گیا جو ایک شہر ہے۔۔۔۔

گیا جو ایک شہر ہے۔۔۔۔

ٹی ایم ضیاء الحق

ریاست بہار کا ضلع گیا، ایک تاریخی شہر ہے جس کا تذکرہ رامائن اور مہا بھارت‌ میں ملتا ہے۔ سیتا اور لکشمن کے ساتھ ساتھ ان کے والد راجہ دشرتھ پِنڈدان کرنے گیا آئے۔ مہابھارت دور میں اِس شہر کی شناخت گیاپوری کے طور پر کی گئی ہے۔ اِس شہر کو بھگوان وِشنو کا شہر بھی کہا جاتا ہے، جنھوں نے امن کا پیغام دیا۔ بھگوان شری کرشن اور بھگوان شری رام، بھگوان وشنو کے ہی اوتار ہیں.
بودھ مذہب کے لیے بھی یہ شہر بہُت مقدس ہے. اِسی شہر میں بودھ مذہب کے بانی مہاتما بدھ کو پیپل کے درخت کے نیچے عرفان حاصل (گیان پراپت) ہوا، جو بودھ گیا کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں بودھ مذہب کے ماننے والے پوری دنیا سے عقیدت کے ساتھ آتے ہیں۔
اسلام مذہب کی بھی یہاں اشاعت ہوئی۔ شہر گیا کے قلب میں حضرت پیر منصور رحمۃاللہ علیہ، کوتوالی کے سامنے حضرت عثمان شہید رحمۃاللہ علیہ کی درگاہ اور رام ساگر واقع حضرت عطا حسین فانی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ مرجع خلائق ہے جہاں سے دعوت دین کا کام ہوا۔ آج بھی یہ درگاہ اور خانقاہ تمام مذاہب کے لیے عقیدت کا مرکز ہے۔
اس شہر سے کئی ادبی رسالے نکلے جس میں ماہنامہ ندیم، ماہنامہ سہیل جیسے ادبی رسالے شایع ہوئے۔ جن کی اُردو ادب میں اپنی الگ شناخت تھی۔ 1935 میں شائع ہوئے ندیم کا بہار نمبر آج بھی مقبول ہے۔
اردو ادب کے معروف شاعر اور انشائیہ نگار انجم مانپوری، اسلامی تاریخ نویس سید ریاست علی ندوی، اور جوگیشور پرشاد خلشِ، قیس گیاوی، سریر کابری جیسے شاعر کو گیا سے ہی جانا جاتا ہے۔ عصر حاضر میں احمد صغیر، ڈاکٹر عبد الحئی، احسان تابش، سید احمد قادری، عین تابش، سید غفران اشرفی، سید اصدر علی جیسے لوگ اُردو ادب میں اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔ ملک اصغر ہاشمی، سید شہروز قمر، سراج انوار وغیرہ ہندی صحافت میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ کمیونیٹی جرنلزم کی شروعات گیا میں پہلی بار گیا آج تک کے نام سے ویملیندو چیطنیہ نے کی تھی۔ عمران علی اس کمیونیٹی جرنلزم کو ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے گاؤں دیہات کی زندگی کو عوام تک بہار آج کل کے ذریعے پہنچا رہے ہیں، وہیں سید فیض الرحمن صوفی اپنے الگ طرح کی 24X7 گیا واٹس اپ میڈیا چلا رہے ہیں اور شہر کی ہر خبر عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہیں. 
اس شہر نے فلمی دنیا کو بھی کئی اداکار دیے، مشہور اداکارہ نرگس کی پیدائش گیا میں ہوئی، اس کے علاوہ ایم ایم فاروقی جو لی لی پوٹ کے نام سے مشہور ہیں بڑے اسکرین پر کام بھی کر رہے ہیں، اس کے علاوہ کئی ٹی وی سیریل اور فلموں میں اسکرپٹ لکھا۔ گیا شہر کے ہی علی خان بھی ہیں جنھوں نے سرفروش جیسی فلموں میں اپنا کردار نبھایا اور آج بھی بالی ووڈ میں کام کر رہے ہیں. 
گیا ضلع میں اُردو شاعروں کی ایک بزم ہے جِسے بزم راہی کہتے ہیں۔ بزم راہی کی شروعات ایم۔ ایس۔ راہی مرحوم نے کی تھی جو خود بھی ایک شاعر تھے۔ یہ بزم ہر مہینے طرحی مشاعرے کا انعقاد کرتی ہے۔ اب تک 330 ماہامہ طرحی مشاعرے ہو چکے ہیں۔ آج یہ بزم راہی جنابِ غفران اشرفی کی سرپرستی میں چل رہی ہے۔ تیس سال پرانی یہ بزم نئی نسل کے اندر ادب کا ذوق پیدا کرنے میں ایک حد تک کامیاب ہے۔
اس شہر میں اُردو فکشن نگاروں کا ایک مرکز وائٹ ہاؤس کمپاؤنڈ میں رینا ہاؤس ہوا کرتا تھا۔ یہ گھر مشہور فکشن نگار کلام حیدری کا تھا جہاں ہندی اور اُردو کے افسانہ نگار کی نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ کوئی فکشن نگار بہار آئے اور رینا ہاؤس نہیں جائے یہ ممکن نہیں تھا۔ کلام حیدری کے انتقال کے بعد رینا ہاؤس بند ہو گیا، آج وہاں اپارٹمنٹ بن گیا ہے۔
اس شہر میں تین مسلم مینارٹی ہائی اسکول، جس میں ہادی ہاشمی ہائی اسکول، قاسمی ہائی اسکول اور اُردو گرلز ہائی اسکول کے ساتھ ایک قاسمی مڈل اسکول بھی ہے۔ دوسری طرف مسلم مینارٹی پی جی کالج ہے جس کا نام مِرزا غالب کالج ہے۔ اس کے علاوہ کئی مدارس ہیں جس میں مدرسہ قاسمیہ اور مدرسہ انوار علوم آزادی سے قبل کے مدارس ہیں۔
اس شہر میں ریاست بہار کا پہلا کتب خانہ ہے جسے پبلک لائبریری بھی کہتے ہیں، جو گاندھی میدان کے نزدیک ہے. اس کی شروعات 1855ء میں اس وقت کے لیفٹیننٹ جنرل جیمس ہلڈی نے کی تھی۔ اس کے علاوہ بھی ایک اُردو لائبریری کٹھوکر تالاب میں ہوا کرتی تھی جو اب ناپید ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ آج شہر میں کئی پرائیویٹ لائبریری ہیں، جسے محلہ کے نوجوان چلاتے ہیں۔ جیسے کریم گنج کی یوتھ یونیٹی لائبریری، جو محمد شمیم کی زیرِ نگرانی عمدگی سے چل رہی ہے۔
1994 میں ایک یوتھ لائبریری گیا کے محلہ نیو کریم گنج میں کُھلی۔ اِس کی شروعات محلہ کے نوجوانوں نے کی۔ اس لائبریری کی شروعات سید محمد متین الدین، اعجاز سلطان، افروز عالم (ببلو)، طارق حسن، معراج نظامی، رشاد خان، شاہ فیصل، نوشاد اصدق، مرحوم آفتاب بھائی، شکیل احمدانصاری، تنویر احمد ( بوبی بھائی)، منّا بھائی، زین العابدین، ضیاء الحق، اختر سلطان، فیصل رحمانی، سید راغب وغیرہ نے ایک کرایہ کے مکان سے کی۔ لائبریری کے بانیان کے علاوہ محلہ کے کئی نوجوانوں کو سرکاری نوکری ملی۔ چند کے نام تو آج بھی ہمارے ذہن میں ہیں۔ محمد داؤد ریزرو بینک آف انڈیا، زین العابدین ٹیچر، فرید احمد پروفیسر، اقبال حسین ٹیچر، سید سرفراز صاحب بی۔ ڈی۔ او۔ شامل ہیں۔ وقت گزرتا گیا لائبریری کے بانیان سب اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے جو نئی نسل آئی وہ موبائل میں غرق ہو گئی۔ اور اس طرح ایک کامیاب لائبریری بند ہو گئی۔
جس طرح گیا شہر کے کن ہائی سؤ کی  جڑی بوٹی کی قدیمی دوکان ملک بھر کے حکیم کو اپنی طرف کھنچتی ہے وہیں اندرسے تِلکوٹ کی سوندھی خوشبو پوری دنیا میں پھیل رہی ہے، لوگوں کو اپنی طرف بلا رہی ہے. اسی طرح نئی نسل کو موبائل سے ہٹا کر سماج کو بہتر بنانے اور کتابوں کو اپنا وقت دے کر پڑھنے کا ماحول بنانا ہوگا۔ ورنہ یہ نئی پود علم تو رکھے گی مگر پڑھنے سے بے بہرہ ہو جائے گی۔
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:نئے دھان کا رنگ : ناول بھی حقیقت بھی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے