زاہد علی خان اثر کی انشائیہ نگاری

زاہد علی خان اثر کی انشائیہ نگاری

محمد اشرف یاسین
ریسرچ اسکالر، دہلی یونی ورسٹی، دہلی

اردو ادب میں طنز و مزاح کی تاریخ اور روایت کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اس میدان میں عمومی طور پر ہمارے مزاح نگاروں کی اکثریت نے صرف دو اصناف "انشائیہ" اور "خاکہ" کو ہی اپنی تخلیق کے لیے منتخب کیا ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے پروفیسر قمر رئیس نے اپنی کتاب "اُردو ادب میں طنز و مزاح کی روایت اور ہم عصر رجحانات ایک جائزہ (1986ء)" میں صفحہ نمبر 09 پر لکھا ہے :
"دراصل اردو کے بیشتر ادیب طنز و مزاح کے لیے انشائیہ یا خاکے کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اس کے محدود اور مختصر پیکر میں کچھ مبالغہ کچھ ماحول آفرینی اور کچھ مزیدار جملوں اور فقروں کی تراش سے رنگ بھرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ وہ کسی بڑے تخیلی کینوس پر، ڈرامہ یا قصہ کی صورت میں سماجی نظام کی مضحک ناہمواریوں کے شعبدے دکھانے سے گریز کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اس میں تخیلی فکر اور تخلیقی ہنر دونوں کی آزمائش ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو طنز و مزاح کا بڑا سرمایہ بڑے اور زندہ رہنے والے تخلیقی ادب کی سطح سے پست رہتا ہے۔"
زاہد علی خان اثر کے انشائیوں میں طنز و مزاح نگاری پر باقاعدہ گفتگو کرنے پہلے ہمیں انشائیہ کی تعریف بھی جان لینی چاہیے۔ انشائیہ کے لغوی معنی عبارت، بات پیدا کرنا اور طرزِ تحریر وغیرہ کے ہیں۔ انشائیہ نثری ادب کی وہ صنف ہے، جو ایک مختصر ادبی مضمون کے مانند ہوتے ہوئے بھی مضمون سے الگ انداز رکھتی ہے۔ اس میں تاثرات و مشاہدات وغیرہ بیان کیے جاتے ہیں۔ شگفتگی اور شائستگی اس کا اہم عنصر ہے۔ انشائیہ نگار کا اندازِ بیان خشک نہ ہو کر پُرلطف اور دل چسپ ہوتا ہے۔ اس کی ہیئت گرچہ نثری صنف کی ہے، لیکن یہ اپنے اندر شاعری کا سا لطف رکھتا ہے۔ انشائیہ میں انشائیہ نگار اپنی تحریر سیلِ رواں کی مانند آزادانہ طور پر شعوری رو میں بہتا ہوا پیش کرتا ہے۔ جس میں اس کی شخصیت کا پہلو بھی نمایاں نظر آتا ہے اور بغیر کسی خاص نتیجے کے بات کو ختم کرکے فیصلہ قاری پر چھوڑ دیتا ہے۔ واضح رہے کہ انشائیہ کے مفہوم اور بیئت کو کسی ایک تعریف میں محصور کرنا یا اس کی کوئی ایک ترکیب بیان کرنا قدرے دشوار ہے۔
شمالی ہند میں اردو شعر و ادب کے آغاز سے ہی طنز و مزاح کے نمونے ملنے شروع ہو جاتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغلیہ حکومت کے زوال اور انتشار کے ساتھ ہی ساتھ ہندستانی معاشرے میں ہر طرح کی ناہمواریاں بھی جنم لے رہی تھیں اور انسانی اقدار و استحکام کا نظام بھی ٹوٹ پھوٹ رہا تھا، جو سیاست اور استقلال سے جڑا ہوا تھا۔ نا اہل حکمرانوں کا طوطی بول رہا تھا۔ زندگی کے ہر شعبے میں ہما ہمی اور کشاکش کا دور دورہ تھا، معاشرہ انصاف اور اعتدال سے تقریباً عاری ہو چکا تھا۔ چنانچہ ایسے پر آشوب اور پر فتن دور میں جعفر زٹلی (1659ء 1713ء) نے شاعری شروع کی، بعد ازاں جعفر زٹلی کی اس روایت کو مرزا محمد رفیع سودا (1706ء۔ 1781ء)، نظیر اکبر آبادی (1740ء- 1830ء)، انشاء اللّٰه خان انشاء (1756ء- 1817ء) وغیرہ نے پروان چڑھایا۔ آگے چل کر مرزا اسد اللّٰه خاں غالب (1797ء- 1869ء) نے اپنے خطوط اور ”مدراس پنچ" (مدراس: 1859ء)، "روہیل کھنڈ پنچ“ ( مراد آباد: 1876ء)، ”بہار پنچ" (پٹنہ:1876ء)، "اودھ پنچ" (لکھنؤ:1877ء) اور سر سید احمد خان (1817ء- 1898ء) نے اپنے مضامین کے ذریعے فروغ دیا۔
آزادی کے بعد جن مزاح نگاروں نے اس فن کو نکھارا، سنوارا ان میں مشتاق احمد یوسفی، احمد جمال پاشا، یوسف ناظم، کنہیا لال کپور، فکر تونسوی، مشفق خواجہ اور مجتبیٰ حسین وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ انجم عثمانی، نصرت ظہیر اور ابن کنول [پروفیسر ناصر محمود کمال] نے ماضی قریب تک اس میں اضافے کیے۔ فی الحال اردو میں اسد رضا، ساجد جلال پوری، احمد امتیاز، اسد اللّٰه، اور زاہد علی خان اثر جیسے کئی انشائیہ نگار مسلسل لکھ رہے ہیں۔
زاہد علی خان اثر نے "الرجی" نامی اپنے انشائیہ میں "الرجی" پر بہت ہی خوب صورت اور پر تکلف گفتگو کی ہے۔ اس سے الرجی کی مختلف اقسام وغیرہ پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے:
"الرجی کی تشریح و توضیح جس قدر مشکل ہے اتنی ہی آسان بھی ہے، اس کے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ آپ کے ملاقاتیوں میں، الرجی کے عارضی یا مستقل شکار چند افراد ضرور ہونے چاہئیں۔ ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، چلتے پھرتے، آپ الرجی کی مختلف اقسام سے بخوبی واقف ہو جائیں گے۔ کسی کو کسی چیز سے اور کسی دوسرے کو کسی دوسری چیز سے الرجی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ کچھ خاص لوگوں کو کچھ خاص قسم کی خوشبوؤں، بدبوؤں، پھولوں اور پھلوں تک سے الرجی ہوتی ہے۔"
الرجی نام سنتے ہی کچھ شوقیہ قسم کے الرجی لوگوں کی باتیں فوراً ذہن میں آجاتی ہیں، جنھیں دھوپ سے، دھول سے، دھواں سے، خوشبو سے، بدبو سے اور نہ جانے کن کن چیزوں سے الرجی ہوتی رہتی ہے۔
زاہد علی خان اثر نے ”بالواسطہ دوست“ کے عنوان سے ایک بہت ہی دل چسپ انشائیہ لکھا ہے۔ وہ رقم طراز ہیں:
"میری دوستی کا حلقہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ اس کی وجہ دوستوں کی ایک دوسری قسم بھی ہے، جنھیں میں ”بالواسطہ دوست“ کہہ سکتا ہوں۔ یعنی میرے کسی عزیز دوست کے جس قدر دوست ہوں گے جن کی عادتیں اور بولیاں بھانت بھانت کی ہوں گی، لازمی طور پر میرے بالواسطہ دوست ہوں گے۔ بالواسطہ دوست کبھی کبھی بہت زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں، کیونکہ جب کبھی ان سے ملنے کا اتفاق ہو جاتا ہے تو وہ میرے اصلی دوست کا حوالہ دے کر، اپنی دوستی کا حق جتانے لگتے ہیں اور اکثر ان احسانات کو جو وہ اصلی دوست پر کر چکے ہوتے ہیں، گنا گنا کر مجھے بھی احسان مند ہونے کا موقع مرحمت کرتے ہیں، جسے میں خندہ پیشانی سے تسلیم کر لیتا ہوں۔ یہ خندہ پیشانی بھی ایک بیماری ہے، کیونکہ ہر ملاقاتی اگر نیا ہو تو آپ کی خندہ پیشانی کی چمک دمک دیکھ کر اپنی تیوری چڑھا لیتا ہے اور آپ کی خندہ پیشانی جسے وہ تا قیامت قائم رہنے کی دعا دیتا ہے، آپ کے لیے وبال جان بن جاتی ہے کیونکہ اس سے مروت اور شرافت کے ضرورت سے زیادہ ہونے کا اندازہ ہو تا ہے اس لیے آپ پر قسم قسم کی آفتیں لوٹنا شروع ہو جاتی ہیں۔"
اس انشائیے کو پڑھ کر سجاد حیدر یلدرم کا مشہور ترین انشائیہ "مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ زاہد علی خان اثر نے”بچتی دوستی" کے عنوان سے بھی ایک انشائیہ لکھا ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، لیکن اس انشائیے کا زاویہ ذرا مختلف ہے۔
زاہد علی خان اثر کے ایک انشائیے کا عنوان "ڈنڈی مار" ہے۔ اس انشائیے کو پڑھ کر حضرت شعیب علیہ السلام کے قوم کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ کیونکہ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو ناپ تول میں کمی ہی کی وجہ سے بہت سخت سزا دی گئی ہے۔ اس قوم کا تذکرہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ زاہد علی خان اثر نے اپنے اس انشائیہ "ڈنڈی مار" میں لکھا ہے:
"ڈنڈی ماری ایک عادت ہے، بلکہ یہ ایک طرح کی نفسیاتی بیماری ہے، اگر اسے متعدی اور چھوت کی بیماری کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ بس یوں کہہ لیجئے کہ یہ ایک ایسی عادت ہے جو بچپن سے لے کر بڑھاپے تک عمر کے کسی بھی حصے میں پڑ جاتی ہے اور "چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی" کے مصداق، چولی دامن کی طرح ساتھ ساتھ رہتی ہے۔"
اس انشائیے سے ضمناً یہ معلومات بہم پہنچائی گئی ہے کہ کمیشن کھانا بھی ڈنڈی مارنے کے زمرے میں آتا ہے۔ اس دنیا میں ڈنڈی مارنے والوں کی اچھی خاصی تعداد پائی جاتی ہے جیسے بیوی اپنے شوہر کے جیب پر ڈنڈی مارتی ہے، اساتذہ طالب علم کو ڈنڈی مارتے ہیں اور والدین اپنے بچوں کی ڈنڈی سے "ضیافت" کرتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ زاہد علی خان اثر نے اس ذو معنیٰ لفظ "ڈنڈی مارنا" کے استعمال سے بہت ہی پر لطف مزاح پیدا کیا ہے۔ ایک ڈنڈی مارنے کے معنیٰ دھوکہ دھڑی اور گھپلہ کے ہیں جب کہ دوسرا معنیٰ چھڑی سے پیٹنا۔
واضح رہے کہ زاہد علی خان اثر نے اپنے سے بڑوں اور سابقین طنز و مزاح نگاروں سے بھر پور استفادہ کیا ہے جیسے مشتاق احمد یوسفی کا انشائیہ ہے۔ "پڑئیے گر بیمار" (مشمولہ، چراغ تلے) تو زاہد علی خان اثر کا انشائیہ ہے "ہم بیمار کیا ہوئے" (مشمولہ، تاک جھانک) اسی طرح سے مشتاق احمد یوسفی ہی کا ایک دوسرا انشائیہ ہے۔ "چند تصویرِ بتاں" (مشمولہ، خاکم بدہن) تو زاہد علی خان اثر کا انشائیہ ہے۔ "چند تصویرِ بتاں اور چند حسینوں کے خطوط" (مشمولہ تاک جھانک) ایک مزید لطف کی بات یہ بھی ہے کہ دونوں ہی عناوین دو مختلف شعرا کے اشعار سے مستعار ہیں۔ جیسے
پڑئیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مرجائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
(مرزا اسد اللّٰه خاں غالب1797-1869 )
چند تصویرِ بتاں چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا
(بزم اکبر آبادی)
یہ بات بالکل درست ہے کہ زاہد علی خان اثر کا اصل میدان شاعری ہے، لیکن انھوں نے بہت ہی دل چسپ انشائیے تحریر کیے ہیں۔ ان کے خاکوں کا رنگ ذرا پھیکا ہے۔ جب کہ انشائیوں میں ان کے طنز و مزاح کی بھر پور جولانیاں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ چنانچہ اس مضمون میں زاہد علی خان اثر کی انشائیہ نگاری پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
حوالہ جات :
1- آئینہ در آئینہ : زاہد علی خان اثر، عفیف پرنٹرز، گلی قاسم جان، دہلی،06، 2002ء
2- تاک جھانک : زاہد علی خان اثر، یونین پرنٹنگ پریس، دہلی، مئی 2011ء
3- اُردو ادب میں طنز و مزاح کی روایت اور ہم عصر رجحانات ایک جائزہ : قمر رئیس، اُردو اکیڈمی، دہلی، 1986ء
***
اشرف یاسین کی گذشتہ نگارش:کتاب: ایک فکشن نگار کا سفر 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے