مفتی آل مصطفٰے مصباحی اشرفی : حیات و خدمات

مفتی آل مصطفٰے مصباحی اشرفی : حیات و خدمات

محمد شہروز کٹیہاری
موہنا،چوکی، کدوا، کٹیہار، بہار

سیمانچلی فقہا کی تثلیث میں مجمع البحرین حضرت الشاہ مفتی محمد عبید الرحمٰن رشیدی مصباحی مد ظلہ، فقیہ النفس، مناظر اہل سنت حضرت مفتی مطیع الرحمٰن مضطر رضوی پورنوی مدظلہ کے ساتھ فقیہ اہل سنت حضرت علامہ مفتی محمد آل مصطفے مصباحی اشرفی نور اللّٰہ تعالی مرقدہ کا نام آتا تھا. مفتی آل مصطفے مصباحی عمر، علم اور تجربہ میں بھلے ہی دونوں سے بہت چھوٹے تھے، مگر اپنی علمی خدمات کی وجہ سے دونوں کے ہم پلہ ہی معلوم ہو تے تھے، حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمة کبھی دونوں پر سبقت بھی لے جا سکتے ہیں یہ کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا، مگر 10 جنوری 2022 کی شب کو مرضی مولی سے لقائے محبوب کی ریس میں دونوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل گئے۔
پیدائش وسکونت :
صوبہ بہار، ضلع کٹیہار، بلاک کدوا، میں بھینس بندھا نامی ایک گاوں اپنے علاقے میں مشہور ہے، خصوصا عصری تعلم میں یہ گاﺅں آس پاس کے لیے آئیڈیل کا درجہ رکھتا ہے۔ حضرت مفتی صاحب کا آبائی گاؤں یہی تھا۔ اعظم نگر بلاک ضلع کٹیہار میں شہجنہ نامی گاؤں کی شہرت بھی علاقے میں کم نہیں۔ مفتی صاحب کے نانا حضرت مولانا قاضی ثمیر الدین رشیدی اسی شہجنہ کے ذی ثروت عالم دین تھے۔ حضرت فقیہ اہل سنت کے والد مستقل سکونت سسرال (شہجنہ) میں کرلی تھی اس لیے حضرت مفتی آل مصطفےٰ مصباحی قدس سرہ کی پیدائش 1971ء میں اسی گاؤں شہجنہ میں ہوئی۔
والد: حضرت مولانا محمدشہاب الدین لطیفی اشرفی قدس سرہ آپ کے والد تھے، مدرسہ لطیفیہ رحمن پور، دارالعلوم مصطفائیہ چمنی بازار، پورنیہ، مدرسہ فیض الغرباء آرا بہار، مدرسہ نیازیہ اسلامیہ خیر آباد جیسے مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد جامعہ نعیمیہ مرا دآباد پہنچے۔ تفسیر مدارک کی جماعت میں تھے کہ ملک العلماء علامہ ظفرالدین بہاری قدس سرہ کے بحرالعلوم کٹیہار میں تشریف لانے کی مژدہ جاں فزا ملی۔ جامعہ نعیمیہ کے اساتذہ سے اجازت لے کر مدرسہ لطیفیہ بحرالعلوم کٹیہار پہنچے، دو سال تک ملک العلماء سے پڑھے، ملک العلما کی آپ پر بڑی شفقتیں رہیں، شعبہ عالیہ میں بہ حیثیت استاد بحرالعلوم ہی میں ان کی تقرری بھی فرمائی۔ تقریبا پانچ سال تک آپ یہاں مدرس رہے، ملک العلما کے بعد یہاں سے مستعفی ہوگئے، پھر مدرسہ مختارالعلوم کھسکی ٹولہ، دارالعلوم حنفیہ کھگڑا کشن گنج میں خدمات انجام دیے۔ آخر میں مدرسہ اشرفیہ اظہارالعلوم سونا پور، بارسوئی، کٹیہار میں صدر مدرس کے عہدے پر فائز ہوئے، اور یہیں کے ہوکر رہ گئے، یہاں تک کہ واصل بہ حق ہوگئے۔
نانا: حضرت مولانا قاضی ثمیرالدین رشیدی ایک ذی ثروت عالم دین تھے۔ جس زمانہ میں علما کی قحط رجال تھی، لوگ مذہبی رسومات منشی جی اور صوفی صاحبان وغیرہ سے ادا کرواتے تھے، ایسے زمانہ میں مدرسہ حنفیہ جون پور جاکر آپ نے تعلیم حاصل کی۔ حضرت علامہ ہدایت اللہ خان رام پوری ثم جون پوری آپ کے اساتذہ میں سے تھے۔
دادا : سرجاپوری علاقے میں منشی جی اس شخص کو کہا جاتا تھا جنھیں فارسی زبان پرمہارت حاصل ہو، اس وقت” منشی جی" ایک سمّان سے پر لقب مانا جا تا تھا۔ مفتی صاحب علیہ الرحمہ کے دادا جناب نجابت حسین مرحوم اپنے زمانے کے منشی جی تھے، منشی نجابت سے مشہور تھے۔
تعلیم :
ابجد خوانی گاؤں کے مکتب میں فرمائی، پھر اپنے والد کی نگرانی میں مدرسہ اشرفیہ اظہارالعلوم حورا حجرا، سوناپور ضلع کٹیہار بہار میں آئے۔ یہاں آپ کے والد گرامی صد مدرس کے عہدے پر فائز تھے۔ درجہ اولی تک کی کتابیں یہاں پڑھیں، ایک سال مدرسہ عربیہ فیض العلوم محمدآباد گوہنہ مئو، یو۔پی میں درجہ ثانیہ میں رہے، یہاں کے مایہ ناز اساتذہ میں حضرت مولانا نصراللہ رضوی مصباحی علیہ الرحمة والرضوان، حضرت مولانا عارف اللہ فیضی مصباحی، حضرت مولانا امجدعلی صاحب، حضرت علامہ محمد احمدمصباحی( جو اس وقت یہاں پرنسپل تھے) قابل صدافتخار ہیں. 
الادارة الاسلامیہ دارالعلوم حنفیہ کشن گنج میں ثالثہ و رابعہ کی تعلیم حاصل کی، اس وقت یہ ادارہ علم و فضل کی بلندی پر پہنچا ہوا تھا۔ فقیہ النفس حضرت مفتی مطیع الرحمن مضطر رضوی پورنوی، حضرت مولانا ناظر اشرف بہادرگنجوی ثم ناگپوری، حضرت مولانا مظفر حسین صاحب کسیاری، حضرت مولانا احمد حسین صاحب مالن گاؤں دیناج پور جیسے ذوی العلم والاحترام اساتذہ یہاں اپنا فیض لٹا رہے تھے، حضرت مفتی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ نے یہاں سے اپنا بھر پور حصہ لے کر ملک کی عظیم درس گاہ، ازہر ہند الجامعة الاشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ یو۔پی کارخ فرمایا۔ درجہ خامسہ سے دورہ حدیث تک و مشق افتا، قرات حفص کی تکمیل یہیں رہ کر فرمائی۔
شارح بخاری، نائب مفتی اعظم ہندحضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی رضوی برکاتی قدس سرہ، محدث جلیل حضرت علامہ عبدالشکور مصباحی (دادائے اشرفیہ) محدث کبیر ممتاز الفقہا حضرت علامہ ضیاءالمصطفیٰ قادری، صدرالعلماء حضرت علامہ محمد احمد مصباحی، محقق مسائل جدیدہ سراج الفقہا حضرت مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی، نصیر ملت حضرت علامہ الشاہ محمد نصیرالدین عزیزی مصباحی، شمس العلما حضرت علامہ شمس الھدیٰ رضوی مصباحی، محقق عصر حضرت علامہ عبدالحق رضوی مصباحی، حضرت مولانا اعجاز احمد مصباحی، حضرت مولانا اسرار احمد مصباحی استاذالقراء قاری ابوالحسن مصباحی، قاری مقری جلال الدین صاحب دامت برکاتھم، یہ وہ اسمائے گرامی ہیں جن کے سامنے آپ نے زانوے تلمذ طے کیا، ان سے اپنی علمی پیاس بجھائی، ان کے شمع سے لو لگا کر اپنی جہان کو روشن کیا۔ حضور حافظ ملت کی بارگاہ سے روحانی فیض بٹورے، یہاں تک کہ 1990ء میں فضیلت، مشق افتا و قرات کی دستار حاصل فرمائی۔
جن کے اساتدہ جلالت علم میں اپنی مثال آپ ہوں پھر سبھوں کی بے پناہ شفقتیں رہی ہوں، بھلا ان کے خوان علم سے خوشہ چینی کرنے والے کی عظمت شان کیوں قابل رشک نا ہوگی. خدا داد ذہانت، اساتذہ کی عنایت اور اپنی محنت و اکتساب سے علم و فضل کے ایسے ذروہ کمال کو پہنچے کہ فقیہ اہل سنت، فقیہ عصر، محقق عصر، جیسے القابات سے متعارف زمانہ ہوئے۔
تدریس :  حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی تدریسی زندگی بھی منفرد و بے مثال گزری۔ زمانہ طالب علمی ہی سے ذہانت، محنت اور اخلاق و کردار میں عمدگی کے باعث جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے شیخ الحدیث محدث کبیر علامہ ضیاءالمصطفیٰ قادری کے منظور نظر تھے۔ چنانچہ ایک مقام پر مفتی آل مصطفےٰ مصباحی صاحب خود فرماتے ہیں۔
"سب سے زیادہ شفقت اور علمی استفادہ کا موقع مجھے محدث کبیر سیدی و سندی علامہ ضیاءالمصطفیٰ قادری مدظلہ العالی سے ملا. "
(اسباب ستہ کی توضیح وتنقیح ص 133)
فراغت کے معا بعد حضرت محدث کبیر نے اپنے قائم کردہ ادارہ جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو میں تدریس و افتا کے لیے آپ کا انتخاب فرمایا- ازآں دم تا ایں دم اسی ادارے سے منسلک رہے، اپنی پوری زندگی اسی ادارے میں علمی فیضان لٹانے میں لگادی، یہاں تک کہ مالک حقیقی سے جا ملے۔ اس خصوص میں آپ اپنے اقران میں ممتاز نظر آتے ہیں۔
تدریس کے تئیں آب کا نظریہ نہ صرف پڑھنے بلکہ عمل کرنے کے قابل ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔ "فقیر اسی اخلاص سے تدریسی و تربیتی امور انجام دے رہا ہے، حصول زر کو کبھی بنیاد نہ بنایا۔ دوسرے اداروں سے اچھی تنخواہ پر ہمیشہ مدعو کیا گیا مگر درس و تدریس کے لیے اسی ادارے کو ترجیح دی۔ دعا ہے مولی تعالی یہ جذبہ باقی رکھے، اور اس سے بھی زیادہ دین کے تئیں اخلاص عطا فرمائے. "(اسباب ستہ ص 135)
تلامذہ: فراغت کے بعد سے ہی اہل سنت و جماعت کی مشہور و معتمد درس گاہ جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی سے تا حیات منسلک رہے۔ اس بتیس سالہ زمانہ تدریس میں ہزاروں تلامذہ کومقصد حیات عطا کیے ہوں گے، ان تمام تلامذہ کی فہرست سازی جامعہ امجدیہ کے داخلہ رجسٹرسے ہی ممکن ہے۔ مگر جن مایہ ناز تلامذہ کے ناموں تک میری رسائی ہو سکی، یہ ہے۔
حضرت مولانا ڈاکٹر محمدخوشتر نورانی صاحب (امریکہ) (2) حضرت مولانا افروز قادری چریا کوٹی (ساؤتھ افریقہ) ( 3 ) حضرت مولانا نور عالم صاحب پورنوی (دارالعلوم شاہ عالم گجرات) (4) حضرت مولانا مفتی محمد مبشر رضا ازہری مصباحی پورنوی (بھیونڈی مہاراشٹرا) (5) مولانا عبدالمبین صاحب بہرائچی (جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی) (6) حضرت مولانا قاضی خطیب عالم مصباحی کٹیہاری (دارالعلوم وارثیہ لکھنؤ)(7) مولانا عتیق مصباحی ازہری (جلکی بارسوئی) (8) مولانا محمد عارف القادری صاحب (جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی) (9) مولانا عرفان المصطفیٰ قادری (جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی) (10) مفتی محبوب عالم اشرفی علیمی (دھن گاواں،کٹیہار)۔ (11) مولانا سید شہباز اصدق صاحب (ساؤتھ افریقہ) ( 12 ) مفتی عسجد رضا مصباحی پورنوری (جامعہ طیبہ معینیہ بنارس) ( 13 ) مولانا ابوبکر احمدصاحب بھدرک اڑیسہ (14) مولانا عبدالمجید مصباحی صاحب (سیتامڑھی) (15) مولانا فیضان الھدیٰ گیاوی (16) مولانا ثاقب القادری پورنوی (جامعہ طیبہ معینیہ بنارس) (17) مولانا حبیب اللہ بیگ ازہری مصباحی (جامعہ اشرفیہ مبارک پور (18)مفتی محمد شاہد رضا مصباحی (مرکزی دارالقرات جمشیدپور) (19) مولانا ارشاد عالم نعمانی مصباحی سیتا مڑھی ( جامعہ قادریہ بدایو ں) (20) مفتی محمد حسن رضا پورنوی ( 21) مولانا کاشف رشید مصباحی (بحرالعلوم کٹیہار) (22) مولانا واصف رشید مصباحی (مدرسہ حمیدیہ بالوگنج کٹیہار) (23) مولانا محمد غازی ارمان مصباحی (مدرسہ رکن دین عیدگاہ پیپل گاچھی) ( 24) مفتی محمد مشتاق احمد امجدی کٹیہاری ( از ہری دارالافتاناسک) ( 25 ) مولانا غالب حیدر سعدی کٹیہاری (انٹرکالج کشن گنج ) ( 26) مولانا نفیس القادری امجدی مرادآباد ( 27) مفتی رحمت علی امجدی نیپال ( 28 ) مولانا ناصر رضا امجدی ناسک ( 29 ) مولانا آصف جمیل امجدی (گونڈہ) (30)مفتی محمد شاکر رضا امجدی (نادویڑ) (31)مفتی محمد مقصود اختر امجدی ( ممبئی) (32) مولانا نوید اختر قادری امجدی سری لنکا ( 33) مفتی امیرحسن امجدی بلرام پور (34) مفتی محمد احمد امجدی گھوسی (35) مفتی حسان المصطفیٰ امجدی گھوسی (36) مفتی طیب حسن امجدی (سیتامڑھی) (37) مفتی خورشید عالم برکاتی بلرام پوری (جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی) ( 38) مفتی محمد شمیم اویسی گھوسی (39) مفتی محمد عبد الرحیم گریڈیہہ جھارکھنڈ (40) مفتی محمد اسلم امجدی کشمیر (41) مفتی عبدالرؤف امجدی کشمیر (42) مولانا بدرالحق سلطانی ( پورنیہ) وغیرہ
تصنیف وتالیف : حضرت مفتی صاحب قبلہ کی پوری زندگی تدریس کے سا تھ تصنیف و تالیف سے عبارت تھی۔ جہاں آپ نے سیکڑوں باکمال شاگرد پیدا کیے جن کے نور علم سے اسلامی دنیا جگمگا رہی ہے۔ وہیں درجنوں کتابیں سیکڑوں مضامین، مقالات، تقادیم، تقاریط، تاثرات ملی و سیاسی تحریرات بھی چھوڑے جن کے اندر علم و ہنر کے دُرہائے بیش بہا مکنون ہیں، چند تصانیف یہ ہیں:
(1) اسباب ستہ کی توضیح و تنقیح (2) مختصر سوانح صدرالشریعہ علیہ الرحمہ (3) بیمہ زندگی کی شرعی حیثیت (4) کنزالایمان پر اعتراضات کا تحقیقی جائزہ (5) منصب رسالت کا ادب و احترام (6) حاشیہ فتاوی امجدیہ چہارم (یہ حاشیہ بہت ہی وقیع ہے) (7) حاشیہ توضیح عربی :درجہ سابعہ میں اصول فقہ کی داخل نصاب کتاب توضیح کا عربی حاشیہ رقم فرمایا جو پہلے پہل مجلس برکات جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے شائع ہوکر داد و تحسین حاصل کرچکا ہے۔ ابھی حال ہی میں اس کی دوسری اشاعت بیروت لبنان سے ہو چکی ہے۔ (8) روداد مناظرہ بنگال (9) بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کے اصول (10) نقشہ دائمی اوقات صلوٰة برائے گھوسی (11) نقشہ دائمی اوقات صلوٰة برائے بارسوئی بازار و مضافات (12) ترجمہ و تقدیم مواہب ارواح القدس لکشف حکم العرس (مصنفہ ملک العلما علامہ ظفرالدین بہاری) (13) ترجمہ و تقدیم فقہ شہنشاہ بان القلوب بیدالمحبوب بعطا اللہ المعروف بہ شہنشاہ کون؟(از امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ )
ان تصانیف کے علاوہ مضامین و مقالات کی تعداد تقریباً دو سو سے زائد ہے جو ملک و بیرون ملک کے رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے، جن رسائل میں آپ کے مضامین کو نمایاں جگہ ملتی ان میں سے چند یہ ہیں۔
ماہنامہ اشرفیہ مبا رک پور * ماہنامہ کنز الایمان دہلی *ماہنامہ سنی آواز ناگپور* ماہنامہ تجلیات رضا بریلی شریف * ماہنامہ سنی دنیا بریلی شریف * ماہنامہ اعلی حضرت بریلی شریف * ماہنامہ معارف رضا کراچی پاکستان * ماہنامہ نور مصطفیٰ پٹنہ * ماہنامہ استقامت کانپور * ماہنامہ نوائے حبیب کلکتہ * ماہنامہ قاری دہلی * سہ ماہی الحبیب دھام نگر اڑیسہ * سہ ماہی جام حضوری سریّاں، اعظم گڑھ * ماہنامہ مظہر حق بدایوں "سہ ماہی غوث العالم کچھوچھہ شریف * سہ ماہی الکوثر سہسرام * ماہنامہ جام نور دہلی * روزنامہ آواز ملک ورانسی* سہ ماہی احساسات سکھٹی، مبارکپور* سالنامہ اہل سنت کی آواز مارہرہ مطہرہ * افکار رضا ممبئی * روزنامہ راشٹریہ سہارا لکھنؤ * روزنامہ قومی آواز پٹنہ * سہ ماہی رفاقت پٹنہ وغیرہ۔
فتوی نویسی : اسلامیات کے جملہ فنون میں فقہ سب سے کٹھن فن ہے۔ اجتہادانہ صلاحیت جو دماغ کے کمال کی سب سے اونچی سیڑھی ہے، ایسی صلاحیت کے بغیر فقہ میں مہارت ممکن نہیں، منطق و فلسفہ کی پر پیچ وادیاں بھی فقہ کی پیچیدگیوں کے سامنے اپنی مسافت ناپنے میں مجبور ہوجاتی ہیں، مفتی آل مصطفی مصباحی کا خصوصی میدان علم فقہ ہی تھا۔ نئے مسائل کی کھوج اور ان کے حل کی صلاحیت مفتی صاحب قبلہ کے اندر بدرجہ اتم موجود تھیں، ان کے فقہی مقالات اس پر شاہدعدل ہیں۔
جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی میں نہ صرف تدریس کے فرائض نبھاتے، شعبہ تخصص فی الفقہ کی نگرانی، اصول افتا کی تدریس، فن افتا کی مشق و ترتیب کے علاوہ فتوی نویسی کی ذمہ داری بھی آپ کے دوش تواناں پر تھی۔ ہزاروں فتاوے ہیں جو آپ کے نوک قلم سے صادر ہوئے، سیکڑوں فتاوی تو ایسے تھے جن پر شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی قدس سرہ کی تصدیق و تائید تھی، جو کہ گردش ایام سے خردبرد ہوگئے۔ آپ کے فتاوی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے، چوٹی کے فتاوی میں آپ کے فتاوے بھی شامل تھے، کئی سال تک ماہنامہ جام نور دہلی کے مستقل کالم "شرعی عدالت" میں آپ کے فتاوے شائع ہوتے رہے۔
مجلس شرعی :  مجلس شرعی اشرفیہ مبارک پور کے آپ ایک باوقار اور مستقل رکن تھے، یہاں کے تقریباً تمام فقہی سمیناروں میں آپ کی باوزن شرکت رہتی، سوال نامہ کی ترتیب، خلاصہ جوابات کی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد کی جاتی۔ ناچیز (محمدشہروز کٹیہاری) کی کئی سیمناروں میں شرکت رہی، قضا و حدود قضا، تقلید غیر کب جائز، بیع استصناع کا شرعی حکم جیسے موضوعات پر باضابطہ مقالے بھی شامل رہے، کئی بار ایسا ہوا کہ مفتی آل مصطفی مصباحی اپنی کوئی رائے رکھتے، علما کی گرما گرم بحث کے دوران آپ کی پست آواز ناقابل شنید ہو جاتی تو محقق مسائل جدید حضرت مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی مائک تھام کر فرماتے کہ آپ حضرات خاموش ہوجائیں، مفتی آل مصطفےٰ مصباحی صاحب کچھ فرمارہے ہیں، ان کی باتوں کو غور سے سنیں. گویا آپ کی رائے کی قدر کی جاتی۔
مجمع الفقہ الاسلامی دہلی :  اس مجمع کے تین سیمیناروں میں اہل سنت و جماعت کی نمائندگی کے طور پر آپ نے شرکت فرمائی۔ آپ کے کئی مقالے مجلہ فقہ اسلامی میں بھی شائع ہوچکے ہیں، چند موضوعات یہ ہیں۔
ضرورت و حاجت کی توضیح و تنقیح (2) اسلام کا نظریہ عشر و خراج اور اراضی ہندوپاک کی شرعی حیثیت (3) مشینی ذبیحہ کا شرعی حکم ( 4) نکاح بالشرط کا حکم (5) عرف و عادت کی اہمیت اور ان کے معتبر ہونے کے اصول وشرائط وغیرہ۔
فقہ اسلامی کے سیمنار میں آپ کی شرکت محض رسمی نہیں ہوتی بلکہ بہت حد تک موثرانہ رہتی، چنانچہ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں جب فقہ اسلامی کا سے می نار منعقد تھا، اس میں آپ کا رول کیا تھا خود ان کے قلم سے پڑھیے، فرماتے ہیں: 
‘جمع شدہ مقالوں کے ایک خاص محور (مرض کی تعریف و تحقیق) پر تلخیص اور اپنی تحقیقی رائے کے اظہار کی مجھ سے فرمائش کی گئی تھی، مقالوں کی تلخیص اور میری رائے کو شرکائے سیمنار نے بہت پسند کیا اور میری رائے جو اکثر لوگوں کی رائے سے مختلف تھی کی تائید کی، خصوصا دمشق سے آئے عالم و فقیہ علامہ وھبہ زہیلی حنفی مصنف "الفقہ الاسلامی و ادلہ" نے میری رانے کی بھرپور تائید کی اور ملاقات کے دوران عربی زبان میں تحسین و تبریک کے کلمات کہے۔ یہ سنی عالم دین ہیں، فقہ اور اصول فقہ میں گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان تینوں سے می ناروں میں زیر بحث مسائل کے آخری حل کے لیے اہم اور بالغ نظر مندوبین کی جو خصوصی ٹیم بنائی گئی، اس میں مجھے بھی ضرور شامل رکھا. 
( اسباب ستہ ص 143)
شرعی کونسل بریلی شریف: تاج الشریعہ حضرت علامہ اختر رضا خان ازہری میاں قدس سرہ کی زیرنگرانی شرعی کونسل بریلی شریف کے پہلے سے می نار میں، مقالات کے ساتھ شریک ہوئے، جس میں چلتی ٹرین پر نماز کا حکم، نماز میں لاوڈ اسپیکر کا استعمال اور تراویح میں اجرت جیسے موضوعات شامل بحث تھے۔
فقہی سمینار بورڈ دہلی :  اس کے پانچوں سے می ناروں میں آپ کی شرکت رہی، تقریباً ایک درجن سے زائد مسائل زیر بحث آئے۔
مجلس شرعی فیصل بورڈ : اس فیصل بورڈ کی نششت مرکزی دارالا فتا بریلی شریف میں رکھی گئی تھی۔
2001ء میں یہ بیٹھک رکھی گئی تھی، حضور تاج الشریعہ علامہ اختر رضاخان ازہری میاں قدس سرہ میزبانی کے فرائض انجام دے رہے تھے، حضرت مفتی آل مصطفےٰ نوراللہ مرقدہ بھی اس میں مدعو تھے۔
تاج الفحول سیمنار: خانقاہ قادریہ بدایوں کے زیر انتظام یہ سے می نار منعقد ہوا تھا، اس میں آپ بھی شریک تھے "حضرت تاج الفحول کی زندگی کے چندگوشے" آپ کے مقالے کاعنوان تھا۔
تذکرہ اسلاف سیمنار: ادارہ افکار حق بائسی کے زیر اہتمام یہ سے می نار منعقد ہوا تھا، اس سے می نار کے بنیاد کاروں میں خود آپ بھی شامل تھے، محدث اعظم ہند کے علمی و فکری کارناموں پر آپ نے خامہ فرسائی کی تھی، یہ مقالہ بہت پسند کیا گیا تھا۔
اصلاح معاشرہ سیمنار: الجامعة الاشرفیہ سکھٹی مبارک پور کی جانب سے یہ سے می نار رکھا گیا تھا، اس سے می نار میں بھی آپ مقالہ کے ساتھ شریک ہوئے تھے۔”اصلاح معاشرہ کے چند بنیادی اصول" آپ کاعنوان تھا۔
صدرالشریعہ سیمنار: صدرالشریعہ علیہ الرحمہ مصنف بہار شریعت کے پچاسویں عرس کے موقع پر گولڈن جبلی کا انعقاد کیا گیا۔ اس میں صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کی حیات و خدمات پر سے می نار ہونا طے پایا۔اس سے می نار کے مقالات کی تہذیب و ترتیب میں آپ کی وافر خدمات شامل تھیں، جملہ مقالات کو "صدرالشریعہ ۔حیات وخدمات" کے نام سے شائع بھی کیا گیا۔
سون بھدرسیمنار: جامعہ قادریہ دودھی ضلع سون بھدر میں نصیر ملت حضرت علامہ نصیرالدین عزیزی مصباحی استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی سرپرستی میں یہ سے می نار منعقد ہوا تھا، قضا و متعلقات قضا پر بحث ہوئی تھی، اس میں آپ نے طویل مقالہ پیش فرمایا تھا۔
وعظ و تقریر: خطابت کی طرف آپ کی توجہ نہیں تھی مگر ضرورت پڑنے پر گریز بھی نہیں فرماتے تھے، خاص کر جب کوئی بد مذہب اپنی تقریر سے بدمذہبی پھیلانے کی کوشش کرتا، آپ اپنی جوابی تقریر سے اس کی سرکوبی ضرور فرماتے، چنانچہ گھوسی، محمدآباد، اعظم نگر کٹیہار وغیرہ میں مولوی طاہر گیاوی اور مولوی عبدالمالک بھوج پوری وغیرہ کی تردید میں آپ نے گھنٹوں خطاب فرمایاہے، جس کاذکرخود آپ نے ایک انٹریومیں فرمایا۔
ناچیز محمد شہروز کٹیہاری کو حضرت کے تین خطاب سننے کا موقع ملا۔ مولانا غازی ارمان ریان پوری، کے گھر میں دستار فضیلت پر خوشی کی محفل سجائی گئی تھی۔ اس میں آپ کا خصوصی خطاب ہوا تھا، حضرت کے خطاب سے قبل 20 بیس منٹ کی تقریر اس ناچیز کی بھی ہوئی تھی، چونکہ سیمانچل میں جوشیلی اور مزاحیہ تقریر سننے کا مزاج ہے اس لیے مفتی صاحب کی تقریر کو وہ اہمیت (پذیرائی) نہیں ملی، جو ملنی چاہیے تھی، جب کہ اس طرح کی تقریریں مشکل سے سننے کو ملتی ہیں۔
دوسری تقریر مرادآباد میں سننے کا موقع ملا۔ قائد اہل سنت حضرت علامہ سید محمود اشرف اشرفی جیلانی کی قیادت میں علماومشائخ بورڈکی جانب سے مرادآباد میں عظیم الشان سنی کانفرنس منعقد ہوا تھا، کھلے پنڈال میں لاکھوں سامعین تھے، تو طویل و عریض اسٹیج پر سیکڑوں علماومشائخ بیٹھے تھے۔ ناچیز اس وقت مدرسہ اجمل العلوم سنبھل مرادآباد میں تدریسی فرائض کی انجام دہی پر مامور تھا۔ اس لیے اسٹیج پر مجھے بھی جگہ مل گئی، ورنہ مجھ جیسوں کے لیے اسٹیج میں گنجائش نہیں تھی، بہرکیف مفتی آل مصطفی مصباحی قدس سرہ کو علم کی فضیلت کا عنوان متعین کرکے 20 منٹ کاوقت بھی متعین فرمادیا گیا. حضرت کی تقریر کے دوران سارے علما اپنارخ مفتی صاحب کی طرف کیے ہوئے تھے اور خاموشی سے تقریر سماعت فرما رہے تھے، اسٹیج پر سناٹا تھا، ہر طرف سکوت ہی سکوت کا ماحول تھا، جوں ہی مفتی صاحب نے وماعلیناالاالبلاغ پراپنی گفتگو ختم کی، پورے اسٹیج سے سبحان اللہ، ماشاءاللہ کا شور بلند ہوگیا۔ سب کے سب دادوتحسین سے نوازنے لگے.
تیسری اور آخری بار ابھی حال ہی میں رمضان المبارک کی پہلی جمعہ تھی، بارسوئی میں مصطفی جامع مسجد معروف بہ چھوٹی مسجد میں نمازجمعہ کے لیے حاضر ہوا تو حضرت خطاب فرمارہے تھے، 25 منٹ گفتگو روزہ کی فضیلت پر فرمائی تھی، آخیر میں فرمایا تھا کہ "کچھ کریں نا کریں پر اپنی اپنی استطاعت کے مطابق کم از کم ایک افطار کا انتظام دوسروں کے لیے ضرور کریں"۔ مجھے یہ جملہ تقریباً من وعن یاد ہے، کیونکہ میں اس جملہ سے بہت متاثر تھا۔ دوسری جمعہ میں بھی خطاب کے لیے گھر سے بارسوئی آنے کا وعدہ فرمایا تھا مگر تب تک کرونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن لگ چکاتھا۔اللہ تعالی کروٹ کروٹ حضرت کو جنت نصیب فرمائے آمین بجاہ النبی الکریم
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:مطالعۂ وسیلۃ النجاۃ

شیئر کیجیے

5 thoughts on “مفتی آل مصطفٰے مصباحی اشرفی : حیات و خدمات

  1. ماشاء اللہ
    نہایت عمدہ اور معلومات افزا تحریر
    اللہ تعالی قبول فرمائے۔اور دارین کی سعادتوں سے مالا مال فرمائے۔آمین یارب العالمین ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے