توحید، رسالت اور ختم نبوت

توحید، رسالت اور ختم نبوت

(مولانا و حید الدین خاں کی تحریروں سے انتخاب)

(ماہِ مبارک ربیع الاول کی مناسبت سے ایک اہم علمی پیش کش)

عبدالرحمٰن
(سابق چیف مینیجر، الہ آباد بینک)
دہلی- این سی آر
Email:rahman20645@gmail.com

اللہ اور اس کے فرشتے بے شک نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر رحمت اور درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان وال! تم بھی ان پر خوب درود و سلام بھیجا کرو. (سورۃ الاحزاب-33: 56)
اللہ تعالیٰ کے مندرجہ بالا قرآنی حکم کی روشنی میں، ایمان والوں یعنی مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ ہمہ وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔ چوں کہ قمری کلینڈر کا تیسرا مہینہ، ربیع الاول اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کا مبارک مہینہ ہے، اس لیے خصوصی طور پر اس ماہ کے درمیان درود و سلام کی کثرت کے ساتھ ساتھ، ہم سبھی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو جاننے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عظیم اخلاق سے نوازا اور رحمت اللعالمین کے مرتبہ سے سرفراز فرمایا۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت اور ان کی رسالت پر ایمان رکھنے والے جملہ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم اخلاق اور رحمت کے کثیر الجہتی پہلوؤں کا ادراک نہ صرف خود حاصل کریں بلکہ انسانیت عامہ تک اس کے ابلاغ کو یقینی بنانے کی جدوجہد بھی کرتے رہیں۔ اسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے نورانی اوصاف سے اپنی زندگی کو بھی عملی طور پر روشن رکھنے کی سعی مسلسل کی جانی چاہیے۔
جشن میلاد النبی(صلی اللہ علیہ وسلم)
ربیع الاول یعنی اللہ تعالیٰ کے رسول، رحمت اللعالمین اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادتِ سعید کا مبارک مہینہ شروع ہو چکا ہے، اور برصغیر ہند و پاک میں 12 ربیع الاول(1445 ہجری)، یعنی عید میلاد النبی کی تاریخ انگریزی کیلینڈر کے مطابق 28 ستمبر 2023 عیسوی (بروز جمعرات) مصدق ہوگئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں غالباً دنیا کے سبھی مسلمانوں نے خاموش اتفاق رائے سے 12 ربیع الاول کی تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت (میلاد) کے طور پر قبول کرلیا ہے اور اسی دن عید میلاد النبی (ﷺ) کے نام سے جشن منانے کا سلسلہ رائج ہوگیا ہے؛ جب کہ سیرت کی کتابوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم پیدائش کے طور پر متعدد تاریخیں درج ہیں، حالاں کہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ ربیع الاول میں اور پیر کے دن پیدا ہوئے تھے، جب کہ آپ کی وفات کی تاریخ 12 ربیع الاول ہے، گویا مسلمانوں نے اپنی ثقافتی سرگرمیوں کے زیر اثر وفات کی تاریخ کو ولادت کی تاریخ میں مبدل کرلیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نصف صدی قبل ہمارے بچپن میں اسکولوں کی چھٹی 12 ربیع الاول کے دن عید میلاد النبی کے نام سے نہیں، "بارہ وفات" کے نام سے ہوا کرتی تھی۔
آج کل مسلم معاشرے میں 12 ربیع الاول کے دن چاروں طرف گویا عید کا ماحول نظر آتا ہے۔ حالاں کہ اسلام میں صرف دو ہی مذہبی تیوہار ہیں. عید الفطر (میٹھی عید) اور عید الاضحیٰ (بقرہ عید)، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلم ثقافت (Muslim culture) نے میلاد النبی (Birthday of the Prophet) کو بھی ہجری کیلینڈر کے مطابق 12 ربیع الاول کے دن کو عید میلاد النبی کے طور پر منانے کے لیے کم و بیش تیسرے اسلامی تیوہار کا درجہ عنایت کردیا ہے۔ تقریباً ہر ملک کے مسلمان اس موقع کو غیر معمولی جوش و خروش اور عید (جشن) کی صورت میں مناتے ہیں۔ اپنے ملک ہندستان کے تقریباً سبھی شہروں اور قصبوں میں بھی بڑے پیمانے پر جشن میلاد النبی اور جلوسِ محمدی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
مضمون کی نوعیت
زیر نظر مضمون عید میلاد النبی کے موقعے کی مناسبت سے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس مبارک موقعے پر عقیدۂ توحید، منصبِ رسالت اور ختمِ نبوت کے موضوعات مسلمانوں، خاص طور پر مسلم نوجوانوں کے مطالعہ کے لیے نہایت موزوں رہیں گے۔ توحید (Oneness of God) اور رسالت (Prophethood) دینِ اسلام کے بنیادی عقائد کی اصطلاحات ہیں۔ دراصل اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے معبود ہونے کی تردید اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہونے کی قبولیت اسلام کے کلمہ طیبہ کی اصل ہیں۔ توحید اور رسالت کی نوعیت اور نزاکت کا ادراک حاصل کرنا ہر باشعور مسلمان کی بنیادی ذمے داری ہے۔ اس علمی اور دینی نزاکت کا تقاضا ہے کہ عنوان کی رعایت سے مضمون کو کسی مستند اور محقق و مفکر عالم دین کی تحریروں سے آراستہ کیا جائے۔
یقیناً مسلمانوں کے تمام علما عزت مآب اور قابل احترام ہیں۔ بلاشبہ، علماے دین کی ایک بڑی جماعت نے توحید، نبوت، رسالت اور سیرت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے موضوع پر کثیر تعداد میں مضامین اور کتابیں تصنیف کی ہیں۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ان سے استفادہ بھی  کر رہی ہے، مگر یہاں راقم التحریر نے اپنے مضمون کی تالیف و ترتیب کے لیے مولانا وحید الدین خاں (2021-1925) کی تحریروں کا انتخاب کیا ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا مناسب رہے گا کہ مسلمانوں کے بیشتر علما کا علمی اسلوب روایتی (traditional) نوعیت کا ہے، جو آج اکیسویں صدی عیسوی کے نوجوانوں کو متاثر کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ نتیجتاً غیر مسلم تو دور، خود مسلمانوں کی نئی نسل بھی مذہبی باتوں میں متوقع دل چسپی اور رغبت محسوس نہیں کر رہی ہے۔ بلا شبہ، مسلمانوں کے لیے باعث تشویش ہونے کے ساتھ ساتھ، یہ صورت حال نہ تو دنیاوی فلاح کے لیے اچھی ہے اور نہ ہی اخروی نجات کے لیے۔ اس لیے اس نامبارک رجحان کو مزید آگے بڑھنے سے روکا جانا اشد ضروری ہے۔
بات کو مزید واضح کرنے کی غرض سے عرض ہے کہ مولانا مرحوم کی تصنیفات کو ترجیحی مقام دینا نہ تو کسی تعصب کی وجہ سے ہے اور نہ ہی بے سبب ہے۔ ایسا کرنے کی کئی بڑی اور بنیادی (primary) وجوہات ہیں، جن میں سر فہرست ہے ان کا عصری اسلوب۔ اس میں شک نہیں کہ مولانا ایک سائنسی مزاج (scientific temperament) رکھنے والی شخصیت تھے۔ اسی کے ساتھ اسلامی علوم کے علاوہ جدید علوم (Modern Knowledge) کے وسیع مطالعے نے ان کو جدید دور (Modern Age) کی نزاکتوں (delicacies) کا ادراک حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
علاوہ ازیں ان کی بڑے پیمانے پر لکھنے پڑھنے سے وابستگی اور کائناتی حقائق میں غور و فکر کا سلسلہ ستر سال سے بھی زیادہ عرصہ پر محیط ہے۔ مختلف علوم کا گہرائی اور گیرائی کے ساتھ مطالعہ اور مسلسل غور و فکر کے عمل کی بدولت ان کی زندگی تجربات و مشاہدات کے منفرد اور وسیع خزانے سے لبریز تھی۔ ان کے اندر چیزوں کو نئے نئے زاویہ سے سمجھنے کا زبردست ذوق رہا ہے جس کی معرفت نئے زمانے (Present Time) میں پیدا ہونے والے مختلف نوعیت کے مسائل (problems) اور چیلنج (challenges) سے نبردآزما ہونے کی غرض سے سبھی انسانوں، خاص طور پر مسلمانوں کو مختلف پہلوؤں سے رہ نمائی فراہم کرنا ان کے لیے آسان ہو گیا تھا۔ یہاں بیان کیے گئے جملہ خصائص نے یک جا ہو کر گویا مولانا وحید الدین خاں کو ایک ہمہ جہتی (multi dimensional) شخصیت بنا دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایات کے زیر سایہ، اپنے وسیع مطالعہ اور چھوٹے بڑے سارے تجربات و مشاہدات کو تحریری جامہ فراہم کر دینا ان کی انفرادیت کا گواہ ہے۔
مولانا کی مذکورہ خصوصیات اور استثنیات کا پرتو (reflection) ان کی وسیع علمی تخلیقات میں دیکھا جا سکتا ہے۔ مزید مولانا کی تحریر و تقریر میں عصری اسلوب (modern idiom) کے استعمال نے گویا ان کی تخلیقات میں ایک علمی اور فکری انقلاب برپا کر دیا ہے۔ نئی نسل کو علم و آگہی کی جن قیمتی باتوں کو روایتی اسلوب میں سمجھانا مشکل ترین کام ہو کر رہ گیا تھا، مولانا کے عصری اسلوب یا بہ الفاظ دیگر وقت کی زبان میں بات کرنے کے طریقے نے اس کو آسان بنا دیا ہے۔ اس لیے الرسالہ اور مولانا کی دوسری کتابوں کا عصری اسلوب میں تصنیف کیا جانا، ان کی تحریروں کے انتخاب کو ناگزیر بنا دیتا ہے۔ دراصل، پیغام کو دل میں اترنے کے لیے نوجوانوں کا تحریر کو اچھی طرح سمجھ پانا نہایت ضروری ہے۔ قدیم زمانے کی روایتی اسلوب میں لکھی گئیں علم و حکمت کی باتوں کو نئے زمانے کے لب و لہجے کی روشنی میں سمجھ لینے کے بعد مطالعہ کرنے والے افراد کے سامنے اللہ رب العالمین کی معرفت کے حصول کی منزل قریب تر ہوتی ہوئی نظر آنے لگتی ہے۔ اس پس منظر میں یہ مضمون نئی روشنی کے مسلم نوجوانوں کے لیے جاذب نظر اور علمی و فکری اعتبار سے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
مولانا وحید الدین خاں نے مختلف موضوعات پر تقریباً دو سو کتابیں تصنیف کی ہیں۔ نبوت، رسالت اور سیرت النبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کے موضوع پر بھی ان کی متعدد کتب بہت پہلے منظر عام پر آچکی ہیں اور آج دوسری تمام کتابوں کے ہمراہ انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہیں۔ سیرت رسول کے میدان میں پیغمبرِ انقلاب، مطالعہ سیرت اور سیرت رسول عمدہ کتابوں کی بہترین مثال ہیں۔ 208 صفحات پر مشتمل’پیغمبر انقلاب‘سنہ1982ء میں شائع ہونے کے بعد سنہ 1983ء میں حکومتِ پاکستان کی سطح پر منعقدہ سیرت رسول کے ایک عالمی مقابلے میں اول انعام کی مستحق قرار پائی۔ سنہ 1984ء میں نئی دہلی میں واقع پاکستانی سفارت خانہ (Embassy) نے ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا جس میں مولانا کو ’سند امتیاز‘ سے نوازا گیا۔
ایک مشہور قول ہے کہ "زبان بدلنے سے تقریر بدل جاتی ہے اور قلم بدلنے سے تحریر"۔ اس قول کی روشنی میں جب بھی کوئی شخص کسی صاحبِ علم و قلم عالم کے افکار و نظریات کو اپنے اسلوب میں اپنی تحریر و تقریر کا حصہ بناتا ہے تو اس کی نگارشات میں ہمیشہ کسی نہ کسی تحریف کے واقع ہوجانے کا گمان غالب رہتا ہے۔ بے شک کسی دوسرے شخص کے متعلق اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرنے سے کوئی خاص فرق واقع نہیں ہوتا، مگر اس شخص کے ذریعے اپنی تحاریر میں پیش کیے گئے تخلیقی حقائق اور تفکیری نظریات کو بیان کرنے کا کام دشوار ہونے کے ساتھ ساتھ پر خطر بھی ہوتا ہے۔ یہاں استفادہ  کرنے والے مقرر یا محرر دونوں کی اخلاقی پاسداری کے متاثر ہونے کا ڈر بنا رہتا ہے۔ اس لیے اس ضمن میں غور و فکر سے اخذ نتائج کا تقاضا ہے کہ توحید، رسالت اور ختم نبوت جیسے اسلام کے بنیادی موضوعات کو خود مولانا وحید الدین خاں کی اپنی زبان میں پیش کیا جائے۔ اس لیے، اس مضمون کو ان کی اپنی تحریروں کے توسط سے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس طرح کسی انحراف اور اختلاف سے پاکیزگی کے ساتھ ساتھ مضمون کے مطالعہ کی نوعیت بھی مولانا موصوف سے براہ راست علمی استفادہ کی ہو جاتی ہے۔
توحید، رسالت اور ختم نبوت
مولانا کے قائم کردہ اسلامی مرکز اور مکتبہ الرسالہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، اگلی سطور میں ماہ نامہ الرسالہ اور مولانا کی دوسری کتابوں میں موجود عقیدۂ توحید، منصبِ رسالت اور ختمِ نبوت کے متعلق موضوعات کا احاطہ کرنے والے مختلف مضامین سے متعلقہ اقتباسات اخذ کر کے یہاں کسی رد و بدل یا تبصرے کے بغیر من و عن نقل کیے جارہے ہیں۔ نقل کیے گئے اقتباسات کو اس ترتیب سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مطالعہ میں تسلسل (continuity) برقرار رہے اور پڑھنے والے افراد کو علمی اور فکری لذت کے ساتھ ساتھ مضمون کا معنوی ادراک بھی حاصل ہو۔
عنوان کا احاطہ کرنے والے اس مضمون کو علمی جامعیت سے ہم کنار کرنے کے لیے، مولانا کی مندرجہ ذیل کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے:
۰ کتابِ معرفت
۰ سیرتِ رسول
۰ مذہب اور جدید چیلینج
۰ الرسالہ(خصوصی شمارہ)اکتوبر2011ء
۰ الرسالہ مارچ 2011ء
علمی تجسس اور تحقیقی نظر رکھنے والے نوجوانوں کے لیے ان کتابوں کا مزید مطالعہ بہت اچھے نتائج برآمد کر سکتا ہے۔ عصری اسلوب میں تصنیف کی گئیں مولانا کی کتابوں میں اعلا درجے کا وضوح (clarity) پایا جاتا ہے، جو علمی ارتقا کی بنیادی ضرورت ہے۔ ان کی کتابوں کے مطالعے سے جدید حالات کے پس منظر میں پیدا شدہ تذبذب (confusion) بھی دور ہوتا ہے۔ علمی اور فکری اعتبار سے اچھی کتاب وہی ہوسکتی ہے جو اپنے موضوع کے میدان میں قاری کے ذہنی کنفیوژن (خلفشار) کو رفع کرنے میں معاون ہو اور اس کو اطمینان کی کیفیت عنایت کرے۔
مضمون ہذا کو جن ذیلی عناوین (sub titles) کی مدد سے مرتب کیا گیا ہے ان کی ترتیب حسبِ ذیل ہے:
۰ توحید کا عقیدہ
۰ معنی خیز استثنا
۰ خدا کے بغیر کائنات بے تعبیر
۰ رسول اللہ کی بعثت
۰ رسول کی بعثت کا مقصد
۰ اثباتِ رسالت
۰ علمِ قلیل
۰ ختمِ نبوت
۰ حفاظتِ قرآن
۰ دعوائے نبوت نہیں
۰ ہندو گروؤں کی مثال
۰ تحفظِ نبوت، تحفظ کار نبوت
یقین کیا جا سکتا ہے کہ مضمون کو خوب صورت پیرایے میں ترتیب دینے کی یہ مخلص اور سنجیدہ کوشش قاری کے لیے مختلف پہلوؤں سے محظوظ ہونے میں مددگار ثابت ہوگی اور مضمون کا مطالعہ پڑھنے والے افراد کو عقیدہۂ توحید سے لے کر ختمِ نبوت تک کا سفر طے کرتے ہوئے ایک سیر حاصل گفتگو فراہم کرے گا، گویا یہ مطالعہ اسلامیات کا ایک اجمالی مطالعہ ثابت ہوگا۔
توحید کا عقیدہ
توحید کا آغاز معرفت (realization) سے ہوتا ہے، یعنی خدا کو خالق و مالک کی حیثیت سے در یافت کرنا۔ کسی انسان کو جب خدا کی یہ معرفت حاصل ہوتی ہے تو اس کا حال کیا ہوتا ہے، اس کو قرآن میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے. 
اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اس سبب سے کہ ان کو حق کی معرفت حاصل ہوئی۔ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب، ہم ایمان لاۓ۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ اور ہم کیوں نہ ایمان لائیں اللہ پر اور اس حق پر جو ہمیں پہنچا ہے جب کہ ہم یہ آرزو رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہم کو صالح لوگوں کے ساتھ شامل کرے۔ پس اللہ ان کو اس قول کے بدلہ میں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بدلہ ہے نیک عمل کر نے والوں کا (المائدہ-5: 83-85)۔
خدا کی معرفت آدمی کے اندر کس قسم کی شخصیت پیدا کرتی ہے، اس کو قرآن میں مختلف انداز سے بتایا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے. ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جائیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کے سامنے پڑھی جائیں تو وہ ان کا ایمان بڑھادیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں. (الانفال-8: 2)
توحید کے عقیدہ کا خطاب اصلاً انسان سے ہے، نہ کہ کسی نظام سے۔ یہ عقیدہ ایک فرد کے اندر جگہ پکڑتا ہے۔ وہ فرد کو خدا کی عظمت کے احساس میں سرشار کر دیتا ہے۔ وہ انسان کی پوری شخصیت کو خدا کے رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ وہ انسان کے فکر اور احساس کا کامل رہ نما بن جا تا ہے۔ ایسا انسان خدا کو یاد کر نے والا بن جا تا ہے۔ تو حید کا عقیدہ انسان کی داخلی شخصیت میں اس طرح بھونچال بن کر داخل ہوتا ہے کہ وہ اس کی پوری زندگی کو ہلا دیتا ہے۔ وہ خدا کو اپنا سب کچھ بنالیتا ہے۔ اس کا جینا اور مرنا خدا کے لیے ہو جا تا ہے۔ اس کی پوری زندگی خدا رخی زندگی (God oriented life) بن جاتی ہے۔ (کتاب معرفت، صفحہ 17)
معنی خیز استثنا
کائنات میں بے شمار الگ الگ چیزیں پائی جاتی ہیں لیکن کائنات کا ایک عجیب ظاہرہ یہ یے کہ اس میں عمومی طور پر یکسانیت (uniformity) نہیں ہے، بلکہ اس کے ہر حصے میں استثناءات (exceptions) پاۓ جاتے ہیں۔ کائنات کی یہ استثنائی مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس کا ئنات کا ایک عظیم خالق ہے۔ استثناء (exception) ذہین مداخلت (Intelligent Intervention) کا ثبوت ہے اور ذہین مداخلت ایک ذہین خالق (Intelligent Creator) کا ثبوت ہے۔
مثلا وسیع کائنات میں شمسی نظام (solar system) ایک استثنا ہے۔ شمسی نظام میں سیارہ ارض (planet earth) ایک استثنا ہے۔ زمین کا انتہائی متناسب سائز ایک استثنا ہے۔ زمین کی اپنے محور (axis) پر گردش ایک استثنا ہے۔ زمین پر لائف سپورٹ سسٹم (life support system) ایک استثنا ہے۔ زمین پر زندگی ایک استثنا ہے۔ زمین پر انسان ایک استثنا ہے، وغیرہ۔
اس قسم کے مختلف استثنا جو ہماری دنیا میں پائے جاتے ہیں، وہ سادہ طور پرصرف استثنا نہیں ہیں بلکہ وہ انتہائی حد تک بامعنی استثنا (meaningful exceptions) ہیں۔ وسیع کائنات میں اس قسم کے بامعنی استثناءات یقینی طور پر اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے۔ اس نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس کائنات کو بنایا ہے۔ اس نے جہاں چاہا، چیزوں میں یکسانیت (uniformity) کا طریقہ اختیار کیا، اور جہاں چاہا کسی چیز کو دوسری چیزوں سے ممیز اور مستثنٰی بنادیا۔
مثلًا زندہ اجسام کے ڈھانچے میں باہم یکسانیت (uniformity) پائی جاتی ہے لیکن اسی کے ساتھ ہر ایک کا جنیٹک کوڈ (genetic code) ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ہر ایک کے ہاتھ کی انگلیاں ایک دوسرے سے مشابہ ہیں لیکن ہر ایک کے انگوٹھے کا نشان (thumb impresion) ایک دوسرے سے الگ ہے۔ یکسانیت کے درمیان یہ استثنا یقینی طور پر ایک ذہین تخلیق (intelligent creation) کا ثبوت ہے، نہ کہ اندھے اتفاقات کا نتیجہ۔ (کتاب معرفت، صفحہ 38)
خدا کے بغیر کائنات بے تعبیر
البرٹ آئن سٹائن (Albert Einstein) بیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنس داں مانا جا تا ہے۔ وہ 1879 میں جرمنی میں پیدا ہوا، اور 1955 میں امریکا میں اس کی وفات ہوئی۔ 1921 میں اس کو فز کس کا نوبل پرائز دیا گیا۔
البرٹ آئن سٹائن نے عالم مادی کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اس نے اپنے مطالعے میں پایا کہ کائنات ایک بے حد بامعنی وجود ہے۔ اس کے ہر پہلو میں اتھاہ حکمتیں چھپی ہوئی ہیں۔ یہ حکمت و معنویت کا ئنات میں کہاں سے آئی۔
آئن سٹائن نے کائنات کی بے پایاں حکمت کو دریافت کیا لیکن اس کے حکیم کو وہ دریافت نہ کر سکا۔ اس نے تعجب کے ساتھ کہاـــــ کائنات کے بارے میں سب سے زیادہ حسین تجر بہ جو ہم کو ہوتا ہے، وہ پر اسرار یت کا تجربہ ہے۔
The most beautiful experience we can have is the mysterious.
البرٹ آئن سٹائن کا ایک دوسرا قول اس معاملے میں یہ ہے. فطرت کے بارے میں سب سے زیادہ نا قابل فہم واقعہ یہ ہے کہ وہ ہمارے لیے قابل فہم ہے۔
The most incomprehensible fact about nature is that it is comprehensible.
سائنس داں کو یہ مشکل کیوں پیش آئی، اس لیے کہ کائنات کی معنویت (meaning) کو تو اس کے دماغ نے دریافت کیا، لیکن اس معنوی نظام کے خالق کو وہ دریافت نہ کر سکا۔ اس بنا پر وہ تعجب کے ساتھ کہتا ہے کہ جب کائنات کی معنویت انسان کے لیے قابل مشاہدہ ہے تو اس کے لیے وہ ہستی کیوں نا قابل مشاہدہ ہے جس نے کائنات میں اس معنویت کو پیدا کیا ہے، جب حکمت موجود ہے تو آخر اس کا حکیم کہاں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا کے عقیدے کے بغیر کا ئنات بے معنی بن جاتی ہے۔ یہ صرف خدا کا عقیدہ ہے جو کائنات کی معنویت کو انسان کے لیے قابل فہم بناتا ہے۔ (کتاب معرفت، صفحہ 39)
رسول اللہ کی بعثت
جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم چالیس سال کے ہوئے تو اللہ تعالی نے آپ کے پاس وحی بھیجی اور آپ کو اپنا پیغمبر بنایا۔ پہلی چیز جس سے آپ کی رسالت کی ابتدا ہوئی وہ سچے خواب تھے۔ آپ نیند کی حالت میں جو خواب دیکھتے وہ دن میں بالکل صحیح ثابت ہوتے۔ اس زمانہ میں اللہ تعالی نے تنہائی کو آپ کے لیے محبوب بنا دیا۔ اس زمانہ میں کوئی چیز آپ کو تنہائی سے زیادہ پسندیدہ نہ تھی۔ مکہ سے تقریباً تین میل کے فاصلہ پر غارحرا واقع ہے۔ اکثر آپ وہاں چلے جاتے اور تنہائی میں غور و فکر اور عبادت کرتے رہتے۔
رمضان کا مہینہ تھا۔ رات کے وقت آپ حسب معمول غارحرا میں تھے کہ جبر یل(فرشتہ) اللہ کی طرف سے آپ کے پاس آئے۔ اس وقت آپ غار حرا میں سوئے ہوئے تھے۔ جبریل نے آپ کو اٹھایا اور کہا کہ اقراء( پڑھ )۔ آپ نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس کے بعد انھوں نے تین بار آپ کو اپنے سینے سے لگایا یہاں تک کہ آپ کی کیفیت بدل گئی۔ اس کے بعد حضرت جبریل نے آپ کو وہ سورہ پڑھائی جو موجودہ قرآن میں العلق (96) کے نام سے شامل ہے۔
آپ غار حرا سے واپس ہوکر اپنے مکان پر آئے اور اپنی اہلیہ حضرت خدیجہ سے پورا واقعہ بیان فرمایا۔ انھوں نے کہا کہ آپ کو مبارک ہو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں خدیجہ کی جان ہے، بے شک میں اس بات کی امید رکھتی ہوں کہ آپ اس امت کے نبی ہوں گے۔ حضرت خدیجہ آپ کی سچائی اور آپ کی سنجیدگی کا اتنا زیادہ تجربہ کر چکی تھیں کہ انھیں آپ کی روایت کو ماننے میں کوئی تامل نہ ہوا۔ وہ اس کو سنتے ہی فورا آپ کی مومن بن گئیں۔ (سیرت رسول، صفحہ 20)
رسول کی بعثت کا مقصد
ایک روایت کے مطابق، دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے۔ ان تمام پیغمبروں کا مقصد صرف ایک تھاـــ انسان کو خدا کے تخلیقی پلان (Creation plan of God) سے آگاہ کرنا۔ تمام پیغمبروں نے مشترک طور پر یہی ایک کام کیا۔ انھوں نے بتایا کہ خدا نے کیوں انسان کو پیدا کیا ہے۔ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ موت سے پہلے کے دور حیات (pre-death period ) میں انسان سے کیا مطلوب ہے، اور موت کے بعد کے دور حیات (post-death period) میں اس کے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ اسی کو قرآن میں انذار اور تبشیر کہا گیا ہے۔ یہی انذار اور تبشیر تمام پیغمبروں کا مشترک مشن تھا۔ اس کے سوا کوئی چیز اگر کسی پیغمبر کی زندگی میں نظر آتی ہے، تو وہ اس کی زندگی کا ایک اضافی پہلو (relative part) ہے، نہ کہ حقیقی پہلو (real part)۔
موجودہ دنیا میں انسان کی دو ضرورتیں ہیں۔ ایک ہے اس کی مادی ضرورت، جس کی تکمیل فزیکل سائنس (physical science) کے ذریعے ہوتی ہے۔ انسان کی دوسری ضرورت یہ ہے کہ اس کے پاس وہ خدائی ہدایت (divine guidance) موجود ہو جس کا اتباع کر کے وہ آخرت میں کامیاب زندگی حاصل کرے۔ اس دوسری ضرورت کی تکمیل پیغمبرانہ الہام سے ہوتی ہے۔ تقریب فہم کے لیے اس کو ہم ریلیجئس سائنس (religious science) کہہ سکتے ہیں۔
فزیکل سائنس میں آخری سائنٹسٹ (final scientist) کا لفظ ایک غیر متعلق (irrelevant) لفظ ہے۔
فزیکل سائنس میں مسلسل طور پر ترقی کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس لیے اس میدان میں کوئی سائنٹسٹ آخری سائٹسٹ نہیں ہوسکتا۔ اس کے بر عکس، ریلیجئس سائنس ایک ہی خدائی ہدایت (divine guidance) پر مبنی ہوتی ہے۔ یہ خدائی ہدایت غیر متغیر طور پر ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے۔ اس لیے ریلیجئس سائنس میں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ کوئی آخری پیغمبر (final prophet) ہو جو انسان کو خدا کا آخری کلام (final word) دے دے، اور انسانیت کا قافلہ اس کی رہ نمائی میں بھٹکے بغیر مسلسل طور پر اپنے سفر حیات کو جاری رکھے۔ ( الرسالہ، اکتوبر 2011 ،صفحہ 7)
اثبات رسالت
خدا کے بعد مذہب کا دوسرا اہم عقیدہ رسالت یا وحی و الہام ہے، یعنی یہ عقیدہ کہ خدا انسانوں میں سے کسی انسان پر اپنا کلام اتارتا ہے، اور اس کے ذریعہ سے تمام انسانوں کو اپنی مرضی سے باخبر کر تا ہے۔ اب چونکہ بہ ظاہر ہمیں خدا اور صاحب وحی کے درمیان ایسا کوئی "تار" نظر نہیں آتا جس پر خدا کا پیغام سفر کر کے انسانوں تک پہنچتا ہو۔ اس لیے بہت سے لوگ اس دعوے کے صحیح ہونے سے انکار کردیتے ہیں، حالاں کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو ہم اپنے معلوم حقائق کی مدد سے بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں۔
ہمارے گرد و پیش ایسے واقعات موجود ہیں، جو ہمارے محدود دائرۂ سماعت سے کہیں بالاتر ہیں، مگر اس کے باوجود انھیں اخذ کیا جاسکتا ہے۔ انسان نے آج ایسے آلات ایجاد کر لیے ہیں جن سے وہ ایک مکھی کے چلنے کی آواز میلوں دور سے اس طرح سن سکتا ہے، جیسے وہ اس کے کان کے پردہ پر رینگ رہی ہو، حتیٰ کہ وہ کائناتی شعاعوں (Cosmic Rays) کے تصادم تک کو ریکارڈ کر لیتا ہے۔ اس طرح کے آلات اب کثرت سے انسان کو حاصل ہو چکے ہیں، جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ اخذ و سماعت کی ایسی صورتیں بھی مکن ہیں جو معمولی حواس کے ذریعے ایک شخص کے لیے ناممکن اور ناقابل قیاس ہوں۔
پھر یہ مخصوص ذرائع ادراک صرف مشینی آلات تک محدود نہیں، بلکہ حیوانوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ فطرت نے خود ذی حیات اشیا کے اندر ایسی طاقتیں رکھی ہیں۔ بے شک عام انسان کے حواس بہت محدود ہیں مگر جانوروں کے حواس کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ کتا اپنی متجسس ناک سے اس جانور کی بو سونگھ لیتا ہے جو راستہ سے نکل گیا۔ چنانچہ کتے کی اس صلاحیت کو جرائم کی تفتیش میں استعمال کیا جاتا ہے۔ چور جس تالے کو توڑ کر کمرے میں گھسا ہے، اس تالے کو جاسوسی کتے (Scott Dog) کو سونگھایا جاتا ہے اور اس کے بعد اسے چھوڑ دیا جاتاہے، وہ سیکڑوں انسانوں کے درمیان ٹھیک اس شخص کو تلاش کرکے اس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے، جس نے اپنے ہاتھ سے تالے کوچھوا تھا۔ کتنے جانور ہیں جو ایسی آوازیں سنتے ہیں، جو ہماری قوت سماعت سے باہر ہیں۔
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جانوروں میں اشراق (Telepathy) کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ ایک مادہ پتنگے (Moth) کو کوٹھے میں کھلی کھڑکی کے پاس رکھ دیجئے، وہ کچھ مخصوص اشارے کرے گی۔ یہ اشارے اسی نوع کے نر پتنگے حیرت انگیز فاصلے سے سن لیں گے اور اس کا جواب دیں گے۔ جھینگر اپنے پاؤں یا پر ایک دوسرے پر رگڑ تا ہے، رات کے سناٹے میں آدھے میل دور تک یہ آواز سنائی دیتی ہے، یہ چھ سو ٹن ہوا کو ہلاتا ہے، اور اس طرح اپنے جوڑے کو بلا تا ہے۔ اس کی مادہ جو بہ ظاہر بالکل خاموش ہوتی ہے، مگر پراسرار طریقہ پر کوئی ایسا بے آواز جواب دیتی ہے جونر تک پہنچ جاتا ہے۔ نر اس پراسرار جواب کو جسے کوئی بھی نہیں سنتا، حیرت انگیز طور پر سن لیتا ہے اور ٹھیک اسی سمت میں اس کے مقام پر جاکر اس سے مل جاتا ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ایک معمولی ٹڈے (Grasshopper) کی قوت سماعت اس قدر تیز ہوتی ہے کہ ہائیڈروجن کے ایٹم کے نصف قطر کے برابر کی حرکت تک کو وہ محسوس کرلیتا ہے۔
اس طرح کی کثیر مثالیں موجود ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ ایسے ذرائع مواصلات ممکن ہیں جو بہ ظاہر نظر نہ آتے ہوں مگر اس کے باوجود وہ بہ طور واقعہ موجود ہوں اور مخصوص حواس رکھنے والے ذی حیات اس کا ادراک کر لیتے ہوں، ان حالات میں اگر ایک شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ "مجھے خدا کی طرف سے ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں جن کو عام لوگ نہیں سنتے"، تو اس میں اچنبھے کی کیا بات ہے۔ اگر اس دنیا میں ایسی آوازیں ممکن ہیں جوآلات سنتے ہوں، مگر انسان نہ سنتے ہوں۔ اگر یہاں ایسی پیغام رسانی ہو رہی ہے جس کو ایک مخصوص جانور تو سن لیتا ہے، مگر دوسرا اسے نہیں سنتا، تو آخر اس واقعہ میں استبعاد کا کیا پہلو ہے کہ خدا اینی مصالح کے تحت بعض مخفی ذرائع سے ایک انسان تک اپنا پیغام بھیجتا ہے، اور اس کے اندر ایسی صلاحیتیں پیدا کر دیتا ہے کہ وہ اس کو اخذ کر سکے اور اس کو پوری طرح سمجھ کر قبول کرلے۔ حقیقت یہ ہے کہ وحی و الہام کے تصور اور ہمارے مشاہدات و تجربات میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، بلکہ یہ اسی قسم کے مشاہدات کی ایک مخصوص صورت ہے، جس کا مختلف شکلوں میں ہم تجربہ کر چکے ہیں۔ یہ ایک امکان کو واقعہ کی صورت میں تسلیم کرنا ہے۔
پھر اشراق اور غیب دانی کے تجربات بتاتے ہیں کہ یہ چیز صرف حیوانوں تک محدود نہیں بلکہ انسان کے اندر بھی بالقوہ اس قسم کی خصوصیات موجود ہیں۔ ڈاکٹر الکسس کیرل کے الفاظ میں "فرد کی نفسیاتی سرحدیں مکاں اور زماں کے اندر محض فرضی (Suppositions) ہوتی ہیں" (ص 244) چنانچہ ایک عامل کسی آواز اور خارجی ذریعہ کے بغیر اپنے معمول پر توجہ ڈالتا ہے، جس کے نتیجہ میں وہ اس پر مصنوعی نیند (Hypnotic Sleep) طاری کر سکتا ہے، اس کو ہنسا یا رلا سکتا ہے، اس کے ذہن میں مخصوص خیالات القا کر سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں نہ کوئی ظاہری آلہ استعمال ہوتا اور نہ عامل اور معمول کے سوا کوئی شخص اسے محسوس کرتا ہے۔ پھر اسی نوعیت کا واقعہ بندے اور خدا کے درمیان کیوں ہمارے لیے ناقابل تصور ہو۔ خدا کو ماننے اور انسانی زندگی میں اشراقی قوت کا تجربہ کرلینے کے بعد ہمارے لیے وحی و الہام سے انکارکی کوئی بنیاد باقی نہیں رہتی۔ (مذہب اور جدید چیلنج، صفحہ 122 تا 124)
علم قلیل
قرآن کی سورہ الاسراء میں اعلان کیا گیا تھا کہ انسان کو صرف علم قلیل حاصل ہے. (الاسراء-17: 85)
اس کا مطلب یہ تھا کہ انسان تخلیقی طور پر محدودیت (limitations) کا حامل ہے۔ اپنی اس فطری محدودیت کی وجہ سے وہ صرف علم قلیل تک پہنچ سکتا ہے، علم کثیر کا حصول اس کے لیے ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں انسان کو خدا کے پیغمبر کے اوپر ایمان لانا چاہیے۔ پیغمبر وحی الٰہی کے ذریعے اس بات کو جان لیتا ہے جس کو انسان اپنی محدودیت کی بنا پر نہیں جان سکتا۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کی ہدایت پیغمبر کے ذریعے حاصل کرے۔ اس معاملے میں انسان کے لیے اس کے سوا کوئی اور انتخاب (option) موجود نہیں۔
قرآن میں یہ بات ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں کہی گئی تھی۔ اس وقت انسان اس کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوا۔ قرآن کی اس تنبیہ کے باوجود بڑے بڑے فلسفیانہ دماغ علم کلی کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ آخر کار کئی ہزار سال کی ناکام کوشش کے بعد جدید سائنس ظہور میں آئی۔ جدید سائنس نے دور بین اور خورد بین جیسے بہت سے طریقے دریافت کیے۔ اب یہ یقین کیا جانے لگا کہ سائنسی مطالعے کے ذریعے انسان اس مطلوب علم تک پہنچ جائے گا، جہاں تک پچھلے زمانے کا انسان نہیں پہنچ سکا تھا۔
یہ تلاش نیوٹن کے بعد سے عالم کبیر (macro world) کی سطح پر چلتی رہی۔ آخر کار آئن اسٹائن (وفات: 1955) کا زمانہ آیا، جب کہ انسانی علم عالم صغیر (micro world) تک پہنچ گیا۔ اب یہ معلوم ہوا کہ جس مادے کو پہلے قابل مشاہدہ (visible) سمجھا جاتا تھا، وہ بھی اپنے آخری تجزیے میں قابل مشاہدہ نہیں۔ یہاں پہنچ کر یہ مان لیا گیا کہ سائنسی طریقہ انسان کو علم کلی تک پہنچانے میں حتمی طور پر نا کام ہے۔
سائنس کی یہ علمی نا کامی پہلے صرف عالم صغیر کی حد تک دریافت ہوئی تھی مگر بعد کی تحقیقات نے بتایا کہ خود عالم کبیر بھی انسان کے لیے حتمی طور پر نا قابل مشاہدہ ہے۔ سائنس کے آلات مادی دنیا کے بارے میں انسان کو کلی علم تک پہنچانے سے عاجز ہیں۔ انسان جس طرح عالم صغیر کے بارے میں علم قلیل رکھتا ہے، اسی طرح وہ عالم کبیر کے بارے میں بھی صرف علم قلیل کا حامل ہے، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔(الرسالہ، اکتوبر 2011، صفحہ 19)
ختم نبوت
اسلامی عقیدے کے مطابق، پیغمبروں کی آمد کا سلسلہ اسی وقت سے شروع ہو گیا جب کہ انسان کو پیدا کر کے اس موجودہ زمین پر آباد کیا گیا ہے۔ آدم، پہلے انسان تھے اور پہلے پیغمبر بھی۔ اس کے بعد ہر دور اور ہرنسل میں مسلسل طور پر پیغمبر آتے رہے اور لوگوں کو خدا کا پیغام دیتے رہے. (المومنون-23: 44) ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا۔ آپ پر خدا نے اپنی کتاب قرآن اتاری۔ اس کتاب میں یہ اعلان کر دیا گیا کہ محمد، اللہ کے رسول ہیں، اور اسی کے ساتھ وہ نبیوں کے خاتم (الاحزاب-33: 40) کی حیثیت رکھتے ہیں۔
خاتم یا سیل (seal) کے معنی کسی چیز کو آخری طور پر مہر بند کرنے کے ہیں، یعنی اس کا ایسا خاتمہ جس کے بعد اس میں کسی اور چیز کا اضافہ ممکن نہ ہو:
Seal: To close completely
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد ختم نبوت کا اعلان کر تے ہوئے فرمایا کہ: لا نبي بعدي (صحيح البخاري، كتاب الأنبياء)، یعنی میرے بعد کوئی اور نبی نہیں۔
ختم نبوت کا مطلب ختم ضرورت نبوت ہے۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ اس لیے ختم کر دیا گیا کہ اس کے بعد نئے نبی کی آمد کی ضرورت باقی نہ رہی۔ جیسا کہ معلوم ہے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے ساتھ استثنائی طور پر ایسا ہوا کہ وہ کامل طور پر محفوظ ہو گیا۔ اور جب دین خداوندی محفوظ ہو جائے، تو اس کے بعد یہی محفوظ دین، ہدایت حاصل کرنے کا مستند ذریعہ بن جاتا ہے۔ خدا کی ہدایت کو جاننے کے لیے اصل ضرورت محفوظ دین کی ہے، نہ کہ پیغمبر کی۔ قرآن کی ایک آیت میں اس حقیقت کو واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔
قرآن کی سورہ المائدہ میں ایک آیت ہے، جس کے بارے میں صحیح روایات میں آیا ہے کہ وہ قرآن کی آخری آیت ہے۔ اس آیت کے الفاظ یہ ہیں۔ اليـوم أكملت لكم دينكم، وأتممت علیکم نعمتی، ورضيت لكم الإسلام ديناً. (المائدہ-5: 3) قرآن کی اس آیت کے تین جز ہیں
1۔ آج میں نے تمھارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا، یعنی یہ آیت قرآن کی آخری آیت ہے۔ اس آیت کے ساتھ قرآن کا نزول مکمل ہو گیا۔
2۔ میں نے تمھارے اوپر اپنی نعمت کو پورا کر دیا، یعنی قرآن کے گرد، اصحاب رسول کی ایک مضبوط ٹیم جمع ہوگئی، جوقر آن کی حفاظت کی ضامن ہے۔
3۔ اور میں نے اسلام کو بہ حیثیت دین تمھارے لیے پسند کر لیا، یعنی اب اسلام کو ہمیشہ کے لیے مستند دین خداوندی کی حیثیت حاصل ہوگئی۔
قرآن میں پچیس پیغمبروں کا ذکر ہے۔ حدیث کے مطابق، قدیم زمانے میں جو پیغمبر دنیا میں آئے، ان کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی۔ مگر ان پیغمبروں پر بہت کم لوگ ایمان لائے۔ اس بنا پر ان پیغمبروں کے ساتھ کوئی مضبوط ٹیم نہ بن سکی، جو ان کے بعد ان کی لائی ہوئی کتاب کی ضامن بنے۔ چناں چہ پچھلے پیغمبروں کی لائی ہوئی کتابیں اور ان کے صحیفے محفوظ نہ رہ سکے۔
پیغمبر آخر الزماں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب کا معاملہ ایک استثنائی معاملہ تھا۔ آپ 570 عیسوی میں عرب کے شہر مکہ میں پیدا ہوئے۔ اس وقت یہاں جو لوگ (بنو اسماعیل) آباد تھے، ان کی پرورش تمدن سے دور صحرائی ماحول میں ہوئی۔ اس بنا پر وہ اپنی اصل فطرت پر قائم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام کو استثنائی طور پر ساتھ دینے والوں کی بڑی تعداد حاصل ہوگئی۔ بائبل میں اس استثنائی واقعے کو بطور پیشین گوئی ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےـــ وہ دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا:
He came with ten thousand of saints (Deuteronomy 33:2)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلی صدی ہجری میں مکہ کو چھوڑ کر مدینہ جانا پڑا۔ ہجرت (622ء) کے آٹھویں سال آپ فاتحانہ طور پر دوبارہ مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت آپ کے ساتھ دس ہزار صحابہ موجود تھے۔ اس کے بعد اپنی وفات سے تقریباً ڈھائی مہینے پہلے جب آپ نے آخری حج ادا کیا اور عرفات کے میدان میں اپنے اصحاب کو خطاب فرمایا، اس وقت آپ کے اصحاب کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ اس کے بعد 632ء میں جب مدینہ میں آپ کی وفات ہوئی، اس وقت عرب کے تقریباً تمام لوگ اسلام میں داخل ہو چکے تھے اور آپ کے اصحاب کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ ہو گئی تھی۔ (الرسالہ، اکتوبر 2011، صفحہ 2 تا 4)
حفاظتِ قرآن
پچھلے زمانے میں انسانوں کی رہ نمائی کے لیے جو پیغمبر آئے، وہ سب اپنے ساتھ خدا کی کتاب اور صحیفے لائے۔ مگر یہ کتا ہیں اور صحیفے بعد کو محفوظ نہ رہ سکے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی بھی پیغمبر کے گرد اس کے ساتھیوں کی کوئی مضبوط ٹیم اکٹھا  نہ ہوسکی۔ پیغمبر اسلام کے ساتھ استثنائی طور پر ایسا ہوا کہ آپ کو اپنے پیروؤں (followers) کی ایک مضبوط ٹیم حاصل ہوگئی۔ یہ ٹیم قرآن کی حفاظت کی ضامن بن گئی۔
ایک مستشرق (orientalist) نے اس معاملے کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد لکھا ہے کہ پیغمبر اسلام کی وفات کے فوراً بعد آپ کے اصحاب حفاظت قرآن کے لیے سرگرم ہو گئے۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے تاریخ میں پہلی بار ڈبل چیکنگ سسٹم (double checking system)
کا طریقہ اختیار کیا۔ یہ ایک ایسا طریقہ تھا جس کے بعد قرآن کی حفاظت میں کسی قسم کا احتمال سرے سے باقی نہیں رہتا۔
632 عیسوی میں مدینہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو اس وقت ہزاروں کی تعداد میں ایسے اصحاب رسول موجود تھے جن کو پورا قرآن بہ خوبی طور پر یاد تھا۔ نیز یہ کہ پیمبر اسلام کا طریقہ یہ تھا کہ جب بھی قرآن کا کوئی حصہ اترتا تو آپ اسی وقت اس کو قدیم طرز کے کاغذ (قرطاس) پر لکھوا دیتے۔ اصحاب رسول نے یہ کیا کہ زید بن ثابت الانصاری (وفات: 665ء) کی قیادت میں ایک ٹیم بنائی۔ اس ٹیم نے قرآن کی تمام تحریروں کو اکھٹا کیا۔ اس کے بعد انھوں نے یہ کیا کہ قرآن کے تحریری ذخیرے کا تقابل حافظے سے کیا، اور حافظے کا تقابل تحریری ذخیروں سے کیا۔ اس ڈبل چیکنگ کے بعد انھوں نے قرآن کا ایک مستند نسخہ (authentic copy) لکھ کر تیار کیا۔ یہ نسخہ چوکور صورت میں تھا، اس لیے اس کو ربعہ (square) کہا جا تا تھا۔ یہ ربعہ، قرآن کا مستند نسخہ قرار پایا۔ لوگوں نے اس نسخے کی مزید نقلیں تیار کیں۔ اس طرح وہ مسلم دنیا میں ہر طرف پھیل گیا۔ (الرسالہ، اکتوبر 2011، صفحہ 5)
دعوائے نبوت نہیں
یہ بات نہایت اہم ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پورے تاریخی دور میں ساری دنیا میں کوئی بھی شخص ایسا پیدا نہیں ہوا جو اپنی زبان سے یہ دعوی کرے کہ ــــ میں خدا کا پیغمبر ہوں۔ اور جب کوئی شخص نبوت کا دعوی کرنے والا نہیں اٹھا تو پیغمبر اسلام کا یہ دعوی اپنے آپ ایک ثابت شدہ حقیقت بن گیا۔ آپ کے اس اعلان کے بعد تقریباً چودہ سو سال گزر چکے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی بھی شخص ایسا نہیں اٹھا جو اپنی زبان سے یہ اعلان کرے کہ ــــ میں خدا کا پیغمبر ہوں۔ اس طرح آپ کا دعوی گویا کہ بلا مقابلہ اپنے آپ ثابت ہو گیا۔
اس سلسلے میں کچھ نام بتائے جاتے ہیں، جن کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ انھوں نے نبوت کا دعوی کیا۔ مگر یہ خیال درست نہیں۔ مثلاً کہا جا تا ہے کہ آپ کے زمانے میں یمن کے مسیلمہ (وفات: 633ء) نے نبی ہونے کا دعوی کیا۔ لیکن کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کسی مستقل نبوت کا دعوی نہیں کیا تھا۔ اس نے صرف یہ کہا تھا کہ میں محمد کے ساتھ نبوت میں شریک کیا گیا ہوں۔ اس طرح اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل حیثیت دے دی۔ اور جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی شرکت نبوت سے انکار کیا تو اس کا دعویٰ اپنے آپ ختم ہو گیا۔
اسی طرح آپ کے زمانے میں یمن میں ایک اور شخص پیدا ہوا، جس کے متعلق کہا جا تا ہے کہ اس نے نبوت کا دعوی کیا تھا۔ یہ شخص اسودالعنسی (وفات: 632 ء ) تھا۔ تاہم تاریخ کی کتابوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس نے خود اپنی زبان سے یہ کہا تھا کہ ــــ میں خدا کا پیغمبر ہوں۔ میرے مطالعے کے مطابق، اس کا کیس ارتداد اور بغاوت کا کیس تھا، نہ کہ دعوائے نبوت کا کیس۔
اسی طرح آپ کے بعد ابوالمتنبی (وفات: 965ء) کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ اس نے اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا، مگر یہ درست نہیں۔ اصل یہ ہے کہ المتنبی ایک شاعر تھا اور نہایت ذہین آدمی تھا۔ اس نے مزاحیہ طور پر ایک بار اپنے کو نبی جیسا بتایا، بعد کو اس نے اپنے اس قول کو خود ہی واپس لے لیا۔
اسی طرح کہا جا تا ہے کہ موجودہ زمانے میں ایسے دو افراد پیدا ہوئے، جنھوں نے اپنے نبی ہونے کا دعوی کیاــــ بہاء اللہ خاں (وفات: 1892) اور مرزا غلام احمد قادیانی ( وفات: 1908)، مگر تاریخی ریکارڈ کے مطابق، یہ بات درست نہیں۔
بہاء اللہ خاں نے صرف یہ کہا تھا کہ ــــ میں مظہر حق ہوں۔ انھوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں۔ اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے کبھی اپنی زبان سے یہ نہیں کہا کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں۔ انھوں نے صرف یہ کہا تھا کہ میں ظل نبی ہوں، یعنی میں نبی کا سا یہ ہوں۔ اس طرح کے قول کو ایک قسم کی دیوانگی تو کہا جا سکتا ہے، لیکن اس کو دعوائے نبوت نہیں کہا جا سکتا۔ (الرسالہ، اکتوبر 2011ء صفحہ11 تا 13)
ہندو گروؤں کی مثال
موجودہ زمانے میں ہندوؤں میں کچھ ایسے افراد پیدا ہوئے جن کے متعلق کہا گیا کہ وہ وقت کے پیغمبر ہیں، مگر یہ بات بھی خلاف واقعہ ہے۔ مثلاً دہلی کے نر نکاری بابا گر بچن سنگھ ( وفات: 1980) کے بارے میں ایک پمفلٹ مجھے ملا، جس میں نر نکاری بابا کو وقت کا پیغمبر (Prophet of the time) لکھا گیا تھا۔ میں ان سے ان کے دہلی کے آشرم میں ملا، میں نے ان کی تقریر سنی اور ان سے گفتگو کی۔ لیکن معلوم ہوا کہ نر نکاری بابا کے کچھ معتقدین ان کے بارے میں ایسا کہتے ہیں۔ لیکن خود نرنکاری بابا نے اپنی زبان سے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ــــ میں خدا کا پیغمبر ہوں۔
اسی طرح کیرلا ( تری وندرم ) میں ایک مشہور ہندو گرو تھے۔ ان کا نام بر ہما شری کرونا کرا (وفات:1999) تھا۔ تری وندرم میں ان کا ایک بڑا آشرم تھا، جس کا نام شانتی گری آشرم ہے۔ ان کے مشن کے کچھ لوگ مجھ سے دہلی میں ملے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے بابا جی وقت کے پیغمبر ہیں۔ اس کے بعد میں نے خود کیرلا کا سفر کیا اور تری وندرم میں ان کے آشرم میں ان سے ملا۔ میں نے ان کے معتقدین سے پیشگی طور پر بتا دیا تھا کہ میں کس مقصد سے وہاں جارہا ہوں۔
میں نے یہ سفر فروری 1999 میں کیا تھا۔ شانتی گری آشرم میں پہنچ کر میں ان سے ملا۔ مجھے ایک خصوصی کمرے میں لے جایا گیا، جہاں بابا جی کے ساتھ ان کے تقریباً پچاس معتقدین موجود تھے۔ گفتگو کے دوران میں نے بابا جی بر ہما شری کرونا کرا سے ایک سوال کیا۔ اس کا جواب انھوں نے واضح لفظوں میں دیا۔ وہ سوال و جواب یہ تھا:
Q: Do you calim that you are a prophet of God in the same sense
in which Moses, and Jesus, and Muhammad claimed they were prophets of God.
A: No, I don’t make any such claim.
اس گفتگو میں میں نے ڈائریکٹ طور پر ان سے پوچھا کہ کیا آپ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ خدا کے پیغمبر ہیں۔ انھوں نے صاف طور پر کہا کہ نہیں، میں ایسا دعویٰ نہیں کرتا۔ جب انھوں نے اس طرح کہہ دیا تو اس کے بعد میرا سوال و جواب ختم ہو گیا۔ اس کے بعد میں خاموشی کے ساتھ بیٹھ کر ان کی باتیں سنتا رہا اور پھر چلا آیا۔ اس سفر میں شانتی گری آشرم میں میں نے دو دن قیام کیا۔
کیا وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پوری تاریخ میں کوئی ایسا شخص نہیں اٹھا جو اپنی زبان سے یہ دعویٰ کرے کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں۔ اس پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ ایسا کلام اتنا زیادہ غیر معمولی ہے کہ کوئی غیر پیغمبر اس کو اپنی زبان سے ادا نہیں کر سکتا۔
جس طرح خدا کے سوا کوئی اور شخص یہ نہیں کہ سکتا کہ میں خدائے رب العالمین ہوں، اسی طرح کوئی شخص یہ بھی نہیں کہ سکتا کہ میں خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر (Prophet of God) ہوں۔ پیغمبری کا دعویٰ صرف کوئی سچا پیغمبر ہی کر سکتا ہے۔ کوئی غیر پیغمبر شخص دوسرے دوسرے الفاظ بول سکتا ہے، لیکن وہ یہ نہیں کہ سکتا کہ ــــ میں خداوند عالم کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں۔ (الرسالہ، اکتوبر 2011، صفحہ 13 تا 14)
تحفظِ نبوت، تحفظِ کارِ نبوت
موجودہ زمانے میں مسلم تنظیمیں اور مسلم ادارے جگہ جگہ تحفظ ختم نبوت کے نام سے جلسے کر رہے ہیں۔ ان موقعوں پر مسلمانوں کی بھیڑ اکھٹا ہوتی ہے، مقررین پر جوش تقریر یں کرتے ہیں۔ وہاں یہ اعلان کیا جا تا ہے کہ ہم ہر قیمت پر ختم نبوت کا تحفظ کر یں گے۔ مگر اس قسم کے جلسے اور تقریریں سراسر بے معنی ہیں۔ ان کا تعلق نہ اسلام سے ہے اور نہ عقل سے۔
قرآن میں اعلان کیا گیا تھا کہ اللہ خاتم النبیین کی حفاظت فرمائے گا. (المائدہ-5: 67) اللہ اپنے آخری کلام قرآن کو ہمیشہ محفوظ رکھے گا. (الحجر-9: 15) اللہ کا یہ فیصلہ پورا ہوا۔ دنیا میں ایسے حالات پیدا ہوئے جس کے بعد خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم پوری طرح محفوظ ہوگئی۔ قرآن پرنٹنگ پریس کے زمانے میں پہنچ کر آخری طور پر محفوظ ہو گیا۔ اب مسئلہ ختم نبوت کے تحفظ کا نہیں ہے، بلکہ اب مسئلہ صرف یہ ہے کہ کار نبوت (دعوت الی اللہ) کو ہر زمانے میں مسلسل طور پر جاری رکھا جائے۔
کار نبوت سے مراد وہی کام ہے جس کو قرآن میں تبلیغ ما انزل اللہ (المائدہ-5: 67) کہا گیا ہے۔ پیغمبر اسلام کا مشن در اصل دعوتی مشن تھا۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس دعوتی مشن کو ہر قوم میں اور ہر زمانے میں جاری رکھیں۔ وہ دعوت و تبلیغ کے کام میں پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم مقامی کریں۔ یہی کر نے کا اصل کام ہے اور یہی امت محمدی کی اصل ذمے داری۔
اصل یہ ہے کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا، لیکن پیغام نبوت کا سلسلہ جاری ہے۔ اب مسلمانوں کی ذمے داری یہ نہیں ہے کہ وہ نعت خوانی کر یں، یا گستاخ رسول کو قتل کر یں، یا تحفظ ختم نبوت کے جلسے کریں۔ یہ سب غیر متعلق کام ہے، اصل کام یہ ہے کہ تمام انسانوں تک خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے قرآن کو پہنچایا جائے، ہر زمانے کے لوگوں کو اس کے پیغام سے باخبر کیا جائے۔ تحفظ، خدا کا کام ہے اور دعوت اہل اسلام کا کام۔ (الرسالہ، مارچ 2011، صفحہ 32)
(18.09.2023AD=02.03.1445 AH)
***
گذشتہ آئینہ خانہ یہاں پڑھیں:غلطی کرنا بھی انسان کا حَسین امتیاز

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے