عید میلاد النبی ﷺ: خاتم الانبیاء کے مقامِ اقدس کا ادراک و اعتراف بھی ضروری

عید میلاد النبی ﷺ: خاتم الانبیاء کے مقامِ اقدس کا ادراک و اعتراف بھی ضروری

عبدالرحمٰن
(سابق چیف مینیجر، الہ آباد بینک)
دہلی- این سی آر
Email: rahman20645@gmail.com

اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی سورۃ الاحزاب(33) کی آیت نمبر 56 میں ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا۔
یعنی، اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو، تم بھی اس پر درود وسلام بھیجو۔ (ترجمہ بہ حوالہ: تذکیر القرآن)
مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ کا جو مطلب عمومی طور پر تعلیم یافتہ مسلمانوں کے علمی حلقے میں سمجھا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے فرشتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔
یہاں تفکیری (سوچنے کا عمل) صلاحیت رکھنے والے افراد کو یہ بات سمجھنے میں تردد (پس و پیش) ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود بھی اپنے رسول پر درود بھیجتا ہے اور اپنے بندوں کو بھی ان پر درود بھیجنے کی تاکید کرتا ہے، یعنی خالق اور مخلوق ایک ہی سطح پر کیسے آسکتے ہیں؟
سب سے پہلے تذبذب (کنفیوژن) کی اس کیفیت کا ختم ہونا نہایت ضروری ہے۔ دراصل لفظ درود عربی لفظ صلوٰۃ کا ترجمہ ہے جس کے معنی ہوتے ہیں رحمت اور طلبِ رحمت، یعنی رحمت کی دعا؛ جب کہ مختلف دعاؤں کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے، خود نماز بھی صلوٰۃ کا ہی ایک معنی ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے درود کا لفظ اللہ تعالیٰ کی نسبت سے استعمال کیا جاتا ہے تب اس کا مطلب ہوتا ہے: اللہ کی رحمت کا صدور، اور جب لفظِ درود کو اللہ کے بندوں کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے تب اس کا مطلب ہوجاتا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اللہ تعالیٰ سے رحمت طلب کرنے کی دعا۔ مزید اللہ رب العزت کی جانب سے عطا کردہ دین و دنیا میں ہر قسم کی بخشش و سلامتی، حفاظت و برکت، شفقت و مہربانی، تائید و نصرت، عزت و سر بلندی، فتح و کامرانی اور تمام دوسری ربانی عنایات رحمتِ خداوندی میں شامل ہیں۔
علاوہ ازیں جناب (پروفیسر) مشرف حسین صاحب (بھوپال) کی فراہم کردہ رہ نمائی کی روشنی میں، یہاں درود و سلام کی حقیقت کو مزید آسان اسلوب میں سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دراصل درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنے، یعنی اللہ تعالیٰ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رحمت و سلامتی کی تمنا کرنے کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی زبان سے درود و سلام ادا کرنے کے ساتھ ساتھ، ان کے عظیم اخلاق و کردار کو بھی اپنی زندگی میں داخل کریں اور ان کے سچے امتی ہونے کا ثبوت دیں۔ یہ مسلمانوں کی ہی ذمے داری ہے کہ وہ خود صالح زندگی جینے کا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے دنیا بھر کے انسانوں پر واضح کریں کہ حقیقت میں اعلا اخلاقیات کیا ہوتی ہیں۔ ختمِ نبوت کے باوجود، کار نبوت یعنی دعوت الی اللہ کا بنیادی کام ابھی باقی ہے۔ دعوت و تبلیغ اور نصیحت و رہ نمائی کا پیغمبرانہ مِشن انسانیت عامہ کی ہدایت کے لیے قیامت تک جاری رہے گا۔ اس مشن کو نہ صرف جاری و ساری رکھنے، بلکہ صحیح معنی میں قرآنی دعوت کا حق ادا کر دینے کے لیے ایمان والوں، یعنی مسلمانوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابِ ہدایت، یعنی قرآن مجید میں دنیا کی رونقیں، زندگی اور موت، قیامت اور آخرت کی حقیقت کو غیر مبہم اسلوب میں واضح کردیا گیا ہے اور خدائی منصوبہ تخلیق (Creation Plan of God) سے مکمل آگاہی فراہم کردی گئی ہے۔ انسانوں اور دیگر مخلوقات، یعنی کائنات کو تخلیق کرنے کے پس منظر میں اللہ تعالیٰ کی مصلحت اور پلاننگ سے دنیا کے ہر انسان کو واقف کرادینا ہی دراصل، دعوت الی اللہ کہلاتا ہے۔ انذار و تبشیر (خبر دار کرنا اور خوش خبری سنانا) کے نام سے معروف دعوت الی اللہ نہ صرف حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، بلکہ سبھی پیغمبروں کا مشترکہ مشن رہا ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے درود و سلام پڑھنا بارگاہ رب العزت میں اسی وقت قابل قبول ہوسکتا ہے جب مسلمان عملی طور پر بھی اس کے مصداق بنیں۔
درود و سلام کا حق ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان معاشرے کی زبان میں، قرآن پاک کے مطالعہ کو اپنے بچوں اور نوجوانوں کے درمیان عام کریں۔ اس کے علاوہ نیک نیتی اور دل و جان کی آمادگی کے ساتھ اپنے مخَاطبین کی قابل فہم زبان میں قرآنی تراجم کو حتی المقدور، سبھی انسانوں تک پہنچانے کا پختہ ارادہ کریں اور اس پر عمل پیرا بھی ہو جائیں۔ ہمارا ہدف وہ حدیث شریف ہونی چاہیے جس کا مفہوم ہے کہ قیامت واقع ہونے سے پہلے اسلام کا کلمہ، یعنی قرآن مجید ہر چھوٹے بڑے گھر میں داخل ہو جائے گا۔ اس راستے میں ہمیں کسی کے ایمان و اسلام کے درپے ہونے کی ضرورت نہیں، انسانوں کو ہدایت عطا کرنا صرف اور صرف اللہ حاکم الحاکمین کا اختیار ہے۔
ماہِ ربیع الاول کے حوالے سے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں مزید بات کرنے سے قبل یہ بلاشبہ، ایک موزوں و مبارک عمل ہو گا کہ درود و سلام کا نذرانہ پیش کیا جائے۔
درود شریف
ٱللَّٰهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۰
ٱللَّٰهُمَّ بَارِكْ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.
سلام
مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
ہم غریبوں کے آقا پہ بے حد درود
ہم فقیروں کی ثروت پہ لاکھوں سلام
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
قمری کیلینڈر کا تیسرا مہینہ، یعنی ربیع الاول اللہ تعالیٰ کے رسول رحمت اللعالمین اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعید کا مبارک مہینہ ہے۔ برصغیر ہند و پاک میں ہی نہیں، دنیا بھر میں بیشتر مسلمان 12ربیع الاول کے دن کو عید میلاد النبی(ﷺ)، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت کو پُر تکلف جشن اور رنگ بِرنگی جلوس کی صورت میں مناتے ہیں، گویا آج کی زبان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہیپی برتھ ڈے (Happy Birthday) منایا جاتا ہے۔ امسال ہندستان میں 12 ربیع الاول (1445 ہجری) مطابق 28 ستمبر 2023 عیسوی (بروز جمعرات) یعنی عید میلاد النبی منائی جارہی ہے۔ زیر نظر مضمون میں یہ سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عام انسانوں کی طرز پر رحمت اللعالمین جیسی ارفع و اعلا عظیم شخصیت کا جنم دن منانا بھی کیا کوئی قابل تحسین فعل ہے؟
معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں غالباً دنیا کے سبھی مسلمانوں نے خاموش اتفاق رائے سے 12 ربیع الاول کی تاریخ کو ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت (میلاد) کے طور پر قبول کرلیا ہے اور پھر اسی مناسبت سے عید میلاد النبی(ﷺ) کی صورت میں جشن منانے کا سلسلہ رائج ہوگیا ہے؛ جب کہ سیرت کی کتابوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم پیدائش کے طور پر درج متعدد تاریخوں کے درمیان 9 ربیع الاول کو ترجیحی مقام حاصل ہے۔ اس کے برعکس، اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ ربیع الاول میں اور پیر کے دن پیدا ہوئے تھے، جب کہ آپ کی وفات کی تاریخ 12 ربیع الاول ہے، گویا مسلمانوں نے اپنی ثقافتی سرگرمیوں (cultural festivities) کے زیر اثر، وفات کی تاریخ کو ولادت کی تاریخ میں مبدل کر کے گویا جشن منانے کی وجہ دریافت کرلی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نصف صدی قبل ہمارے بچپن میں 12 ربیع الاول کے دن اسکولوں کی چھٹی عید میلاد النبی کے نام سے نہیں، بارہ وفات کے نام سے ہوا کرتی تھی۔
آج کل مسلم معاشرے میں 12 ربیع الاول کے دن چاروں طرف گویا عید کا ماحول نظر آتا ہے۔ حالاں کہ اسلام میں صرف دو ہی مذہبی تیوہار ہیں، یعنی عید الفطر (میٹھی عید) اور عید الاضحیٰ (بقرہ عید)، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلم ثقافت اور رسم و رواج نے میلاد النبی (Birthday of the Prophet) کو بھی عید میلاد النبی کے طور پر منانے کے لیے کم و بیش تیسرے اسلامی تیوہار کا درجہ عنایت کردیا ہے۔ تقریباً ہر ملک کے مسلمان اس موقع کو غیر معمولی جوش و خروش اور عید (جشن) کی صورت میں مناتے ہیں۔ اپنے ملک ہندستان کے تقریباً سبھی شہروں اور قصبوں میں بھی بڑے پیمانے پر جشن میلاد النبی اور جلوسِ محمدی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
ماہِ ربیع الاول مسلم معاشرے کے علمی حلقوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور درود و سلام کی کثرت کا مہینہ ہے۔ جگہ جگہ سیرت کے جلسے اور جلوس، دینی موضوعات پر وعظ و تقاریر، نعت خوانی اور درود و سلام کی الگ الگ نوعیت کی مجالس آراستہ کی جاتی ہیں اور مختلف قسم کی رنگارنگ تقریبات کا انعقاد۔ گو کہ خوشی کے موقع پر مگر مہذب دائرے میں، مذکورہ قسم کے تمام مشمولات کا اہتمام کوئی معیوب فعل نہیں ہے۔ لیکن اس طرح کی مشغولیت کو دین اسلام کا کوئی حکم تصور کرنا یقیناً درست نہیں۔ پڑھے لکھے اور سنجیدہ شخصیت کے حامل افراد یہ فرق ضرور سمجھ سکتے ہیں مگر ہر سال باقاعدگی سے دہرائے جانے والے اس عمل کو سادہ لوح عوام دین کے ایک اہم فریضے کے طور پر ہی دیکھتے ہیں اور اسی لیے متعلقہ جلوس وغیرہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ہو بھی کیوں نہیں خود علماے کرام کی بڑی تعداد اِن افعال کی بالواسطہ یا براہ راست تائید کرتی ہوئی جو نظر آجاتی ہے۔
جب ایک عام انسان کسی عالم کو جلوسِ محمدی کی رہبری کرتے ہوئے دیکھتا ہے تب وہ پوری طرح مطمئن ہو جاتا ہے کہ یہ سارا دھوم دھڑاکا بھی مسلمانوں کی مذہبی ضرورت ہے۔ اس موجودہ صورت حال کو دیکھ کر علماے دین کو تشویش لاحق ہونی چاہیے، کیوں کہ دین کو معاشرتی ملاوٹوں سے پاک رکھنے کی سعی اور سبھی خاص و عام اشخاص کو صراط مستقیم کی جانب رہ نمائی فراہم کرتے رہنا بھی ان کی بنیادی ذمے داریوں میں شامل ہے۔ اس حقیقت میں بھی کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا خود اللہ تعالیٰ کا حکم ہے(سورۃ الاحزاب)، مگر اس عمل کے لیے جلسوں اور جلوس کو وجود بخشنا اور مختلف محفل و مجالس سجانا مذکورہ حکم کا حصہ نہیں۔ اپنی ثقافت اور تہذیب کے عوامل کے طور پر البتہ یہ سارے کام کیے جاسکتے ہیں، بشرطیکہ معاشرے میں شائستگی، شگفتگی اور امن و امان کی فضا باقی رہے۔
اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ حِسِ جمالیات اور زیب و زینت کے فطری داعیات کے زیر اثر، موقع و محل کی مناسبت سے اور مختلف شکل و صورت میں خود سجنا سنورنا اور جشن و تقاریب وغیرہ منعقد کرنا انسان کو ہمیشہ سے مرغوب رہا ہے۔ وقتاً فوقتاً انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر اس کا ظہور بھی ہوتا رہتا ہے۔ جنم دن کے ساتھ ساتھ مختلف ایام کے مواقع پر جشن منانا بھی اسی میں شامل ہے۔ خود ہمارے اپنے ملک ہندستان میں اجتماعی سطح پر یومِ آزادی(15 اگست) اور یومِ جمہوریہ(26 جنوری) جیسے سالانہ قومی تیوہاروں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ بابائے قوم مہاتما گاندھی اور ملک و ملت کے دوسرے قائدین اور بڑی شخصیات کی یومِ پیدائش (Birthday) منانے کی روایت موجود ہے۔ گاندھی جی کی یومِ پیدائش (2 اکتوبر) گاندھی جینتی کے نام سے منائی جاتی ہے۔ اسی طرح قوم کے دوسرے بڑے لوگوں کے جنم دن کی تاریخوں کی فہرست بھی ہمیشہ گردش (circulation) میں بنی رہتی ہے۔
ماضی کے ہمارے کتنے ہی قومی قائدین کے ساتھ عزت و تکریم کا سلسلہ بنائے رکھنے کے لیے ان کی تاریخِ پیدائش کو اسکول کالج اور دفاتر میں ہونے والی چھٹیوں کی فہرست میں شامل کردیا گیا ہے۔ یہ سبھی جشن میلاد منانے کے مختلف طریقے ہیں۔
ہر سال جنم دن منانے کا سلسلہ قوم و ملت کے اکابرین تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بچے اور بڑے دونوں کے برتھ ڈے منانے کی رسم تقریباً ہر چھوٹے بڑے گھر میں داخل ہوگئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک مسلمانوں کے گھروں میں کسی کا برتھ ڈے منانے کا رواج نہیں تھا مگر آج صورت حال بدل گئی ہے۔ اب مذہبی تفریق کے بغیر سبھی افراد اپنا جنم دن مناتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ لوگوں کا ہر سال اپنی اقتصادی حیثیت کے مطابق شان دار طریقے سے یومِ پیدائش منانا ان کی ناگزیر ضروریات میں شامل ہو گیا ہے، یعنی برتھ ڈے منانا ایک عموم کی چیز (common or general practice) ہو کر رہ گیا ہے، گویا وقت کے ساتھ ساتھ انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں یومِ پیدائش کا جشن منانا معاشرے کا ضروری رواج بن گیا ہے۔
جوش و خروش کے ساتھ برتھ ڈے منانے کی تقریبات کے پس منظر میں مسلمانوں نے بھی عید میلاد النبی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے مبارک اور متعین دن (12ربیع الاول) کو ایک قومی تیوہار کے جشن کی صورت میں دانستہ یا نادانستہ طور پر منانا شروع کردیا ہے۔ یہ سلسلہ چل نکلا اور سال در سال اس کی جہت و ہیت (dimensions and structure) میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس ضمن میں عجیب و غریب بات یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں شاید ہی کوئی یہ سوچتا ہو کہ جس طرح ہم سب اپنا یومِ پیدائش مناتے ہیں کیا اسی نہج پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ پیدائش منانا مناسب عمل ہے؟
عید میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جشن و جلوس کا اہتمام غور و فکر کے بعد بنائی گئی کسی حکمت عملی کا نتیجہ تو نظر نہیں آتا، البتہ یہ سارا معاملہ مسلمانوں کے ردعمل کی نفسیات سے ضرور متاثر محسوس ہوتا ہے۔ جس طرح دنیا میں قومی قائدین اور مذہبی پیشواؤں کے جنم دن بڑی شان و شوکت سے منائے جاتے ہیں، اسی طرز پر مسلمانوں کو بھی اپنے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ پیدائش سے وابستہ جشن و جلوس میں کچھ معیوب نظر نہیں آیا۔
ایسا لگتا ہے کہ معاشرے میں شائع و ذائع امام احمد رضا خاں صاحب(مرحوم) بریلوی کی مشہور و معروف نعت:
سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبیؐ
سب سے بالا و والا ہمارا نبیؐ
کو مسلمان خود ہی بھول گئے ہیں۔ شاید اسی لیے ان کو یہ ادراک بھی نہیں رہا کہ کیا ہمارا کوئی بھی جشن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند و بالا مقام سے مطابقت رکھ سکتا ہے؟
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ کہاں ہم اور کہاں خاتم الانبیاء، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اقدس۔ کم ازکم ان کے امتی ہونے کی وجہ سے ہی سہی ہمیں ان کے مراتب کا ادراک ہونا چاہیے۔ انسان ہونے کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر اور آخری رسول ہیں، یعنی ہم جیسے انسانوں سے ان کا کیا موازنہ۔
غیر مسلم محققین نے بھی ان کی عظمت اور غیر معمولی حیثیت کا اعتراف کیا ہے۔
امریکی محقق، مائکل ایچ ہارٹ (Michael H. Hart) نے دی ہنڈریڈ (The 100) نام سے ایک کتاب تیار کی ہے جس میں ایسی سو عظیم شخصیات کا احاطہ کیا گیا ہے جنھوں نے تاریخ اور دنیا کے نظام کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ کتاب میں جس شخصیت کو سر فہرست جگہ دی گئی ہے وہ ہیں حضرت محمد مصطفیٰ(صلی اللہ علیہ وسلم)۔
اس حقیقت کے پیش نظر عید میلاد النبی کا سالانہ اہتمام مسلم تہذیب و ثقافت (civilization) کا وہ ظاہرہ ہے جو گہری غور و فکر اور سنجیدگی کے ساتھ نظر ثانی کا تقاضا کرتا ہے۔ عام طور پر جلوس (processions) وغیرہ کی کوئی افادیت نہیں، بلکہ نتیجے کے اعتبار سے یہ اکثر مضر ثابت ہوتے ہیں، کیوں کہ جہاں بھیڑ (crowd) کا بول بالا ہوتا ہے وہاں اکثر اصول و ضوابط مفلوج ہو کر رہ جاتے ہیں۔ علم سے محروم بھیڑ کے توسط سے بہ ظاہر رحمت اللعالمین(ﷺ) کی رحمت کےمتعدد پہلوؤں کو آشکار کرنے کے لیے نکالا گیا جلوس الٹے زحمت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
یہاں مزید قابل غور و خوض بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہمارے خیال و گمان کی حد سے بھی زیادہ اعلا اور ارفع ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ نے نہ صرف منصبِ رسالت کے لیے انتخاب فرمایا، بلکہ خاتم الانبیاء کی انفرادی حیثیت بھی عنایت کی۔ اعلا اخلاق (خُلُق عظیم) کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت اللعالمین کا شرف بھی عطا کیا گیا۔ یوم ولادت کی کسی سالانہ رسم کے بجائے، اللہ تعالیٰ نے قیامت کے وقوع پذیر ہونے تک دنیا میں آپ کے ذکر کو بلند رکھنے کے لیے زبردست اہتمام کیا ہے۔ اذان کی شکل میں دن میں پانچ مرتبہ مساجد کے میناروں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہونے کی گواہی بلند کی جاتی ہے۔
ہر اذان کے بعد مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنے پروردگار سے مقام محمود سے مشرف کرنے کی دعا کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، ہر نماز میں تشہد کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سلام اور درود شریف کا نذرانہ پیش کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و عظمت کو مزید بلند کرنے والے ان سارے انتظامات کے علاوہ ایک عظیم اور سب سے بڑا بندوبست اور کیا گیا ہے، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت بھیجنے کی ذمے داری خود اللہ تعالیٰ نے لے لی ہے۔ جس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ قیامت کے دوران بھی جاری رہے گا، کیوں کہ اللہ کی ذات پاک ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔
درود و سلام سے متعلق قرآنی پیغام میں واضح رہ نمائی موجود ہے کہ مسلمانوں کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔ سال میں ایک بار عید میلاد النبی کے طور پر جشن اور جلسہ و جلوس کا اہتمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اقدس کے شایان شان نہیں ہے۔ صرف وہی کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان سے مطابقت رکھ سکتا ہے جس کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دیا ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا، ان کی اخلاقیات کو علمی اور عملی طور پر اپنی زندگی میں داخل کرنا اور ختم نبوت کے فرائض جو امت کے سپرد کیے گئے ہیں، ان کو خیر و خوبی کے ساتھ ادا کرنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ آپ اپنے یوم پیدائش کی خوشی میں پیر کے دن روزہ رکھنے کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ مسلمان بھی ماہِ ربیع الاول کے سبھی پیر کے دنوں میں روزہ رکھنے کا اہتمام کرسکتے ہیں۔ اس مبارک مہینے کے دوران دعوت الی اللہ کے طور پر مختلف زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم تقسیم کرنا بھی نسبتاً ایک صالح اور مبارک فعل ہوگا۔
یہاں تک آتے آتے، یہ اچھی طرح واضح ہو جانا چاہیے کہ مسلمانوں کے آقا، رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم سال میں ایک مرتبہ یاد کی جانے والی کوئی ہماشما (all and sundry) شخصیت نہیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم درود و سلام کے توسط سے ہر روز بلکہ ہر گھنٹے یہاں تک کہ ہر لمحہ یاد کی جانے والی عظیم کائناتی شخصیت ہیں۔ ان پر بھیجے جانے والے فرشتوں اور مسلمانوں کے درود و سلام کو اللہ تعالیٰ قبول کرتے ہوئے اپنی رحمت سے ہم کنار فرماتا ہے۔
دنیا میں اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق جو بھی کام کیے جائیں وہ قرآن مجید کے ارشادات کی روشنی میں ہونے چاہئیں اور آپ کے رحمت اللعالمین اور خاتم الانبیاء ہونے کے مقام و مرتبہ کے عین مطابق بھی۔ اسلام کو مسلمانوں کی منعقد کردہ عید میلاد النبی جیسی معاشرتی سرگرمیوں سے کوئی پریشانی نہیں ہے، صرف اتنی شرط کے ساتھ کہ مسلمان لغویات اور فضولیات سے پرہیز کریں۔ اسی کے ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ جشن و جلوس میں کسی بھی قسم کی مشرکانہ حرکات و سکنات یا بدعات داخل نہ ہونے پائیں۔۔۔ عبدالرحمٰن
(25.09.2023AD: 09.03.1445 AH)
***
گذشتہ آئینہ خانہ: توحید، رسالت اور ختم نبوت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے