مولانا مقبول احمد سالک مصباحی: کچھ یادیں، کچھ باتیں

مولانا مقبول احمد سالک مصباحی: کچھ یادیں، کچھ باتیں

محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، کوچ بہار، مغربی بنگال

1999ء یا 2000ء کی بات ہے جب میں دار العلوم اہل سنت مدرسہ عربیہ ضیاء العلوم خیر آباد میں جماعت اولی کا طالب علم تھا کہ دار العلوم کے صدر المدرسين استاذی الکریم مولانا بدر الدجی رضوی مصباحی کے یہاں ایک وجیہ و شکیل نوجوان عالم و فاضل بطور مہمان وارد ہوئے، ہاتھ میں ایک پتلی اٹیچی تھی اور سر پر گول سی دھاگے والی ٹوپی، دیکھنے ہی سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ روایتی نہیں بلکہ عصری مزاج کے عالم ہیں، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ مولانا مقبول احمد مصباحی ہیں، جنھیں عربی زبان و ادب پر خاصا عبور ہے اور ان کے مضامین بیرون ملک عربی رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتے ہیں، بس اتنی سی یاد باقی رہ گئی ہے، ویسے بھی چھوٹی جماعت کے کسی طالب علم کو کسی بڑے عالم سے ملنے یا بات کرنے کی ہمت ہی کہاں ہوتی ہے۔ اس لیے مجھے یاد نہیں کہ اس دوران میری ان سے کوئی بات ہوئی تھی۔ پھر 2004 کا جب سال آیا تو اس وقت میں جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں فضیلت سال اول کا طالب علم تھا اور رمضان کی چھٹیوں میں گھر جانے کے بجائے میں اور میرے احباب میں سے ڈاکٹر ارشاد عالم نعمانی، مولانا رفعت رضا مصباحی اور دیگر المجمع الاسلامی، ملت نگر، مبارک پور میں مصلح قوم و ملت مولانا عبد المبین نعمانی قادری دام ظلہ اور استاذ باوقار علامہ محمد احمد مصباحی دامت برکاتہ کی نگرانی میں اپنی قلمی تربیت کے لیے رک گئے۔ اسی دوران مولانا مقبول احمد مصباحی بھی دہلی سے فرزند اعلی حضرت مفتی اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا خان علیہ الرحمۃ کی حیات و خدمات پر ایک دائرۃ المعارف "جہانِ مفتی اعظم" کی ترتیب و تہذیب کے لیے المجمع میں وارد ہوئے اور پھر کئی دن تک ٹھہرے۔ اس بار مولانا مقبول صاحب کو قریب سے دیکھنے اور ان کی شخصیت کو پہنچاننے کا موقع ملا، بہت مصروف آدمی، اپنے کام سے مطلب، ہر وقت جہان مفتی اعظم کی ترتیب و ادارت میں منہمک، لیکن پر مزاح، سادہ اور بے تکلف آدمی، اپنی ادبی، علمی اور فکری صلاحیتوں کے رعب کا دور دور تک نشان نہیں، یاد آتا ہے کہ اسی دوران مولانا رفعت رضا مصباحی کی خواہش پر اپنی زندگی کے بعض اہم واقعات "یادوں کے کھنڈرات" کے نام سے انھوں نے مولانا کو لکھوائے تھے، پتہ نہیں کہ یہ مولانا رفعت کے پاس محفوظ ہے یا نہیں، اگر ہو تو داشتہ بکار آید، اسی دوران کی بات ہے کہ ایک رات میں اور مولانا ارشاد عالم نعمانی رات کا کھانا کھاکر چہل قدمی کرتے ہوئے اشرفیہ سے متصل روڈ تک چلے گئے، واپسی میں دیکھا تو آگے آگے مولانا مقبول احمد مصباحی اشرفیہ سے  لوٹ رہے تھے، ہم دونوں بھی تیز قدموں سے چل کر مولانا سے قریب ہوگئے، ہم دونوں کو پیچھے دیکھا تو کچھ پوچھا اور پھر چاندنی رات کے چاند کو دیکھ کر بڑی سائنسی معلومات فراہم کی کہ چاند کی وجہ سے ہی سمندر میں مد و جزر ہوتا ہے، پھلوں میں مٹھاس اور خوشبو آتی ہے، ماحولیات کو خوش گوار اور موسم کو معتدل بنائے رکھنے میں چاند کا بڑا کردار ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس گفتگو سے ہم دونوں بہت متاثر ہوئے کہ ہم لوگوں کو بھی چاند، سورج، ستاروں وغیرہ اجرام فلکیہ کا سائنسی مطالعہ کرنا چاہیے. اس دوران کی اتنی سی یادیں باقی رہ گئی ہیں، پھر تیسری ملاقات ماہنامہ ماہ نور کے آفس واقع مٹیا محل، دہلی میں ہوئی جب کہ وہ حضرت اشرف العلماء مولانا سید شاہ حامد اشرف کچھوچھوی بانی دار العلوم محمدیہ، ممبئی کے عربی خطبات کی ترتیب کی ذمہ داری لینے کے لیے ڈاکٹر افضل مصباحی کے بلانے پر آئے تھے، یہ غالباً 2007 یا 2008 کی بات ہے، اس بار انھیں بہت غور سے اور بہت دیر تک سننے کا موقع ملا، چوتھی ملاقات بریلی شریف میں عرس رضوی میں ہوئی۔ ہوا یہ کہ ماہ نور پیلی کینشنز نے اپنا بک اسٹال بھی عرس رضوی میں لگایا تھا تو ماہنامہ ماہ نور کی ممبرشپ بڑھانے اور اس کے بارے میں زائرین کو بتانے کے لیے بردار گرامی مولانا تنویر احمد مصباحی کی خواہش پر میں بھی چلا گیا جو اس وقت مذکورہ پبلی کیشنز کے منیجر تھے اور میں ماہ نامہ ماہ نور کا نائب مدیر، لیکن عرس رضوی کے کتاب میلہ میں جانے کے بعد اندازہ ہوا کہ سونے کا تو یہاں کوئی خاص انتظام نہیں ہے، بلکہ رات میں اسٹال ہی میں کہیں گھس کر بریلی کے بڑے بڑے مچھروں کے سواگت کے ساتھ نیند لینی ہوگی جو مجھ سے نہیں ہو سکتا تھا اور نیند کے بغیر رہ پانا میرے لیے عادی طور پر مشکل تھا، حسن اتفاق سے مجھے عرس میں مولانا مقبول صاحب نظر آ گئے، میں دیکھتے ہی ان کے پاس گیا، علیک سلیک کیا اور پوچھ لیا کہ حضرت قیام کہاں ہے؟ بتایا کہ میں نے تو قریب ہی ایک ہوٹل میں کمرہ کرایہ پر لیا ہے، میں نے کہا کہ پھر میں بھی وہیں رکوں گا اور حضرت نے بلا جھجک اجازت دے دی اور پھر اس کے بعد مولانا مقبول صاحب نے مجھے اپنے ساتھ لے کر بہت سے علما سے ملاقات کرائی اور سب سے میرا تعارف کرایا کہ یہی مولانا شہباز ہیں جو جامعہ ملیہ سے بی اے کر رہے ہیں اور ان دنوں ماہ نور کے ایڈیٹر ہیں، اکثر اہل قلم علما غائبانہ طور پر مجھے جانتے بھی تھے، مولانا مقبول صاحب کے اس وصف نے مجھے ان کا گرویدہ بنا ڈالا کہ مجھ جیسے طالب علم کو یہ سینیئر علما سے ایسے متعارف کرا رہے ہیں جیسے میں کوئی بڑا عالم یا قلم کار ہوں، اسی سال عرس رضوی میں ڈاکٹر خوشتر نورانی اور ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی کی شان میں خوب قصیدے بھی پڑھے گئے تھے اور اسے بھی ہم دونوں نے خوب مزے لے کر سنا تھا اور افسوس بھی کر رہے تھے کہ چند تنقیدی باتوں کی وجہ سے کیا کیا ہفوات، لغویات اور ہجویات بکی جا رہی ہیں، جب کہ اتنے بڑے عرس میں قوم کو کوئی فکری و ملی منشور دینا تھا، خیر دو رات حضرت ہی کے ساتھ ان کے ہوٹل کے کمرے میں نیند کا مزہ لیا، کرایہ دیتے وقت حضرت نے مجھ سے کرایہ طلب نہیں کیا جب کہ مجھے گمان تھا کہ آدھا کرایہ مجھے دینا ہوگا، اس سے ان کی وقعت میرے دل میں اور مسلم ہوگئی۔
اس کے علاوہ دہلی میں اور بھی دیگر ملاقاتیں ہوئی ہیں جیسے دار القلم دہلی میں، جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء، ذاکر نگر میں، لیکن وہ کوئی خاص یادگار نہیں، ہاں ایک بار مولانا رفعت صاحب کے کمرے میں ملے تھے جو ذاکر نگر کی شہاب مسجد کے پاس واقع تھا، ایئر فون سے کچھ سن رہے تھے تو میں نے پوچھا کہ حضرت کیا سن رہے ہیں؟ تو کہنے لگے کہ میوزک کے ساتھ کچھ سن رہا ہوں، میں نے کہا کہ آپ یہ بھی سنتے ہیں؟ تو کہا کہ ہاں! ہر ادب نگار کو تھوڑی بہت موسیقی سے دل چسپی ہونی چاہیے کہ یہ بھی فنون لطیفہ میں سے ایک ہے اور اس سے ادب نگاری کا ذوق پروان چڑھتا ہے۔
سب سے اہم ملاقاتیں اور اہم باتیں آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ سے جڑنے کے بعد ان سے ہوئیں، بورڈ سے جڑنے کے بعد سب سے پہلی ملاقات ان سے بورڈ کے مرکزی آفس واقع جوہری فارم، ذاکر نگر، نئی دہلی میں ہوئی، بورڈ کے قومی صدر حضرت اشرف ملت مولانا سید شاہ محمد اشرف میاں اشرفی کچھوچھوی بھی تھے، حضرت اشرف ملت کے ساتھ ہم لوگوں کی کئی نشستیں ہوئی اور جماعت اہل سنت کے ملی مسائل پر کافی غور و خوض اور تبادلۂ خیال ہوا، ماہنامہ غوث العالم کو دہلی سے جاری کرنے کی بات حضرت اشرف ملت نے کہی جس کے کالمز بھی ہم لوگوں نے مل کر بنائے، مولانا مبین اشرف کو ایڈیٹر بنایا گیا اور مولانا مقبول صاحب اور غالباً ڈاکٹر نوشاد چشتی نائب ایڈیٹر قرار پائے اور چونکہ مجھے شمالی بنگال و سیمانچل کی ذمہ داری دی گئی تو میں نے دہلی کی کسی ذمہ داری لینے سے علاحدہ رہنا مناسب سمجھا، لیکن شمالی بنگال میں رہتے ہوئے حسب ضرورت دہلی آفس اور ماہنامہ غوث العالم کو ہر طرح کی قلمی و فکری مدد فراہم کی، اسی حوالے سے مولانا مقبول صاحب سے فون پر اکثر باتیں بھی ہوتیں، دہلی سے ماہنامہ غوث العالم کا پہلا خصوصی شمارہ "شہید اعظم اور غوث العالم نمبر" نکلا تو مجھ سے بار بار اصرار کرکے”حضرت مخدوم اشرف اور ترک سلطنت" کے عنوان سے لکھوایا، مقالہ لکھ کر دیا تو بڑی حوصلہ افزائی کی کہ آپ نے اس موضوع پر اچھوتے اور علمی انداز میں لکھا، حضرت قطب المدار سید شاہ بدیع الدین احمد مداری مکن پور پر خصوصی شمارہ "مدار پاک نمبر" بڑی عجلت میں منظر عام پر لایا، حضرت غوث وقت سیّد احمد کبیر رفاعی پر بیش قیمت اور معلوماتی و علمی مضامین پر مشتمل نہایت وقیع اور قابلِ مطالعہ خصوصی شمارہ "حضرت رفاعی نمبر" قارئین کے ہاتھوں میں دیا، شیخ المشائخ، قطب ربانی اعلی حضرت اشرفی میاں پر مختلف ارباب علم و دانش سے اہم آن لائن اور آف لائن سیمینارز کرائے اور سیمینارز میں خواندہ مقالات کو ایک ضخیم و قابل قدر مجموعہ کے طور پر سال گزشتہ حضرت اشرف ملت کی فرمائش پر "جہانِ اعلی حضرت اشرفی" کے نام سے کتابی شکل دی جو شائع ہوگئی ہے اور اہل علم سے داد و تحسین وصول کر رہی ہے۔ اسی میں ناچیز کا بھی ایک مقالہ انھی کے اصرار اور خواہش پر اعلی حضرت اشرفی میاں کی عالمی سیاحت اور دعوت و تبلیغ کے حوالے سے شائع ہوا ہے جس پر انھوں نے مجھے حضرت اشرف ملت کے مقدس ہاتھوں اعلی حضرت اشرفی ایوارڈ سے بھی سرخرو کیا اور مذکورہ ایوارڈ اور ایک عدد جہان اعلی حضرت اشرفی قاری رفیق باگ ڈوگرا کی معرفت میرے گھر بھجوایا، کیوں کہ اس بار میں عرس میں نہیں گیا تھا۔
یہ تو حالیہ سرگرمیاں ہوئیں، ذرا ان کی پرانی اور بعض تا دم مرگ ذاتی تدریسی، تعلیمی، قلمی، ادارتی، انتظامی، انصرامی اور اہتمامی خدمات اور سرگرمیوں کی بھی یاد تازہ کرلیں۔ 1994ء سے کر 1997 تک مادر علمی الجامعۃ الاشرفیہ میں از اعدادیہ تا دورۂ حدیث جدید عربی زبان و ادب اور تفسیر قرآن کے تدریسی فرائض انجام دیے، اس دوران اللہ تعالی نے ان کو طلبہ کے درمیان بے پناہ مقبولیت اور شہرت عطا فرمائی۔ 1997 ء سے لے کر 1998 تک عالمی شہرت یافتہ تعلیمی و تربیتی اداره "جامعه مركز الثقافۃ السنیہ" کالی کٹ، کیرالہ میں شعبۂ عربی زبان و ادب کے صدر اول کی حیثیت سے نہ صرف شان دار خدمات انجام دیں، بلکہ مرکز سے نکلنے والے عربی ماہنامہ ” الثقافۃ" کی ادارت بھی فرمائی۔ اس کے بعد اہل سنت و جماعت کے صف اول کے مفکر و مناظر رئیس القلم، مناظر اسلام حضرت علامہ ارشد القادری کی دعوت پر جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء، ذاکر نگر نئی دہلی کے پرنسپل کے منصب پر 2002 تک فائز رہے۔ اس دوران انھوں نے جامعہ ہذا کے جدید نصاب کی ترتیب و تدوین اور جامع ازہر، مصر سے اس کا معادلہ کرانے میں تاریخی رول ادا کیا۔ اسی سنہ میں موصوف نے اشارۂ غیبی کے تحت نئی دہلی کے ایک مسلم اکثریتی علاقہ مدن پور، کھادر اوکھلا میں "جامعہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی" کے نام سے ایک دعوتی و تبلیغی مرکز قائم کیا جس کے بینر تلے ان کی تمام تر دینی و ملی، ادبی و لسانی اور قومی و قلمی سرگرمیاں تا دم مرگ جاری رہیں۔ سطور بالا میں مذکور "جہان مفتی اعظم" کی ترتیب و تہذیب کے علاوہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے نصف آخر میں "خانقاہ عالیہ نقشبندیہ" لونی شریف، گجرات کے زیر اہتمام شائع ہونے والی عظیم الشان کتاب "تذکرۂ مشائخ نقشبندیہ" کی نہ صرف تصحیح و تدوین کی، بلکہ اس کتاب میں پچیس صفحات پرمشتمل ایک مبسوط و وقیع، علمی وادبی مقدمہ بھی لکھا۔ یہ کتاب بھی ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ ایک عرصے تک انھوں نے رام پور سے شائع ہونے والے ماہنامہ ضیائے صابر کی ادارت بھی کی تھی۔ اس کے علاوہ متعدد موضوعات پر عربی اور اردو زبان میں مقالہ نگاری کرنا ان کی زندگی کا جزو لاینفک تھا۔ ان کے وقیع و علمی مقالات ملک و بیرون ملک کے معتبر جرائد و رسائل میں شائع ہوئے ہیں۔
پچھلے ایک سال سے انھیں پی ایچ ڈی کرنے کا جنون سوار تھا، اس حوالے سے مجھے کئی بار فون کیا کہ مجھے کہیں سے عربی میں پی ایچ ڈی کرنی ہے، میری رہنمائی کریں، میں نے تو پہلے مانو، حید آباد کے بارے میں بتایا تو اس کے لیے تیار نہیں ہوئے، پھر پٹنہ یونی ورسٹی کے بارے میں بتایا اور ڈاکٹر ہاشم رضا اسسٹنٹ پروفیسر پٹنہ یونی ورسٹی کا نمبر بھی دیا، یہاں سے پی ایچ ڈی کے انٹرنس ایگزام کا فارم بھی بھرا، لیکن استفساراً ایک دن فون کیا تو بتانے لگے کہ ایگزام نہیں دے سکا اور وجہ یہ رہی کہ "جہان اعلیٰ حضرت اشرفی" کی ترتیب و تدوین سے فراغت کے بعد ماہ فروری، 2023ء سے ”سر العوارف فی بحر المعارف“ کی ترتیب و تدوین اور ایڈیٹنگ کے کام میں لگ گیا جو پیر طریقت حضرت سید محمد انوار ندیم القادری، خانقاہِ عالیہ قادریہ چورو شریف کے افادات عالیہ و افاضات غالیہ کا شاندار مجموعہ ہے اور اسی دوران ایگزام آیا اور گزر بھی گیا اور میں پٹنہ جا نہ سکا۔
ان جگر سوختہ سرگرمیوں کے علاوہ فکری و تاریخی خطابت کی جولانیت، سیمینار، سمپوزیم اور قومی و ملی میٹنگوں میں مفکرانہ شرکت، حضرت اشرف ملت کی رفاقت، خانقاہ شیخ اعظم سرکار کلاں کچھوچھہ مقدسہ میں عرس مخدومی اور عرس سرکار کلاں کے موقع پر علمی و ادبی نظامت، بورڈ کی ہمہ وقت قلمی و لسانی ترجمانی و نقابت جیسے اوصاف مستزاد تھے۔ آپ خود سوچیں کہ یہ آدمی تھے یا کام کی مشین۔ در اصل ان کے مطمح نظر ہمیشہ یہ شعر رہتا تھا:
یہ ہے دامن یہ ہے گریباں، آؤ کوئی کام کریں
موسم کا منہ تکتے رہنا کام نہیں دیوانوں کا
اور ایسا قیمتی آدمی اگر اس قدر جلد داغ مفارقت دے جائے تو جماعت و قوم کا کتنا خسارہ ہے وہ نا قابل بیان ہے۔
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر: حیات و کارنامے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے