ڈاکٹر شاہین پروین کی "کرشن چندر کی ادبی خدمات" ایک جائزہ

ڈاکٹر شاہین پروین کی "کرشن چندر کی ادبی خدمات" ایک جائزہ

نسیم اشک
ہولڈنگ نمبر10/9گلی نمبر3
جگتدل 24 پرگنہ مغربی بنگال
فون۔9339966398

بہت کم ہی ایسے فن کار ہوتے ہیں جن کا فن وقت کی بے مروتی کی بھینٹ نہیں چڑھتا، یقیناً ایسا فن ضدی ہونے کے ساتھ لازوال ہوتا ہے۔ اردو ادب خصوصی طور سے اردو نثر نگاری اور اس نثر نگاری میں افسانہ نگاری ایسی صنف ہے جس نے ہر کروٹ نئے رنگ و آہنگ کے ساتھ بدلی۔ میری ذاتی رائے میں جس کے سینے میں ایک درد مند دل نہ ہو اس کے ادب میں دردمندی ظاہر تو ہوتی ہے پر اس دردمندی کا احساس قاری کو محسوس نہیں ہوتا. قاری کا دل اور اس کا حس بہت بیدار ہوتا ہے. اس کی نظریں فن کی باریکیوں پر بھی ہوتی ہیں اور فن کے منشا پر بھی۔ پریم چند نے جو روایت شروع کی اس کی پاس داری ایک عرصے تک بعد کے افسانہ نگار کرتے رہے۔ کرشن چندر بھی اس کی ایک کڑی ہیں۔ کرشن چندر کی ذات افسانہ نگاری میں خود ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ کرشن چندر کے متعلق آل احمد سرور کہتے ہیں:
"کرشن چندر دراصل شاعر ہے جو اس رنگ و بو کی دنیا میں لاکر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کا کمال یہ ہے کہ اس نے ہندوستان کی بدصورتی اور حسن دونوں کو گلے لگایا."
کرشن چندر کے افسانے اشتراکیت، ترقی پسندی اور رومانیت کے خمیر سے گڑھے ہوئے ہیں۔ ان کے افسانے قاری کے دل میں میٹھی میٹھی آگ بھی جلاتے ہیں اور ان کے تصورات پر شبنم بھی برساتے ہیں۔ تقسیم ہند کے کربناک لمحے کی پرچھائیاں، جابجا بلند قامت دھارے ان کے افسانوں میں نمودار ہیں۔ منفرد منظر نگار اور حقیقت نگار کی ادبی خدمات کا جائزہ پیش کرنا ادب کی بڑی خدمت ہے، جس کا اعتراف ہونا چاہیے. ان تجزیوں سے ایک فن کار کے مختلف پہلوؤں کو نہ صرف تفصیل سے جاننے کا موقع ملتا ہے بلکہ اس فن پارے کی نئی قرأت بھی سامنے آتی ہے۔
ڈاکٹر شاہین پروین کی ترتیب کردہ کتاب "کرشن چندر کی ادبی خدمات" کرشن چندر کی ادبی خدمات پر ایک اہم کام ہے۔ یہ کتاب ادب کے ہر اس قاری کے لیے دل چسپی کا باعث ہے جو اردو افسانوں سے محبت رکھتا ہے۔ کرشن چندر ان ناموں میں سے ایک ہے جن کے بغیر افسانے کا تذکرہ نامکمل ہوگا۔ اس لیے اردو افسانے کی روایت و رحجانات کو سمجھنے کے لیے ان کے افسانوں سے استفادہ کرنا ہی پڑے گا۔
اس مجموعے میں بیس مضامین کے ساتھ تین ایسے مضامین بھی شامل ہیں جو انگریزی، ہندی اور بنگلہ میں ہیں۔ میں مرتب کو اس بات کی داد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے کرشن چندر کے حوالے سے دوسری زبان کے مضامین کو بھی شامل مجموعہ کیا۔ یہ مضامین کتاب کی پیش کش کو مذید دل کشی عطا کرتے ہیں۔
اس مجموعے میں جو مضامین ہیں وہ کرشن چندر کی افسانہ نگاری، ناول نگاری اور ریڈیائی ڈراما نگاری کے تناظر میں ہیں۔ جن موضوعات پر مضامین شامل ہیں وہ نہایت اہم اور معلوماتی ہیں۔ مضامین کے مطالعے سے کرشن چندر کے فن کے ساتھ ان کی زندگی کے مختلف گوشوں سے بھی آشنائی ہوتی ہے۔فن کار کا فن اس کے فکر و نظر کا اظہار ہوتا ہے، وہ اپنے فن میں جابجا دکھائی دیتا ہے۔ گرچہ کرشن چندر نے اپنے عہد کی تصویر نگاری کرتے وقت زندگی کے حقیقی رنگوں کا استعمال کیا ہے. اس کے باوجود درد کی ہلکی پرچھائیاں گہرے سایے چھوڑ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر شاہین پروین اپنے کلیدی خطبے میں کرشن چندر کی تخلیقات کی عصری اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں:
"میرا خیال ہے کہ کرشن چندر کی تخلیقات آج کے دور کی اہم ضرورت ہیں کیونکہ وہ ہمارے آج کے مسائل کا حل پیش کرتے ہیں. شرط یہ ہے کہ ہم ان کی تخلیقات کو سمجھیں اور اس کے پس منظر میں قدرتی نظاروں کا، انسانی رشتوں کا، انسان دوستی کا وقار اور ہمارے اقدار۔۔۔۔۔ ان باتوں کو انھیں سمجھنے کا موقع دیں، تب کہیں جاکر شاید ٹوٹتے ہوئے انسانی رشتوں کو سنبھالنے کا فن انھیں بھی آجائے گا۔"
"کرشن چندر کی تخلیقات میں سماجی نظام" عمدہ مضمون ہے۔ مضمون نگار نے بہ حسن و خوبی کرشن چندر کی تخلیقات میں سماجی نظام پر مدلل گفتگو کی ہے۔ مضمون نگار نے جہاں کرشن چندر کی تخلیقی صلاحیتوں کا احاطہ کیا ہے وہیں ان کی طرز تحریر پر پرزور رائے بھی قائم کی ہے. میں کسی بھی مضمون میں مضمون نگار کو جب اپنی رائے قائم کرتے دیکھتا ہوں تو مجھے بےحد خوشی ہوتی ہے۔مضمون نگار کے یہ اقتباس دیکھیں جو انھوں نے کرشن چندر کے طرز تحریر کے تعلق سے پیش کی ہے:
"جہاں تک طرز تحریر کا تعلق ہے، اردو کا کوئی افسانہ نگار، کرشن چندر کی گرد کو نہیں پہنچ سکتا۔ درد ہو یا طنز، رومانیت ہو یا حقیقت نگاری، ان کا قلم ہر موقع پر دل کش چال چلتا ہے، جو بانکا بھی ہوتا ہے اور انوکھا بھی لیکن جو چیز، جس قدر سادہ اور فطری ہوتی ہے، جیسے صبح کے وقت چڑیوں کی پرواز اور چہچہاہٹ وہ اندرونی موسیقی سے ہم آہنگ ہو کر ان کے قلم کی حرکت سے نور بیز ہوجاتی ہے."
ہندستان کی تقسیم تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جسے کوئی پلٹ کر پڑھنا نہیں چاہے گا۔ اس تقسیم نے کیا کیا نہ تقسیم کیا ۔اس کے اثرات تادیر انسانی دلوں پر قائم رہے۔ کرشن چندر جو ایک حساس دل کے مالک تھے ان کربناک لمحوں کو اپنے افسانوں میں پیش کرنے سے خود کو روک نہ سکے اور تقسیم ہند کے تناظر میں ایسے افسانے رقم کیے کہ ان افسانوں کی قرأت کے دوران وہ ہولناک منظر آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگتا ہے، دھڑکنیں تیز ہونے لگتی ہیں، دم گھٹنے لگتا ہے. بلا شبہ ان دردناک لمحوں کو گزرے اک لمبا وقت گزر چکا ہے مگر جب بھی ان واقعات، مصائب اور ناچارگی کا تذکرہ ہوتا ہے، حال میں آنکھوں کے سامنے ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ "تقسیم ہند کے پس منظر میں کرشن چندر کی فن کاری" میں مضمون نگار نے کرشن چندر کی تخلیقات میں ان عناصر کی پیشی کے ساتھ ان کے انداز پیش کش پر حاصل سیر مضمون لکھا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد عوام جن مسائل کے سامنے بے بس کھڑے تھے ان میں نئے سرے سے زیست کا آغاز کرنا اہم مسئلہ تھا۔ اجڑنےکے بعد آبادکاری اور زیست کے ان گنت مسائل نہ ختم ہونے والے مسائل تھے جس میں عوام عرصے تک الجھی رہی. ان تمام تر کیفیات کی ترجمانی ہمیں کرشن چندر کی تخلیقات میں ملتی ہے۔
کرشن چندر کے ناول "غدار" کے تعلق سے مضمون نگار کا یہ اقتباس دیکھیں جس میں انھوں نے کرشن چندر کے نظریات کو پیش کیا ہے۔
"‘غدار" میں کرشن چندر نے مذہب کے نام پر منافرت پھیلانے والوں کو للکارا بھی ہے اور انھیں انسان دوستی کی دعوت بھی دیتے ہیں۔ انھوں نے آدمیت اور انسانیت کو مذہب کے احترام پر ترجیح دی ہے اور حقائق کو ہمارے سامنے پیش کرنے کے لیے اپنے نظریات ہم پر واضح کیے ہیں۔"
بہ طور رومانوی افسانہ نگار کرشن چندر نے جو شہرت حاصل کی اس کی دوسری مثال اردو ادب میں کمیاب ہے۔ افسانے میں رومانوی فضا بندی کرنا کرشن چندر کا خاصہ ہے۔ افسانہ "پورے چاند کی رات" اس کی بہترین مثال ہے اور اس میں حقیقت کے عناصر کا ضم ہونا قاری کو ایک منفرد ذائقہ فراہم کر جاتا ہے۔ اس افسانے کے تناظر میں معتبر محقق و ناقد دبیر احمد رقم طراز ہیں:
"کرشن چندر کے افسانوی ادب میں "پورے چاند کی رات" کا شمار بہترین افسانوں میں ہوتا ہے۔ یہ افسانہ اپنے موضوع اور فن کاری، دونوں اعتبار سے شاہ کار کا درجہ حاصل کرچکا ہے۔ اس کہانی میں کرشن چندر کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ اس کی شعریت میں ڈوبی زبان اور اس کی رومانوی فضا پڑھنے والے پر کیف و مستی کا ایک ایسا عالم طاری کردیتی ہے جس کا اثر دیر پا رہتا ہے۔ کرشن چندر اپنے جن افسانوں کی وجہ سے زندہ رہیں گے، ان افسانوں میں ‘پورے چاند کی رات` کا شمار ہوتا ہے۔"
کرشن چندر کے افسانوں میں لطیف طنز کی کاٹ تو جابجا ملتی ہے مگر ان کے افسانوں میں مزاح تلاش کرنا یقیناً دل چسپ ہے۔ ڈاکٹر عمر غزالی کا مضمون "کرشن چندر کے مزاحیہ افسانے" الگ نوعیت کا منفرد مضمون ہے۔ قاری کو مضمون نگار نے کرشن چندر کی مزاح نگاری سے رو برو کرایا ہے۔ مضمون مفصل اور معلوماتی ہے۔
ڈاکٹر ترنم مشتاق کا "کالو بھنگی :ایک جائزہ"  افسانے کا بہترین تجزیہ ہے۔ مضمون نگار نے نہایت باریک بینی سے اس افسانے کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ اس افسانے میں کالو بھنگی کے کردار کو پیش کرتے ہوئے کرشن چندر کا دردمندانہ دل اور پر احتجاج دل دونوں دکھتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں "کالو بھنگی" کے کروڑوں کلونس پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں کیونکہ کالو بھنگی نہیں مرتے، وہ مر جائیں تو ساری کہانیاں ختم ہو جائیں گی۔ مضمون نگار نے اس افسانے میں کرشن چندر کے نظریے کو بہ خوبی پیش کیا ہے۔
"تقسیم، فسادات اور کرشن چندر کا تخلیقی رویہ"  تقسیم ہند کے بعد ملک میں فسادات کا بازار گرم تھا اور ان فسادات نے انسانی آنکھوں کو وہ مناظر دکھائیں جن کی توقع کسی نے نہیں کی ہوگی۔ اس المیہ نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا تو ادب کا متاثر ہونا لازم ہوجاتا ہے۔ادب زندگی سے الگ ہو ہی نہیں سکتا۔ مضمون نگار نے اس تناظر میں کرشن چندر کی تخلیقات کا عمدہ جائزہ پیش کیا ہے۔
"کرشن چندر اور ان کی تخلیقات" میں کرشن چندر کے منفرد اسلوب، انسانی دوستی، ترقی پسندیت، رومانیت کے عکس پیش کیے گئے ہیں۔ "کرشن چندر کے ناولوں میں سانس لیتی عورتیں" سماج کی عورتوں کے حال زار کو کرشن چندر کے ناولوں میں دیکھنے کی ایک کامیاب سعی ہے۔ کرشن چندر نے اپنی تخلیقات میں حقوق نسواں کی پر زور حمایت کی ہے۔ مضمون نگار نے کرشن چندر کے ناولوں میں عورتوں کی انفرادیت اور مقام و مرتبے کے بابت عمیق مطالعہ پیش کیا ہے۔ "کرشن چندر کے ناولوں کا سماجیاتی مطالعہ" نہایت تن دہی سے لکھا ہوا مضمون ہے۔ اس مضمون میں کرشن چندر کے ناولوں میں سماج، کی تصویر کشی کی گئی ہے، کرشن چند نے اپنی تخلیقات میں سماج کے ہر روپ کو دکھایا ہے مگر ان کا یہ اظہار نشتر زنی نہیں کرتا بلکہ درد کے احساس کو لطیف تر بنا کر پیش کر دیتا ہے۔ ملک میں پیر پسارتی نفرت، غربت، ناچاری، حقوق کی جد و جہد کو کرشن چندر نے بڑی خوب صورتی سے اپنی تخلیقات میں پیش کیا ہے اور وہ اس کا مداوا بھی ڈھونڈتے دکھائی دیتے ہیں. متذکرہ مضمون نفس موضوع کے اعتبار سے لائق تحسین ہے۔ "کرشن چندر: بحیثیت افسانہ نگار" میں مضمون نگار نے کرشن چندر کے افسانوں کی بنیاد پر انھیں اردو ادب کا نمائندہ افسانہ نگار گردانا ہے، جس سے صد فی صد اتفاق کیا جاسکتا ہے۔ ترقی پسندی سے متاثر کرشن چندر نے افسانہ نگاری کو حقیقت سے مزید قریب تر کردیا۔مضمون نگار کا یہ اقتباس دیکھیں جس سے مفر ادبی بددیانتی ہوگی:
"کرشن چندر نے قصہ گوئی کے لیے افسانے نہیں لکھے بلکہ اپنی عملی بصیرت اور اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر نفس انسانی پر ہونے والے ظلم اور جبر کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔"
ڈاکٹر شاہین پروین جو اس کتاب کی مرتب ہیں انھوں نے کرشن چندر کی تخلیقات کی مختلف جہتوں پر مضامین یک جا کیا ہے اور اس سے ان کی دانش مندی کا پتا چلتا ہے۔ ایک ہی موضوع پر کثرت مضامین سے پڑھنے کا لطف جاتا رہتا ہے اور صاحب موضوع کے فن و شخصیت کے کئی گوشے ادھورے رہ جاتے ہیں، مگر مرتب نے اس بات کا خیال رکھا ہے اور اس بنا پر اس مجموعے میں شامل مضامین کو پڑھتے وقت بیزاری کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ گرچہ یہ مجموعہ سیمینار میں پڑھے گئے مضامین و مقالے پر منحصر ہے، مگر اس میں اور بھی دیگر مضامین کو شامل کرکے موصوفہ نے بہت نیک عمل انجام دیا ہے، نیز کرشن چندر کی تخلیقات کی مزید پرتیں کھلتیں دکھائی دیتی ہیں۔
"کرشن چندر کی ریڈیائی ڈراما نگاری"، "تقسیم ہند کے عناصر، ہم وحشی ہیں، کے تناظر میں"، "کرشن چندر کے افسانوں میں ہندوستانی تہذیب"، "افسانوی مجموعہ` زندگی کے موڑ پر، تنقیدی مطالعہ"، "کرشن چندر کی ناول نگاری"، کرشن چندر اپنے ناولوں کے آئینے میں"، "پودے اور کرشن چند" لائق تحسین اور معلوماتی مضامین ہیں۔
مجموعے کے اخیر میں ہندی، بنگلہ اور انگریزی کے مضامین کے ساتھ ان کے اردو ترجمے بھی شامل ہیں جس سے مجموعے کا حسن اور نکھرتا ہے۔ پرنسپل صاحبہ کے پیغام سے شروع ہوتا یہ مجموعہ کئی اعتبار سے قاری کے لیے ایک خوب صورت تحفہ ہے۔ کرشن چندر کے فن کے قدردان اس سے ضرور استفادہ کریں گے۔
***
نسیم اشک کی گذشتہ نگارش: محمد منظر حسین کی فکری نہج اور طرز اظہار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے