عابدہ شیخ: گلشنِ رباعی کا نیا پھول

عابدہ شیخ: گلشنِ رباعی کا نیا پھول

شاہینہ پروین

عابدہ شیخ کا شمار اردو کی نامور رباعی گو شاعرات میں ہوتا ہے۔ وہ مانچسٹر (برطانیہ) میں ایک عرصے سے مقیم ہیں اور ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ ماہر نفسیات اور سماجی کارکن کے طور پر بھی سرگرم عمل ہیں۔ سماجی اور ادبی خدمات میں رات دن پیش پیش رہنے والی عابدہ شیخ اردو رباعی گو کی حیثیت سے اردو ادب میں خاص شناخت رکھتی ہیں۔ یوں تو آپ نے صنف غزل میں بھی اپنی ہنر مندی کا مظاہرہ کیا، جس کا ثبوت ان کی طویل غزلیں ہیں۔ "دل ہی تو ہے" کے عنوان سے ان کی غزلوں کا ضخیم مجموعہ 2022 میں منظر عام پر آ کر قارئین سے داد و تحسین حاصل کرچکا ہے، جس کی سب سے طویل غزل ایک سو ایک 101 اشعار پر مشتمل ہے۔ باوجود اس کے آپ بنیادی طور پر رباعی کی شاعرہ ہیں ۔”بال و پر" کے نام سے آپ کا دوسرا شعری مجموعہ بھی منظرِ عام پر آچکا ہے۔ جس میں دو سو رباعیات شامل ہیں اور چار سو سے زائد رباعیاں ہنوز منتظر اشاعت ہیں۔ ان کی اس شناخت کو ناقدین نے بھی سراہا ہے اور وہ خود بھی اس بات کا اعتراف کرتی ہیں۔ چنانچہ وہ ایک رباعی میں کہتی ہیں:
میرے لئے ہے جان رباعی میری
پڑھیے کہ ہے آسان رباعی میری
میں حشر میں بھی پیش کروں گی اس کو
بخشش کا ہے سامان رباعی میری
ایک اور رباعی میں خود کو بہ حیثیت رباعی گو ثابت کرتے ہوئے عابدہ شیخ لکھتی ہیں:
مشہور ہوں، معروف ہوں، مقبول ہوں میں
ہر زاویہ فکر سے معقول ہوں میں
ہے نام مرا عابدہؔ یہ یاد رہے
گلشن کا رباعی کے نیا پھول ہوں میں
عابدہ شیخ کے دوسرے شعری مجموعے "بال و پر" میں رباعیات کے علاوہ قطعات اور دوہے بھی شامل ہیں. ان کا رنگِ سخن جداگانہ ہے۔ انھوں نے مختلف اور متعدد موضوعات پر رباعیاں لکھیں۔ ان میں عصری زندگی کی جھلکیاں بھی ہیں، سماجی حالات کا عکس بھی، والدین سے بے پناہ عقیدت و محبت کا اظہار بھی ہے، کہیں علامہ اقبال کو خراجِ عقیدت پیش کرتی دکھائی دیتی ہیں، تو کہیں قوم کو اقبال کا درس یاد دلاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ جیسا کہ ذیل کی رباعیات سے صاف ظاہر ہے:
مشکل ہو بہت پھر بھی نہیں رونا ہے
اس بھیڑ میں دنیا کی نہیں کھونا ہے
منزل ہے پہاڑوں کی چٹانیں تیری
اقبال کا شاہین تجھے ہونا ہے
شاہین رہو صورتِ شہباز رہو
ہم درد رہو حق کے ہم آواز رہو
آئے گا اسی رنگ میں جینے کا مزا
رفعت کے لئے مائلِ پرواز رہو
ہر فکر کو ہر سوچ کو اچھا رکھو
ہر وقت خیالات کو اونچا رکھو
مشکل میں بھی مایوس نہیں ہونا ہے
اُمید کو ہر حال میں زندہ رکھو
حکیم الامت علامہ اقبال نے امت کو جس خواب غفلت سے بیدار کیا اور اپنی ساری توانائی صرف کردیں، وہ یقیناً آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہے۔چنانچہ عابدہ شیخ علامہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتی ہیں:
احساس خودی ہم کو کرایا اس نے
تہذیب و تمدن بھی سکھایا اس نے
اقبال کا احسان ہے اُمت پہ بہت
تحریک عمل دے کے جگایا اس نے
عابدہ شیخ نے اس نوع کی رباعیوں کے ذریعے قوم کو محوِ نالہ جرس رہنے کے بجائے یارانِ تیز گام سے قدم سے قدم ملا کر نئی منزلوں کی طرف گامزن ہونے کی تلقین کی ہے اور شاہین کی طرح اپنے خیالات کو اونچا رکھنے کا درس دیا ہے۔ اور اپنی رباعیوں کے ذریعہ قوم کے افراد بالخصوص نوجوان نسل کو بیدار کرنے کی قابل تعریف کوشش کی ہے۔ ان کی غیرت کو للکارا ہے، انھیں آگے بڑھنے کا جوش و ولولہ عطا کیا، علم کی اہمیت و افادیت سے آشنا کرانے کی کوشش کی ہے۔ چونکہ قوم کی ترقی کے لیے علم کی دولت سے مالا مال ہونا ازحد ضروری ہے۔ اس لیےانھوں نے اپنی رباعیوں کے ذریعہ نہ صرف اخلاقیات کی تعلیم دی اور حصول علم کے لیے ابھارا ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ انسانی قدروں کو بھی پہچاننے کی تلقین کی ہے۔ وہ خود بھی زاہدہ اور نیک صفت خاتون ہیں. بلکہ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ وہ خود صوفی مزاج ہیں، اس لیے ان کی رباعیوں میں بھی صوفیانہ رنگ صاف جھلکتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ کہتی ہیں:
سرکارﷺ کی الفت ہے مرے سینے میں
سردارﷺ کی چاہت ہے مرے سینے میں
میں غم سے پریشان نہیں ہوتی ہوں
احمدﷺ کی محبت ہے مرے سینے میں
انداز زمانے سے جدا رکھتے ہیں
افکار و خیالات نیا رکھتے ہیں
ہم سیکڑوں اصنام کے قائل ہی نہیں
ہم اپنا فقط ایک خدا رکھتے ہیں
قاصر ہے بہت میری زباں کیسے کروں
پوشیدہ جو دل میں ہے عیاں کیسے کروں
خالق ہے وہ مالک ہے وہ حاکم بھی وہی
اللّٰہ کی مدحت میں بیاں کیسے کروں
توحید، مدحتِ رسول اور استغنا کے مضامین کے علاوہ بھی عابدہ شیخ نے اپنی رباعیات میں مختلف مضامین کو بڑی خوب صورتی کے ساتھ نظم کیا۔ انھوں نے الفاظ کے انتخاب اور ترتیب کا بھی خاص خیال رکھا۔ آپ نے فطرت کی رنگینی، عشق و وصال، تخیلات اور مختلف موضوعات پر خوب صورت اور فنکارانہ رباعیاں لکھیں جس کی مثال دوسری رباعی گو شاعرات تو کیا بہت سے شعرا کا کلام بھی ان سے محروم ہے۔ اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ انھوں نے اللّٰہ رب العّزت اور رسولﷺ کے اسماے مبارکہ پر بھی رباعیاں لکھیں۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جو ان کو دیگر رباعی گو شعرا و شاعرات میں ممتاز و منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ نمونہ کے طور پر ان کی چند نعتیہ رباعیاں ملاحظہ ہوں:
شاعر کے تخّیل میں، سخن میں تو ہے
ہر پھول کی خوشبو میں، چمن میں تو ہے
تجھ سے ہی منوّر ہے بساطِ ہستی
تو فرشِ زمیں پر ہے، گگن میں تو ہے
نعتیہ رباعی:
خوش حال ہے جنّت کے زینے ہی میں
آباد ہے رحمت کے سفینے ہی میں
یوکے میں مرا جسم ہی رہتا ہے فقط
دل تو ہے محمدﷺ کے مدینے ہی میں
عابدہ شیخ کی ان رباعیات کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ ان کا دل اللّٰہ رب العزت اور رسول اللہ ﷺ کی محبت سے سرشار ہے۔ اسلوبِ بیان کی سادگی و سلاست سے آراستہ ان کی کی رباعیاں ان کی سچّے دلی جذبات کی آئینہ دار ہیں۔ اسی کے ساتھ شاید وہ واحد رباعی گو شاعرہ ہیں، جنھوں نے اپنے والدین کی عقیدت و محبت میں بھی کثیر تعداد میں رباعیاں لکھیں، جن میں وہ بطور خاص اپنے والد مرحوم کی شفقت و محبت کو یاد کرتی ہیں اور ان کے حق میں بارگاہِ خداوندی میں دعا گو ہیں کہ خدا ان کے والد مرحوم کی مغفرت کرے اور انھیں جنّت میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے (آمین ثم آمین)۔ مثلاً وہ کہتی ہیں:
ہر بات مثالی تھی مرے والد کی
اور ذات بھی عالی تھی مرے والد کی
چہرے پہ جو تھا رعب تو دل میں شفقت
کیا شان نرالی تھی مرے والد کی
تو ان کے گناہوں کو مِٹا کر مولا
تو بخش دے ان کو تو رہا کر مولا
تو اپنی کریمی سے مرے والد کو
جنّت مین محل ایک عطا کر مولا
دولت ہے مری ماں کے قدم کے نیچے
ثروت ہے مری ماں کے قدم کے نیچے
جنّت کا اگر در ہیں مرے والد تو
جنّت ہے مری ماں کے قدم کے نیچے
عابدہ شیخ کی رباعیات کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ وہ زندگی کے نازک سے نازک مسائل کو سادگی اور نصیحت آمیز لہجے میں بیان کرنے پر قدرت رکھتی ہیں اور لوگوں کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی تلقین کرتی ہیں۔ وہ ایک وسیع القلب اور دردمند دل رکھنے والی شاعرہ ہیں۔ انسان کے دکھ درد کو سمجھتی ہیں جیسا کہ ذیل کی رباعیات سے عیاں ہوتا ہے:
روتے ہوئے پھولوں کو ہنسایا جائے
بگڑی ہوئی قسمت کو بنایا جائے
اے عابدہؔ میری تو خواہش ہے
اُجڑے ہوئے گلشن کو جگایا جائے
احساس شرافت کے سوا کچھ بھی نہیں
ہاں! پاس روایت کے سوا کچھ بھی نہیں
معصوم سے دل میں مرے دنیا والو!
جذبات محبت کے سوا کچھ بھی نہیں
ان رباعیات کے موضوعات کے مطالعہ سے اس بات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ محترمہ عابدہ شیخ صاحبہ نے اپنی رباعیوں کے ذریعہ اپنے قاری کو سیرت اور اخلاق کی تعلیم دے کر ان کی کردار سازی کرنے کی قابل قدر کوشش کی ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اردو رباعی کی تاریخ میں عابدہ شیخ نے ایک جداگانہ روش اختیار کی ہے۔ ان کے علاوہ ایسی شاعرہ خال خال ہی ملیں گی جنھوں نے اتنی بڑی تعداد میں اور اس قدر وسیع موضوعات کا احاطہ کرتے ہوئے رباعیاں لکھی ہوں۔ انھوں نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار اپنی رباعیات کے ذریعے کیا ہے۔ ان کے موضوعات میں وسعت، گہرائی، سادگی و سلاست کے ساتھ ساتھ ان میں تاثیر بھی ہے۔ عابدہ شیخ نے اپنی رباعیات کے ذریعے سے سماجی اور معاشرتی سطح پر اصلاح کا کام بڑی عمدگی سے انجام دیا ہے۔ ان کے کلام کی یہ خوبیاں ان کے باکمال اور تعمیر پسند رباعی گو شاعرہ ہونے کی دلیل ہیں۔
حواشی:
1۔عابدہ شیخ:بال و پر،دنیائے اردو پبلی کیشنز،اسلام آباد،مارچ 2022،ص۔27
2۔ایضاً۔28،48،50،51،54،56،57،83
3،روزنامہ سرزمین لاہور،مدیر رانا فہد صفدر خان،13 فروری 2023،ص۔4
***
SHAHINA PARWEEN
Research Scholar
Kazi Nazrul University,Asansol(West Bengal)
Momin mohalla,No:6,Jamuria by pass road
Dist:Paschim Burdhmaan(W.B)
PO/PS: Jamuria
PIN NO:713336
Email Id:shahinajamuria@gmail.com
***
شاہینہ پروین کی گذشتہ نگارش:ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کی شخصی رباعیات کا تنقیدی جائزہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے