طیب فرقانی کی تحقیقی کاوش

طیب فرقانی کی تحقیقی کاوش

(ابن صفی کردار نگاری اور نمائندہ کردار کی روشنی میں)

نسیم اشک
ہولڈنگ نمبر : 10/9،گلی نمبر:3، جگتدل، 24؍ پرگنہ، مغربی بنگال

ابن صفی اردو ادب کے وہ مایہ ناز ناول نگار ہیں جنھوں نے ناول نگاری کو ایک نئی جہت سے آشنا کرایا۔ ابن صفی کثیرالجہات شخصیت تھے مگر ان کی شہرت کا انحصار ان کے ناولوں پر ہوا۔ ابتدائی دور میں ابن صفی شاعری کے شعبے سے ہی وابستہ تھے مگر شاید ان کے سنگ جسم میں کوئی ناول نگار کا بت کسمسا رہا تھا جس کو انھوں نے خود ہی تراش کر ابن صفی بنا دیا۔ انھوں نے ناول نگاری کو روایت کی جکڑ بندی سے نکال کر زندگی کا ترجمان بنا دیا. ایسی زندگی کا جو کرہ ارض کی راہوں میں اڑے بھی ملتے ہیں اور پڑے بھی۔ ہر ایک طبقے کی نمائندگی ناول نگاری میں کرنی مشکل تھی کیونکہ ان سے قبل ناول نگاری ایسے ترجموں کےحصار سے نہ نکل سکی تھی جو شعور و ادراک کا نہیں بلکہ ذائقے کا خیال رکھتی تھیں۔ ابن صفی optimistic تھے اور وہ ایسے نظریے کے قائل تھے جہاں اندھیروں میں چراغ جلانے کی بات کرنا پاگل پن نہیں بلکہ ہمت و حوصلے سے عبارت تھی، اس لیے ہمیں ابن صفی کے ناولوں میں ایک بہتر سماج کی تشکیل کی خواہش کا اظہار ان کے کرداروں میں ملتا ہے۔ انھوں نے ناول نگاری سے ترقی پسندی کا کام نہیں لیا بلکہ ناول کو ترقی پسند بنا کر جیون کی پگڈنڈیوں پر سرپٹ دوڑنے کو چھوڑ دیا۔ 249 ناولوں کے خالق نے اپنے کرداروں کو زندہ جاوید بنادیا۔ شاید ہی اردو ادب کا کوئی ایسا ناول نگار ہو جس کے کرداروں نے ایسے امرت کے گھڑے پی رکھے ہوں۔ ان کا ناول کرداروں کے گرد اور ان کے کردار ناول کےگرد گھومتے ہیں۔ انھوں نے اس بات کا خود اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنے ناولوں میں حیات و کائنات کے ہی مسائل اٹھاتے ہیں۔
"مجھے اس وقت بڑی ہنسی آتی ہے جب آرٹ اور ثقافت کے علم بردار مجھ سے کہتے ہیں کہ میں ادب کی بھی کچھ خدمت کروں۔ ان کی دانست میں میں شاید جھک مار رہا ہوں۔ حیات و کائنات کا کون سا ایسا مسئلہ ہے جسے میں نے اپنی کسی نہ کسی کتاب میں نہ چھیڑا ہو۔ لیکن میرا طریق کار ہمیشہ عام روش سے الگ تھلگ رہا ہے." (ص۔101)
ابن صفی (اسرار احمد) کے ناولوں میں اسرار کو اہم مقام حاصل ہے۔ عام طور سے جاسوسی ناولوں میں کہانی کو مزیدار بنانے کے لیے جو حربے استعمال کیے جاتے ہیں، ان سے ابن صفی نے اپنے ناول کو بچائے بھی رکھا اور کہانی کو ایسے لوازمات کی ضرورت سے بے نیاز بھی۔ ابن صفی نے ناول کو اپنے کرداروں کے ذریعہ وہ مقبولیت دلائی جس کی تلاش میں کل بھی ناول نگار سرگرداں تھے اور آج بھی ہیں۔ بلاشبہ ناول میں کہانی اور کہانی میں کردار دونوں کی موجودگی اور ناول نگار کا اسلوب ہی اس کی مقبولیت کی وجہیں ہوتی ہیں۔ کرداروں کو اگر زندگی عطا نہیں کی گئی تو ناول خشک ہو جاتا ہے یا یوں کہہ لیں ختم ہوجاتا ہے۔ طیب فرقانی نے ایک اہم کام کیا ہے، ابن صفی کے ناولوں میں کردار نگاری کو اپنا موضوع قلم بنایا ہے۔ واقعی یہ منفرد پیشکش بھی ہے اور قارئین کی دل چسپی کا باعث بھی۔
ادبی بستیاں ابن صفی کے ناولوں سے بہ خوبی واقف ہیں، جاسوسی ناولوں کا ذکر آتے ہی ابن صفی کا ذکر زبان پر آجاتا ہے مگر یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ابن صفی کے ناولوں کے کردار نے وقت کی گرد کو خود پر جمنے نہیں دیا۔ آج بھی ابن صفی کے کئی کرداروں کو لوگ ایسے جانتے ہیں اور ان کے تعلق سے ایسے بے تکلفی سے بات کرے ہیں گویا وہ کردار ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے ہوں۔ اس قدر کرداروں سے مانوسیت یقیناً قابل اعتبار نہیں مگر یہ سچ ہے۔ زمانے کے بدلتے مزاج اور ذائقے نے کئی اصناف کو تہہ خاک کر دیا جس کی زد میں ناول بھی آیا مگر ابن صفی کا دراز قد ناول کو ختم ہونے سے تو نہ بچا سکا مگر اس کے انمٹ نقوش کو تابندگی ضرور دے دی۔
ابن صفی پر کئی کتابیں موجود ہیں لیکن طیب فرقانی کی یہ کتاب الگ نوعیت کی ہے۔ طیب فرقانی ایک محنتی اور حوصلہ مند لکھاری ہیں۔ ان کی تحاریر کو پڑھتے وقت ان کی لگن و محنت کا انکشاف ہوجاتا ہے۔ یہ کتاب چار ابواب میں تقسیم کی گئی ہے۔ پہلے باب میں شخصیت و سوانح، دوسرے میں کردار اور کردار نگاری اور تیسرے باب کو دو ذیلی ابواب میں تقسیم کرکے ابن صفی کی کردار نگاری اور ابن صفی کے ناولوں کے نمائندہ کردار اور چوتھا ابن صفی کے نمائندہ نسوانی کردار۔اس ترتیب کو دیکھ کر ہی مصنف کے ذہنی استحکام کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔
ابن صفی کی حیات کے مختلف گوشوں پر بھر پور روشنی ڈالی گئی ہے اور مضامین کے درمیان حسب ضرورت حوالے بھی پیش کیے گئے ہیں. ابن صفی بی اے کے تعلق سے دل چسپ معلومات شامل ہیں۔ ان کی پیدائش، گھرانہ، تعلیم و تربیت ،ادبی خدمات؛ وہ تمام معلومات شامل ہیں جن سے قاری صفی شناسی کر سکتا ہے۔ کردار کی تعریف کرتے ہوئے موصوف رقم طراز ہیں۔
"کسی عمدہ کردار کے لیے جو سب سے اہم اصول بیان کیا جاتا ہے وہ ہے، کردار کا ‘جیتا جاگتا ہونا’۔کردار ماخوذ، اکتسابی یا انسانی معاشرے سے مستعار لیے گئے ہوں وہ مکمل فرد تو نہیں ہوسکتے لیکن ہم ان سے یہ توقع کرسکتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ زندگی کےقریب ہوں۔"
کرادار وہ عنصر ہے جس میں قاری خود کا یا اپنے کسی شناسا کا عکس دیکھتا ہے اور جب اسے ان کرداروں میں اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا وہ کہانی کے قریب ہوتا جاتا ہے، لہذا کردار کہانی کا ستون ہوتا ہے۔ کردار اور کردار نگاری کے تعلق سے موصوف نے بہت جامع اور مدلل مطالعہ پیش کیا ہے۔ جاسوسی ناول میں مافوق الفطرت عناصر کا ہونا یقینی ہوتا ہے مگر ابن صفی نے اس سے پرہیز کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے ناول پر جاسوسی ناول کا لیبل تو چپکا ہوا ملتا ہے مگر ان کے ناولوں میں کردار زمینی ملتے ہیں. ایک بات اور کہ ابن صفی نے محض بہ غرض تفریح ناول رقم نہیں کیے بلکہ ان کے ناولوں میں سماجی و انسانی فلاح کا ایک صحت مند نظریہ بھی ملتا ہے اور یہ کام انھوں نے اپنی کردار نگاری اور مکالمہ نگاری سے لیا ہے۔ ابن صفی نے اپنے ناولوں کے ذریعہ سماج سدھار کا بیڑہ نہیں اٹھایا مگر سماجی نابرابری، ظلم اور اخلاقی پستی کے خلاف اپنا احتجاج ضرور درج کیا۔ کرداروں میں جان انھوں نے اپنے اسی خیال و فکر کے شراروں سے بھری ہے۔
موصوف نے ابن صفی کے 65 کرداروں کا جائزہ پیش کیا ہے جس میں 47 نسوانی کردار شامل ہیں۔ ابن صفی کے ناولوں کا سحر ایسا ہے کہ عرصہ گزر جانے کے پعد بھی ان کے ناولوں کے کرداروں کی مقبولیت میں ذرا بھی فرق نہیں پڑا۔ یوں تو ابن صفی کے ناولوں میں اور بھی کردار ہیں مگر موصوف نے ان کرداروں کو پیش کیا ہے جن سے ناول کے قارئین واقفیت رکھتے ہیں اور اس کتاب کے مطالعے کے بعد ان تمام کرداروں سے مکرر ملاقات کی ایک صورت نکل آتی ہے۔ جائزے کے لیے تنقیدی شعور و بصیرت کی اشد ضرورت ہوتی ہیں جو موصوف میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ کتاب صوری خوبی کے اعتبار سے دیدہ زیب اور معنویت کے اعتبار سے قابل قدر ہے۔
موصوف نے صفی شناسی کی مزید راہیں ہموار کی ہیں۔ ابن صفی پر ان کی یہ کتاب ان کے ناول میں کردار نگاری پر تاریخی، ثقافتی اور ادبی پش منظر کا، تحقیق کے بنیادی اصول کی پاسداری کرتے ہوئے بہترین جائزہ ہے۔ موصوف کی تحقیقی کاوش کا ظہور پورے شعور کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ مضامین میں آزادانہ ریمارک متاثر کرتے ہیں۔ زبان برجستہ و پر اثر ہے۔
مجھے یقین ہے کہ طیب فرقانی کی اس ادبی خدمت کو حلقۂ سخنوراں میں ضرور اعتبار حاصل ہوگا اور پزیرائی بھی ملےگی۔
***
نسیم اشک کی گذشتہ نگارش:ڈاکٹر شاہین پروین کی "کرشن چندر کی ادبی خدمات" ایک جائزہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے