لولاک: نعت کے دانشورانہ ڈائمنشنز اور عصری مطابقت

لولاک: نعت کے دانشورانہ ڈائمنشنز اور عصری مطابقت

انتخاب حمید
(سابق پروفیسر، شعبۂ انگریزی، ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونی ورسٹی، اورنگ آباد)

(یہ مضمون صنف نعت کی تفہیم و ترویج کے لیے ”دبستان نعت“ کی بیش بہا خدمات کے تئیں نذرانہ تحسین ہے)

۱۔جنگل رنگوں اور نسلوں کا، جنگل طبقوں اور فرقوں کا
سب کے اپنے اپنے مذہب، مذہب کی سیاست چاروں طرف
۲۔ طاقت کے نشہ میں چور سبھی، مذہب کے دلالوں کی دنیا
غربت کے چٹانوں کے نیچے حق چاہنے والوں کی دنیا
۳۔منتظر تھا شہر مکہ اک مفکر کے لیے
۴۔آسماں کی وسعتوں کو ذہن انساں کا سلام
فکر کی پرواز کو جن سے ملی عمر دوام
تیز تیز اٹھنے لگے آگے تجسس کے قدم
طائر تحقیق کی امت بڑی ہونے لگی
۵۔سرمگیں آنکھوں میں مستقبل کی روشن جھلکیاں
کالی پلکوں پرتھرکتا اک تمدن شاندار
(لولاک۔ چندر بھان خیال)
نعت ایک ایسی صنف سخن ہے جو زبان و بیان اور ہیئت و جمالیات کی سطح پر دیگر شعری اصناف سے صریحاً مماثلت تو رکھتی ہے لیکن اپنی تخصیص اور اپنا اختلاف بھی واضح رکھتی ہے۔ ادراک و اظہار میں تقدس اور لفظیات میں عقیدت مندانہ و عاشقانہ شکوہ اس صنف کا تعریفی وصف ہے۔ یہ صنف سخن ان معدودے چند شعری اصناف (بہ شمول عربی و فارسی) میں شامل ہے جو اپنی رد تشکیل ہی نہیں، اپنی تشکیل و تعمیر میں بھی تشکیک و ترد سے بالا تر ہے۔ اس صنف کی بیانیہ منطق ہی نہیں اس صنف کا وجود فی نفسہ ایقان و استناد پر انحصار کرتا ہے اور جس کا لفظ لفظ بے پناہ عقیدت، خود سپردگی، اور ازخود رفتگی سے معنون ہے۔ کیونکہ اس کا واضح و واحد مقصد، بلا شرکت غیرے، سرور کائنات حضرت محمد ﷺ کی ذات بابرکات و اعلا صفات ہے، عقیدت رسول ﷺ ہی اس کا محرک بھی ہے اور جواز بھی۔
لولاک کا تاسیسی عنصر بھی خالص عقیدت رسول ﷺ ہی ہے مگر اس نعت کے کچھ ایسے فکری و فنی ڈائمنشز ہیں جن کی بنیاد پر اسے نعت کی دنیا میں اپنی مثال آپ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ ڈائمنشنز ہیں جو اس نعت کے تلازمات کو ازلی حقیقتوں کی مانند آفاقیت سے ہم کنار رکھتے ہیں۔ سرور عالم ﷺ کی ذات پاک کے اتنے رخ، اتنے ابعاد ہیں اور اس قدر تہہ دار و طرح دار ہیں کہ ہر دور میں ان کی معنوی مطابقت کی پرتیں کھلتی رہیں گی۔ خواہ وہ حیات و موت اور کائنات کے سربستہ رازوں سے متعلق ہوں یا انسانی معاشرتی نظام کی تنسیخ ہو یا تعمیر نو یا پھر تغیر پذیر عصری متعلقات ہوں۔ عصر جو ازل سے موجود ہے اور جو ابد تک قائم رہے گا۔ فکر نبوی سے مستفید و منور ہوتا رہے گا۔
لولاک کا ہیئتی، نظریاتی اور لسانی اسڑکچر اور اس کے متوازی، یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اسی میں ضم و مدغم محسوساتی اسٹرکچر خاصہ Complex ہے۔ چھ ابواب میں منقسم یہ طویل نظم خیر البشر ﷺ کے نظریۂ حیات کی ابتدا و منتہا پر محیط ہے جس کا ہر باب (اپنی موضوعاتی تخصیص کے باوجود) اپنے پیش و پس رو ابواب سے بہ تدریج فکر رسول ﷺ اور بیانیاتی جمالیات سے مربوط و منضبط ہے۔ مخصوص تاریخی سیاق کے باوصف اپنے تلازماتی تناظر میں لولاک عہد رواں اور اس کی معاشرت، معیشت، سیاست و ثقافت ہی نہیں اس ثقافت کے پروردہ انسان کی روش اور اس کے نفسیاتی اسٹرکچر کو بھی سوال زد کرتی ہے۔
عصر حاضر اور اس کے تراشیدہ انسان کا ظاہر و باطن حرص و طمع، خود غرضی، اناپسندی، غصب و استبداد اور لذت کوشی جیسی لعنتوں سے مسلسل آلودہ تر ہوتا جا رہا ہے، عصر رواں کے اسی متشدد منظر نامے کے سیاق میں عالمی سطح پر بے شمار سیاسی اورثقافتی ڈسکورسیز انسانی تحقیر و تذلیل اور استحصال و استبداد کی تصدیق فراہم کرتے ہیں۔ لولاک کا بیانیاتی اسٹرکچر اپنے مدیحی کردار کے باوصف، ان مخاطبات سے قابل توجہ مطابقت رکھتا ہے۔ لولاک کا یہ ایک اہم ترین کنٹریبیوشن ہے۔ دانشورانہ تلازمات اس متن میں ذہانت اور مشاقی سے انگیز کیے گئے ہیں اور اس کمال فن سے کیے گئے ہیں کہ نعت کا صنفی و جمالیاتی حسن قطعی متاثر نہیں ہوتا۔
صنف نعت یا نعتیہ شاعری کا یہ ایک مفقود ڈائمنشن ہے کہ وہ اپنے عصر رواں میں ان بیشتر پہلوؤں کو مخاطب نہیں کرتی جو ایک منطقی اور دانشورانہ تجزیاتی و تدارکی مخاطبت کے متقاضی ہیں۔ نعتیہ شعری بیان میں، اپنے صنفی تقدیس کے زیر اثر، اس نوع کے بیانات غیر مشروع قرار پاتے ہیں۔ لولاک کا دانش معکوس زاویۂ نگاہ اپنا مستند جواز فراہم کرتا ہے کہ ایسی ابتر صورت حال میں فکر نبویؐ انسانی ترفع، انسانی فلاح و بہبود اور انسانی نجات کی راہیں منور کرتی ہے۔ اس ضمن میں یہ خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ لولاک موضوعاتی وسعتوں کے امکانات ہی نہیں اس صنف کے انتقادی لوازمات کے تقاضوں کی جانب بھی اشارے فراہم کرتی ہے۔ آج کے سیاق میں ہمارے نعت گو شعرا اور نعتیہ نقاد دونوں ہی کو اپنے آفاق وسیع کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
لولاک کا باب اول حضور ﷺ کی نظریاتی بیخ و بنیاد کی جس شعری طرز بیانیہ میں پیش سایہ افگنی کرتا ہے، قابل ستائش ہے۔ بہتیری نعتوں میں حالات حاضرہ کی چیرہ دستی، اخلاقی تنزل کے اشارے اور متاثر کن شعری بیانات نظر تو آتے ہیں اور فکر و دانش کے تلازمے بھی، تاہم ان سے حضور اکرم کے فکری نظامِ عصر کے ڈائمنشنز رقم نہیں ہوتے اور نہ ہی ان نعتوں میں فکری ساخت کی دلالت کے بیانیاتی عناصر واضح نظر آتے ہیں۔عصر معکوس مسائل خواہ وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی، گرچہ نعت میں جگہ پاتے بھی ہیں تو التجائیہ، استعانہ یا استغاثہ کی صورت نظر آتے ہیں۔ مثلاً حالی کا لہجہ ملاحظہ فرمائیے گا:
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
یا پھر نعت کے دوسرے دو غالب روایتی ابعاد نظر آتے ہیں۔ ایک سیرت پاک ﷺ و شمائل نبوی اور دوسرا نورانی و ماورائی ڈائمینشن۔ حسن عسکری کا انتہائی عالمانہ مضمون ”محسن کاکوروی“ انھی دو خصوصیات کی بنیاد پر حالی اور محسن کاکوروی کے نعتیہ کلام کا حیرت زا موازناتی تجزیہ کرتاہے۔ حالی کو بشری یا انسانی اور محسن کاکوروی کو نوری جہات سے منسوب قرار دیا گیا ہے۔
کئی ایسی نعتوں کی مثالیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں جن میں دور جاہلیہ کا شعری بیانیہ موجود ہے۔ لولاک کے ابتدائیہ کا اندازِ بیان اور لسانی دروبست اس کے عصری مطابقت کے معنی خیز نظریاتی (Ideological) اسٹرکچر پر دال ہے۔ دور جاہلیہ کی جو صورت گری لولاک میں کی گئی ہے وہ کسی صورت بھی عصری صورت سے مختلف نہیں ہے، بجز اس کے کہ عصر رواں کی شیطانی قوتیں زیادہ Sophisticated اور سائنس و ٹکنالوجی سے لیس ہوکر زیادہ فتنہ انگیز ہو گئی ہیں۔
حضرت ابراہیم سے قبل یا پھر ان کے بعد یا حضور اکرم  کی ولادت باسعادت سے قبل عصری روش کا بیانیہ تلازماتی معنی خیزیوں سے معمور ہے۔ نعت کی بیانیاتی strategies پر غور فرمائیے گا۔ بیانیہ حکمت عملی کے تحت تصور و تلفیظ کا شعری تصرف اس کمال فن سے کیا گیا ہے کہ عصری فسطائیت، جبر وجہالت، جنسی قہر اور صنف بہتر کی مظلومیت ذہن کے اسکرین پر تانڈو کرنے لگیں گی، جس [کے] بیانیہ کی صداقتوں کی تصدیق کسی روزنامےNewspaper یا انٹرنیٹ سے ہو جائے گی۔ یہ محض دور جاہلیہ ہی کا بیانیہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہمارے وقت کی ایسی خوفناک حقیقتیں ہیں جو معمولات کی شکل اختیار کرتی چلی جا رہی ہیں۔
سفلہ پروری، ذلالتوں اور کثافتوں کے کیچڑ میں غلطاں اس مبتذل معاشرہ کی عکاسی مبتذلہ تلفیظ ہی میں اپنا تاثر قائم کر سکتی ہے۔ اس لیے عصری معمولات کو جس معمولاتی زبان میں یہاں شعر کیا گیا ہے، لولاک ہی کا حصہ ہے۔ یہاں قابل توجہ بیانیہ اسٹرکچر کا یہ پہلو ہے کہ دور جاہلیہ کا بیان حضور اکرم کی فکر کے تعمیر نو کی نا گزیریت کے لیے منصوبہ بند پس منظر فراہم کرتا ہے:
عصر وحشی ہو کے پاگل، اونٹنی پر تھا سوار
بستیوں میں بے خطر پھنکارتی نیزوں کی دھار
مفلس و مجبور ماؤں کی کمر کو توڑتا
لڑکیوں کے جانگھ سے لپٹا زناکاروں کا خوف
تمبوؤں میں جاگتا ہر رات خونخواروں کا خوف
اور دن میں سر پہ منڈلاتا سیہ کاروں کا خوف
بھیڑیوں کی بھیڑ سا نوعمر فصلیں روندتا
جانور کی عقل والے حکمراں طبقے کا خوف
مندرجہ بالا اشعار کے عصری سیاق ہی میں اس مضمون کے صفحہ نمبر ایک پر بہ طور تمہیدی حوالہ جات پیش کیے گئے اشعار نمبر ایک اور دو کو ملاحظہ کیجیے گا، لولاک کی شعریات کا انوکھاپن واضح ہونے لگے گا۔ معمولاتی زبان کے شعری تصرف کی یہ مثال اردو نعتیہ شاعری میں بہ مشکل ہی نظر آئے گی۔ ہندی الفاظ گرچہ انیسویں صدی سے ہی نعتیہ شاعری میں استعمال ہو رہے ہیں، محسن کاکوروی کے یہاں بھی ہندی الفاظ اپنے تہذیبی اور جمالیاتی تلازمات کے ساتھ مستعمل ہیں لیکن لولاک میں ہندی الفاظ جس طرح فطری انداز میں اپنے اشارات کے ساتھ بیانیہ میں ضم ہوتے چلتے ہیں اس کی مثالیں کم ملتی ہیں۔ یہ الفاظ نظم کے ڈکشن کی روانی کو مترنم کرتے ہیں۔ (بے سفر دشاؤں کا رازداں سفر میں ہے ٭ آسماں کے نیچے آسماں سفر میں ہے) اور دوسری طرف کہیں کہیں لفظیات کی عمومیت اور کرختگی ثقافتی تنزل اور انسانی تذلیل کے اشارے بھی فراہم کرتی ہیں۔ انسانی عظمتوں کی پائمالی کا یہی سیاق نبی کریم کی دانشورانہ فکر و نظر کی روشنی میں انسانی سماج کی تشکیل نو کے جواز بھی فراہم کرتی ہے۔ ”داروکا گلاس“ نظم کے سیاقی عصر کو ہی نہیں، عصر حاضر کو بھی آئینہ کرتا ہے۔ باب اول ”حضور ﷺ کی پیدائش سے قبل“ کی لفظیات کے انتخاب و اہتمام پر غور فرمائیں۔ لذتیں، بھوک، نشہ، جانگھ، زنا، تمبؤوں، جبر، جبڑے، یا باب دوم ”ولادت“ کے درج ذیل بند یا اس سے قبل ہی کے بند پر نظر فرمائیں:
نو بہ نو طریقوں سے اہتمام دلگیری
دل فریب ساعت کو چاٹ چاٹ کر چومے
جوش عیش کوشی میں ہر نفس جنوں زادی
برق بن کے ناچ اٹھی بے لگام آزادی
سانپ جیسے ہستی میں پھن اٹھا کے لہرائے
مے پرست ہونٹوں کی اس قدر بلا نوشی
آدمی کے ہاتھوں سے آدمی کی بربادی
برق بن کے ناچ اٹھی بے لگام آزادی
یہ وہ نامشروع لفظیات و اظہارات ہیں جن کی نعت جیسی صنف میں سر مو بھی گنجائش نہیں کیونکہ ”شوکت لفظی“ اور اظہاری تقدس نعت کی شرائط تمہیدی ہیں اور جن کی طرف سے ذرا سی بھی لا پرواہی نعت کے نورانی اور ماورائی محاسن کو متاثر ہی نہیں کرتی بلکہ نعت گو کو معتوب و ملعون قرار دیے جانے کا باعث بھی ہو سکتی ہے۔
ابواب نمبر دو، تین اور چار گرچہ بہ تدریج ولادت باسعادت، نبوت اور ہجرت کا شعری بیان ہیں تاہم متن کی بہ غور قرأت یہ منکشف کرتی ہے کہ ان ابواب کے ترنم خیز شعری بیانیہ کے بین السطور میں ان لفظیات کے توسط سے فکر نبوی کے دانشورانہ نظریاتی سروکار کو جس حسن کمال سے منضبط کیا گیا ہے لائق تحسین ہے۔ مثلاً ولادت باسعادت کے نورانی لمحات کے باوصف نظم کے رواں دواں مصرعوں میں پیوست آئیڈیالوجیکل اشارات پر توقف فرمائیے گا۔ جدید اور مابعد جدید طرزہائے فکر سے فکر نبوی کے انسلاکات واضح ہونے لگیں گے۔ ”بے لگام آزادی“ کی تکرار پر غور فرمائیے گا۔آزادی کی گستہ عنانی کو منتج تخریب کاریوں پر نظر کیجیے گا Fear of freedom, Burden of freedom آزادی کی فراوانی، آزادی پر قدغن یا احساس ذمہ داری سے مبرا تصور آزادی اور اس آزادی کے تحت آدمی کے ہاتھوں، آدمی کی بربادی، جیسے جدید دور کے دانشورانہ مخاطبات ذہن میں تازہ ہونے لگیں گے۔
تنفر، تفریق، تعصب شر، شر کے پجاری، سانپ، پھن، وہم، دھواں، عداوت، یا پھر انھی بیانات میں مفلسی،  زخم خوردہ سانسوں، اندھیرے، یاس کے اندھیرے، جیسی لفظیات اور عہد رواں کے تصورات کو فن کارانہ مہارت سے مدحت رسول  میں انگیز کیا گیا ہے جو راست یا ناراست فکر نبوی  کے مختلف ابعاد کی اہمیت و افادیت کو ثبت کرتے ہیں۔ درج ذیل اشعار پر توجہ فرمائیے گا، وقت اور تاریخ کے فاصلے سمٹ آئیں گے۔ اس عصر سے اِس عصر تک تلازمات اور مطابقت کی طویل زنجیر کی کڑیاں روشن ہوتی چلی جائیں گی:
جنگل رنگوں اور نسلوں کا، جنگل طبقوں اور فرقوں کا
سب کے اپنے اپنے مذہب، مذہب کی سیاست چاروں طرف
موقعوں کی پرستش میں ڈوبے ذہنوں کی غلاظت چاروں طرف
بے نور خداؤں کی خاطر لوگوں کی عداوت چاروں طرف
اخلاق و خلوص اور مہر و وفا سب غار میں دبکے دبکے سے
افراد کی دہشت گردی کا منھ توڑنے والا کوئی نہیں
قانون نہیں، انصاف نہیں، دل جوڑنے والا کوئی نہیں
بڑھتے ہوئے ظلم کے دھارے کا رخ موڑنے والا کوئی نہیں
لفظ اور علامت سے جنت، جھوٹ اور خوشامد سے آمد
طاقت کے نشہ میں چور سبھی، مذہب کے دلالوں کی دنیا
”باب جہاد“ میں محسن انسانیت نبی کریم ﷺکی فکر کے ”فکر جہاں“ کے ڈائمنشنز دیدنی ہیں۔ یہاں کی جہاد کی شعری تعریف انسانی فلاح سے معنون عالمی دانشوروں کے نظریات سے مطابقت ہی نہیں رکھتی اور جہاد کے باب میں غلط فہمیوں پر مبنی یا منفی تعبیر اور تشہیر و توجیہات کے طریقۂ کار کا ازالہ ہی نہیں بلکہ جہاد کی صحیح تفہیم اور غلط بیانات کے تدارک کی سمت ایک عملی اقدام کی صورت بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ جہاد معرکہ خیر و شر ہے، حق، انصاف، مساوات، آشتی اور امن و امان کے قیام و استحکام کی ایک پرخلوص کاوش ہے، کیونکہ تصور جہاد میں حرص و لالچ اور غصب و غلبہ جیسے انسانی اعمال و تصورات کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ جہاد سے متعلق چندر بھان خیال کے Perceptions اور اسلامی نقطہ نظر پر ان کی نظر خاص توجہ اور تحسین کی متقاضی ہے۔ غزوات کے پیش و پس منظر سے ان کی کماحقہ واقفیت، تاریخ جغرافیہ و ثقافتی جزئیات کا ہنر مندانہ برتاؤ، جہاد کے معاشی، معاشرتی اور اخلاقی و ماورائی ڈائمینشن پر ان کی گہری نظر جہاد کے بیان کو ایک مثبت اور تعمیر نو سے منسوب ایک مستند شعری ڈسکورس کی شکل عطا کرتے ہیں۔ مستشرقین اور عالمی سطح پر مروج منفی رویہ کے پیش نظر یہ ڈسکورس ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔:
اس جنگ و جہاد کا مقصد ہے انصاف کے گیسو لہرائیں
ہر فرد کی سانسوں کو رب کے پیغام خوشی سے مہکائیں
تفریق و تنفر کی لعنت اور بار مظالم دنیا کو
اب اور نہ بانٹ کے رکھ پائے سود اور زیاں کے خانوں میں
مذکورہ ڈائمنشن کے علاوہ جہاد کے درج ذیل پہلو کا محاسبہ بھی اہم ہے، کیوں کہ یہ اقتباسات فکر نبوی کے بازتعمیری نظریے میں انسانی اندرون اور ماورائیت کی اہمیت بھی واضح کرتے ہیں جن پر گفتگو آگے کی گئی ہے:
تنظیم و تعاون کا جذبہ بیدار ہو سب انسانوں میں
اخلاق و وفا برکات رضا سب چھوٹے بڑے کاشانوں میں
اس قدر اٹھے ہر سینے میں ایثار و شہادت کا طوفاں
اوراق زمیں سے مٹ جائے تخریب صفت بدعنوانی

اس جنگ و جہاد کا مقصد ہے کردار عمل کی تابانی
حکمت کی حقیقت کی شہرت، تخلیق جہان سبحانی
محتاج کو راحت کا ساماں، پسماندہ گروہوں کو وقعت
طاقت کے نشے میں ڈوبے سبھی سلطانوں کو عبرت حاصل ہو

اس ضمن میں کچھ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں جن میں مسجد نبوی کا تربیتی اور تعمیری کردار اپنے باطن سے واقفیت اور خود نگری پر مباحث قائم کرتا ہے، جسے ماہرین نفسیات باطن میں مخفی قوتوں کا مخزن قرار دیتے ہیں:
یہ طاقت جس نے وسعت دی تفکر کی تمازت کو
بشر کی باطنی آنچ اور روحانی حرارت کو

مسجد نبوی کا مطلب ایک ایسی درسگاہ
بخش دے جو علم کی دولت سبھی کو بے پناہ
صرف راحت ہی نہیں، اک راستہ بھی مل سکے
مسئلوں کی بھیڑ میں گھبرائے ہر اک فرد کو

لوگ سمجھیں اور سمجھائیں بشر کے درد کو
جھاڑ دیں روح و بدن سے واہموں کی گرد کو
شرک اور انکار کے نرغے میں سمٹا آدمی
اپنے باطن میں چھپے حق کی حقیقت جان لے

مذکورہ بالا اقتباسات کے علاوہ لولاک میں آئیڈیا لوجکل نوعیت کے کئی شعری مندرجات ہیں جو نعتیہ بیانیہ کے موضوعاتی اور نظریاتی وسعتوں کے باب روشن کرتے ہیں، جن سے ہماری معاصر اردو نعوت کا دامن ہنوز خالی ہے۔ سرور کونین  کی ذات پاک کے نظریاتی (Idealogical) ابعاد کو وقت اور سرحدوں کی حد بندیوں سے پرے اور آفاقیت سے ہمکنار رکھنا اس نعت کا ایک قابل ذکر کنٹری بیوشن ہے۔ فکر نبوی دور حاضر کے عالمی نظریاتی عالمی کونٹیکسٹ میں سرچشمہ نور و ہدایت کا حکم رکھتی ہے۔ عہد رواں کے بیشتر مکاتب فکر اپنے عصر کے خد وخال اور اس کی کثیرالجہات شناخت پر ڈسکورسیز قائم کرتے ہیں۔ اپنے حتمی معنی میں ان ڈسکورسیز کا نصب العین انسانی فلاح و بہبود، Sane Society یا صحت مند معاشرے کی تشخیص و تشکیل ہے، ان ڈسکورسیز میں فکر نبوی  کی بازگشت واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے، جس کی داغ بیل تقریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے ڈالی گئی تھی۔
موجودہ دور کی تمام غالب تھیئریز (نظریات) خواہ نو مارکسیت ہو، پس نو آبادیاتی نظریات ہوں colonization یا استعماریت اور استحصال مرکوز ڈسکورسیز ہوں، فسطائیت آمیز رویے ہوں، نسلی اور جنسی تفریقات ہوں، فوکو کے پاور ڈسکورسیز ہوں، سارتر کے فلسفہ وجودیت میں آزادی و ذمہ داری کے تصورات ہوں، کر کیگارڈین اندرونی تضادات ہوں کہ اس کا Faith as a leap out of despair ہو، انسانی رشتوں کے ابتذال پر نظریات ہوں، نزاعی یا پھر مدافعتی نظریات ہوں، فکر نبوی  کے صرف یک سطری صدائے احتجاج پر نظر کیجیے گا، لولاک کے ممدوح کی فکر تمام افکار کے آفاق و افلاک پر چھائی ہوئی نظر آئے گی:
سبھی محکوم و بے آواز حلقوں کو زباں دے کر
موجودہ دور کے ایک غالب نظریہ پر غور فرمائیے گا جسے مغربی دنیا میں Subaltern theory کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے یا عالمی ادب میں اقلیتی ادب/حاشیہ رسید ادب کے تصورات پر نظر ڈالیے گا اور نظم کے اظہارات ملاحظہ فرمائیے گا۔ ”فاتح و مفتوح کی فطرت“۔۔۔”بدل دینا“ ”آزاد کر نا“،”حق و انصاف“ اور ”مکمل انقلاب زندگی“ اور ”آزادی دانش“ کی نظم بندی اور ”ایک اجلے تمدن کی بشارت“ پر توجہ کیجیے گا۔نظریاتی انسلاکات کا ایک لا متناہی سلسلہ ذہن کے پردۂ سیمیں پر چلتا رہے گا۔ فکر نبوی کا تاثر تیز تر ہوتا رہے گا۔ درج ذیل شعر ملاحظہ فرمائیے گا اور صرف ایک لفظ ”جاتیوں“ پر غور کیجیے گا، بھارت یا برصغیر میں ہی نہیں بلکہ ساؤتھ افریقہ، یوروپ، امریکا اور نہ جانے کون کون سے ملکوں کے استحصالی، سازشی اور جبر و تشدد کے سیاق واضح ہوتے چلے جائیں گے:
آدمی تو آدمی سے دور ہو سکتا نہیں
جاتیوں کے نام پر محصور ہو سکتا نہیں
فکر نبوی  پندرہ سو سال پہلے اس تفریقی اور استحصالی سوچ کے دانشورانہ تدارک کے سمت اپنی کاوش درج کروا چکی تھی۔
لولاک کا ایک قابل ذکر وصف یہ بھی ہے کہ اس مدحت رسول  میں بہ ظاہر banal اور پیش پا افتادہ لفظیات کے توسط سے انسانی عفریتیت اور المناک تاریکیوں کے بالمقابل رسول کریم کی نہ صرف فکر بلکہ فکر کے حسن و جمال کا ایک آفاقی تناظر خلق کیا گیا ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ لفظیات آئیڈیالوجی مرکوز ہیں جنھیں نعتیہ/ بیانیہ کے اسٹر کچر میں تخلیقی منصوبہ بندی کے تحت رچا گیا ہے۔ ان لفظیات یا زبان کی کارفرمائی فن اور تفکر ہر دو سطحوں پر دیکھی اور محسوس کی جا سکتی ہے۔ فنی سطح پر یہ بیانیہ کی سلاست، موسیقی آمیز روانی اور جمالیاتی و معنوی تاثر خیزی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ دوسری طرف ذات پاک  کے آئیڈیالوجکل/ نظریاتی/ فکری ڈائمینشن اور اس ڈائمنشن کے اعتبار و استناد کے جواز بھی فراہم کرتی ہے۔
انسانی عظمتوں کی (دنیاوی و اخروی) بحالی اور فرد و معاشرہ کی تطہیر و تقدیس فکر نبوی اور اس نعت کے تاسیسی عناصر ہیں۔ فکر/ نظریۂ رحمۃ للعالمین  کا جوہر انسان کے مکمل تحوّل، مجموعی تبدیلی یا Total Transformation کے تصور میں پیوست ہے۔ فرد جو اکائی بھی ہے اور معاشرتی اجتماعیت کی علامت بھی۔فرد اور معاشرہ ایک دوسرے کی تشکیل و تعمیر ہی نہیں ایک دوسرے کی تخریب میں بھی فیصلہ کن کردار [ادا] کرتے ہیں۔ پاک و صاف اور صحت مند معاشرے کی تعمیر اس وقت تک ممکن نہیں جب تک افراد کی تطہیر نہ ہو۔ فرد کے اندرون میں خود ارتکازی، مادہ پرستی، یا لذت کوشی کے جرثومے کی ہلکی سی موجودگی بھی اس کے اپنے اور اپنے معاشرے کے تئیں اس کی دیانت داری کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ سید ابو الاعلی مودودی لکھتے ہیں:
”مادہ پرستانہ فلسفہ کے ساتھ آدمی کے اندر دیانت داری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“
(دروس قرآن، ص:۱۶ا۔۲۶)
اسی لیے فکر نبوی میں فرد اور معاشرے کی مابعد الطبیعات کو اہم ترین مقام حاصل ہے۔ فکر نبویؐ انسان کے اندرون سے مکالمہ قائم کرتی ہے۔ اس بیان کے مختصر تصدیقی اشارے و اشعار گذشتہ صفحات میں پیش کیے جا چکے ہیں۔ فکر و فلسفہ کی یہی وہ نہج ہے جہاں دنیا بھر کے دانشوروں اور مکاتب فکر و فلسفہ سے فکر نبوی  اپنا افتراق یا اختلاف اور امتیاز قائم کرتی ہے۔ انسانی نجات (دنیاوی و اخروی) کی تمام راہیں انسانی اندرون ہی سے ہویدا ہوتی ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری محسوس ہوتا ہے کہ فلسفیوں، مفکروں اور نظریہ سازوں کی ہفت اقلیم میں شاید ہی کوئی ایسی مثال ہو جہاں فکر اور مفکر کے درون و بیرون اور روز مرہ میں سر مو بھی فرق نہ ہو۔نبی کریم  اس امتزاج اور اس فکر و عمل کی ہم آہنگی کی لاثانی مثال ہیں۔ نبوی فلسفۂ حیات رابطہ کاری daily human transaction اور روز مرہ کی تقدیس اور اکرام و احترام پر یقین رکھتا ہے اور صرف اپنا معاشرہ ہی نہیں ہر اس فرد و معاشرہ کے خیر کل کو اولین فریضہ سمجھتا ہے جو اس کے رابطہ میں ہو۔ اس لیے جہاں تہاں اخلاقیات اور قدغن کو بھی ناگزیر قرار دیتا ہے کیونکہ انسان کے اندرون کا تعلق راست بیرون سے ہوتا ہے۔ اس لیے یہ فلسفہ اندرونی و بیرونی اڑان پر کنٹرول بھی روا رکھتا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بے جا اندرونی اڑان بیرونی کہرام اور اخلاقی انہدام کا باعث ہو سکتی ہے، تاہم بے جا آزادی کے استحقاق کے زعم میں اس نظم و ضبط کو غیر ضروری Regimentation سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ فکر و عمل کی یہی نہج ہے جہاں آزادی کے متوالے، بالخصوص مغرب، اسلامی طریقہ حیات سے نالاں بلکہ خوفزدہ نظر آتے ہیں۔ انسانی نفسیات کی خودروی اور پیچیدہ سری، اس کی vulnerability اور fallibility کے امکانات سے کماحقہ واقفیت اور شدید ترین احساس ذمہ داری کی بنیادی ضرورت پر اصرار، فکر نبوی  میں روزمرہ کو ماورائیت سے ہمکنار کرتا ہے۔ روزمرہ کے اس نبوی تصور کو چندر بھان خیال نے جس خوب صورتی سے نظم کیا ہے لائق تحسین ہے۔ مذکورہ بالا اشعار تو دیکھ چکے ہیں دو ایک مثالیں اور ملاحظہ فرمائیے گا:

آپسی امداد پر اصرار کرنا چاہیے
سچ کا سب کے سامنے اظہار کرنا چاہیے
ہاں! مساوات و محبت کے بنا یہ آدمی
رب کے فیض اصل سے محروم ہے سنسار

آدمی قابض ہو سارے علم اور ادراک پر
۔۔
روزمرہ زندگی پر بھی رکھی جائے نگاہ
۔۔
مسجد نبوی کا مطلب ایک ایسی درس گاہ
۔۔
زندگی پرہیز اور صبر و ادب کا نام ہے
آدمی انسان بن جائے یہی اسلام ہے

سیرت پاکؐ اور فکر نبوی کا سرچشمہ قرآن مجید ہے۔قرآن مجید جو کتاب ہدایت و حکمت بھی ہے اور کتاب قانون بھی۔ حضور اکرم  کے تصورات اور روزمرہ اسی منّزل کتاب کی تفسیر ہے۔ ایسی تفسیر جسے ایسے علوم و ضوابط کا انسائیکلوپیڈیا یا Compendium قرار دیا جا سکتا ہے جو آفاقی سچائیوں کی طرح ہر دور سے مطابقت رکھتے ہیں۔
٭٭
فکر نبوی  کا Culmination، منتہا، خطبہ حجۃ الوداع میں نظر آتا ہے۔ اس خطبہ کو ایک لاثانی قانونی دستاویز اور انسانی حقوق اور حقوق اللہ کا چارٹر قرار دیا جا سکتا ہے اور ان تمام چارٹرس کا پیش رو بھی قرار دیا جا سکتا ہے جو حقوق انسانی کے علم بردار کہلاتے ہیں بلکہ فکر نبوی میں تو ایسے معمولات و معاملات اور اصول و ضوابط بھی شامل تھے جو آپؐ کے اپنے عہد اور اس عہد کے پیش رو مفکرین کے تصورات سے بعید تر تھے۔ اور دوسری طرف جدید ترین نظریات سے صریحا  مطابقت رکھتے ہیں۔ نبی کریم  کے جنسی (Gender) و نسلی (Racial) تصورات، افتراق، استحصال اور امتیازات پر آپ  کی تاکید و تنبیہ اور آپ کی معاشرتی و معاشی تعبیرات و تعزیرات جدید تحاریک و نظریات سے مطابقت کی واضح و مستند توجہیات ہیں۔ حجۃ الوداع کے مخاطبہ کی کڑیاں آئین مدینہ (مدینہ چارٹر) سے جڑی ہوئی ہیں۔ آئین مدینہ کی سیاسی اور طرزِ انتظامیہ کی اہمیت و افادیت کا اعتراف مغربی محققین اور دانشور بھی کر چکے ہیں۔ پرامن بقاے باہمی، بین المذاہب رواداری، اخوت و آشتی، شخصی وقار و آزادی، شہر و شہریت، جان و مال اور آبرو کا تحفظ 622-624 میں تشکیل کردہ ایسے اصول و ضوابط ہیں جو ہر دور میں Good Governance کے رہ نما اصول رہیں گے تاوقتیکہ ڈیموکریسی کا تصور ہی ختم ہو جائے اور آمریت، تانا شاہی یا فسطائیت کی حکمرانی ہو۔ نبی کریم  کی آئیڈیا لوجی اور مساوات کا تصور اس عہد کی رومن اور یونانی ڈیموکریسی کے تصورات سے بدرجہا بہتر ہے، گرچہ تہذیبی ارتقا، طرز حکومت و انتظامیہ کے ڈسکورسیز میں یونان اور روم کو بڑی اہمیت حاصل ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ایتھینس اور روم میں elite یا ممتاز طبقہ کو فوقیت حاصل تھی اور یہ بھی امر واقعی ہے کہ غلاموں، عورتوں اور غریبوں کے لیے کوئی مقام و مرتبہ، کوئی رعایت حاصل نہیں تھی۔ فکر نبوی نے فوقیت و برتری، رنگ و نسل کے امتیاز ہی کی نفی کردی۔ خیر البشر  کا Futuristic Vision حیران کن ہے۔ اس وژن اور لائحہ عمل کی عالم انسانیت کو آج بھی شدید ترین ضرورت ہے اور مستقبل قریب و بعید میں بھی اس کی نفی کا کوئی امکان نہیں۔آپ  تمام قبیلوں کو ایک Community ایک جماعت کی حیثیت سے مخاطب فرماتے ہیں۔ چندر بھان خیال نے فکر نبوی  کے اس تصور کو شعری جمالیات کے ساتھ قافیہ بند کیا ہے۔
توفیق نعت توفیق الٰہیہ ہی سے منسوب ہے۔ چندر بھان خیال کو اس ضمن میں بلند کوشش مقدر عطا کیا گیا ہے۔ عہد طفولیت ہی میں چندر بھان خیال کو سیرت پاک  کے جن پہلوؤں نے بے حد متاثر کیا ان میں نبی کریم کے فکری پہلو کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اپنے انٹرویو میں چندر بھان خیال کہتے ہیں:
”میں نے بچپن ہی میں ایک چھوٹا سا مضمون پڑھا تھا کہ عرب کی سرزمین پر ایک شخص ایسا پیدا ہوا جس نے پورے معاشرے کو بدل کر رکھ دیا۔ غریب امیر کا امتیاز ختم کر دیا اور ظالم کو سبق بھی سکھایا اور ظلم کا خاتمہ بھی کیا اور ایسے معاشرے کی تشکیل دی جس میں سب لوگ امن کے ساتھ زندگی گزاریں۔“
اسی بیان کا متوازی اور موازناتی حصہ دیکھئے گا جس میں چندر بھان خیال کا اپنے فکری موقف کی جانب اشارہ بھی ہے:
”میں جس علاقہ سے وابستہ ہوں آپ جانتے ہیں وہاں پر زمین دارانہ نظام اور سرمایہ دارانہ نظام، منوادی نظام حاوی تھا۔ کم زور طبقہ کیسے زندگی بسر کرتا تھا اس کا اندازہ آج سے پچاس سال پہلے کے حالات کا اندازہ آپ آسانی سے نہیں کرسکتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ چودہ سو سال پہلے ہی یہ سب کچھ ہو گیا ہے۔ محمد عربی نے ایک صف میں سب کو کھڑا کر دیا، ایسی شخصیت بھی پیدا ہو گئی اور ہم آج بھی اسی نرک میں جی رہے ہیں۔تو یہیں سے مجھے عقیدت پیدا ہوئی۔ نبی کریم کے بارے میں جاننے کی ایک خواہش پیدا ہوئی، ایک اشتیاق پیدا ہوا اور جیسے جیسے میری عمر بڑھتی گئی میں آپ کے بارے میں پڑھتا رہا اور پھر یہ دن آیا کہ انھیں کا ہو کر رہ گیا۔“
خطبۂ حجۃ الوداع سے متعلق بھی چندر بھان  خیال کا بیان یہاں قابل ذکر ہے جو صد فی صد سچ ہے۔ خیال کہتے ہیں:
آج تک دنیا کی کسی انسانی حقوق کی تنظیم نے اس کے آگے کچھ نہیں کیا۔ وہ انسانی حقوق کا ایسا چارٹر ہے کہ اس کے آگے انسان آج تک کچھ نہیں سوچ پایا۔“
Modern Univarsal Declaration of the Human Rights دیکھیں یا The International Convenant of Civil Rights یا اس سے پہلے Megna Carta دیکھیں، فکر نبوی کا رجحان غالب نظر آئے گا۔ فکر نبوی نے تمام تفریقات و ترجیحات کے تصور کو یکسر رد کر دیا تھا۔ نسلی امتیازات (Racism) اور طبقاتی تفریق کی نفی پر اتنا طاقتور بیان 632 میں کہیں اور نظر نہیں آتا۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک آج بھی نسلی تنازعات سے جوجھ رہے ہیں۔ خود ہمارا معاشرہ ”جاتی واد“ کاسٹ سسٹم کے بحران سے دو چار ہے۔ تصور نبوی  کا شعری بیان ملاحظہ فرمائیں۔
غلاموں یعنی اپنے خادموں سے پیار کرنا تم
ہمیشہ بھائی جیسے انس کا اظہار کرنا تم
کبھی احساس ان کو کمتری کا ہونے مت دینا
سلوک سخت سے اپنے نہ ان کو خوار کرنا تم
۔۔۔
محبت کے شجر کا نیک سایہ سر بہ سر رکھنا
مری ہر بات کو تم لوگ دل سے باندھ کر رکھنا

سبھی اولاد آدم ہیں سبھی کا حق بھی یکساں ہے
کسی بھائی سے اس کا مال جبراً چھین مت لینا
کشادہ دامن دل، صاف اور ستھری نظر رکھنا
مری ہر بات کو تم لوگ دل سے باندھ کر رکھنا

نہ گمراہی کی زد میں آکے حق سے دور ہو جانا
نہ باہم قتل و خوں کی وارداتوں میں الجھنا تم
صداقت کا اجالا ساتھ اپنے عمر بھر رکھنا
مری ہر بات کو تم لوگ دل سے با ندھ کر رکھنا

اس فکری بیانیہ کی قرأت کئی بار تشنگی کے احساس سے دو چار ہوتی ہے۔ یہ احساس یہاں بھی کہیں کہیں در آتا ہے، نبی کریم ﷺ کے کئی نکاتِ فکر تک رسائی نہیں ہو پائی ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے [کہ] ذات پاک  نبوی اور فکر نبویؑ ایک بحر ذخار ہے، اور اس بحر ذخار سے قلم کی نوک پر جو کچھ بھی میسر آجائے توفیق سعادت ہے۔ چندر بھان خیال کے نوک قلم کو جو میسر آیا لاجواب ہے۔ نعتیہ تخلیق کے طریقہ کار میں ”لولاک“ ایک نیا باب ہے۔ ہر بند کا آخری مصرع ایک ٹپ کے مصرع یا Refrain کی طرح بیانیہ کی صداقت اور نصیحت کو دلوں پر ثبت کرتا ہے۔ ”مری ہر بات کو تم لوگ دل سے باندھ کر رکھنا“ میں لہجہ کی ملاحت اور اظہار کا خلوص و اضطراب دیکھیے، ”تم لوگ“ میں تخاطب کی راستی ہی نہیں، راست پن بھی ملاحظہ فرمائیے، انس و اپنائیت مسخر و مسحور کردیتی ہے۔ اور باندھنے کا تصرف، سبحان اللہ! دل و دماغ کی یکجائی کا اعلا ترین اظہار ہے کہ عقل جو دماغ سے معنون ہے، دانش و خرد اور قوت مدرکہ سے منسوب ہے؛ اس کے ایک معنی باندھنے یا اونٹ کے پاؤں میں رسی باندھنے کے بھی ہوتے ہیں۔ اور تصوف میں یہ لفظ عالم تمیز سے متصف ہے۔ ”دل سے باندھ لینے“ میں جہاں شدت احساس کو دخل ہے وہیں عقل و خرد اور تمیز و تکریم بھی اہم ہے۔ یہ مصرع انسلاکات اور معنوی امکانات کے کئی باب روشن کرتا ہے۔
عورتوں کے حقوق اور مقام و مرتبہ کے اعتبار سے خطبہ حجۃ الوداع نہایت تفکر آمیز ڈسکورس ہے۔ فیمینزم اپنے تیسرے بلکہ چوتھے ارتقائی مرحلہ کے باوجود بلکہ عالمی سطح پر اپنی معراج کے باوجود، نسوانی وجود کی ان نزاکتوں تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ جو اس خطبہ میں مذکور و مخفی ہیں۔
فیضان مصطفی جو مذہب اور قانون کے معروف و معتبر ماہر ہیں اپنی Legal Awareness web Series میں خطبۂ حجۃ الوداع میں خواتین کے حقوق اور Right to absolute Ownership کے تعلق سے جن نکات کی وضاحتیں کی ہیں، بڑی توجہ طلب ہیں۔ آئین ہند کے آرٹیکل ١٤، آرٹیکل ١٥، آرٹیکل ٢١ کے قانونیات اور بنیادی اصولوں کے تحت شہری کو جو حقوق و آزادی حاصل ہے وہ نبی کریم ﷺ کے اس خطبے کے اہم مشمولات ہیں لیکن تمام دانشورانہ اور تحقیقی نگارشات کے حوالہ جاتی نظام اعتراف و ذکر نبوی  سے خالی ہیں۔
لولاک میں عورتوں سے متعلق جو بیانات ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ عورت کو خدا اور آدمی کی سوچ کے مابین قرار دینے اور عورت کو امانت کا نصب العین قرار دینے میں حسن و عشق کی لن ترانیاں بھی ہیں، اس کی محبوبیت پر بھی اصرار ہے اور امانت دار کا امانت کے تئیں شدید احساس ذمہ داری بھی ہے۔ لفظیات ملاحظہ فرمائیں کتنی سادہ اور سلیس ہیں اور انداز بیان کس قدر دل کش، کس قدر معنی خیز مگر شیریں تنبیہی نطق بیان ہے:
امانت میں تمہاری ایک نصب العین ہے عورت
خدا اور آدمی کی سوچ کے مابین ہے عورت
اسے مجبور مت کرنا، اسے محبوب رکھنا تم
تمہاری خواب گاہوں اور گھر کا چین ہے عورت

ہمیشہ پیش آنا خوش دلی اور خوش کلامی سے
حقوق اللہ نے اس کے بھی تم پر کر دئیے واجب
تم اس کی غیر پرواہی پہ سختی سے نظر رکھنا
مری ہر بات کو تم لوگ دل سے باندھ کر رکھنا
اپنے تمام تر دانشورانہ سروکار، فکری تصورات اور عصری مطابقت کے باوصف اس نعت کا اہم ترین کارنامہ اس کا فنی وصف ہے۔ کچھ فنی اوصاف کا ذکر تو ہو ہی چکا ہے، کچھ اور محاسن پر نظر ڈالتے ہیں۔ بیانیہ کے مختلف ابواب کا ہیئتی و عروضی اور صوتی اسٹرکچر سادہ ترین مگر پرکار ہے۔ لفظوں کا انتخاب و برملا استعمال، مصرعوں کی مترنم روانی اور زود اثری، تاریخ، ثقافت، معیشت و معاشرت کے معرکہ خیز لفظی و بدیعاتی تلازمات، شعر کی زیریں اور ظاہری سطح کو مرتعش رکھتے ہیں۔ بیانیہ کی قرأت کے کسی نہج پر قاری لمحہ بھر کے لیے بھی اس احساس سے دوچار نہیں ہوتا کہ شعریت کی تہہ داری و تازگی کمھلا رہی ہے۔
لولاک میں صنف نعت کے بنیادی تقاضوں اور جمالیاتی محاسن کا ازحد خیال رکھا گیا ہے۔ اس شعری بیانیہ کا اسلوب چندر بھان خیال کی فن کارانہ دسترس کا ایک اعلا نمونہ ہے۔ ان کے طرز تلفیظ و تجسیم میں تاریخ، جغرافیہ، قرآنی اشارے اور ثقافت کے تلازمات اس مشاقی سے نعتیہ متن میں انگیز کیے گئے ہیں کہ وہ موضوع کے عین مطابق معنوی امکانات قائم کرتے چلتے ہیں۔ مثلاً مغموم ساعت، پربتوں کے دوش پر بیٹھا سکون، مضمحل لذتوں کا بھوت، چیختے فاصلے، سکوت نے، پہاڑی کا دامن اور فرشتے کی پرسکون پیشانی، نغمہ خواں درخت، پتھر، پتیاں، بکریوں کی افسانہ خوانی وغیرہ طرز تجسیم کی ندرت کی کچھ مثالیں ہیں۔
لولاک کے فنی اوصاف کی قدر شناسی کے لیے ایک مخصوص و مفصل مقالہ درکار ہے۔ نظم کی ہیئت، بندوں کی ساخت، مصرعوں کی تعداد، قافیہ بندی، ٹیپ کے مصرعوں کا صوتی، سیاقی اور جمالیاتی کردار، مصاریع کے ارتباط کی غیر روایتی ترتیب، بیانیہ کا ایجاز و اختصار اور بیانیہ کے تقاضوں کے تحت ابواب میں مختلف بحور کا تصرف چندر بھان خیال کی تخلیقی قوتوں کا کارنامہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ مصرعوں کی تعداد کہیں تین، چار کہیں پانچ یا چھ بھی ہیں تاہم شعری تصنیف میں کہیں کوئی تصنع نظر نہیں آتا۔ اس نظم میں بحو رکا استعمال بھی دیدنی ہے۔ کہیں ’بحر رمل سالم محذوف، تو کہیں بحر ہزج اشتر سالم، کہیں متدارک تو کہیں بحر ہزج مثمن سالم‘، شارق عدیل اور خلیل احمد مشیر صدیقی نے اس پہلو کو مخاطب کیا ہے۔ دوسرے مطالعات میں بھی کہیں کہیں اس پہلو کے حوالہ جات ملتے ہیں۔ تاہم چندر بھان خیال کی فنی دسترس کا یہ پہلو ہنوز تحقیقی ارتکاز اور خرد بیں مطالعہ کا متقاضی ہے۔ ہر باب میں بحر کا انتخاب متن کے سیاقی ضرورت کے عین مطابق اپنا جمالیاتی تاثر قائم کرتا ہے۔ ہر بحر کا اپنا ایک مخصوص مزاج، مختلف انداز ترنم اور طرز تفاعل ہوتا ہے جو شعری تکلم کی جمالیاتی منطق قائم کرتا ہے۔ لہجہ اور آہنگ کے توسط سے معنوی و جمالیاتی نیرنگیاں خلق کرتا ہے۔
اس نظم میں حمد کا incorporation چندر بھان خیال کے کمال فن کا لائق ستائش پہلو ہے جس میں حمد و نعت کی صنفی و بیانیاتی تحدید اور تحلیل توجہ طلب ہے۔ باب ”ولادت“ میں حمدیہ طرز اظہار و اسلوب کے توسط سے موجودات کے سریت آمیز اور فلسفیانہ خیالات و سوالات کو فکر نبوی سے مربوط کیا گیا ہے، معاصر نعت میں یہ لولاک ہی کی کرشمہ سازی ہے۔ تحّیر ربوبیت کے انکشاف اور ربوبیت و عبدیت کے درمیان غیر واضح تقرب کا ایک وسیلہ ہے۔ اقبال کے یہاں ”نگاہ ناز“ ایک حتمی استعاراتی اظہار ہے اور جوش کے یہاں مظاہر کائنات یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔
ایک طرف رب العالمین ہے تو دوسری طرف رحمت اللعالمین، تحدید اس قدر سخت ہے کہ سر مو بھی تجاوز کی گنجائش نہیں۔ اسی لیے نعت گوئی پل صراط سے گزرنے کے مترادف تصور کی جاتی ہے۔ درمیان میں شمہ برابر بھی فروگذاشت قیامت خیز ثابت ہو سکتی ہے۔
اسی طرح سے ایک اور نقطہ ہے جس کے بیان پر مجھے سخت عار اس لیے ہے کہ وہ اس نظم کے بیان کنندہ کے عقیدہ و مذہب سے متعلق ہے لیکن ”محمد پر کسی کی اجارہ داری نہیں“ وہ تو خیر البشر  ہیں۔ عرض یہاں یہ مقصود ہے کہ چندر بھان خیال کے عقیدے میں ایشور کی تجسیم بعید ازامکان نہیں بلکہ وہ اوتار یا انسانی شکل میں بھی اس دھرتی پر جلوہ افروز ہوتا ہے لیکن ”ہوش و دیوانگی“ اور خالق و مخلوق/ محبوب کے نازک ترین مرحلہ سے چندر بھان خیال جس حسن و خوبی اور جس معروضیت سے گزرے ہیں لائق تحسین ہے۔ معروضیت کے باوصف احساس کی شدتیں اور جذبہ کی صداقتیں شد و مد کے ساتھ موجود ہیں، یہ چندر بھان خیال کے نقطہ نظر کا اختصاص اور ان کے اکتساب و عقیدت کا فیض ہے۔ 
عناصر و مظاہر فطرت کو جس حسن و خوبی سے لولاک میں برتا گیا ہے توجہ طلب ہے۔ لولاک کو یہ تخصیص حاصل ہے کہ فطرت کے توسط سے موجودات کے اسرار، علم و عقیدہ، اور ایمان و ایقان، جیسے مسائل بھی کہیں تحیر، کہیں استفسار اور کہیں راست بیان کی شکل میں بیانیہ کو Philosophise کرتے ہیں:
رہ رہے ہیں سب جس میں وہ مکان کس کا ہے
اور لامکانی پر سائبان کس کا ہے
کس کے حکم سے ندیاں بہہ رہی ہیں دھرتی پر
کس نے بخش دی اونچے پربتوں کو اونچائی
کس نے دی سمندر کو بے پناہ گہرائی
کس کے حکم سے موسم لے رہے ہیں انگڑائی
اپنے کثیر الجہت معنی میں مظاہر فطرت بلکہ مظاہر کائنات، عالم انسانیت اور خالقِ کائنات کے درمیان ایک ازلی ربط کے علائم و استعارہ کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ جوش اسی ربط کا اظہار اس طرح کر رہے ہیں:
ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لیے
رسول بھیجے نہ جاتے تو صبح کافی تھی
چندر بھان خیال دور جاہلیہ اور خدا ناشناسی کا استعاراتی ذکر بھی فطرت ہی کے توسط سے کرتے ہیں:

تتلیوں کے پر چمکتے تھے، گلوں پر رنگ بھی
دیکھنے والے مگر بینائی سے محروم تھے
صبح صادق کے اجالوں کے معانی کچھ نہ تھے
کوئی بھی واقف نہیں تھا شام کی تحریر سے
وہ کون سے ایسے الفاظ ہیں، وہ کون سا ایسا مکمل و معجزاتی طریقۂ اظہار ہو سکتا ہے جو سورج کی تمازت، چاند کی برودت، حسن فطرت کی ملاحت، ہواؤں کے وجد، پھولوں کی مہک، شبنم کی خنک، باد نسیم کا سرور، تتلیوں کے رنگ، جھرنوں کے ترنگ، شفق کی لالی، نیلگوں آفاق و افلاک کی لامحدودیت، لہجہ کی موسیقیت اور ناقابل بیان تقدس کو اپنے حیطۂ اظہار میں بیک وقت سمو سکے۔
چندر بھان خیال بہ خوبی واقف ہیں کہ تخیل کی بانہیں آکاش کو سمو نہیں سکتیں۔ اور زبان و قلم کی بساط ہی کیا! مدحت رسول ﷺ کے لیے انھوں نے کچھ مختلف طرز ہائے اظہار تراشنے کی کوشش کی ہے۔ ایک مشاق فکشن نگار کی طرح چندر بھان خیال نے reflective point of view کا شعری طریقہ اختیار کیا۔ کہیں وہ حق شعار بوڑھے راہب ”بحیرہ‘‘ کے نقطۂ نظر سے اور ’مظاہرِ فطرت‘ کے وسیلے سے ذات والا صفات کا بیان کرتے ہیں تو کہیں ”شوہر حلیمہ“ سعدیہ کے نقطۂ نظر سے، تو کہیں ”امِ معبد“ کے توسط سے۔ لیکن جب وہ اپنے نقطۂ نظر سے ذکر نبی  کرتے ہیں تو عالم ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ ان کے عقیدت و عشق رسول  میں بے ساختگی اور والہانہ پن ہے۔ اختصار کے پیش نظر یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ یہ نظم عقیدت کے ٹرانس trance میں تخلیق کی گئی ہے۔ ایک وجدان سا تھا جو چندر بھان خیال پر طاری تھا۔ بس ہو کہ آفس، گھر ہو کہ روز مرہ، بس نبیؐ ہی نبیؐ۔ جہاں وہ مدح نبی کریم  کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ”سر بازار می رقصم“ کی کیفیت طاری ہے۔ اور قاری بھی اسی کیفیت میں لاشعوری طور پر شریک ہو تا چلا جاتا ہے۔ بیانیہ کی سحر انگیزی ملاحظہ فرمائیں:
سمت سمت نورانی۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرف نظر جائے روشنی کی طغیانی

دشت میں، کہستاں میں، شہر میں، بیابان میں
پرسکون سی ہلچل عالمین امکاں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔اور زمین کے اوپر
آسمان کے نیچے اک شبیہ لاثانی
جس طرف نظر جائے روشنی کی طغیانی

صاحب کتاب آیا، لے کے پھر شہاب آیا
آگیا یقین سب کو اہل ِ ِ ِ انقلاب آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور سکوت نے گایا
نور کی ولادت کا گیت ایک لافانی
جس طرف نظر جائے روشنی کی طغیانی

شش جہات نے چوما، کائنات نے چوما
چاند جیسے چہرے کو سب صفات نے چوما
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور حرا کی آنکھوں نے
آمنہ کے آنچل میں دیکھا عکس ربانی
جس طرف نظر جائے روشنی کی طغیانی
’سمت سمت نورانی‘، ’اک شبیہ لاثانی‘، ’عکس ربانی‘ اور ’روشنی کی طغیانی‘ کی موسیقی آمیز تکرار سماع کی سی کیفیت خلق کرتی ہے۔ ’چاند جیسے چہرے کو سب صفات نے چوما‘ نہایت سحر انگیز شعری اظہار ہے۔ جو ”آں چہ خوباں ہمہ دارند تو ؐ تنہا داری“ کے لامتناہی سلسلہ کا مخفف ہے۔’ہل چل‘ اور ’ہل چل‘ کا ’پر سکون ہونا‘ ایک انوکھی نوعیت کا تفکراتی پیکر ہے جو فکرِ نو کی پذیرائی اور تعمیر نو کے اشارے فراہم کرتا ہے۔ ’عالمین امکاں‘ سے بے ساختہ غالب کے ’دشت امکاں‘ کی امیج اور شعری تخیل کی اڑان ذہن میں ایک تمثال و تجسیم کی صورت ہویدا ہونے لگتی ہے جس میں امکانات کے کئی جہان آباد ہیں جو فکر نبوی  سے منسوب ہیں۔ ذات اعلا صفات کے دانشورانہ ابعاد کے توسط آپﷺ سے عقیدت ازخود رفتگی و سر شاری کے مراحل طے کرنے لگتی ہے۔ مدحت رسولؐ کی یہ طرزِ نو صنف نعت میں ایک نئے امکان کی نقیب ہے۔ نقیب خصوصاً ان معنی میں کہ نعت ہنوز اپنے Define اور Redefine کیے جانے اور اپنے موضوعاتی تنوع اور اسلوبیاتی سروکار کے تخلیقی و انتقادی مراحل سے جوجھ رہی ہے، اپنے صنفی و بیانیاتی استحکام کے لیے ہنوز کوشاں ہے۔ اکادمی سیاست کا اپنا ایک منفی کردار ہے۔ لولاک اسی نقطہ نظر سے ایک جستِ نو کا تصور بھی ہے۔ یہ مدح رسول کی فکری و فنی ہر دو اعتبارسے نعت کے Missing Dimension کو سنجیدگی سے مخاطب کرتی ہے۔ تخلیقی اور لسانی سطح پر وسعتوں کے باب روشن کرتی ہے اور عصر مرکوز عقیدت مندانہ ڈسکورس بھی قائم کرتی ہے۔ نیز، اپنے نقاد کی تربیت و تہذیب، اس کے مطالعہ کی وسعت اور عصری علوم و آگاہیوں کے انطباق کی طرف بھی توجہ مبذول کرتی ہے۔ موجودہ دور میں یہ طرزِ فکر و تخلیق اس لیے بھی ضروری ہے کہ مغربی مستشرقین اور مخالفین کے منفی و مخاصمانہ تناظر میں حضور اکرم  کے صرف نورانی و ماورائی ہی نہیں بلکہ دانشورانہ نظام فکر اور لائحہ عمل کی ترسیل بھی کی جا سکے اور کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کیا جا سکے، خصوصاً اس استناد کے ساتھ کہ محمدؐ کے ڈیڑھ ہزار سالہ نظریات کی گونج جدید ترین نظریات میں واضح طور پر موجود ہے۔ نثری نگارشات میں یہ کاوش کبھی کبھار نظر آ جاتی ہے تاہم شعری و تخلیقی سطح پر منظم مساعی آج بھی درکار ہے۔ ”لولاک“ اس سمت ایک توجہ طلب پیش رفت بھی ہے اور نعت نگاروں اور نعتیہ نقادوں کے لیے رہ نما ستارہ بھی۔
***
ٹولیڈو، اوہائیو، امریکہ
۷/ مئی، ٢٠٢٢ 
9422291825
drhameed.khan@gmail.com
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : ” الف یا مصطفی ” ایک نعت ایک ہزار شعر (تبصرہ)

ادیب و شاعرِ خوش فکر چندربھان خیال

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے