احتجاج میں خیر نہیں

احتجاج میں خیر نہیں

عبدالرحمٰن
(سابق چیف مینیجر، الہ آباد بینک)
دہلی- این سی آر
Email:rahman20645@gmail.com

ایک عمدہ علمی ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ماشاءاللہ، مفتی یاسر ندیم صاحب نے اپنے ویڈیو پیغام میں یکساں سول کوڈ کے متعلق مسلمانوں کی تشویش کو بہت خوبی کے ساتھ زائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ حضرت نے مختلف ممالک میں مسلمانوں کی مذہبی زندگی سے وابستہ عملی نوعیت کی مختلف مثالوں سے اپنی گفتگو کو مدلل اور واضح کردیا ہے۔ ان کی مختصر تقریر کا ماحصل یہی ہے کہ ہندستان میں یونی فارم سول کوڈ قانون کا نفاذ مسلمانوں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
بلا شبہ، اسلام ایک محفوظ مذہب ہے، اس کو خطرہ کس طرح لاحق ہو سکتا ہے؟ غور کیجیے، زیر حفاظت بھی کس کی؟ خود خالقِ کائنات اور رب العالمین کی۔ علاوہ ازیں، خود ہندستان کے آئین میں سبھی شہریوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔ پھر اور کیا چاہیے؟
معاشرتی اور دنیاوی معاملات کو درست رکھنا لوگوں کی محنت اور کاوش کے علاوہ ان کے پاکیزہ کردار، خالص اخلاقیات اور حسن سلوک پر منحصر ہوتا ہے، کسی مذہب سے وابستہ ہونے پر نہیں۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں ہر فرد کی عزت و مرتبہ کا مقام مختلف ہوتا ہے۔ جہاں تک مسائل کا تعلق ہے وہ تو دراصل "زحمت میں رحمت" (Blessings in disguise) ہوتے ہیں۔ متاثرہ لوگوں کے لیے، مسائل کی موجودگی ان کو حل کرنے کی جدوجہد کا سبب بنتی ہے۔ یہی سنجیدہ جدوجہد آگے چل کر ان کے سامنے بہت سارے واضح اور آسان راستوں کی دریافت (discovery) کے دروازے کھولتی ہے۔ انسانی تہذیب و تمدن میں اسی کو "ترقی" کہا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ کوئی بھی قانون کسی انسان کو اپنے دین پر زندگی بسر کرنے سے نہیں روک سکتا۔ سخت سے سخت قوانین بھی آپ کو توحید و رسالت اور آخرت کے واقع ہونے پر ایمان سے محروم نہیں کر سکتے۔ کمیونسٹ روس (USSR) اس کی واضح اور زندہ مثال ہے۔ مسلمانوں کے دین کو توڑنے کے چکر میں پورا ملک ہی ٹوٹ گیا۔ ہم لوگ تو ماشاءاللہ، ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں جو انسانی نشوونما کی نظر سے کسی عظیم نعمت سے کم نہیں۔ بس ایک چیز ہے جو ہماری مرضی سے نہیں ہوسکتی، اور وہ ہے قوانین کا اکثریتی رائے سے بنایا جانا۔ اس میں بھی خیر کا پہلو تلاش کیا جاسکتا ہے۔ "پنچ پرمیشور" کے فلسفے کی کیفیت میں اکثریت بھی اکثر ظالمانہ فیصلے کرنے سے باز رہتی ہے۔ اس طرح کے سارے مواقع پر اللہ تعالیٰ کی قدرت ہمیشہ کارفرما نظر آئے گی، ورنہ تو تاریخ نے دیکھا ہوتا کہ اقلیت اور کمزور لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے۔
نہ معلوم کس سوچ اور مصلحت سے مغلوب ہو کر مسلمانوں کے قائدین مسلمانوں کے اندر خوف و ہراس پیدا کرتے رہتے ہیں، خاص طور پر مذہبی یا اپنی شکل و صورت میں مذہبی نظر آنے والے غیر مذہبی امور کے متعلق۔ یہ بات صرف سیاسی رہ نمائیوں تک ہی محدود نہیں ہے، بہت سے مذہبی رہ نماؤں کو بھی اسی زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔ بیشتر لوگ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اپنی تقاریر و تحاریر سے اسلام کو بھی پاپائیت(Popedom) کے مشابہ بناتے ہوئے نظر آتے ہیں، جب کہ اسلام میں اخروی نجات کا دارومدار گروہی عصبیت پر نہ ہوکر لوگوں کے انفرادی تقوے پر ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ابھی تک عام مسلمانوں کی "بلوغت" اس سطح تک نہیں پہنچ پائی ہے کہ وہ اپنے لیڈروں کی چالاکی پکڑ سکیں اور ان کے استحصال سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔
دین میں داخلی ایمان کے علاوہ جو ظاہری اعمال ہیں وہ عام طور پر حالات کے پابند ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، عید کی نماز عیدگاہ کے بجائے مساجد میں بھی پڑھی جاسکتی ہے اور "کورونا" جیسی کسی مشکل کے پیش نظر، نماز مسجد کے بجائے گھر میں بھی ادا ہوسکتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی صورت حال میں اپنے دین کی تعلیمات پر عمل کرنا ناممکن نہیں ہے۔
مختلف قوانین بنانا حکومتوں کا کام ہے۔ اس معاملے میں کسی بحث و مباحثہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس جانب زیادہ توجہ دینے کے بجائے مسلمانوں کو اپنی اخلاقیات اور کردار کو پاکیزہ بنانے اور پاکیزہ بنائے رکھنے پر فوکس کرنا چاہیے۔ اپنی فکر اور علم و عمل میں پاکیزہ شخصیات ہی جنت میں داخلے کی مستحق قرار پائیں گی۔ اس لیے، مسلمانوں کے لیے جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے وہ ہے اپنے علم اور اخلاق کو درست کرنا اور سماج میں عملی زاویہ سے خود کو ایک قابل تقلید اسوہ (نمونہ) کے طور پر پیش کرنا، تاکہ دعوت الی اللہ کا فریضہ ادا کرنا بھی آسان ہو جائے۔
اوپر کی سطور میں کی گئی بحث کی روشنی میں قوم کو اس بات پر مطمئن ہونے کی ضرورت ہے کہ اب مسلمانوں کو پچھلے 75 سال سے چلی آرہی اپنی احتجاجی روش پر دل کی پوری آمادگی کے ساتھ بریک لگا دینا چاہیے۔ مسلمانوں کی احتجاجی سیاست نے، فائدہ تو غالباً کوئی نہیں، البتہ نقصان بہت زیادہ کیا ہے۔ آج تعلیم و مراتب میں مسلمان اپنے سارے ہم وطنوں سے پیچھے ہیں۔ عقل و شعور کا تقاضا ہے کہ اس نقصان دہ عمل کو مزید نہ دوہرایا جائے۔
چند مذہبی اور سیاسی رہ نماؤں کی زندگی کو روشن بنائے رکھنے کے لیے، پوری قوم کی زندگی کو بے نور کردینا مناسب نہیں۔
اب عام مسلمانوں کو اپنی اقتصادیات کو درست کرنے اور اپنے بچوں کو معیاری طور پر تعلیم یافتہ بنانے پر دھیان دینے کی اشد ضرورت ہے۔ لائق و فائق حضرات کو ہمیشہ بلا امتیاز مذہب و ملت عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ احتجاج و شکایات سے دوری بنانا اس لیے ناگزیر ہے کہ یہ عوامل "ردعمل" کی نفسیات پیدا کرتے ہیں اور ردعمل مزید ردعمل کی وجہ بنتا ہے۔ اس طرح ایک منفی قدر(value) کا لامتناہی سلسلہ جاری ہوجاتا ہے، جہاں کوئی بھی خیر سکونت پذیر نہیں رہ سکتی۔ شکایات یا مسائل کو تو چیلنج کا سبب ہونا چاہیے اور جہاں چیلنج پیدا ہو جائے، اس معاشرے کو ترقی یافتہ ہونے سے بھلا کون روک سکتا ہے؟ معروف مفکر اور عالم دین، مولانا وحید الدین خاں مرحوم کی ڈسکوری کے مطابق "ہر مشکل کے دو نام ہوتے ہیں- منفی نام پرابلم اور مثبت نام چیلنج".
ہندستان میں فی الحال "امرت کال” چل رہا ہے۔ اب مسلمانوں کو بھی اپنی زندگی کو شعور و آگہی کے "امرت" سے متعارف کروانا چاہیے۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ موجودہ امرت کال میں وہ ہر قسم کی احتجاجی سرگرمیوں سے ہمیشہ کے لیے توبہ کرلیں، غیر شکایتی زندگی جینے کا عہد کرلیں اور شکایات و احتجاج کے بجائے یک طرفہ خیر خواہی اور حسن سلوک کو اپنی اخلاقیات کا لازمی جز بنا لیں۔ قرآنی حکمت کی روشنی(سورہ فصلت-41: 34) میں یہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ایسا کرنے کے بعد انھیں زندگی میں جو رونقیں دریافت ہوں گی ان کی مثال پیش کرنا آسان نہیں۔
بلاشبہ، آزاد ہندستان میں موجودہ کئی دہائیوں سے مسلمانوں کی زندگی کسی دوسرے غیر مسلمان انسان کے لیے کوئی دل فریب نمونہ پیش کرنے سے قاصر رہی ہے۔ دیر سے ہی سہی، کیوں نہ اس صورت حال کو بدلنے کی جدوجہد کی جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ منفی سرگرمیوں میں بہت زیادہ وقت اور وسائل ضائع ہوچکے ہیں۔ اس لیے اسلام نے زندگی جینے کے جو طریقے وضع کیے ہیں، اب ان پر عمل کر کے دیکھا جائے، تو آپ یقیناً دوسرے لوگوں کے لیے بھی قابل تقلید نمونہ پیش کر سکتے ہیں۔ کر کے تو دیکھیے، جناب! دیکھتے رہ جائیں گے۔
مسلمان جب تک اپنے دین کی ہدایات پر من وعن عمل کر کے ان کو صحیح اور ہر صورت حال میں قابل عمل ہونے کی خود تصدیق نہیں کریں گے، وہ دنیا کے لیے کس طرح قابل قبول ہو سکتی ہیں۔ اب مزید دیر کیے بغیر مسلمانوں کو اپنے مخلص علم و عمل سے دنیا پر یہ بات واضح کر دینی چاہیے کہ اسلام کے اصول خود اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ ہونے کی وجہ سے، انسانیت کے لیے ہمیشہ خیر کا سرچشمہ رہیں گے۔ اس لیے، مسلمانوں کو موجودہ دور کے غیر ضروری اندیشوں، سیاسی چالاکیوں اور شیطانی وسوسوں کو خیر باد کرنے میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ اب اللہ(تعالیٰ) اور رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کے ماننے والے افراد کو اللہ اور رسول کی بات کو بھی صدق دل سے ماننے والا ہوجانا چاہیے.
اسلام کی نظر سے دیکھا جائے تو احتجاج و شکایات کوئی قابل تحسین چیزیں نہیں ہیں۔ جدید فلسفہ نے احتجاج کو ضرور قبولیت عنایت کی ہے، مگر "پر امن" ہونے کی شرط پر۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نیم مہذب اور نیم تعلیم یافتہ معاشروں میں احتجاجی جلسے جلوس کبھی پر امن رہ سکتے ہیں؟
اگر احتجاجی نوعیت کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کو مسلمان خود ہی بند کردیں، تو کافی بڑی حد تک یہ یقین کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں سیاست کی نوعیت (Nature of Politics) ہی بدل جائے گی۔
(12.07.2023 AD=23.12.1444 AH)
***
گذشتہ آئینہ خانہ یہاں پڑھیں:مولانا وحیدالدین خاں: رہ نمائی کا خزانہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے