کتاب: محب اردو حمید انور اور بک امپوریم

کتاب: محب اردو حمید انور اور بک امپوریم

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ، ہند

ڈاکٹر محمد ممتاز فرخ نجمی بن حمید انور مرحوم خاصے پڑھے لکھے انسان ہیں، ڈبل ایم.اے، پی.ایچ.ڈی اور ایل ایل بی کیے ہوئے ہیں، آبائی وطن میر غیاث چک ڈاک خانہ بر بیگھا ضلع نالندہ ہے، لیکن رہائش ان دنوں بی-۳، سکنڈ فلور اے ساجدہ گلیکسی اپارٹمنٹ نیو کجھور بنہ، پتھر کی مسجد پٹنہ ۶؍ ہے۔ بہار قانون ساز کونسل کے شعبہ اردو میں سیکشن افسر ہیں، فکر تونسوی حیات وخدمات ان کی پی.ایچ.ڈی کا مقالہ ہے، اور محب اردو حمید انور اور بک امپوریم ان کی تالیف، آخر الذکر میرے زیر مطالعہ ہے، تین سو چھتیس (336) صفحات پر مشتمل یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے، کتاب کا آغاز عرض مرتب سے ہوتا ہے، اس کے بعد جناب محمد شکیل استھانوی کی توقیت حمید انور ہے، کتاب کا پہلا باب مضامین و تاثرات پر مشتمل ہے، دوسرے تیسرے باب میں مشاہیر کے مکتوبات کو جگہ دی گئی ہے، دوسرے باب میں تعلقات اور تیسرے باب میں تعزیت کے حوالے سے مکتوبات کو جمع کیا گیا ہے، دوسرے باب کے مکتوبات خود حمید انور صاحب کے نام ہیں، جب کہ ان کے انتقال کے بعد تعزیتی خطوط فطری طور پر ان کے صاحب زادگان کے نام ہیں، چوتھا باب منظومات ہے، جس میں علقمہ شبلی کے قطعہ تاریخ وفات اور پروفیسر راشد طراز کے خراج عقیدت کو جگہ دی گئی ہے، پانچویں باب میں حمید انور صاحب کی ڈائری کے منتخب حصہ کو شامل کیا گیا ہے، چھٹے باب میں متفرقات اور ساتویں باب میں تصاویر کا البم ہے۔ ۲۰۲۲ء میں چھپی اس کتاب کی کمپوزنگ شادماں کمپیوٹر شاہ گنج پٹنہ نے کی ہے، امتیاز انور فہمی کے زیر اہتمام روشان پرنٹرس دہلی کے مطبع سے چھپوا کر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی نے شائع کیا ہے، بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ کا نام تقسیم کار کے طور پر درج ہے۔ 336 صفحات کی قیمت 350/- روپے زائد ہے، لیکن کیا کیجیے اردو کتابوں کی طباعت کے بعد مفت تقسیم اور بک سیلروں کو دی جانے والی کمیشن کا بار بھی ان ہی حضرات کو اٹھانا پڑتا ہے جو کتاب خرید کر پڑھا کرتے ہیں، کتاب کا انتساب حمید انور صاحب کے لیے دعاے مغفرت کی گذارش کے ساتھ معزز قارئین کے نام ہے، ممتاز فرخ نجمی نے یہ ایک اچھی طرح ڈالی ہے، اس رسم میں قارئین کو ہی فراموش کر دیا جاتا ہے، جن کے لیے کتاب لکھی جاتی ہے، عموما انتساب مال داروں یا اساتذہ کرام کی طرف کیا جاتا ہے، جنھیں کتاب پڑھنے کی فرصت ہی نہیں ہوا کرتی ہے۔
کتاب کا نام محب اردو حمید انور کافی تھا، بک امپوریم جوڑنے کی وجہ سے بک امپوریم غالب ہو گیا ہے، اور حمید انور کی شخصیت کے دوسرے کئی پہلو دب سے گئے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ پوری زندگی انھوں نے بک امپوریم کی ترقی کے لیے کام کیا، ہر مضمون نگارنے ادبا و شعرا سے ان کے گہرے مراسم اور تعلقات کا ذکر کیا ہے، لیکن یہ مراسم بک امپوریم ہی کے حوالے سے ہیں، یقینا بک امپوریم حمید انور صاحب کا میدان عمل رہا ہے، اور بہت سارے لوگ اسی حوالے سے ان سے جڑے، لیکن یہ ان کی زندگی کا صرف ایک پہلو ہے، دوسرے اوصاف و خصائل پر بھی بھر پور روشنی کی ضرورت تھی، جس کا اس کتاب میں فقدان محسوس ہوتا ہے، بعض مضمون نگاروں نے کچھ رقم کیا ہے تو وہ ضمنی محسوس ہوتا ہے اور قاری کی توجہ مبذول کرانے میں کامیاب نہیں ہے۔
کتاب کے مرتب اور مرحوم کے صاحب زادہ ڈاکٹر محمد ممتاز فرخ نجمی کا عرض مرتب اس سے مستثنیٰ ہے، انھوں نے داستانی انداز میں اپنے والد کی کتاب زندگی کے اوراق کو الٹا تو الٹتے چلے گئے، یہ پورا مضمون مرحوم حمید انور کی زندگی کو سمجھنے کے لیے انتہائی اہم ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح کوئی گھر کا بھیدی ہی لکھ سکتا تھا، ڈاکٹر محمد ممتاز فرخ نے عرض مرتب میں اپنے والد کی زندگی کا گہرا مطالعہ پیش کیا ہے، یہ مطالعہ اس کتاب کا سب سے اہم مضمون ہے، یہ حمید انور صاحب کی مقبولیت کی بات ہے کہ ان پر بڑے ادبا و شعرا نے بھی اس مجموعے کے لیے قیمتی مضمون لکھے ہیں، انیس رفیع، رضوان اللہ آروی، سید احمد قادری، شبیر حسن شبیر، ضیاء الرحمن غوثی، طلحہ رضوی برق، ظفر کمال، ظہیر انور، عاصم شہنواز شبلی، عبد الصمد، عطا عابدی، قاسم خورشید، کوثر مظہری، شکیل استھانوی، محمود عالم، مشرف عالم ذوقی، ڈاکٹر ممتاز احمد خان حاجی پوری، مناظر عاشق ہرگانوی، منور رانا وغیرہ جس شخصیت پر قلم اٹھا دیں تو اس کی معتبریت میں شبہہ کی گنجائش کہاں باقی رہتی ہے، مکاتیب کے باب میں بھی علقمہ شبلی، علی سردار جعفری، مظہر امام، الیاس احمد گدی، حرمت الاکرام، ظہیر انور، فضا بن فیضی، سلام بن رزاق، مظفر حنفی، حامدی کاشمیری، پروفیسر محمد حسن، اسلوب احمد انصاری، کلام حیدری، شکیل الرحمن، شمس الرحمن فاروقی، عنوان چشتی، شمس مظفر پوری، رضا نقوی واہی، پروفیسر ظفر اوگانوی وغیرہ کے خطوط حمید انور مرحوم کے تعلقات کی وسعت اور قدر دانی کی غماز ہیں، اس باب میں مختلف عنوانات کے تحت علقمہ شبلی کی نظم خاصے کی چیز ہے، جو انھوں نے’’میرے ساتھی میرے حمید انور‘‘ کے حوالے سے لکھی ہیں، ان میں واردات قلبی کا اظہار چھوٹی بحر میں سہل ممتنع کے ساتھ کیا گیا ہے، اشعار کی بر جستگی، سادگی اور ماجرا نگاری سے قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، اس باب کے بیش تر خطوط اچھے ہیں اور ان میں مکتوب نگاری کے فن کو برتا گیا ہے، لیکن ان خطوط میں یکسانیت ہے، معاملات کا ذکر ہے، کتابوں کے نکلنے کا شکریہ ہے اور نئی کتابوں کے لیے مارکیٹ بنانے کی توقعات ہیں، ان خطوط کو سپاٹ بے رس تو نہیں کہا جا سکتا، لیکن ان میں جذبات کی شدت اور قلبی وارفتگی کی کمی کھٹکتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ سب ضرورت کے بندے ہیں اور اپنی غرض سے حمید انور صاحب سے تعلقات بنائے ہوئے ہیں، یا بنائے رکھنا چاہتے ہیں، البتہ یہ ضرور ہے کہ مکتوب نگار کے اپنے اپنے اسلوب نے اسے اس لائق ضرور رکھا ہے کہ قاری اسے پڑھنے پر مجبور ہوجائے۔ تیسرے باب میں تعزیتی خطوط بھی کم و بیش انھی حضرات کے ہیں اور سب نے حمید انور صاحب کی موت پر غم و افسوس کا اظہار کیا ہے، بعضوں نے ان سے تعلقات پر بھی روشنی ڈالی ہے، جس سے حمید انور صاحب کی ان حضرات کے نزدیک اہمیت کا پتا چلتا ہے، علقمہ شبلی سے مرحوم کا جو تعلق تھا وہ ایک اچھے دوست اور ساتھی کا تھا، انھوں نے ’’ماتم مرگ حمید انور خوش دل‘‘ سے سنہ وفات 2000 نکالی ہے، ایک دوسری تاریخ ہجری ہے جو ’’تربت میں حمید انور ‘‘ سے نکلتی ہے۔ علقمہ شبلی نے حمید انور کی ذاتی خصوصیات کو تین اشعار میں نظم کیا ہے۔
دل دار تھا، ہم دم تھا، غم خوار تھا، مخلص تھا
وہ ناز رفاقت تھا، اخلاص کا تھا پیکر
رکھتا تھا خبر سب کی ہم درد تھا وہ سب کا
ایک اس کے نہ ہونے سے ماتم ہے بپا گھر گھر
وہ خادم اردو تھا مخدوم ہمارا تھا
گردش میں رہا برسوں ایسا تھا وہ اک ساغر
پانچواں باب مرحوم کی ڈائری کے اقتباسات ہیں، جس میں انھوں نے سیاسی و سماجی جلسے مشاعرے اور نظم سے اپنی دل چسپی اور مطالعہ کے شوق کا اظہار کیا ہے، لائبریری سے تعلق اور اپنی امامت کا ذکر کیا ہے، بچی کا غم، ایوب صاحب، نہرو اور گرودت کی موت کا واقعہ بھی مع تاریخ درج ہے، لیکن یہ اوراق بہت کم ہیں، ان کی ڈائری کے مزید اوراق کھولے جاتے تو مزید لعل و گہر قارئین تک پہنچانا ممکن ہوتا، متفرقات والا حصہ بھی معلوماتی ہے اور اس کے پڑھنے کا اپنا ایک مزہ ہے، آخر میں البم میں جو تصاویر ہیں وہ عمر کے بڑھتے ہوئے سایے اور سرگرمیوں کی روداد ہمیں سناتے ہیں، مجموعی طور پر کتاب لائق مطالعہ اور حمید انور صاحب کی زندگی کے نقوش کو جمع کرنے کی قابل قدر کوشش ہے۔
حمید انور صاحب سے میری بھی ملاقات اور دید و شنید تھی، میں ان دنوں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں استاذ تھا، مدرسہ میں ہی الماری میں ضرورت کے مطابق کتابیں رکھتا تھا، بچوں کی ضرورتیں پوری ہوتی تھیں، تجارتی معاملات اصلا کتاب منزل سے ہوا کرتے تھے، قاضی رئیس احمد صاحب مالک کتاب منزل اور استاذ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ حیات سے تھے، نشست و برخواست وہیں ہوا کرتی تھی، کوئی کتاب پسند آجاتی تو بک امپوریم سے بھی خرید لیتا، لیکن حمید انور صاحب کے چہرے پر جو سنجیدگی مجھ سے بات کرتے وقت ہوتی اس کی وجہ سے کھل کر باتیں کرنے کا موقع کبھی نہیں ملا، اور نہ میں نے کبھی ہمت کی، عمر کا فاصلہ بھی اس میں مانع تھا، اس کتاب کو پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کس طرح لوگوں سے گھل مل جاتے تھے، کاش میری بھی کوئی ملاقات ان سے اس قسم کی ہوتی۔ اے بسا آرزو کہ خاک شد
***
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش :پروفیسر ڈاکٹر منظر اعجاز

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے