مقابلے کی صحیح نوعیت: خود احتسابی کا عمل

مقابلے کی صحیح نوعیت: خود احتسابی کا عمل

عبدالرحمٰن
(سابق چیف مینیجر، الہ آباد بینک)
دہلی- این سی آر
Email:
rahman20645@gmail.com

یہ بات حقائق کے اعتبار سے درست بھی ہے اور علمی اعتبار سے قابل ستائش بھی کہ
"مقابلہ کرنا ہے تو اپنے آپ سے کیجیے."
یہ خوب صورت جملہ راقم الحروف نے معروف قلم کار، محترمہ علیزے نجف کی ایک مختصر سی فیس بُک پوسٹ میں پڑھا ہے۔ مذکورہ جملہ استعمال کرنے کے لیے خلوص نیت سے ان کا شکریہ۔ بے شک، اپنے آپ سے کیا جانے والا مقابلہ ہی اصل مقابلہ ہے، جو دوسرے تمام مقابلوں کو آسان تر بنا دیتا ہے۔
دراصل، خود سے مسابقت (competition) کرنا کسی انسان کو باہری دنیا میں مقابلے کے لیے تیار کرنے کے مترادف ہے۔ خود سے مسابقت گویا دوسرے افراد کے ساتھ بالواسطہ (indirect) مسابقت ہے۔ خود سے مقابلہ کرنا گویا یہ عہد کرنا ہوتا ہے کہ ماضی میں کی گئیں غلطیاں اور کوتاہیاں حال اور مستقبل میں دوہرائی نہیں جائیں گی۔ ماضی میں متعدد وجوہات سے منفی سرگرمیوں میں ملوث رہنے کی وجہ سے شخصیت میں جو بگاڑ یا کم زوری پیدا ہوجاتی ہے، حقیقت میں وہی ہمیں مسابقت کی دنیا میں قیام پذیر ہونے سے وقتاً فوقتاً، محروم کرتی رہتی ہے۔ اس لیے، واضح رہے کہ شخصیت کی دل فریبی اور مضبوطی کا انحصار اندرونی فکر و نظر کی پاکیزگی اور باہری اعمال کے صالح ہونے پر ہوتا ہے۔ حاصل شدہ نعمتوں پر اپنے رب کا شکر بجا لانے کا مسلسل عمل بھی اسی میں شامل ہے۔ اسی کے ساتھ، یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اپنے دوست/احباب اور دیگر افراد سے ملنے والی مختلف قسم کی معاونت کا مخلصانہ اعتراف بھی شکرِ خداوندی میں ہی شمار کیا جاتا ہے۔
بلاشبہ، باہری دنیا سے تجربات و مشاہدات کا سبق حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کے لیے ان ذرائع علم سے اچھی طرح فیض یاب ہونے کی سعی بھی کرنی چاہیے، لیکن یاد رہے کہ اپنی زندگی کو خوش گوار اور بامعنی بنانے کے لیے جدوجہد کا عملی جامہ خود ہی زیب تن کرنا پڑتا ہے۔ رات کے اندھیروں اور تنہائی کی حالت میں کی گئی سنجیدہ پڑھائی، دن کے اجالوں اور محفلوں کے درمیان اکثر انعام و اکرام سے نوازے جانے کا سبب بن جاتی ہے۔
پہلے اپنی سابقہ حیثیت یا کارکردگی کا موجودہ حیثیت یا کارکردگی سے خود کا مقابلہ کرنے کے بجائے، کسی بھی شخص کے لیے دوسرے افراد کے ساتھ سیدھے مقابلے میں آجانے کا عمل اکثر اوقات، اس کی شخصیت میں متعدد نفسیاتی پیچیدگیاں (psychological complexities) پیدا ہونے کی وجہ بن سکتا ہے۔ اپنا جائزہ لینے کے بعد، مگر ضروری تیاری کیے بغیر، مد مقابل فریق سے زور آزمائی کرتے ہوئے ہار جانے کی صورت میں، غالب گمان ہے کہ انسان غصہ، حسد، نفرت اور پھر دشمنی کے منفی جذبات کا شکار ہو جائے۔ یہ ایسے خطرناک جذباتی عوامل ہیں جن سے اللہ کی پناہ درکار ہوتی ہے، کیوں کہ یہ انسان کو ذہنی و جسمانی طور پر ناکارہ بنا دینے میں کوئی کسَر نہیں چھوڑتے۔ اس لیے، مقابلے کے میدان میں اترنے سے پہلے، اپنی کام یابی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے پِلس(+) اور مائنَس(-) کا بے لوث علمی و فکری جائزہ لے لیا جائے۔ اسی حکمت عملی کو ہم "اپنے آپ سے مقابلہ کرنے" کی اصطلاح میں بیان کرسکتے ہیں۔
اپنے آپ سے مقابلہ کرنے کا دوسرا نام "احتسابِ خویش" (introspection) ہے، یعنی خود اپنا حساب کرنے کی کیفیت۔ خود احتسابی کا امتیاز یہ ہے کہ وہ باہری تعصبات سے پاک ہوتی ہے، جس کی وجہ سے کسی انسان کے لیے بے رحمی کے ساتھ اپنا حساب کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ صحیح اور پورا حساب تو بلا شبہ، کسی رعایت یا ہم دردی کے ساتھ ممکن نہیں، گویا اس حکمت کا ادراک، منزل کے قریب پہنچ جانا ہے۔
چوں کہ بے رحمی کے ساتھ اپنا حساب کرنے والے افراد کو بھی اپنا مستقبل روشن نظر آنے لگتا ہے، اس لیے، وہ کسی عذر یا رعایت کی طرف دیکھنا بند کر دیتے ہیں۔
جیساکہ اوپر کی سطور میں واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ضروری اور معیاری تیاری کے بغیر "آفاق" میں وقوع پذیر علم و فکر اور عملی نوعیت کے مقابلوں کے میدان میں کود پڑنا اس وقت تک خوش آئند نہیں ہوسکتا جب تک کہ "انفس" میں ہونے والا مقابلہ نہ جیت لیا جائے۔۔۔ عبدالرحمٰن
(09.08.2023AD=21.01.1445 AH)
***
گذشتہ آئینہ خانہ یہاں پڑھیں:مسلمانوں کو لاحق شکایات اور درپیش مسائل

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے