل میں درد اٹھا۔ بے اعتنائی کی ضرب سے بے جان ہوا۔ جوانی سے پیری تک ناتوانی کے کرب سے مضطرب رہا۔
ایک وجہ مزاج کا ٹیڑھپن بھی ہے جس کی باعث ہاتھ میں آئی ہوئی شے بھی ہتھیلی سے لڑھک گئی۔ اس ٹیڑھ پن کے سبب کبھی کوئی چیز دیر تک اس کے پاس رکی نہیں۔ بہت جلد پھسل کر گر گئی۔ بچپن سے شباب اور شباب سے بوڑھاپا آگیا مگر ٹیڑھپن جیوں کا تیوں بنا رہا۔کبھی سیدھا نہیں ہوا۔ وہ تو کہیے کہ آدمی دھن کا پکا تھا، کہیں رکا نہیں، کسی کے سامنے جھکا نہیں، گرتا پڑتا، ٹوٹتا بکھرتا، حالات سے لڑتا بھڑتا آگے بڑھتا رہا۔
وہ کسی فلسفی نے کہا ہے نا کہ محرومی انسان کو محترم بنا دیتی ہے سو اس کی محرومیوں نے اسے اتنا دبایا، اتنا دبایا کہ وہ اچھل پڑا اور ایسا اچھلا کہ آسمان پر پہنچ گیا اور دنیا کو اس نے دکھا دیا کہ خاک کے پردے سے بھی انسان نکل آتے ہیں۔ اس نے دلِ پُرخوں کی گلابی سے خود کو تو سرخ رو کیا ہی، چہرۂ غزل کو بھی گلاب بنا دیا۔ ایسی آپ بیتی لکھ دی کہ جس میں جگ بیتی منعکس ہوگئی۔ درباروں کے نشیب و فراز، حکمرانوں کے سوز و ساز اور درباریوں کے راز و نیاز سبھی اجاگر ہو گئے۔
اسی محرومی نے احساس کمتری سے جب دوچار کیا تو سینے میں برتری کا پودا پنپا اور پستہ قد نیپولین بونا پاٹ کو اتنا بلند و بالا بنا دیا کو وہ ساری دنیا کو دکھائی دینے لگا.
اسی محرومی نے بے بصارت ہومر کو ایسی بصیرت عطا کی کہ اس کی بند آنکھوں میں دنیا کے نہاں خانے کھل گئے۔ اسی نے گنوار ان پڑھ بدھو کالی داس کو جگت کوی کالی داس بنا دیا۔ اسی محرومی نے اس کے دلِ درد مند کو درد کا درماں بنا دیا۔
جائے جاہ وحشمت اور گہوارہُ دولت و ثروت والے ان تین شہروں میں بچپن سے پیری تک مسلسل بھٹکنے، ٹھوکریں کھانے اور بے سرو سامانی کے عالم میں پوری زندگی گزار دینے والے اور بقول اس کے
اپنا ہی ہاتھ سر پہ رہا اپنے یاں سدا
کے سفرِ حیات اور ایسی صورت ِ حال میں بھی اس کے کیے گئے کارناموں پر غور کرتے ہیں تو بے ساختہ یہ شعر ذہن میں کوند پڑتا ہے:
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
اور اس کا یہ شعر اسی کے سفرِحیات کے تناظر میں
بے معنی ہو جاتا ہے:
عشق اک میر بھاری پتٌھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سےاٹھتا ہے
***
غضنفر کی گذشتہ نگارش:کلکتے کا جو ذکر کیا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے