کتاب : اس شہر میں (تین رودادی ناولٹ)

کتاب : اس شہر میں (تین رودادی ناولٹ)

مصنف : غیاث الرحمٰن سید
قیمت : 300
صفحات : 176
سنہ اشاعت : 2023ء
ناشر : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، انصاری روڈ، دریا گنج، نئی دہلی، 110002
مبصر : محمد اشرف یاسین، ریسرچ اسکالر، دہلی یونیورسٹی، نئی دہلی

اُردو ادب میں "رودادی فکشن" کی اصطلاح میرے لیے بالکل نئی اور انکشافی نوعیت کی جدید ترین صنف ہے۔ غیاث الرحمٰن سید کے بہ قول انگریزی میں اسے Delineation Literature (رودادی ادب) کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ صنف انگلش میں بہت مقبول ہے۔ اُردو ادب میں یہ صنف خاکے اور شخصی افسانے و ناول سے خاص مماثلت رکھتی ہے۔ روداد (سچائی اور حقیقت) کو فکشن (سچائی اور حقیقت جیسے) کا پیراہن عطا کرنے والا بیانیہ "رودادی فکشن" کہلاتا ہے۔ کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے کے بعد مجھے اس صنف کو "رودادی فکشن" کہنے میں تأمل ہے، ہاں ! ہم ان تینوں کو "رودادی ناولٹ" کے بجائے "شخصی مضمون” یا "آپ بیتی” کے زمرے میں بہ آسانی شامل کرسکتے ہیں۔
زیرِ نظر کتاب "اس شہر میں" تین رودادی ناولٹ پر مشتمل ہے۔ تینوں کے عنوانات بالترتیب اس طرح ہیں۔ (1) "عینی آپا" یعنی قرۃ العین حیدر (1927ء 2007ء)، (2) "قاضی صاحب" سے مراد اُردو زبان و ادب کے مشہور تخلیق کار اور تاریخی ناول نگار "قاضی عبدالستار" (1933ء – 2018ء) ہیں۔ تاہم "لیلیٰ کے خطوط” اور "مجنوں کی ڈائری” جیسی کتابوں کے لیے "قاضی عبدالغفار" (1889ء – 1956ء) بھی خاصے مشہور ہیں۔ حسنِ اتفاق کہ دونوں ہی قاضی صاحبان علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے فیض یافتہ ہیں۔ (3) اس شہر میں {ممبئی}، اس کتاب کے مصنف جناب غیاث الرحمٰن سید ایک منجھے ہوئے فکشن رائٹر ہیں۔ اس سے پہلے بھی اردو اور ہندی میں ان کی آٹھ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ جن میں ایک افسانوی مجموعہ (وہ دن) اور اور ایک ناول (ڈھولی دگڑو ڈوم) شامل ہے۔
غیاث الرحمٰن سید کا اندازِ تحریر نہایت ہی عمدہ اور لائق تعریف ہے۔ "عینی آپا" نامی ناولٹ کے مطالعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ مصنف کی ثانوی تعلیم سے لے کر اعلا تعلیم تک کی مکمل پڑھائی سب کچھ علی گڑھ ہی سے ہے۔ 1970ء کے وسط ہی میں قیصر نقوی نے انھیں اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا اور یہ بھی ان کے گھر میں سید فرحت، عذرا نقوی، آصف نقوی، محترمہ انجم، عارف نقوی اور مسعود نقوی سمیت سبھی افرادِ خانہ سے خوب اچھی طرح سے گھل مل گئے۔ اسی زمانے میں دہلی میں اپنے عارضی قیام کے دوران مصنف کی ملاقات ڈاکٹر سید عابد حسین، صالحہ عابد حسین، ڈاکٹر صغریٰ مہدی اور اقبال مہدی سے بھی رہی۔ اس ناولٹ میں مصنف نے رضا امام، امیر عارفی، شہر یار، جنیدی، ہدایت محسنی، خلیل الرحمٰن اعظمی، نعیمہ جعفری پاشا، قاضی عبدالستار، وحید اختر، ایاز انصاری، ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی، قیصر زیدی، زویا زیدی، صبا زیدی، کرنل بشیر حسین زیدی، پروفیسر محمد مجیب، پروفیسر خورشید الاسلام، خواجہ احمد عباس، رشید احمد صدیقی، عصمت چغتائی، طارق چھتاری، سید محمد اشرف، ڈاکٹر ثریا حسین، سید شاہد مہدی، مشیر الحسن، انتظار حسین، کشور ناہید جیسی کئی شخصیات کے متعلق اپنی یاد داشت لکھی ہے۔ جس میں اختر انصاری، غلام ربانی تاباں، آل احمد سرور، علی گڑھ کے مشہور شیعہ عالم دین مولانا نقی علی اور قرۃ العین حیدر کے شخصی پیکر کا قلمی نقوش بہت شان دار اور نمایاں ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ قرۃ العین حیدر کا سراپا پیش کرتے ہوئے اس انداز میں ان کا نقشہ کھینچا ہے: "آنکھوں پر خوب صورت چوڑے شیشوں کی عینک، کشادہ پیشانی، ترشے ہوئے گیسو، گلے کے گرد لپٹا ہوا دوپٹہ، سفید لباس جس پر ہلکے گلابی رنگ کے چھوٹے چھوٹے سے پھول، چہرے پر بلا کی معصومیت کے ساتھ غضب کا پُر وقار رعب، مقناطیسی قوت کا مجسمہ۔ پہلی نظر میں مجھے یوں لگا جیسے چاند سے اثری ہوئی کوئی پری ہو۔"
اس ناولٹ کے ذریعے غیاث الرحمٰن سید نے ہمیں ایک ایسی قرۃ العین حیدر سے متعارف کرایا ہے، جو اردو، عربی، فارسی اور انگریزی کتابوں کی دل دادہ تھیں۔ مصنف کو غیر ملکی زبانوں سے جرمن، روسی، فارسی، انگریزی اور فرانسیسی وغیرہ کے تراجم پڑھنے کے لیے دیتی تھیں۔ یہ نہایت ہی وضع دار، نفاست پسند، شریف النفس، صوم و صلواۃ کی پابند، نازک مزاج اور خطر ناک حد تک غصہ ور، غریب، مسکین اور اپنے عہد کے مفلوک الحال تخلیق کاروں کی مستقل کفیل تھیں۔ یہ چوالیس صفحات پر محیط ہے۔
کتاب میں شامل دوسرا عنوان "قاضی صاحب" ہے۔ یہ سب سے مختصر ناولٹ ہے۔ اس کی ضخامت تیس صفحات کی ہے۔ جسے میں نے ایک ہی نششت میں مکمل پڑھ لیا تھا۔ شخصی تعلقات و معاملات پر مبنی یہ بہت ہی دل چسپ طرزِ تحریر ہے۔ جسے پڑھنے سے نہ صرف قاضی عبدالستار بلکہ پروفیسر خورشید الاسلام، ابوالکلام قاسمی، طارق چھتاری، شارق ادیب (مظفر سید)، مجروح سلطان پوری، راہی معصوم رضا، کیف بھوپالی، پانڈو رنگ دیش مکھ، منظور ہاشمی، نفیس غازی پوری اور خود مصنف غیاث الرحمٰن سید کی زندگیوں کے کئی ان کہے، گم نام اور پوشیدہ گوشوں کا ہمیں علم ہوتا ہے۔ اس ناولٹ میں ابن کنول، سید محمد اشرف، محمد رفیع، کملیشور، آشفتہ چنگیزی، اسعد بدایونی، علی امیر، نسیم صدیقی، سرفراز ہادی، نعمان، انعام الحق، دلیپ کمار، ندا فاضلی اور شمیم خان کا تذکرہ سرسری اور ضمنی ہوتے بھی بہت اہم ہے۔
کتاب کا تیسرا ناولٹ "اس شہر میں ہے۔۔۔"، یہ بانوے صفحات تک پھیلا ہوا ہے۔ اس حصے میں مصنف نے ممبئی شہر سے متعلق اپنے اسفار، فلمی دنیا میں اسکرپٹ رائٹر کی اپنی جد و جہد، اس شہر سے وابستہ اپنی مکمل یاد داشت کو بہت تفصیل سے درج کیا ہے۔ اس ناولٹ کا سب سے دل چسپ حصہ ایک ہجڑے (سنجیدہ) کی روداد ہے۔ اُردو فکشن میں تیسری جنس یا LGBTQ پر کم ہی گفتگو کی گئی بے۔ میرے علم میں ایسے صرف دو ناول باضابطہ اُردو میں لکھے گئے ہیں۔ "اس نے کہا تھا : اشعر نجمی"(اس میں ایل جی بی ٹی اور تیسری جنس کے درجنوں کردار ہیں) اور "سوا نیزے پر سورج: اکرام اللّٰه" اور دو ناول دوسری زبانوں سے اُردو میں منتقل کیے گئے ہیں۔ ارُندھتی رائے (Arundhati Roy) کا معروف ناول "The Ministry of Utmost Happiness" کا ترجمہ ارجمند آرا نے "بے پناہ شادمانی کی مملکت" کے نام سے کیا ہے۔ (اس کا ایک کردار انجم بھی ٹرانس جینڈر ہے) اور چترا مگل کے ہندی ناول "پوسٹ باکس نمبر 203، نالا سوپارہ" کا اردو ترجمہ احسن ایوبی نے کیا ہے۔ (اس میں ٹرانس جینڈر کے مصائب و مسائل اور داستانِ الم پر گفتگو کی گئی ہے۔) اس موضوع پر رسالہ "اثبات" کا خصوصی شمارہ، کتابی سلسلہ 31، "وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے"، "اپنے جیسے لوگوں سے انسیت کے بارے میں" بھی ہے۔ حالیہ دنوں میں دہلی کے نایاب بکس سے شائع ہونے والے اشعر نجمی کے نئے افسانوی مجموعے "گمشده خوابوں کی ایک رپورٹ" کے "تھوڑا سا مضبوط" جیسے افسانوں میں بھی تیسری جنس کی جھلک موجود ہے۔
غیاث الرحمٰن سید نے سنجیدہ اور اس کی والدہ شائستہ سمیت اس کے والد اور ماموں وغیرہ کے بارے میں لکھتے ہوئے سنجیدہ اور سکندر کے لیو ان ریلیشن شپ پر بھی گفتگو کی ہے۔ سنجیدہ عرف سجو اور کملا کی زبانی تیسری جنس میں شمولیت اختیار کرنے اور ان کی تجہیز و تکفین کی رسوم و رواج کا بھی بیان ہے، جو ہم قارئین کے لیے یقیناً بہت دل چسپ معلومات ہے۔ کیوں کہ تیسری جنس کے رہن سہن اور اندرون خانہ ان کے رسم و رواج کے بارے میں ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے۔
مصنف نے دوسرے حصے کی طرح تیسرے میں بھی کچھ لوگوں کے قلمی خاکے پیش کیے ہیں۔ جن میں سلمیٰ صدیقی، سجو باجی (سنجیدہ)، دھرمیندر، آشا پاریکھ اور دلیپ کمار وغیرہ کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ تیسرے ناولٹ میں سنجیدہ کے متعلق روداد زیادہ ہے۔ تبصرے کی طوالت سے بچنے کے لیے میں کتاب سے سنجیدہ کا صرف ایک اقتباس نقل کرنا چاہتا ہوں، تاکہ قارئین کو بھی تیسری جنس میں پائی جانی والی ایک نیکو کار خاتون کی دین داری کا علم ہوسکے، کیوں کہ یہ دین داری ایک حافظ قرآن باپ اور اسلامی تربیت کی پروردہ ماں (شائستہ) کی بہترین تربیت کا نتیجہ ہے۔
"اللّٰه نے ہجڑوں کو بڑا پاک صاف پیدا کیا ہے، انھیں ہر نجاست و غلاظت سے دور رکھا ہے، لیکن خود ہجڑے اس گندگی میں مبتلا رہتے ہیں۔ گناہوں کے جنجال میں پھنسے رہتے ہیں، جب کہ قدرتی طور پر وہ بہت پاک ہیں۔ نہ انھیں عورتوں کی طرح ہر ماہ چار پانچ دن نجاست و اذیت کے گزار نے پڑتے ہیں، نہ مردوں کی طرح ہر وقت جنسی خواہشات و جذبات میں گھرے رہ کر خوابوں میں اپنے پاجامے گندے کرنے پڑتے ہیں۔ ہمارے پیر و مرشد ہمیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ نیکیاں کرتے رہو، صلے کی پروا نہ کرو۔ تم اللّٰه کے بندوں پر شفقت کرو، اللّٰه تم پر رحم کرے گا۔ ۔ ۔“
(صفحہ نمبر : 159)
دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب میں مصنف نے قیصر نقوی، رضا امام، اور امیر عارضی جیسے اپنے کئی محسنین کے ساتھ ساتھ اس میں اپنے معاونین نور جہاں (ساجدہ زیدی کی نوکرانی)، مہرو (سنجیدہ کی نوکرانی) اور ہاردون (مہرو کا بیٹا) کو بھی برابر جگہ دی ہے اور کسی کو فراموش نہیں کیا ہے۔ اس سے مصنف کی احسان شناسی اور دیانت داری کا علم ہوتا ہے۔ ادب اور فلموں سے دل چسپی رکھنے والے قارئین کے لیے یہ کتاب یکساں مفید ہے۔ کتاب کی طباعت، ہارڈ بینڈنگ اور عمدہ سرورق یقیناً قارئین کو پسند آئے گا۔ اس نئی صنف سے ہم اردو قارئین کو متعارف کرانے کے لیے میری طرف سے جناب غیاث الرحمٰن سید کو ڈھیروں مبارک باد.
***
اشرف یاسین کی گذشتہ نگارش : کتاب: مجسموں کا شہر (افسانوی مجموعہ)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے