نئے شعری وجدان کا شاعر: ایم جے اظہرؔ

نئے شعری وجدان کا شاعر: ایم جے اظہرؔ

احمد اشفاق ؔ
(دوحہ،قطر)

ہمارے اطراف و جوانب میں جو چیزیں بکھری پڑی ہیں وہ محض فریبِ نظر ہیں یا یہ زندگی جو ہمارے اندر ہے، وہی ان چیزوں میں بھی پوشیدہ ہے اور آگہی دراصل ان کی مماثلت ہے اور انھیں پہچاننے کا نام ہے:
سدا صاف رکھتا ہوں آئینہ دل کا
کدورت جماؤں یہ ممکن نہیں ہے
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اظہار کے بغیر حقیقت کا انکشاف نہیں ہوتا اور یہ شاعری سے ہی ممکن ہے جس کا اظہار مندرجہ بالا شعر میں ایم جے اظہرؔ نے کیا ہے۔
اردو زبان نے غزل کو اپنی اصل صنعت محبوبیت میں بڑی شان و شوکت اور وقار کے ساتھ محفوظ رکھا۔ اس کے دامن میں دنیا کے تمام موضوعات کو بڑے دل کش و دل آویز انداز میں سجا کر پیش کرنے کا ہنر بھی عطا کیا جس سے غزل ہم رنگ اور اس کی تاثیر دو آتشہ ہوگئی۔ اگر قدرتی طور پر ذہن ہم آہنگ ہے تو قافیہ پیمائی اور غزل گوئی زیادہ مشکل نہیں لیکن مطالعہ، مشاہدہ اور جذبات و احساسات غزل کے سپرد کر دینا نہایت ہی مشکل کام ہے۔ لیکن میں ایم جے اظہرؔ کی شاعری کے مطالعے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ ان کے پاس موضوعات بھی ہیں اور مضامین بھی، ساتھ ہی وہ اپنے مطالعے اور مشاہدے کو غزل کا حسین پیرایہ عطا کرنے کے ہنر سے بہ خوبی واقف ہیں اور اس کا انھیں اندازہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فرماتے ہیں:
مِرا ضمیر کرے گا سدا ملامت ہی
میں جی سکوں گا کسی سے نہیں دغا کر کے
ایم جے اظہرؔ عصر حاضر میں پلاموٗ، جھارکھنڈ کی نمایندگی کرنے والے اہم شاعر ہیں۔ ان کا لہجہ سادہ سلیس، شستہ و شگفتہ، رواں دواں اور پرلطف و پرکشش ہے۔ انھوں نے زندگی کے اعلا مقاصد اور بلند نصب العین کو محبوب کے پیکر میں مختلف زاویوں سے شاعری کے رنگ و آہنگ میں اس طرح ڈھالا ہے کہ ہر رنگ میں ایک تازگی، شستگی اور دل آویزی پیدا ہوگئی ہے۔ ان کی شاعری صرف خوابوں کی دنیا کی سیر ہی نہیں ہے بلکہ شعر و نغمہ کی اجمالی کیفیتوں سے سرشاری بھی ہے مگر چوں کہ سارے عالم کی زبانوں کی شاعری کا خمیر اس کا رومان ہے۔ لہٰذا الفت و محبت، آرزوے وصل، اندیشۂ فراق، حسرتِ دید، اظہارِ اقرار اور انکار، حسن کی جلوہ آرائی اور محبوبیت، عشق کی بینائی، حسن کا استغنا جو غزل کے اجزاے ترکیبی ہیں، وہ ان کی شاعری میں بھی بدرجۂ اَتم موجود ہیں۔ مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
سر اٹھاتا ہے اگر بغض کا طوفان کہیں
میں محبت کو پنپنے کی ہوا دیتا ہوں
سڑکوں پہ بد حواس چلی آئی زندگی
ہیں زلزلے کے خوف سے خالی محل پڑے
کیوں نہیں لگ پائی منہدی ہاتھ میں اِمسال بھی
باپ کی لاچاریوں سے آشنا ہیں بیٹیاں
تارے گننا تری جدائی میں
اب مرا کاروبار ہوتا ہے
ایم جے اظہرؔ کی شاعری میں روایت کی پاس داری بھی ہے اور اردو شاعری پر بدلتے ہوئے رجحانات کی بازگشت بھی۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات زیادہ نہیں ہیں لیکن بلندیِ فکر کی دعوت جا بہ جا موجود ہے۔ انھوں نے استعارات کے تعلّق سے اپنے کلام میں نئی معنویت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے:
تھا اعتبار بہت جس کی دوستی پہ مجھے
اسی نے ہاتھ عدو سے مرے ملایا ہے
پھر نہ دیکھا منافقوں کی طرف
ان کو جب آزما لیا ہم نے
ایم جے اظہرؔ کی شاعری احساس کی جس سطح کی ترجمانی مختلف زاویوں سے کرتی ہے، اسے ہم روایتی اور جدید غزل کے درمیان ایک پُل کا نام دے سکتے ہیں۔ ان کی شاعری اور لہجے میں بڑا ربط ہے اور یہ لہجہ واقعی جدید غزل کا ہے۔ ایسا لہجہ کہ جس میں دل کی دھڑکنیں شامل ہیں۔ ان کے لہجے کی مانوس اپنائیت غزل کو بہ یک وقت سوز و ساز بھی عطا کرتی ہے اور شاعری کو ”گویا یہ بھی میرے دل میں ہے“ کا اَمیٖن بھی بناتی ہے۔ ان کی شاعری حیاتِ انسانی اور اس کی بوقلمونیوں کا ہر طرح سے احاطہ کرتی نظر آتی ہے۔ آئیے اپنی گفتگو کی دلیل میں ان کے چند اشعار پیش کرتا چلوں:
نکل آیا ہے دیکھو چاند چھت پر
گلی میں روشنی ہی روشنی ہے
ہاتھ میں دوستوں کے پتّھر ہیں
اپنا محفوظ جسم و سر رکھیے
طول مت دیجیے اسے اظہرؔ
قصّۂ غم کو مختصر رکھیے
ایم جے اظہرؔ نے حسن و عشق کی نفسیات کو ذاتی تجربات کی روشنی میں پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ عشقیہ تجربوں کے بیان میں پاکیزگی، معصومیت اور خود سپردگی نظر آتی ہے۔ ان کے طرزِ فکر کا مخصوص انداز اور آہنگ انھیں ان کے ہم عصروں میں امتیاز عطا کرتا ہے۔ انھوں نے گھسے پٹے الفاظ و تراکیب سے پرہیز کرتے ہوئے اپنے کلام کی انفرادیت برقرار رکھی ہے۔ ان کی غزلیں مختلف رنگ کی ہیں۔ انھوں نے اپنی غزلوں میں نوع بہ نوع موضوعات کو بڑی خوب صورتی اور فن کاری سے برتا ہے۔ انھوں نے اپنے اشعار میں عوام کی تلون مزاجی اور دورنگی کو بھی موضوعِ سخن بنایا ہے۔ ساتھ ہی حرکت و عمل اور جہدِ مسلسل کی بھی ترغیب دی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے چند اشعار:
ساحل کی سیر سے نہ کبھی ہوگا بامراد
گوہر کی ہے طلب تو سمندر کھنگال دے
شیشے کا جسم رکھ کے توٗ اتنا نہیں مچل
پاگل تمھاری سمت نہ پتھر اچھال دے
محبت کے لیے اظہرؔ ہمیشہ
اسے بیمار رکھ، بیمار بھی رہ
ان کی شاعری وسیع کینوس پر پھیلی ہوئی ہے جس میں خارجی اور داخلی زندگی کی کش مکش، گمشدہ تہذیب کی بازیافت، زندگی کے پیچیدہ مسائل، زندگی سے محرومی و ناکامی اور جینے کی امنگوں کے برعکس بے گانگی و محرومی کا عکس صاف دکھائی دیتا ہے۔ بے شمار انسانوں کے ہجوم میں شاعر بالکل تنہا ہے، اس کا کوئی غم گُسار نہیں ہے۔ ہر فرد اپنی فکر میں مشغول و مصروف ہے۔ کسی کو دوسرے کی خبر لینے کی فرصت نہیں، شاعر معاشرے میں انسان کی مصروفیت اور بے حسی سے سخت نالاں ہے۔ اس کو اس بات کا بھی بے حد افسوس ہے کہ اب سماج میں محبت کرنے والا کوئی نہیں۔ شاعر نے جابہ جا عہدِ جدید کی صنعتی، میکانکی اور مشینی زندگی سے انسان کے روز افزوں اخلاقی زوال کا نوحہ بیان کیا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ تہذیب و تمدّن اور اخلاق انسان کی شخصیت اور اس کی ذات کا جزوِ لاینفک ہونا چاہیے اور اس کا ثقافتی تشخص بھی لیکن آج کا انسان اخلاق کا ڈھنڈورا پیٹنے کے سوا کچھ نہیں کرنا چاہتا:
کون اپنا ہے اور پرایا کون
یہ پرکھنے کا بھی ہنر رکھیے
آندھیاں اپنا زور آزمانے لگیں
راہ میں ٹمٹماتا دِیا دیکھ کر
جھوٹی باتیں رَد کرنے کو
سچّائی کا بانی لکھنا
حاصلِ گفتگو یہ کہ ایم جے اظہرؔ نے غزل کی تہذیب کو اپنی شاعری میں اچھی طرح جذب کیا ہے۔ جہاں کلاسیکیت کے ساتھ نئے تجربے بھی ہیں اور جدید اندازِ بیان بھی۔ انھوں نے موضوعات کو الگ ڈھنگ سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے لب و لہجے میں نیا انداز، نئی تشبیہات، خوب صورت کنایات، عمدہ خیالات، تصور و تخیل کی گہرائی اور معاملات حسن کی صحیح عکاسی ہے۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں: احسن امام احسن کی تصنیف جھار کھنڈ کے قلم کار : ایک مطالعہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے