مادرِ علمی:  مومن ہائی اسکول (ایچ-ایس) کا 78/ برسوں کا سفر

مادرِ علمی: مومن ہائی اسکول (ایچ-ایس) کا 78/ برسوں کا سفر

تسلیم عارف
سابق اسسٹنٹ ٹیچر، مومن ہائی اسکول، کولکاتا

مادرِ علمی مومن ہائی اسکول (ایچ- ایس) نے آج (23؍ جولائی 2023ء) اپنے قیام کے 78؍ برس مکمل کرلیے۔ اس طویل عرصے میں اسکول مختلف نشیب و فراز سے گزرا ہے۔ اپنی بے لوث تعلیمی خدمات کی بنا پر یہ اسکول، آج نہ صرف کلکتہ بلکہ ریاست مغربی بنگال کے اردو میڈیم اسکولوں میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ 23؍ جولائی، 1945ء کو کلکتہ کی گھنی آبادی والا علاقہ نارکل ڈانگہ کی تین مقتدر، مخیر اور ہمدردان ملت: محمد عبداللہ، شمس عبدالغفور اور عبدالرحیم صاحبان نے قوم کے بچوں اور بچیوں کے تعلیمی مسائل اور تکالیف کو محسوس کرتے ہوئے اس اسکول کی بنیاد ڈالی تھی۔ انھی بزرگوں کی کاوشوں اور خلوص نیت کا ثمرہ ہے کہ آج اسکول اپنی آن بان اور شان کے ساتھ نونہالان کی علمی پیاس بجھا رہا ہے۔ اپنے قیام کے وقت مومن ہائی اسکول ٹین کی چھت والے ایک/ دو کمرے پر ہی مشتمل تھا لیکن علاقے کے مخیر اور علم دوست حضرات کے تعاون اور پرانے ہیڈماسٹرز کی سعی پیہم نے اسے آج بلند و بالا عمارت کی شکل دے دی۔ فی الحال اسکول چار منزلہ عمارت پر مشتمل ہے۔ روز بروز اسٹوڈنٹس کی بڑھتی ہوئی تعداد اور سائنس لیباریٹری کی کمی نے اسکول انتظامیہ کو متوجہ کیا۔ نتیجتاً 2009ء میں چوتھی منزل پر تجربہ گاہ اور اضافی کلاس رومز کی تعمیر کروائی گئی۔
بورڈ سے الحاق: مومن ہائی اسکول کو مغربی بنگال بورڈ آف سکنڈری ایجوکیشن سے مدھیامک کے لیے 11؍ مئی 1974ء کو الحاق ملا جب کہ ہائر سکنڈری (آرٹس) کے لیے مغربی بنگال کاؤنسل آف ہائر سکنڈری ایجوکیشن نے 2000ء اور کامرس سیکشن کے لیے 2004ء میں منظوری دی۔ اسکول سے ہر سال دو سو سے زیادہ اسٹوڈنٹس مدھیامک اور ہائر سکنڈری امتحانات میں شریک ہوتے ہیں اور اپنی تعلیمی صلاحیتوں اور اساتذۂ کرام کی سرپرستی کی بدولت بہترین نتائج سے اسکول کا نام اونچا کرتے ہیں۔
اسکول ٹرسٹیز اور منیجنگ کمیٹی: ابتداءً اسکول کی تعلیمی اور تنظیمی دیکھ ریکھ ٹرسٹیز کے ذمے ہوا کرتی تھی۔ اسکول کے صحن میں دیوار پر جو پتھر نصب ہے، اس میں بہ طور ’ٹرسٹریز مومن ہائی اسکول‘ الحاج شمس عبدالغفور، الحاج مولانا محمد یحییٰ، الحاج سیٹھ محمد یوسف، میاں جی عبدالرحمن، نواب عبدالرحیم، وکیل محمد سمیع اللہ اور حامد حسین صاحبان کے اسماے گرامی درج ہیں۔ انھی بابرکت شخصیتوں نے ایک لمبے عرصے تک اسکول کی انتظامی ذمہ داری بہ حسن و خوبی نبھائی۔ بعد ازاں بورڈ سے اسکول کے الحاق ہونے کے بعد ٹرسٹریز کی جگہ منیجنگ کمیٹی نے لے لی اور تادمِ تحریر انتظامیہ کمیٹی کی نگرانی میں اسکول چل رہا ہے۔ کل بارہ ممبران پر کمیٹی مشتمل ہوتی ہے، جس میں اسکول کا ہیڈ ماسٹر یا ٹیچر انچارج کمیٹی کا سکریٹری ہوتا ہے، ایک صدر، دو پی آئی ای، دو گارجین نمائندے، ایک سرکل سب انسپکٹر، ایک علاقائی ایم بی بی ایس ڈاکٹر، تین اساتذہ کے نمائندے اور ایک غیر تدریسی ملازم اس کمیٹی کے اراکین ہوتے ہیں۔
گرلزسیکشن: قوم کی بچیوں میں تعلیم کے بڑھتے رجحان کے پیش نظر منیجنگ کمیٹی نے مارننگ میں گرلز سیکشن شروع کیا تاکہ کثیر تعداد میں ملت کی بچیاں بھی زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوسکیں۔ تادمِ تحریر گرلز سیکشن میں تقریباً 1200 اسٹوڈنٹس ہیں۔ یہ سیکشن درجہ اوّل تا دواز دہم پر مشتمل ہے۔ مغربی بنگال بورڈ آف سکنڈری ایجوکیشن کی جانب سے مومن ہائی اسکول کو مئی 2006ء میں ’مخلوط تعلیم‘ یعنی کو- ایڈ کی منظوری ملی لیکن جگہ کی قلت اور پردہ نظام کے پیش نظر اسکول نے فیصلہ کیا کہ دونوں سیکشن کو الگ الگ وقت میں چلایا جائے، اس لیے لڑکیوں کی کلاس صبح کے وقت ہوتی ہے جب کہ لڑکوں کا سیکشن دن میں چلتا ہے۔ واضح ہو کہ گرلز سیکشن میں تدریسی خدمات کے لیے صرف خواتین اساتذہ کو مامور کیا گیا ہے۔ 2008ء میں مغربی بنگال کاؤنسل آف ہائر سکنڈری ایجوکیشن نے گرلز سیکشن کو بھی ہائر سکنڈری (آرٹس و کامرس) کی منظوری دے دی۔ 2011ء میں اُس وقت کی انتظامیہ کمیٹی نے گرلز سیکشن کا ایک حصہ علاحدہ کر کے MSK (مدھیامک سکھشا کیندر) اور SSK (شیشو سکھشا کیندر) کے تحت Approve کروالیا۔ 2012ء میں حکومت مغربی بنگال کے محکمۂ تعلیم کے فرمان کے مطابق اسکول کو ’گورنمنٹ اسپانسرڈ‘ کا درجہ مل چکا ہے۔
کمپیوٹر سیکشن: تکنیکی اور جدید تعلیم سے اپنے اسٹوڈنٹس کو آراستہ کرنے کے لیے اسکول نے کمپیوٹر سیکشن کھولا تاکہ ملت کے بچے بچیاں بھی دیگر اقوام کے اسٹوڈنٹس سے شانہ سے شانہ ملا کر چل سکیں بلکہ اُن سے بھی آگے جاسکیں۔ 2007ء تک اسکول میں کمپیوٹر کی ایک ہی لیباریٹری تھی لیکن 2008ء میں دوسری لیباریٹری کا سابق ایم- ایل- اے آنجہانی مانب مکھرجی کے ہاتھوں افتتاح ہوا۔ اس طرح دونوں لیباریٹریوں میں کمپیوٹر کی تعداد، کم و بیش سو ہے۔ تھیوری کلاس ایل سی ڈی پروجیکٹر کی مدد سے لیا جاتا ہے۔ کمپیوٹر کی پڑھائی کے لیے حکومت کی آئی ٹی کمپنی ’ویبل‘ اساتذہ کا تقرر کرتی ہے۔
اسپورٹس، ثقافتی اورادبی پروگراموں میں اسکول کی شرکت: مومن ہائی اسکول کے اسٹوڈنٹس کلکتہ کے مختلف سماجی، ادبی اور تعلیمی اداروں کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ادبی اور ثقافتی پروگراموں میں کثرت سے شرکت کرتے ہیں اور اپنی کارکردگی کی بدولت انعامات بھی حاصل کرتے ہیں۔ اس ضمن میں مغربی بنگال اُردو اکاڈمی اور اقلیتی ترقیاتی و مالیاتی کارپوریشن کے منعقدہ ثقافتی پروگرام کا ذکر ناگزیر ہے، جہاں ڈبیٹ، کوئز، مضمون نویسی وغیرہ میں طلبا و طالبات حصہ لیتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر اسکول کا نام روشن کرتے ہیں جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ اسٹوڈنٹس کی معلومات صرف نصاب کی حد تک ہی نہیں ہے بلکہ دیگر مضامین میں بھی اُن کی بھرپور لیاقت ہے۔ مومن ہائی اسکول (ایچ- ایس) ڈسٹرکٹ اسپورٹس ایسوسی ایشن (سینٹرل کلکتہ) کا ممبر ہے۔ ٹیلی گراف کے بینر تلے فائیو آسائڈ فٹ بال ٹورنامنٹ میں اسکول کی نمایاں کارکردگی رہی ہے۔ انٹر اسکول ڈسٹرکٹ اسپورٹس میٹ میں اسکول کو گروپ چمپئن ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ اس کے علاوہ انٹر اسکول فٹ بال ٹورنامنٹ ہو یا ڈسٹرکٹ لیول کا کوئی اسپورٹس، مومن کے اسٹوڈنٹس اپنی فتح و کامرانی کا جھنڈا ہرجگہ گاڑتے ہیں۔ فیزیکل ایجوکیشن کے ٹیچر محمد ندیم ہیں، جو پابندی سے سالانہ اسپورٹس کا انعقاد کرتے ہیں۔
ٹیچنگ و نن ٹیچنگ اسٹـاف: اسکول میں تدریسی اور غیر تدریسی اسٹاف کی سرپرستی جناب محمد حمید (ٹیچر اِنچارج) فرماتے ہیں، جو ایک شفیق، خلیق اور نستعلیق انسان ہیں۔ فیزیکل سائنس کے لائق ٹیچروں میں اُن کا شمار ہوتا ہے۔ موصوف کے اندر زبردست تنظیمی صلاحیت اور مشفق استاد کی بے انتہا صفات ہیں۔ حمید صاحب مدبرانہ، خلّاقانہ اور عالمانہ صلاحیت کے مالک ہیں۔ اسکول کے تمام اسٹاف کو ایک جُٹ اور متحد رکھنے میں موصوف بے حد کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔ فی الحال ٹیچنگ (بہ شمول کل وقتی، پیرا اور پارٹ ٹائم ٹیچرز) اور نن ٹیچنگ اسٹاف کی تعداد بیس سے زیادہ ہے۔ نن ٹیچنگ اسٹاف میں جناب جمیل قیوم کا ذکر انتہائی ضروری ہے۔ یہ اَپ ٹُو ڈیٹ مَین ہیں۔ آفس کے کام کو سلیقے اور ڈسپلن سے انجام دینے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ نن ٹیچنگ میں جمیل صاحب کے ساتھ مزید دو اسٹاف بھی ہیں جو اُن کے ورک لوڈ کو کم کرنے میں معاونت کرتے ہیں۔ دیگر غیر تدریسی ملازمین میں جناب تاج الدین، ابرار حسن اور سنجے ہازرہ شامل ہیں۔ جناب محمد شاہد اسلم (سابق ہیڈ ماسٹر) کی سبک دوشی کے بعد سے ٹی آئی سی کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں۔ مستقبل قریب میں ہیڈ ماسٹر کی بحالی کا امکان ہے۔ اس ضمن میں انتظامیہ کمیٹی کی جانب سے کاغذی کارروائی مکمل کی جاچکی ہے۔
اسٹـاف، اکیڈمک کاؤنسل: اسکول میں اسٹاف کاؤنسل ایک ریکوگنائز باڈی ہوتی ہے جس کے اراکن اسکول کے تمام کُل وقتی تدریسی و غیر تدریسی ملازمین ہوتے ہیں۔ کاؤنسل کا صدر ہیڈ ماسٹر ہوتا ہے۔ اسکول کے فل ٹائم اسٹاف کے مسائل اور پیچیدگیوں کا سدِّباب کاؤنسل کا اہم کام ہوتا ہے۔ مومن ہائی اسکول میں اسٹاف کاؤنسل کے طویل مدتی (2012 ء تا 2017ء) سکریٹری کے فرائض راقم (تسلیم عارف) نے انجام دیے ہیں۔ اسکول میں اکیڈمک کاؤنسل بھی ہے، جو اسکول کے تعلیمی اور تدریسی معاملات کی دیکھ ریکھ کرتی ہے۔ بُک لِسٹ کی تیاری، کتابوں کا انتخاب اور وقتاً فوقتاً امتحانات کا انعقاد اکیڈمک کاؤنسل کے ذمے ہوتا ہے۔اسکول کے تعلیمی نظام اور ایک پورے سیشن میں امتحانات کی ترتیب و تنظیم کا سارا بار اکیڈمک کاؤنسل پر ہوتی ہے۔
پرائمری سیکشن: ہر چند کہ پرائمری سیکشن کا سکنڈری سیکشن سے کوئی راست تعلق نہیں ہے، سوائے اس کے کہ دونوں ہی سیکشن ایک ہی عمارت میں چلتے ہیں۔ پرائمری، سکنڈری سیکشن کے کُل چار کمروں میں چلتا ہے جس کا کرایہ ہر ماہ پابندی سے پرائمری، سکنڈری کو ادا کرتا ہے۔ پرائمری سیکشن (I-IV) میں بچوں کی تعداد 500؍ کے قریب ہے جب کہ ٹیچروں کی تعداد 14؍ ہے۔ اس سیکشن کے ٹی آئی سی جناب محمد ساجد ہیں، جو بڑے باصلاحیت، مشفق اور علم دوست ہیں۔ پرائمری سیکشن ان کی سرپرستی میں روز افزوں ترقی کررہا ہے۔
ایکس اسٹوڈنٹس اور ایکس ٹیچرز: سابق طالب علم اپنے اسکول کے لیے اثاثہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور آنے والی نسل کے لیے مشعل راہ بھی ہوتے ہیں۔ مومن ہائی اسکول کے ایکس اسٹوڈنٹس مختلف شعبۂ حیات میں اعلا عہدوں پر فائز ہیں۔ ڈاکٹر ہو یا انجینئر، ٹیچر ہو یا لیکچرر، غرضیکہ ہر جگہ ہمارے اسکول کے اسٹوڈنٹس موجود ہیں، جو اسکول کے نام کی برکت اور یہاں کے اعلا تعلیمی معیار کا مظہر ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مومن ہائی اسکول کی ایک Alumini بنائی جائے تاکہ گاہے بہ گاہے ایکس اسٹوڈنٹس مجتمع ہوں اور اپنے Memoirs کو تازہ کرسکیں۔ یہاں ایک بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ اسکول کے پارٹ ٹائم ٹیچرز میں سے اکثر نے اس ادارے میں کام کرنے کے بعد کہیں نہ کہیں کل وقتی ملازمت حاصل کی ہے۔ یقینا یہ اسکول کے بنیاد گزاروں کی دعاؤں اور نیک نیتی کے باعث ہی ممکن ہے۔
حیف! اس پر کہ چند ناعاقبت اندیش وقتاً فوقتاً اسکول کو کسی نہ کسی معاملے میں بدنام کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ کچھ دنوں قبل اسکول کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جو خبر گشت کررہی تھی، اس کا حقیقت سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ بات نشان خاطر رہے کہ ادارہ کے نام و نمود اور تعمیر و ترقی کا انحصار اساتذہ، انتظامیہ اور اسٹوڈنٹس کے مابین اتحاد پر ہے۔ یہ تینوں اگر متحد رہیں تو اسکول کی بنیاد کو کوئی ہلا نہیں سکے گا۔ آپسی رنجش اور گھٹیا سیاست سے اوپر اُٹھ کر سبھوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ اسکول کس طرح ترقی کے اعلا منازل طے کرے.
مومن ہائی اسکول ایک اسکول نہیں بلکہ ایک تمدن کا نام ہے، علم کے ایک گہوارے کا نام ہے۔ ایک ایسا سایہ دار پیڑ ہے جو برسہا برس سے تعلیمی سایے اور ثمرات سے طالب علموں کو فیض پہنچا رہا ہے۔ اللہ کرے کہ اسکول روز بروز ترقی کرے، یہاں کے اسٹوڈنٹس ہر شعبے میں اپنی فتح و کامرانی کا پرچم بلند کریں۔ میں اُن پاک روحوں کی مغفرت اور اُن کے لحد پر نور کی بارش کی دعا کرتا ہوں، جنھوں نے اپنے خون پسینے سے اس دبستان کو قائم کیا تاکہ ملت کے بچّے اور بچّیاں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوسکیں۔
٭٭٭
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:بچپن کی شادی (ڈراما)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے