مسلمانوں کو لاحق شکایات اور درپیش مسائل

مسلمانوں کو لاحق شکایات اور درپیش مسائل

( ایک جامع، واضح اور موثر حل کی تلاش)

عبدالرحمٰن
(سابق چیف مینیجر، الہ آباد بینک)
دہلی – این سی آر
ᴇ-ᴍᴀɪʟ:
rahman20645@gmail.com

بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو، پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی وہ ایسا ہو گیا جیسے کوئی قریبی دوست (سورہ حٰم السجدہ-41: 34)
مندرجہ بالا قرآنی اقتباس میں خالق کائنات، اللہ رب العزت نے اپنے مومن بندوں کے لیے جو ہدایت اور یقین دہانی نازل کی ہے، اس پر پختہ یقین اور سنجیدہ عمل کی صورت میں، کیا معاشرے میں انسانی شکایات عرصہ دراز تک زندہ رہ سکتی ہیں؟
مذکورہ آیت کے حوالے سے کیا کوئی مسلمان یہ کہنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ اس کو اپنے خالق و مالک پروردگار کے بیان پر اعتماد نہیں ہے؟ یقیناً کوئی مومن تو کیا، ایک عام مسلمان بھی اپنے ہوش و حواس میں ہی نہیں، خواب و خیال میں بھی یہ شیطانی حوصلہ نہیں کر سکتا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کوئی مسلمان کرنا تو دور، ایسا سوچنے کی بھی جرات نہیں کر سکتا، تب پھر موجودہ دور کی مسلم قوم کے بیشتر افراد، خاص طور پر ہندستانی مسلمان خدائی یقین دہانی کے باوجود نازل کی گئی بیش بہا حکمت عملی پر، اپنے ارادہ و اختیار کی آزادی کے تحت عمل پیرا ہونے میں آج کیوں مذبذب اور ہچکچاتے ہوئے نظر آرہے ہیں؟
خدا کے تخلیقی منصوبہ (Creation Plan of God) کے تحت انسانی امتحان کی مصلحت کے پیش نظر، موجودہ دنیا میں الگ الگ نوعیت کی شکایات اور مختلف قسم کے مسائل کا پیدا ہوتے رہنا ناگزیر (inevitable) ہے، مگر ان کا مستقل طور پر باقی رہنا؛ انسانوں، خصوصاً مسلمانوں کے مومن ہونے کے مقام امتیاز پر سوالیہ نشان ہے، جہاں عقل و شعور کے ساتھ ساتھ، انھیں ربانی ہدایت کی روشنی بھی دستیاب ہے۔ اس صورت حال میں کہیں وہ حقیقت تو پوشیدہ نہیں جو موجودہ دور کے مسلمانوں کے بارے میں شائع و ذائع ہے، یعنی "مسلمان اللہ (تعالیٰ) اور رسول (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو تو مانتے ہیں، لیکن ان کی نہیں مانتے"؟
یہ مقولہ ایک لطیفہ بھی ہو سکتا ہے، مگر اس کی نوعیت نہایت تشویش ناک ہے۔ اس لیے، مسلمانوں کو اپنے قومی افکار و نظریات پر فی الفور، نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ دیکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ مسلم معاشرے میں جو طور طریقے اسلام کی نسبت سے رائج ہوگئے ہیں، کیا فی الواقع وہ سب کے سب اپنی نوعیت میں دین کا کوئی حکم ہیں؟ کہیں ان میں سے کچھ ہماری ثقافتی روایات (cultural traditions) کا حصہ تو نہیں؟
اسی پس منظر میں، یہاں قرآن پاک کی ایک دوسری آیت پیش کرنا بھی موزوں رہے گا:
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔۔۔" (سورہ آل عمران-3: 110)۔
اس آیت مبارکہ کے مطالعہ نے سوچنے کا ڈھنگ ہی بدل دیا ہے۔ ایک دم، ایک مختلف بات سامنے آتی ہے، وہ یہ کہ انسانیت عامہ کی ہدایت اور اصلاح کی ذمے داری ایمان والوں، یعنی مسلمانوں پر عائد کی گئی ہے۔ اس بلند منصب اور عزت افزائی کے پیش نظر، ملک و معاشرے میں ہر نامبارک صورت حال کے لیے مسلمان خود بہ خود ذمے دار اور جواب دہ ہو جاتے ہیں۔ "تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو" کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو دنیا کے سامنے خود برائی سے رکنے اور اچھائی کے راستے پر چلنے کا عملی نمونہ پیش کرنا ہے۔
یہی زاویہ نظر اُس مقام کی نشان دہی کرتا ہے جہاں مسلمانوں کو لاحق شکایات کا ازالہ اور ان کو درپیش مسائل کا حل موجود ہے۔ زیر نظر مضمون میں اسی حقیقت کو مزید ہمہ جہتی وضاحت (multi-dimensional elaboration) کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ معزز قارئین سے بھی گزارش ہے کہ وہ مضمون ہذا کا سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کریں، تاکہ متعدد لوگوں کے توسط سے معاشرے کی اجتماعیت کو کوئی روشن اور قابل عمل فکر و رہ نمائی فراہم کی جاسکے۔ دوران مطالعہ یہ حقیقت بھی باور رہنی چاہیے کہ شخصیات و معاملات کو بیان کرتے وقت، عام مشاہدات و تجربات ہی پیش نظر رہتے ہیں، نہ کہ استثنیات (exceptions)؛ جن کا وجود ہمیشہ بین السطور (between the lines) محسوس کیا جاسکتا ہے۔
جو بات زیادہ پریشان کن ہے، وہ یہ ہے کہ موجودہ کئی سالوں سے مسلمانوں کے مسائل کی نوعیت مذہبی ہوکر رہ گئی ہے یا پھر غیر مذہبی امور نے بھی مذہبی شکل اختیار کرلی ہے۔ مسائل پہلے بھی ہوا کرتے تھے، لیکن وہ عام طور پر انفرادی یا معاشرتی معاملات و واقعات سے وابستہ ہوتے تھے۔ کم و بیش، مذہب لوگوں کا پرسنل (ذاتی) معاملہ ہوا کرتا تھا اور بیشتر افراد مذہب و عقائد میں اختلاف ہونے کے باوجود "آپس میں سب بھائی بھائی" والی کیفیت کے ساتھ خوشی خوشی رہتے تھے، لیکن ابھی صورت حال کچھ بدلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ آج مسلمانوں کو عام شکایت ہے کہ گاہے بہ گاہے ان کے مذہبی معاملات اور ان کی بزرگ ہستیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور مختلف صورتوں میں، ان کو ذلیل کرنے اور ان کے معمول کے کاموں میں بھی رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ ایک عام مشاہدہ بھی ہے کہ کچھ عرصے سے، مسلمانوں کے اپنے اندرونی معاملات، مثلاً تبلیغی جماعت، اذان، نماز، مساجد و مدارس، مقبرہ و مزارات، تین طلاق، حجاب، حلال اور مسلم پرسنل لا وغیرہ نے بڑے مسائل کے طور پر نمایاں ہوکر مسلمانوں کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی زندگی سے متعلق معمول کی باتیں بھی جب ملک کے بڑے مسائل کے طور پر منظر عام پر آنے لگیں، تو سیاست کا ان میں دل چسپی لینا کچھ عجیب نہیں رہا۔ بلا شبہ، آج موجودہ زمانے کی سیاست (The Politics of the present Times) اپنے پست ترین مرحلے میں دکھائی دیتی ہے، اور اس کا کسی معاملہ میں داخل ہو جانا گویا صورت حال کو انجام بہ خیر سے محروم کردینے کے مترادف نظر آتا ہے۔ اس لیے، مسلمانوں کو لاحق شکایات اور درپیش مسائل کی نوعیت نہ صرف غور طلب ہے، بلکہ سنجیدہ تدبر کی متقاضی بھی۔
علم و فکر اور تدبر کے سفر پر آگے بڑھنے سے قبل، مسلمانوں کے اندر یہ اعتماد پیدا ہونا نہایت ضروری ہے کہ موجودہ زوال یافتہ مسلم قوم کے مسائل کا حل معاشرے میں فی الوقت رائج انتقامی سیاست اور ردعمل کی بھیڑ چال(herd mentality) والی حکمت عملی سے کسی صورت حاصل نہ ہو سکے گا۔ ردعمل کی نفسیات (Psychology of the Reaction) کا شکار افراد مسائل کو مزید الجھا تو سکتے ہیں، حل نہیں کرسکتے، کیوں کہ ہر ردعمل مزید ردعمل کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری کردیتا ہے، جو منافرت کو ہی بڑھاوا دیتا ہے، اخوت و بھائی چارے کو نہیں۔
دوسرے لوگوں پر الزام تراشی مسائل کا حل نہیں ہے۔ کوئی بھی مسئلہ حل کرنے کی ذمے داری ان لوگوں کی ہوتی ہے جو خود کسی چیز کو اپنے لیے مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے، مسائل کو حل کرنے کی شروعات مسلمانوں کو غلطی کا الزام خود اپنے سر لے کر کرنی ہوگی اور سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہوگا کہ ان کے اخلاق و کردار میں وہ کون سی گراوٹ واقع ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے ان کے ہم وطن ساتھیوں کے دل میں ان کے لیے موجود احترام کم ہونے لگا ہے، جب کہ ایک دن ایسا بھی تھا کہ مسلمانوں کو عزت سے میاں جی کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ ان کو صادق و امین سمجھ کر ان سے فیصلے کروائے جاتے تھے۔ داڑھی یافتہ مسلمانوں کو تو، نہ ہوتے ہوئے بھی، حاجی صاحب، حافظ جی اور مولوی صاحب جیسے تکریمی القاب سے نوازا جاتا تھا۔ مسجد کے باہر نماز پڑھنے والے مسلمانوں سے چھوٹے بچوں پر دم کروانے والی خواتین کی لائن لگ جایا کرتی تھی، مگر آج مسجد سے باہر اسٹیشن، پارک یا کسی دوسری جگہ پر کسی شخص کو نماز پڑھتا ہوا دیکھ کر اس کے خلاف عام طور پر پولیس میں شکایت درج کروا دی جاتی ہے، اور کبھی کبھی متعلقہ شخص کو گرفتار بھی کرلیا جاتا ہے۔
حالات میں اتنا بڑا فرق!
تھوڑی سی غور و فکر سے وجہ واضح ہوسکتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اوپر درج، سورہ آل عمران کی آیت نمبر 110 میں ہدایت اور اصلاح کی جو ذمے داری مسلمانوں پر ڈالی گئی ہے اس میں برتی جانے والی کوتاہی نے موجودہ صورت حال کو جنم (birth) دیا ہے۔ ہدایت اور اصلاح کا کام کرنا کوئی سادہ معاملہ نہیں ہے۔ ایسا کرنے کے لیے، اپنے دل و دماغ کو ہر قسم کے تعصب سے پاک کرنا ہوتا ہے۔ بہ ظاہر غیر نظر آنے والے انسانوں کے لیے بھی اپنے رویوں (attitudes) میں محبت اور خیر خواہی کے چشمے جاری کرنے پڑتے ہیں۔ اس لیے، مسائل کے یقینی حل سے مستفید ہونے کی بابت، مسلمانوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کہ وہ قرآن مجید کی صورت میں موجود ربانی رہ نمائی کو من وعن قبول کریں اور اس کے مطابق اپنی عملی زندگی کو تشکیل دیں۔ حقیقتاً، کسی بھی معاملے میں اپنی کام یابی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مد مقابل کو اپنے میدان عمل میں لانے کی کوشش کی جائے۔ بلا شبہ، مسلمانوں کا میدان عمل اسلام ہے۔ صرف اسلام کے اصولوں کی پاس داری میں ہی مسلمانوں کے حال اور مستقبل محفوظ ہیں۔
دین کی روح (spirit of the religion) سے دن بہ دن خالی ہوتے جانے کی وجہ سے، اجتماعی طور پر مسلمان ابھی بھی مثبت عمل(Proactive approach) کی اہمیت کے ادراک سے محروم ہیں۔ خوش گوار اور پرکشش زندگی بسر کرنے کے خواہش مند اشخاص کو چاہیے کہ وہ اپنے معاشرتی معاملات (Social affairs) میں ایک عرصہ دراز سے آزمودہ غیر کارگر نسخوں کو مزید آزمانا ترک کردیں اور اللہ تعالیٰ کے ہدایت کردہ رہ نما اصولوں سے فکری و عملی وابستگی اختیار کرلیں۔ غیر ضروری شکایات و غیر واضح مسائل سے نجات حاصل کرنے اور دنیا و آخرت کی کامرانی سے ہمکنار ہونے کا یہی واحد راستہ ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو یک طرفہ خیر خواہی، معاف کر دینے کا مزاج اور حُسن سلوک کی تاکید کرتا ہے اور ان پر عملی استقامت کی رغبت دلاتا ہے۔ بدلے کا مزاج، نفرت اور دشمنی کے داعیات اللہ تعالیٰ کی نظر میں ناپسندیدہ عوامل ہیں۔ صالح اقدار سے روگردانی کی صورت میں، مسلمانوں کو شاعر کی یہ تنبیہ ضرور یاد رہنی چاہیے:
"تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں"
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی بھی ملک میں ایک باوقار شہری کا مقام حاصل کرنے کی بابت وہاں مقیم ہر ایک فرد کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ وہ اپنے حق میں حاصل شدہ حقوق کا منصفانہ استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ، اپنے وطن عزیز کی تعمیر و ترقی کے ضمن میں اپنی طاقت اور لیاقت کے مطابق بہترین ذمے داری اور خدمات انجام دے۔ اتناہی نہیں، وقتاً فوقتاً اپنا محاسبہ (introspection) بھی کرتا رہے کہ وہ اپنی ذمے داریاں ادا کرنے کے معاملے میں کوتاہی تو نہیں کر رہا ہے۔ مختلف میدانوں میں اعلا کارکردگی کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے ہر شہری کو مختلف مذہب و ملت سے وابستہ ہونے کے باوجود تعلیمی، معاشی اور معاشرتی اعتبار سے مضبوط اور ممتاز ہونا چاہیے۔ کسی شخص کا لائق و فائق ہونا ہی معاشرے میں اس کا مقام طے کرتا ہے۔ "شَکر کے بہ قدر ہی شربت میٹھا ہوتا ہے".
بلا شبہ، ہندستانی مسلمان تاریخی عوامل کے پس منظر میں، اپنے دوسرے ہم وطنوں کی نسبت، علمی اور اقتصادی معاملات میں ترقی کرنے کے پیمانے پر پیچھے رہ گئے ہیں۔ شُکرانے کے طور پر اور بلا مبالغہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ خود پچھڑجانے کے باوجود آج مسلمان، الحمد للہ اپنے چھوٹے بچوں کی باقاعدہ تعلیم پر توجہ دے رہے ہیں۔ اس تناظر میں، مسلمانوں کے خوش آئند مستقبل کی امید کی جاسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی جدوجہد کو اپنی نصرت سے ہم کنار فرمائے۔
اس خوش آئند حقیقت کے ساتھ ساتھ، یہ اعتراف کرنا بھی لازمی ہوجاتا ہے کہ چھوٹے بچوں اور کم عمر نوجوانوں کے علاوہ، بیشتر مسلم افراد ابھی بھی صحیح معنی میں علم اور علمی سوجھ بوجھ کے معاملے میں کم زور ہیں۔ علم سے بے بہرا ہونے یا سطحی نوعیت کے روایتی علم کی وجہ سے زیادہ تر لوگ اس حیثیت میں نہیں ہیں کہ وہ غور طلب اور پیچیدہ معاملات میں سوچ سمجھ کر اپنی کوئی انفرادی اور مستحکم رائے بنا سکیں۔ انسانوں کے اس جم غفیر کو "عام مسلمان" لفظ سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ اس نظر سے دیکھا جائے تو فی الحال، اپنے وطن عزیز، ہندستان میں ایک بڑی تعداد عام مسلمانوں کی ہے۔ عام طور پر، یہی وہ افراد ہیں جو علم و آگہی کے اعتبار سے پس ماندہ اور مذہبی اعتقادات کے اعتبار سے نہایت جذباتی ہونے کی وجہ سے، بہ آسانی خود غرض اور چالاک سیاست دانوں، دنیا دار اور نمائشی مولویوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ عام مسلمانوں کی یہی کمزوری اکثر اوقات غیر مسائل (non issues)کو بھی مسائل بنانے میں مددگار ہوتی ہے۔
عام مسلمانوں کے دل و دماغ پر مذہبی جذباتیت مسلط ہونے کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں۔ یہ نظریہ مسلمانوں میں عام ہے کہ "علما انبیا کے وارث ہیں"۔ معاشرے میں مسلکی فرقوں کی ریل پیل نے اس نظریہ میں بھی ترمیم کردی ہے۔ اب صرف اپنے مسلک کے علما کو ہی یہ حیثیت حاصل ہے۔ تصور کیا جاسکتا ہے کہ اس پس منظر میں اپنے مسلکی بزرگ کے لیے پیدا ہونے والی عقیدت ایک عام مسلمان کو اپنے مذہبی معاملات میں کتنا زیادہ جذباتی بنا سکتی ہے۔ ایک دوسری بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ معاشرے میں مختلف حکایات اور فضائل کی داستانیں تو بہت سنائی جاتی ہیں مگر اسلام کی بنیادی تعلیمات میں پوشیدہ علم و آگہی، صبر و اعراض، حکمت و دانش اور مستقبل رخی(future oriented) رہ نمائی سے لوگوں کو اکثر اوقات محروم ہی رکھا جاتا ہے۔ علم و حکمت کی باریکیوں سے جو انسان کے ذہنی افق(mental horizon) کو وسیع کرتی ہیں، عام مسلمان روشناس نہیں ہوپاتے۔ یہ لوگ اپنے پسندیدہ حضرت جی کی صحبت اور ان کے اجتماعات میں دین اور دینیات (Theology) تو کم ہی سیکھتے ہیں، البتہ ان کے مسلک اور گروہ کی عصبیت کے معاملے میں وہ عالم و فاضل ہو جاتے ہیں۔ ان کی اور ان کے مسلک کی دفاع میں وہ کہیں تک بھی جا سکتے ہیں۔ نتیجتاً، جہاں چالاک سیاست داں عام مسلمانوں کو سیاسی خام مال (raw material) کی طرح استعمال کرتے ہیں تو وہیں دنیا دار علما اپنی گروہی یا مسلکی عصبیت کو زندہ رکھنے والی بھیڑ (crowd) کے طور پر۔
بلا شبہ، مسلمانوں کے علما، سیاست داں، دانشور حضرات اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے تمام اکابرین کرام قوم کا ایک گراں قدر سرمایہ ہیں۔ ان کی ہمیشہ قدر و منزلت کی جانی چاہیے اور بلا شرط احترام بھی، البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی قوم زوال یافتہ ہو جاتی ہے تب اس کے بیشتر افراد کے اندر خود اعتمادی (self confidence) کی صفت کے فقدان کی وجہ سے ان کی ترجیحات خویش رخی (self oriented) ہوجاتی ہیں اور معاشرے میں خود پسندی، خود غرضی، چالاکی، دھوکے بازی اور مکاری جیسی بے شمار منفی اقدار (negative values) کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔ ذہنی استوا (mental status) بلند ہونے کی وجہ سے، عام طور پر قائدین یہاں بھی سبقت لے جاتے ہیں۔ جنگ آزادی اور تحریک آزادی کے زمانے میں قائدین عام طور پر عوام کو بھی اپنی اولاد کی طرح دیکھا کرتے تھے، مگر آج صورت حال بدل گئی ہے۔ آج قائدین کی اولاد اور خاندان ان کی ترجیحات میں سب سے اوپر آگئے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ قیادت کی سیاست (The Politics of Leadership) نے، پھر وہ چاہے سیاسی نوعیت کی ہو یا مذہبی نوعیت کی، ایک بڑے پُرکشش کاروبار (A lucrative profession) کی شکل اختیار کرلی ہے۔ دیانت داری، ایمان داری اور معتدل زندگی جیسے اوصاف کو فروغ دینے کے بجائے بے ایمانی، دنیا داری، زیادہ سے زیادہ عیش و عشرت اور کثیر مقدار میں دولت حاصل کرنے کی ہوس نے آج کے انسان کو کچھ زیادہ ہی متاثر کیا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے پروردگار کی تنبیہ کو بھی بھول گیا:
اَلۡہٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۙ۔ حَتّٰی زُرۡتُمُ الۡمَقَابِرَ ؕ (سورۃ التکاثر- 102: 1-2)، یعنی
بہتات کی حرص نے تم کو غفلت میں رکھا، یہاں تک کہ تم قبروں میں جاپہنچے۔
اس معاملے میں خاص و عام کے درمیان کوئی خاص امتیاز نہیں۔ صرف مقدار و پیمانے میں ہی فرق کیا جاسکتا ہے، نوعیت میں نہیں۔ اربوں میں کھیلنے والے بے ایمان افراد کی بدعنوانی اگر کروڑوں میں جا پہنچتی ہے تو توقع کی جاسکتی ہے کہ ہزاروں کمانے والے بد عنوان لوگوں کی بے ایمانی سیکڑوں تک ہی محدود رہے گی، مگر دونوں ہی اشخاص بلا شبہ، بدعنوانی کے مرتکب سمجھے جائیں گے۔ یہاں "جیسے عوام، ویسے قائد" کی روشنی میں مزید غور طلب بات یہ ہے کہ قائدین بھی تو ماضی بعید (distant past) یا ماضی قریب (nearby past) کی عوامی بھیڑ کے درمیان سے ہی نمودار ہوئے ہیں، اور ان کے رات و دن عوام کی نمائندگی کرنے میں بسر ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ عام مسلمانوں کو اپنا احتساب کرنے کی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ خود ضرورت ہے۔ اس لیے، کسی بھی معاملے میں اپنے رہ نماؤں کی طرف دیکھنے سے پہلے، عام مسلمانوں کو اوپر بیان کی گئی نفسیاتی حقیقت اور معاشرتی صورت حال کا ادراک ہونا چاہیے۔
لیکن، اس سب کے باوجود، یہ بات بھی ہمیشہ ملحوظ رہنی چاہیے کہ کسی بھی شخص کی نیک نیتی اور اخلاص کو مشکوک نظروں سے دیکھنا گویا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو دعوت دینا ہے۔ مشکوک صورت حال میں، خود متعلقہ شخص سے سوال پوچھ کر اپنے شکوک و شبہات کا ازالہ کرلینا بہترین دانش مندی ہے۔ کسی شخص کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے میں عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے، کیوں کہ ہر انسان کا ذہنی شاکلہ(mental configuration) اور زندگی کے متعلق اس کے اہداف (targets) و ترجیحات (preferences) ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ لوگوں کے درمیان یہی فکری اور عملی اختلاف مفادات کے ٹکراؤ (clash of interests) کا سبب بنتا ہے، جو اگلے مراحل میں مختلف قسم کے مسائل کی صورت میں نمودار ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے، اس حقیقت کے پیش نظر، معاملہ کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو اپنے مشاہدات و تجربات کی روشنی میں دیکھا جائے، نہ کہ صرف کسی بد یا خوش گمانی (misconception)، یا پھر اندھی عقیدت(blind faith) کی بنیاد پر۔
ہو سکتا ہے کئی لوگ اوپر پیش کیے گئے حقائق سے اتفاق نہ رکھتے ہوں۔ ان کو چاہیے کہ وہ اپنے معزز ترین قائدین کے گھروں (family life) میں جھانک کر دیکھیں تو اس امر کی خود ہی تصدیق ہوجائے گی کہ ان کے اپنے بچے نہ تو روزمرہ کی احتجاجی سیاست سے وابستہ ہیں اور نہ ہی کسی قسم کے مسلکی تعصبات سے، بلکہ اس کے برعکس، لیڈران اور ان کی فیملی کے انفرادی تعلقات سبھی مسالک، فرقے اور جماعتوں کے افراد کے ساتھ نہ صرف ہمیشہ خوش گوار بنے رہتے ہیں، بلکہ عملی طور پر وہ ایک دوسرے کی معاونت کرتے ہوئے بھی نظر آسکتے ہیں۔ حکمت و دانش کی یہی وہ خاص بات ہے جو عام مسلمانوں کو بھی اپنے رہ نماؤں کی ذاتی زندگی سے سیکھنی چاہیے اور اس کی افادیت کے پیش نظر، اپنے مخالف گروہ کے تئیں پیدا شدہ کدورت کے میل کچیل سے اپنے دل کو وقتاً فوقتاً پاک صاف کرنے کا عمل کرتے رہنا چاہیے۔
ایسا حوصلہ کر پانے کی صورت میں وہ دیکھیں گے کہ ملک کے اندر پہلے جیسی مذہبی رواداری اور معاشرتی ہم آہنگی پھر سے پیدا ہوگئی ہے۔ باہمی رواداری اور ہم آہنگی کے ماحول میں اول تو شکایات اور مسائل پیدا ہی نہیں ہوتے ہیں، اور اگر کسی غلط فہمی کی وجہ سے پیدا ہو بھی جائیں تو دیرپا نہیں ہوتے۔ یہاں یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ مخلوط معاشروں (Societies of mixed cultures and religions) میں جہاں الگ الگ مذہب، الگ الگ ثقافت اور الگ الگ سوچ کے افراد ساتھ ساتھ رہتے ہیں وہاں گِلے شکوے اور شکایات کا پیدا ہو جانا ایک فطری اور معمول کی بات ہے۔ ہاں، اس معمول کو معمول ہی رہنے دینا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ شکایات کسی بھی صورت مسائل میں اور مسائل نفرت، عداوت اور دشمنی میں مبدل نہ ہونے پائیں۔
انسان ہونے کا یہ ایک خاص امتیاز ہے کہ منفی جذبات (negative emotions) پیدا ہونے کے باوجود وہ ان کو عملی طور پر وقوع پذیر ہونے سے روک سکتا ہے۔ اتنا ہی نہیں، انسان اپنی منفی سوچ کو مثبت سوچ میں مبدل کرنے کی فطری صلاحیت (natural capability) بھی رکھتا ہے۔
امتحانی مصلحت کے تحت ربانی اسکیم میں، انسان کی تخلیق اس طرح کی گئی ہے کہ اس کے شکوہ و شکایات اور لڑائی جھگڑوں کے لیے لوگوں کا دوسرے مذاہب سے وابستہ ہونا ضروری نہیں، یہ کام وہ خود اپنے بہن بھائی، خاندان اور ہم مذہب افراد کے ساتھ بھی بہ خوبی کرسکتا ہے اور اکثر اوقات کرتا بھی رہتا ہے۔ انسان سے جو چیز درکار ہے وہ یہ ہے کہ اس کو فطرت اور جبلت کے زور پر پیدا ہونے والے منفی جذبات کے زیر اثر ہر قسم کی عداوت و منافرت سے محفوظ رہنے کی سعی کر تے رہنا چاہیے۔ یہاں اردو کے معروف شاعر، مرحوم اکبر الہٰ آبادی کو خراج تحسین پیش کرنا موزوں رہے گا:
اونچا اپنی نیت کا زینہ رکھنا
احباب سے صاف اپنا سینہ رکھنا
غصہ آنا تو نیچرل ہے اکبر
لیکن ہے شدید عیب کینہ رکھنا
ابھی تک کی گئی قواعد میں، یہ سوال ابھی بھی باقی ہے کہ مسلمانوں کے غیر مذہبی مسائل مذہبی کیسے ہوگئے؟
موجودہ حالات پر سنجیدہ غور و خوض سے یہ عقدہ کھل سکتا ہے۔ یہ ایک ہمہ جہتی فکری معاملہ ہے۔ جدید سائنسی دور (The age of modern science) ہونے کے باوجود، مسلمانوں کے بیشتر علما کا طرز کلام عام طور پر ابھی بھی روایتی اسلوب کی گرفت میں ہے، جس کی وجہ سے نئی نسل کے اعلا تعلیم یافتہ افراد کے دل و دماغ میں اسلام کی حقانیت سے متعلق پیدا ہونے والے سوالات کا اطمینان بخش جواب فراہم نہیں ہو پارہا ہے۔ یہ ایک حقیقت کا بیان ہے کہ باقاعدہ پڑھے لکھے ذہین لوگوں کے لیے ان کو ذہنی طور پر مطمئن نہ کرنے والی صورت حال بہت شاق (troublesome) ہوتی ہے۔ جو لوگ ابھی تک اپنے شوق و تجسس کے زیر اثر اور نیک نیتی کے ساتھ سوال پوچھ رہے تھے، اب وہی لوگ علمی طور پر غیر مطمئن رہنے کے بعد، اپنے سوالات کچھ اس طرح سے پوچھنے لگتے ہیں گویا وہ ہمارے مذہب کو چیلنج کر رہے ہوں۔ چیلنج کی یہی صورت حال تقلیدی طرز عمل ہونے کی وجہ سے، علم و آگہی سے محروم عام مسلمانوں کے اندر ردعمل اور احتجاج کے داعیات پیدا کردیتی ہے، جس کا نتیجہ کبھی خیر سے ہمکنار نہیں ہوتا۔
ہمارے بڑے علما سے سوال پوچھنا آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ان کی صحبت میں عام طور پر واقع ہونے والی مصروفیات میں حضرت جی سے مصافحہ کرنا، ان کے ہاتھ چومنا، ان سے اپنے سر پر ہاتھ رکھوانا، دعا کروانا اور ثواب و فضائل کی باتیں سننا وغیرہ شامل رہتا ہے۔
اس غیر علمی صورت حال کے متعدد نقصانات بہ آسانی سمجھ میں آسکتے ہیں۔ جہاں طلبہ و مقلدین (followers) علم و آگہی کی باریکیوں اور نزاکتوں کے ادراک سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ نہ صرف وہ پھر کبھی سوال پوچھنے کے لائق نہیں رہتے، بلکہ دوسرے لوگوں کے سوالوں سے بھی گھبرانے لگتے ہیں۔ یہ لوگ بس اپنے معزز بزرگ کی صحبت کا ثواب لوٹنے میں ہی خوش رہتے ہیں اور یہ ادراک نہیں کرپاتے کہ صحبت کا فائدہ صرف انھی خوش نصیب لوگوں کو ملتا ہے جو اپنے عالم سے علم و حکمت اخذ کرنے میں سنجیدہ ہوں۔ دراصل، یہی سنجیدگی طلبہ اور مقلدین کو سوال پوچھنے کی رغبت دلاتی ہے۔ اپنے بزرگ کی بزرگی کا احترام کرنے کے ساتھ ساتھ، اپنے اشکال کو رفع کرنا ان کا ترجیحی عمل ہو جاتا ہے تاکہ باہر کی دنیا میں اٹھنے والے سوالات کا سامنا کرنا ان کے لیے آسان ہو جائے۔
اسی کے ساتھ ساتھ، خود حضرت جی کے علم و فہم کا ارتقا بھی رک جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ، ایک عالم کے بجائے، وہ صرف ایک بزرگ بن کر رہ جاتے ہیں اور تاحیات تقلید و عقیدت و احترام کی فصل کاٹتے رہتے ہیں۔
مسلمانوں کے ماضی اور حال کے تمام علما و اکابرین میں سے کسی بھی عالم یا بزرگ کی نیک نیتی پر کسی بھی قسم کے شکوک و شبہات سے بالاتر، راقم الحروف کو کبھی کبھی یہ سوچ کر ضرور گھبراہٹ ہوتی ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ مسلمانوں کے تقلیدی معاشرے میں علما کی بےپایاں عقیدت اور بلند پایہ احترام کو مستقل طور پر محفوظ رکھنے کی غرض سے عام مسلمانوں کو سمجھ کر قرآن مجید کی تلاوت اور مطالعہ سے روک دیا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ میرے اس اندیشے کو زائل فرمائے اور مسلمانوں کے تمام ذمے داران کو یہ ربانی توفیق حاصل ہو کہ وہ معاشرے میں بڑے اور بچوں، سب کے لیے قرآن پاک کا سمجھ کر پڑھنا لازم کر دیں۔ سنجیدگی کے ساتھ سوچنے والے کسی بھی شخص کی روح کانپ جائے گی کہ اللہ تعالیٰ کی کتابِ ہدایت کو معنی و مطالب کے بغیر تلاوت کرنے کی بابت مسلمانوں کی اس واضح اور بڑی غلطی نے اسلام کا کتنا بڑا نقصان کیا ہے۔ مجھے اپنی معصومیت کے دنوں کا مدرسہ یاد آتا ہے۔ اگر اس وقت، اردو اور فارسی کی طرح قرآن کے عربی الفاظ کا بھی مطلب پڑھایا جاتا، تو اللہ تعالیٰ کی عنایت کردہ ذہنی فوقیت کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے میں بھی آج قرآنیات کا ایک بیش قیمتی عالم و محقق ہو سکتا تھا۔
مدارس کے علمی ریکارڈ میں تلاش کرنے سے شاید یہ واضح ہوجائے کہ مسلم معاشرے میں قرآن مجید کے تعلق سے صرف عربی عبارت کی تلاوت کرنے کی جو اتنی بڑی غلطی رائج ہوگئی ہے وہ کہیں عرب علما اور طلبا کو تلاوت کرتے ہوئے دیکھ کر تو نہیں ہوئی کہ قرآن پاک پڑھنے کا یہی صحیح طریقہ ہے، اور ہم یہ بھول گئے کہ عرب باشندوں کی مادری زبان بھی عربی زبان ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا ہے۔
قرآن مجید کی صرف عربی عبارت کی تلاوت کرنا قرآن پڑھنا کیسے ہوسکتا ہے؟ قرآن فہمی کے لیے تو ضروری ہے کہ اس کے ایک ایک لفظ کا مطلب اور ہر جملہ و آیات کے پس منظر سے قاری اچھی طرح واقف ہو۔ یہ نہایت ہی مہلک بھول ہے، جو مسلمانوں سے سرزد ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے آج مسلمان خود اپنے دین کی بنیادی تعلیمات کی وضاحت کرنے سے بھی قاصر ہیں، سائنسی دنیا کے سوالات کا تشفی بخش جواب فراہم کرنا تو بہت دور کی بات۔
دراصل، یہی مقام مسلمانوں کے مسائل کا سرچشمہ ہے۔ اس لیے، مسلمانوں سے درخواست ہے کہ ابھی تک جو ہوا سو ہوا، مگر اب نو مولود بچوں کو قرآن پاک کی صرف تلاوت تک محدود نہ رکھا جائے، بلکہ ان کو اپنی زبان میں اس کے معنی و مطالب سے بھی روشناس کرایا جائے۔ اس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ نئی نسل کی زندگی، ان شاء اللہ، قرآنی ہدایت کے نور سے منور ہوجائے گی اور قوم کے اندر سے جہل کا اندھیرا بھی دور ہو جائے گا۔
جو عقیدت صرف پیغمبر اسلام، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے، مسلمانوں میں اپنے بزرگوں اور علما سے اس معیار کی عقیدت مناسب نہیں۔ بے شک، تکریم ان کے لیے بھی لازم ہے۔ اتنا ہی نہیں عزت و احترام کا معاملہ ہر انسان کا حق ہے۔ بے جا عقیدت سے تقلیدی ذہن تیار ہوتا ہے اور تقلیدی اذہان کی سب سے بڑی کم زوری یہ ہے کہ وہ تخلیقی نوعیت (productive nature) کے کام کرنے کی لیاقت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ غیر ضروری ادب و احترام، علمی و فکری اعتبار سے علما اور طلبا دونوں کے لیے مضر ہیں۔ روایتی اور مسلکی علما کی لمبی سرپرستی میں پلا بڑھا مسلم معاشرہ آج عام طور پر، ایک خاص وضع قطع کے انسان کو ہی دین کا عالم تصور کرتا ہے۔ رائج حلیہ کے علاوہ وہ بڑے سے بڑے عالم و فاضل شخص کو بھی دین کےایک عالم کے طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں۔ معروف قرآنی محقق اور عالم دین، استاذ جاوید احمد غامدی صاحب اس صورت حال کی زندہ مثال ہیں۔
علمی تنقید کی حوصلہ افزائی نہ ہونے کے سبب معاشرے سے قرآن مجید کا تحقیقی نظر سے مطالعہ کرنے کا رجحان مفقود ہوتا جارہا ہے۔ جس کی بدولت، وقت کے ساتھ ساتھ، مسلمانوں کے عملی اسلام کے اندر ان کی ثقافت اور معاشرتی روایات بھی اسلام بن کر داخل ہوتی جارہی ہیں۔
علمی طور پر ان ملاوٹی چیزوں پر تنقیحی عمل (investigation/audit) کے بعد جب ان کا غیر اسلام ہونا متحقق (verified) ہوجاتا ہے، تو یہ صورت حال مسلمانوں کے لیے خفت اور شرمندگی کا باعث ہوتی ہے۔ دراصل، یہی مسلمانوں کے مسائل کی اصلیت ہے، یعنی موجودہ دور کے مسلمانوں کا غلو (exaggeration) آمیز اسلام مسلمانوں کو درپیش مسائل کا بنیادی سبب ہے۔ ایسا اسلام کسی کو متاثر نہیں کرسکتا، بلکہ برعکس طور پر، لوگوں میں اسلام کا ڈر (Islam o phobia) پیدا کر دیتا ہے۔ اسلام کو اس کی بنیادی پاکیزگی کے ساتھ ہی اسلام کہا جا سکتا ہے۔ علم و عمل کی پاکیزگی کے بغیر مروجہ اسلام اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دین نہیں، اور اسی لیے، وہ مسلمانوں کی حفاظت کا ضامن بھی نہیں ہو سکتا۔ خدا کی نصرت سچے اسلام سے وابستہ ہے، مسلمانوں کے ثقافتی اسلام سے نہیں۔
دراصل، اسلام اللہ تعالیٰ، یعنی رب العالمین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، یعنی رحمت العالمین کا پسندیدہ دین ہے، اور اس کا ہدایت نامہ، یعنی قرآن مجید کو قیامت تک آنے والی تمام انسانی نسلوں کی واضح ہدایت کے لیے محفوظ کر دیا گیا ہے۔ قرآن پاک کی حفاظت کا معاملہ قرآن مجید کے عجائبات میں سے ہے۔ اپنے کلام کی حفاظت کے وعدے کے ساتھ ہی، قادر مطلق، اللہ رب العالمین نے دنیا میں وہ حالات و وسائل دستیاب کردیے ہیں جن کے توسط سے ہر زمانے میں قرآن مجید کی حفاظت یقینی ہوگئی ہے۔ اس لیے، اب اسلام میں کھوٹ تلاش کرنا یا اس پر کسی پہلو سے نشانہ لگانا کسی انسان کے بس کا کام نہیں رہا۔ اسلام کے حوالے سے جو نامبارک صورت حال ہمیں اپنے ارد گرد نظر آرہی ہے وہ اسلام کی وجہ سے نہیں، بلکہ مسلمانوں کے ذریعے اسلام میں اسلام کے نام پر غلو داخل کردینے کی وجہ سے ہے۔ مسلمان انسانیت عامہ کے سامنے بے آمیز دین کی اصلی اور پاکیزہ تعلیمات پیش کر کے تو دیکھیں، قرانی خوش خبری کے مطابق، دشمنی رکھنے والے افراد بھی دوست ہوجائیں گے۔
ایک تنبیہ کے طور پر، مسلمانوں پر یہ اچھی طرح واضح ہوجانا چاہیے کہ اسلام کو ہر قسم کے غلو اور آلائشوں سے پاک کیے بغیر مسلمانوں کے مذہبی و معاشرتی مسائل زندہ رہیں گے اور وہ جب تک خود اپنے عملی مذہب کو اپنی مسلکی اور گروہی عصبیات کی آلودگی سے نجات نہیں دلاتے، مسلمانوں کو درپیش مشکلات بھی موجود رہیں گی۔ دراصل، ہم جن چیزوں کو مشکلات سمجھ رہے ہیں، حقیقتاً وہ خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کے اندر داخل کردی گئیں آلائشوں کو دھلوانے کا عمل معلوم ہوتی ہیں۔ چوں کہ مسلمان دھلائی کے اس عمل کو خود اپنی خوشی سے انجام نہیں دے رہے ہیں، اس لیے، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے قانون کے مطابق، دوسرے افراد کے ذریعے یہ کام لیا جا رہا ہے۔ آئے دن مسلمانوں کے ساتھ رونما ہونے والے تمام تکلیف دہ واقعات اسی حقیقت کی شہادت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
"بے سبب ہوتیں نہیں رسوائیاں"، کچھ عرصہ قبل تین طلاق کے متعلق ایک نئے قانون کا بنا دیا جانا مسلمانوں کے معاشرے کی غلو آمیز صورت حال کی واضح اور نمائندہ مثال ہے۔ مسلمان صدیوں سے اس غلط مفروضے (assumption) پر قائم تھے کہ ایک بار میں تین طلاق کہنے سے طلاق کا واقع ہو جانا اسلام کا بنیادی اصول ہے۔ جو محقق علما اس اصول کو غیر اسلامی سمجھتے تھے ان کے لیے روایتی علما اور تقلیدی معاشرے نے کوئی التفات نہیں دکھایا۔ وقت کے ساتھ ساتھ، علمی دنیا نے خود جان لیا کہ قرآن مجید اس اصول کی تائید نہیں کرتا، اور قانون کے زور پر اس کو بدل دیا گیا۔ مسلمان خود غلطی پر ہونے کی وجہ سے، اپنے راز کے فاش ہونے پر خاموش تماشائی بنے رہنے کے علاوہ کچھ نہ کرسکے اور نام نہاد اسلامی قانون نہ صرف کالعدم(null and void) قرار دے دیا گیا، بلکہ نئے قانون کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کے لیے جیل کی سزا بھی مقرر کردی گئی ہے۔
طلاق کے بعد، بالکل اسی طرز پر برقع اور حجاب کے متعلق ایک نیا مسئلہ پیدا ہوا۔ اس معاملے میں بھی مسلمانوں کے غلو آمیز فلسفے اور غیر ترجیحی عمل نے مسلم خواتین کی اعلا تعلیم کے راستے میں ہزاروں دشواریاں پیدا کردی ہیں، جب کہ مسلم معاشرہ پہلے ہی قِلت علم کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے شمار برائیوں اور کم زوریوں سے دوچار ہے۔ اب اکیسویں صدی کے مسلمان مزید اس حماقت کا تحمل نہیں کرسکتے کہ اپنی ثقافتی پہچان برقع کے تحفظ میں قوم کی خواتین اعلا تعلیم حاصل کرنے سے ہی محروم رہ جائیں، اور نئی نسل کی پرورش میں اس کے مستقبل کے لیے کوئی روشنی فراہم نہ کرسکیں۔
یہاں بھی مسلمان اسلام کی بنیادی اقدار سے پردہ پوشی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور نتیجے کے طور پر، باہری دنیا میں استہزا کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ مسلمان مرد "پردے" کا سارا بوجھ عورتوں پر ڈال کر خود مطمئن رہتے ہیں، جب کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ مسلم معاشرہ اس حقیقت پر زور دے کہ مرد و زن کے درمیان اختلاط کے آداب سے متعلق اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے مردوں کو حکم دیا ہے کہ وہ "اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں" (سورۃ النور-24: 30)۔
سچ تو یہ ہے کہ اگر مرد حضرات اپنے پروردگار کے اس حکم پر من وعن اور یک طرفہ طور پر کاربند ہوجائیں اور نامحرم عورتوں کو یک لخت تکنا اور تاڑنا بند کردیں تو "عورتوں کا پردہ" جیسا کوئی مسئلہ ہی باقی نہیں رہے گا۔
اس کے بعد معاشرے کو مزید پاکیزگی عنایت کرنے کے لیے، اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت (سورۃ النور-24 :31) میں یہی حکم عورتوں کو بھی دیا ہے۔ چوں کہ عورتوں کا سینہ (bosom) بھی شرم گاہ کا درجہ رکھتا ہے، اس لیے اس کو بھی دوپٹہ وغیرہ سے ڈھکنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ، خواتین کے فطری مزاج کے زیر اثر، بناؤ-سنگھار سے آراستہ ہونے کی صورت میں، اپنی زیب و زینت کو ڈھکنا بھی ان کے لیے ضروری ہے۔ لیکن، یہاں بھی چہرہ کھولنے کی اجازت دی گئی ہے۔
کالج، یونی ورسٹی جانے والی طالبات کو زیب و زینت سے کوئی سروکار نہ ہونے کی وجہ سے ان کا مہذب اور سادہ لباس ہی ان کے حجاب کی ضرورت پوری کر دیتا ہے۔ ویسے بھی، محقق علما نے قرآن مجید کے مطالعہ سے واضح کر دیا ہے کہ عورتیں نا محرم افراد کے سامنے بھی اپنا چہرہ اور ہاتھ-پاؤں کھلے رکھ سکتی ہیں۔ ہاتھ، پاؤں اور چہرہ کھلا رکھنے کی حکمت اس پہلو سے بہ آسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اسلام عورتوں کو یہ رغبت نہیں دلاتا کہ وہ صرف خاتون خانہ بن کر رہیں۔ اسلام تو چاہتا ہے کہ مردوں کی طرح عورتیں بھی اپنی لیاقت و صلاحیت کے مطابق بڑے بڑے کام کریں۔ اس سادہ سی بات کو بھی روایتی و مسلکی علما اور تقلیدی معاشرے نے یہ اصرار کرتے ہوئے ایک بڑا مسئلہ بنا دیا ہے کہ عورتوں کے لیے چہرہ ڈھکنا بھی ضروری ہے۔
مسلمان اپنی ثقافتی رسم کو اسلام سمجھنے کی غلطی کرنے کی وجہ سے اکثر غیر مسلم لوگوں کے نشانہ پر رہتے ہیں اور مشہور یہ کرتے ہیں کہ زمانہ مسلمانوں کا دشمن ہے۔ آخر میں مذکورہ قسم کے عالموں سے کچھ علمی مزاح کا اظہار بھی مناسب رہے گا:
عورتوں کا چہرہ ڈھک کر رکھنے پر زور دینے والے افراد ان کی آنکھیں ڈھک کر رکھنے پر کیوں اصرار کرتے ہوئے نظر نہیں آتے، جب کہ آنکھیں چہرے کے خوب صورت ترین اجزا ہیں اور نسوانی آنکھوں کی شان میں تو اردو شاعری بھری پڑی ہے۔
دریں اثنا، اذان اور نماز پر بھی سوال اٹھائے گئے۔ شروع شروع میں یہ مشہور ہوا کہ مساجد سے ہونے والی اذان پر پابندی لگائی جارہی ہے، مگر حقیقت کچھ اور نکلی۔ دراصل، کچھ لوگوں کو لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی اونچی آواز سے پریشانی لاحق ہو رہی تھی، اذان سے نہیں۔ مسلمان بہ ذات خود اس صورت حال کا احساس نہ کرسکے اور اس طرح معاشرے میں اپنی صدیوں سے چلی آ رہی میاں جی والی عزت کے مقام پر حرف لگوا دیا۔ مسلمانوں کو حکومتی زور پر یا تو کئی مساجد سے لاؤڈ اسپیکر اتارنے پڑے یا پھر ان کی آواز کم کرنی پڑی۔ ظاہر بات ہے، یہاں بھی مسلمانوں کی اپنی کوتاہی سے ہی مسئلہ پیدا ہوا تھا۔
اسی طرح مساجد کے باہر دوسری جگہوں پر نماز کا ادا کیا جانا بھی ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا۔ یہاں بھی نماز پر اعتراض کرنے والوں کا ہمیں شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ وہ ہمیں نظم و ضبط (discipline) میں رہنے کی تلقین کررہے ہیں۔
سچ پوچھیے، یہ تو کوئی مسائل ہی نہیں ہیں۔ اسلام کے داعی کی تو یہ بنیادی ذمے داری ہوتی کہ وہ مدعو کے سب و شتم (reproach) بھی برداشت کرے، تاکہ سچی انسانیت کا پیغام عام ہوسکے۔ جس دن مسلمان داعی اور مدعو کے رشتہ کی نزاکت کا ادراک حاصل کرلیں گے، سارے مسائل مبارک واقعات میں خود ہی بدل جائیں گے۔
مسلمان بڑے وثوق سے یہ بات کہتے ہوئے نظر آجائیں گے کہ وہ مزارات (قبروں) کی پوجا نہیں کرتے، مگر یہ عجیب بات ہے کہ پکی قبروں کی تعمیر کا سلسلہ روکنے کے لیے بھی وہ کچھ کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ کم زور ایمان اور لالچی طبیعت کے لوگ انھیں پختہ قبروں کو "بزرگوں کے مزاروں" میں مبدل کرتے رہتے ہیں، اور پھر وہاں وہی سارے کام ہونے کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں جو علم و عقل کے اعتبار سے صرف "عبادت" کے لیے خاص ہونے چاہئیں۔ مسلم معاشرہ نہ تو ایسے اعمال کی کھلی مذمت کرتا ہوا نظر آتا ہے، اور نہ ہی مذکورہ گستاخ مجاوروں کے ساتھ کسی قسم کی زدوکوب یا سرزنش کا معاملہ کرتا ہوا۔ مگر، جب سرکاری بلڈوزر ناجائز طور پر بنائے گئے مقبروں یا متعلقہ عمارتوں کو مسمار کرنے آجاتے ہیں، تب ضرور مسلمانوں کو بھی اسلام خطرے میں نظر آنے لگتا ہے۔ مسلمانوں کا یہی مبہم یا غیر واضح طریقہ ان کو مسائل کے بغیر جینے نہیں دیتا۔ کسی کے سچا مسلمان ہونے کا تقاضا ہے کہ وہ قوم کے انھی کاموں کا دفاع کرے جو اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہوں، نہ کہ اس اسلام کا جو مسلمانوں کے عمل کے مطابق ہو۔
اسی طرح، زمین و جائداد سے متعلق پکے کاغذات (title deeds) اور ادارہ بنانے یا چلانے کی باقاعدہ منظوری (sanctions) کے بغیر تعمیر کی گئیں بہت سی عمارتیں اور مساجد و مدارس کے معاملات، مسلسل کسی نہ کسی شکل میں، مسلم معاشرے کے مسائل میں موجود رہتے ہیں۔ مسلمانوں سے تو ہمیشہ یہ توقع کی جانی چاہیے کہ وہ دیانت داری اور ذمے داری کے معاملے میں بہترین شہری ثابت ہوں گے۔ اس صورت میں، کیا مسلمانوں کے لیے، یہاں مذکور سارے اور ان جیسے دوسرے تمام معاملات کو مسلم دشمنی کے زاویہ سے دیکھنا حق بہ جانب ہوگا؟ کوئی بھی باشعور آدمی کہہ اٹھے گا کہ نہیں، بالکل بھی نہیں.
آج کل، مسلمانوں کے بیشتر مسائل کچھ اسی نوعیت کے ہوتے جارہے ہیں جہاں خود انھی کو مورد الزام ٹھہرایا جاسکے۔
بے شک، مسلمانوں کو اس حقیقت کے فراموش ہونے سے بھی خود کو بچانا ہوگا کہ خیانت، جھوٹ اور مکاری جیسی قبیح اخلاقی برائیوں کی لفظ "مسلم" سے کوئی مطابقت نہیں اور اسلام کی نظر میں ہر انسان کی جان، مال اور آبرو کو حرمت حاصل ہے۔ علاوہ ازیں، ایک مسلمان مظلوم تو ہوسکتا ہے، ظالم نہیں۔ واضح رہے کہ تکلیف دہ ہونے کے باوجود، مظلوم ہونا اتنا برا نہیں ہے جتنا کہ ظالم ہونا۔ ظالم شخص کی دنیا اور آخرت دونوں برباد ہو جاتی ہیں۔
مظلوم افراد کے لیے صبر کا حکم اللہ تعالیٰ کی حکمت سے لبریز ایک عظیم عنایت ہے۔ صبر کے ذریعے علیم و حکیم پروردگار اپنے بندوں کی کئی طرح سے مدد کرتا ہے۔ وہ اپنے بندے کو ظالم کے مزید ظلم سے بچاتا ہے۔ صبر اختیار کرتے ہی، ظالم اپنے ظلم کا جواز کھو دیتا ہے، گویا اللہ رب العالمین کی قدرت اس کے ہاتھ پکڑ لیتی ہے۔ مگر دوسری جانب، جب مظلوم صبر و اعراض (patience and avoidance) کے بجائے انتقامی ردعمل پر انحصار کرتا ہے، تب ظالم کی انا (ego) اس کو پوری طرح برباد کرنے پر مزید مصر (adamant) ہوجاتی ہے۔ اسی طرح، جب بدلہ لینے کے جذبہ سے مظلوم تشدد کا طریقہ اختیار کرتا ہے، تو غالب گمان ہے کہ اس کا عمل متعین حدود سے تجاوز کر جائے اور وہ خود ہی ظالم کے مقام پر آجائے۔ یاد رہے، اللہ تعالیٰ کی اسکیم میں ظالم کے لیے کوئی خوش خبری نہیں۔
نام نہاد مسلم دشمنی کے فلسفے سے متعلق صحیح بات تو یہ ہے کہ بہ ظاہر مسلم دشمنی کے رنگ میں وقوع پذیر ہونے والے سخت واقعات بھی اکثر اوقات "مسلم دوستی" کے مترادف ہوتے ہیں۔ بلا شبہ، کسی کو اس کی کم زوریوں اور کوتاہیوں سے آگاہ کرنے والا شخص صحیح معنی میں اس کا مخلص دوست ہوتا ہے، کیوں کہ اپنی غلطیوں کا علم ہو جانے، اور پھر ان کو درست کرنے کے بعد، انسان اپنی ترقی کے سفر کو جاری رکھ سکتا ہے۔ فکر کے اس مقام پر، آج بھی عام مسلمان غفلت میں جی رہا ہے۔ وہ صرف اسی شخص کو اپنا دوست یا خیر خواہ تصور کرتا ہے جو اس کی ظاہری طرف داری اور حمایت کے الفاظ بولتا ہو، نہ کہ تنقید و نصیحت کے وہ الفاظ جن میں واقعی حمایت اور سچی خیر خواہی تلاش کی جاسکتی ہے۔ نیتا قسم کے لوگ عوام کی اس نفسیاتی کمزوری کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اتنی زیادہ علمی و فکری ورزش کے بعد، اب مزید وضاحت کی ضرورت نہیں کہ مسلمانوں کو درپیش غالباً، ہر مسئلے میں ان کی اپنی کوتاہیاں اور لغزشیں شامل حال رہتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمانوں کو اپنی غلطیوں کی نشان دہی اور ان کا اعتراف کرتے ہوئے، اپنے مسائل کا حل بھی خود ہی نکالنا ہوگا۔ "ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا۔۔۔"
موجودہ نامبارک صورت حال کو مبارک صورت حال میں بدلنے کے لیے نہایت ضروری ہے کہ ہم لوگ اپنے اخلاق و کردار کو پاکیزہ اور مضبوط بنانے پر خصوصی توجہ دیں۔ مسلمانوں، خصوصاً عام مسلمانوں کو مختلف سیاسی جماعتوں کے بیانات اور حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے مختلف نوعیت کے حکم ناموں پر غیر ضروری تبصرہ بازی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ علمی تنقید و تبصروں کے اپنے آداب ہوتے ہیں، ان کو ہمیشہ ملحوظ رکھا جائے۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ سیاسی شخصیات، دانشور حضرات اور اخبار و رسائل سے وابستہ سیاسی مبصرین کے کام کی نوعیت دوسرے عام لوگوں کے مقابلے مختلف ہوتی ہے۔
اس لیے، عام مسلمانوں کو اپنی سیاسی و معاشرتی پریشانیوں کے سدباب کی ذمے داری اپنے قائدین کے سپرد کر دینی چاہیے، کیوں کہ لائق و فائق ہونے کی وجہ سے وہ یہ کام بہ حسن و خوبی انجام دے سکتے ہیں۔ اسی کے ساتھ، معاشرے کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا بھی انھی کے فرائض میں شامل ہے۔ ملک کے کسی گوشے میں جہاں کوئی بات اسلام کے خلاف ہو رہی ہو، تو یہ مسلم علما کا کام ہے کہ وہ آگے بڑھ کر غلط فہمیوں کا سدباب کریں، اور جہاں کہیں مسلمانوں کے حقوق کی قانونی خلاف ورزی ہورہی ہو، وہاں مسلمانوں کے سیاسی قائدین سبقت لے کر، حالات کو درست کروائیں۔
اوپر مذکور دونوں ہی صورتوں میں عام مسلمان احتجاجی بھیڑ کا حصہ نہ بنیں اور اپنے قائدین پر بھروسا کرتے ہوئے انھیں قوم کے لیے کچھ کرنے کا موقع فراہم کریں۔ جب کبھی بھی عام مسلمان
"قوم کے غم میں حکام کے ساتھ ڈنر کھانے والے" مذہبی یا سیاسی رہ نماؤں کے ساتھ احتجاج جیسے مشغلوں میں شریک ہوتے ہیں؛ تجربات شاہد ہیں، مصیبت عام لوگوں پر ہی ٹوٹتی ہے، قائدین پر نہیں۔ اس لیے، ہر قسم کی احتجاجی سرگرمیوں سے دور رہتے ہوئے، عام مسلمانوں کو صرف اپنی "گھر-گرہستی" کو سنبھالنے اور بچوں کی معیاری تعلیم و اخلاقی تربیت پر سنجیدہ توجہ دینے کا کام کرنا چاہیے۔ اس طرح، مسلمانوں کی خود اعتمادی بلند ہوگی اور ان کے موجودہ کم زور معاشرے کی علمی، معاشی اور معاشرتی صحت بھی دن بہ دن بہتر ہوتی ہوئی نظر آنے لگے گی۔
اس نصیحت کے ساتھ کہ "لا تقنطو من رحمة الله" (اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو)، مضمون کی عبارت میں، یہاں وہاں مختلف حقائق کی روشنی میں جو رہ نمائی فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کرنے کی صورت میں، اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ بہت قلیل عرصے میں، عام و خاص سبھی مسلمانوں کو اپنا مستقبل روشن نظر آنے لگے گا۔
ان شاء اللہ تعالیٰ۔۔۔ عبدالرحمٰن
29.07.2023AD= 10.01.1445 AH
***گذشتہ آئینہ خانہ یہاں پڑھیں:احتجاج میں خیر نہیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے