بچپن کی شادی (ڈراما)

بچپن کی شادی (ڈراما)

ڈراما نگار: نکہت پروین
اسسٹنٹ ٹیچر، رشڑا انجمن ہائی اسکول
رشڑا، ہگلی، مغربی بنگال


کردار:
(i) ٹیچر
(ii) کلاس میں موجود طالبات
(iii) متاثر طالب علم
(iv) طالب علم کے والدین
(v) پولیس
(vi) ڈاکٹر
(vii) دیگر کردار (دادا، دادی – جو تھوڑا اونچا سنتی ہے، محلّے کی عورتیں)
پہلا منظر
(اسٹیج پر گھر کا منظر نظر آتا ہے اور افسانہ کی ماں جھاڑو دیتے ہوئے نظر آتی ہے۔ افسانہ اسکول یونیفارم پہنے ہوئے اسٹیج پر نظر آتی ہے۔)
افسانہ : ماں میں اسکول جا رہی ہوں۔
افسانہ کی ماں : کیا!! (تعجب سے) اسکول!! نہیں نہیں، تم اب اسکول نہیں جاؤگی۔
افسانہ : (حیران ہوتے ہوئے) پر کیوں ماں؟
افسانہ کی ماں : کہا نہ – جاؤ اندر جاؤ۔ باورچی خانہ میں چولہے پر سبزی چڑھی ہے۔ جاؤ جاکر دیکھو۔
افسانہ : پر ماں! میرے امتحانات ہونے والے ہیں۔ پہلے ہی کئی دن غیر حاضر رہ چکی ہوں، میرا نصاب ادھورا رہ گیا ہے۔
افسانہ کی ماں : چپ چاپ جاتی ہو یا تمھارے ابّا کو بلاؤں۔
(افسانہ غصّے اور ناراضگی میں اندر چلی جاتی ہے۔)
دوسرا منظر
(کلاس روم میں طالبات موجود ہیں اور ٹیچر کلاس میں داخل ہوتی ہے۔)
طالبات : (احترام میں کھڑے ہوتے ہوئے) Good Morning Ma,am. : Good Morning Students! …… بیٹھ جائیے سب۔
طالبات : شکریہ میڈم!
ٹیچر : سب اپنا اپنا حاضری بولیے۔۔۔۔۔ رول 1
طالبات : Yes Ma,am
ٹیچر : رول 2، 3، 4
طالبات : Yes Ma,am, Yes Ma,am, Yes Ma,am
ٹیچر : رول 5، رول 5، افسانہ خاتون۔۔۔۔ کیا ہوا؟ کئی دنوں سے افسانہ نہیں آرہی ہے؟
طالب علم : (رول، 2) جی میڈم کئی دنوں سے وہ نہیں آ رہی۔
ٹیچر : لیکن کیوں؟ افسانہ تو ایک اچھی Student ہے اور وہ کبھی کلاس میں غیر حاضر نہیں رہتی ہے۔
دوسری طالب علم : Ma,am ہمیں نہیں معلوم، بس اتنا معلوم ہے کہ اب سے وہ اسکول نہیں آئے گی۔
ٹیچر : ٹھیک ہے میں اس سے بات کروں گی۔۔۔۔ رول 6، 7۔
(ٹیچر کلاس میں طالبات کو پڑھانے کے بعد اسٹاف روم میں آکر افسانہ کے متعلق سوچنے لگتی ہے۔)
(ٹیچر خود سے مخاطب ہوکر) ۔۔۔۔ آخر کیا بات ہوگی کہ افسانہ اسکول نہیں آرہی ہے، امتحان سر پر ہے اور باقی کے Students بھی کہہ رہے ہیں کہ اب وہ کبھی اسکول نہیں آئے گی۔ افسانہ تو ایک ذہین طالب علم ہے وہ پڑھائی کو لے کر اتنی لاپرواہ کیسے ہو سکتی ہے۔ مجھے اس سے بات کرنی چاہیے۔
(ٹیچر کئی دفعہ افسانہ کے گھر فون کرتی ہے لیکن کوئی فون رسیو (Receive) نہیں کرتا۔)
تیسرا منظر
(ٹیچر افسانہ کے گھر پہنچتی ہے۔)
ٹیچر : کیا گھر پر کوئی ہے؟ افسانہ ۔۔۔۔۔ افسانہ۔
افسانہ کی ماں : (گھر سے باہر نکلتے ہوئے۔) آپ کون؟
ٹیچر : السلام علیکم! جی میں ’افسانہ‘ کی ٹیچر ہوں۔
افسانہ کی ماں : وعلیکم السلام! جی کہیں کیا بات ہے؟
ٹیچر : کیا افسانہ گھر پر ہے؟ مجھے اس سے ملنا ہے۔
افسانہ کی ماں : جی، جی وہ افسانہ تو۔۔۔۔۔
افسانہ : (گھر سے باہر نکلتے ہوئے) کون ہے ماں؟ (ٹیچر کو دیکھ کر)
میڈم آپ، السلام علیکم!
ٹیچر : وعلیکم السلام! افسانہ میں نے تمھیں کتنی بار فون کیا، لیکن کسی نے فون رسیو نہیں کیا۔ افسانہ مجھے تم سے اکیلے میں کچھ بات کرنی ہے۔
افسانہ کی ماں : کیوں، کیوں، اکیلے میں کیوں؟ جو بات کرنی ہے میرے سامنے کیجیے۔
افسانہ : ٹھیک ہے میڈم، (افسانہ ٹیچر کو لے کر گھر کے اندر چلی جاتی ہے۔) ٹیچر : کیا بات ہے افسانہ! تم کئی دنوں سے اسکول نہیں آ رہی ہو؟ اور تمھاری سہیلیوں کا کہنا ہے کہ اب تم اسکول نہیں آؤگی۔ کیوں افسانہ؟
(افسانہ خاموش نظر جھکائے کھڑی ہے۔)
ٹیچر : افسانہ کیا تمھیں معلوم نہیں امتحان سر پر ہے اور تم اسکول نہیں آؤگی تو تمھارا نصاب مکمل نہیں ہو پائے گا۔ تم تو اتنی غیر ذمہ دار نہیں تھی۔ بتاؤ افسانہ آخر بات کیا ہے؟
افسانہ : (خاموشی توڑتے ہوئے) میڈم وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ میری شادی ہونے والی ہے۔ ماں نے اسکول جانے سے منع کیا ہے۔
ٹیچر : (تعجب سے) کیا! افسانہ تمھاری شادی، یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟ ابھی تو تم صرف سولہ (16) سال کی ہو۔ اور یہ غیر قانونی ہے۔ افسانہ تمھاری عمر ابھی پڑھنے کی ہے، اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی ہے، اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی ہے اور تم تو ایک ذہین Student ہو۔
افسانہ کی ماں : (غصّہ سے) او! اس لیے آپ کو اکیلے میں بات کرنی تھی، آپ میری بیٹی کو بہکا رہی ہیں۔
ٹیچر : جی، نہیں ۔۔۔۔۔ میں بس اس سے اس کی مرضی پوچھ رہی ہوں، ’افسانہ‘ کی عمر ابھی شادی کرنے کی نہیں، پڑھنے لکھنے کی ہے، اور آپ لوگ اس کی زبردستی شادی کرا رہے ہیں۔ آپ لوگ کیوں ایسا کر رہے ہیں؟
افسانہ کی ماں : ہم لوگ اس کے والدین ہیں، اس کو جنم دینے والے، ہم جانتے ہیں کہ اس کے لیے کیا اچھا ہے کیا بُرا، آپ ہمارے نجی معاملے میں دخل نہ دیں تو بہتر ہوگا۔
ٹیچر : یہ اس کی (افسانہ) پوری زندگی کا سوال ہے، جب جنم دینے والے ہی اس کی خواہشوں کو نہیں سمجھ پائیں گے تو دوسروں سے کیا اُمید کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی افسانہ صرف سولہ سال کی ہے اور قانون کے مطابق لڑکیوں کی شادی کرانا قانوناً جرم ہے۔
افسانہ کی ماں : بڑی آئی قانون بتانے والی۔۔۔۔۔ کیا اس سے پہلے کسی لڑکی کی شادی نہیں ہوئی اس عمر میں؟ یہی صحیح عمر ہے اس کی شادی کرنے کی۔
(افسانہ کی دادی اسٹیج پر آتی ہے)
افسانہ کی دادی : کیا ہوا کیوں اتنی دھما چوکڑی مچی ہوئی ہے؟ اتنا شور و غل کیسا ہے؟
افسانہ کی ماں : اماں! یہ افسانہ کی ٹیچر ہے، اور ہمارے گھر آکر یہ ہمیں ہی بول رہی کہ یہ افسانہ کی شادی کرنے کی صحیح عمر نہیں، یہ غیر قانونی ہے۔
افسانہ کی دادی : کیا میڈم جی! کیا ہم لوگ کی شادیاں نہیں ہوئیں اس عمر میں، میری شادی ’افسانہ‘ سے بھی کم عمر میں ہوئی تھی، ویسے بھی پڑھ لکھ کر کیا کرے گی، لڑکیوں کا اصل کام چولہا چوکا کرنا، گھر سنسار سنبھالنا رہتا ہے۔ کیونکہ شوہر کے دل کا راستہ پیٹ سے ہوکر جاتا ہے۔ اسی میں ان کی بھلائی ہے۔
(دو عورتیں آپس میں بات کرتے ہوئے اسٹیج پر نظر آتی ہیں)
پہلی عورت : ارے کیا ہوا رقیہ کی ماں؟ یہ اتنا شور کیوں مچا ہے افسانہ کے گھر میں؟
دوسری عورت : ارے دیکھو نا بہن افسانہ کی شادی کو کچھ ہی دن باقی ہیں، اور یہ میڈم آکر ہم لوگوں کو قانون سمجھا رہی ہیں، اب یہ ہمیں بتائے گی کہ ہمیں اپنی بیٹیوں کی شادی کب کرنی چاہیے۔
(دو عورتیں اور آ جاتی ہیں)
تیسری عورت : کیا ہوا بہن کیوں اتنی بھیڑ لگی ہے؟
دوسری عورت : دیکھئے نا یہ افسانہ کی ٹیچر ہے اور یہ افسانہ کی شادی کرنے کے لیے منع کر رہی ہے، کہہ رہی ہے یہ غیر قانونی ہے۔
تیسری عورت : شادی نہیں کرائے تو کیا سر پر بیٹھا کر رکھے۔ اس مہنگائی کے زمانے میں لڑکی جتنی جلدی بیاہ کر سسرال چلی جائے اچھا ہے۔ ویسے بھی پڑھ لکھ کر کیا ہوگا، یہاں تو لڑکوں کو نوکری چاکری مل ہی نہیں رہی۔ لڑکیوں کو کیا ملے گی۔
ٹیچر : یہ آپ لوگ کیا کہہ رہی ہیں۔ کیا آپ لوگ یہی چاہتی ہیں کہ کم عمر میں شادی ہونے کی وجہ سے آپ لوگوں کو جو تکلیف جھیلنی پڑی ہے وہ تکلیف آپ کی بیٹیاں بھی جھیلے۔ کم سے کم آپ تو ان کے دکھ کو سمجھیں۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتا ہے کہ آج کے دور میں سرکار نے بچوں کو پڑھانے کے لیے کتنی ساری سہولیات دی ہیں۔ ہر طرح کے اسکالرشپ، مفت تعلیم، مفت غذا، مفت یونیفارم، کتابیں، کاپیاں وغیرہ حتی کہ ہر طرح کی بنیادی سہولیات مہیا کی ہیں پھر بھی آپ اپنی بچیوں کو آگے پڑھنے سے کیوں روکتی ہیں؟
افسانہ کی ماں : دیکھیے آپ ہمیں نہ سمجھائیے کہ ہمیں کیا کرنا ہے کیا نہیں، افسانہ کی شادی ہوکر رہے گی جلد ہی، آپ کو جو کرنا ہے کر لیجئے۔
ٹیچر : ٹھیک ہے ابھی تو میں جا رہی ہوں لیکن یاد رکھیے میں اتنی آسانی سے ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہوں۔
(ٹیچر وہاں سے چلی جاتی ہے)
چوتھا منظر
ٹیچر : (فون پر بات کرتی ہوئی) ہیلو ڈاکٹر ثنا! السلام علیکم!
ڈاکٹر : وعلیکم السلام! جی کہیں خیریت؟
ٹیچر : جی الحمدُ للہ! ثنا مجھے آپ سے ایک مدد چاہئے، میری ایک Student ہے ’افسانہ‘ وہ ابھی صرف سولہ سال کی ہے اور اس کے گھر والے اس کی شادی کرا رہے ہیں اس کی مرضی کے خلاف۔
ڈاکٹر : یہ تو بہت غلط ہو رہا ہے۔ ہمیں کوئی ٹھوس قدم اٹھانا چاہئے، ٹھیک ہے کل ہم دونوں اس کے گھر جائیں گے اور انھیں سمجھائیں گے اور اگر وہ پھر بھی نہ مانے تو ہم پولیس کو اطلاع کریں گے۔
ٹیچر : ٹھیک ہے۔
پانچواں منظر
(ٹیچر اور ڈاکٹر افسانہ کے گھر آتی ہیں۔ افسانہ کی ماں سبزی کاٹتے ہوئے)
ٹیچر : افسانہ
افسانہ کی ماں : آپ پھر آ گئی! میں نے کہا نہ آپ ہمارے گھر کے معاملوں میں دخل نہ دیں۔
ٹیچر : یہ صرف آپ کے گھر کا معاملہ نہیں، افسانہ کی پوری زندگی کا معاملہ ہے۔ اور بیٹی تو پنچ کی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر : جی ہاں! ٹیچر صاحبہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے۔ بیٹی پنچ کی ہوتی ہے، ہم اس کے ساتھ کچھ غلط ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔
کیا آپ لوگوں کو نہیں معلوم کم عمر میں لڑکیوں کی شادی کرنے سے انہیں کیا ذہنی اور جسمانی پریشانیاں ہوتی ہیں۔ وقت کے ساتھ بچیاں 12 سے 13 سال کی عمر میں دیکھنے میں جوان تو ہو جاتی ہیں لیکن اس جسم کو Mature اور مضبوط ہونے میں کم سے کم 18سے 21 سال تک وقت چاہئے تاکہ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر شادی کے لیے اور اس سے جڑے ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے تیار ہو سکے۔
(دادی اسٹیج پر حاضر ہوتی ہیں)
افسانہ کی دادی : ہماری ’افسانہ‘ بہت ہوشیار ہے وہ سب ذمہ داریاں اٹھا لے گی، ’افسانہ‘ تو پھر بھی سولہ سال کی ہے، میری شادی تو 12 سال کی عمر میں ہو گئی تھی۔ ’افسانہ‘ کی ماں کو بھی ہم 15 سال کی عمر میں ہی بیاہ کر لائے تھے۔ ہم نے کیسے سب سنبھالا۔
ڈاکٹر : جلدی شادی ہونے کی وجہ سے جن پریشانیوں سے آپ لوگ دو چار ہوئی ہیں کیا آپ یہ چاہتی ہیں کہ آپ کی بچیاں بھی یہ سب جھیلیں۔ کم عمر میں شادی ہونے کی وجہ سے بچیوں پر ذمہ داریوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے جس سے وہ Hypertension کا شکار ہو جاتی ہیں۔
افسانہ کی دادی : کیا پنشن؟
ڈاکٹر : پنشن نہیں ٹیشن یعنی لڑکیاں High blood pressure کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اور اگر اس دوران وہ Pregnant ہو جائیں تو Maternal Mortility کا خطرہ بن جاتا ہے. 
افسانہ کی دادی : کیا موٹی!! ارے شادی کے بعد تو ہر لڑکی موٹی ہو جاتی ہے۔ شادی کے بعد موٹاپا تو خوش حالی اور تندرستی کی نشانی ہے۔
ڈاکٹر : موٹی نہیں ماں جی! Mortality یعنی بچے کی پیدائش کے وقت ماں کے مرنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی اس خطرے سے بچ بھی جائے تو بچّے کی پرورش کی ذمہ داری اس اکیلے پر پڑ جاتی ہے، جب کہ جسمانی اور ذہنی طور پر وہ خود ایک بچی ہے۔ اور وقت کے ساتھ بہت سے Gynaecological problems شروع ہو جاتے ہیں اور صرف یہی نہیں Pre-muture birth، Preeclampsia، Breathing distress کا خطرہ ہوتا ہے۔ جس سے ماں کو ہی نہیں بچے کی جان کو بھی خطرہ ہوتا ہے۔ اور بچے پیدائشی طور پر جسمانی یا ذہنی مفلوج پیدا ہوتے ہیں۔
افسانہ کی دادی : ڈائنی! کیا کہا آپ نے ڈائنی؟ ہماری بیٹی کو جلدی شادی کرنے سے وہ ڈائنی بن جائے گی۔
افسانہ کی ماں : ارے اماں ڈائنی نہیں۔۔۔۔۔ گائنی یعنی عورتوں کو ہونے والی بیماریاں۔
افسانہ کی دادی : اوہ ۔۔۔۔۔ اب سمجھی، ارے بہو، تم کو یہ سب کے بارے میں بہت معلوم ہے تم کب سے ڈاکٹراین بن گئی۔
ڈاکٹر : اور اسی وجہ سے عورتوں کو Uterine، بچہ دانی کی مختلف بیماریاں Vaginal uterine اور یہاں تک کہ Ovary کینسر تک ہو جاتا ہے، کم عمر میں شادی کرکے ہم اپنی بچیوں کو موت کے منہ میں ڈالتے ہیں اور ہمارے ملک کا روشن مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔
(منظر پر افسانہ کے والد غصّے میں آتے ہوئے)
افسانہ کے والد : ارے ارے!! اتنی بھیڑ کیوں لگی ہے یہ لوگ کون ہیں افسانہ کی ماں؟
افسانہ کی ماں : اجی یہ وہی لوگ ہیں جن کہ بارے میں میں نے آپ کو بتایا تھا۔
افسانہ کے والد : ارے! ارے! یہ کیا یہ لوگ پھر آ گئے، رکو یہ لوگ ایسے نہیں مانیں گے میں ابھی انھیں باہر پھینکواتا ہوں، ارے کوئی پولیس تو بلواؤ۔
ٹیچر : آپ کیا پولیس بلائیں گے ہم خود اپنے ساتھ انھیں لے کر آئے ہیں۔ ہمیں پتہ تھا آپ اتنی آسانی سے نہیں مانیں گے۔
انسپکٹر صاحبہ!!!
(انسپکٹر اندر داخل ہوتی ہیں)
انسپکٹر : ہمیں پتا چلا ہے کہ آپ اپنی بیٹی کی کم عمر میں شادی کروا رہے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ غیر قانونی ہے اور اس کے لیے آپ کو جیل ہو سکتی ہے۔ آج کے تعلیم یافتہ دور میں ایسی سوچ!! آپ کو معلوم ہے کہ کم عمر کی شادی کو روکنے کے لیے ہمارے ملک میں سب سے پہلا قدم انگریز حکومت نے Child Marriage Restrain Act (1929) کے ذریعہ اٹھایا، جسے بچوں کی شادی روکنے کے لیے First Secular Law مانا جاتا ہے۔ لیکن اس میں Punishment سخت نہیں ہونے کی وجہ سے لوگوں میں اس کا ڈر نہیں پھیلا۔
ماضی میں اور بھی نہ جانے کتنے سماجی اصلاح کاروں نے بچپن کی شادی کا رواج ختم کروانے کے لیے جدوجہد کی جس میں راجہ رام موہن رائے کے ذریعہ قائم شدہ برہمو سماج (١٨٢٨ء) کی انتھک کوششیں اور شری ہرولاس شردا کے شاردا ایکٹ (١٩٢٧) کے ذریعہ اٹھائے گئے اقدام شامل ہیں۔ آزادی کے بعد بچیوں کو کم عمر میں شادی سے بچانے کے لیے سرکار نے کئی سارے قوانین لاگو کئے۔٢٠٠٦ء کے قانون کے مطابق لڑکیوں کی شادی کے لیے کم از کم 18 سال اور لڑکوں کے لیے 21 سال حد مقرر کی گئی ہے۔ حال ہی میں ٢٠٢١ء میں اس میں ترمیم کرکے لڑکا اور لڑکی دونوں کی عمر 21 سال کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے۔
میں آپ کی جانکاری کے لیے بتادوں کہ لڑکیوں کی زبردستی شادی کرانے کی سزا بھی بہت سخت ہے اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے ایک لاکھ جرمانہ اور دو سال کی سزا ہو سکتی ہے اور جو لوگ اس شادی میں شریک ہوں گے انہیں بھی سزا ہو سکتی ہے۔
(اسٹیج پر دادا کی Entry ہوتی ہے)
افسانہ کے دادا : رکو! بہت ہو گیا، گذشتہ کئی دنوں سے میں یہ تماشا دیکھ رہا ہوں۔
افسانہ کے والد : ابّا جی آپ ان سب معاملوں میں نہ پڑیں آپ کی طبیعت ایسے ہی خراب رہتی ہے۔
افسانہ کے دادا : چپ کر اب بس آخری فیصلہ ہماری لاڈو کا ہوگا۔ بول بیٹا تو کیا چاہتی ہے؟
(سب کوئی افسانہ کو حوصلہ دلانے لگتے ہیں اور اس کی سہیلیاں بھی اس کے سپورٹ میں آ جاتی ہیں۔)
پہلی سہیلی : بولو افسانہ بولو آج اگر تم چپ رہی تو کل ہمارے ساتھ بھی یہی ہوگا۔ ہمارے اور ہمارے ملک کی تمام لڑکیوں کی آواز بنو بولو۔
دوسری سہیلی : ہاں افسانہ پلیز ہمارے لیے بولو۔
تیسری سہیلی : پلیز چپ مت رہو۔
افسانہ : (صبر کا باندھ توڑتے ہوئے) بس بس اب میں اور چپ نہیں رہ سکتی، اگر آج میں ڈر گئی تو سب برباد ہو جائے گا۔ ہاں ہاں! میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتی، میری بھی کچھ خواہشیں ہیں۔ میں بھی کچھ بننا چاہتی ہوں، بالکل اپنے میڈم کی طرح ’دلیر‘ اور کچھ نہ بھی بن سکی تو کھل کر جینا چاہتی ہوں، اڑنا چاہتی ہوں۔ اتنا اوپر اتنا اوپر کہ سماج کی سبھی دقیانوسی بیڑیاں بھی میرے پیروں کو جکڑ نہ سکیں، میں سانس لینا چاہتی ہوں ایک ایسے جہاں میں۔۔۔۔

Where the mind is without fear and the head is held high.
Where knowledge is free.
Where the world has not been broken up into fragments.
By Narrow domestic walls.
Where the words come out from the depth of truth.
Source: Where The Mind is Without Fear — R. N. Tagore

افسانہ کی دادی : ارے بٹیا تو تو بڑی اچھی انگریزی بول لیتی ہے۔
ٹیچر : شاباش افسانہ شاباش I am proud of you. تم نے بہت صحیح فیصلہ لیا ہے افسانہ، اور میں تمھارے دادا سے بہت متاثر ہوں، جنھوں نے ان فرسودہ رسم و رواج کو بالائے طاق رکھ کر تمھارے فیصلہ کو مان دیا۔
افسانہ کے دادا : (ہاتھ اٹھا کر) خوب ترقی کرو بیٹا۔
(ماں افسانہ کو لے کر گھر کے اندر چلی جاتی ہے اور ڈراما کا اختتام ہو جاتا ہے۔)
آج کے دور میں جہاں ہمارے ملک نے سائنس اور ٹکنالوجی میں اتنی ترقی حاصل کی ہے وہاں ایسے رسموں اور سوچوں کی کوئی جگہ نہیں۔ حکومت کے بنائے گئے قانون کے بعد ریاست مغربی بنگال کی عزت مآب وزیرِ اعلا ”ممتا بنرجی“ کے ذریعہ رائج کیے ہوئے کنیا شری اسکیم Child Marriage کو روکنے کے لیے ایک ٹھوس قدم ہے۔ جس میں انھوں نے 18 سال یا اس سے کم عمر کی لڑکیوں کو مالی مدد کے ذریعہ ان کے تعلیم حاصل کرنے کے خواب کو ایک نئی اور مضبوط راہ دکھائی ہے۔ کنیا شری جسے K1 اور K2 کے ذریعہ دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ K1 میں بچیوں کو 13 سال ہونے پر ہر سال 1000 روپے کی رقم دے کر ان کے تعلیم کے سلسلے کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور K2 کے ذریعہ 18 سال ہونے پر انھیں 25000 ہزار کی خطیر رقم ملتی ہے۔ اور یہ سلسلہ یہیں نہیں تھمتا بلکہ جب یہ بچیاں کالج کی پڑھائی کرکے پوسٹ گریجویشن کے لیے یعنی اعلا تعلیم کے لیے یونی ورسٹی میں داخلہ لیتی ہیں تو سائنس کی طالبات کو ماہانہ 2500 روپے اور آرٹس کی طالبات کو ماہانہ 2000 روپے جیسی خطیر رقم مہیا کی جاتی ہے۔ جس میں عمر کی کوئی حد مقرر نہیں۔
اس کے علاوہ Aikya Shree، Merit cum means، Post Matric، Prematric اسکالر شپ وغیرہ اور کئی NGO’s بھی اس مقصد میں آگے آکے ہر طرح کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔
اتنی سہولیات کے باوجود آخر ابھی تک یہ رواج کیوں چلتا آرہا ہے؟ یہاں تک کہ کئی بار دیکھا اور سنا گیا ہے کہ جس رقم کو ہماری سرکار بچیوں کو آگے بڑھانے کے لیے مہیا کرتی ہے والدین اسی رقم کو جمع کرکے ان کی شادی کر دیتے ہیں۔ کیا ہے یہ سب؟ ماں باپ کہتے ہیں کہ ہمارے بچے شادی میں دیر کرنے سے بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں، وہ آگے جاکر غلط قدم اٹھا سکتے ہیں۔
مگر ایسا کہنے سے پہلے یہ سوچنا ہوگا کہ آخر یہ کس لیے ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے تربیت کا فقدان ہے۔ ہم بچوں کو تعلیم تو دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن تربیت! اُس کا کیا؟ یاد رکھیں۔۔۔۔۔ ”تعلیم و تربیت لازم و ملزوم ہیں۔“ تربیت کے بغیر تعلیم اور تعلیم کے بغیر تربیت کا کوئی فائدہ نہیں“۔
بچوں کے اندر یہ دونوں جُز ڈالنے کے لیے، اساتذہ، والدین اور سماج کے ذمہ داران سب کو ہمہ تن گوش ہوکر کوشش کرنی ہوگی۔
……(٭)……
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:ڈاکٹر شاہین پروین کی "کرشن چندر کی ادبی خدمات" ایک جائزہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے