ایک درخشاں قمر کی آمد کی دھمک

ایک درخشاں قمر کی آمد کی دھمک

غضنفر
علی گڑھ، اتر پردیش، ہند

حالیہ دنوں میں افقِ دکن پر ادب کے جو ستارے روشن ہوۓ ہیں، ان میں ایک قمر بھی ہے۔ قمر کی ادبی نگارشات کا وصف یہ ہے کہ ان میں تخلیقی چاندنی کے ساتھ ساتھ لسانی روشنی بھی ہے۔ مزید یہ کہ قمر کی اس چاندنی اور روشنی سے پھوٹنے والی شعاعوں میں بوقلمونی اور رنگینی بھی موجود ہے۔ ان میں افسانوی اور شعری چمک کے پہلو بہ پہلو تنقیدی دمک بھی نظر آتی ہے۔ ان میں متاعِ زیست کی رمق تو روشن ہوتی ہی ہے احساسِ ندامت کے آنسوؤں کی چمک بھی دکھائی دیتی ہے.
اس چمک دمک کا سبب یہ ہے کہ قمر رمیشا نے اپنی ادبی تحریروں میں لفظوں کی جو کہکشاں سجائی ہے اس میں حرف و صوت کی ایسی چست درست دروبست رکھی گئی ہے اور ایسی عمدہ ترتیب و تڑئین کی گئی ہے کہ خود بہ خود روشن شعاعیں پھوٹ پڑی ہیں۔
ارژنگِ قلم اور رفعتِ قلم کے عنوانات سے لکھی گئی یہ کتابیں رمیشا قمر کے ذہن کی وسعت کو تو سامنے لاتی ہی ہیں، ان کے قلم کی پرواز کا بھی پتا دیتی ہیں۔
ان کتابوں میں شامل تحقیقی مواد سے یہ پتا چلتا ہے کہ قمر نے اس کی چھان بین میں کتنی محنت کی ہے۔ کتنی تگ و دو کی ہے اور پھر اس ادبی مواد کی قدر و قیمت کے تعین میں کتنا دماغ لگایا ہے۔ یہ غالباً ایسی پہلی کتاب ہے جس میں کرناٹک کی خواتین قلم کاروں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے اور ان کی ادبی نگارشات کی جانچ پرکھ نہایت سنجیدگی سے کی گئی ہے اور ایک ایک قلم کار کی ادبی قدر و قیمت کے تعین کے سلسلے میں معروضی اور ایمان دارانہ کوشش کی گئی ہے۔ رمیشا نے زبان بھی بہت صاف ستھری، رواں دواں اور شگفتہ استعمال کی ہے جس سے نگارشات کو سمجھنے میں آسانی تو ہوتی ہی ہے، ساتھ ہی حظ بھی حاصل ہوتا ہے۔ رمیشا کی اس کاوش کو یقیناً کارنامے کا نام دیا جا سکتا ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں ایسا جوکھم بھرا کام کرنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ کام اداروں کا ہے جسے ایک طالب علم نے ایسے وقت میں کیا ہے جو اس کے کیریر کا وقت ہوتا ہے‌ اور جس کے پاس وسائل بھی محدود ہوتے ہیں۔ ایسے زمانے میں اس طرح کا کام یقیناً کوئی جیالا ہی کر سکتا ہے۔ اس مشکل اور اہم کام کے لیے رمیشا قمر کو جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔اور ان دونوں کتابوں کو ریاستی اور قومی ایوارڈ سے نوازا جاچکا ہے۔
رمیشا قمر نے چار اور اہم تنقیدی و تحقیقی نوعیت کے کام کر ڈالے ہیں۔ "کرناٹک میں اردو ماضی اور حال" یہ ایک دستاویزی نوعیت کی کتاب ہے جسے رمیشا قمر نے پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین (جے. این. یو، دہلی) کے اشتراک سے مرتب کیا ہے۔ بڑی تگ و دو اور عرق ریزی سے یہ کتاب تیار کی گئی ہے جو بلا شبہ کرناٹک کے ادبی منظرنامے کو پیش کرتی ہے اور ریاست کی ادبی صورت حال اور سرگرمیوں سے واقف کرواتی ہے۔ یہ کتاب اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ اس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو زبان مرکز کے علاوہ حاشیائی علاقوں میں کس حد تک سرگرم عمل ہے اور وہاں کس طرح اور کس معیار کا ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ اپنے علاقے کی لسانی سرگرمیوں اور ادبی نگارشات کو دور دراز کے علاقوں میں پہنچانے اور بیرونی دنیاؤں سے متعارف کرانے میں ڈاکٹر رمیشا کا بھی ایک نمایاں کردار رہا ہے۔
ان کی دوسری اہم اور قابل قدر کتاب "اردو کی تیرہ نئی مقبول کہانیاں" ہے.
کہانیوں کے اس انتخاب میں میری کہانی ",کڑوا تیل" بھی شامل ہے۔ چوں کہ یہ میری کہانی ہے اس لیے مجھے پتا ہے کہ یہ کئی انتخابات میں شامل ہے۔ یہاں تک کہ دوسری زبانوں کی مشہور و نمائندہ کہانیوں کی فہرست میں بھی اسے جگہ دی گئی ہے اور کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ اسی طرح اس انتخاب کی تقریبا زیادہ تر کہانیاں کافی مشہور و مقبول ہیں اور ان کی مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ مختلف انتخابات میں شامل ہیں اور کسی نہ کسی شکل میں وہ اکثر زیرِ بحث رہتی ہیں۔ اس اعتبار سے یہ ایک عمدہ انتخاب ہے اور مرتبہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہیں جس کا ذکر وہ اپنے مقدمے میں کر چکی ہیں۔
ڈاکٹر اطہر پرویز کے اس انتخاب جس میں انھوں نے اردو کے تیرہ کلاسیکی افسانوں کو یکجا کیا تھا، کے بعد یہ ایک ایسا انتخاب ہے جس میں نئے دور کی اچھی اور مقبول کہانیوں کو یکجا کرنے کی سنجیدہ کوشش کی گئی ہے۔
یہ انتخاب ایک اعتبار سے اطہر پرویز صاحب کے انتخاب سے آگے کا قدم ہے کہ اس میں افسانہ نگاروں کے بھر پور سوانحی کوائف کے ساتھ ساتھ مشمولہ کہانیوں پر تنقیدی رائے بھی دی گئی ہے۔
یہ انتخاب جہاں ڈاکٹر رمیشا کے ادبی ذوق و شوق اور ان کے جذبہً مہم جوئی کی غمازی کرتا ہے وہیں ان کی فکشن فہمی اور تنقیدی بصیرت کا بھی پتا ہے۔ جیسا کہ رمیشا قمر نے اپنے مقدمے میں اشارہ کیا ہے کہ وہ جلد ہی مقبول کہانیوں کی دوسری قسط بھی لانے والی ہیں تو میری یہی تمنا ہے کہ خدا کرے اس قبیل کی باقی کہانیوں کی دوسری قسط بھی آجائے تاکہ معاصر اردو افسانے کی بھرپور نمائندگی ہو جائے اور ان افسانہ نگاروں کو بھی داد مل جائے جنھوں نے اردو افسانے کی آبیاری اپنے خون جگر سے کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ دوسری قسط ان تمام افسانہ نگاروں کا احاطہ کر سکے گی جو یہ ایمان داری سے سوچتے ہیں کہ انھیں بھی اس نئے افسانوی انتخاب میں ہونا چاہیے۔
میں ڈاکٹر رمیشا قمر کو اس اہم اور قابل قدر کام کے لیے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ایک بار پھر دعا کرتا ہوں کہ اس انتخابی سلسلے کی دوسری کڑی بھی جلد سے جلد منظر عام پر آ جائے.
باقی دو کتابیں تو خود میری ذات سے وابستہ ہیں۔ایک ہے میرے ناولوں کا کلیات "آبیاژہ" جسے رمیشا نے بڑی محنت تگ و دو، لگن اور چاو سے مرتب کیا ہے. جو 1200 صفحات پر مشتمل ہے جس پر رمیشا نے ایک بسیط مقدمہ بھی لکھا ہے جس میں میرے تمام ناولوں کے مختصر تعارف کے ساتھ ساتھ میرے ناولوں کے امتیازی خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
خاص طور سے میرے اسلوب پر فوکس کیا گیا ہے اور میرے افسانوی اسلوب کے امتیازات کی وضاحت مثالوں سے کی گئی ہے۔ ڈاکٹر رمیشا قمر کی اس کاوش کو بہت سراہا گیا اور ادبی حلقوں میں اسے اردو ناولوں کا پہلا کلیات قراردیا گیا۔
چوتھی کتاب ہے "غضنفر شناسی (ناولوں کی روشنی میں)". نام ہی سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب میری ذات سے وابستہ ہے۔
اس کتاب کی تیاری میں ڈا کٹر رمیشا قمر نے پہلی کتاب کے مقابلے میں اور بھی جی لگایا ہے اور جان کو کھپایا ہے۔ اس کتاب میں رمیشا قمر نے میرے ناولوں پر لکھی گئیں تقریباٌ سبھی اہم تحریروں کو یکجا کردیا ہے۔ ساتھ ہی میرے ناولوں پر خود بھی ایک اہم مضمون لکھا ہے۔
میرے لیے یہ خبر بھی باعثِ انبساط ہے کہ گلبرگہ یونی ورسٹی نے ڈاکٹر رمیشا قمر کی کتاب ارژنگ قلم کو اپنے ایم ۔اے اردو کے نصاب میں داخل کیا ہے۔میرے علم میں یہ بات بھی آئی ہے کہ ڈاکٹر رمیشا کی پہلی کتاب "رفعت قلم" بیجا پورکے بی ۔اے اردو کے نصاب میں شامل ہے۔ یہ دونوں کتابیں اس وقت لکھی گئیں جب رمیشا قمر زیرِ تعلیم تھیں. کسی بھی طالب علم کے لیے یہ بات باعثِ افتخار ہے کہ اس کی کوئی کتاب اسی یونی ورسٹی کے اعلا درجات کے نصاب میں داخل ہو جائے جہاں خود اس نے تعلیم حاصل کی ہو اور مزید مسرت کی بات یہ ہے کہ جہاں وہ اب پڑھا بھی رہی ہو۔
صرف یہی نہیں جہاں رمیشا کے قلم کا کارنامہ دکھائی دیتا ہے بلکہ بین الاقوامی جریدہ "رشحاتِ قلم" اور "ترجیحات" میں بھی اس کے قلم کی جولانی نظر آتی ہے۔ یہ قلم ہی کی برکت ہے کہ انھیں دو دو بین الاقوامی معیاری رسائل میں مدیرہ کی ذمے داری سونپی گئی اور وہ اپنے قلم کی طاقت کے زور پر آن لائن اردو صحافت کے فلک پر مانندِ چاند چمک اٹھیں۔ رمیشا قمر کئی بین الاقوامی اہم اور معیاری رسالوں کے اڈیٹوریل بورڈ میں بھی شامل ہیں۔
رمیشا نام کا یہ قمر صرف صفحۂ قرطاس پر ہی نہیں چمکتا بلکہ برقی پردے پر بھی اپنی چاندنی بکھیرتا ہے۔
کتابوں کے ناموں میں عظمتِ قلم کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ رمیشا کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ رخشِ خامہ جب رقص کرتا ہے تو محفل عالمِ جذب میں پہنچ جاتی ہے۔ دلوں پر کیفیتِ بے خودی طاری ہو جاتی ہے. نشۂ کیف و سرور چڑھ جاتا ہے۔ رقصِ صریرِ خامہ کو دیکھ کر دل تو وجد میں آتا ہی ہے عقل و شعور کو بھی حال آ جاتا ہے۔
توقع کی جاتی ہے کہ یہ ادبی چاند اور روشن ہوتا جائے گا اور اس کی چاندنی دور دور تک چھٹکتی جاۓ گی
***
غضنفر کی گذشتہ نگارش:آئینہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے