کتاب: ظفر اوگانوی بیچ کا ورق کے تناظر میں

کتاب: ظفر اوگانوی بیچ کا ورق کے تناظر میں

مرتب: دبیر احمد
صفحات: ٣٤٤
قیمت: ٤٠٠، روپے
سنہ اشاعت: ٢٠٢٢ء 
ناشر: مدیحہ پبلی کیشنز، ۴۴۔بی،کارل مارکس سرانی، کولکاتا۔ ٧٠٠٠٢٣
مبصر: محمد منظر حسین، اسسٹنٹ پروفیسر، پوسٹ گریجویٹ شعبۂ اردو، مولانا آزاد کالج، کولکاتا، مغربی بنگال، ٧٠٠٠١٣
Mob: 9883874711
e-mail: mdmanzarhussain@gmail.com

دبیر احمد ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ تحقیق و تنقید سے خاص شغف ہے، لیکن ظفر شناسی میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ دبیر احمد نے سب سے پہلے ۲۰۰۲ میں ظفر اوگانوی کے مضامین کو ”اذہان و اشخاص“ کے نام سے شائع کیا تھا۔ انھوں نے اپنا پی۔ایچ۔ڈی کا تحقیقی مقالہ ”ظفر اوگانوی: حیات و ادبی خدمات“ کے عنوان سے قلم بند کیا۔ ظفر اوگانوی پر اب تک ان کی تین کتابیں ۱۔پروفیسر ظفر اوگانوی (مونو گراف) ۲۔ ظفر اوگانوی: حیات و ادبی خدمات اور ۳۔ ظفر اوگانوی بیچ کا ورق کے تنا ظر میں شائع ہو چکی ہیں جب کہ چوتھی کتاب ”ظفر اوگانوی کے افسانے“ زیر ترتیب ہے۔ ان کتابوں کے علاوہ ظفر اوگانوی پر ان کے بےشمار مضامین ہیں۔ ان کی کتابوں اور مضامین کے مطالعہ سے ظفر اوگانوی کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
ظفر اوگانوی کا شمار جدید افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔وہ بیک وقت افسانہ نگار، تنقید نگار، محقق، شاعر اور ہر دل عزیز استا تھے۔ جدیدیت کے بانی شمس الرحمن فاروقی نے جدیدیت کا نظریہ قارئین تک پہنچانے کے لیے رسالہ ”شب خون“ جاری کیا۔ اس رسالہ میں کسی کی تخلیق شائع ہونا باعث افتخار سمجھا جاتا تھا اور یہ افتخار ظفر اوگانوی کو حاصل تھا۔ کیوں کہ اس رسالہ میں ان کی تخلیقات پابندی سے شائع ہوتی تھیں۔ اسی سے ان کے جدیدی ہونے کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کبھی بھی تعداد کو اپنی کامیابی کا ضامن بننے نہیں دیا بلکہ ہمیشہ’تعداد‘ سے زیادہ ’میعار‘ پر توجہ دی۔ اس تعلق سے وہ خود لکھتے ہیں:
”جہاں تک تعداد کا تعلق ہے، میں نے۔۔۔۔۔۔اس حد تک کم لکھا ہے کہ بعض ناقدین مجھے افسانہ نگار ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں مگر میں کہ خود شناسی کا قائل ہوں، اس لیے سمجھتا ہوں کہ میں [نے] گرچہ بہت کم لکھا ہے لیکن دوسرے بسیار نویس معاصر افسانہ نگاروں سے بہت اچھا لکھا ہے۔
(ظفر اوگانوی بیچ کا ورق کے تناظر میں، صفحہ۔ ١٠)
جدیدیت سے تعلق رکھنے والے ادیبوں نے اپنی تخلیقات میں علامتوں کا خوب استعمال کیا ہے۔ اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لوگ علامت نگاری کے نام پر غیر معیاری چیزیں بھی ادب میں پیش کرنے لگے، جس کی وجہ سے جدیدیت کی مخالفت بھی ہونے لگی لیکن ظفر اوگانوی نے معیار کا پورا خیال رکھا۔ انھوں نے علامت کے نام پر کبھی بھی ادب سے کھلواڑ نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ ان کا صرف ایک ہی افسانوی مجموعہ ”بیچ کا ورق“ ہے، جو کہ کل گیارہ افسانوں پر مشتمل ہے۔ لیکن ان افسانوں میں جس طرح کی علامتوں کا استعمال تخلیق کار نے کیا ہے وہ عام لوگوں کی سمجھ سے بالا تر ہے۔ یہ علامتی افسانے انھیں ہی سمجھ میں آسکتے ہیں جو ادب کے غواص ہیں۔ اس مجموعہ کی اشاعت ١٩٧٧ میں کلکتہ سے ہوئی۔
”بیچ کا ورق“ میں شامل افسانوں کی مشکل پسندی کو دیکھتے ہوئے دبیر احمد نے ماہرین ادب سے ان افسانوں کا تجزیہ کروا کر، انھیں افسانوں کے ساتھ شائع کر کے قارئین کے لیے آسانی فراہم کر دیا ہے۔ گرچہ یہ تجزیے حرف آخرنہیں ہیں، اس میں مزید وسعت کی گنجائش ہے۔ مرتب نے افسانوں کے تجزیے کے لیے اہم لوگوں کا انتخاب کیا جن میں سے بعض نے معذرت کرلیا کیوں کہ ظفر صاحب کا افسانہ سبھوں کی پہنچ سے باہر ہے۔ اس تعلق سے دبیر احمد ’حرف نسبت‘ میں لکھتے ہیں۔
”ظفر اوگانوی کا افسانوی مجموعہ”بیچ کا ورق“ میں شامل افسانوں کے تجزیے میں میری پوری کوشش رہی کہ ان اصحاب قلم کے مضامین شامل ہوں، جنھوں نے اردو ادب نیز ’جدیدت‘ کو سمجھا ہے۔ مجھے شدید حیرت اس وقت ہوئی، جب بعض افراد نے تجزیے نہ کرنے کے مختلف جواز فراہم کیے۔ میرا خیال ہے کہ وہ ظفر اوگانوی کے افسانوں کو سمجھ ہی نہ سکے یا سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ آج بھی بعض حضرات ایسے ہیں، جو غالب اور اقبال کو سمجھنے سے قاصر ہیں تو اس میں بھلا غالب اور اقبال کا کیا قصور ؟۔“
(ظفر اوگانوی بیچ کا ورق کے تناظر میں، صفحہ: ٧٤)
افسانوی مجموعہ ’بیچ کا ورق‘ میں کل گیارہ افسانے شامل ہیں۔ اس کتاب میں سبھی افسانوں کے تجزیے پیش کیے گیے ہیں۔ ان میں سے چھے افسانوں کے تجزیے دو دو لوگوں نے کیے ہیں۔ چار افسانوں کے تجزیے تین تین لوگوں کیے ہیں، جب کہ صر ف ایک افسانہ ”ریس کے گھوڑے“ کا تجزیہ چار لوگوں نے کیا ہے۔ ان تجزیہ نگاروں میں سبھی نام قابل احترام ہیں بلکہ سبھی اردو ادب کے ماہ و انجم ہیں۔ ان میں تخلیق کار بھی ہیں اور تنقید نگار بھی۔ تجزیہ کرنے والوں کا تعلق ترقی پسندی سے بھی ہے اور جدیدیت سے بھی۔ ان تجزیہ نگاروں میں شارب ردولوی، افصح ظفر، انیس اشفاق، شافع قدوائی، ابوالکلام قاسمی، علی احمد فاطمی، قدوس جاوید، بیگ احساس، حسین الحق، طارق چھتاری، صغیر افراہیم، جمیل اختر محبی، خالد جاوید، انیس رفیع، کوثر مظہری وغیرہ اہم نام ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ وہ بہترین ادب ہے جو سو سال کے بعد بھی باقی رہے۔ ظفر اوگانوی کا افسانوی مجموعہ ’بیچ کا ورق‘ کی اشاعت کو نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی اس میں وہی تر و تازگی باقی ہے۔ ان افسانوں کا تجزیہ نگاروں نے بار بار مطالعہ کرنے کے بعد اس میں موجود علامتوں کی نشان دہی نئے زمانے کے مطابق کیا ہے۔ تجزیہ نگاروں نے ان افسانوں کی گہرائی و گیرائی میں پہنچنے کے بعد ہی افسانوں میں موجود علامتوں کی نشان دہی کرتے ہوئے خامہ فرسائی کی ہے۔پروفیسر قدوس جاوید افسانہ ’نیا آئینہ‘ کے تجزیہ کا اختتام کچھ اس طرح کرتے ہیں:
”ظفر اوگانوی ایک ایسے جدید افسانہ نگار ہیں، جن کے فکری اور جمالیاتی امتیازات، کلاسیکی ادبی روایات، عصری، سماجی و ثقافتی حالات اور ایمانی و ایقانی اقدار و عقائد کے ساتھ گہرا جدلیاتی رشتہ رکھتے ہیں اور یہ ایک ایسا پہلو ہے، جو ظفر اوگانوی کے افسانہ ’نیا آئینہ‘ کو جدید ہی نہیں ما بعد جدید افسانہ بھی ثابت کرتا ہے۔
(ظفر اوگانوی بیچ کا ورق کے تناظر میں، صفحہ: ١٢٧)
ادب کی آج تک مکمل تعریف نہیں کی جا سکی ہے۔ مختلف لوگوں نے مختلف انداز میں ادب کو سمجھا ہے اور اس کی توضیح پیش کی ہے۔ اسی طرح ناقدین ادب بھی اپنے اپنے مطابق کسی بھی تخلیق کو سمجھتے ہیں اور پھر اس کی تشریح و توضیح کرتے ہیں۔ ادب کی یہ خاصیت ہے کہ ایک ہی تخلیق کو مختلف ناقدین ادب اپنے اپنے انداز سے سمجھتے ہیں اور پھر اس کی ناقدانہ تشریح و تجزیہ کرتے ہیں۔ ”بیچ کا ورق“ کے افسانوں کا بھی ناقدین ادب نے اپنے اپنے طریقے سے بہت ہی دل چسپ انداز میں تجزیہ پیش کیا ہے۔ اور ان تجزیوں کو دبیر احمد نے کتابی شکل میں ”ظفر اوگانوی ’بیچ کا ورق‘ کے تناظر میں“ شائع کرکے اردو سرمایے میں اضافہ کا کام کیا ہے۔ مشہور ناقد و صحافی پروفیسر شافع قدوائی افسانہ ’اپنا رنگ‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ظفر اوگانوی کے افسانے میں بھی آنکھوں کے مختلف رنگوں کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ باور کرایا گیا ہے کہ عرفان ذات کی منزل نما آنکھوں کا کوئی رنگ نہیں ہوتا۔جذبے کے امق سے عاری ہونا اور یکسر خالی الذہن ہونا اصلاً روحانی بالیدگی (Spiritual Bliss) کا استعارہ ہے اور افسانہ نگار نے اس کیفیت کے ڈرامائی اور تخلیقی اظہار کے لیے ایک مرتعش بیانیہ خلق کیا ہے، جس سے افسانہ نگار کی تخلیقی ثروت مندی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔"
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اردو ادب اور خاص طور پر اردو فکشن میں اس کتاب کی اہمیت اضافے کی ہے۔ اس کے مطالعے سے ہمیں ظفر اوگانوی اور ان کے افسانوں کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ اور اس کتاب کے ذریعہ ظفر اوگانوی کی تحقیق میں ایک نیا در کھلے گا۔ کتاب کی اشاعت میں نفیس کاغذ کا استعمال کیا گیا ہے اور طباعت بھی شان دار ہے۔ کتاب کی طباعت اور ضخامت کے مطابق اس کی قیمت بھی مناسب ہے۔ اس لیے ظفر اوگانوی کے شائقین کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
***
محمد منظر حسین کی گذشتہ نگارش : کتاب: ابن صفی:کردار نگاری اور نمائندہ کردار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے