کتاب: مشایخ نقش بندیہ

کتاب: مشایخ نقش بندیہ

مؤلف : مولانا نفیس احمد مصباحی
صفحات : ٨١٦
ناشر : المجمع القادری مبارک پور عظم گڑھ یوپی
مبصر : محمد ساجد رضا مصباحی

’’مشایخ نقش بندیہ‘‘ جامعہ اشرفیہ کے موقر استاذ، علوم عربیہ کے شناور، صاحب طرز ادیب حضرت مولا نانفیس احمد مصباحی حفظہ اللہ کی اہم اور معلوماتی تالیف ہے۔
مولانانفیس احمد مصباحی نے الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کے منتہی درجات کی گراں بار تدریسی فرائض اور اپنی بے پناہ علمی، تحقیقی اور تصنیفی مصروفیات کے باوجود محسن قوم و ملت حضرت قاری محمد احمد بقائی سجادہ نشین خانقاہ نقش بندیہ کشنی امیٹھی کی فرمائش پر محض چار ماہ کی قلیل مدت میں یہ ضخیم تذکرہ مرتب فرمایا ہے۔
٨١٦؍ صفحات پر مشتمل اس ضخیم تذکرے کے ابتدائی صفحات میں عرض ناشر اور مؤلف کے عرض حال کے علاوہ سراج الفقہا مفتی محمد نظام الدین رضوی صدر شعبہ افتا جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا ایک وقیع اور معلوماتی مقدمہ شامل ہے، جس میں اولیاے امت کے چند معروف سلاسل کا شمار کراتے ہوئے سلاسل اربعہ قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ اور نقشبندیہ پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ چاروں سلاسل کے معمولات اور خصوصیات و امتیازات کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اپنے اس مقدمے میں انھوں نے خصوصاً سلسلہ نقش بندیہ کے تعلق سے قیمتی معلومات جمع کر دی ہیں۔ ذیل کا اقتباس نقش بندی سلسلے کے تعلق سے قیمتی اور بنیادی معلومات فراہم کرتا ہے:
’’اس سلسلہ کے بانی حضرت خواجہ بہاء الدین نقش بند علیہ الرحمۃ والرضوان ہیں. اس سلسلہ کی نسبت حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے۔
یہ سلسلۂ طریقت مختلف ناموں سے موسوم رہا۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے حضرت شیخ با یزید بسطامی علیہ الرحمہ تک صدیقیہ کہلایا۔ حضرت بایزید بسطامی سے حضرت خواجہ عبد الخالق غجدوانی تک طیفوریہ اورخواجہ عبد الخالق غجدوانی سے خواجہ بہاء الدین نقش بند تک خواجگانیہ اورحضرت خواجہ نقش بند سے حضرت شیخ احمد سر ہندی تک نقش بندیہ کے نام سے موسوم رہا اور ہندوستاں میں حضرت مجدد الف ثانی سے موسوم ہوکر مجددیہ کہلا یا۔ اس سلسلہ میں شریعت کی پابندی اور اتباع شریعت پر کافی زور دیا گیا ہے‘‘[مقدمہ ص:۱۶]
اصل کتاب کا آغاز ص: ۲۸؍ پر شجرہ طیبہ نقش بندیہ مجددیہ سے ہوتا ہے۔ مؤلف نے سرور کائنات، سید المرسلین سیدنا و مولانا محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، خلیفۂ رسول حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، صحابی رسول حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے تفصیلی تذکرے کے بعد سلسلہ نقش بندیہ کے کل ۳۵؍ مشایخ کے اجمالی و تفصیلی احوال رقم فرمائے ہیں، جس کی آخری کڑی حضرت قاری محمد احمد بقائی سجادہ نشیں خانقاہ نقش بندیہ کِشنی امیٹھی ہیں۔ اس طرح جہاں قدیم مشایخ نقش بندیہ کے حالات نئے اسلوب میں مرتب ہوکر سامنے آگئے ہیں وہیں سلسلہ کے متأخرین مشائخ کے حالات بھی قلم بند ہوکر تاریخ کے سینے میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئے ہیں۔
فاضل مؤلف نے زیر تذکرہ شخصیت کے تعلق سے دستیاب معلومات اکٹھا کر کے حسنِ ترتیب کے ساتھ، مرتب کیا ہے. زبان و بیان میں حتی الامکا ن سادگی کا خیال رکھا گیا ہے؛ لیکن اس کے باوجود قاری اکتاہٹ اور بے کیفی کا احساس نہیں کرتا، موصوف اردو زبان کی طرح چوں کہ عربی و فارسی زبا ن و ادب پر بھی کامل دست رس رکھتے ہیں، اس لیے انھوں نے تینوں زبانوں کی کتابوں سے کامیاب استفادہ کیا ہے. 
شخصیات کے فضائل و مناقب میں غلو، بے جا اور غیرضروری عبارت آرائی اور غیر مستند واقعات سے احتراز کرتے ہوئے معتمد کتابوں کے حوالے ہی نقل کیے گئے ہیں۔ حوالہ جات ہر صفحہ پر حاشیہ میں نقل کر دیے گئے ہیں اور ہر شخصیت کے تذکرے کے اختتام پر جدید اسلوب میں مصادر و مراجع کی تفصیلی فہرست، کتاب، مطبع، سنہ اشاعت، مقام اشاعت، اور زبان وغیرہ امور کی صراحت کردی گئی ہے۔ حسب ضرورت حواشی بھی رقم کر دیے گئے ہیں جن کی وجہ سے حوالوں تک رسائی آسان ہوگئی ہے۔
مصروفیت کے اس دور میں ہر شخص کو عدم فرصت کا شکوہ ہے۔ رفتار زندگی تیز ہو گئی ہے۔ ہر فرد یہ چاہتا ہے کہ کم وقت میں بہت سارے کام کرلیے جائیں۔ ان تقاضوں کا لحاظ تحریر و تصنیف کے میدان میں بھی ضروری ہے۔ درجنوں تذکرے میری نظر سے ایسے گزرے جن میں محض ضخامت میں اضافے کے لیے ایسی عبارت آرائیاں کی گئی ہیں کہ خدا کی پناہ! فضائل و مناقب کا باب آیا تو زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے گئے۔ مؤلف گرامی نے مشایخ نقش بندیہ کے احوال کو افراط و تفریط سے بچاتے ہوئے حسب ضرورت اجمال و تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے. انھوں نے صرف مشائخ کی کرامات ہی قلم بند نہیں کیے ہیں بلکہ ان نفوس قدسیہ کے علمی کارناموں کو بھی اجا گر کرنے کی کوشش کی ہے۔ صاحب تصانیف شیوخ کے تصنیفی کارناموں پر بھر پور روشنی ڈالی ہے۔ شعر و شاعری سے شغف رکھنے والے شیوخ کے اشعار کو نقل کر کے ان کے شاعرانہ فکر و مزاج پر بھی اظہار خیال کیا گیا  ہے۔ فارسی اور عربی اشعار کا سلیس اور با محاورہ ترجمہ بھی نقل کر دیا گیا ہے۔ حضرت مرزا مظہر جان جاناں کے تذکرے میں آپ کی شاعرانہ صلاحیتوں کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حضرت مرزا مظہر اردو شاعری کے اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جو اصلاح کا دور کہلاتا ہے، یہ وہ زمانہ ہے جب اردو شاعری میں ’’صنعت ایہام‘‘ کا بہت زیا دہ رواج تھا. شاعری واردات قلب کی عکاسی اور معنوی حسن و جمال سے آراستہ ہونے کی بجائے الفاظ کا کھیل بن کر رہ گئی تھی. آپ وہ پہلے شاعر ہیں جس نے اردو شاعری کو ایہام سے پاک کر نے کی کوشش کی اور اسے با مقصد اور با معنیٰ بنایا۔ [مشائخ نقش بندیہ ص:۶۵۷]
تذکرہ نگا ری کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ زیر تذکرہ شخصیات کے ذاتی حا لات، فضائل و مناقب اور دینی و مذہبی خدمات کے ساتھ ساتھ اس عہد کے سیاسی و مذہبی ماحول اور تقاضوں کا بھی ذکر کر دیا جائے؛ تاکہ زمانے کے حالات اور تقاضوں کے پس منظر میں متعلقہ شخصیت کے کار ناموں کی صحیح اہمیت کا اندازہ ہو سکے اور قاری کے ذہن و دماغ میں اس عہد کے حالات کا ایک اجمالی خاکہ بیٹھ جائے ۔فاضل مؤلف نے اپنی اس تالیف میں سوانحی لٹریچر کے اس تقاضے کو پورا کیا ہے، خاص طور سے مجدد الف ثانی کے احوال میں اس کے نمو نے جا بجا ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
سوانح نگاری کے باب میں صاحب سوانح کے حالات جب تک تسلسل کے ساتھ بیان نہ کیے جائیں قاری متعلقہ شخصیت کی عظمت و منزلت کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتا بلکہ بسا اوقات تسلسل کا فقدان کئی طرح کی پیچیدگیوں کا بھی سبب بن جاتا ہے۔ اس لیے سیرت و سوانح کے باب میں ربط و تسلسل کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے، تذکرہ مشائخ نقش بندیہ اس لحاظ سے بھی قارئین کو متائثر کرتاہے، بعض بزرگوں کے حالات اختصار کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود حسن ترتیب کے سبب مقام و مرتبے کا ایک اجمالی نقشہ ذہن میں مرتسم ہو جاتا ہے۔
بزرگوں کے اقوال و فرمودات میں حکمت و موعظت کے بیش بہا خزانے پوشیدہ ہو تے ہیں۔ بسا اوقات ولی کامل کی زبان فیض ترجمان سے نکلا ہوا ایک مختصر جملہ ہزاروں گم گشتگان راہ کو ساحل مراد سے ہم کنار کرنے کے لیے کا فی ہوا کرتا ہے۔ مشائخ نقش بندیہ کے ایسے بے شمار فرمودات ہیں، جن میں عقائد کی اصلاح بھی ہے اور تزکیہ نفس کا درس بھی۔ اعمال صالحہ کی تر غیب بھی ہے اور افعال قبیحہ پر عذاب الہی کی وعید بھی۔مؤلف نے مشائخ نقش بندیہ کے احوال و مقامات کو بیان کر نے کے ساتھ ان کے اقوال و فرمودات کو بھی ’’کلمات طیبات‘‘ کے بیان کرنے کا التزام کیا ہے۔
اردو زبان میں نقش بندی بزرگوں کے حالات پر غالباً یہ پہلی ضخیم کتاب ہے جو عصری اسلوب اور سوانح نگاری کے تقاضوں کے مطابق منظر عام پر آئی ہے. کتاب کا اجرا شیخ ربانی حضرت مولانا شاہ غلام عبدالقادر مچھلی شہری کے پچاسویں عرس کے مو قع پر خانقاہ نقش بندیہ کشنی میں عمل میں آیا ہے. جشن زریں اور صدسالہ کے نام پر لاکھوں روپے ڈیکوریشن کے نام پر خرچ کرنے والوں کے لیے خانقاہ نقش بندیہ کشنی کے ارباب حل و عقد کا یہ اقدام نمو نہ عمل ہے. کاش ہماری دوسری خانقاہیں بھی اپنے بزرگوں کے حالات کو محفوظ کرنے کے لیے اسی طرح کے اقدامات کرتے۔ مؤلف گرامی حضرت مولانا نفیس احمد مصباحی دام ظلہ اس عظیم کاوش پر خانقاہ نقش بندیہ کِشنی کی جانب سے بجا طور پر ایوارڈ کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے علم اور عمر میں بے پناہ بر کتیں عطا فرمائے۔
کتاب کے ابتدائی صفحات میں فہرست اجمالی ہے جب کہ اخیر کے صفحات میں ہر شخصیت کی تفصیلی فہرست مرتب کر دی گئی ہے۔ کتاب کی کتابت طباعت عمدہ اور معیاری ہے۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں: مفتی آل مصطفٰے مصباحی اشرفی : حیات و خدمات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے