اردو کے قومی اور بین الاقوامی جشن: ادبی معیار پر خصوصی توجّہ درکار

اردو کے قومی اور بین الاقوامی جشن: ادبی معیار پر خصوصی توجّہ درکار

ملک کے مختلف گوشوں میں عالمی مشاعرے اور جشن اردو کی مقبولیت کے ضامن ہیں مگر ادب اور علمی معیار سے بے رُخی کے سبب مسائل پیدا ہو رہے ہیں

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

یہ کہنے کی بات نہیں کہ ہماری زبان بین الاقوامی حیثیت کی حامل ہے اور دنیا کے پچاسوں ملکوں میں نہ صرف یہ کہ درس و تدریس کے شعبے میں اِس کا استعمال ہے بلکہ اُن روایتی اعتبار سے غیر آباد علاقوں میں اردو کے مشاعرے، جشن اور سے می نار یا مذاکرے بڑی کامیابی سے ہوتے دیکھے گئے ہیں اور ایسے اجتماعات کی مقبولیت میں روز افزوں اِضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اِنھی اجتماعات میں شرکت کے لیے سینکڑوں شعرا و ادبا دہلی، کراچی، لندن اور نیو یارک آتے جاتے پائے جاتے ہیں۔ خلیج کے ممالک تو عالمی اجتماعات میں شریک ہونے والے ادبا و شعرا کی نئی جنّت کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے ہیں۔ قطر، دبئی، بحرین، کویت، سعودی عرب، عمان، ابو ظہبی اور شارجہ جیسے مقامات میں پورے سال بھر اردو کی تقریبات کا سلسلہ چلتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔
ہندستان اور پاکستان تو اردو کے اپنے گھر ہیں اور اِن دونوں ملکوں میں سیکڑوں جگہوں پر چھوٹے بڑے ادبی اجتماعات ہوتے ہی رہتے ہیں۔ مقامی کوششوں اور عوامی چندے سے لے کر ضلع انتظامیہ اور صوبائی حکومت سے لے کر مرکزی حکومت کے اداروں کی مالی معاونت سے یہ سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسی صورت دیکھنے کو ملتی ہے کہ قحط الرجال کے اِس دَور میں بعض شعرا اور علما دس دن میں دس شہروں میں کار و بارِ ادب میں مشغول پائے جاتے ہیں۔ سیکڑوں شعرا نے تو ملازمتیں چھوڑ دیں کہ اُن معمولی تنخواہوں سے رُکاوٹیں زیادہ تھیں، اِس لیے ادبی تقریبات میں شمولیت کو ہی اپنا واحد پیشہ بنا لیا۔ اب اُن کی تجوریاں بھر رہی ہیں۔
بڑے جشن اور ادبی فیسٹیول انگریزی داں طبقے سے ہمارے بیچ مقبول ہوئے ہیں۔ دولت مند لوگوں کی زبان اور صاحبِ ثروت افراد کی شمولیت اور اُس کے تام جھام سے وہ جشن اپنے خاص معیار اور انداز سے کامیاب ہوتے تھے۔ بڑے شہروں کے نام سے رفتہ رفتہ لیٹریری فیسٹیول ہونے لگے۔ ہندستان میں انگریزی داں طبقے کے لیے یہ مجبوری ہے کہ وہ اپنے ادبی اجتماعات کو ہندستانی زبانوں سے جوڑ کر مقبولیت کے راستے تک پہنچے۔ اِن میں اُن ذو لسانی ماہرین کی زیادہ پوچھ رہی جو بنیادی طور پر کسی زبان میں بھی لکھتے ہوں مگر وہ اپنی باتیں انگریزی زبان میں پیش کر سکتے ہیں۔ ساہتیہ اکادمی تو بہت پہلے سے اِسی انداز سے اپنے بڑے قومی اور بین الاقوامی پروگرام کرنے کی عادی رہی ہے۔
انگریزی سے سیکھتے ہوئے ہندستان میں ہندی زبان کے ادیبوں نے ایسے بڑے جشن منعقد کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ مجھولے شہروں میں بھی اِس کی بنیاد پڑی۔ گورکھ پور اور مظفّر پور سے لے کے پٹنہ اور اندور تک ایسے سلسلے دراز ہوئے۔ جنوبی ہندستان کی زبانوں میں بھی جشن در جشن کا دَور شروع ہوا۔ کلکتہ، بنگلور، حیدر آباد اور چنئی میں تو ادبی جشن تو ہوتے ہی رہے ہیں، دراویڑی زبانوں کے بھی جشن منعقد ہونے لگے۔اُڑیسہ اور آسام، گوا اور بمبئی تک، جے پور سے احمد آباد تک؛ جشن در جشن دیکھتے جائیے۔
اردو میں یوں بھی نئی چیزیں اکثر دیر سے سامنے آتی ہیں۔ اردو والوں نے سے می نار اور مشاعروں کو محور بنا کر ہی اپنے بڑے پروگرام کیے ہیں۔ پرانے مشاعروں میں بیس پچیس ہزار کا مجمع بھی موجود ہوتا تھا اور پچاس سو کلومیٹر دور سے لوگ اِن اجتماعات میں شریک ہونے کے لیے سائکل، بیل گاڑی اور جیب سے آتے تھے۔ تین اور پانچ دن کے سے می نار میں سیکڑوں لوگ صبح سے شام تک صرف سامع کی حیثیت سے نہیں ہوتے، بحث و مباحثے کا رواں دَور قائم رہتا۔ آزادی کے بعد دھیرے دھیرے ہماری زبان کی عوامی مقبولیت پر جو اثر پڑا، خاص طور سے بازار اور سماجی ماحول کے اثرات نے جس طرح اِس زبان کو ایک خاص دائرے میں اسیر کر دیا۔ اِس کے بعد بڑے اجتماعات کی کامیابی آسان نہ تھی۔ اردو والوں نے چھوٹے جلسے اور نشستوں پر قناعت زیادہ کرنی شروع کر دی. جس شعری نشست میں دس شعرا اور دس پندرہ سامعین شرکت کر لیں وہ کامیاب ہو جائیں. جس سے می نار میں کھانے کے وقفے کے آس پاس سو لوگ پہنچ جائیں اور صبح شام چالیس پچاس لوگ ہال میں موجود رہیں تو اُسے بھی کامیاب تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ یو نی ورسٹیوں کے شعبہ ہاے اردو کے ادبی اجتماعات بھی طلبہ اور ریسرچ اسکالرس کی جبریہ شرکت سے کسی طرح کامیاب ہوتے ہیں۔ اِسے واقعتا مشکل گھڑی کہنا چاہیے۔
اردو کی تقریبات میں سامعین کا کم ہونا آخیر کن مسائل کی طرف ہمیں متوجہ کرتا ہے۔ کیا اردو زبان اور اُس کے ادبا و شعرا میں وہ کشش باقی نہیں جس سے عوام و خواص کا ایک بڑا طبقہ اُن کی باتیں سننے کے لیے پچھلے دَور کی طرح پروانہ وار چلا آئے۔ اقبال نے ایسے موقعے کے لیے کہا تھا:
کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بد گماں حرم سے
کہ امیرِ کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی
آج اردو والوں کے پاس نہ فیض احمد فیض نہ علی سردار جعفری ہیں اور نہ ہی شمس الرحمان فاروقی اور گوپی چند نارنگ۔ جنھیں سننے اور دیکھنے کے لیے ہزاروں لوگ ہمیشہ تیّار رہتے تھے۔ آج اردو کے اسٹیج پر جو لوگ نمایاں طور پر نظر آتے ہیں، اُن کے معیار اور کارناموں پر چہ می گویاں ہوتی رہتی ہیں۔ شعرا کا حال تو مت ہی پوچھیے۔ اسٹیج کے نصف سے زائد شاعر خود سے شعر نہیں کہتے۔ مانگے کے اجالے سے اُن کا کام چلتا ہے۔ اردو مشاعروں میں پچیس تیس فی صد ایسے شاعر نظر آئیں گے جو سِرے سے اردو جانتے ہی نہیں۔ اُن کے ہاتھ میں ہندی میں لکھا ہوا کلام ہوتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ ہندی میں شعر کہہ رہے ہوں گے۔ کون جانتا ہے اُن کے استاد بھی ہندی داں ہی ہوں گے اور وہیں سے اُنھیں وہ عطیہ حاصل ہوا ہوگا۔ اب اِسے اردو مشاعروں کا حصّہ کیوں بننا چاہیے۔
مشاعروں میں شاعرات کا حال تو اور برا ہے۔ ہندستان سے لے کر امریکا تک اردو کے مشاعروں میں جو خواتین شامل ہوتی ہیں، اُن میں نوّے فی صدی کے بارے میں لوگوں کا کہنا کہ وہ خود سے شعر کہنے کہ زحمت نہیں اُٹھاتیں۔ اُن میں پچاس ساٹھ فی صد تو صرف آواز، لباس اور صورت کی جلوہ گری سے کامرانی کی منزلوں تک پہنچی ہوئی ہیں۔ اُن میں بھی نصف سے زائد ہندی زبان میں لکھی پرچیوں کے سہارے میدان میں اپنا جادو جگا رہی ہیں۔ پاکستان میں تو کشور ناہید، شاہدہ حسن، فاطمہ حسن، امریکا میں حمیرہ رحمان اور اِس انداز کی اچھی خاصی شاعرات موجود ہیں جن کا ادبی وقار قائم ہے۔ ہندستان میں ساجدہ زیدی اور زاہدی زیدی کے بعد شہناز نبی، ملکہ نسیم، رفیعہ شبنم عابدی جیسی شاعرات تو موجود ہیں مگر بڑے مشاعروں میں اِنھیں کون بلاتا ہے؟ اِن کی جگہ پر شاعری کی جگہ کوئی اور کلاکاروں کو زیادہ جگہ ملتی ہے۔
ہر شہر میں مشاعرے اور جشن ہو رہے ہیں، یہ خوش آیند ہے۔ اردو کی مقبولیت کے نئے پیمانے وضع ہو رہے ہیں۔ چھوٹے بڑے اسپانسر بھی میدان میں آ رہے ہیں۔ پٹنہ لٹریری فیسٹیول اور اندازِ بیاں اور کے مشترکہ اہتمام سے ہونے والا مشاعرہ پانچ ستارہ ہوٹل میں منعقد ہو رہا ہے اور کئی ہزار روپے کے ٹکٹ خرچ کرکے لوگ مشاعرے میں شرکت کر رہے ہیں۔ مشاعرے سے پہلے ہی ٹکٹ بک چکے ہیں اور شیدائی مزید ٹکٹ کی دستیابی کے لیے گھوم رہے ہیں۔ اِس کا مطلب ہے کہ اردو تقریبات میں دیکھنے اور سننے والوں کا اکال نہیں ہے۔ انقعاد کنندگان بھی ایسے ہیں جو بیس، پچیس اور پچاس لاکھ خرج کر سکتے ہیں، مختلف ملکوں کے شعرا اور سامعین کو مدعو کر سکتے ہیں۔ اِسی کے ساتھ وہ بڑے بڑے اسپانسر بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ نہ کسی سرکار کے سامنے ہاتھ پھیلا رہے ہیں اور نہ وزرا کے سامنے کاسہ لیسی کر رہے ہیں۔ اِسے ہمیشہ مثبت انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری گزارش صرف ایک ہے کہ ادبی معیار سے سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ اردو کے نام پر نقلی لوگوں کو منچ نہ فراہم کیا جائے۔ یہ کوشش کی جائے کہ کھرا اور سچّا مال ہی عوام کے سامنے آئے۔ جگر، جوش اور فراق کے نام پر ہزاروں لوگ قطار بند گھڑے رہتے تھے، آج کے بھی اہم اور بڑے شعرا کو سننے کے لیے لوگ میدان میں آ جائیں گے۔ موسیقاروں اور ناٹک اور نوٹنکی کرنے والے شعرا سے بھی ایسے جشن کو بچانا بہت ضروری ہے ورنہ اردو کے نام پر آپ جو تیّاریاں کرتے ہیں اُنھیں دنیا لُوٹ لے گی اور اُس سے اردو کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں]
safdarimamquadri@gmail.com
***
گذشتہ عرض داشت یہاں پڑھیں:اردو کے اداروں کا قومی سطح پر بہ تدریج زوال: تحریک کار خوابِ غفلت میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے