مزاحیہ شاعر دلاور فگار: پیروڈی کا باد شاہ

مزاحیہ شاعر دلاور فگار: پیروڈی کا باد شاہ

جمال عباس فہمی

دلاور فگار 25؍جنوری 1998 کو کراچی میں دنیائے سخن کو الوداع کہہ گئے اور اپنے پس ماندگان میں بیٹی کے علاوہ اپنے مزاحیہ کلام کے متعدد مجموعات چھوڑ گئے۔

مزاحیہ شاعری کی دنیا میں جسے "شہنشاہ ظرافت" اور "اکبر ثانی" کے طور پر پہچانا جاتا ہے، اس کو دلاور فگار کہتے ہیں۔ اردو کی مزاحیہ شاعری کے ہر دور کے وہ ایک عظیم شاعر تھے۔ دلاور فگار معروف غزلو ں اور نظموں کی پیروڈی اس شان دار طریقے سے کرتے تھے کہ اگر انھیں "پیروڈی کا بادشاہ" کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ دلاور فگار نے 54 برس کے طویل عرصے تک سماجی برائیوں، اخلاقی پستیوں، سیاسی شعبدہ بازیوں اور انسانی مسائل اور دشواریوں پر اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں چھینٹا کشی کرکے لوگوں کو ہنسایا۔ اردو ادب میں مزاحیہ شاعروں کی کمی نہیں رہی لیکن دلاور فگار الگ پہچان رکھتے ہیں۔ پاکستان ہجرت کرنے سے پہلے ہی وہ ہندستان کے مشاعروں کی دنیا میں مقبولیت کے پرچم لہرا چکے تھے۔ انھیں فارسی اور انگریزی کے الفاظ کو اپنے کلام میں پرونے کا ہنر خوب آتا تھا۔ دلاور فگار پہلے سنجیدہ شاعری کرتے تھے۔ سنجیدہ غزلوں کا ایک مجموعہ بھی شائع ہو چکا تھا لیکن مزاحیہ شاعری کے میدان میں آنے کے بعد انھوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ انھوں نے اپنے مزاحیہ کلام کے متعدد مجموعے چھوڑے ہیں، جو قارئین کو ہنسنے کا سامان فراہم کرتے رہیں گے۔ دلاور فگار کی مزاحیہ شاعری پر تفصیلی گفتگو سے پیشتر ان کے خاندانی پس منظر، زندگی کے اتار چڑھاؤ اور تعلیمی سفر کا سرسری طور سے ہی سہی جائزہ لینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
دلاور فگار کا حقیقی نام دلاور حسین اور تاریخی نام سعید اختر تھا۔ وہ اتر پردش کے مردم خیز شہر بدایوں میں 8 جولائی 1929 میں پیدا ہوئے۔ بدایوں بھی لکھنؤ، دہلی، حیدر آباد اور رام پور کی طرح شاعری کا ایک اسکول رہا ہے۔ درجنوں استاد شعرا، ادبا اور دیگر میدانوں کے ماہرین اس سرزمین نے پیدا کیے۔ دلاور فگار ادیبوں اور شاعروں کے خانوادے کے فرد تھے۔ ممتاز طنز نگار علی حاطم بدایونی ان کے جد امجد تھے۔ غالب امکان یہ ہے کہ دلاور فگار میں مزاح کے جراثیم حاتم کے ذریعے ہی داخل ہوئے، انصار حسین زلالی ان کے نانا، خالو مجتہد الدین عیش بدایونی شاعری میں امیر مینائی کے شاگرد تھے۔ اکرام احمد شاد بدایونی اور معروف مورخ حسنین احمد ان کے ماموں تھے۔ حاجی عبد الجامع جامی بدایوں خاندان کے بزرگ اور دلاور کے استاد تھے۔ فگار کے بڑے بھائی بادشاہ حسین بھی شاعر تھے، وہ شاہد جمال کے نام سے لکھتے تھے۔
دلاور حسین کے والد شاکر حسین ایک مقامی اسکول میں ٹیچر تھے لیکن انھیں شعر و سخن سے خدا واسطے کا بیر تھا۔ دلاور فگار ان سے چھپ چھپ کر مشاعروں میں جاتے تھے۔ اپنی والدہ کی مدد سے والد کے سو جانے کے بعد کھڑکی کے راستے گھر سے فرار ہوتے تھے اور آخر شب میں کھڑکی کے ذریعے ہی گھر میں داخل ہوتے تھے۔ والد کو جب بھی شعر و سخن کی سرگرمیوں میں شامل ہونے کی خبر ملتی تھی تو دلاور کو کبھی ڈانٹ پھٹکار اور کبھ سزا بھی ملتی تھی۔ والد جب امتحان کا نتیجہ دیکھتے تھے تو کم ڈانٹتے تھے۔ دلاور ہمیشہ کلاس میں اول آتے تھے۔ دلاور فگار کی طبیعت شعر و شاعری کی جانب بچپن سے ہی مائل تھی۔ بدایوں شعر و سخن کی آماجگاہ تھا۔ آئے دن مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ اس دور کے معروف شعرا کیفی دتاتریہ، روش صدیقی، نوح ناروی، سیماب اکبر آبادی، سید آل رضا، نخشب جارچوی، بوم میرٹھی، ظریف لکھنوی، صفی لکھنوی اور آرزو لکھنوی وغیرہ ان مشاعروں میں شامل ہوتے تھے۔ دلاور کو اساتذہ کے ہزاروں اشعار طالب علمی کے زمانے سے ہی ازبر تھے۔ بیت بازی کے مقابلوں میں سینئر طلبا کی ٹیموں کو اکیلے دم پر پچھاڑ دیا کرتے تھے۔ دوسروں کے شعر پڑھتے پڑھتے کب خود شعر کہنے لگے اس کا احساس ہی نہیں ہوا۔ فگار نے 1942 میں اس وقت شاعری شروع کردی تھی جب وہ محض 14 برس کے تھے۔ ابتدا میں شباب حمیدی تخلص ایجاد کرلیا۔ اور دلاور حسین شباب حمیدی کے نام سے شاعری کرنے گے۔
شاعرانہ زندگی کی ابتدا میں ہی انھیں ایک بڑا ذہنی جھٹکا اس وقت لگا جب ان کے پہلے قطعہ کو ہی بریلی کالج کے ایک ہندو لیکچرار نے چرا لیا۔ یہ قطعہ ایک مقامی ہفت روزہ میں شائع ہوا تھا۔

ستم کو کسی کے ستم کیسے کہہ دیں
مسرت کی دنیا کو غم کیسے کہہ دیں

وہ ہیں بے وفا یہ تو سب جانتے ہیں
مگر یہ بتاؤ کہ ہم کیسے کہہ دیں

دلاور فگار کو ایک مشاعرے میں یہی قطعہ پڑھنا تھا۔ مگر ان سے پہلے یہ قطعہ اس ہندو لیکچرار نے پڑھ دیا اور دلاور دیکھتے کے دیکھتے اور سنتے کے سنتے رہ گئے۔ دوستوں کے اصرار پر دلاور نے اپنا کلام اپنے بہت قریبی دوستوں مہتاب ظفر اور آفتاب ظفر کے والد اور شہر کے کہنہ مشق شاعر ظفر یاب حسین جام نوائی کو دکھانا شروع کیا۔ ان کی تربیت سے دلاور کی شاعری میں نکھار آگیا۔
دلاور فگار نے اردو میں ایم اے آگرہ یونی ورسٹی سے فرسٹ ڈویژن  اور فرسٹ پوزیشن میں پاس کیا۔ انھوں نے معاشیات میں بھی ایم اے کیا۔ انگریزی میں ایم اے مکمل کرنے کا ارادہ پہلے سال کے کم نمبر دیکھ کر بدل دیا۔ دلاور فگار کے اوپر برا وقت 1948 میں اس وقت آپڑا جب والد بیمار ہو کر صاحب فراش ہو گئے۔ دلاور کی عمر اس وقت 19 برس تھی۔ گھر کے اخراجات اٹھانے کے لیے انہوں نے ڈاک خانہ میں ملازمت کی۔ ٹیوشن پڑھائے۔ بہت کم تنخواہ پر پرائیویٹ اسکولوں میں ملازمت کی۔ جیسے تیسے کرکے بی اے اور ٹیچرس ٹریننگ مکمل کی۔ اس دوران والد کا انتقال بھی ہو گیا۔ کسی طرح انھیں بریلی کے اسلامیہ انٹر کالج میں ملازمت مل گئی۔ اس کے بعد ان کی زندگی میں کچھ ٹھہراؤ آیا۔ دلاور نے بدایوں کے اسلامیہ کالج میں بھی ملازمت کی۔ اس دوران وہ سنجیدہ شاعر کے طور پر شناخت قائم کرچکے تھے۔ سنجیدہ کلام کا ایک مجموعہ "حادثے" کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ ان کی سنجیدہ شاعری کچھ اس طرح کی تھی:

میری بربادی پہ تم کیوں ہنس دیئے دنیا کے ساتھ
کم سے کم تم کو تو سارا ماجرا معلوم تھا

احتیاطاً مجھ کو سوز آرزو بخشا گیا
غالباً کم تھی سزائے زندگی میرے لئے

ہنستے ہیں وہی آج مری تشنہ لبی پر
میرے ہی وسیلے سے جنہیں جام ملا ہے

صرف دو ہی صورتیں تھیں ترک غم یا ضبط غم
ترک غم ممکن نہیں تھا ضبط غم کرتے رہے

زباں پہ نالہ نہیں آنکھ اشک بار نہیں
فگار میرا تخلص ہے میں فگار نہیں

دلاور کے سنجیدہ شاعری سے مزاح کی طرف آنے کا سبب اک واقعہ بنا۔ ان کے استاد "جام نوائی" نے ایک مزاحیہ شاگرد بنا رکھا تھا جو اچھی آواز کا مالک تھا۔ وہ جام نوائی کے کلام اور اپنی آواز کے دم پر مشاعروں میں دھوم مچاتا تھا۔ جام نوائی کے پاکستان ہجرت کرجانے بعد دلاور فگار اس کو مزاحیہ کلام لکھ لکھ کر دینے لگے۔ بس یہیں سے ان کو مزاحیہ شاعری کا چسکا لگ گیا۔ دھیرے دھیرے وہ خود مشاعروں میں مزاحیہ کلام پیش کرنے لگے۔ 1958 سے لے کر 1968 میں پاکستان ہجرت کرنے تک کے عرصہ میں وہ اپنے مزاحیہ کلام سے ہندستان کے مقبول ترین شاعر بن چکے تھے۔ جس نظم نے ان کی شہرت کو چار چاند لگائے وہ تھی "شاعر اعظم"۔ اس طویل نظم میں دلاور فگار نے اس دور کے تمام بڑے شاعروں، ان کے کلام، ان کی شکل و صورت اور خصوصیات پر دل چسپ انداز میں تبصرہ کیا ہے۔

کل اک ادیب و شاعر و ناقد ملے ہمیں
کہنے لگے کہ آؤ ذرا بحث ہی کریں

کرنے لگے یہ بحث کہ اب ہند و پاک میں
وہ کون ہے کہ شاعر اعظم جسے کہیں

میں نے کہا جگرؔ تو کہا ڈیڈ ہو چکے
میں نے کہا کہ جوشؔ کہا قدر کھو چکے

میں نے کہا کہ ساحرؔ و مجروحؔ و جاں نثارؔ
بولے کہ شاعروں میں نہ کیجے انہیں شمار

میں نے کہا ظریفؔ تو بولے کہ گندگی
میں نے کہا سلامؔ تو بولے کہ بندگی

میں نے کہا کہ یہ جو ہیں محشرؔ عنایتی
کہنے لگے کہ آپ ہیں ان کے حمایتی

پایان کار ختم ہوا جب یہ تجزیہ
میں نے کہا حضور تو بولے کہ شکریہ

دلاور کو ملک بھر میں مقبولیت کا خمیازہ بدایوں میں اپنے خلاف گروہ بندی اور سازشوں کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ جس سے دل برداشتہ ہو کر وہ کراچی منتقل ہو گئے۔ وہاں عبداﷲ ہارون کالج میں کچھ عرصہ بہ حیثیت لیکچرار رہے۔ اس کالج کے پرنسپل فیض احمد فیض تھے۔ دلاور فگار کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے اسسٹینٹ ڈایریکٹر، ٹاؤن پلاننگ کے طور پر بھی وابستہ رہے۔
دلاور فگار نے مزاحیہ شاعری میں تجربے بھی خوب کیے۔ انگریزی کے بڑھتے چلن پر طنز کرتے ہوئے انگلش آمیز اردو میں شعر کہے۔

دی نیشن ٹاکس ان اردو دی پیپل فائٹ ان اردو
the nation talks in urdu the people fight in urdu
ڈیر لسنرس دیٹ از وھائی آئی رائٹ ان اردو
dear listeners that is why i write in urdu

دئر شڈ بی یقیناً نو ملاوٹ ان دی لٹریچر
there should be yaqinan no milawat in the literature
دیر فور آئی نیور کال شب کو نائٹ ان اردو
therefor i never call shab ko night in urdu

"سہرے میں مرثیہ اورمرثیہ میں سہرا"، "ہکلے کا پیار"، "عشق کا پرچہ"، "کراچی کا قبرستان"، "میں اپنا ووٹ کس کو دوں" اور اقبال کی نظم "شکوہ" کی پیروڈی کرتے ہوئے ٹیچر کا پرنسل سے شکوہ ان کی معرکۃ الآر تخلیقات ہیں۔

آگیا عین پڑھائی میں جو قرضے کا خیال
ماسٹر بھول گیا ماضی و مستقبل و حال

آگیا یاد کہ بھوکے ہیں مرے اہل و عیال
کیسے ٹیگور و اسد کیسے کبیر و اقبال

کیٹس و شیلے و خیام و ولی ایک ہوئے
ذہن افلاس میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

سہرے میں مرثیہ کے کچھ اشعار پڑھ کر ہنسی آئے بغیر رہ نہیں سکتی:

اچھے میاں کا عقد ہوا ہے بہار میں
کہہ دو دلہن سے پھول بچھا دے مزار میں

روئے حسیں پہ سہرے سے کیسی بہار ہے
اے موت آ بھی جا کہ ترا انتظار ہے

دولہا دلہن شریف گھرانے میں ہیں پلے
"لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے"

نوشاہ کو عروس بڑی ذی ہنر ملی
مرحوم کو حیات مگر مختصر ملی

نوشاہ کو عروج وہ رب جلیل دے
اور اس کے وارثین کو صبر جمیل دے

کچھ مقبول غزلوں کی پیروڈیز ملاحظہ کیجئے:

کل چودھویں کی رات تھی آباد تھا کمرہ ترا
ہوتی رہی دھن تک دھنا بجتا رہا طبلہ ترا

میں بھی تھا حاضر بزم میں جب تونے دیکھا ہی نہیں
میں بھی اٹھا کر چل دیا بالکل نیا جوتا ترا
… 
وہ جو مہر بہر نکاح تھا وہ دلہن کا مجھ سے مزاح تھا
وہ تو گھر پہنچ کے پتہ چلا مری اہلیہ کوئی اور ہے

مجھے ماں کا پیار نہیں ملا مگر اس کا باپ سے کیا گلہ
مری والدہ تو یہ کہتی تھی تری والدہ کوئی اور ہے
… 
لیڈروں کے کام آیا خون رائگاں اپنا
بن گئے محل ان کے بک گیا مکاں اپنا

آپ پانچ سو پچپن شوق سے پئیں لیکن
میری ناک سے ہٹ کر چھوڑیے دھنواں اپنا
… 
تفریح یہ ہوتی ہے کہ ہم سیر کی خاطر
"ساحل پہ گئے اور سمندر نہیں دیکھا"

افسوس کہ اک شخص کو دل دینے سے پہلے
مٹکے کی طرح ٹھونک بجا کر نہیں دیکھا

دلاور فگار نے متشاعروں کے بھی خوب خوب بخیے ادھیڑے۔

شاعر میں اور شعر میں یہ بحث چھڑ گئی
وہ بحث جس کا لطف اٹھائے ہوئے ہیں ہم

شاعر تو کہہ رہا تھا ہم نے کہا ہے شعر
اور شعر کہہ رہا تھا چرائے ہوئے ہیں ہم

فگار نے بد عنوان سیاست دانوں اور حکام کو بھی نشانہ بنایا۔

مجھی پہ جرم ڈکیتی کی تہمتیں کیوں ہیں
بہت سے راہبروں نے بھی قافلہ لوٹا

میں سامعیں پہ جھپٹا ہوں وہ خزانے پر
کسی نے ملک کسی نے مشاعرہ لوٹا

حاکم رشوت ستاں فکر گرفتاری نہ کر
کر رہائی کی کوئی آسان صورت چھوٹ جا

میں بتاؤں تجھ کو ترکیب رہائی مجھ سے پوچھ
لے کے رشوت پھنس گیا ہے دے کے رشوت چھوٹ جا

دلاور فگار 25؍جنوری 1998 کو کراچی میں دنیاے سخن کو الوداع کہہ گئے اور اپنے پس ماندگان میں بیٹی کے علاوہ اپنے مزاحیہ کلام کے متعدد مجموعات چھوڑ گئے۔ ہندستان کے برعکس پاکستان میں انھیں وہ پذیرائی نہیں ملی جس کے وہ مستحق تھے۔ فوجی حکمرانوں نے کبھی ان کی بےباک شاعری کو پسند نہیں کیا۔ ٹیلی ویژن اور ریڈیو میں ان کے کلام پڑھنے پر پابندیاں بھی لگیں۔ سرکاری پروگراموں میں ان کو مدعو نہیں کیا جاتا تھا۔ حکومت نے انھیں "تمغہ حسن کارکردگی کے لائق" مرنے کے بعد سمجھا۔ افسوس ہے کہ ان کے جیسے عظیم مزاحیہ شاعر کو پاکستان کے اردو اسکالرز نے پی ایچ ڈی یا ایم فل کے لائق نہیں سمجھا ہے۔
***
(بہ شکریہ قومی آواز)
گذشتہ نگارشات فہمی یہاں پڑھیں:شہریار: غزلوں کے ذریعے فلموں کو مقبول بنانے والا شاعر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے