کتاب: ابن صفی:کردار نگاری اور نمائندہ کردار

کتاب: ابن صفی:کردار نگاری اور نمائندہ کردار

مصنف: طیب فرقانی
صفحات: ٤٩٦
قیمت: ٣٧٢، روپے
سنہ اشاعت: ٢٠٢٢
ناشر: طیب فرقانی، کانکی، اتر دیناج پور، مغربی بنگال
مبصر: محمد منظر حسین

ابن صفی کا اصل نام اسرار احمد ہے لیکن اردو ادب میں وہ اپنے قلمی نام سے اس قدر مشہور ہوئے کہ ان کا اصل نام ہی پردۂ خفا میں چلا گیا۔ ابن صفی اردو زبان کے ایک ایسے ناول نگار ہیں جو سب سے زیادہ پڑھے جانے کے باجود ہمیشہ معتوب رہے۔ ناقدین ادب نے کبھی بھی انھیں منہ لگانا پسند نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عرصہ گزرنے کے باوجود انھیں اردو ناول میں وہ مقام حاصل نہیں ہو سکا جس کے وہ مستحق تھے۔ لیکن ایک معتبر تخلیق کار کو زیادہ دنوں تک گمنامی کے پردے میں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ آہستہ آہستہ انھیں اعتبار حاصل ہورہا ہے۔ ابن صفی کے فن پر مختلف موضوعات پر کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ طیب فرقانی کی کتا ب ”ابن صفی: کردار نگاری اور نمائندہ کردار“ ابن صفی فہمی میں ایک اضافے کی حیثیت رکھتی ہے کیوں کہ میرے خیال میں اس موضوع پر یہ پہلی کتاب ہوگی۔
زیر نظر کتاب ”ابن صفی: کردار نگاری اور نمائندہ کردار“ دراصل طیب فرقانی کے ایم۔فل۔ امتحانیہ کا مقالہ ہے جسے کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔
طیب فرقانی مغربی بنگال کے ضلع اتر دیناج پور کے ایک اسکول میں تقریباً دس برسوں سے درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ یہ کتاب کل پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب ”ابن صفی: شخصیت و سوانح“ ہے۔اس باب میں ابن صفی کی پیدائش سے لے کر موت تک کی تمام تفصیلات قلم بند کی گئی ہیں۔ دوسرے باب میں صاحب کتاب نے کردار اور کردار نگاری کے تعلق سے بہت ہی اہم معلومات فراہم کرتے ہوئے ان کے درمیان فرق کو بھی مثالوں کے ساتھ واضح کیا۔ اس طرح کردار اور کردار نگاری کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب معاون ثابت ہوگی۔
کتاب کا تیسرا باب بہ عنوان ”ابن صفی: کردار نگاری اور نمائندہ کردار“ ہے۔ یہ باب کتاب کا سب سے اہم باب ہے۔ اس باب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ ”ابن صفی کی کرداری نگاری“ ہے۔ اس حصے میں ابن صفی کی کردار نگاری کا تفصیلی طور پر جائزہ لیا گیا ہے۔ ابن صفی اپنی تحریروں کے ذریعہ اپنے کرداروں کا اس طر ح سے مرقع کھینچتے ہیں کہ اس کی تصویر ابھر کر قارئین کے سامنے آجاتی ہے۔ کردار کے حرکات و سکنات سے قارئین پر واضح ہونے لگتا ہے کہ اب کون کردار آنے والا ہے۔ ان ہی خصوصیات کی وجہ سے ابن صفی کے کردار لافانی ہو گئے ہیں۔ اس باب کے دوسرے حصے کو ”ابن صفی کے نمائندہ کردار“ کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس میں ابن صفی کے ناولوں میں پیش کیے گئے نمائندہ کرداروں کا تفصیلی طور پر جائزہ لیا گیا۔ ان کرداروں کی اہم خصوصیات کے ساتھ ساتھ ان کی کم زوریوں کو بھی احاطہ تحریر میں لا گیا ہے۔ ان میں انھی کرداروں کو پیش کیا گیا جو نسوانی کرداروں کے علاوہ ہیں جیسے احمد کمال فریدی، ساجد حمید، علی عمران، سارجنٹ ناشاد، تنویر اشرف، صفدر سعید، بلیک زیرو، جوزف مگونڈا، انور سعید، قاسم رضا وغیرہ۔ اس میں کل اٹھارہ کرداروں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اس کتاب کا چوتھا اور آخری باب ”ابن صفی کے نمائندہ نسوانی کردار“ ہے جو ضخامت کے اعتبار سے سب سے بڑا باب ہے۔ اس میں کل ٤٧، نسوانی کرداروں کو پیش کیا گیا ہے۔ جس میں لیڈی بہرام، لیڈی پرکاش، پرنسز تارا، مادام تتاریہ، لیڈی تنویر، تھریسا بمبل بی آف بوہیمیا، جولیانا فٹنز واٹر، لیڈی جہانگیر، رانی آف ساجد نگر وغیرہ اہم نام ہیں۔
مجموعی  طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اردو ادب اور خاص طور پر اردو فکشن میں اس کتاب کی اہمیت اضافے کی ہے۔ اس کے مطالعے سے ہمیں ابن صفی کے ناولوں اور ان کرداروں کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ ایک ایسا ناول نگار جسے ناقدین ادب مختلف نام دے کر ادبی حیثیت سے انکار کرتے رہے ہیں۔ اب یقینا اس انکار میں بہت حد تک کمی آجائے گی۔ اور اس کتاب کے ذریعہ ابن صفی کی تحقیق میں ایک نیا در کھلے گا۔ چوں کہ کتاب مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے اس لیے ضخامت کے اعتبار سے اس کی قیمت بھی بہت کم ہے۔ نفیس کاغذ کا استعمال کیا گیا ہے اور طباعت بھی شان دار ہے۔ اس لیے ابن صفی کے شائقین کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
Md Manzar Hussain
G-339/2 (3rd Floor),
Meher Manzil Road, Garden Reach
Kolkata-700024
***
صاحب تبصرہ کے تعلق سے یہ پڑھیں:محمد منظر حسین کی فکری نہج اور طرز اظہار

شیئر کیجیے