ناصرؔ کاظمی: ہر دور کی غزل میں میرا نشاں رہے گا

ناصرؔ کاظمی: ہر دور کی غزل میں میرا نشاں رہے گا

شاہینہ پروین
Research Scholar
Kazi Nazrul University, Asansol, West Bengal
Email id:shahinajamuria@gmail.com

1950ء کے بعد اردو شاعری کے منظر نامے پر جو شعرا نمایاں ہوئے ان میں ناؔصر کاظمی بڑی ہی اہمیت کے حامل ہیں، جنھیں جدید اردو شاعری میں ید طولیٰ حاصل ہے. ان کی غزلوں میں ماضی کی صحت مند روایتوں کے ساتھ ساتھ ان کے عہد کے ارتعاشات اور تھرتھراہٹیں اس طرح شامل ہوگئی ہیں کہ اس کی مثال اردو شاعری میں شاز و نادر کی ہے۔ناؔصر کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ انھوں نے غزل میں خالص شعری تجربہ سے واقف کرایا یا پھر یوں کہا جاسکتا کہ انھوں نے غزل کی کھوئی ہوئی ساخت بحال کی۔ ناصرؔ کاظمی کا اصل نام ناصر رضا اور تخلص ناصؔر تھا، ان کی پیدائش 8 دسمبر 1925ء کو محلہ قاضی واڑہ انبالہ شہر، ہندستان میں ہوئی۔ ان کے والد محمد سلطان کاظمی حکومت برطانیہ کے رائل انڈین فورس میں صوبے دار میجر کے عہدے پر فائز تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی، پھر میٹرک مسلم ہائی اسکول انبالہ اور اعلا تعلیم اسلامیہ کالج لاہور سے حاصل کی۔ ناصر زمانہِ طالب علمی سے ہی شعر و شاعری کی طرف مائل رہے لیکن باقاعدہ شاعری کی ابتدا تیرہ برس کی عمر میں کی. ابتدا میں سانیٹ، نظمیں لکھا کرتے تھے اور اس رنگ میں اختر شیرانی سے وہ خاصا متاثر رہے، لیکن والدہ کے اصرار پر جلد ہی وہ غزل کی طرف مائل ہوئے۔ ابتدا میں غزل گوئی کے باب میں ان کی والدہ کنیزہ محمدی نے رہ نمائی کی، پھر باقاعدہ طور سے حفیظ ہوشیارپوری سے اصلاح لینے لگے اور یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ انھی کے مفید مشوروں سے ناؔصر اپنے اس نئے رنگ میں اپنی انفرادیت پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ناؔصر کاظمی کے مجموعہ ہاے کلام "برگ نے" (1952)، "دیوان" (1972)، "پہلی بارش" (1975)، "نشاطِ خواب" (1977)، "سُر کی چھایا" (منظوم ڈرامہ1981)، "خشک چشمے کے کنارے" (نثر1982) وغیرہ اشاعت پذیر ہوکر مقبولیت کا شرف حاصل کرچکے ہیں۔
ناؔصر کاظمی کے شاعرانہ مزاج کو میرؔ کے شاعرانہ مزاج سے ایک فطری مناسبت تھی، یہی وجہ ہے کہ ہمیں ناؔصر کی غزلوں میں میرؔ کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ وہ میرؔ کی طرح ایک دردمندانہ طبیعت کے مالک تھے۔ انھوں نے روایت سے اپنا راستہ برقرار رکھا اور غمِ جاناں ہو یا غمِ دوراں اسے اپنی غزل کے مخصوص انداز کا حامل بنایا۔ ان کی غزلیں میرؔ کی طرح اپنی مجموعی فضا کے حوالے سے ہمیں زندگی کے بعض تجربوں کا شعور عطا کرتی ہیں۔ مندرجہ ذیل اشعار سے اس کی وضاحت ہوسکتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں ؎
انہیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ
یہاں جو حادثے کل ہوگئے ہیں
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
کیا کہوں کس طرح سرِ بازار
عصمتوں کے دیے بجھائے گئے
کانٹے چھوڑ گئی آندھی
لے گئی اچھے اچھے پھول
اک طرف جھوم کے بہار آئی
اک طرف آشیاں جلائے گئے
جہاں تنہائیاں سر پھوڑ کے سو جاتی ہیں
ان مکانوں میں عجب لوگ رہا کرتے تھے انھوں نے ان اشعار کے اظہار میں ایسا سوز و گداز پیدا کیا ہے کہ ان کی پوری غزل ایک طرح کے تخلیقی حزن سے منسوب ہوگئی۔ ماحول و معاشرت کی زبوں حالی کا کوئی عمل دخل ایسا نہیں ملتا جس نے ان کے ذہن یا زندگی کو متاثر [نہیں] کیا۔ناؔصر غم کی دنیا میں نہ تھے غم کی دنیا سے تھے۔ان کے تخلیقی شعور کی نشوونما میں تقسیم ہند اور ہجرت کے المیہ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس طرح انھوں نے ان سب روح فرسا واقعات اور ناخوش گوار مشاہدات کو اپنی شاعری کا سرنامہ بنالیا۔ سلیم احمد اپنے مضمون "نئی دنیا کا سفر" میں رقم طراز ہیں:
"ناصرؔ کی شاعری اور ہجرت کی واردات ہمارے تصور پر ایک ساتھ وارد ہوئی، بلکہ ناؔصر ہی نے ہمیں ہجرت کے المیہ کو محسوس کرنا سیکھایا۔ ہجرت کے معنی
صرف ایک سرزمین کو چھوڑنا نہیں ہوتا۔ یہ صدیوں کےانسانی رشتوں کو چھوڑنے اور ایک بالکل نئی صورت حال میں ازسرِنو زندگی شروع کرنے کا مسئلہ تھا۔"
ناصر کاظمی کی غزل کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ ہجر کی رات کے حزن و ملال کو محض ماضی اور اس کی یادوں کی بازگشت نہیں بنایا، بلکہ تاریخ و تہذیب کی المناکی اور عہدرواں کے آشوب کا اظہار بنا کر پیش کیا ہے۔ یہاں وہ اپنے تمام معاصر شعرا سے آگے نکل جاتے ہیں۔ اس اظہار میں آنسوؤں کی نمی بھی شامل ہے، آشوبِ عصر کی تہذیب اور اس سے پیدا ہونے والی نئی صبح کے امکانات بھی۔ جیسا کہ اشعار سے ظاہر ہوتا ہے؎
رہ نوردِ بیابانِ غم صبر کر صبر
کارواں پھر ملیں گے بہم صبر کر صبر کر
شہر اُجڑے تو کیا ہے کشادہ زمینِ خدا
اک نیا گھر بنائیں گے ہم صبر کر صبر کر
مایوس نہ ہو اداس راہی
پھر آئے گا دور صبح گاہی
تو جو اتنا اُداس ہے ناؔصر
تجھے کیا ہوگیا بتا تو سہی
کیا خبر کب کوئی کرن پھوٹے
جاگنے والوں جاگتے رہنا
ہجرت کے اس سفر میں ناصر نے بہت سی داستانیں جو اپنے ہم عصروں سے سنی وہیں اَن گِنت واقعات کے چشم دید گواہ بھی بنے، اس ہجرت نے ناصر کی شاعری پر گہرا اثر ڈالا، جو نمایاں طور پر نظر آتے ہیں؎
اب وہ دریا نہ وہ بستی نہ وہ لوگ
کیا خبر کون کہاں تھا پہلے
دن بھی اداس اور مری رات بھی اُداس
ایسا تو وقت اے غمِ دوراں نہ تھا کبھی
دل تو میرا اداس ہے ناؔصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
کیسا سنسان ہے سحر کا سماں
پتّیاں محوِ یاس، گھاس اُداس
جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناؔصر
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہوگئے
پرانی صحبتیں یاد آرہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے
حامد کاشمیری اپنی کتاب "ناصر کاظمی کی شاعری" میں لکھتے ہیں:
"ناؔصر کاظمی کے دل و دماغ کی خواب آسودگی جو اس کے ماحول کی دین تھی۔ حیوانیت اور سفاکیت کے ہولناک اور لرزہ خیز واقعات کی وجہ سے درہم برہم ہوگئی۔ وہ آج لٹے گھروں، اُجڑتے شہروں، لٹتی عصمتوں اور سڑتی لاشوں سے گزر کر آئے تھے۔"
حالانکہ ناصر کی شاعری میں شروع سے آخر تک ناامیدی و مایوسی نظر نہیں آتی تاہم ایک درد، کسک اور کرب آمیز فضا ان کی پوری شاعری میں واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ یہ دکھ ان کا ذاتی بھی ہے اور کائناتی بھی۔ گزرے ہوئے حسین لمحوں کی یادیں ان کی زندگی کا بیش قیمتی سرمایہ ہیں۔ میرؔ کی طرح ناصر بھی یادِ ماضی میں مدہوش نظر آتے ہیں:
بیٹھ کر سایہ گل میں ناؔصر
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا
دن گزرا تھا بڑی مشکل سے
پھر تیرا وعدۂ شب یاد آیا
اب دل میں کیا رہا ہے تیری یاد ہو تو ہو
یہ گھر اسی چراغ سے آباد ہو تو ہو
کم فرصتیِ خوابِ طرب یاد رہے گی
گزری جو ترے ساتھ وہ شب یاد رہے گی
اس گلِ تر کی یاد میں تا صبح
رقص شبنم رہا ہے آنکھوں میں
ناؔصر کی شاعری کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ وہ ماضی کی یادوں کو بُھلا نہیں سکتے۔ وہ حسّیات کے شاعر ہیں۔ احساسات کی سطح پر جیتے اور مرتے ہیں۔ ناؔصر کاظمی جدید اردو شاعری میں امتیازی مقام رکھتے ہیں، جنھیں آج احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور یہ بات اپنی جگہ مسّلم ہے کہ انھوں نے غزل کی روایت کی توسیع کی اور اپنے انفرادی رنگ کی وجہ سے ممتاز رہے۔ ذیل میں ان کی چند اشعار پیش کیےجاتے ہیں، جن سے ان کے رنگ کے خصائص سامنے آتے ہیں؎
آرائشِ خیال بھی ہو، دل کشا بھی ہو
وہ درد اب کہاں جسے دل چاہتا بھی ہو
ٹوٹے کبھی تو خواب شب و روز کا طلسم
اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ نیا بھی ہو
یہ کیا کہ روز ایک سا غم ایک سی امید
اس رنج بے خمار کی اب انتہا بھی ہو
ریت کے پھول، آگ کے تارے
تری ہنسی کے گلابوں کو کوئی چھو نہ سکا
گلی گلی یادیں بچھی ہیں پیارے رستہ دیکھ کے چل
مجھ سے اتنی وحشت ہے تو میری حدوں سے دور نکل
ناصر کاظمی نے جدید اردو غزل کو ایک نئی سمت و رفتار عطا کیا، اسے خالص شعری تجربات، وسعت اور پھیلاؤ سے روبرو کرایا۔ وہ اپنی شاعری کے تعلق سے کہتے ہیں: "شاعری اصل میں شروع میں نے اس لیے کی کہ یوں لگتا تھا کہ جو خوب صورت چیزیں میں فطرت میں دیکھتا ہوں وہ میرے بس میں نہیں آتیں اور نکل جاتی ہیں۔"
ناؔصر کو فطرت سے گہرا شغف تھا. فطرت ان کے دل کی آواز ہے اور واحد جذباتی سہارا بھی۔ یہی وجہ ہے کہ شعری تجربہ شاعر کے بطن سے فطری طور پر پیدا ہوتا ہے۔ جیسا کہ اشعار سے عیاں ہیں؎
آج کی رات نہ سونا یارو
آج ہم ساتواں در کھولیں گے
کتنےکتنے مانوس لوگ یاد آئے
صبح کی چاندنی میں کیا کچھ تھا
اس بستی سے آتی ہے
آوازیں زنجیروں کی
بول اے مرے دریا کی سوئی ہوئی زمین
میں جن کو ڈھونڈتا ہوں کہاں ہیں وہ آد می
دیکھتے دیکھتے تاروں کا سفر ختم ہوا
سو گیا چاند مگر نیند نہ آئی مجھ کو
ناؔصر کاظمی کا تصورِ عشق محدود نہیں۔ وہ اپنے ارد گرد عشق و محبت کا حصار کھینچ کر زندگی کے مسائل اور تقاضوں سے آنکھیں نہیں چراتے۔ عشق کو محبوب کی جلوہ گاہ تک ہی محدود رکھنے کے بجائے، اس میں ساری کائنات کو شامل کرلیتے ہیں۔ آسمانوں میں پرواز کرنے کے باوجود ان کے قدم زمین پر ہی رہتے ہیں۔ وہ جس محبوب سے محبت و دل لگی کی باتیں کرتے ہیں اس سے گلے شکوے بھی کررہے ہوتے ہیں اور اس کے وصل کے طلب گار بھی لیکن وہ وصل محبوب سے محروم ہیں۔ جس کے نتیجے میں انھیں حالاتِ کرب سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ جس کا پرتو ان کی شاعری میں نمایاں نظر آتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں جو ناؔصر کی غزلوں کی شعری فضا کو ایک عجیب تاثیر دے جاتے ہیں؎
یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آرہی ہے ابھی
آنکھ کھلی تو تجھے نہ پاکر
میں کتنا بے چین ہوا تھا
کھٹکا ہے جدائی کا نہ ملنے کی تمنا
دل کو ہیں مرے وہم و گماں اور زیادہ
کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں
آئیں ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں
خوشبوؤں کی اداس شہزادی
رات مجھ کو ملی درختوں میں
شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی
ان کی غزلوں کا مطالعہ کرتے ہوئے واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے میرؔ کے رنگ و آہنگ کو عصری احساس اور اپنے ذاتی کرب کے اظہار کے لیے وسیلے کے طور پر اپنایا اور یہی وجہ ہے کہ ان کی آواز بھیڑ میں بھی پہچانی جاسکتی ہے۔ انھوں نے اپنی ہنرمندی سے جو پیکر تراشے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ بعض جگہ ناصر نے فیضؔ کے استعارے، اشاریہ یا رمزیہ انداز بیان کا تتبع کرنے کی سعی کی ہے۔ مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں جو فیضؔ کے اسلوب بیان سے قدرِ مماثلت رکھتے ہیں؎
میں وہ دل ہوں دبستانِ الم کا
جسے روئے گی صدیوں شادمانی
دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا
یاد نے کنکر پھینکا ہوگا
دل نے داغ کو رکھا محفوظ
یہ زمین خوشنما ہمیں سے ہوئی
جدا ہوئے ہیں بہت لوگ ایک تم بھی سہی
اب اتنی بات پہ کیوں زندگی حرام کریں
اتنے دکھوں کی تیز ہوا میں
دل کا دیپ جلا رکھا ہے
اس دنیا میں اپنا کیا ہے
کہنے کو سب کچھ اپنا ہے
المختصر ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ ناؔصر کاظمی نے اردو غزل کو جدید حسّیت سے آشنا کیا۔ روایت کی پاس داری کے ساتھ انھوں نے اپنے نجی تجربے اور عصری حسّیت کو بول چال کی زبان، توانا لہجہ اور نئے اسالیب میں کچھ اس طرح سمویا کہ یہ رنگ ان کی شناخت بن گیا اور انھیں خود بھی اپنی شاعرانہ عظمت اور عالم گیر مقبولیت کا احساس تھا جبھی تو انھوں نے کہا تھا؎
ڈھونڈیں گے لوگ مجھ کو ہر محفلِ سخن میں
ہر دور کی غزل میں میرا نشان رہے گا
حوالہ جات:
۔اردو غزل کا فنّی سیاسی و سماجی مطالعہ: ڈاکٹر ممتاز الحق، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاوس دہلی، 1998، ص۔1241
2۔برگ نے: ناصر کاظمی، جمال پرنٹنگ پریس دہلی، 1998، ص۔202
ایضاً، ص۔27
ایضاً، ص۔35
۔پہلی بارش: ناصر کاظمی، فضل حق اینڈ سنز لاہور، 1992، ص۔1263
دیوان: ناصر کاظمی، مکتبۂ خیال،1981،ص۔204
ایضاً، ص۔376
۔کلیاتِ ناصر: ناؔصر کاظمی،کتابی دنیا دہلی ،2010،ص۔55
ایضاً، ص۔17
۔ناصر کاظمی کی شاعری: حامد کاشمیری، اردو رائٹرس گلڈ الہٰ آباد، 1982،ص۔226
۔ناصر کاظمی کی شاعری میں پیکر تراشی: سمیہ تمکین، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاوس دہلی، 2013، ص۔1337
***
 آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : احمد کمال حشمی کی تضمین نگاری : سنگ بنیاد کی روشنی میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے