امان ذخیروی : تعارف اور غزلیں

امان ذخیروی : تعارف اور غزلیں

پورا نام: امان الله خان
قلمی نام: امان ذخیروی
والد کا نام: حاجی محمد سعد الله خان
والدہ کا نام: مشتری خاتون
بچوں کے نام: عبد الله عاقل خان (فرزند)
محمد فتح الله خان (فرزند)
زاہدہ خاتون (دختر)
صدف ناز (دختر)
درخشاں انجم (دختر)
محمد منت الله خان (فرزند)
آبائی وطن: ذخیرہ، ضلع جموئی، بہار، الہند
جائے ولادت: پریم ڈیہا ضلع لکھی سرائے،
بہار الہند (نانیہال)
تاریخِ ولادت: 02 مئی 1975ء
تعلیم: ایم.اے، بی.ایڈ
پیشہ: درس و تدریس، ہیڈ ماسٹر اردو مڈل اسکول ذخیرہ
تلمیذ: تلیذ الرحمن
تصنیفات:
۔ (1)پرندوں کا سفر (غزلوں کا مجموعہ) 2012ء
۔ (2) نوائے شبنم (نظموں کا مجموعہ) 2019ء
۔ (3) سمے پائے ترور پھلے (دوہوں اور غزلوں کا مجموعہ)  2020ء
۔ (4) گلہائے آرزو (رخصتی ناموں اور تہنیتی نظموں کا مجموعہ)  (مرتبہ) 2020
۔ (5) آغوش میں چاند (بچوں کی نظموں کا مجموعہ) (زیر طبع)
۔ (1) کشت سخن( جموئی ضلع کی شعری کائنات)  (زیر ترتیب)
آغازِ تحریر: 1990ء
پتا: مقام ذخیرہ (جکھڑا) پوسٹ: کیار،
تھانا: سکندرہ، ضلع – جموئی، بہار
پن- 811301
فون: 8002260577
پذیرائی: تین کتابوں کی اشاعت کے لیے مالی تعاون راج بھاشا اردو ڈائریکٹوریٹ پٹنہ بہار سے

غزل(1)
گھر آنگن کا منظر بدلا بدلا ہے
ہر گلشن کا منظر بدلا بدلا ہے
مسخ ہوئی ہے مشترکہ تہذیب یہاں
گنگ و جمن کا منظر بدلا بدلا ہے
آج یہاں کچھ شرم و حیا کی دیوی کے
پیراہن کا منظر بدلا بدلا ہے
کورونا نے ایسے دن دکھلائے ہیں
بزم سخن کا منظر بدلا بدلا ہے
گلے ملیں کیا، ہاتھ ملانا ہے مشکل
عید ملن کا منظر بدلا بدلا ہے
سچ کو سچ کہنے سے وہ بھی ہے قاصر
ہر درپن کا منظر بدلا بدلا ہے

غزل (2)
ہوس کی آگ میں جلتے ہیں، بیزاری میں جیتے ہیں
یہاں کچھ لوگ اب خواہش کی بیماری میں جیتے ہیں
غریبوں کو کبھی لٹ جانے کا خطرہ نہیں ہوتا
جمع کرتے ہیں جو دولت وہ دشواری میں جیتے ہیں
جہاں پر ہر حکومت جا کے سجدہ ریز ہوتی ہے
پتا ہے تجھ کو ہم کس کی عمل داری میں جیتے ہیں
بنے نوکر حکومت کے، گئی ہاتھوں سے آزادی
کہ اب دن رات ہم فائل کی الماری میں جیتے ہیں
کسی کے سامنے ہاتھ اپنے پھیلائیں یہ ناممکن
غریبی میں بھی ہم اتنی وضع داری میں جیتے ہیں
سدا ہم حق کو حق باطل کو باطل لکھنے والے ہیں
نہیں ان کی نہیں ان کی طرف داری میں جیتے ہیں
انہیں مت ڈھونڈئیے جا کر کسی بزمِ چراغاں میں
امان الله خاں تو اپنی فن کاری میں جیتے ہیں

کورونا غزل (3)
یقیناً تجھ سے مل آتے جو کورونا نہیں آتا
تری زلفوں کو سلجھاتے جو کورونا نہیں آتا
مہینوں ہو گئے دیدار تیرا کر نہیں پائے
نہ ہرگز دل کو تڑپاتے جو کورونا نہیں آتا
خوشی ہر دل پہ چھا جاتی اداسی دور ہو جاتی
تری محفل کو گرماتے جو کورونا نہیں آتا
جدا اک پل نہیں ہوتے تجھے ٹک دیکھتے رہتے
محبت تجھ پہ برساتے جو کورونا نہیں آتا
مرے محبوب! چھت پر، چاند کے سائے میں ہم دونوں
دل مضطر کو بہلاتے جو کورونا نہیں آتا
کسی سے حال دل کہتے، کسی کا حال دل سنتے
نہ تنہائی میں گھبراتے جو کورونا نہیں آتا

غزل(4)
گلوں کے مسکرانے کا زمانہ ہو گیا رخصت
کسی سے دل لگانے کا زمانہ ہو گیا رخصت
اٹھو پرواز کی خاطر پرندو! اپنے پر کھولو
قفس میں پھڑپھڑانے کا زمانہ ہو گیا رخصت
اب اس کے گیسوئے برہم کی تاریکی نہ جائے گی
چراغ دل جلانے کا زمانہ ہو گیا رخصت
یہاں ہر اک قدم پر دوستوں کی بے وفائی ہے
عدو کو آزمانے کا زمانہ ہو گیا رخصت
ملے گی کس طرح مقبولیت اس جملے بازی سے
کسی کو اب لبھانے کا زمانہ ہو گیا رخصت
نہ جانے جس کھنڈر میں کھو گئی تعبیر کی منزل
کوئی سپنا سجانے کا زمانہ ہو گیا رخصت
اماں! شام و سحر موبائل سے ہوتی ہیں اب باتیں
صنم کو خط لگانے کا زمانہ ہو گیا رخصت
***
امان ذخیروی کی گذشتہ تخلیق :ورود دل

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے