امان اللہ ساغر : نعتیہ قصائد کی روشنی میں

امان اللہ ساغر : نعتیہ قصائد کی روشنی میں

ایوب رضا
جگتدل، مغربی بنگال
رابطہ : 9903126404

اردو کی مختلف اصناف کی طرح قصیدہ بھی ایک پروقار صنف ہے۔ اس کی روایت بھی غزل اور نظم کی طرح پرانی ہے۔ ادبی روایت کے مطابق یہ صنف عربی سے فارسی میں آئی اور پھر فارسی سے اردو میں منقلب ہوئی۔ قصیدہ ایک طرح کی مسلسل نظم ہے جو ایک خاص محور پر گھومتی ہے۔ گذشتہ تاریخ اور تہذیب پر روشنی ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ ہندستان میں نوابی اور بادشاہی حکومت کے زیر اثر قصیدے کو خوب ترقی ملی۔ شعراے کرام کا دربار سے تقرب اور نوابین و بادشاہ سے قرابت اس بات کے ضامن تھے۔ اردو قصیدہ نگاری کی روایت اپنے مخصوص طرز فکر سے عرصۂ دراز سے مقبول خاص و عام ہے۔ قصیدہ نگار اپنے ممدوح سے انعام و اکرام، القاب اور توجہ و التفات کا متمنی ہوتا تھا۔ شعراے کرام بادشاہ اور نوابین کی نظر میں سرخرو ہونے کے لیے بہتر سے بہتر تعریفی کلمات کہتے تھے۔ اردو ادب کے دوسرے اصناف کی طرح قصیدہ کے بھی اجزائے ترکیبی ہیں جن میں تشبیب، گریز، مدح، مدعا اور دعا خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ قصیدے کی ایک اور شکل نعتیہ قصیدہ ہے جس میں قصیدہ نگار نبی کریم کی تعریف و توصیف، ان کے حسن و جمال اور پیکر، ان کی صفات اور ان کے ناقابلِ یقین معجزات، ان کے حسنِ سلوک، مہمان نوازی، دشمنوں سے محبت کرنے کے انداز کا احاطہ کرتا ہے۔ قصیدے کا فن رفعتِ تخیل، زورِ بیان، مصنوعی صناعی اور بلند آہنگی سے ایسا ماحول نہ پیدا کردے کہ ان کی پاک ذاتِ الہیت سے جاملے اور پھر اتنا کم زور اندازِ بیان بھی نہ ہو کہ ان کا مقام کسی عام انسان کے مقام سے جا ملے۔ ایسے میں ایک قصیدہ نگار کو توازن اور میانہ روی کا انداز اپنانا پڑتا ہے۔
مغربی بنگال کے ادبی منظرنامے پر ایک ایسا نعتیہ قصیدہ گو شاعر ہے جو قصیدے کے ان تمام کوائف سے واقف ہے جس کا نام امان اللہ ساغر ہے۔ ان کا شعری مجموعہ "لبِ اظہار کے پھول" (نعتیہ قصائد) اوپر لکھے گئے امتیازی خصوصیت کا مکمل غماز ہے۔ مذکورہ کتاب کا انتساب حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے نام منسوب ہے۔ 43 قصائد پر مشتمل یہ مجموعہ اپنے طرز کا الگ مجموعہ ہے جس میں امان اللہ ساغر نے بہت ہنرمندی سے ممدوح سرور کائنات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت، جاہ و جلال، شوکت، عظمت و بزرگی، بہادری، عدل و انصاف، رحم دلی اور مہمان نوازی کی زبردست عکاسی کی ہے۔
قصیدے میں اشعار کی پابندی نہیں ہوتی۔ کچھ قصیدوں میں تو سو(١٠٠) سے زائد اشعار ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تشبیب میں شاعر عشق و عاشقی، بہار اور دوسرے معاملات کا تذکرہ کرتا ہے۔ اس میں غزل کا رنگ زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ اس کے بعد گریز میں شاعر اپنی تخلیقی صلاحیت، فنی بصیرت اور زبان و بیان پر اپنی گرفت کو اجاگر کرتا ہے۔ پھر قصیدے کے اہم جزو مدح کی باری آتی ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ مداح اور ممدوح کے درمیان رشتۂ محبت اور عقیدت جس قدر مضبوط ہوگا، قصیدہ اتناہی کمال کا ہوگا۔ نعتیہ قصیدے کی روایت بہت پرانی ہے۔ اس میں اولیاے کرام، بزرگانِ دین اور صوفیاے کرام کے کرامات اور معجزات بیان کیے جاتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے حالات سماجی، سیاسی اور اخلاقی سطح پر بدلتے گئے، زمانے کے اقدار اور رجحانات بھی بدلتے گئے۔ بادشاہت اور نوابی دور کے زوال کے بعد قصیدے کا معنی و مفہوم ہی بدل گیا۔ قصیدہ ہئیت اور موضوع کے معاملے میں یکلخت بدل گیا۔ اس طرح قصیدے کا زوال شروع ہوگیا اور ایک طرح سے ختم بھی ہوگیا۔ آج قصیدہ محض صنف کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ شعری منظر نامے پر امان اللہ ساغر جیسے جیالے موجود ہیں جو اس نیم مردہ صنف میں جان ڈالے ہوئے ہیں۔ ان کے متعلق معروف ناقد اور خوش فکر شاعر کلیم حاذق کا کہنا ہے کہ:
"امان اللہ ساغر نے لکھی تو دوبیتی ہی ہے تاہم قصیدے کی داخلی فضا قائم کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اشعار میں ندرت اور شگفتگی متاثر کرتی ہے."
مداح رسول شاعر امان االلہ ساغر نے اپنے قصیدوں میں نت نئے انداز میں ہمارے آقا نبی کریم کی مدحت سرائی کی ہے۔ زبان میں روانی اور سلاست ہے۔ اندازِ بیان میں زور اور صراحت ہے۔ انھوں نے اپنے خلاق ذہن سے نبی کریم کے مختلف پہلوؤں کو بڑے سلیقے سے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
اللہ اللہ یہ رتبۂ شاہِ دیں، ان کے سر پر کبھی دھوپ آئی نہیں
جس جگہ ہوتے جلوہ نما مصطفٰے، شامیانہ یہ بادل وہیں کھینچتے
یہ حبیب خدا کا ہے ہم پہ کرم، بڑھتے جاتےہیں، رکتے نہیں یہ قدم
ورنہ دیوار رستے میں اہل جہاں، کب اٹھاتے نہیں، کب نہیں کھینچتے
اردو شعر و ادب میں نعتیہ قصائد کو سلیقے سے برتنے والے شاعروں میں سب سے اہم نام محسن کاکوروی کا ہے۔ انھوں نے محسنِ انسانیت کی تعریف اور قصائد کو جس طرح برتا ہے اس کی مثال فارسی اور عربی میں بھی نہیں دِکھتی۔ امان اللہ ساغر کے دل و دماغ میں عشقّ رسول رچا بسا ہے اور پوری ادبی چاشنی کے ساتھ موجود ہے۔ انھوں نے تلمیحات، تشبیہات و استعارات کو نہایت سادہ اور دل چسپ انداز میں استعمال کیا ہے۔ زبان پر ان کی گرفت سخت ہے۔ انھوں نے تشبیب میں گھٹا، ہوائیں، فصلِ گُل، مے کشی، جام، مے نوشی کا ذکر کیا ہے جو قصیدے کی خصوصیت ہے۔
صبح رنگین ہے، شام رنگین ہے یعنی منظر بہر گام رنگین ہے
اک عجب رنگ فطرت کا ہے دوستو اک عجب رنگ لیل و نہار آج ہے
نور و رحمت کے ہیں شامیانے تنے، یہ زمیں رشک انجم شمار آج ہے
اپنی تقدیر پر فرش ہے مفتخر، آمدِ نورِ پروردگار آج ہے
نعتیہ قصائد کا ایک کمال یہ ہے کہ وہ ہندستانی تہذیب و معاشرت سے اپنے قصیدہ کی تشبیب باندھتے ہیں۔ اس میں شباب و شراب، بہار کی منظر کشی، اپنی تعریف یا پھر پند و نصائح بیان کیے جاتے ہیں۔ جیسے کوئی سنگتراش اپنے شاہکار سے دھیرے دھیرے پردہ اٹھاتا ہے اسی طرح قصیدہ نگار دل چسپ تشبیب سے پردہ اٹھانے کے بعد گریز پر آتا ہے۔ موصوف کے یہاں بھی تشبیب کا رنگ صاف طور پر دکھتا ہے۔
جنوں کے چہرے پہ دشتِ الفت میں، وحشتوں کا غبار کیا ہے
قریب آؤ تمھیں بتاؤں، یہ دامن تار تار کیا ہے
یہ بے خودی رشکِ آگہی ہے، یہ مے کشی اصلِ بندگی ہے
تمھیں پتہ کیا، تمھیں خبر کیا، مئے وفا کا خمار کیا ہے
مندرجہ بالا قصیدے میں موصوف نے تشبیب کا خیال رکھتے ہوئے مے کشی ، مئے وفا اور رشک آگہی کا ذکر کیا ہے.
عشق و عرفاں کی چھانے لکی ہے گھٹا، تابہ عرشِ بریں اک خمار آج ہے
کررہی ہیں ہوائیں بھی اٹھکھیلیاں، مائل رقص ہر میگسار آج ہے
فصل گل آگئی راستے دھل گئے، ہر قدم نت نئے میکدے کھل گئے
جس کو دیکھو وہی آج نشے میں ہے، مست و بےخود ہر اک بادہ خوار آج ہے۔
تشبیب دراصل تمہید ہوتی ہے اور اس کو انھوں نے بہت موثر انداز میں برتا ہے پھر گریز سے ہوتے ہوئے ممدوح کی تعریف و توصیف کرتے ہیں:
یوں تو کہنے کو ہے چٹائی نشیں، دونوں عالم کا لیکن ہے تو ہی امیں
آج تجھ سا نہ کوئی شہنشاہ ہے اور نہ تجھ سا کوئی خاکسار آج ہے
ترے صدقے یہ دنیا، یہ عقبیٰ نبی، ہے تراہی لقب رحمت اللعالمین
تیری امت میں ہوں اس لیے شاہِ دیں اپنی تقدیر پر افتخار آج ہے
اس کے بعد موصوف نے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے سرورِ کائنات سے والہانہ عشق کا اظہار یوں کیا ہے:
ہم کدھر جائیں کوئی بھی رستہ نہیں، کس کو اپنا کہیں کوئی اپنا نہیں
ٹوٹی کشتی ہے، منہ زور سیلاب ہے، اپنا تجھ پہ ہی دارو مدار آج ہے
یہ بے قراری یہ آہ و زاری سکون اس میں [؟]
وفا کی منزل پہ آکے دیکھو سکون کیا ہے، قرار کیا ہے
بھنور میں کشتی پھنسی ہوئی ہے، بس آس تم پر لگی ہوئی ہے
تمھاری چشم کرم ہو آقا تو موجِ ناساز گار کیا ہے
امان اللہ ساغر کے نعتیہ قصائد کا مجموعہ "لبِ اظہار کے پھول" اس پرفتن دور میں ایک اچھی کاوش ہے۔ آج کے اس دور میں جب انسان خود پرستی اور بے معنی شہرت کے پیچھے بھاگ رہا ہے انھوں نے نبی کریم کے صفات کا تذکرہ کرکے اپنے نام ثواب کی ضمانت حاصل کرلی ہے۔ ان کے اشعار میں الجھاؤ یا ابہام نہیں۔ بہت سلیقے سے وہ اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں. ہندستان میں جب قصیدے کی تاریخ لکھی جائے گی تو سودا، ذوق اور محسن کاکوروی جیسے شعرا کے نام کے ساتھ یقیناً امان اللہ ساغر کا نام بھی درج ہوگا ۔ اس بات کا احساس ان کو بھی ہے تبھی تو موصوف یہ کہتے ہیں:
یہ فصاحت نہ تھی یہ بلاغت نہ تھی، اتنی عزت نہ تھی، ایسی شہرت نہ تھی
جب قصیدہ لکھا رب کے محبوب کا، میرا شہرہ ہوا دیکھتے دیکھتے
نعتیہ قصائد کی روایت کو فروغ دینے میں مغربی بنگال کے شہر مٹیا برج کا اہم کردار رہا ہے۔ کیف الاثر، خالد قمر اور اکبر حسین اکبر اس صنف کے کافی مقبول شاعر گزرے ہیں۔ آج بھی اس صنف سے رغبت رکھنے والے شعرا کی یہاں کمی نہیں۔ جو شعرا قصیدہ نگاری کو فروغ دینے میں آج کل اہم کردار ادا کررہے ہیں، ان میں ایک اہم نام امان اللہ ساغر کا بھی ہے۔ ان کے متعلق ڈاکٹر عبدالحلیم انصاری (محمد حلیم) کا کہنا ہے کہ:
"ان کے قصائد میں بندش کی چستی، بیان میں روانی اور صنائع لفظی و معنوی [کی] کار فرمائی ملتی ہے۔"
( بنگال میں نعتیہ قصیدے کی روایت۔ ص۔153)
مجھے امید ہے کہ امان اللہ ساغر کے اس نعتیہ قصائد کے مجموعے کو ادبی حلقوں میں کافی سراہا جائے گا۔ ساتھ ہی بارگاہ خداوندی میں دست بہ دعا ہوں کہ ان کا قلم یوں ہی رواں دواں رہے۔ آمین
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :قیوم بدر : ہر فکر کو دھوئیں میں اڑانے والا شخص

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے